Friday, September 1, 2017

وزیراعظم کا دورہ سندھ اور شکوے . سندھ نامہ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
March 31
وزیراعظم کا دورہ سندھ اور شکوے
سندھ نامہ   سہیل سانگی
رواں ہفتے کے دوران وزیراعظم نواز شریف کا دورہ سندھ اخبارات میں موضوع بحث رہا۔ اس دورے کے سیاسی اثرات اور وزیراعظم کے اعلانات کو خاص طور پر اداریوں، کالموں اور مضامین میں زیر بحث رہے۔مجموعی طور پر وزیراعظم کے دورے اور اعلانات کا خیرمقدم کیا گیا۔ لیکن شکوہ کیا گیا کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی نے بھی اس دورے کا خیرمقدم کیا ہے۔
وزیر اعظم کے اعلانات پر عمل درآمد ہونا چاہئے ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ پیر کے روز وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں ورکرز کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے حیدرآباد کے شہریوں کی آنکھوں میں کئی گلاب کے پھول بو ئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے وقت کراچی سمیت سندھ کی صوتحال انتہائی خراب تھی۔ بدامنی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں آنے کا نام تک نہیں لیتے تھے۔ دہشتگردوں نے لوگوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ آج ہر جگہ امن ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک سے بیروزگاری، غربت اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو۔ ہماری خواہش ہے کہ جلد ہی حیدرآباد سے ملتان تک موٹر وے ک اکام شروع کردیا جائے۔ تاکہ لوگ صبح اپنے بچوں کے ساتھ ناشتہ کر کے نکلیں اور دوپہر کا کھانا ملتان میں کھائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صحت انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس لئے ہم حیدرآباد کے باسیوں کے لئے ہیلتھ کارڈ جاری کر رہے ہیں۔ جو سروے کے بعدایسے غریب اور بے پہنچ لوگوں کو جاری کئے جائیں گے جو بیماری کی صورت میں اپنا علاج رکانے سے قاصر ہیں۔
وزیراعظم نے حیدرآباد میں وفاقی یونیورسٹی کے قیام کا علان کرتے ہوئے اس مقصد کے لئے 100 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ اس کی سنگ بنیاد رکھنے کے لئے وہ جلد ہی حیدرآباد آئیں گے ۔ انہوں نے حیدرآباد میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر اور حیدرآباد کی ترقی کے لئے 50 کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا۔
وزیراعظم نے حیدرآباد میں جو اعلانات کئے ہیں وہ نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ امید افزا ہیں۔ دیر سے ہی سہی، سندھ کے لوگوں کا وفاقی حکومت کو احساس تو ہوا۔ دل لبھانے کے اعلانات تو ہوگئے اب لوگوں کو ان پر عمل درآمد کا شدت سے انتظار رہے گا۔ وزیراعظم 8 اپنے وعدوں کا کتنا بھرم رکھتے ہیں اس کا جلد ہی پتہ لگ جائے گا۔
ماضی کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو کوئی اچھا تجربہ نہیں۔ خاص طور پر جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو عام کو بڑے بڑے بڑے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ترقی اور کوشحالی کی بڑی بڑی باتں اور دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی پارٹیاں کسی پوزیشن میں آجاتی ہیں تو ان تمام وعدوں کو پشت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جس کی مشق گزشتہ سات عشروں سے جاری ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں سیاست جیسے اہم کام سے اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ لہٰذا کوشش ہونی چاہئے کہ یہ وعدے ایفا ہوں ،
پاک چین راہداری کی لاٹری بھی موجود حکومت کے دور میں کھلی ہے۔ جس سے صورتحال میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن ایک بات محرومی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔وہ یہ کہ وفاق نے چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ حزب مخالف کے اراکین یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی توجہ صرف لاہور تک ہے۔ اس الزام میں اگر مکمل صداقت نہ بھی ہو لیکن بڑی حد تک یہ بات درست نظر آتی ہے۔ اس صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ چھوٹے صوبوں کا سفر شروع کرنے سے پہلے وہاں کے لئے خصوصی پیکی دینا یقیننا وزیراعظم کی ساکھ میں اضافہ کریں گے۔ یہ ساکھ قائم تب رہے گی جب ان اعلانات پر عمل ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے خط لکھا ہے کہ وفاق پنجاب میں 37 ارب روپے کی مالیت کے گیس کے منصوبے شروع کر رہا ہے۔ سندھ کو ان منصوبوں کی منظوری پر اعتراض ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے خط میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ گیس منصبوں میں یہ توسیع آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب گیس کی ملکی پیداوار کا صرف تین فیصد دیتا ہے جبکہ 42 فیصد استعمال کرتا ہے۔
سندھ حکومت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ گیس تقسیم کرنے والی کمپنی سئی سدرن گیس کمپنی سندھ کے دیہی علاقوں میں گیس کی فراہمی سے انکار کر رہی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پارلیمانی اراکین کی 96 اسکیموں کی منظوری دیتے ہوئے ان کے لئے فنڈ بھی جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وفاق کے اس فیصلے کے خلاف تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں، اور اس طرف جلد توجہ منبذول کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
’’گیس کنیکشن پر عائد سیاسی کنیکشن ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاق کا یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی شق 158 کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی ہم آہنگی اور اتحاد کے ماحول کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ آّ ئینی طور پر جس صوبے سے گیس نکلتی ہے پہلا حق اسی صوبے کا ہے۔ لیکن وفاق نے پنجاب کے ساتھ ضرورت سے’’ زیادہ اپنائیت‘‘ دکھاتے ہوئے آئین کو بھی ایک طرف رکھ دیا ہے۔ جس کی وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے خط میں کسی حد تک نشاندہی کی ہے۔
سئی سدرن گیس کمپنی گیس کے نئے کنیکشن کی درخواستوں پر ایک طرف گیس وفاق کی جانب سے کے نئے کنیکشن پر پابندی کی آڑ میں سندھ کے دیہی علاقوں میں گیس فراہم نہیں کر رہی۔ دوسری طرف جانب پنجاب میں گیس کے بڑے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں۔ گیس کنیکشن پر پابندی صرف سندھ کے لئے کیوں؟ ملک کے پہلے صنعتی پارک خیرپور اسپیشل زون کے لئے بھی گیس کمپنی نے کنیکشن دینے سے انکار کردیا ہے۔ اسی طرح اس صوبے کے مختلف شہروں میں چھوٹی صنعتوں کو بھی گیس کے کنیکشن نہیں دیئے جارہے ہیں۔
سندھ حکومت جن اسکیموں کے لئے ایڈوانس میں ادائگی کر چکی ہے ان پر بھی کمپنی صحیح رفتار کے ساتھ کام نہیں کر رہی۔ کئی شہری اور دیہی علاقوں میں گھریلو کنیکشن کی درخواستیں بھی التوا میں پڑی ہوئی ہیں۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان مختلف وقتوں میں پانی، مالیات، اور دیگر مشترکہ مفادات کے حل کے لئے قائم مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھی یہ معاملہ اٹھانے کا وزیر اعلیٰ نے خط میں ذکر کیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ملکی امور چلانے یہی نتائج نکلتے ہیں جو وقتا فوقتا وفاق اور صوبوں کے درمیان اٹھتے رہے ہیں۔ آج کل ویسے بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے آخری مہینوں میں یہ احتجاج شدت سے سامنے آیا ہے۔ سیاسی امور اپنی جگہ پر لیکن سندھ حکومت کا یہ احتجاج بجا ہے جس پر وفاقی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اس کا ازالہ کرنا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment