Friday, August 16, 2013

سندھ میں تبدیل کیا ہوا؟


سندھ میں تبدیل کیا ہوا؟

گزشتہ ڈیڑھ سال سے نواز شریف کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا وجود ملک گیر پارٹی کے طور پر منوائیں لیکن پنجاب کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں یہ کام وہ پارٹی کی مخصوص پالیسیوں، تنظیمی رکاوٹوں او ر ٹیم میں بااعتماد ساتھیوں کی کمی کے باعث نہ کرسکے۔سندھ میں انہوں کچھ تجربے کرنے کی کوشش کی۔ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کی شمولیت اس سلسلے کی کڑی ہیں۔اس کے علاوہ ماروی میمن نے عوامی سطح پر جانے کی بھرپور کوشش کی۔مگر پارٹی مرکزی قیادت اور صوبے میں موجود بااثر شخصیات نے انہیں مزید کام کرنے سے روک دیا۔یہ کوئی اتنا خاص کامیاب تجربہ بھی نہیں تھا جسے دوسرے صوبوں میں بھی دہرایا جاسکے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نواز شریف نے ملک بھر میں پارٹی کو منظم کرنے کے بجائے اتحادوں کی سیاست پر انحصار کیا۔ بلوچستان میں سردار مینگل سے عملی مفاہمت پیدا کی جس کے بعد اسلام آباد اور لاہور کے دانشوروں نے سرادار اختر مینگل کے بیانات کو وفاق کی طرف بڑھایا ہوا آخری ہاتھ اور آخری آواز قرار دیا۔ نواز شریف کی کوششوں سے ابھی سندھ میں 22 جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد بنایا ہے۔ جس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی اکیلی ہو گئی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس پارٹی کی جیت مشکوک ہوگئی ہے۔ نواز شریف نے جب اس مرتبہ سیاست شروع کی تو انہوں نے سندھ میں مختلف گروپوں کے ساتھ الگ الگ انڈر اسٹینڈنگ بنائی۔ انہوں نے سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹر قادر مگسی، عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے جلال محمود شاہ سے الگ الگ رابطے کیے۔ ان رابطوں کے بعد جلال محمود شاہ نے بھانپ لیا کہ نواز شریف کے اشتراک سے سندھ میں حکومت مخالف جو گروپ ابھر رہا ہے۔ اور نوز شریف کے پاس ان کی پارٹی میں خواہ اتحادیوں میں کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں ہے جو سندھ میں اس لابی کو قابل قبول ہو۔ انہوں نے باقی اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر نواز شریف سے تحریری طور پر معاہدہ کرلیا۔یوں وہ دوسرے قوم پرستوں کے مقابلے میں نواز شریف سے زیادہ قریب ہو گئے۔ ایسا کرکے جلال محمود شاہ نے لیاقت جتوئی کے نمبر کم کردیئے جو سندھ میں نواز شریف کی لابی کی سندھ میں سربراہی کے خواہاں تھے۔ لیاقت جتوئی نے حال ہی میں منعقد ہونے والے سیوہن کے ضمنی انتخابات میں جلال محمود شاہ پر اپنا غصہ یوں نکالا کہ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں سامنے اپنے میداور کو نہیں ہٹایا۔ایسا کرکے لیاقت جتوئی نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جلال محمود شاہ کی پوزیشن خود اپنے آبائی حلقے میں بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ بعد میں جب متنازع بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک چلی تو جلال محمود شاہ بآسانی سندھ بچایو کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔آگے چل کر جب بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک چلی تو مسلم لیگ فنکشنل سندھ میں حکومت مخالف تحریک کی قیادت کی دعویدار کے طور پر سامنے آئی۔ پیر پگارا نے قوم پرستو ں جماعتوں اور دیگر گروپوں کو اپنی چھتری کے نیچے جمع کرلیا۔ حکومت مخالف دھڑے کے کھڑا ہونے کے بعد سندھ کے حوالے سے نواز شریف یا کسی اور کو بات کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے نہ قوم پرستوں سے یاجلال محمود شاہ سے بات کرنے کے بجائے پیرپگارا سے ہی بات کی۔ ادھر نواز شریف کی ڈاکٹر قادر مگسی اور ایاز لطیف پلیجو کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ اور جلال محمود شاہ کا نواز شریف سے کیا گیا تحریری معاہدہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اب پیر پگارا اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے فیصلے اہم بن گئے۔ پیر پگارا نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے گزشتہ ہفتے نواز شریف سے ہونے والی بات چیت کی توثیق قوم رستوں یعنی سندھ بچایو کمیٹی سے ایک میٹنگ میں کرالی ۔ سندھ میں نواز شریف کی سیاست اس مرتبہ قوم پرستوں سے بات چیت سے شروع ہوئی ۔ جس میں قوم پرست جماعتوں نے سندھ کے مطالبات رکھے اور پنجاب اور نواز شریف کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا اور بعض یقین دہانیاں بھی مانگی ۔ یوں سندھ کے مطالبات کا رخ پنجاب مخالف یا پنجاب سے کچھ لینے کے بارے میں تھا۔ اس اثنا میں پیپلز پارٹی پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس لے آئی۔ اس متنازع قانون نے سندھ میں تحریک کو جنم دیا اور سندھ کے سیاسی حلقے اس قانون کو سندھ کی وحدت پر حملہ قرار دے رہے تھے۔ اس قانون نے جدوجہد کا رخ اور جدوجہد کی قیادت کو بدل ڈالا۔ اب جدوجہد کا رخ پنجاب مخالف نہیں بلکہ کیو ایم مخالف ہوگیا۔ اس جدوجہد میں نواز شریف بھی قوم پرستوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس بات نے نواز شریف اور پنجاب دونوں کو سوالات اور یقین دہانیوں سے بری کرلیا۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فنکشنل لیگ سندھ کا کیس تب تک نہیں اٹھایا جب تک اس کا رخ پنجاب مخالف تھا۔وہ ایسے وقت میں سامنے آئی جب تضاد سندھیوں اور ایم کیوایم کے درمیان تھا۔ سندھ میں نیا منظرنامہ متنازع بلدیاتی نظام لاگو کرنے کے بعد ہی بنا۔ اس چکر میں سندھ کا اصل ایجنڈا گم ہوگیا اور صرف ایک ہی مطالبہ ہونے لگا کہ بلدیاتی قانون واپس لیا جائے۔ اب جب حکومت نے یہ قانون واپس لے لیا ہے اور ایم کیو ایم حکومت سے علحدہ ہوگئی ہے تو عملی طور پربلدیاتی نظام کی مخالفت کا ایک نکاتی ایجنڈا ہی ختم ہو گیا ہے۔ البتہ یہ شبہ اپنی جگہ پر ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس قانون کو دوبارہ نافذ کر سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ماضی کے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ اس کے پاؤں تب تک نہیں اکھیڑے جا سکتے ہیں جب تک شہری علاقے اس کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔1977ء کی پی این اے کی تحریک، بینظیر بھٹو کی دو حکومتوں کا جانا یہی بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں کی مخالفت کے بعدیہ سب کچھ ہوسکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایم کیوایم کو ہاتھ نکلنے نہیں دے رہی ہے اور ہر حال میں اسے ساتھ رکھنا چاہ رہی ہے۔ جہاں تک الیکشن اور سندھ میں ووٹ بنک کا سوال ہے ان دونوں پیپلز پارٹی اس طرح سے نہیں دیکھتی جس طرح سے مخالفین دیکھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی خالصتاً وڈیروں کے اسٹائل سے انتخابی عمل کو دیکھتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ’’ فلاں وڈیرے یا رئیس کے پاس اتنے ووٹ ہیں۔ اس کو اس طرح یا اس طرح اپنے ساتھ ملالیا جائے گا۔ باقی کچھ ووٹ پارٹی کے ہیں۔ کوئی کوئی مضبوط امیدوار میدان میں نہیں لہٰذا یہ سیٹ پکی ہے‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ سندھ میں سیاسی یا فکری حوالے سے پیپلز پارٹی کمزور ہوئی ہے کیونکہ یہ دونوں حلقے اس کے خلاف کھڑے ہیں تاہم عملی طور پر یا الیکشن کے حوالے سے پیپلز پارٹی اتنی کمزور نہیں ہوئی ہے۔ نواز شریف ، فنکشنل لیگ یا ان کے اتحادی قوم پرست کسی بھی حلقے میں اس کو نہیں چبھتے۔ سندھ میں فنکشنل لیگ کے پاس صوبائی اسمبلی کی 7نشستیں ہیں۔ سیاسی فضا میں تبدیلی اور تمام زور لگانے کے بعد فنکشنل لیگ ایک دو نشستوں کا اضافہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک دو نشستوں پر پیپلز پارٹی کو دقت درپیش آسکتی ہے مگر مجموعی طور سندھ میں اس پارٹی کی نشستوں پر اثر نہیں پڑ رہا ہے اورموجودہ صورت حال میں اس کو کوئی بڑا سیٹ بیک نہیں ہے۔

