Monday, March 26, 2018

محکمہ صحت کی مشکوک صحت Jan 13


سندھ نامہ سہیل سانگی 
یوں تو سندھ کے تمام محکموں کی صحت مشکوک ہے لیکن صحت کے بیمار محکمے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ عام لوگوں کی صحت اس بیمار محکمے کے ذمہ ہے۔ سندھ کی ہسپتالیں شفا خانوں کے بجائے کوس گھر کا تعار رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر عوام کے پیسے سے تنخواہیں لیتے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت ڈیوٹی دینے کے لئے تیار نہیں۔ مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں ملتی ۔ اگر ملتی ہیں تو نقلی اور غیر معیاری ہوتی ہیں۔ اس صورتحال کو نوٹس لیتے ہوئے ہسپتالوں پر عدالتی چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایڈیشنل سیشن جج کراچی نے ابراہیم حیدری میں سرکاری ہسپتال پر چھاپہ مارا۔ میڈیکل سپرنٹینڈنٹ، پانچ ڈاکٹرز اور عملہ غائب تھا۔ چھاپے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مریض کو ایک روز کی دوائی دے کر پانچ روز کا ریکارڈ بنایا جاتا ہے۔ قمبر ہسپتال میں بھی چھاپے کے وقت ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر اور ماتحت عملہ غیر ھاضر تھا۔ ہیپٹائٹس کے مریضوں نے علاج نہ ہونے کی شکایات کی۔ اس موقع پر ہیپٹائٹس پروگرام کے غیر حاضر فوکل پرسن کے خالد مقدمہ رج کردیا گیا۔ اسی طرح مکلی ہسپتال پر چھاپے کے دوران سہولیات کی کمی اور مشینیں خراب حالت میں ملی۔ صوبے میں دیگر ہسپتالوں کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں۔ صوبے کے دو محکمے جن کی ذمہ داری عوام کی جسمانی اور ذہنی صحت کو درست رکھنا ہے ۔ یعنی محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم، ان دونوں کی صورتحال نہایت ہی خراب ہے۔ وہی گھوسٹ ملازم، ویزا سسٹم اور کرپشن کلچر ان محکموں کی پہچان بنا ہوا ہے۔ صوبے میں صحت اور صفائی سے متعلق خود سرکاری محکموں کی رپورٹس خراب کرکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسانوں کو غلاظت بھرا اور آلودہ پانی پینے کے لئے فراہم کیا جارہا ہے۔ انتظامی کوتاہی اور نااہلی کے باعث لوگ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں علاج کی بہتر سہولیات میسر نہیں ہوتی۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کے لئے ہر سال بجٹ آتا ہے جس کا بڑا حصة کرپشن میں چلا جاتا ہے۔ باقی جو تھوڑا حصہ رہتا ہے اس کی نقلی اور غیر معیاری ادویات خرید کر کے مریضوں کو دی جاتی ہیں۔ یہ غیر معیاری ادویات مرض کے علاج کے بجائے مزید بڑھا دیتی ہیں یا س کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ بسااواقت یہ ادویات ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینکس پر پہنچا دی جاتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں موجد مشینیں جان بوجھ کر خراب کی جاتی ہیں تاکہ کہ نجی شعبے کے ڈائگنوسٹکس سینٹرز اور لیبارٹیریز کو منافع کے بے تھاشا موقاع فراہم ہو سکیں۔ یہاں پر بھی ڈاکٹرز کا کمیشن مقرر ہے۔ میڈیکل اسٹورز پر سرکاری مہر لگی ہوی ادویات کی فروخت عام سی بات ہے۔ ان میڈیکل اسٹورز پر کام کرنے والوں کے پاس مطلوبہ سرٹکیٹ بھی نہیں ہوتے۔ جعلی ادویات کا کاروبار زور شور سے جاری ہے۔ افسوس ہے کہ ڈرگ انسپیکٹرز کو یہ سب نظر نہیں آتا۔ تھر میں علاج کی مطلوبہ سہولیات کی عدم موجودگی میں معصوم بچوں کی اموات کی خبریں گزشتہ تین سال سے آرہی ہیں۔ کیا حکومت سندھ اس کارکردگی پر فخر کرسکتی ہے؟ محکمہ صحت کے وزیر اور سیکریٹری دونوں صاحبان ڈاکٹر ہیں۔ لیکن وہ محکمہ کی صحت سے لاعلم ہیں یا جان بوجھ کر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ وزیر صحت کا دفتر برمودا ٹرئی اینگل بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر درخواست شکایت یا کسی مرض کے بارے میں رپورٹ اسی طرح گم ہو جاتی ہے جس طرح سے مختلف جہاز اور چیزیں برمودا ٹرائی اینگل میں گم ہو جاتی ہیں۔ 
 صحت کی بنایدی سہولیات ریاست کی اور حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ ریاست یہ ذمہ داری کس طرح سے پوری کر رہی ہے؟ اس کا اندازہ روز مرہ کی رپورٹس اور خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ محکمہ صحت کی بیمار ذہن بیوروکریسی سندھ کے لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے مزید امراض پھیلانے کا سسب بن رہی ہے۔ سہپتالوں میں علاج کے لئے نہ ادویات ہیں نہ ڈاکٹرز، یہ طبی دہشتگردی نہیں تو اور کیا ہے؟ 
 روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کرنے، سرکاری ڈاکٹروں کی نجی ہسپتالیں بند کرنے اور صوبے میں غیر سند یافتہ ڈاکٹروں کے خلاف حکم کے بعد حکومت سندھ نے کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر مندھرو کا کہنا ہے کہ جن سرکاری ڈاکٹرز نے نجی کلینکس کھولی ہوئی ہیں ان کءخلاف کاررائی کی جا ئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ نجی کلینکس کی وجہ سے ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں پر توجہ نہیں دیتے۔ اور سرکاری ہسپتال پہنچنے والے مریضوں کو نجی کلینک پر ّنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ 
 کسی بھی معاشرے میں اگر امن و امان، صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہ ہوں ، تو یہ معاشرےاپنے طور پر آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یہ تینوں اسم معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرتی طور پر آج ہم جس توڑپھوڑ کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان تین شعبوں پر توجہ کم دی ہے۔ امن وامان جس بدتری کا شکار ہےاس میں ہمارا اپنا ہاتھہے۔ ضیاءالھق کے سیاہ دور میں ہاتھوں سے حالات خراب کئے گئے۔ تاکہ لوگ اپنے ہی مسائل میں الجھے رہیں، قبائلی اور برادری کے جھگڑے چلت ہوں یا، ڈاکے یا تعلیمی اداروں میں تعصب یہ سب کچھ ایک خاص سوچ اور ذہنیت کے ساتھ کیا گیا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ بلکہ ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کے نام پر جنگلات کات دیئے گئے۔ کاپی کلچر کی حوصلہ افزائی کر کے تعلیم کو تباہ کیا گیا۔ محکمہ صحت پر بھی مطلوبہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ 
 اگر ہمارے حکمران اور بیوروکریسی احساس برتری کا شکار نہ ہو کر 

No comments:

Post a Comment