Sindh Nama Feb 17 سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش ”نئی لیبر پالیسی سر آنکھوں پر مگر۔۔۔ “ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے سندھ حکومت نے صوبے میں نئی لیبر پالیسی جاری کر دی ہے۔ نئی پالیسی لیبر کے مطابق لیبر کورٹس 60 روز کے اندر فیصلہ دینے کی پابند ہونگی۔ صوبے کی صنعتوں میں کم از کم اجرت کا تعین صوبائی حکومت کرے گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ اجرت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ لیبر پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسانوں، ماہیگیروں اور دیگر محنت کشوں کو بھی صنعتی مزدور کا درجہ دیا جائے گا۔
اچھا ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو اپنی اقتداری دور کے آخری دنوں میں مزدوروں کا خیال آیا۔ سندھ حکومت نے لیبر پالیسی جاری کر کے اچھا کام کیا ہے۔ ملک بھر میں اور خاص طور پر سندھ میں صنعتی مزدوروں کی حالت ابتر ہے۔ اکثر کارخانے محنت کشوں کے لئے قید خانے بنے ہوئے ہیں۔ جیلوں کا پھر بھی ایک مینوئل ہوتا ہے۔ سندھ کے کارخانوں اور فیکٹریوں میں کوئی قاعدہ، قانون موجود نہیں۔ فیکٹریز کی اونچی دیواروں کو قانون پار نہیں کر سکتا۔ حد یہ ہے کہ اس جبر کے جہان میں ہونے والی ناانصافیوں کی خبریں بھی اونچی دیواریں نہیں پھلانگ سکتی۔ صوبے میں محنت کشوں کے حقوق کے لئے لیبر ڈپارٹمنٹ موجود ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ محکمہ صنعتکاروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ محنت کشوں کے ساتھ ناانصافی کے لئے صنعتکار خواہ محکمہ محنت دونوں ذمہ دار ہیں۔ محکمہ محنت ،محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ٹریڈ یونین سیاست کا خاتمہ ہے۔ محنت کشوں کو نہ ریاست کی جانب سے کوئی قانونی حمایت یا پشت حاصل ہے اور نہ ہی کارخانوں میں آزادانہ طور پر ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی اجازت ہے۔ صنعتکاروں نے کارخانوں میں اپنی پاکٹ یونینز بنا رکھی ہیں۔ اس صورتحال میں محنت کشوں کے ساتھ ناانصافی کی ایک ٹرائیکا بنی ہوئی ہے۔ اس مثلث میں صنعتکار، محکمہ محنت، اور پاکٹ یونینز شامل ہیں۔ ٹھیکیداری سسٹم محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ لیبر قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ صوبائی حکومت نے لیبر عدالتوں کو ساٹھ دن کے اند مقدمے نمٹانے کا پابند بنایا ہے۔ لیکن اس چکی میں پسنے والے محنت کشوں کی کتنی تعداد ہوگی جو ان عدالتوں میں داد رسی کے لئے پہنچتی ہوگی؟ نئی لیبر پالیسی کے مطابق محنت کشوں کے لئے کم از کم اجرت کا تعین صوبائی حکومت کرے گی۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کے کم از کم اجرت مقرر کرنے کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم اجرت زیادہ ہوگی اور محنت کشوں کے حق میں ہوگی، تو کیا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا؟ ابھی تک حکومت سندھ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل نہیںکراسکی ہے۔ محکمہ محنت صنعتکاروں کا ساتھی بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت کس طرح سے صنعتکاروں سے کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کرائے گی؟ لوگ سندھ کے منتظمین کی حالت دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے گنے کی قیمتوں کا اعلان تو کیا لیکن اس پر عمل کرانے سے گریز کر رہے ہیں۔ معاملہ صرف اعلان کا نہیں اس پر عمل درآمد رکانے کا ہے۔
صوبائی حکومت نے ماہیگیروں اور کسانوں کو بھی صنعتی مزدور کی حیثیت دینے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ میں کسان بہت ہی عتاب اور عذاب میں ہیں۔ وہ بال بچوں سمیت سال بھر محنت کرتے ہیں لیکن زمیندار کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا۔ سندھ میں جھیلوں اور دیگر پانی کے ذخائر پر اباثر افراد کا قبضہ ہے۔ حکومت یہ قبضے ختم کرانے کے لئے تیار نہیں۔ان تمام حقائق سے سندھ حکومت کی مزدور اور محنت کش دوستی کا انداز کیا جاسکتاہے۔ حکومت کس طرح سے یہ سب کچھ ممکن بنائے گی؟ اعلان کرنا سب سے آسان کام بن گیا ہے۔ ان پر عمل درآمد کرانے کے لئے حکومت کی طاقت کا اندازہ کئی بار ہو چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کے خلاف موجود صنعتکاروں، محکمہ محنت اور پاکٹ یونینز کے مثلث کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ تب ممکن ہو سکے گا جب لیبر قوانین پر سختی کے ساتھ عمل ہوگا۔ محکمہ محنت کو فعال اور سرگرم کرنا پڑے گا اور محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ دینا پڑے گا۔
سرکاری جنگلات پر غیرقانونی قبضے
سرکاری جنگلات پر غیرقانونی قبضے
روزنامہ عبرت سرکاری جنگلات پر غیرقانونی قبضے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف کنزرویٹو آفیسر نے کہا ہے کہ صوبے میں محکمہ جنگلات کی ایک لاکھ چوہتر ہزار ایکڑ پر غیرقانونی قبضے چھڑانے کا فیصؒہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور لیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ جلد از جلد یہ قبضے ختم کئے جائیں۔ چیف کنزریوٹو آفیسر کا کہنا ہے کہ قبضے ختم کراکے غیر آباد زمینوں پر نئے جنگلات لگائے جائیں گے۔ قبضہ کرنے والوں میں سیاسی رہنما، سردار، وڈیرے شامل ہیں۔ دوسری جانب محکمہ جنگلات کی 64 ہزار ایکڑ زمین محکمہ روینیو نے غیر قانونی طریقے سے بلڈرز اور دیگر افراد کو الاٹ کردی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس عمل کی تحقیقات کے لءچیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کر دی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے فکر میں مبتلاہے۔ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی اور گرمی میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا خیلا ہے کہ آنے والے وقت میں مزید موسمی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے جنگلات کا اہم کردار ہے۔ ماضی میں ڈاکو کلچر کی وجہ سے جنگلات کاٹ دیئے گئے اور عدم توجہگی کا شکار رہے۔ یہ بیانیہ حاوی ہو گیا کہ جنگلات قیام امن میں رکاوٹ ہیں۔ اس تاثر نے جنگلات کی اہمیت کو کم کردیا۔ رفتہ رفتہ جنگلات ختم اور ویران ہوتے گئے۔ جس کا قبضہ مافیا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اب جب جنگلات کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے اور ان جنگلات کے خلاف کی گئی کارروائی کو بھی صحیح پس منظر میں سمجھا جانے لگا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے بھر میں جنگلات کو بحال کیا جاے اور ان پر ناجائز قبضے، لیز پر دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صرف اس صورت میں اس نئی حکمت عملی پر عمل اور جنگلات کی بحالی ممکن ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس عمل میں کتنی سنجیدہ ہے؟
No comments:
Post a Comment