سندھ کے بارے میں سنجیدہ سوال


سندھ کے بارے میں سنجیدہ سوال

بعض زمینی حقائق نے سنجیدہ سوال پیدا کردیا ہے کہ کیا سندھ جو صوفیوں کی سرزمین تھی، رواداری ، بھائی چارے ، امن اور آشتی کی زمین تھی، وہ اب ایسی نہیں رہی؟ گزشتہ چند برسوں سے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہو رہے تھے جو سندھ کی روایتی رواداری کی نفی کرتے تھے۔ مگر گزشتہ دنوں شکارپور اور جیکب آباد میں ایک روحانی پیشوا کے کارواں پر اور اس کے چند روز بعد ایک درگاہ پر حملوں نے اس سوال کو مزید تیز کردیا ہے۔

امن اور آشتی کی سرزمین سندھ اب دھماکوں سے گونجنے لگی ہے۔ سندھ کے لوگ اس طرح کے دھماکوں کی آواز کے عادی نہیں تھے۔ درگاہوں اور خانقاہوں پر حملوں کے بعد روایتی میلے اور اس طرح کے ثقافتی اجتماعات کی راہیں بھی مسدود ہو رہی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ سندھ نسلی یا لسانی، خواہ مذہبی اعتبار سے، رواداری کی سرزمین رہی ہے۔اس مٹی میں اتنی صلاحیت رہی ہے کہ باہر سے آنے والے خواہ وہ لشکر کشی کے دوران آئے یا افریقہ سے غلام بن کر یہاں بکے، ان کو اپنی گود میں سمو لیا اور یہاں کی آبادی کا حصہ بن کر رہے۔ یہاں مختلف مذاہب ایک ساتھ رہے جن میں کوئی ٹکراؤ یا تصادم نہیں تھا۔

قلندرلال شہباز کے فقیروں کی دھمال، شاہ عبداللطیف بھٹائی کافکر، سچل سرمست کی شاعری، شاہ عنایت شہید کی مزاحمتی جدوجہد کے اصل رنگ ایک ہی ہیں۔ ان کے پیروکار ہندو اور مسلمان دونوں رہے ہیں۔ اڈیرولال اس کی آگے بڑھی ہوئی مثال ہے جہاں ایک ہی درگاہ کے ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف ہندو آکر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں۔

لیکن سندھی سماج تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں بعض تکلیف دہ علامات سامنے آئی ہیں۔ قبائلی ، سرداری اور برادری کا رجحان بڑھا ہے۔ صوبے کی آبادی کے ایک حصے میں ہندوؤں اور عورتوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے ۔ بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کی آمد اور ان کے یہاں آکر آباد ہونے سے سماجی، معاشی ، سیاسی اور ثقافتی صورت حال بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ زندہ رہنے کے وسائل پر باہر کے لوگوں کے قبضے نے مقامی آبادی کے لیے وسائل کو محدود کردیا ہے جس نے بدترین غربت کو بڑھایا اور لوگوں میں بیچارگی کا احساس بڑھا۔ قانون اور ریاست کے ادارے لوگوں کی مدد کو نہ آئے تو وہ قبائلی اور برادری پرستی میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ جس کے نتیجے میں انارکی بھی بڑھی اور مذہبی انتہا پسندی کو بھی جگہ ملی۔ سندھ کی رواداری اور پیار ومحبت کے کلچر پرریاست کی پالیسیاں بری طرح سے اثرانداز ہوئی ہیں ۔ سیاسی اور معاشی پالیسیاں کچھ ایسی رہی کہ تمام مثبت روایات دم توڑنے لگیں۔ اب تو سب اہل دانش یہ ماننے لگے ہیں کہ ملک کی سیاست میں آلودگی کے تین بڑے اسباب رہے ہیں۔ پہلا عنصر خارجی ہے۔ جس میں ملک کی خارجہ خواہ اندرونی پالیسیاں امریکہ کے ماتحت بنائی گئیں۔ دوسرے دو عنصر اندرونی ہیں جس میں سیاست میں مذہب کا کردار بڑھا، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جس کی وجہ سے کوئی سیاسی نظام نہیں بن سکا۔ان تین عناصر کی وجہ سے ملک میں اپنا معاشی نظام نہیں بن سکا۔ ملکی سیاست میں مذہب کا کیا کردارہو؟ بانیان پاکستان کا نقطہ نظراس سے بہت مختلف تھا جو آج ہمیں بتایا جارہا ہے۔ یا جس پر ہم عمل پیرا رہے ہیں۔ یہ بات آج علمی سطح پر تو کہی جاتی ہے مگر عملی طور نہ تو مانی جارہی ہے اور نہ کی جارہی ہے۔ اگر بات کی تہ تک جایا جائے تو پتہ چلے گا کہ آج ملکی سلامیت کوجو خطرات درپیش ہیں وہ ناگزیر طور پر مذہب کے حوالے سے ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہیں جو اب انتہاپسندی کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ اس انتہا پسندی نے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج تباہ کیا ہوا ہے۔ ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا دیاہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ معاشرہ دہشت زدہ ہے۔ چاروں طرف خوف کے سایے ہیں۔ پہلے شدت پسند وں کی کارروائیاں صرف قبائلی علاقوں تک محدود تھیں۔اس کے بعد شہری علاقوں تک پہنچیں۔اور اب دیہی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ انتہاپسند معاشرے کے بعض کمزورحصوں میں مقبول ہورہے ہیں۔ جس انتہا پسندی کو آج ہم بھگت رہے ہیں اس کا آغاز اس بات سے ہوا کہ قیام پاکستان کے بعدان عناصر کو خوف محسوس ہوا کہ نیا ملک اگر جدید مسلمان ملک بن گیا، ان کے مذہبی نظریات خطرے میں پڑ جائیں گے۔انہوں نے نوزائیدہ ریاست کی سیاست اور حکمرانی پر قبضہ کرنے کی مرحلہ وار حکمت عملی بنائی۔ جب ضیاء الحق حکومت میں آیا تو اس پر عمل درآمد شروع کیا گیا۔ ملک کے ابتدائی دنوں میں جمہوری عمل میں مداخلت اور آئین بنانے میں ناکامی نے اس طرح کے مذہبی حلقوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ بلند کریں۔ رجعت پسندانہ مذہبی خیالات نے ریاستی ڈھانچے میں ایوب کے دور حکومت میں راستہ بنایا۔ بعض عالمی قوتوں کی ایماء پر رجعت پسندانہ خیالات کو مذہب کے نام پر پروان چڑھایا گیا۔ کیونکہ یہ غیرملکی قوتیں مذہب کو کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لیے ایک مؤثر ہتھیار سمجھتی تھیں۔ آگے چل کر سرد جنگ میں جتنی تیزی آتی گئی اتنا ہی ان رجعت پسندانہ خیالات کو مضبوطی ملی۔افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد کے بعد ان مذہبی عناصر کے لیے کامیابی کو مزیدیقینی بنادیا۔ باہر کی مالی اعانت اور حکومت اور میڈیا کی سرپرستی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے ایک آلے کے طور رپر استعمال کیا گیا۔ آگے چل کر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کی بنیاد پر پالیسیاں بننے لگیں جس میں خود وقت کی حکومت نے بھی کردار ادا کیا۔ بڑے پیمانے پر مدارس کھلنے لگے۔ 1979ء میں پڑوسی ملک ایران میں انقلاب آنے سے شیعہ انتہا پسندی بڑھی۔ضیاء الحق نے مارشل لاء لاگو کرنے کے بعد اسلام کا بنیاد پرستی پر مبنی فکر پھیلانا شروع کیا۔انہوں نے دیو بندی اور جماعت اسلامی کے نظریات پر بھروسہ کیا۔اب تو نہ صرف شیعہ سنی بلکہ بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر تقسیم چل رہی ہے جس میں بعض عالمی قوتوں کے ملوث ہونے کی علامات نظر آنے لگی ہیں۔ رجعت پسندانہ مذہبی خیالات اور مذہبی خیالات کو پروان چڑھانے میں تعلیمی نصاب نے بھی کام دکھایا جو کہ تعصب پر مبنی رہا ہے۔اور مذہبی رواداری کی نفی کرتاہے۔ قیام پاکستان سے پہلے سندھ میں مذہبی حوالے سے الگ مکاتب فکر تھے جو انڈیا کے مکاتب فکر سے مختلف تھے۔ لیکن ملکی سیاست، حکومتی پالیسیوں، بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کی آمد نے سندھ کے ان مذہبی مکاتب فکر کوپیچھے دھکیل دیا۔ اب سندھ میں بڑی حد تک مذہبی حوالے سے وہی صورت حال بنی ہوئی ہے جو ملک کے کسی اور جگہ پر ہوسکتی ہے۔ فکری، ثقافتی اور سماجی طور پر ملاوٹ نے سندھ کے فائبر کو تہس نہس کردیا ہے۔ سندھ میں یہ اندیشہ ظاہرکیاجارہا ہے کہ ممکن ہے کہ سندھ میں بیک وقت نسلی اور مذہبی فسات کرائے جائیں۔ اس کے بعد کمزور سندھ کو آسانی کے ساتھ تقسیم کیا جاسکے۔ صدیوں سے صوفیانہ شناخت رکھنے والے سندھ کو اب انتہاپسندی کا اجگر نگل رہا ہے۔سندھ پہلے ہی برادری جھگڑوں میں پھنسا ہوا تھا۔ اب مذہبی رواداری کا درس دینے والی درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ سندھ کے تصوف پر کوئی بڑا وار ہونے والا ہے۔

