سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ عبرت” صوبائی حقوق اور عالمی دونر اداروں سے متعلق چیئرمین سینیٹ کی رولنگ “ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیل ،گیس اور دیگر قدرتی وسائل میں صوبوں کو آئینی طور پر پچاس فی صد حصہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ایگزیکیوٹو، انتظامی اور ریگیولیٹری اختیارات میں بھی برابری کی حیثیت ہونی چاہئے۔ لہٰذا تیل کی نگرانی کےلئے عالمی بینک کا تیار کردہ مسودہ ناققابل عمل اور قومی سلامتی کے منافی قرار ددیا ہے۔ ایوان بالا کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومت کو ہدایت کی کہ عالمی دونرز اور مالیاتی اداروں کی ملک معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت سے متعلق دو ماہ کے اندر پالیسی مرتب کرے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کی ایماءپر وفاق صوبوں کے حقوق سلب کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کو ملک کے اندرونی معاملات تک رسائی نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی سلامتی کے بھی خطرناک ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اٹھارویں ترمیم متعارف کرانے والوں کا مقصد آئین کی شق 173 کی کلاز 3 شامل کرنے کا مقصد صوبوں کو معدنیات، گیس اور تیل میں برابر حصہ دار بنانا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تاحال اس ترمیم پر عمل نہیں کیا گیا۔
دیکھا جائے تو آج کے حکمرارانوں خواہ سابق حکمرانوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ ملک میںبلیک واٹر یا کوئی اور ایسی غیر ملکی تنظیم موجود نہیں۔ اگر عسکری ونگ کے مختلف وقت میں جاری کئے گئے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے عناصر ملک میں موجود ہیں جو دہشتگردوں کے سہولکار ہیں اور ملک دشمن عناصر کے لئے کام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آرمی چیف بھی کہتے رہے ہیں کہ غیر ملکی ایجنسیاں دہشتگردی کی کارروایوں میں ملوث ہیں۔ اور ان کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک صوبوں کو برابری کی سطح پر وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہے ، یہ ہر صوبے کے لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ بلکہ اس اقدام سے وفق مضبوط ہوگا۔ پاکستان کا وجود صوبوں کی وفاقی شکل پر مشتمل ہے۔ یعنی صوبے ہی وفاق کی علامت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئین تحت صوبے اپنے وسائل کے مالک، اور خود مختار تسلیم کئے گئے ہیں۔
صوبوں کے عوام کے ساتھ تعاون اور صوبوں کے درمیان بہتر روابط قائم کرنا ، سلامتی اور دیگر مطلوبہ مالی معاملات ، سہولیات کی فراہمی ، امور خارجہ میں رہنمائی اور مدد کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس کہ اس سے طویل عرصے سے لاپرائی برتی جا گئی۔ جس سے نہ صرف صوبوں کے حقوق متاثر ہوئے ، بلکہ جمہوری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگرچہ آج ملک میں جمہوری نظام ہے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کے آزاد اور خود مختار ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ یہ دعوے اپنی جگہ پر، حقیقت یہ ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم ، اور 1973 کے آئین کے تحت صوبوں کو دی گئی صوبائی خود مختاری نہ دینے کا بحران خطرناک شکل میں موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ آج تک اس اہم معاملے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ وفاق نے صوبائی معاملات کے اختیارات بھی اپنے پا س رکھ کر تمام فیصلے اپنے طور پر کرتا رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ہو یا پانی کی منصفانہ تقسیم یا تیل، گیس یا بجلی کی تقسیم کا معاملہ ہو، ان سب میں صوبوں کو ان کا جائز حق دینا آئینی تقاضا ہے ۔ وفاقی حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے، تاکہ سندھ سمیت تمام صوبوں کی ترقی، تعلیم صحت، روزگار، اور تعمیراتی منصوبوں کو حقیقی معنیٰ میں آگے بڑھایا جاسکے۔ یہ تب ہو سکے گا جب مرکز صوبوں کے حقوق اور اختیارت مکمل طور پر ان کے حوالے کرے گا۔ اور ملک کی بہتری کے لئے آئینی اور جمہوری نظام میں رکاوٹیں دور کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو عالمی ڈونر اداروں کی ملکی معاملات میں مداخلت روکنے کے لئے بھی کوئی جامع اور موثر پالیسی مرتب کرنی چاہئے۔
