Friday, September 1, 2017

پانی کی قلت اور سندھ

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
March 23-24

پانی کی قلت اور سندھ
میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
ابھی پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر بات چیت چل ہی رہی تھی کہ پاکستان میں پانی کی قلت نے بحرانی شکل اختیار کر لی ہے۔ سندھ میں اپنی کی قلت کے باعث عمل طور پر ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اس بحران پر وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں مجموعی طور پر پانی کی دستیابی اور ضرورت پر غور کیا گیا۔ بحران کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
اجلاس میں پینے کے پانی تو ترجیح دینے کا فیؒ ہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت سے بھی رابطہ کرنے اور پنجاب سے 15 ہزار کیوسکس پانی ادھار لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
ارسا کا کہنا ہے کہ پانی کی یہ قلت تقریبا ایک ماہ سے بھی زائد عرصے تک یعنی 25 اپریل تک جاری رہے گی۔ اور درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں یہ مدت ماہ مئی تک بھی جاسکتی ہے۔
سندھ کو یہ شکایت رہی ہے کہ پانی کی تقسیم کے 1991 کے معاہدے پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اور نوے کے عشرے میں اس معاہدے کو ایک طرف رکھ کر ایک یڈہاک فارمولا بانایا گیا ۔ یہ فارمولا اگرچہ عارضی تھا اور پنجاب میں اپنی کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر بنایا گیا تھا۔

بعد میں یہ معاہدہ عملی طور پر 1991 کے معاہدے کی جگہ لئے چکا ہے۔ اور 1991 کا معاہدہ جسے آئینی تحفظ حاصل ہے وہ عمل میں نہیں لایاجارہا ہے۔
اس ضمن میں حکومت سندھ کے دو اعترضات ہیں۔ اول یہ کہ سندھ کو ڈیموں میں پانی کی قلت یا ان کے خالی ہو جانے کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ وفاقی حکومت کا دعوا ہے کہ سندھ کو پانی کی امکانی قلت سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے لئے واپڈا سمیت دیگر وفاقی ادارے ذمہ دار ہیں۔ ان کے مطابق چشمہ جہلم اور تونسہ پنجند لنک کینال کھول کر سندھ کے حصے کا پانی چرالیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی بتایا کہ وفاق سے ملی بھگت کر کے پنجاب دو مزید کینال تعمیر کررہا ہے ۔ڈیم بھرنے کے لئے بھی کوئی متفقہ اور فارمولا اور نظام موجود نہیں۔جب سندھ میں پانی کا بحران ہوتا ہے تب منگلا ڈیم بھرنا شروع کیا جاتا ہے۔ اور جب دریاء میں پانی سیلابی شکل اختیار کرتا ہے تب ڈیم خالی کیا جاتا ہے۔ یعنی منگلا ڈیم بھرنے اورور خالی کرنے کی حکمت عملی کچھ اس طرح کی ہے کہ سندھ خسارے میں ہی رہتا ہے اور پنجاب فائدے میں رہتا ہے۔
سندھ اس معاملے پر مسلسل اپنے اعتراضات اور تحفطات کا اظہار کرتا رہا ہے لیکن ان کو کسی حساب میں نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے اب براہ راست مطالبہ کیا ہے کہ منگلا اور تربیلا ڈیموں کو ریگیولیٹ کرنے اختیارات واپڈا سے لیکر سندھ اور بلوچستان کو دیئے جائیں۔ انہوں نے ارسا کے اختیارات بھی صوبوں کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ نے پانی کی تقسیم کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھانے اور وہاں پر حل نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے جانے کی بھی دھمکی دی ہے۔
سندھ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔
سندھ کو پانی کی تقسیم سے متعلق برسہا برس سے شکایات رہی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے برطانوی دور میں بھی سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازع کھڑا ہوا تھا، جس کو عدالتی کمیشن کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم ہوئی تو معامل اور گمبھیر ہو گیا اور پاکستان کا تقریبا تمام انحصار دریائے سندھ پر ہو گیا۔ ورنہ خاص طور پر پنجاب دیگر دریاؤں سے بھی پانی لیتا تھا جو بعد میں بھارت کو دے دیئے گئے۔
سندھ طاس معاہدے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پانی کی تقسیم کے بجائے دریاؤں کی تقسیم کی گئی، جو کہ غیر فطری اور غیر منطقی تھی۔ تین مشرقی دریاؤں کا کل پانی 33 ملین ایکڑ فٹ آتا تھا۔ جس میں سے 8 ملین ایکڑ فٹ مشرقی پنجاب میں استعمال ہوتا تھا اور 9 ملین اایکڑ فٹ مغربی پنجاب میں ۔ باقی 16 ملین ایکڑ فٹ سندھ کو ملتا تھا۔
ہم نے یہ تمام پانی بھارت کو دے دیا اور اس کے متبادل کے لئے عاملی بینک وغیرہ سے قرضے لیکر ڈیم تعمیر کئے۔دریاؤں کی ایک لمبی عمر ہوتی ہے۔ جبکہ ڈیم محدود مدت یا محدود عمر کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ڈیم میں مسلسل جمع ہونے والی مٹی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ر دیتی ہے اور پھر ایک عرصے کے بعد یہ گنجائش بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے ڈیم بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کے لئے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ نئے منصوبے کے لئے اتفاق رائے بھی نئے سرے سے قائم کرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران ڈیم خالی ہو جانے کے باعث پاکستان پانی کئی شدید قلت کا سامنا کر چکا ہے۔
2000 سے 2002 تک، تین سال کا عرصہ اسی وجہ سے قلت کا دورانیہ رہا۔ چھ سال کے بعد یعنی 2008 سے 2010 تک ایک مرتبہ پھر ڈیم خالی ہو گئے۔ ان برسوں کے دوران سندھ کے حصے میں 40 فیصد لیکر 57 فیصد تک پانی کی قلت آئی۔ جبکہ پنجاب میں صورتحال اس حد تک خراب نہیں تھی۔ کیونکہ پنجاب پانی کی کم دستیابی کی قلت اپنے حصے کے مطابق شیئر کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
مشرف دور میں سندھ میں پانی کی اتنی قلت پیدا ہو گئی تھی کہ لوگوں کو سیم نالوں کا پانی استعمال کرنا پڑا تھا۔ اور یہ بھی کہ مردوں کو غسل دینے کے لئے پانی دستیاب نہیں تھا۔ یہ وہ رپورٹس ہیں جو میڈیا میں شایع ہوچکی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ رواں سال کے دوران اسکردو میں کم برف جمنے کے باعث پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے۔ ربیع میں پنجاب نے 18 فیصد قلت شیئر کی جبکہ سندھ کے حصے میں یہ قلت 22 فیصد آئی۔ اب خریف کے لئے سندھ میں پانی دستیاب نہیں۔ پانی کی قلت سندھ کی زراعت اور معیشت کو اس وجہ سے بھی ضرب کاری ثابت ہوگی کہ یہاں پر خریف کے فصل کی بوائی اسی عرصے میں ہوتی ہے۔
معاہدے کے مطابق لنک کینال صرف سیلاب کی صورتحال میں کھولے جاسکتے ہیں۔ لیکن پنجاب کے دو لنک کینال چشمہ جہلم اور تونسہ پنجند پورا سال چلتے ہیں۔ یوں تمام وعدے اور معاہدے کبھی بھی عمل میں نہیں آتے۔
پانی تقسیم کے معاہدے پر موثرعمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ٹیلی میٹری سسٹم لگایا گیا، لیکن بعض مخصوص وجوہات کی بناء پر اسے بھی ناکام اور ناکارہ بنادیا گیا۔ آج انفرمیشن ٹیکنالاجی نے جتنی ترقی کی ہے اور عام ہوئی ہے اس کے پیش نظر کسی بھی بیراج یا پانی کی تقسیم کے مقام پر پانی کے بہاؤ کو ریکارڈ کرنا معمولی بات ہے۔ لیکن حکومت اس طرف کیوں نہیں سوچتی؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ منگلا کو ریگیولیٹ کرنے یعنی بھرنے اور خالی کرنے میں نہ سندھ کا عمل دخل ہے اور نہ ہی اس عمل میں سندھ کے مفادات کو ملحوظ خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس ڈیم کے قرض کی رقم چاروں صوبوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ سندھ کے لوگ بھی پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کی ضروریات ، مفادات، اور ترقی کا دوسرے کسی صوبے خاص طور پر پنجاب کے برابر خیال رکھنا چاہئے۔
پانی کا معاملہ ملک کے ایک اہم صوبے کی زراعت پر بری طرح سے اثرانداز ہوتا ہے جس کے اثرات مجموعی طور پر ملکی معیشت پر ہی پڑیں گے۔ اس کے بعد اثرات سماجی اور سیاسی بھی ہیں جو چند برسوں بعد نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں غربت بڑھے گی، تو امن و مان کی صورتحال خراب ہوگی۔ شہروں پر دباؤ بڑھے گا۔ جہاں پہلے ہی کئی پیچیدگیاں اور مسائل موجود ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان تناؤ اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوگا۔پہلے ہی دوریاں اور غلط فمہیاں بہت ہیں ان میں مزید اجافے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کی شکایات کا فوری ازالہ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ پانی کی تقسیم کو جدید ٹکنالاجی کے ذریعے مانیٹر کیا جائے۔ اور ڈیموں کو ریگیولیٹ کرنے یعنی بھرنے اور خالی کرنے میں صوبوں کی شراکت اور 1991 کے متفقہ پانی کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

No comments:

Post a Comment