سندھ میں متبادل قیادت کا خواب


سندھ میں متبادل قیادت کا خواب
پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے سندھ میں تشکیل کردہ دس جماعتی اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سوال پر اختلافات کا شکار ہو گیا ہے۔ اور کئی مقامات پر اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنے علیحدہ امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتحاد میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف میڈیا میں بیان بازی بھی کر رہی ہیں ۔ یہ گرانڈ الائنس پیر پگارا کی چھتری کے نیچے قائم ہوا اور ان کا اتحاد نواز لیگ سے ہے۔کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ نواز شریف سے سندھ کی صورت حال نہ سنبھل سکی تو سندھ کا ٹاسک اب فنکشنل لیگ کو دے دیا گیا ہے جس کو حکومت میں اب جونیئر پارٹنر کے طور پر لیا جائے گا؟ پرانے سیاسی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب
اسلام آباد کے لیے سندھ کے قوم پرست ترجیحات میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں جو اپنی نوعیت میں ترقی پسند اور سیکولر جماعتیں رہی ہیں اور پیروں، میروں اور وڈیروں کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں ہیں اب میروں پیروں کی قیادت میں آکر بیٹھی ہیں۔ نہ صرف اتنا بلکہ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتوں کے
ساتھ اتحاد کئے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں بھی اس طرح کے اتحاد بنتے رہے ہیں۔ سندھ قومی اتحاد 1988ء کے اتخابات کے موقع پر بنا تھا۔ اس وقت جی ایم سید زندہ تھے۔ نوے کی دہائی میں بھی سندھ قومی اتحاد کے بینر تلے قوم پرستوں نے انتخابات میں حصہ کیا۔ دونوں موقعوں پر ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی سے تھا۔جس کا اور کسی کو فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو دادو کے جتوئی خاندان کو فائدہ ہوا۔ اور وہ صوبے کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کر سکے۔ مگر اس مرتبہ قوم پرست کسی اور فائدہ دینے کے موڈ
میں نہیں لگتے۔ موجودہ دس جماعتی اتحاد کی بنیاد قوم پرست تھے جنہوں چند برس پہلے سندھ نیشنل الائنس (سپنا)کے نام سے قوم پرستوں کا اتحاد بنایا تھا۔ گزشتہ سال متنازع بلدیاتی قانون نافذ ہونے پر مسلم لیگ فنکشنل جو چار سال تک پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل تھی وہ بھی میدان میں آگئی۔ جس کے بعدسندھ کی سیاست کچھ عرصے کے لیے فنکشنل لیگ کی قیادت میں چلی گئی تھی۔ نواز شریف اس مرتبہ اس سندھ میں مختلف حکمت عملی اختیار کی ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو سندھ میں منظم کرکے براہ راست سندھ کا اسٹیک ہولڈر بننے کے بجائے اس بات کو ترجیح دی کہ الیکٹ ایبلز کے ساتھ اتحادبنایا اور سندھ دوست ہونے کے ثبوت کے طور پر قوم پرستوں سے اتحاد
کیا۔ سندھ کے معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اس حکمت عملی پر یہ تنقید کر رہے ہیں کہ ان کو مستقل بنیادوں پر سیاست کرنی ہے تو موقع پرستوں پرانحصار کے بجائے مکمل متبادل کے طور پر سامنے آنا چاہئے۔ صرف نہیں کرنا چاہئے ۔ موقع پرست ہرحکومت میں شامل ہوتے ہیں اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ مختلف بااثر لوگوں کو ملا کر
وہ اپناکام نکال سکتے ہیں مگر سندھ کے لوگوں کو کچھ ڈلیور نہیں کرسکیں گے۔ لیاقت جتوئی مشرف دور میں وفاقی وزیر رہے۔ مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل حالیہ دور میں پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی ہیں۔ان تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف کی پالیسی میں یہ نقص ہے اور وہ سندھ میں دور رس یا دیرپا سیاسی مفادات نہیں رکھنا چاہتے۔ سندھ میں اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ علامہ طاہرالقادری کے دھرنے کے موقع پر نواز شریف نے اپوزیشن پارٹیوں کا رائیونڈ میں اجلاس بلایا اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا تو سندھ کی کسی بھی قوم پرست پارٹی کو نہیں بلایا۔جبکہ بلوچستان،
پختونخوا یہاں تک کہ کراچی سے بھی مختلف جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سندھ میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف براہ راست سندھ میں اپنا سیاسی اسٹیک شو کرے اور اسکے ساتھ ساتھ سندھ کے قوم پرستوں سے وہ براہ راست بات کریں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ فنکشنل لیگ کے حوالے کرنے سے بااثر وڈیرے ہی آگے آئیں گے اور قوم پرستوں کی سنی نہیں جائے گی۔یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ اتحاد کسی پروگرام کے بجائے صرف پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کیوں؟ اس اتحادکا پروگرام یا منشور کیا ہے؟ اس کو کیوں نہیں سامنے لایا جارہا
ہے۔ سندھ کے حلقوں میں یہ بات شدت سے کہی جا رہی ہے کہ اگر وڈیروں پر ہی اعتماد کا اظہار ہے اور انہیں ووٹ دینا ہے تو پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ میں سے ایک کو منتخب کرنا ہے۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی میں کیا برائی ہے؟ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر فنکشنل لیگ بھی جیت کر آتی ہے تو وہ بھی ایم کیو ایم سے اتحاد کرکے حکومت بنائے گی۔ یہی کام پیپلز پارٹی پہلے سے
کر رہی ہے۔ دس جماعتی اتحاد میں پہلا اختلاف قاسم آباد کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہوا جہاں پر سندھ ترقی پسندپارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی اورعوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو دونوں اتخاب لڑنا چاہ رہے تھے۔بعد میں قادر مگسی اس نشست سے دستبردار ہوگئے۔ لیکن اس سے پہلے انہوں ایک جلسہ عام میں ایاز لطیف پلیجو کو خاصا لتاڑا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں اتحاد نے مختلف نشستوں پرامیدوروں کے ناموں کو حتمی شکل دی۔ دوسرے روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما خالد محمود سومرو نے ان حلقوں سے اپنی پارٹی کے امیدوروں کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ سندھ پاگارا کی نہیں ہے۔اس خام خیالی سے نکلنا پڑے گا۔اتحاد نے ہمیں اہمیت نہیں دی ہے
لہٰذا ہم الگ امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں۔ جیکب آباد میں جے یو آئی کے امیدوروں نے الگ سے اپنے پارٹی کی ٹکٹ جمع کرادی ہیں ۔ فنکشنل لیگ دادو کے صدر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) انہیں اہمیت نہیں دے رہی۔ نون لیگ اور لیاقت جتوئی دادو کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی کا کہنا ہے کہ دس جماعتی اتحاد کے فیصلے کے تحت تمام جماعتیں نوشہروفیروز سے دستبردار ہوگئی ہیں لیکن نون لیگ کے امیدوار کھڑے ہیں۔اس طرح کی صورت حال بعض اور حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اتحادی جماعتوں کی انا کو دیکھتے ہوئے یہ اختلافات ناقابل حل نظر آتے
ہیں۔ سندھ میں یہ بات بھی سنائی دے رہی ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں اسلام آباد کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔ پہلے یہ رائے پیپلز پارٹی کے خلاف تھی اور یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی مخالف سیٹ اپ وجود میں آئے گا۔ لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو جڑ سے اکھاڑنے کا منصوبہ باقی نہیں ہے۔ اس کے بجائے مخلوط حکومت کے فارمولا پر کام کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم اور قاف لیگ کے مشاہد حسین نے ایک ہی دن ایک ہی طرح کی بات کہی ہے۔ دونوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکیلے طور پر اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی، لہٰذا مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مرکز میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ملکر حکومت بنائیں گی جبکہ پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ میں
پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے خلاف وسیع تر اتحاد کی کوششوں میں سب سے بڑا نقصان قوم پرستوں کو ہوا جو متبادل قیادت سمجھے جاتے تھے اور اپنی الگ شناخت رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ دونوں چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ اس سے بہتر یہ تھا کہ وہ قوم پرست شناخت کے ساتھ الگ انتخاب لڑتے۔ اس http://www.naibaat.pk/?p=46556c
کے علاوہ پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بنانے کا خواب بھی ادھورا دکھائی دیتا ہے۔











