Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی
مردم شماری کے اعداد وشمار پر بلاتفریق صوبے کے تمام سیاسی و سماجی حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اپنے اداریوں، مضامین اور کالموں میں مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا ہے۔ روزنامہ عبرت پیپلزپارٹی مردم شماری کے نتائج پر کیا کرتی ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف کمشنر شماریات نے حکومت سندھ کے مردم شماری کے نتائج کے بارے میں اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری کے دوران ایک ایک شخص کو شمار کیا گیا ہے۔ سنیٹ کی کمیٹی برائے کی شماریات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کی ساکھ، شفافیت اور سیکیورٹی کے لئے فوج کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ فوج اور محکمہ شماریات کے پاس موجود ریکارڈ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اور مردم شماری کے دوران 20 فیصد شناختی کارڈز کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی گئی تھی۔ لاہور اور کراچی کی شہری آبادی کے اعداد وشمار سے متعلق انہوں نے بتایا کہ لاہور پورے ضلع کو اربن ڈکلئر کیا گیا تھا۔ کراچی کے چھ میں سے دو اضلاع کو اربن قرار نہیں دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
مردم شماری کا معاملہ سندھ کے لئے نہایت ہی حساس ہے۔ اسکو نہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کہ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت مالی وسائل ملیں گے۔ اگر سندھ کے لوگوں یا سندھ حکومت نے کسی سستی کا مظاہرہ کیا صوبے کو مستقل طور اس کے نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے۔ اس معاملے پر صرف اعتراضات سے کام نہیں چلے گا بلکہ دلائل کی بنیاد پر اسے مسترد کرنا پڑے گا۔ آل پارٹیز کا انعقاد مثبت عمل ہے، کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔
اگر سندھ حکومت نے مردم شماری کے حوالے سے کوئی سروے نہیں کریا ہے ، فوری طور پر ایسا سروے کرایا جائے تاکہ مردم شماری کے نتائج کو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ مسترد کیا جاسکے۔ چیف کمشنر شماریات کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص گنتی سے باہر نہیں رہا ہے۔ مردم شماری پر 17 ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں ، اگر سندھ حکومت کا ہر فارم کی فوٹو کاپی دینے کا مطالبہ مان لیا جاتا تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑتا؟ جبکہ سندھ حکومت روز اول سے مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کر چکی تھی۔
سندھ کو مالی وسائل کی تقسیم، ملازمتوں میں جائز حصے، ترقیاتی فنڈز، پانی کی تقسیم کے حوالے سے شکایات رہی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مردم شماری فارم کی ایک کاپی سندھ حکومت کو بھی دینے کی فرمائش کی تھی۔ لاہور کی آبادی ل کراچی کی آبادی کے قریب بتائی گئی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا گیا کہ ملک کے مختلف علاقوں سے کراچی ملک بھر کے لوگوں کی پناہ گاہ ہے جہاں روزانہ ہزارہا لوگ آکر آباد ہو رہے ہیں۔ جبکہ لاہور اس طرح کے influx سے محفوظ ہے۔ پیپلزپارٹی کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ سندھ کے اجتماعی مفادات کے لئے کیا کرتی ہے۔
’’مشکوک پولیس مقابلے ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ سرف گزشتہ پیر کے روز خیرپور، گمبٹ اور ککڑ کے قریب پولیس مقابلوں میں 6 افراد کو ’’ہاف فرائی‘‘ کیا گیا۔ گمبٹ میں کھڑا برادری نے مقابلے کو جاعلی قرار دے کر اس کے خلاف مارچ کیا اور دھرنا دیا۔
پولیس کارروایوں کے لئے سندھ میں نئی اصطلاحیں آگئی ہیں۔ پولیس کی لغت میں کسی کو مقابلہ قرار دے کر گولیوں سے مارنے کو ’’فل فرائی‘‘ اور گولیوں سے زخمی کرنے کو ’’ ہاف فرائی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ سندھ پولیس جعلی مقابلوں کے لئے بڑی شہرت رکھتی ہے۔ جعلی مقابلوں میں اتنے لوگ مارے یا زخمی کئے گئے ہیں کہ اب کسی پولیس مقابلے کی خبر آتی ہیخواہ یہ مقابلہ درست ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شکوک ا شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ شبہات پولیس کے کردار کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ پولیس کے پاس ایک ہی ’’ پلاٹ‘ تیار ہوتا ہے. صرف کردار تبدیل ہوتے ہیں۔ پولیس کا بیان کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ خفیہ اطلاع پر پولیس پہنچی اور مقابلہ ہوگیا. جس میں انتے ملزمان مارے گئے۔ خیرپور اور گمبٹ کے مقابلوں میں یہی پلاٹ ہے۔ البتہ ککڑ کے واقعہ میں تھوڑی تبدیلی کی گئی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ چھاپے کے دوران گاؤں والوں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اور تین اہلکاروں کو زخمی کردیا۔ گاؤں ولاوں کے اس الزام کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ اہلکاروں نے اکبر اور خالق برہمانی کو گرفتار کرنے کے بعد زخمی کیا۔
اگر کوئی ملزم ہے ، اسے سزا تک پہنچانے کے لئے قانون کا راستہ موجود ہے۔ سزا دینا عدالت کا کام ہے، نہ کہ پولیس یا کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کا۔ ہوتا یہ ہے کہ پولیس رات کے اندھیرے میں کسی گاؤں یا بستی پر اس طرح سے حملہ آور ہوتی ہے ۔. جس طرح سے قدیم زمانے میں دشمن لشکر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہم اس رائے کے ہیں کہ کسی کو بھی قانون سے بچنا نہیں چاہئے۔ جرم میں ملوث ملزم کو سزا دینا عدالت کا کام ہے، اس پر سختی سے کاربند ہونا چاہئے۔ ہم سمجھت ہیں کہ مشکوک مقابلوں کی تحقیقات ہونی چاہئے اور قانون کی حکمرانی اور پاسداری کو یقینی بنانا چاہئے ۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ پاکستان میں شہریوں کو کبھی بھی انسانوں جیسی زندگی گزارنا نصیب نہیں ہوئی ۔وہاں آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو رہاہے جس کا مردم شماری کے حالیہ نتائج سے ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے متعدد مسائل پر غیر سنجیدگی نظر آتی ہے ، ایسے میں آبادی میں اس تیز رفاری کے ساتھ اضافے نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔یہ صحیح ہے کہ آبادی میں اضافہ کا مسئلہ دنیا بھر میں ہے۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کام ہو رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ مردم شماری کے حالیہ نتائج کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ آج بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، پسماندگی، بیروزگاری، اور جہالت بڑے مسائل ہیں۔ اوپر سے آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کو روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کرے۔ تاکہ ملکی وسائل اور اآبادی میں خوشگوار تناسب پیدا ہو سکے۔ اور ملک کے باسی اچھی زندگی گزار سکیں۔
روزنامہ نئی بات 2 ستمبر 2017
روزنامہ عبرت ۔ سندھ نامہ ۔ روزنامہ کاوش ۔ سندھ ایکسپریس ۔ مردم شماری 2017 ۔ پولیس مقابلے ۔ سندھی پریس
Nai Baat, Sindh Nama, Sindhi Press, Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment