Friday, September 1, 2017

وزیراعظم نواز شریف کا دورہ سندھ . سندھ نامہ سہیل سانگی

Daily Nai Baat April 29/28
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ میں سیاست تبدیل ہو رہی ہے یا نہیں لیکن موسم کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں یقیننا اضافہ ہو رہا ہے۔وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان کے حالیہ دوروں نے مزید شدت پیدا کردی ہے۔ صوبے کی دو بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جو گاہے بگاہے اور طویل مدت تک اقتدار میں رہتی آئی ہیں وہ بھی احتجاج کر رہی ہیں۔ خیال ہے کہ یہ احتجاج کچھ تبدیل کرنے کے لئے نہیں بلکہ کسی تبدیلی کو روکنے کے لئے کیا جارہا ہے۔
’’روزنامہ کاوش‘‘لکھتا ہے کہ حکمراں جماعت کی مثالی کارکردگی کے دعوے اپنی جگہ پر لیکن سندھ میں عوام کو گھر سے نکل کر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے اور واپس آنے کے لئے جو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے حیدرآباد میرپورخاص، جامشورو، نوشہروفیروز، ٹنڈو مستی اور گھوٹکی کے گردونواح کے لوگوں کا کمال ہے کہ وہ روزانہ اتنا بھاری تول ٹیکس ادا کرتے رہتے ہیں۔ میرپورخاص، حیدرآباد روڈ پر ڈیتھا کے پاس قائم ٹول پلازا سے لیکر نوشہروفیروز، ٹنڈو مستی، اور گھوٹکی کے پاس قائم ٹول پلازا پر ٹیکس کی وصولی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ میرپورخاص حیدرآباد روڈ کے ٹول ٹیکس کے بارے میں حکومت سندھ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اس ضمن میں 2016 میں عدالت میں پیش بھی ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد مقامی آبادی کو کسی حد تک ٹیکس میں رعایت دی گئی۔ اور ٹیکس کے ریٹ کچھ کم کئے گئے۔ اب معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہے۔ وہاں بھی جج صاحبان کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ وصول کئے جانے والے ٹیکس کے ریٹ زیادہ ہیں۔ جو حکومت سندھ کے ورکس اینڈ سروسز محکمے کو کلو میٹر کے حساب سے 2009 اور 2012 میں مقرر کرنے تھے۔ نوکرشاہی کی چلاکیوں کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا اور اب معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا ہے۔ حیدرآباد میرپور روڈ کے ٹول ٹیکس میں زیادہ رعایت نہ دینے کے معاملے میں ممکن ہے کہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا معاملہ رکاوٹ ہو، لیکن جامشورو، نوشہروفیروز، ٹنڈو مستی خان، گھوٹکی سمیت صوبے کی کئی شاہراہوں پر قائم ٹول پلازا اور وہاں ٹیکس کی وصولی کے بارے میں جب عدالت ان سے پوچھے گی تو سرکاری وکیل کیا جواب دیں گے؟ ان ٹول پلازاؤں پر تعینات عملہ عام لوگوں کی جو روزانہ بے عزتی کرتا ہے اس کی قیمت وصول کئے جانے والے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس طرح کے رویوں کی ہمارے جیسے ممالک میں کوئی حساب نہیں کیا جاتا۔ عملہ جس طرح سے آنے جانے والے لوگوں سے روش روا رکھتا ہے اس کا ذکر قانون کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ لیکن عوام کا یہ کیس حکمرانوں پر یقیننا بنتا ہے، جو عوام کی خدمت کرنے کے نام پر ووٹ لیکر اقتدار میں آتے ہیں لیکن بعد میں اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کو ستاتے رہتے ہیں۔
ایک وہ پلازا ہیں جو قانون کے تحت قائم کئے گئے ہیں لیکن وہاں پر وصول کیا جانے والا ٹیکس نامناسب ہے۔ جس کے خلاف عدالتوں میں شکایات آئی ہیں۔ ان ٹول پلازاؤں کے علاوہ صوبائی وزیراعلیٰ ان ٹول پلازاؤں سے بھی واقف ہونگے جو بااثر شخصیات نے اپنے سیاسی اثر رسوخ کی بناء پر غیر قانونی طور پر قائم کر رکھے ہیں ۔ ٹھٹہ کا یہ ٹول پلازا موجود وزیر برائے ورکس نے خود کھڑے ہو کر بند کرایا تھا۔ ایسے اور ٹول پلازا بھی قائم ہیں۔ کیا ان کے بند ہونے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کے وہاں سے گزرنے کا انتظار کیا جائے۔؟ ٹھٹہ میں غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے ٹول پلازا پر وصول کی گئی رقم کہاں گئی؟ اس کا حساب کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ’’ پلی بارگین‘‘ کے اصول کے تحت جو رقم جس کے حصے میں آئی وہ اسی کو معاف کردی گئی؟