سندھ کی ہاری تحریک کہاں کھو گئی۔۔۔1


سندھ کی ہاری تحریک کہاں کھو گئی۔۔۔1

ملک میں نئے انتخابات ہوئے۔نہ کوئی ہاری تنظیم نظر آئی اور نہ کوئی کسان کا نعرہ اور مطالبہ۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ تقریبا چالیس برس تک یہ ایک مضبوط تحریک کے طور پر موجود تھی جو سیاسی عمل اور فکر پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوتی تھی ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال ، آرائیں ، مدیجی ۔ اور سکرنڈ کسان کانفرنسیں ملک کے دیہی اور پچھڑے ہوئے طبقے کی جدوجہد کے سنگ میل ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے بدل گیا؟ ہاری تحریک کے کمزور ہونے کے معروضی خواہ موضوعی

دونوں اسباب ہیں۔ سندھ میں کسان تحریک کی صورت حال کچھ اس طرح سے رہی۔ ہاری کمیٹی برصغیر میں ترقی پسند تحریک کے تسلسل اور آل انڈیا کسان سبھا کے حصے کو طور پروجود میں آئی۔ جس کے قیام میں کمیونسٹوں کے علاوہ اس وقت کے روشن خیال اور حقیقی جمہوریت پسندوں جی ایم سید، جمشید

نرسوانجی اور دیگر رہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سندھ کی ہاری جدوجہد کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے۔ پہلا دور 1930ء کا عشرہ ہے جس میں ابتدائی طور پر تنظیم سازی، فکری بحث اور اجلاس ہوتے رہے۔ ہاری کمیٹی کے پہلے اور دوسرے دور میں روشن خیال اور جمہوریت پسند حلقوں کا اثر نمایاں تھا جس کی وجہ سے اس کے مطالبے میں سرکاری زمینیں کسانوں میں تقسیم کرنے اور کسانوں سے منصفانہ رویہ رکھنے پر زور تھا۔ جبکہ کمیونسٹوں کی جانب سے جاگیرداری ختم کرنے کا مطالبہ تھا۔ یہ دونوں رجحان ہاری

کمیٹی میں آخر تک چلتے رہے۔ دوسرا دور 1940ء کا ہے۔جس میں جیٹھمل پرسرام اور قادر بخش نظامانی جیسی شخصیات نے ہاریوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔1946ء میں ٹنڈوالہ یار میں ہاریوں نے تالپوروں اور لغاریوں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔جس کا ذکر آل انڈیا کسان سبھا کے رکارڈ سے ملتا ہے۔ اس طرح

کے واقعات سے لگتا ہے کہ ہاری تحریک میں شدت پسندی اور ہیروازم آگئی تھی۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے سرکاری ملازمت چھوڑکر ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس تنظیم میں نیا جوش اورولولہ آگیا۔ کامریڈ جتوئی مارکسسٹ تھے۔ انہوں نے ہاری کمیٹی کو ایک

طبقاتی تنظیم کے طورپر منظم کیا۔ یہ ہاری کمیٹی کی کئی پہلوؤں سے ترقی کا دور تھا۔ پرانے ہاری ورکر ، شاعر اور صحافی منصور میرانی کامریڈ جتوئی کے ساتھی کامریڈ رمضان شیخ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں ضلعی سطح پر ہاری حقدار کے نام سے دفاتر ہوا کرتے تھے، جہاں باقاعدگی سے ہاری کارکن ڈیوٹی دیتے تھے۔ ان دفاتر میں ہاریوں کی بے دخلیوں، زمینداروں اور پولیس کی زیادتیوں کے بارے میں شکایات نوٹ کی جاتی تھیں۔ اور اس ضمن میں متعلقہ حکام سے خط و کتابت کی جاتی تھی۔ اور عوامی سطح پر یہ مسئلہ اٹھایا جاتا تھا۔ تیسرے دور میں سب سے بڑا کام سندھ ٹیننسی ایکٹ کی منظوری تھا۔1950 ء میں سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم پر صوبے بھر سے کسانوں نے کراچی پہنچ کر سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا۔ یہ دھرنا اتنا مضبوط تھا کہ اسمبلی ممبران ایوان کے اندر ہی محصور ہو کر رہ گئے۔ یہاں تک کہ باہر سے ان تک کھانے پینے کی اشیاء بھی نہیں پہنچ پارہی تھیں۔ سندھ ٹیننسی ایکٹ بہت بڑا کارنامہ تھا کیونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسان اور زمیندار کو زراعت میں برابر کا حصہ دار تسلیم کیا گیاتھا۔ بیج، کھاد، زرعی اشیاء اور پیداوارمیں دونوں فریقین میں پچاس پچاس فیصد

تقسیم کا فارمولا دیا گیاتھا۔ اسی دور میں سندھ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدربخش جتوئی کو نواب سلطان احمد خان چانڈیو کے مقابے میں الیکشن میں کھڑا کیا۔ اس الیکشن ورک میں ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب سمیت ملک بھر کے ترقی پسند کارکنوں نے شرکت کی۔ جالب نے کامریڈ جتوئی کی انتخابی مہم کے لیے خصوصی نظمیں بھی لکھیں ۔سردار چانڈیو کے لوگوں نے ہاری کارکنوں پر کتے چھوڑے جس میں کامریڈ رمضان شیخ اور دیگر کارکن بری طرح زخمی ہوئے ۔ کتوں کے کاٹنے کے نشانات کامریڈ رمضان کی ٹانگ پر مرتے دم تک رہے۔جرأتمندانہ جدوجہد کی وجہ سے ہاری سوال سیاسی بحث کا حصہ بنا۔ اس دور میں چینی وزیراعظم چو این لائی پاکستان کے دورے پرّ آئے تو انہوں نے پاکستان حکومت سے فرمائش کی

کہ ان کی ملاقات کامریڈ حیدربخش جتوئی سے کرائی جائے۔ 1957ء میں اپر سندھ میں پہلی ہاری کانفرنس تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں آرائیں میں منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس تاریخ میں آرائیں کانفرنس کہلاتی ہے۔ اس کانفرنس میں شیخ ایاز اور کراچی میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے زیر تعلیم طالب علموں نے شرکت کی۔ اس دور میں مختلف اضلاع میں دفاتر اور کارکنوں کا نیٹ ورک سوائے ہاری کمیٹی کے کسی اور پارٹی کے پاس نہیں

تھا۔ اس دور کے ہاری لیڈرپڑھے لکھے اور عالم فاضل تھے، ہاری کمیٹی میں مذہبی پس منظر والے کمیونسٹ اور کانگریس کے حامی سب لوگ تھے ۔لیکن سب مل کر اس طرح کام کرتے تھے کہ ان کی سیاسی وابستگی یا فکر کبھی بھی آڑے نہیں آیا۔ کئی کا پس منظر مذہبی تھا اور وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے فکر سے متاثر ہوکر ہاری کمیٹی میں شامل ہوئے تھے۔ کامریڈ مولوی نذیرحسین جتوئی، حافظ نیک محمد فضلی، عبدالرحمان عیسانی، محمد عالم مگریو اس دور کے اہم لیڈر تھے جوبالائی سندھ میں ہر وقت گھومتے رہتے تھے اور ہاری جدوجہد کی نگرانی کرتے رہتے تھے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ سندھ ہاری کمیٹی صوبے میں کام کرنے والی تمام سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ مورچہ

تھی۔ جی ایم سید ہوں یا اللہ بخش سومرو سب ہاری کمیٹی کے مدگار تھے۔ پچاس کی دہائی میں جو بھی ہاری کانفرنس ہوئی وہ سندھ میں سیاسی ہلچل کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوئی۔ ایسی ہی ایک کانفرنس میں کامریڈ جام ساقی (جو بعد میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل

سیکرٹری بنے ) کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ صوبے میں طلباء تنظیم منظم کریں۔ کسان تحریک کے جاں نثار :یہ وہ دور تھا جب زمیندار ہاریوں اور ہاری کارکنوں پر تشدد کرتے تھے۔ زمینداروں کی ننگی زیادتیوں کا کئی ہاری کارکن شکار ہوئے۔ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے جس میں ایک درجن کارکن شہید بھی ہوئے ۔ قتل کے زیادہ تر واقعات بٹائی تحریک کے دوران ہوئے جب قانون منظور ہونے کے بعد بھی زمیندار عمل نہیں کر رہے تھے ۔ ٹنڈو باگو کے ہاری پٹھائی انڑ کو اس وجہ سے قتل کردیا گیا کہ انہوں نے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے قانون کی مدد لی۔ انہوں نے بٹائی میں اپنا قانونی حصہ تو لے لیا مگر دو دن بعد وہ اپنے بیٹے سمیت زمیندار کے لوگوں

کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔ ٹنڈوالہ یار کے قریب ہار کارکنوں کے ایک گروپ پر زمیندار نے حملہ کردیا کیونکہ یہ کارکن کسانوں کو پچاس فیصد بٹائی پر منظم کر رہے تھے اور اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی کر رہے تھے۔ اس حملے میں سات ہاری کارکن زخمی ہوئے جن میں خمیسو خاصخیلی زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گیا۔ غلام مصطفےٰ عباسی اور بالاچ بروہی کو نوابشاہ میں قتل کیا گیا۔ ہاری رہنما اور شاعر عزیزاللہ مجروح کو گڑھی یاسین کے علاقے میں قتل کیا گیا۔ ہاری رہنماؤں کے لیے ان کے ساتھی عزیزاللہ مجروح کا قتل ناقابل برداشت تھا، ان کے ساتھیوں مولوی نذیرحسین جتوئی، حافظ نیک محمد فضلی اور دیگر نے ان کی تدفین کے بعد قبر پر عہد کیا کہ وہ ہاری لیڈر کا بدلہ لیں گے۔ اور بعد میں انہوں نے قاتلوں کو قتل کیا۔شہید بختاور کو کنری کے پاس زمینداروں نے قتل کیا جب مرد ہاری جھڈو میں منعقدہ ہاری کانفرنس میں گئے ہوئے تھے اور وہ گندم کے ڈھیر کی

حفاظت کر رہی تھی ۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکن منصور میرانی کا کہناہے کہ جس طرح سے ہاری کمیٹی کے کامریڈوں نے سخت محنت کی، کٹھن زندگی گزاری، اپنی زندگیاں وقف کر کے اپنے مشن کو آگے بڑھایا اس لحاظ سے اگر وہ کسی بیماری کی وجہ سے بھی فوت ہوئے، ان کے نزدیک وہ بھی شہید

ہیں۔ خود کو وقف کرنے والے: ہاری کارکنوں کی ایک لمبی لسٹ ہے جنہوں نے اپنی زندگی اور جوانی ہاری کاز کے لیے وقف کی۔مختلف ادوار میں کام کرنے والوں میں بڑے بڑے نام بھی ہیں۔جیٹھمل پرسرام، قادربخش نظامانی، کامریڈ غلام محمد لغاری،مولوی عزیزاللہ جروار، کامریڈ میر محمد تالپور، عبدالرحمان عیسانی، محمدعالم مگریو، عبدالقادر کھوکھر، کامریڈ رمضان شیخ، رئیس بروہی، عبدالقادر انڈہڑ، قاسم پتھر ، باقر سنائی، عنایت دھمچر،علامہ شامہ محمد امروٹی، صوفی جنن چن،سلیمان لاکھو، محمدخان لاکھو، غلام حسین سومرو، جام ساقی، ماندھل شر، حسین مگسی،مولوی شاہ محمد بنگلانی، غلام حیدر لغاری اور دیگر شامل ہیں ۔1980ء کے بعد جن کارکنوں اور رہنماؤں نے نمایاں کردار ادا کیا ان میں لالا شاہ محمد درانی، صوفی حضوربخش، غلام رسول سہتو،عثمان لغاری، احمدخان لغاری، پھوٹو رستمانی،محب نظامانی، صالح بلو، گلاب پیرزادو، محب پیرزادو، اسماعیل قریشی، تاج مری، یارمحمد جلالانی، غلام قادر مرڑانی، منصور میرانی، غلام حسین شر، مراد چانڈیو، خادم چانڈیو، قاضی عبدالخالق، شاہمیر بھنگوار، حسین بخش جج، محمدعثمان شیدی، بقا بروہی، پیر شہاب الدین، حاجی حسین جونیجو، ولی محمد انڑ، دین محمد انڑ، اسماعیل کھوسو شامل ہیں۔ رسول بخش پلیجو کی قیادت میں چلنے والی عوامی تحریک نے ستر کے عشرے میں الگ سے ہاری تنظیم سندھی ہاری تحریک کے نام سے بنائی۔ اس تنظیم میں فضل راہو نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔اس تنظیم کے دوسرے اہم لیڈروں میں علی سوڈھو، قادر رانٹو، http://www.naibaat.pk/?p=51696cوشنو مل، شیرخان لِنڈ اور گل حسن کیڑانو اہم رہنما تھے۔ (جاری ہے)

سندھ کی ہاری تحریک کہاں کھو گئی؟ - 2


سندھ کی ہاری تحریک کہاں کھو گئی؟ - 2 طبقاتی کردار: کمیونسٹ پارٹی کے موجودہ سیکرٹری جنرل امدا د قاضی کا کہنا ہے کہ 1950ء کے عشرے میں ہاری کمیٹی نے بطور طبقاتی تنظیم کے بھرپورکردار ادا کرنا شروع کیا۔جاگیرداری ختم کرنے اور پیداوار پر برابر ملکیت کے نعرے گونجنے لگے۔ اور اسی حکمت عملی پر کام کیا گیا۔ انڈیا سے آکر یہاں آباد ہونے والے صاحب جائیداد طبقے میں یہاں کی جائیداد دی جانے لگی۔ قوم پرستوں کا نعرہ تھا کہ جعلی کلیم رد کئے جائیں۔ جبکہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کامریڈ جتوئی کامؤقف تھا کہ ہر طرح کے کلیم کوتسلیم نہ کیا جائے۔ سندھ ہاری کمیٹی نے شاہ عنایت صوفی کے اس نعرے کو دوبارہ زندہ کیا ’ جو کھیڑے سو کھائے‘ یعنی جو کھیت پر کام کرے وہی اس کی پیداوار کا

مالک ہو۔ اس معاملے پر جی ایم سید اور کامریڈ جتوئی کے درمیان دوری پیدا ہوگئی ۔

گروہ بندی کا آغاز: ساٹھ کی دہائی میں جب سوویت یونین اور چین کے درمیان فکری اختلافات پیدا ہوئے تودنیا بھر کے کمیونسٹوں کی طرح سندھ ہاری کمیٹی میں بھی دوگروپ ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ہاری فرنٹ کی رہنمائی کرنے والے رہنما کامریڈ عزیز سلام بخاری نے چین نواز لائن اختیار کی۔ نتیجتاً ہاری کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گروپ میں شامل ہوگئی۔اس گروپ کی جانب سے چمبڑ ہاری

تحریک چلائی گئی۔ جس میں کامریڈ احمد اور دیگر رہنماؤں نے حصہ لیا۔ کامریڈ جتوئی کے بعد:

چوتھا دور کامریڈ جتوئی کی وفات کے بعد کا ہے۔ کامریڈ جتوئی کی زندگی میں ہی شاگرد، ہاری مزدور رابطہ کمیٹی قائم کی گئی۔ ان دنوں سندھ میں طلباء تحریک زوروں پر تھی۔ اور مزدور تحریک میں بھی ابھار آیا ہوا تھا۔ اس اتحاد کا مقصد یہ تھا کہ تمام مظلوم طبقات مشترکہ جدوجہد کریں۔ دوسرا یہ کہ ہاریوں کوطلباء اور مزدور تحریک سے فائدہ ملے۔ کامریڈ جتوئی کی زندگی میں ہی سکرنڈ ہاری کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر ان کی وفات کے باعث یہ کانفرنس ملتوی کردی گئی ۔ چند ماہ کے وقفے کے بعد یہ کانفرنس منعقد ہوئی۔اس

کانفرنس میں ہاری کمیٹی کو منظم کرنے کے لیے کامریڈ جام ساقی کو آرگنائزر مقرر کیا گیا۔کمیونسٹ پارٹی کے موجودہ سیکرٹری جنرل امداد قاضی کا کہنا ہے کہ جام ساقی کی شمولیت سے اگرچہ ہاری تنظیم کا رنگ زیادہ ریڈیکل ہوا مگر یہ تنظیمی طور پر سکڑ گئی۔ان کے مطابق جام ساقی ہاری لیڈر کے بجائے پارٹی لیڈر کے طور پر کام کرتے رہے ۔ انہوں نے نظریاتی پہلو پر

زیادہ توجہ دی۔

اور ہاری کمیٹی ماس موومنٹ نہ بن سکی ۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر تحریک نہیں چل سکی تاہم چھوٹی چھوٹی کئی تحریکیں چلیں ۔ہاری کمیٹی کے کچھ پاکٹس بنے جس میں بلہڑیجی، شہدادکوٹ، لاڑکانہ، ڈہرکی کے علاقے کھروہی کے سیکٹر زیادہ سرگرم رہے اور کئی معاملات میں انہوں نے رہنمایانہ کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ ہاری کمیٹی نے

