Oct 10, 2017
کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
”اس کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟ “کے عنوان سے” روزنامہ کاوش ا“داریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ وہ کسی بھی سال ترقیاتی جوبجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں کر سکی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ تھے۔ تب بھی تقریبا پینتیس ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوسکی تھی۔ رواں مالی سال کی تین سہ ماہیوں کے درواں صوبائی محکمہ مالیات نے مختص کی گئی 334 ارب روپے میں سے 67 ارب 20 کروڑ روپے جاری کئے۔ جس میں سے سندھ کے 44 محکمے اب تک صرف 36 فیصد رقم خرچ کر سکے ہیں۔ جبکہ گیارہ محکمے ایسے ہیں جو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر سکے ہیں۔ اس کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال بھی ترقیاتی رقومات استعمال کرنے کی صورتحال گزشتہ 9 برسوں جیسی ہی رہے گی۔
گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ اس کارکردگی سے ہی گورننس کا پروفائیل بنتا ہے۔ لیکن سندھ اداروں کا قبرستان بن گیا ہے۔ جس سے عیاں ہے کہ سندھ میں گورننس کی کیا سورتحال ہے۔ کیا اس گورننس سے سندھ کے لوگوں کو جمہوریت کا ثمر مل سکتا ہے؟ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ فینڈز نہیں ہیں، دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ فنڈز موجود ہیں لیکن اداروں کے منتظمین کے پاس انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ہر سال ایک بڑی رقم بغیر استعمال کے لیپس ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی رقم عوام کے لئے ترقیاتی کاموں پر استعمال نہ کرنا دراصل ترقی کو روکنے کے برابر ہے۔ سندھ میں ترقی کی راہ میں بندشیں گزشتہ 9 سال سے جاری ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران بھی منتظمین اسی راہ پر عمل پیرا ہیں۔ جو رقم خرچ کی جاتی ہے اس میں کس حد تک شفافیت ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسا ہاضمہ رکھنے والی بیوروکریسی کیوں چاہے گی کہ تریقاتی منصوبوں پر عمل ہو، عوام کو سہولیات میسر ہوں؟
پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکمرانی میں جو ترقیاتی رقومات استعمال نہیں ہوسکی، ان کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے۔کہ 2008 -09 سے لیکر 2016-15
تک 356 ارب روپے استعمال نہیں کئے جا سکے ہیں۔ حد ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 11 محکمے ایک روپیہ بھی ترقیاتی مد میں خرچ نہیں کرسکے۔ ةم سمجھتے ہیں کہ ان 11 محکموں کے منتظمیں کی اس نااہلی کا نوٹس لیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے کہ وہ کیونکر عوام کو ان سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
سوالات کارساز سانحے
سوالات کارساز سانحے
روزنامہ عبرت کارساز سانحے کی تحقیقات کس کی ذمہ داری ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بعض ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو تاریخ کی مٹی بھی دھندلا نہیں سکتی۔ ایسا ہی واقعہ دس برس پہلے کراچی کے کارساز کے علئاقے میں ہوا تھا۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تھی۔ یہ منظر لاکھوں لوگوں کی آنکھوں میں فریز ہے۔ بنظیر بھٹو ملک کی کروڑیں خواتین، مزدوروں، طلبہ کسانوں اور روشن خایل لوگوں کی امید کی کرن تھی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی گاڑی کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعہ میں محترمہ تو بچ گئیں لیکن درجوں افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کئی آنکھیں سوالیہ بن کر محترمہ کے وارثوں اور پارٹی کے رہنماﺅں سے پوچھتی ہیں کہ کیا انہوں نے محترمہ سے عقیدت کرنے والے ان عوام کے ساتھ کتنا نبھایا ہے؟ ان کی زندگی میں انقلاب نہ سہی، کوئی مثبت تبدیلی لا سکے ہیں؟ محترمہ کی شہادت سے لیکر ّج تک ان کی پارٹی کی حکومت ہے ۔ ان کا ہی حکم چلتا ہے۔ ڈس سال کی حکمرانی بڑا عرصہ ہوتی ہے۔ اس عرصے میں سندھ کے لوگوں کی تبدیل کی جاسکتی تھی۔ عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کی جاسکتی تھیں۔ یہ سب چکھ ہوسکتا تھا۔ کیا ان کے ووٹ کی قدر کی گئی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہرشخص کی آنکھوں میں ہیں۔ جو کسی مصلحت یا مجبوری کی وجہ سے پوچھ نہیں سکتے۔ جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں تب شاید ہر خاص و عام حکمران جماعت کے ہر نمائندے سے یہ سوالات پوچھ سکے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے پیپلزپارٹی کے پاس کیا
