Friday, September 1, 2017

سندھ نامہ : سندھ: حکمران خود انتظامی بحران کے ذمہ دار - سہیل سانگی

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
April 8, 2017 Nai Baat
سندھ نامہ سہیل سانگی
ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پیپلزپارٹی نے اپنے طور پر منائی۔ اس سے قبل جب بھی بھٹو کی برسی منائی جاتی تھی تو سندھ بھر میں جوش وخروش پایا جاتا تھا۔ لوگ اپنے طور پر گڑھی خدابخش پہنچتے تھے اور اپنے شہیدرہنما اور مقتول وزیراعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ بہرحال رواں سال پیپلزپارٹی کیاسمبلیوں یا بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندگان اور پارٹی عہدیداران نے شرکت کی۔

اگرچہ پارٹی کے بانی کی برسی کے موقع پر آصف علی زرداری نے پارٹی کی حکمت عملی کے حوالے سے بہت اہم تقریر کی تھی لیکن یہ تقریر میڈیا خواہ عام لوگوں میں موضوع بحث نہیں بن سکی۔ یہی صورتحال وزیراعظم میاں نوا ز شریف کے دورہ سندھ کی رہی، جو دو تین روز تک ہی موضوع بحث بنا رہا۔اس کے بعد لوگ میاں صاحب کے اس اہم اور حکمت عملی میں تبدیلی کی علامت کے طور پر کئے گئے دورے کو لوگ بھول گئے۔
میڈیا اور عام لوگوں میں زیر بحث موضوع آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا دوبارہ تبادلہ رہا۔ چند ہفتے قبل حکومت سندھ نے انہیں تبدیل کر کے ان کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کردی تھی۔ جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناہی جاری کرتے ہوئے ان کے تبادلے کو روک دیا تھا۔ گزشتہ روز ایک بار پھر حکومت سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناہی کے باوجود ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اور عبدالمجید دستی کو قائم مقام آئی جی سندھ کی چارج دے دی گئی۔ سندھ حکومت کے اس اقدام پر مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں میں تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ آخر وہ اس پولیس افسر کو عہدے سے کیوں ہٹانا چاہ رہی ہے؟
سوشل میڈیا بھی بھرپور طریقے سے اے ڈی خواجہ کی حمایت میں اتر آیا ہے۔ مخلتف تبصرے اور تجزیے پیش کئے جارہے ہیں۔ قائم مقام آئی جی سندھ عبدالمجید کے طلب کردہ اجلاس میں 47 افسران میں سے 35 افسران نے شرکت کی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے یہ پیچیدگی چل رہی ہے کہ امن و امان کے حوالے سے اس حساس صوبے کا اصل آئی جی کون ہے؟ پولیس افسران کس کا حکم مانیں ۔
صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ چونکہ امن و مان صوبائی معاملہ ہے لہٰذا پولیس سربراہ کا تقرر صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق اس میں مداخلت یا مرضی نہیں چلا سکتا۔