اپنے رہنما عرس سیلرو کو نادر مگسی کے مقابلے میں کھڑا کیا ۔ کھروہی میں کامریڈ ماندھل شر کی قیادت میں ہاریوں کا ایک مضبوط مرکزقائم ہوا۔نواب شاہ میں

پیر شہاب اور ٹنڈوالہ یار میں پہاڑ لغای کے علاقے میں ہاریوں کے مؤثر مرکز قائم ہوئے ۔ جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ کامریڈ جتوئی کے بعد عملاً ہاری تحریک ختم ہو گئی ۔یہ زرعی معاشرے کا المیہ ہے کہ کوئی بڑاآدمی موجود ہے تو تنظیم اور تحریک بنتی ہے ۔جتوئی کے بعد کوئی

بڑاآدمی ہاری کمیٹی میں نہیں آیا ۔ رسول بخش پلیجو کی رہنمائی میں عوامی تحریک نے ’’سندھی ہاری تحریک‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ جامی چانڈیو کے مطابق اس ہاری تنظیم نے بھی ضیا دور میں کام بند کردیا ۔زیادہ تر

رجحان قومی سوال کی طرف ہوگیا ۔ ستر کی دہائی سے لے کر اسی اور نوے کی دہائی میں مختلف شکلوں میں ہاری تنظیمیں بنیں مگر کوئی بھی نئی تنظیم فعال تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آئی۔ ضیا مارشل لاء میں ہاری تحریک ختم ہونے کی وجہ قومی اور جمہوری سوال کا اولین ترجیح بننا تھا۔جس کو اٹھانا وقت کی ضرورت بھی تھی اور سیاسی جماعتیں ان دو سوالوں کو ہی ترجیح دے رہی تھیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہاری تنظیموں نے ضیا مارشل لاء کے خلاف بھر پور جدوجہد کی اور ایم آرڈی تحریک میں بھی

حصہ لیا۔ سیاسی کلچر اور ماحول میں تبدیلی: جی ایم سید ہاری کمیٹی کے شروع کے دو ادوار میں بھرپور طریقے سے شامل رہے، مگر ساٹھ کی دہائی اور خاص کر سترکے انتخابات میں شکست کے بعد انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ۔ اور پھر ہاریوں کے مسائل کبھی نہیں اٹھائے۔ 40کے عشرے سے 70 کے عشرے تک ہاری سوال پر سیاسی جماعتوں میں کوئی مسابقت نہیں تھی۔ بلکہ وہ سب اس نکتے پر ایک ساتھ تھے۔کہیں اگر ہاریوں کا مسئلہ ہوتا تھا تو سب مل کر جدوجہد کرتے تھے ۔بعد میں ہر

سیاسی گروپ نے اپنی الگ سے ہاری تنظیم بنالی ۔ دوسرا ابھار:سندھ ہاری کمیٹی کے سابق جنرل سیکرٹری صوفی حضور بخش، جامی چانڈیو کی اس رائے سے متفق نہیں کہ ضیا دور میں ہاری تحریک ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس ان کا کہنا ہے کہ 80 کے عشرے میں سندھ ہاری کمیٹی نے ایک چھال دی تھی جس سے ہاری تحریک کو ایک بار پھر عروج مل گیا۔اس کی وجہ ہاریوں میں کام کرنے والے مختلف گروپوں کا مل کر کام کرنا تھا۔اس دور میں سینکڑوں جلسے جلوس ہوئے ۔ ہاری جدوجہدیں بھی ہوئیں جس میں سے بیشتر کامیاب بھی ہوئیں ۔ بعد میں ان گروپوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے خاص طور پر سگیوں کانفرنس کے بعد تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ ہوگئی اور ہاری کمیٹی ایک بار پھر کمزور ہوگئی۔ صوفی حضور بخش کا کہنا ہے کہ اگر کاز کے ساتھ وقف کرنے والی لیڈرشپ اور کارکن موجودہوں اور ہاریوں میں کام کرنے والے بائیں بازو کے مختلف گروپوں کی حمایت حاصل ہو تو ایک بار پھر

ہاری کمیٹی فعال اور سرگرم ہوسکتی ہے۔ ہاری کمیٹی کی حاصلات: ون یونٹ مخالف تحریک کو دیہی علاقوں تک پہنچانا، روشن خیال فکر پھیلانا اور سیاسی شعورپیدا کرنا، تنظیم کاری اوردیہی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی جدوجہدیں کرنا ہاری کمیٹی کی اہم حاصلات ہیں۔جس سے مجموعی طور پر سندھ کے دیہی علاقوں میں سیاسی جاگرتا پیدا

ہوئی۔ اس جاگرتا کا فائدہ ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا ۔

اس کے علاوہ پانچ ٹھوس حاصلات ہیں جن کو یکھا اور ناپا جاسکتا ہے: 1۔ سندھ ٹیننسی ایکٹ کی منظوری

2۔ بیراج کی زمینیں باہر کے لوگوں کوانعام اور نیلام میں دینے کے بجائے مقامی ہاریوں میں

تقسیم کرنا 3۔ بوگس کلیموں کو روکنا

4۔ زرعی پیداوار میں ہاری کا آدھا حصہ قانونی طور پر تسلیم کرانا اور اس پر عمل درآمد کرانا 5۔ ہاریوں کی بے دخلیاں روکنا ۔ ان پانچ حاصلات کے لیے سندھ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدربخش جتوئی کی رہنمائی میں جامع حکمت

عملی کے ساتھ متواتر جدوجہد کی۔دراصل ہر حاصلات کی ایک الگ الگ تحریک ہے جس نے سندھ

کے زمینداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کامریڈ جتوئی ایک برجستہ اور بہادر رہنما تھے ۔ان کی جدوجہد کثیرجہتی تھی۔یعنی قانونی جنگ بھی لڑتے تھے۔ احتجاج اور جلسے جلوس بھی کرتے تھے تو دوسری پارٹیوں کے ساتھ لابنگ بھی کرتے

تھے تاکہ ان کے مطالبے کودوسرے حلقوں سے بھی حمایت حاصل ہو۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں پیداوار کے ذرائع میں تبدیلی آئی ہے۔ لوئر سندھ میں گنے اور دوسری نقد فصل کے عام ہونے سے بڑے پیمانے پر زرعی مزدور پیدا ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے اس نیم ہاری نیم مزدور کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔لیکن باقی علاقوں میں ہاری روایتی انداز میں موجود ہے۔اور اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہے۔بھٹو دور کے بعد مسلسل زمیندار طبقہ سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ہوا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ میں اثرورسوخ کی وجہ سے مکمل طور پر ہاری اور دیہی آبادی پر حاوی ہے۔ دوسری طرف ہاری تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مزاحمت نہیں

۔ نتیجے میں ہاری معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر پہلے کے مقابلے میں زیادہ پس رہا ہے۔مارکیٹ اکانومی کی وجہ سے معاشی طور پر تمام نزلہ ہاری پر گرتا ہے۔ کارخانے دار، بڑا تاجر، چھوٹا دکاندار اور سرکاری خواہ نجی ملازم اپنا تمام معاشی وزن عام حالات میں اور خاص طور پر معاشی بحران کی صورت میں ہاری پر ہی ڈال دیتے ہیں۔ملکی ترقی، سائنس اور ٹیکنالاجی کی ترقی سے ہاری کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی وہی کسمپرسی والی حالت ہے۔ کسی منظم اور فعال تنظیم کی عدم موجودگی میں ہاری سوال سیاست اور ریاست دونوں کے ایجنڈا سے غائب ہے۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران بعض این جی اوزہاریوں کے مسائل اٹھاتی رہی ہیں۔ لیکن یہ حقیقی ہاری تنظیمیں نہیں۔یہ بعض واقعات کے بعد ان ایشوزکو انسانی حقوق یا لیبر ایشو کے طور پر اٹھاتی ہیں۔ جس سے صرف وقتی طور پر تورلیف ملتا ہے۔ دراصل یہ سماج کا طبقاتی اور سیاسی سوال ہے۔ معاشی اور سماجی نابرابری کا سوال ہے۔این جی اوز کا نہ وژن ہے نہ ان میں صلاحیت اورنہ ارادہ۔یہ ایک http://www.naibaat.pk/?p=52324c