امن اور روزگار سے خالی سندھ
امن اور روزگار سے خالی سندھ
”امن اور روزگار سے خالی سندھ “ کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے سندھ میں امن اور وزگار کے درد پرانے ہیں۔ لیکن گزشتہ دس سال کے دوران حکمرانی کرنے والوں نے سندھ کو جو کچھ دیا ہے اس کا آئینہ روزانہ اخبارات ہیں۔ اب شہروں میں سر عام قتل ہونے لگے ہیں۔ بھوک اور بدحالی سے لاچار لوگ خود سوزی کرنے پر مجبور ہیں۔ لاڑکانہ کے اایک نوجوان کی خبر نے پورے سندھ کو چونکا دیا جس نے بیروزگاری سے تنگ آکر خودسوزی کر کے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ لاڑکانہ کے ذوالفقار باغ کا رہائشی محمد علی شیخ پانچ بچوں کے باپ ہے۔ خود سوزی کی وجہ اس نے یہ باتءہے کہ وہ ایک عرصے سے بیروزگار ہے۔ جب کہیں سے بھی اسے روزگار کی امید نہ رہی، اور وہ اپنے بھوکے بچوں کی حالت دیکھنا ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔مجبور ہو کر اس نے خود کو آگ لگا دی۔ انہیں زخمی ھالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ صوبے میں حکمران جماعت لاڑکانہ کے نام پر حکمرانی کر رہی ہے۔ حکام میں اس نوجوان کے احتجاج پر کتنی توجہ دی ہے، یہ ایک حوالہ ہے۔ سندھ میں ہزارہا پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار ہیں۔ گزشتہ دس سال کے دوران سندھ حکومت نے اگر بعض ملازمتیں دی بھی ہیں تو ان کی میرٹ اور طریقہ کار پر سوالیہ نشان ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غل نہیں ہوگا کہ بیروزگاری ختم کرنے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا حکمران جماعت نے جو وعدہ کیا تھا وہ ایفا نہیں ہو سکا ہے۔ روزگار کے بعد امن بنیادی بات ہے۔ اگر گزشتہ دس سال کا حساب نہ بھی لیں، صرف گزشتہ ماہ کے دوران بدامنی کے واقعات رونما ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار پھر مجرموں کی پشت پناہی ہونے لگی ہے ۔ روایتی گروہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں۔ یونین کونسل بلدانے کے چیئرمین کرم اللہ چانڈیو اور ان کے دو بیٹوں کے قتل کے خلاف پورا ضلع سراپا احتجاج ہے۔ چند روز قبل وارہ میں ایک واردات میں لوگ قتل ہوئے۔ تھرپارکر کے شہر مٹھی میں دو تاجر بھائیوں کو قتل کیا گیا۔ اس واقعات کی وجہ سے سندھ سوگوار ہے۔ اور احتجاج بھی جاری ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ ان بڑھتے ہوئے واقعات کی فوری اور موثر روک تھام کرے تاکہ ماضی کی طرح پانی سر سے اوپر نہ ہو جائے۔
فولادی ہاتھ فالج زدہ کیوں کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ لوگوں کو جعلی مقابلوں میں مارنا پولیس کا پرانا مشغلہ رہا ہے۔ بیگناہ لوگوں پر نشانہ پختہ کرنے والے پولیس اہلکار قانون کی گرفت سے دور رہے ہیں۔ پٹے بھائیوں نے تفتیش کے دوران انہیں فائدہ دے کر کیس کمزور کر کے سزا سے بچا لیا ہے لیکن لگتا ہے کہ کراچی میں نوجوان نقیب اللہ کا قتل رائیگاں نہیں جائے گا۔ تحقیقات کرنے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ مقابل جعلی تھا۔ نقیب اللہ بیگناہ تھا۔ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ لیکن قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایس ایس پی راﺅ انوار تاحال گرفتار نہیں وہ سکے ہیں۔ سندھ میں پولیس” پراڈکشن ہاﺅ س“ کی جانب سے اس طرح کی سیریلز سامنے آتی رہی ہیں جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک پلے (ڈرامہ( جس کو فاﺅل پلے کہا جائے، نقیب اللہ کے قتل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جب تحقیقات کمیٹی مقابلے کے جعلی ہونے کے نتیجے پر پہنچی ہے، پھر گرفتاری میں دیر کیوں کی جارہی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ نقیب اللہ اور اس طرح کے دیگر مشکوک مقابلوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے، تاکہ لوگوں کو انصاف ملے اور پولیس پر بھی اعتماد بحال ہو۔
No comments:
Post a Comment