Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے مطالبے پر برہمی
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’بنگالیوں کے بعد اب برمیوں کے لئے بھی شناختی کارڈ ‘‘کے عنوان سے ’’روز نامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ کراچی سیاسی حالات تبدیل ہوتے ہی پیپلزپارٹی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے کوشش اس حد تک بڑھا دی ہیں کہ اب اسکو سندھ کے مفادات ہی نظر نہیں آتے۔ پہلے صوبائی سنیئر وزیر نثار کھوڑو نے برمیوں کو پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب سنیٹ میں سندھ سے منتخب پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ برما (میانمار) کے مسلمانوں پر مظالم پر ہم چیخ پکار کر رہے ہیں۔ لیکن جو برمی پاکستان میں موجود ہیں ان کو حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ بنائے جائیں۔
ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ مختلف مواقع پر اٹھنے والے مسائل کو اپنے ووٹ بینک بڑھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ سندھ کے مفادات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔
کچھ عرصہ پہلے کورنگی میں ایک جلسہ عام میں بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا گیا وہان یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں بیس لاکھ بنگالی موجود ہیں۔ اب پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب نے سنیٹ میں بتیا ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ برمی آباد ہیں ۔ جہاں تک کراچی اور ملک میں برمیوں کی تعداد کا تعلق ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کے علاوہ کہیں بھی برمی آباد نہیں۔ سندھ حکومت نے بنگالیوں کو نہ صرف شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، بلکہ ترقیاتی منصوبوں، ملازمتوں میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف مسائل حل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے تو ان کو بھی برابری کی بنیاد پر سہولیات دی جائیں گی۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برمیوں، بہاریوں، بنگالیوں اور افغانیوں سمیت دوسرے ممالک کے تارکین وطن غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ ان میں سے بعض کو سیاسی پناہ کی چھتری مہیا کی گئی ہے۔ ان کی آبادکاری میں سہولتاری بھی کی گئی ہے۔ اور انہیں پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی بنا کر دیا گیا ہے۔
اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں دیکھتے دیکھتے کراچی کی ڈیموگرافی تبدیل ہوگئی۔ شہر میں ہزارہا کچی بستیاں وجود میں آگئی۔ کیا پیپلزپارٹی ان غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کر رہی ہے؟ پہلے بنگالیوں کے ووٹوں کے لئے اب برمیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی طاقت کا مرکز سندھ ہے۔ لہٰذا اسکو سندھ کے مفادات زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ سب پر باہر کی آبادی کا پہلے ہی دباؤ بہت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ باہر کے لوگ جنہیں غیر کہا جاسکتا ہے ، سندھ کے وسائل پر بوجھ ہیں۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ سندھ پر سے اضافی بوجھ کم کرنے کے لئے غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن کو نکالا جاتا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے انہیں قانونی شہری بنانے کے لئے سندھ کے مفادات کی دعویدار پارٹی کوشاں ہے۔ ظاہر کہ کسی پارٹی کے سنیٹر کا سنیٹ میں بیان اس پارٹی کا سیاسی موقف ہی سمجھا جائے گا۔ شناختی کارڈ کا حصول کا مطلب شہریت کا حصول ہے۔ کیا غیر قانونی طور پر مقیم کسی شخص کو وہاں کا قانونی شہری تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ دنیا کے دستور سے ہمارے سیاست دانوں کا تدبر اتنا وکھری ٹائپ اور مختلف کیوں ہے؟ ان غیروں کو نکالنے کے بجائے انہٰن شہریت دے کر کون سی سندھ کی خدمت کی جارہی ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو شہریت دینے سے آبادی کا تناسب تبدیل ہوگا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس سلسلے سے منتخب ایواں میں سندھ کے لوگوں کی نمائندگی پر کیا اثرات پڑیں گے؟
پیپلزپارٹی کے سنیٹر نے جو مطالبہ کیا ہے وہ کسی بھی طور پر سندھ کا مطالبہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اساتذہ پر تشدد کے بجائے ان کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہم سندھ میں تعلیم کی تباہی پر روز رونا دھونا کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے اساتذہ کو ذمہ دار ٹہراتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلیم کی تباہی کا ایک پہلو ہے۔ اس سے ہٹ کر انتظامی حوالے سے کئی امور ہیں جن کی وجہ سے صوبے میں تعلیم کی کشتی ڈولتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز پیر مظہر الحق کے دور وزارت میں بھرتی اساتذہ نے تنخواہیں نہ ملنے اور برطرفیوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔ جس پر پولیس نے تشدد کیا نتیجے میں دو اساتذہ زخمی ہوگئے۔ اس احتجاج میں خواتین اساتذہ بھی شامل تھیں، انہیں بھی پولیس تشدد کے دوران نہیں بخشا گیا۔ پیپلزپارٹی کے حالیہ دور حکومت کے دوران پہلے بھی اساتذہ احتجاج کرتے رہے ہیں۔ جن پر اسی انداز تشدد کیا جاتا رہا ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں تدریس کے پیغمبری پیشے سے وابستہ اساتذہ کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔
ماضی میں جو بھرتیاں ہوئی، جنہیں موجودہ حکومت تسلیم نہیں کرتی اس کے لئے یہ اساتذہ ذمہ دار نہیں۔ اس دور کے اعلیٰ عدیداران اور افسران ہیں۔ انہی سے پوچھ گچھ کی جانی چاہئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں محکمہ تعلیم سمیت مختلف محکموں میں جس طرح سے میرٹ کو ایک طرف رکھ کر بھرتیاں کی گئیں اس نے تمام محکموں کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ آج بھی صوبے میں اساتذہ کیہزارہا اسامیاں خالی ہیں۔ جنہیں پر کرنے کے لئے حکومت اعلان بھی کر چکی ہے۔ ان اساتذہ کو ان خالی اسامیوں پر بحال کرکے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے اساتذہ کوگزشتہ تین چار سال سے تنخواہیں ادا کی جاتی رہی۔ اب اچانک حکومت نے یہ اقدام کیا ہے۔
حکومت وزراء اور دیگر بااثر اراکین اسمبلی کے کہنے پر ترقرر نامے جاری کرتی رہی۔ اس دوران بھرتیوں کے آرڈر فروخت بھی ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ پر تشدد ایک بدترین عمل ہے۔ حکومت پرامن احتجاج کرنے والے اساتذہ کے مطالبات سن سکتی تھی۔ اس کے حل کے لئے کوئی راستہ نکال سکتی تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ ان اساتذہ کو سنا جائے اور ان کے مسائل حل کئے جائیں۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تھر کول کے بلاک ون میں کوئلہ نکالنے کا پچاس فیصد کام مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وہ تھر کول منصوبے کو آگے بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر وفاق اس میں دلچسپی لیتا تو ابھی ہم اس منصوبے سے دس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر رہے ہوتے۔ انہوں کہا کہ وفاق کے اس امتیازی سلوک کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے تھر کول منصوبے کے منافع میں تین فیصد متاثرہ افراد کو ادا کرنے ، دو فیصد تھر کی ترقی کے لئے تھر فاؤنڈیشن کو دینے اور گوڑانو ڈیم کے متاثرین کے لئے تیس سال تک پیکیج دینے بھی اعلان کیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے وفاق کے رویے کے بارے میں جو شکوہ کیا ہے وہ صحیح لگتا ہے۔ وفاق بتائے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے اس شکایت کی وجہ اور پس منظر کیا ہے اور اس شکایت کا فوری ازالہ کیا جانا چاہئے۔
Nai Baat Sep 16, 2017
Sindh Nama - Sindhi Press by Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment