Sunday, September 24, 2017

سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟

Sindh Nama, Sindhi Press 
Sohail Sangi 

سندھ نامہ   سہیل سانگی 


سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟

روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ یہ ایک دو سال کا قصہ نہیں۔ گزشتہ دو تین عشروں سے نہ کاشتکاروں کو گنے کا صحیح دام مل رہا ہے اور نہ ہی حکومت سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ شکر فیکٹریز ایکٹ پر عمل درآمد کراتے ہوئے وقت پر شگر ملز میں گنے کی پسائی شروع کرنے کاپابند کر سکی ہے۔ گنے کی ہر سیزن میں کاشکاروں اور شگر مل مالکان کے درمیان دنگل ہوتا ہے ۔ اس تمام معاملے میں حکومت کا کردار تماشائی کی طرح رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے شگر مل مالکان کو ’’ بھئی ایسا نہ کریں‘‘ کہتے ہوئے منت سماجت کرتے سیزن گزر جاتا ہے۔ قانون کے تحت گنے کی قیمت کا تعین اور گنے کی پسائی اکتوبر کیاوائل میں شروع کرنے کا پابند کرناہے۔ لیکن ہر مرتبہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رھتی ہے۔ 


سندھ کا زرعی شعبہ کئی بحرانوں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار پر خراب اثرات پڑتے ہیں۔ سندھ کے کاشتکار کو پانی کی قلت سے نمٹنے کے لئے ٹیوب ویل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تیل اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے صوبے میں زرعی پیداور کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ یہ امر گنے کی فصل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ گنے کی فصل پر سندھ میں فی ایکڑ لاگت پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حکومت گنے کیی قیمت کم مقرر رکتی ہے باقی کسر مل مالکان پورے کر دیتے ہیں جو وقت پر ملیں چالو نہیں کرتے۔ اور کاشتکار دیر سے کٹائی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، دیر سے کٹائی شروع کرنے کی وجہ سے گنا خشک ہو جاتا ہے اور اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ دیر سے کٹائی شروع ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں کو گندم کے حصے کا پانی گنے کی فصل کو دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا کاشتکاروں کو دگنا نقصان ہوتا ہے۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ بعض کاشتکار اس دگنے نقصان سے بچنے کے لئے گندم کی فصل کو جلا دیتے ہیں، تاکہ وقت پر گندم کی بوائی کر سکیں۔ 


گزشتہ سال گنے کی سیزن میں حکومت نے گنے کی قیمت 182 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی تھی۔کاشتکاروں کا مطالبہ تھا کہ کم از کم قیمت 200 روپے کی جائے۔ عملا یہ ہوا کہ حکومت سرکاری طور پر مقررہ قیمت بھی کاشتکاروں کو نہیں دلا سکی۔ گنے کی پسائی اکتوبر کے اوائل میں شروع کرنی تھی لیکن حکومت نے نومبر کے وسط کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نیتجۃ گنے کی پسائی بمشکل دسمبر میں شروع ہو سکی۔اگرچہ حکومت اس معاملے میں تیسرا فریق ہے جس کا کام حکومت سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ شکر فیکٹریز ایکٹ سمیت مختلف قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ مگر شگر ملز کے معاملے میں وہ بچاری نظر آتی ہے۔