طبقاتی سوال ہے جسے سیاسی جماعتوں کو ہی اٹھانا چاہئے۔

سندھ پاور گیم سے آؤٹ؟


سندھ پاور گیم سے آؤٹ؟

سہیل سانگی

صدارتی انتخاب نے سندھ کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ سیاسی طور پر تنہائی اور شدید دباؤ کا شکار ایم کیو ایم نواز لیگ سے قربت لے کر سیاسی دھارے میں آگئی ہے مگر نواز لیگ سندھ میں سیاسی تنہائی کا شکارہو گئی۔ ایک بار پھر مہاجر اور پنجاب کا روایتی اتحاد قائم ہوگیا ہے۔ اس نئی قربت سے سندھ میں سیاست کوکئی عشرے پیچھے دھکیل دیا ہے۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے بعد نواز لیگ کے امیدوار ممنون حسین کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔مگر پھر بھی نواز لیگ کے رہنما ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائین زیرو پہنچے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں ان کا موقف یکسر بدل گیا۔ میاں نواز شریف کے وہ دعوے اوریقین دہانیاں دھری کے دھری رہ گئیں۔ انہوں نے متحدہ سے سیاسی مخالفت کا آغاز لندن کانفرنس سے شروع ہوا تھا، جہاں ان کی دعوت پر جمع ہونے والی پارٹیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اب کوئی بھی پارٹی ایم کیوایم کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ یہ توکوئی ایک عشرہ پہلے کی بات تھی۔ انتخابات کے موقعہ پرمیاں صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی ایم کیو ایم کی وجہ سے آئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کریں گے۔ لیکن اب نواز لیگ کے مرکزی رہنما کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو اکموڈیٹ کرنا اور سیاسی دھارے میں لانا ضروری ہے۔ سندھ کے کارکن اور رہنما ؤں کو شدید اعتراضات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم عوام میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

سندھ میں نواز لیگ کے ناراض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ سندھ میں کسی سے اتحاد کامعاملہ تھا لہٰذا ان کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہئے تھا۔ مگر ان سے تو مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماؤں غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، اسماعیل راہو یا کراچی سے تعلق رکنے والے شفیع محمد جاموٹ اور عبدالحکیم بلوچ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ یوں نواز شریف نے اپنی پرپارٹی کے سندھ کے رہنماؤں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ حکیم بلوچ اور شفیع محمد جاموٹ جو کہ پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم کے بارے میں پالیسی سے تنگ آکر نواز لیگ میں شامل ہوئے تھے، انہیں بھی بڑی دقّت کا سامنا ہے۔

پرانے مسلم لیگی غوث علی شاہ صدارت کے مضبوط امیدوار ہو سکتے تھے۔ وہ مشرف کا پورا دور خود ساختہ جلاوطنی میں رہے۔ مبصرین کا خیال تھا کہ نواز شریف حکومت کے بعد صدارت کا عہدہ سندھ کے حصے میں آئے گا تو شاہ صاحب کو یہ عہدہ دیا جائے گا۔ یہی صورتحال ممتاز بھٹو کی تھی جنہوں نے سالہا سال کی قوم پرست سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو نواز لیگ میں ضم کیا تھا۔ سیاسی حلقوں میں یہ باتیں کی جارہی تھیں کہ انہیں صدارت کا عہدہ دیا جائے گا۔ مگر ان دونوں رہنماؤں کو نظرانداز کیا گیا۔ بعد میں سندھ کے گورنر شپ کے عہدے کا آسرا دیا گیا۔ مگر اب خیال کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم سے نواز لیگ کی دوستی کے بعد یہ عہدہ بھی انہیں نہیں مل سکے گا۔ سندھ کے حصے میں صدارت کا عہدہ تو نہیں آیا مگر گورنری بھی مسلم لیگ کی سندھی قیادت کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ نواز شریف کو صدر کے عہدے کے لیے کسی ’’وفادار‘‘ کی تلاش تھی۔ انہیں سندھ کے پرانے باشندوں پر یقین نہیں آیا۔

نواز لیگ نے ایم کیو ایم سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے اپنی اتحادی جماعت فنکشنل لیگ سے بھی نہیں پوچھا۔ خبروں کے مطابق اسی بناء پر پیر پگارا کے نواز لیگ کے رہنماؤں سے ملنے سے انکار کردیا۔ لیکن معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر پگارا ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے آگاہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیر پگارا کو سندھ میں آئندہ تبدیلی کے حوالے سے ایک اہم ٹاسک بھی دیا جا رہا ہے۔

سندھ کے قوم پرست اور عام لوگ بھی اس قربت پرناخوش ہیں۔ کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی وجہ ایم کیو ایم ہی تھی۔ تب نواز لیگ کو پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر کو پیش کیا جا رہا تھا۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواز شریف نے یہ تاثر دیا کہ وہ سندھ اور پنجاب کا سیاسی اتحاد جو بھٹو نے قائم کیا تھا وہ زندہ کرنے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں سے بھی پینگیں بڑھائیں۔ تو قوم پرست انہیں سندھ کا ہمدرد قرار دینے لگے۔ یہاں تک کہ سندھی ادیبوں کا بھی ایک بریگیڈ سامنے میں آگیا جس نے پیپلز پارٹی کے خلاف اور نواز شریف کے حق میں ایک ہائیپ پیدا کردی تھی۔

نواز شریف نے قوم پرستوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ انہیں آسرا دیا کہ وہ اگر سندھ سے پیپلز پارٹی کے پاؤں نکالنے میں مدد کریں گے تو ان کو اقتدار میں شامل کیا جائے گا۔ سندھ کی قوم پرست سیاست جو وفاق پرست اور پارلیمانی سیاست سے دور کھڑی تھی۔ ایک مرتبہ اس کے قریب آگئی۔ قوم پرستوں کو الیکشن میں تو کچھ نہیں ملا مگر ان کے اتحادی نواز شریف کے حالیہ اقدام سے ان کی رہی سہی سیاست بھی خطرے میں پڑ گئی۔

اس پورے قصے میں نواز شریف کو فائدہ پہنچا مگر قوم پرست گھاٹے میں رہے۔ وہ سندھ میں ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔ ابھی وہ اپنی حکمت عملی کی ناکامی کے زخم چاٹ رہے تھے کہ نواز لیگ نے ایم کیو ایم سے قربت کرلی۔ جس کے بعدیہ قوم پرستوں کے لیے دوسرا بڑا جھٹکا تھا۔ جلال محمود شاہ اس کو نواز لیگ کی سب سے بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس اقدام سے سندھ میں حمایت اور ہمدردی کھو بیٹھیں گے۔ عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ سندھیوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

سندھ میں نواز لیگ چند افراد پر مشتمل ہے۔ اس کابطور پارٹی وجود نہیں تھی۔ یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ وہ سندھ میں پارٹی منظم نہ کریں کیونکہ وہ سندھ میں براہ راست اسٹیک ہولڈر بننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو پارٹی کی پالیسیاں بھی ایسی بنانی پڑتی جو سندھ کے مفادات سے مطابقت رکھتیں۔ نواز شریف گزشتہ تین سال کے دوران پارٹی کی تنظیم سازی کے بجائے اتحادی تلاش کیے جو پیپلز پارٹی کے خلاف ماحول بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ الیکٹ ایبل ڈھونڈتے رہے جو حکومت سازی میں ان کو ووٹ دے سکیں۔

نواز لیگ کے اس اقدام پرسندھ میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ نئی قربت میں ایم کیو ایم کو ہوگا۔ ویسے بھی ایم کیو ایم ہمیشہ پی پی کے بجائے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد میں سہولت محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ سندھ میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے اس کا مکمل طور پر انحصار ایم کیو ایم پر ہوگا۔ نواز لیگ کو صدارتی امیدوار کے لیے سندھ سے ووٹ ملے، لیکن یہ ووٹ ایم کیوایم کے تھے۔ جبکہ سندھ کی ایک بڑی آبادی کی صدر کو حمایت حاصل نہیں۔

غالب امکان ہے کہ نواز لیگ گورنرکا عہدہ ایم کیو ایم کو ہی دے گی۔ ایسا کرکے وہ پیپلز پارٹی پر چیک رکھ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دو پارٹیوں کا اتحاد سندھ میں آئندہ سیاسی تبدیلی کے لیے بھی کام آسکتا ہے۔ جس کو سیاسی حلقے نواز لیگ کی مستقبل کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ اب سندھ کے پاس وفاق میں کوئی آئینی عہدہ نہیں رہا۔ یوں صدر کا عہدہ اب چاہے غیر اہم ہی صحیح مگر اس کے انتخاب نے سندھ کو پاور گیم سے آؤٹ کردیا ہے۔

Dawn.com

نذیرعباسی اور کمیونسٹ تحریک


نذیرعباسی اور کمیونسٹ تحریک

سہیل سانگی

نذیر عباسی کے قاتلوں پر مقدمہ چلانے کے لیے 2008 میں نکالی گئی ایک ریلی۔جام ساقی قیادت کر

رہے ہیں۔—. فوٹو سہیل سانگی

آج یہ بات بحث طلب سمجھی جاتی ہے کہ کمیونزم قابل عمل نظریہ ہے بھی یا نہیں، لیکن کل تک اس نظریہ پر دنیا بھر میں لوگ کبھی جیولس فیوچک کی طرح تو کبھی چے گویرا کی طرح جان کا نذرانہ دینے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔پاکستان کی دھرتی بھی بانجھ نہیں یہاں حسن ناصر اور نذیر عباسی دو ایسے کردار پیدا ہوئے جن کو کمیونسٹ قرار دے کرخفیہ اداروں کی اذیت گاہوں میں قتل کردیا گیا۔