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیاقت آباد سے مزار قائد تک ریلی نکالی۔ اور یہ الٹیمیٹم دیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو سندھ اسمبلی کے باہر ایک اور اسمبلی لگائی جائے گی۔ اور سندھ کی تقسیم کی بات کی جائے گی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے ریلی سے خطاب کرت ہوئے کہا کہ کراچی کے مالک ہونے کا دعوا کرنے والے اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ واقعی اس کے مالک ہو گئے ہیں۔ متحدہ رہنماؤں نے کہا کہ اگر بہاولپور اور ہزارہ میں علحدہ صوبے کی بات کی جاتی ہے ، ہم بھی حق نہ ملنے کی صورت میں الگ صوبے کی بات کریں گے۔
اگرچہ ایم کیو ایم کے بانی کی پاکستان دشمن تقریر کے بعد یہ جماعت کئی دھڑے میں بٹ چکی ہے۔ ان میں سے بعض پاکستان کے جھنڈے تلے پناہ لے لے کر اپنا منشور دیدہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں، دوسرے پاکستان سے محبت کے نام پر سندھ کی دھرتی کو دو لخت کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس قسم کے خیالات میں پھنسے ہوئے افراد نے ہمیشہ سندھ کے لوگوں کو دھوکے اور فریب میں رکھا ۔ یہاں تک کہ سندھ کے حکمرانوں نے بھی اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ اس سے قبل ان کے بانی بھی متعدد بار اس طرح کے مطالبات کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین سال کے دوران ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بانی نے پاکستان کے بارے میں زہر فشانی کی بیرون ملک بیٹھ کر سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کی اپنے حامیوں کو گھر کا سازو سامان بیچ کر ہتھیار خرید کرنے کی ترغیب دی۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے کہ برطانیہ میں مقیم اس شخص کے پاکستان میں موجود تنظیم پر اثرات مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ایم کیو ایم پاکستان کبھی بھی سندھ کو تقسیم کرنے کی بات نہیں کرتی۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سندھ کے لوگ اس سرزمین کے اصل مالک اور وارث ہیں۔ یہ دھرتی پاکستان کی بھی ماں تصور کی جاتی ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی اپنی ماں کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھ سکے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے اور سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والے کبھی بھی اس ملک اور اس دھرتی سے سچے ہیں ہو سکتے۔ کراچی میں ایک بار پھر شورش اور اشتعال پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کو بروقت اس کا نوٹس لینا چاہئے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبے کے مختلف شہروں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس اور پانی کی قلت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے لیکن وہ وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی گزشتہ 9 سال سے اقتدار میں ہے۔ پوری کابینہ میں بھی اسی پارٹی کے وزراء بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اس جماعت کو مظاہرے کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ جبکہ سندھ کے لوگ اپنے مطالبات منوانے کے لئے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ اور ان مظاہرین کے خلاف حکومتی مشنری کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج گیس، بجلی اور پانی کی قلت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن خود اپنے دور حکومت میں پیپلزپارٹی کیا کرتی رہی؟ اس نے عوام کو کیا رلیف دیا؟ آج بھی سندھ میں اہم ترین معاملات صحت، تعلیم اور شہری سہولیات کے ہیں۔ یہ مسائل صوبائی سطح پر حل کرنے کے لئے سندھ حکومت کووفاق نے
نہیں روکا ہوا ہے۔لیکن پھر بھی صوبائی حکومت یہ مسائل حل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ وفاق کے ساتھ اگر کچھ معاملات ہیں ان کے لئے بھلے احتجاج کیا جائے لیکن جو معاملات اپنے دائرہ اختیار میں ہیں پہلے ان کو تو درست کیا جائے۔

Sindhi Press on PM Nawaz Sharif Sindh visit
Daily Nai Baat April 29/28

No comments:

Post a Comment