گنے کی پسائی کا نوٹیفکیشن دیر سے جاری کرتے ہے، اور اس پر عمل درآمد بھی نہیں کرا پاتی۔ حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مل مالکان کاشتکاروں کو سرکای قیمت ادا نہیں کرتے، دوسری طرف چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ حکومت اس اقدام پر بھی کوئی کارروائی نہیں کر پاتی۔ سندھ کی کاشتکار تنظیمیں تمام سیزن احتجاج کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت ان کے احتجاج کو حساب میں ہی لے آتی۔ اب سمتبر کا آخری ہفتہ ہے لیکن حکومت گنے کی قیمت مقرر کرنے اور شگر ملز قانون کے مطابق مقررہ وقت پر شروع کرنے سے متعلق فکرمند نظر نہیں آتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت ابھی سے اس مسئلے پر منصوبہ بندی کرے اور 15 اکتوبر سے گنے کی سیزن شروع کرنے اور سرماری قیمت کے تعین کے معاملات نمٹائے۔ تاکہ بحران پیدا نہ ہو جو کہ کاشتکاروں اور عام صارفین کو نقصان سے بچ سکیں۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں پینے کے پانی کی قلت اور خراب معیار کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ عدالت عظمیٰ نے ایک مستقل کمیشن قائم کردی۔ کمیشن میں سندھ حکومت کی جمع کرائی گئی رپورٹ سے واضح ہے کہ ہامرے حکمران عوام کے اس بنایدی مسئلے کو حل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ رواں سال اپریل سے کمیشن نے کام شروع کردیا، جس کی تاحال 13 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ جس کے دروان اس اہم انسانی معاملے کے مختلف پہلو سامنے آئے۔ متعلقہ افسران نے عدالت میں پیش ہو کر مختلف وعدے کئے۔لیکن ان میں کوئی وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔ بلکہ معاملہ مزید خراب ہوا۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ کراچی شہر کو فراہم کیا جانے والا 230 ملین گیلن پانی بغیر کلورین کے کیا جارہا ہے۔ اس پانی کو کلورائیز کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تاحال صورتحال وہی ہے۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران حکومت سندھ نے تمام یقین دہانیوں کے باوجود پینے کے پانی اور گندے پانی کی نکاسی کے ضمن میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ پانی کی فراہمی اور ناکسی کے منصوبے نامکمل پڑے ہیں۔ ہسپتالوں میں پینے کا پانی بہتر نہیں کیا گیا۔ پینے کے پانی کی صورتحال بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 16 مارچ کو گندے پانی کی نکاسی کے موثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں میں کمیشن کا سلسلہ عام ہے۔ لیکن احتساب کا عمل صفر ہے۔ قاسم آباد حیدرآباد کے نکاسی آب کے منصوبے پر ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود ناکام ہے لیکن اس کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سندھ انوائرمنٹل ایجنسی نامکمل ہے۔ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات کے بعد بھی سندھ کے ادارے اور افسران کام کرنے کے لئے تیار نہیں تو سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟ 

روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ گزشتہ پیر کے روز کراچی پریس کلب اور ریڈ زون کے آسپاس کے علاقے میدان جنگ بنے ہوئے تھے۔ جہاں ایک طرف خالی ہاتھ تنخواہوں کا مطالبہ کرنے والے اساتذہ اور سندھ ریزرو پولیس کے برطرف کئے گئے اہلکار تھے۔ دوسری طرف انتظامی اہلکار تھے جو ڈنڈوں، آنسو گیس، واٹر کین سے مسلح تھے۔ لاٹھی چارج ، واٹر لین کے استعمال کے بعد زخمی اساتذہ اور برطرف پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس لئے ان کو روکا گیا۔ اس طرح کے مناظر اس سے پہلے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دیگر مالزمین کے احتجاج کے مواقع پر دیکھنے کو ملے تھے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک سیاسی پارٹی کے کراکنوں نے اس طرح کیا تو ان کے خلاف انتظامیہ نے تشدد نہیں کیا۔ یہ انتظامیہ کا دہرا معیار کیوں؟ 

پیپلزپارٹی عوامی پارٹی ہونے کا دعوا کرتی ہے اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے۔ اس وقت حیرت کی حد نہیں رہتی جب اس پارٹی کی حکومت جب روزگار یا تنخواہوں کے لئے احتجاج کرنے والوں پر تشدد کرتی ہے ۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں دادو میں جلسہ عام میں کئی وعدے کر کے آئے ہیں۔ ہم بلاول بھٹو کو یاد دلاتے ہیں وہ ان اساتذہ اور برطرف کئے گئے پولیس اہلکاروں کے مسئلے پر بھی توجہ دیں۔ ان کو اس گناہ کی سزا مل رہی ہے جو انہوں نے نہیں کیا بلکہ بعض بااثر افراد نے کیا۔ 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sohail Sangi, Nai Baat Sep 23, 2017 
Daily Kawish, Sindh Express, Ibrat, Sindh Sugar industry, Suagrcane

No comments:

Post a Comment