Sindh Nama, Sindhi Press
Sohail Sangi
Nai Baat
کیا محکمہ شماریات اب محب وطنی کا سرٹفکیٹ دے گا؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ میں سیاسی سرگرمی اب شروع ہوئی ہے تاہم صوبے میں عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور سماجی خدمات کی صورتحال افسوس ناک ہے جس کا اندازہ حال ہی جاری کی گئی تین رپورٹوں سے ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے بجٹ منظور ہونے کے تین ماہ بعد ضلعی ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص سوا 24 ارب روپے کی رقم میں سے صرف چار ارب روپے جاری کئے ہیں۔ لیکن صوبے کے 29 اضلاع میں سے صرف 22 کو رقومات جاری کی گئی ہیں جبکہ سات اضلاع اس ترقیاتی مرحلے میں محروم رکھے گئے ہیں۔ سرکاری طور پر جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق خیرپور اور لاڑکانہ پر حکومت کی خاص نوازش رہی اور گھوٹکی اور نوشہروفیروز محروم رہے۔ ایک اور رپورٹ میڈیا میں شایع ہوئی ہے جس میں حکومت سندھ نے گزشتہ تین سال کے دوران 965 اسکیموں کا کام غیر معیاری ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ وفاقی، صوبائی حکوموتں اور ضلع انتظامیہ تینوں کی جانب سے ایک ہی اسکیم پر کام ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں یہ شکوہ جڑیں پکڑ ہو رہا ہے کہ وفاق کا سلوک اس کے ساتھ مفتوح علاقے جیسا ہے، نہ وعدوں اور معاہدوں پر عمل کیا جاتا ہے، نہ ہی مختلف معاملات پر خدشات اور تحفظات کو دور کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس وقت نظر آیا جب سندھ حکومت نے وفاقی محکمہ شماریات سے مردم شماری بلاکس کی تفصیلات، ڈیٹا فارم، سٹلائیٹ نقشے اور مردم شماری فارم آر ای این 2 مانگا۔ سندھ حکومت کو صوبے میں قیام پذیر غیر ملکیوں کا ڈیٹا بھی نہیں دیا گیا۔ مثبت جواب کے بجائے محکمہ شماریات کے ناصحین نے سندھ کو اداروں پر شک کرنے کا طعنہ دیا۔ اور اس کو وفاق پرستی کے بھاشن دیئے۔ اس کو تبیہ جیسے جملے بھی سننے پڑے۔ کہا گیا کہ اس طرح کے اعتراضات کے خراب نتائج نکلیں گے۔ کیا سندھ کو محکمہ شماریات سے محب وطنی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا؟
وطن عزیز کے حکمرانوں نے کبھی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ ہر مرتبہ ملک کے’’ چھوٹے صوبوں ‘‘کے ساتھ جو رویہ رکھتے آئے ہیں اسی رویے کی وجہ سے قیام پاکستان کے 24 سال کے بعد بنگالیوں نے راہیں جدا کر لی۔ 1971 سانے کے ذمہ دار یہی رویے تھے۔ وفاق کی مضبوطی کا انحصار صوبوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے اور انہیں اس مرضی پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرنے کی روش پر نہیں بلکہ صوبوں کو اعتماد لینے میں مضمر ہے۔
صوبوں اور وفاق کے درمیاں اعتماد کی رسی اس وقت کمزور ہو جاتی ہے جب عدم اعتماد اور بے اطمینانی جنم لیتی ہے۔ پانی کے جائز حصے کا معاملہ ہو، مالی وسائل کی درست تقسیم کا مطالبہ ہو، یا وفاق میں سندھ کے حصے کی ملازمتوں کی بات ہو، سندھ کے مطالبے اور اعتراضات کو حساب میں ہی نہیں لیا جاتا۔ ایسا ہی اہم معاملہ مردم شماری کا بھی ہے۔ مردم شماری کا عمل شروع ہونے سے پہلے سندھ حکومت نے طریقہ کار پر اعتراض کیا۔ اور مردم شماری کے فارم کی کاپی صوبائی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے ہو۔، اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔ سندھ حکومت کے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس نے اس اہم عمل کے نتائج کو مشکوک اور متنازع بنا دیا ہے۔ اگر کسی صوبے کو تحفظات اور اعتراضات ہیں، تو ان اعتراضات کو دور کرنے اور اس کے اطمینان کے لئے مطلوبہ ریکارڈ کیوں نہیں فراہم کیا جاتا۔
محکمہ شماریات کی جانب سے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار نے کئی شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ اور محکمہ نے خود کو مشکوک بنادیا ہے۔ صوبوں کے اطمینان کے لئے ریکارڈ فراہم نہ کر کے کون سی قومی خدمت کی گئی ہے؟ لاہور شہر کی شرح آبادی میگا سٹی کراچی کی شرح سے زیادہ دکھائی گئی ہے۔ ایسے میں شکوک پیدا ہونا منطقی امر تھا۔ اس حوالے سے سندھ کے خدشات دور کرنا اشد ضروری ہے۔ اگر کوئی دوسرا صوبہ مردم شماری کے نتائج پر اعتراض نہیں کرتا، تو کیا سندھ کو اس پر خاموش رہنا چاہئے؟ سندھ میں تارکین وطن کی تعداداہم قومی راز نہیں، جسے سندھ سے چھپایا جائے۔
سندھ کو مردم شماری کا ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار، دھمکی کا لہجہ دکھانا قابل افسوس امر ہے۔ سندھ حکومت کو یہ معاملہ مکمل تیاری اور سنجیدگی کے ساتھ مجاز فورم میں اٹھانا چاہئے۔ سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس نقطہ پر جمع ہونا پڑے گا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران سندھ کے حکمرانوں کی تعلیم کے شعبے میں کارکردگی کیسی رہی؟ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ سے عیاں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے پچاس فیصد اسکول پینے کے پانی اور باتھ روم کی سہولت سے محروم ہیں۔ دو سو ارب روپے کی بجٹ ہونے کے باوجود صوبے کے تعلیمی ادارے انتہائی زبون حالت میں ہیں۔ ان بھیانک زمینی حقائق کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے غریبوں کے بچوں کا مستقبل کسی طورپر ان کے ایجنڈا کا حصہ نہیں۔ شہر ہوں یا دیہی علاقے، سرکاری اسکولوں کا ماحول دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ اساتذہ کی ھاضری سے لیکر نصاب تک ، درجوں معاملات حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
دس برس پہلے کہا گیا تھا کہ سندھ میں پانچ ہزار سکول بند ہیں۔ لیکن آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے کتنے اسکول حکومت بحال کر سکی ہے؟ سرکاری اسکولوں کی زبون حالی کا یہ عالم ہے چلتے کلس کے دوران چھت کے ٹکڑے طلباء پر گر چکے ہیں۔ نتیجے میں متعدد بچے زخمی ہو چکے ہیں۔ رواں سال حکومت نے دو سو ارب روپے محکمہ تعلیم کے لئے مختص کئے ہیں، یہ رقم کون سی مد میں خرچ ہوگی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیسیف کی اس رپورٹ کے بعد سندھ حکومت عوام کے سامنے تفصیلی وضاحت پیش کرے۔ کیونکہ پچاس فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی اور باتھ روم کی سہولیات نہیں۔
Sindh Nama - Sindhi Press - Nai Baat Sep 30, 2017
Sohail Sangi