Friday, September 1, 2017

زردری کے تین کاروباری شرکاء کی پراسرار گرفتاری سندھ نامہ سہیل سانگی

April 14, 2017
سندھ نامہ   سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ اگرچہ کوئی بہت بڑی سرگرمی نہیں نظرّ ئی لیکن سندھ میں بعض اہم واقعات ضروررونما ہوئے ہیں۔ سندھ میں پانی اور بجلی کا بحران پہلے ہی چل رہا تھا۔ ان امور پر سندھ اور وفاق کے درمیان خطوط نویسی چل رہی تھی۔ اچانک پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زردری کے تین اہم کاروباری شرکاء کی پراسرار طور پر گرفتاری نے معاملے کو گرما دیا۔ اور سندھ اور وفاق کے درمیان تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔ تین ہفتے وزیر اعلیٰ سندھ نے بجلی کی قلت پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بجلی کمپنیوں کے دفاتر پر قبضے کی دھمکی دی تھی۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز اسمبلی میں آصف زرداری کے ذاتی دوستوں کا معاملہ اسمبلی میں شدومد کے ساتھ اٹھانے کے دوسرے روز یہ دھمکی دی کہ سندھ کو اگر گیس نہ دی گئی تو سندھ سے گزرنے والی گس لائینیں بند کردی جائیں گی۔ اب وزیراعلیٰ سندھ کا لہجہ مزید جارحانہ ہو گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صوبہ 70 فید گیس پیدا کرتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت اس گیس پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہے جہاں سے گیس نکلتی ہے۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھڑو نے احتجاج اور مظاہروں کا اعلان بھی کیا ہے۔ سندھ میں پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس سے زراعت کے علاوہ پینے کے پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن کی صوبے میں پینے کے پانی کے حوالے دی گئی رپورٹ ایک بھیانک صورتحال پیش کرتی ہے ۔ جس کی وجہ سے سندھ حکومت سخت دباؤ میں بھی ہے۔ ایسے میں اگر صوبے کو مجموعی طور پر پانی کی فراہمی کم ہو جاتی ہے تو صوبائی حکومت آسانی کے ساتھ خود کو بچا سکتی ہے۔ صوبے کے شہروں میں 6 سے 8 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہے۔ حیدرآباد جیسے بڑے شہر میں ابھی گرمی کے موسم میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے اور گئی اہم علاقوں میں گیس کی سپلائی بہت کم مقدار میں کی جارہی ہے۔ صوبے میں کئی مقامات پر ابھی اپریل میں ہی درجہ حرارت 42 سے 47 تک پہنچ گیا ہے۔ حکومت سندھ کے ان مطالبات میں اس وجہ سے بھی جان ہے کہ سندھ کے لوگ حقیقی معنوں میں ان مسائل کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے اس احتجاج اور مطالبات کو عوام کی جانب سے مثبت جواب مل سکتا ہے۔ اگرچہ لوگ جانتے ہیں اور اس کا اظہار میڈیا میں بھی کیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی یہ مطالبات ایک خاص موقع پر اور کاص وجہ سے اٹھارہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت اور وفاق کی سیاست کرنے والی دیگر جماعتیں سندھ کے ان مسائل سے دور کھڑی ہیں۔
سندھ کے تمام اخبارات پانی، گیس، بجلی اور ترقیاتی منصوبوں کے معاملے میں صوبائی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اخبارات نے اداریوں، اور کالموں میں وفاقی حکومت کی توجہ صوبے کے ان اہم مسائل کی جانب منبذول کرائی ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ مطالبات بنیادی طور رپ پیپلزپارٹی کے نہیں بلکہ سندھ کے لوگوں کے مسائل ہیں جن سے چشم تہی کا مطلب صوبے کے لوگوں کو نظر انداز کرنا۔
سندھ حکومت نے ایک اور ناقابل فہم فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے ان کے خلاف کیس داخل کرنے کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔’’ روزنامہ کاوش ‘‘ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سندھ آج 2017 میں اینٹی کلاک وائیز ترقی کراتے ہوئے انتظامی طور پر 1898 میں کھڑا کیا گیا ہے۔ صوباء محکمہ داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق کوڈ آف کرمنل پروسیجر مجریہ 1898 کی شق 22کے مطابق کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو جسٹس آف پیس کا درجہ دے کر انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے خالف پولیس کیس داخل نہیں کرتی ، ان کے خلاف یہ جسٹس آف پیس مقدمہ درج کرائیں گے اور اور یہ جسٹس آف پیس ایسے ملزمان کو سزا بھی دے سکیں گے۔ ماضی میں اس طرح کے قوانین ملک فتح کرنے والے حکمران اور آمرلاگو کرتے رہے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے جمہوری دور میں بھی یہ فیصؒ ہ کیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق امن و مان یا عوامی سکون خراب کرنے سے روکنے کے لئے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کا اختیار مذکورہ بالا انتظامی افسران کو دے دیا گیا ہے۔ یوں ان انتظامی افسران کو عدلیہ کے اختیارات بھی دے دیئے گئے ہیں۔ آئین، عدلیہ اور اسمبلیوں کی موجودگی میں پہلے سے کمزور سندھ کے عام آدمی کو بیوروکریسی کے ہاتھوں مزید کمزور کرنے کا حکمنامہ جاری کردیا گیا ہے۔ اس حکم نامے پر حکمران جماعت تو خوش ہوسکتی ہے لیکن اہل فکر و نظر کے ذہنوں مین کئی سوالات ابھر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پولیس نظام میں آج کے حالات سے میچ کرنے والے اصلاحات لائی جائیں، جن کی قدامت کے بارے میں موجودہّ آئی جی سندھ پولیس اظہار کر چکے ہیں، اس کے برعکس پولیس اور کسی حد تک عدلیہ کے اختیارت بھی انتظامیہ کو دے دیئے گئے ہیں۔ ضدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس حکمنامے کا اثر سیاسی مخالفین پر بھی پڑے گا۔ بہرحال اس حکمنامے سے یہ بات عیاں ہے کہ کہ کمزور طبقات اس یکطرفہ حکم کا ضرور نشانہ بنیں گے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے لیکن یہاں حکومت اور اس کے اختیارات افسران میں مٹھی میں قید کئے جارہے ہیں۔ اس سے عوام کو حکومت میں ہونے کا احساس کیسے ہوگا؟

Daily Nai Baat

No comments:

Post a Comment