Friday, September 1, 2017

نورین لغاری - سندھ میں لاکھوں لوگوں کا بھرم ٹو ٹ گیا . سندھ نامہ



Daily Nai Baat April 21, 2017

سندھ نامہ   سہیل سانگی
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ نورین لغاری سے متعلق آنے والی رپورٹس کے بعد سندھ میں ان لاکھوں لوگوں کا بھرم ٹو ٹ گا جن کا دعوا تھا کہ سندھ میں انتہا پسندی کی نوعیت وہ نہیں ہے کہ سندھ کی بیٹیاں اس کا حصہ بنیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس دن بھور بھیل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا، اس ان سند پر انتہاپسندی کے قبضے کا اعلان ہو چکا تھا۔یہاں کا اہل فکرو دانش طبقات محسوس کرنے کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے کشورپور میں پھر جیبّ باد میں اور اس کے بعد قلندر لال شہباز کی درگاہ پر دھماکے ہوئے جس میں معصوم بچے ، خواتین اور متعدد بے گناہ لوگ جاں بحق ہوگئے۔ ان واقعات کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان میں مقامی لوگ بھی ملوث تھے۔ لیکن اس پر بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں۔ جب نورین لغاری کی گمشدگی ک کی باتیں سامنے آئیں تو ہم حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائیاس پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
آخر کب تک ہم خود کو اس دھوکے میں مبلتا رکھیں گے کہ سندھ صوفیوں اور ولیوں اور دروہشوں کی دھرتی ہے؟ حقیقت بہت ہی تلخ ہی سہی لیکن یہ سچ ہے کہ انتہا پسند گروہ اپنا فکر اور فلسفہ اس سماج کی رگوں میں داخل کر چکے ہیں۔انہوں نے ہر چھوٹے بڑے شہر کے اردگرد اپنے مورچے بنا لئے ہیں۔ اب ان سے نہ تعلیی ادارے محفوظ ہیں اور نہ ہی عام لوگ۔ غربت کو بہانہ بنا کرعام لوگوں کے ذہنوں میں زہر انڈیل رہے ہیں۔ قدرتی آفات کے موقع پر نہ صرف لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ب بھی رہتے ہیں۔ سندھ میں انلوگوں کو اس لئے بھی جگہ ملتی ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں، آدرشوں اور اقدار نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ا قرباء پروری میں تمام حدود سے تجاوز کر لیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں بیگانگی اور لاتعلقی کا احساس شدت سے ابھرا ہے۔ ان کے اندر نفرت اور تکلیف پنپ رہی ہے۔ انتہا پسند گروہ اس نفرت اور بیگانگی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اسفوس کا مقام یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جامعت یا حلقہ اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار نہیں۔ اور نہ ہی ہماری پولیس اس حقیقت کو ماننے کو تیار ہے۔
نورین لغاری کے بارے میں جب خبریں عام ہونے لگیں تو پولیس نے اس کے انتہاپسندی سے تعلق کو ماننے سے انکار کر کے اسکو پسند کی شادی کا عماملہ قرار دیا۔ لہٰذا اس کی سنجیدگی سے تشویش کی ضرورت ہی نہیں سمجی گئی۔ میڈیا نے انہی دنوں میں لکھا یوتھا کہ تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں کو اپنے تعلیمی اداروں پر نظر رکھنی چاہئے۔ اور پتہ لگانا چاہئے کہ کہیں کوئی انتہا پسند گروہ ادارے میں اپنا اثر اسوخ بڑھا تو نہیں رہا۔ یا طالب علموں میں سدت پسندی کے رجحانات بڑھ تو نہیں رہے ہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ان کی روک تھام کے لئے اقدامات کی بھی ضرورت تھی۔ لیکن کسی بھی ادارے نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لای اور نہ ہی اپنے اداروں کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کیا۔ یہ لاپرائی ہی اصل میں اس سماج کا المیہ ہے۔ ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ سندھ کبھی بھی انتہا پسندی کے اثر میں نہیں آئے گی۔ لیکن اب ہمیں اس خوش فہمی سے باہر نکلنا چاہئے۔ اور زمینی حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ اگر یہ ھالات جاری رہتے ہیں ، آج نورین نے یہ قدم اٹھایا ہے کل دوسری بچیاں بھی اس طرح کا اقدام اٹھاسکتی ہیں۔ اس ضمن میں قوم پرست حلقوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ حکمران جماعت کواپنے مفادات سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کو اقتدار اور صرف اقتدار چاہئے۔ خلق خد ا کھڈے میں چلی اجتی ہے یا انتہا پسندی کی لپیٹ میں آجاتی ہے اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ایسے حکمران جو معمالی علاج کے لئے بھی بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں وہ حالات خراب ہونے کی صورت میں دیس سے بھاگ نکلنے میں کتنی دیر لگائیں گے؟ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہاں رہنا ہے اس لئے انتہا پسندی کے راستے روکنے کے لئے ہمیں ہی آگے آنا پڑے گا۔
تھر ایک بار پھر میڈیا میں موضوع بحث بن رہا ہے۔ کوئلے کی کھدائی کے دوران نکلنے والے آلودہ پانی کو گوڑانو کے مقام پر ذخیرہ کرنے کے خلاف مقامی آبادی کی مسلسل بھوک ہڑتال اور احتجاج کو چھا ماہ ہو چکے ہیں ۔ لیکن حکومت خواہ کوئلہ نکالنے والی کمپنی مقامی آبادی کو نہ سمجھا سکی ہے اور نہ ان کے خدشات دور کر سکی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی تھر کی غذائی ، صحت وغیرہ کی صورتحال کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ خم غذائیت اور امراض کی وجہ سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئندہ مون سون میں بارشیں نہ ہونے کی صورت میں حالات مزید خراب ہونگے ۔ یہ رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے مٹھی میں پانچ بچوں کے اموات پر ازخود لئے گئے نوٹس کے جواب میں پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بچوں کی اموات کا سبب، غزائیت کی قلت، پینے کے پانی کی عدم دستیابی، صحت کی سہولیات دور ہونا بتایا گیا ہے۔
محکمہ صحت کی بیمار بیوروکریسی تھر کیا س اہم مسئلے اعداوشمار کے کھیل میں مصروف ہے۔ ایک ماہ کے دوران فوت ہونے والے بچوں کی تعداد 19ہے جبکہ تین ماہ کے دوران 101 بچے موت کا شکار ہو گئے۔ سندھ حکومت کی دعا ہے کہ سول ہسپتال مٹھی میں کرأچی اچھی ہسپتالوں جیسی سہولیات موجود ہیں۔ گزشہ چند برسوں سے حکمران بچوں کی اموات کی وجہ نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں ماؤں پر ڈالتے ہیں، کبھی اس ک قدرتی حالات قرار دیتے ہیں۔ حکومت مناسب خوراک، علاج معالجے، ترقیاتی کاموں کے بارے میں کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ موجودہ حکومت کی فخریہ پیشکش آر او پلانٹس کی ناکامی کا خود حکومت اعتراف کر چکی ہے جس پر اربوں روپے خرچ کئے گئے تھے۔ تھر میں کالے سون کی دریافت کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ اب اس پسماندہ علاقے کے لوگوں کی سمت جاگ اٹھے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں وہ رہا۔ بلکہ ان کی تکالیف اور مصائب میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ حکومت کو سنجیدگی اور اپنائیت کی نظر سے تھر کے معاملے کو دیکھنے کی ضرارت ہے۔


Daily Nai Baat April 21, 2017

No comments:

Post a Comment