تیاری ہے؟ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ سندھ کے لوگ عجیب مزاج رکھتے ہیں۔ وہ اگر اپنی بات پر آئیں تو پھر کیا میر کیا پیر اور جاگیردار کیس کی نہ سمنتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ اور اپنی کرتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے اپنے ضمیر کا ایسا مظاہرہ کیا بھی تھا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ ارسا میں وفاق کے کوٹا پر سندھ کا نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سوبے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط لکھا ہے کہ اس طرح سے ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ارسا ایکٹ کے مطابق پانی کی صوبوں میں تقسیم کے ذمہ دار اس ادارے کو پانچ ممبر ہونگے۔ ایک ایک چاروں صوبوں سے ہوگا اور پانچواں ممبر وفاق کی نمائندگی کرے گا۔ ایکٹ کے مطابق پانچواں ممبر وفاق کا نامزد کردہ ہوگا مگراس کا ڈومیسائیل سندھ کا ہوگا۔ لیکن گزشتہ چھ سال سے ارسا ایکٹ کی اس شق پر عمل نہیں ہو رہا۔ وزیراعلیٰ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس صورتحال میں نہ صرف ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی بلکہ سندھ کے ساتھ بھی ناانصافی ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کے لئے اکثریت کی بناید پر فیصلے ہوتے ہیں، اور وفاق کا نمائندہ اپنے مرضی سے ووٹ دیتا ہے جو کہ زمینی حقائق سے دور ہوتا ہے۔ نیتجة سندھ میں پانی کا بحران رہتا ہے۔ ارسا کی ترتیب اس لئے رکھی گئی تھی تاکہ سندھ کو مسلسل پانی کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ اب مجموعی طور پر پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ایسے میں سندھ کے کاشتکار پریشان ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی کمی کا تناسب سندھ کے ہی کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ محکومت کا موقف جائز ہے۔ اور جب وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کردیا ہے اب وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ نہ صرف وہ ارسا ایکٹ پر عمل کرائے بلکہ پانی کی قلت کے حوالے سے سندھ کی شکایات کا سدباب کرنے کے لئے ہدایات جاری کرے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ ارسا میں وفاق کے کوٹا پر سندھ کا نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سوبے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط لکھا ہے کہ اس طرح سے ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ارسا ایکٹ کے مطابق پانی کی صوبوں میں تقسیم کے ذمہ دار اس ادارے کو پانچ ممبر ہونگے۔ ایک ایک چاروں صوبوں سے ہوگا اور پانچواں ممبر وفاق کی نمائندگی کرے گا۔ ایکٹ کے مطابق پانچواں ممبر وفاق کا نامزد کردہ ہوگا مگراس کا ڈومیسائیل سندھ کا ہوگا۔ لیکن گزشتہ چھ سال سے ارسا ایکٹ کی اس شق پر عمل نہیں ہو رہا۔ وزیراعلیٰ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس صورتحال میں نہ صرف ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی بلکہ سندھ کے ساتھ بھی ناانصافی ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کے لئے اکثریت کی بناید پر فیصلے ہوتے ہیں، اور وفاق کا نمائندہ اپنے مرضی سے ووٹ دیتا ہے جو کہ زمینی حقائق سے دور ہوتا ہے۔ نیتجة سندھ میں پانی کا بحران رہتا ہے۔ ارسا کی ترتیب اس لئے رکھی گئی تھی تاکہ سندھ کو مسلسل پانی کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ اب مجموعی طور پر پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ایسے میں سندھ کے کاشتکار پریشان ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی کمی کا تناسب سندھ کے ہی کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ محکومت کا موقف جائز ہے۔ اور جب وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کردیا ہے اب وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ نہ صرف وہ ارسا ایکٹ پر عمل کرائے بلکہ پانی کی قلت کے حوالے سے سندھ کی شکایات کا سدباب کرنے کے لئے ہدایات جاری کرے۔
No comments:
Post a Comment