Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
نیب زدہ افسران کو بچانے کے جتن
سندھ نامہ سہیل سانگی روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے حکمران کرپشن کی کہانیوں کو مخالفین کی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اسے رد کرتے رہے ہیں۔ لیکن کرپشن کے ذریعے کمائی کے کچھ حصے کی نیب کو ’’رضاکارانہ‘‘ ادا کرنے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ کرپشن کرکے ’’ یوں رضاکارانہ ادائگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر عدالت کی برہمی کے بعد سندھ کے حکمرانوں نے ان افسران کو ملازمین ملازمت سے فارغ کرنے یا ہلکا ہاتھ رکھنے اور کارروائی نہ کرنے کے حوالے سے صوبائی محکمہ قانون اور سرکاری ماہرین قانون سے رائے طلب کی ہے۔
سندھ نامہ سہیل سانگی روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے حکمران کرپشن کی کہانیوں کو مخالفین کی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اسے رد کرتے رہے ہیں۔ لیکن کرپشن کے ذریعے کمائی کے کچھ حصے کی نیب کو ’’رضاکارانہ‘‘ ادا کرنے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ کرپشن کرکے ’’ یوں رضاکارانہ ادائگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر عدالت کی برہمی کے بعد سندھ کے حکمرانوں نے ان افسران کو ملازمین ملازمت سے فارغ کرنے یا ہلکا ہاتھ رکھنے اور کارروائی نہ کرنے کے حوالے سے صوبائی محکمہ قانون اور سرکاری ماہرین قانون سے رائے طلب کی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کی خبر آتے ہی ان افسران نے قانونی رائے اپنے حق میں دلانے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے خط لکھ کر صوبائی محکمہ قانون کو آگاہ کیا ہے کہ نیب آرڈیننس مجریہ 1999 اٹھارویں ترمیم کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ لہٰذا نیب کی 2010 کے بعد کی تمام کارروایاں غیر قانونی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ اور نیب قانون بھی ایمرجنسے کے دور میں نافذ کیا گیا تھا، لہٰذا یہ بھی غیر قانونی ہے۔
سندھ میں کرپشن کرنے والوں کو بچانے کی کوششیں خواہ کسی بھی سطح پر ہوں، کرپشن کی سہولتکاری کے دائرے میں آتی ہیں۔ حکومت اگر واقعی کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہے، اسے کرپشن میں ملوث افسران کو گرفت میں لانا ہوگا۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور بن گیا ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود کرپٹ افسران کو بچانے کے لئے راستے تلاش کئے جارہے ہیں۔ جہاں تک کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف ثبوت کا تعلق ہے، رضاکارانہ طور پر رقومات کی واپسی کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟ کرپشن کریں اور جب پکڑے جائیں، تو یہ رقم رضاکارانہ طور واپس کردی جائے۔ کیا ایسا کرنے سے یہ کرپٹ افسران پاک و پویتر ہو جاتے ہیں؟ دراصل کرپشن نے ہی اس قوم کو تباہ و برباد کیا ہوا ہے۔
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد نیب آرڈیننس مجریہ 1999 خود بخود ختم ہو چکا ہے۔ لہٰذا 2010 کے بعد نیب کی تمام کارروایوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کیا ایڈووکیٹ جنرل بہادر یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر واقعی نیب آرڈیننس 2010 میں ختم ہو چکا ہے تو سپریم کورٹ نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس داخل کرنے کے لئے نیب کو کیوں کہا ہے؟ نیب قانون اگر غیر قانونی ہے تو اسے 7 سال تک زندہ کیوں رکھا گیا؟ سات سال تک منتظمین پر یہ منکشف کیوں نہیں ہو سکا کہ یہ ایک مردہ قانون ہے؟ جب حکومت سندھ کا نیب کے بارے میں پہلی مرتبہ یہ موقف سامنے آیا کہ نیب کی کارروایاں صوبے میں وفاق کی مداخلت ہے۔ سندھ کے منتخب ایوان میں بھی جب یہ معاملہ پیش ہوا تب بھی نیب کے قانون کو غیرقانونی قرار دینے کی بات نہیں کی گئی۔ یہاں پر ہمارا موضوع بحث یہ نہیں کہ نیب قانون قانونی ہے یا غیرقانونی، ہمارا موقف یہ ہے کہ نیب دشمنی میں کرپشن کرنے والوں کے لئے نرم گوشہ کیوں رکھا جارہا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرپشن کا درخت سرپرستی کے بغیر پھلتا پھولتا نہیں۔ کرپشن کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی کی جارہی ہے۔ کرپشن افسر شاہی کی معیشت بن چکی ہے۔ جس کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوششیں ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ سندھ میں نیب کے ذریعے کرپشن کی رقم ادا کرنے والے افسران قانونی رائے اپنے حق میں بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس پر سندھ حکومت کو کوئی تشویش نہیں۔ ہم سندھ کے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کرپشن کے لئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپناتے ہوئے کسی بھی کرپٹ افسر کے لئے رعایت یا راہ فرار تلاش نہ کی جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس دادو ضلع کے پہاڑی علاقے کاچھو میں درختوں کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی کٹائی پر پانے اداریے میں لکھتا ہے کہ پولیس کی آشیرواد سے کاچھو میں درختوں کی کٹائی جاری ہے۔ لکڑی کے بیوپاریوں نے مختلف مقامی اور قیمتی درختوں کی کٹائی کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ ہر ٹریکٹر ٹرالی پر متعلقہ تھانے کی پولیس پانچ سو روپے اور چوکی دو سو روپے وصول کر رہی ہے۔ کاچھو کے علاقے میں ویسے بھی درختوں کی تعدا بہت زیادہ نہیں۔ اگر اس کٹائی کو نہ روکا گیا تو اس علاقے میں کسی درخت کا نام و نشان ہی نہیں رہے گا۔ حکومت اور محکمہ جنگلات کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ درکٹ بڑا ہونے میں کئی سال لگتے ہیں جنہیں وہ چند منٹوں میں کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف سرکاری جنگلات میں درختوں
کی کٹائی کو روکے بلکہ نئے درخت بھی اگائے۔ لیکن ہمارے پس محکمہ جنگلات میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔ ننتیجے میں سندھ درختوں سے خالی ہو رہی ہے۔ درخت انسان کا رشتہ فطرت سے جوڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی تعیمراتی کا م شروع ہوتا ہے تو بڑے پیمانے پردرخت کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سپر ہائی وسے کو چوڑا کرنے کے لئے حکومت سندھ کے اگائے ہوئے 5280 نیم کے درخت کاٹ دیئے گئے۔ سڑکوں کے کنارے پرانے درخت کاٹ دیئے جاتے ہیں لیکن نئے درخت نہیں لگائے جاتے۔ شجر کاری کے مہم کے دوران درختوں کی اہمیت کے بارے میں لوگوں کو بتانا ضروری ہے۔ حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد درختوں اور جنگلات کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ماحولیات کا تعلق اب روزمرہ کی زندگی، انسان کی بقا کے لئے ضروری قرار دیا جارہا ہے۔ محکمہ جنگلات کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ کیونکہ یہ محکمہ اپنے فرائض کی ادائگی میں ناکام رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کاچھو اور دیگر علاقوں میں درختوں کی کٹائی کو فوری طور پر روکے۔ ا س کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کی کارکردگی کا بھی بھرپور طریقے سے جائزہ لیا جائے، اور ان عوامل کی نشاندہی کی جائے جو سندھ کو درختوں سے خالی زمین بنارہے ہیں۔
Sindh Nama, Sindhi Press, Daily Nai Baat, Sohail Sangi, NAb, Corruption in Sindh
---------------------------------------------------------------------------
نیب نے پختونخوا اور سندھ کا بھی رخ کرلیا، پشاور بس منصوبے سمیت کئی محکموں اورتھر پارکر صاف پانی پروجیکٹ کی تحقیقات کا حکم
اسلام آباد(نمائندہ جنگ)نیب نے پختو نخوا اور سندھ کا بھی رخ کرلیا،پشاور بس منصوبے سمیت کئی محکموں اور تھرپارکر صاف پانی پروجیکٹ کی تحقیقات کا حکم دے دیا،چیئرمین نیب نے کہا کہ بس منصوبہ مقررہ وقت میں کیوں مکمل نہیں ہوا،نیب ٹیم نے شہبازشریف کی 5 جولائی کو طلبی کا نوٹس وصول کرادیا، فواد حسن فواد کو بھی آج طلب کرلیاجبکہ تھرپارکر، مٹھی اور چھاچھر و سندھ کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں مبینہ طور پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند کمپنی پاک اوسس کو مبینہ طورپر غیر معیاری 450 آراو پلانٹ لگانے کا ٹھیکا دینے اور پانچ ارب روپے کی خطیر رقم منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ادا کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے تحریک انصاف دور میں ٹرانس پشاور بس ریپڈ ٹرانسپو ر ٹ سسٹم کی تعمیر میں مبینہ بد عنوانی اور پراجیکٹ کےلئے مختص مبینہ طور پر 36.49 ارب روپے کی رقم جوکہ بڑھ کر تقریباً 64 ارب روپے کی
خطیر رقم ہوچکی ہے مگر ابھی تک پراجیکٹ مکمل نہ ہونے کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب خیبرپختونخوا کو شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ چیئرمین نیب نے ہدایت کی ہے کہ منصوبہ مقررہ وقت میں کیوں مکمل نہیں ہوا اور منصوبہ کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے مبینہ طور پر اخراجات بڑھنے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ قومی سرمایہ کے جائز استعمال کو یقینی بنانے اور بد عنوانی کے خاتمے کے لئے قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔علاوہ ازیں قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے تھرپارکر، مٹھی اور چھاچھر و سندھ کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں مبینہ طور پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند کمپنی پاک اوسس کو مبینہ طورپر غیر معیاری 450 آراو پلانٹ لگانے کا ٹھیکہ دینے اور پانچ ارب روپے کی خطیر رقم منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ادا کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کمپنی نے ابھی تک نہ تو 450 آراو پلانٹس لگائے ہیں اور لگائے گئے چند آر او پلانٹس مکمل طور پر فعال نہ ہونے اور ان کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر آر او پلانٹ بند ہونے کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ تھر کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے والی کمپنی کو قواعد و ضوابط کے برخلاف پوری رقم منصوبہ مکمل ہونے سےپہلے کیسے ادا کردی گئی اور اس سلسلہ میں سندھ کے متعلقہ سرکاری محکمہ منصوبہ کو مکمل کرانے میں کیوں ناکام رہا اور تھر کے غریب عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے، بیشتر آر او پلانٹس کی بندش کے باوجود متعلقہ افسران کیوں خاموش اور اپنی سرکاری ذمہ داریاں ادا کرنے میں مبینہ طور پر کیوں ناکام رہے۔ چیئرمین نیب نے تھر میں آر او پلانٹس کا پانی ٹینکروں کے ذریعے فروخت کرنے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے تاکہ مبینہ بد عنوانی اور نااہلی کے مرتکب ذمہ داران افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔دریں اثنا نیب ٹیم نے شہبازشریف کی 5 جولائی کو طلبی کا نوٹس ان کی رہائشگاہ پر وصول کرادیا جب کہ فواد حسن فواد کو بھی آج طلب کرلیا گیا۔نیب لاہور نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں 5 جولائی کو طلب کیا ہے جب کہ اسی اسکینڈل میں راولپنڈی کے حلقہ این اے 59 سے چوہدری نثار کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار قمر الاسلام کو بھی نیب نے گرفتار کیا ہے۔قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کو پنجاب پاور کمپنی اسکینڈل میں 5 جولائی کو طلب کررکھا ہے جس کےلیے نیب ٹیم نے نوٹس وصول کرادیا ہے۔ذرائع کے مطابق نیب کی ٹیم شہبازشریف کی طلبی کا نوٹس لے کر لاہور میں ان کی رہائش گاہ پہنچی جہاں باہر ہی نوٹس وصول کرایا گیا۔ دوسری جانب نے نیب لاہور نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اور موجودہ ڈی جی سول سروسز اکیڈمی فواد حسن فواد کو آج طلب کرلیا ہے۔
https://jang.com.pk/news/515115
No comments:
Post a Comment