Friday, September 15, 2017

اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

سندھ ہائی کورٹ نے بلآخر سندھ پولیس کے سرارہ اے ڈی خواجہ کو تمام اختیارات سمیت بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ گزشتہ چند ماہ سے حکومت سندھ اور اے ڈی خواجہ کے درمیان انتظامی و عدالتی جنگ چل رہی تھی۔ صوبائی حکومت ان کا تبادلہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن سول سوسائٹی کے بعض افراد نے حکومت کے اس حکمنامہ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے ان کا تبادلہ روک دیا۔ اس عدالتی حکم کے بعد حکومت نے رولز آف بزنیس میں ترامیم لا کر اختیارات وزیرداخلہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے ہاتھ میں دے دیئے۔ صوبے بھر میں عمومی اور دارلحکومت کراچی میں خصوصی طور امن وامان کی صورتحال خراب ہے، اور صوبائی حکومت کی مدد کے لئے رینجرز کو طلب کیا ہوا ہے، وہاں حکومت اور صوبائی پولیس سربراہ کے درمیان تنازع سے عام آدمی بری طرح سے متاثر ہو رہا تھا۔ یہ تنازع مسلسل اخبارات میں موضوع بحث رہا۔ اور حکومت پر تنقید ہوتی رہی۔ 


وفاقی محکمہ شماریات نے جب مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا تو سندھ بھر میں حکومت خواہ قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ لہٰذا صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف جو بیانیہ چل رہا تھا اس میں تبدیلی آئی، اور سیاسی لڑائی کا رخ وفاق کی طرف ہوگیا۔ اسی اثناء میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بینظیر بھٹو مقدمہ قتل کا فیصلہ سنا دیا، جس میں پانچ ملزمان کو بری کردیا جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے ۔ دو پولیس افسران کو قید اور جرمانہ کی سزائیں سنائی گئی۔ پرویز مشرف کو بھگوڑا قرار دیا گیا۔ یہ تین مضوعات سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہے۔ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے فیصلے پر سندھ کے تمام حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا اور اس کی ذمہ داری استغاثہ کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی پر بھی ڈالی کہ وہ اپنے دور حکومت میں اس مقدمے کی صحیح طور پر پیروی نہیں کر سکی۔ اور مقدمے کے اہم ملزم ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے عہدے سے ہٹانے کے بعد اہتمام کے ساتھ بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کی وجہ سے پیپلزپارٹی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی اور اس کو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کا علان کرنا پڑا۔ 



چوتھا اہم معاملہ ایم کیو ایم پاکستان کے سندھ اسمبلی میں رہنما اظہار الحسن پر عید کے روز قاتلانہ حملے میں کراچی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم کے ملوث ہونے کے بعد سامنے آیا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے معاملے کو کچھ اس طرح اٹھایا کہ صوبے کی جامعات میں دہشتگرد پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یونیورسٹی طلباء کی سیکورٹی آڈٹ کا اعلان کردیا۔ کراچی یونیورسٹی نے بھی اسی طرح کی پالیسی کا منصوبہ بنایا۔ 



’’اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟‘‘کے عنوان سے روز نامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والی رکن سندھ اسیمبلی پر عید کے روز قاتلانہ حملے نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ پہلا شبہ لندن سے دھمکیاں بھیجنے ولاوں پر کیا گیا۔ لیکن سندھ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے دوران شبہ بعض دیگر عناصر پر کیا گیا۔ سندھ پولیس کے مطابق حملہ آور کا تعلق انصار ال شریعہ اپکستان سے ہے۔ جو کہ کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کے طالب علم رہے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر ملک کے تعلیمی اداروں سے انتہا پسند ذہن پیدا کرنے کا سوال سامنے آیا ہے۔ اس حملہ کو صرف ایک واقعہ کے طور پر نہیں لینا چاہئے ، بلکہ اس انداز سے بھی لینا چاہئے کہ آئے دن اعلیٰ تعلیمی ادروں سے تعلیم یافتہ نوجوان دہشتگردی میں ملوث نکل رہے ہیں۔ اس کے کیا اسباب ہیں؟ 



سنیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے طلباء کا ریکارڈ خفیہ اداروں سے آڈٹ کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کو خط لکھا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یونیورسٹیز میں طلباء یونین بحال کرنے اور وہاں ادبی اور دوسری غیر تدریسی سرگرمیاں بڑھانے سے صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔ 

انتہا پسندی اور تشدد کی سونامی نے صرف مدار کو ہی نہیں بلکہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دہشتگرد کارروئیوں میں ملوث گرفتار بعض ملزمان کا جامعات کے طلباء اور ملازمین کے طور رپ شناخت ہوئی ہے۔ 


انتہا پسندی کا زہر معاشرے کے پورے جسم میں سرایے کر گیا ہے۔ کراچی کی یونیورسٹیں ہوں یا جامشورو اور خیرپور کی یونورسٹیاں، وہاں انتہا پسندی کے پاؤں کے نشان ملتے ہیں۔ قلندر لال شہباز کی درگاہ پر حمہ آور کا تعلق بھی ایک یونیورسٹی سے تھا۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری لاہور تک جا پہنچی تھی۔ ان عناصر کی نگرانی کرنا ان اداروں کی ہے جو ریاست کی آنکھیں اور کان تصور کئے جاتے ہیں۔ یا ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ہے؟ تعلیمی ادارے طلباء، والدین اور انتظامیہ کے ربط سے چلتے ہیں۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلباء کی تعلیمی پروگریس رپورٹ سمیت ان کی تمام سرگرمیوں سے متعلق والدین کو آگاہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں سے بری الذمہ سمجھا جائے۔نصاب میں تبدیلی لانے سے متعلق سنیٹ چیئرمیں کیاس تجویز کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ اصل سوال طلباء کی سوچ اور فکر تبدیل کرکے اسکو مثبت بنانا ہے۔ لیکن یہ کام سائنسی انداز سے کیا جانا چاہئے۔ 



روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ ھکومت نے مردم شماری کا معالہ بین الصوبائی کمیٹی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اپنا جو کیس تیار کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز کی سطح پر گڑ بڑ ہوئی ہے۔ محکمہ شماریات کے ڈیٹا نٹری آپریٹرز کا تعلق ایک خاص صوبے سے ہے۔ سندھ کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز اور دیگر ملازمین کے ذریعے من پسند نتائج تیار کئے گئے ہوں۔ 



سندھ حکومت کا یہ موقف بھی ہے جن خاندانوں اور افراد کو شمار کیا گیا، ان کو اپنے ڈٰٹا کے بارے میں لاعلم رکھنا عالمی اصولوں اور حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ محکمہ شماریات جعلی ڈٰیٹا کے حوالے سے سندھ حکومت کے تحفظات دور نہیں کر سکی ہے۔ سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ مردم شماری کے عمل میں بعض فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن کو بھی بطور پاکستانی شمار کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ نہایت ہی اہم ہیں۔ ان نکات کا تدارک ہونا اور صوبائی حکومت کے تحفظات دور رکنا ازحد ضروری ہو گیا کیونکہ مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ شماریات اور وفاقی حکومت اس کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے سنجیدگی سے لے گی۔


Sindh Nama,  Sohail Sangi 
Nai Baat Sep 9, 2017 

No comments:

Post a Comment