عدالت میں درخواست گزار ایک غیر سرکاری تنظیم پائلر کے رہنما کرامت علی کے وکیل کا موقف ہے کہ اگر حکومت سندھ کا یہ موقف مان بھی لیا جائے ، سندھ حکومت سے مراد وزیر اعلیٰ نہیں۔ بلکہ سندھ کابینہ ہے۔ سندھ کابینہ نے اے ڈی خواجہ کے تبادلے یا نئے آئی جی کے تقرر کی منظور نہیں دی ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ کو تبادلے کا نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔ اور کابینہ کا خصوصی اجلاس بلا کر آئی جی سندھ کے بتادلے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
سندھ کے ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے اے ڈی خواجہ جن کا اصل نام الہڈنو خواجہ ہے، وہ ایک فرض شناس افسر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بعض حکمران جماعت کے بعض اہم رہنماؤں کی ہدایات ماننے سے انکار کردیا تھا، کوینکہ وہ قانون یا قوائد ضوابط کے برعکس تھے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت سندھ کے اس زبردست کے فیصلے پر وزیراعظم ہاؤس خاموش ہے۔ اس خاموشی کو رضامندی کے دائرے میں شمار کیا جارہا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹنڈو محمد خان کے علاقے میں شگر ملز اور گنے کے کاشتکاروں کے درمیان پیدا تنازع اور اس سے قبل ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب پینے سے ایک درجن افراد کی ہلاکت پر اے ڈی خواجہ نے وہاں کے پولیس افسر کے خلاف جو رپورٹ دی تھی، وہی رپورٹ ان کے اور حکمران جماعت کے درمیان فاصلے کا نقطہ آغاز بنی۔اس کے بعد دن بدن معاملات خراب ہوتے چلے گئے۔
حکومت سندھ کے بااختیار حضرات نے ان کے تبادلے کے لئے مناسب وقت کا انتظار شروع کر دیا۔اس سے قبل سندھ پولیس میں میرٹ پر دس ہزار افراد کی بھرتی بھی خواجہ صاحب کے کھاتے میں آتی ہے، جہاں انہوں نے حکمران جامعت کی سفارشوں کو ایک طرف رکھ کر یہ فرض انجام دیا۔ ایک اچھے افسر کی وجہ سے سندھ میں پولیس کے لئے اچھی رائے بننا شروع ہوئی تھی، اس تبادلے سے وہ بھی ختم ہوگئی۔
صرف اتنا ہی نہیں ڈپٹی کمشنر سانگھڑ عمر فاروق بلو کا تبادلہ کردیا گیا ہے جہاں 20 اپریل کو صوبائی نشست کے ضمنی انتخابات ہونے جارہے تھے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کے اس فیصلے کو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی گردانتے ہوئے حکومت سندھ کو یہ تبادلہ رکنے کا حکم دیا لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر یہ انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں۔ ضلع میں صوبائی نشست کے ضمنی انتخابات کے علاوہ بعض مقامات پر ضمنی بلدیاتی انتخابات بھی ہونے تھے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے حکمران قانون کی بالادستی اور انتظامی برابری رکھنے کے بجائے خود صوبے میں انتظامی بحران پیدا کرنے کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین کرنی چہائے کہ بیوروکریسی کو نکیلی ڈال کر چلانے کا اب وقت نہیں رہا۔ کیونکہ میڈیا چوکس اور عدالتیں فعال ہیں۔ بیوروکریسی کے لوگ ماضی کے تجربے میں دیکھ چکے ہیں کہ کرپشن اور قانون کی خلاف ورزی کے لئے قربانی کا بکرا بیوروکریسی کو ہی بنایا گیا تھا۔ اور الٹے سیدھے کام کروا کر انہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا تھا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ حالیہ دور حکمرانی میں سندھ پبلک سروس کمیشن سب سے زیادہ تنازع ادارہ رہا ہے۔ اس ادارے کا بحران اب بھی جاری ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کے لئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سابق سفیر نورمحمد جادمانی کا تقرر کردیا ہے لیکن یہ تقرر اشتہارات دیئے بغیر کیا گیا ہے جبکہ کمیشن میں دس میں سے آٹھ اراکین کی اسامیاں تاحال خالی ہیں۔ بظاہر یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اس عہدے کے لئے اشتہار دینا ضروری نہیں کیونکہ یہ سرچ کمیٹی کا صوابدیدی اختیار ہے۔
جب ایک ادارہ اتنا متنازع بن جائے کہ اس میں عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنی پڑے تب اس کو شفاف رکھنے کے لئے اشتہار دینا ضروری تھا۔ اس کی وجہ سے شبہ ہے کہ باقی اراکین کا تقرر بھی اسی طرح سے ہوگا اور ایک بار پھر سندھ پبلک سروس کمیشن سیاسی مداخلت کے ساتھ تشکیل دیا جائے گا۔ اخبار نے مشورہ دیا ہے کہ میرٹ پر افسران کی بھرتی کے لئے کمیشن کو غیر سیاسی رکھا جائے اور اس کے ممبران کا تقرر
ایمانداری، غیر جانبداری اور میرٹ پر کیا جائے۔ صرف اسی صورت میں سندھ میں تقرریاں بھی میرٹ پر ہو سکیں گی۔

No comments:

Post a Comment