نذیر عباسی سندھ سے تعلق رکھنے والے صف اول کے کمیونسٹ تھے۔ وہ 10 اگست 1953 کو ٹنڈوالہ یار کے لوئر مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس کے وائس چیئرمین رہے۔ یہ وفاقی تنظیم چاروں صوبوں کی ترقی پسنداور مقبول طلبا تنظیموں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پنجاب اسٹوڈنٹس یونین پر مشتمل تھی۔

اب تو بہت کچھ بدل چکا ہے۔ حکومت خواہ امریکہ دونوں کو نہ کسی کے کمیونسٹ ہونے پر اورنہ کمیونسٹ پارٹی پر اعتراض ہے۔ پچاس کی دہائی سے لے کرسوویت یونین کے ٹوٹنے تک کمیونسٹ ہونا پاکستان حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی کمیونسٹ مقبول لیڈر کے طور پر ابھرا، حکومت نے اسے حسن ناصر اور نذیر عباسی کی طرح زندہ نہیں چھوڑا، یا پھر جام ساقی کی طرح تب تک قید رکھا کہ وہ ذہنی یا جسمانی طور پر اپاہج ہوگیا۔

اس لیے پارٹی کے لیڈر اور کارکن زیرِ زمین یعنی روپوش ہو کر کام کرتے تھے۔

انقلاب ایران اور پھر افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد حکمرانوں کو لگا کہ انقلاب پاکستان کے دروازے پر بھی دستک دے رہا تھا۔ حکمران ڈرے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں پارٹی نے ’’چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان‘ ‘کے موضوع سے ایک ہینڈ بل شائع کیا ۔یہ ہینڈ بل خاصا متنازع رہا کہ واقعی پاکستان کے کمیونسٹ اس پوزیشن میں تھے کہ وہ افغانستان کی طرح یہاں انقلاب لے آتے؟

بہر حال افغان انقلاب کے بعد کمیونسٹوں کی مقبولیت بڑھ رہی تھی اور پاکستان حکومت کی نظر میں وہ اور زیادہ خطرناک ہوگئے تھے۔

روپوش رہ کر شہرشہر جا کر کام کرنے والے کامریڈ جام ساقی کوگرفتار کر لیا۔ جام ساقی کو ملک کے سیاسی اور اہل فکرو دانش حلقوں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ان کی گرفتاری پاکستان کے کمیونسٹوں کے لیے بڑا دھچکا تھا۔

بےنظیر بھٹو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے فوجی عدالت میں داخل ہو رہی ہیں۔ تصویر میں وکیل صفائی یوسف لغاری، ملزمان میں سے شبیر شر اور بدر ابڑو بھی نظر آرہے ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ

مصنف دوسرا دھچکا کمیونسٹ پارٹی کے مزدور فرنٹ پر کام کرنے والے اور مقبول مزدور رہنما شمیم واسطی کی گرفتاری تھی۔

حکومت نے تیسرا وار1980میں کیا۔خفیہ اداروں نے حیدرآباد اور کراچی میں پارٹی کے تین خفیہ مقامات کا سراغ لگا لیا جو پارٹی کے دفاتر کے طور پر کام کرتے تھے۔ یوں ضیاء حکومت پارٹی کے سرکردہ رہنما گرفتار کرنے اور اس کا نیٹ ورک پر ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئی۔ فوج کے خفیہ اداروں نے کراچی کی ایک کچی آبادی میں چھاپا مار کر وہاں سے نذیر عباسی، پروفیسر جمال نقوی، کمال وارثی اور شبیر شر کو گرفتار کر لیا۔بعد میں اسی مقدمے میں میری اور بدر ابڑو کی بھی گرفتاری عمل میں آئی۔

1953 کے بعد پارٹی پر یہ بڑا حملہ تھا ۔ یہ محض حسن اتفاق بھی نہیں تھا کہ کمیونسٹوں کے خلاف یہ دونوں کریک ڈاؤن تب ہوئے جب پاکستان امریکہ سے نئے رشتے میں جڑ رہا تھا۔

کمیونسٹ پارٹی کے ان دفاترسے خفیہ والوں نے کیا برآمد کیا؟ دو سائکلو اسٹائل اور ایک فوٹو اسٹیٹ مشین، چند کاغذ کے ریم اور چھپائی کی سیاہی جس کے ذریعے پارٹی کا پرچہ ’’سرخ پرچم‘‘، ’’ہلچل ‘‘ یا بعض اوقات ہینڈبل چھاپتے تھے۔

پارٹی کے پاس واقعی حکومت پر قبضے کا کوئی پلان تھا؟ دوران تفتیش گرفتار شدگان کو ان سوالات کا سامناکرنا پڑا۔ بعد میں خصوصی فوجی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ الزامات یہ تھے کہ یہ لوگ پاکستان میں فوجی حکومت کا تختہ الٹ کر یہاں سوویت یونین جیسا سوشلسٹ نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔یہ مقدمہ بعد میں جام ساقی کیس کے طور پر مشہور ہوا۔

ملک کے نامور سیاستدان بینظیر بھٹو، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، بیگم طاہرہ مظہرعلی خان، شیخ رفیق احمد، مولانا شاہ محمد امروٹی اور دیگر رہنما کمیونسٹوں کے دفاع کے لیے گواہوں کے طور پر فوجی عدالت میں آئے۔پنڈی سازش کیس کے بعد یہ پہلا مقدمہ تھا جو کمیونسٹوں پر بطور کمیونسٹ چلایا گیا۔

جام ساقی کی گرفتاری کے بعد نذیر عباسی ان کی کمی کو پورا کر رہے تھے۔ وہ نوجوان، باصلاحیت، نڈر اور سیاسی حلقوں میں جانے پہچانے تھے۔وہ سیاسی کام کرنے کے حوالے سے نت نئے طریقے ایجاد کر لیتے تھے۔

محترمہ بےنظیر بھٹو فوجی عدالت میں کمیونسٹوں کے ایک کیس میں بطور صفائی گواہ بیان قلمبند کروا رہی ہیں۔ جام ساقی ہتھکڑی کاندھے پہ لٹکائے ہوئے کھڑے ہیں۔ تصویر میں خصوصی فوجی عدالت کے کرنل عتیق، کیپٹن افتخار جلیس اور مجسٹریٹ حبیب اللہ بھٹو بھی نظر آرہے ہیں۔ —. فوٹو

بشکریہ مصنف نذیر سے میری پہلی ملاقات ستّر کی دہائی کے شروع میں ہوئی جب بنگال میں فوجی آپریشن چل رہا تھا۔ اس کے بعد ہم نے ایک ساتھ پارٹی کی طلبا تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کیا۔ طلبہ تنظیم اور پارٹی کے حوالے سے مختلف شہروں کے دورے کیے۔ مختلف مسائل پر احتجاجوں میں ساتھ ساتھ رہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے بعد پارٹی میں شامل ہونے والا یہ شخص ایک دن اتنا بڑا لیڈر ہو جائے گا۔ بہرحال اس کی صلاحیتوں، لگن اور کام کرنے کی قوت کے ہم سب معترف تھے۔

نذیر کہا کرتے تھے کہ کمیونسٹ کاکام ہمہ جہتی ہوتا ہے۔ ہم اگر طلباء محاذ پر کام کر رہے ہیں تو اپنے آپ کو طلبہ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہم لوگ یونیورسٹی سے سیدھے حیدرآباد میں واقع ٹریڈ یونین آفس آتے تھے اور وہاں پرمختلف کارخانوں میں مزدوروں کے مسائل پر چلنے والی جدوجہد میں ان کی مدد کرتے تھے۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کئی کئی راتیں حیدرآباد کے صنعتی علاقے کالی روڈ ایریا میں مزدوروں کے ڈیرے پر گزاریں۔وہاں ان سے مزدور تحریک اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کرتے تھے اور اسٹڈی سرکل چلاتے تھے۔

کہیں ہاریوں کی جدو جہد چل رہی ہوتی تھی تو نذیر وہاں بھی جاتے تھے۔ جب یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا ہاریوں یا مزدوروں میں جاتے تھے تو ان کا حوصلہ بڑھتا تھا۔

نوابشاہ کے علاقے میں ہاریوں کامسئلہ چل رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو سے واپسی پرنذیرنے مشورہ دیا کہ ہمیں وہاں چلنا چاہیے۔ میں نے بتایا کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن میری جیب میں چار پانچ روپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ فکر نہ کرو میرے پاس پیسے ہیں۔‘‘

جب ہم حیدرآباد پہنچ کر حیدر چوک پر اترے تو بھوک کے مارے برا حال تھا۔ سب سے پہلے پکوڑے اور ڈبل روٹی خریدی اور ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی۔ نذیر کے کہنے پر پکوڑوں چائے کے میں نے پیسے دیئے اور اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ راستے میں پراسرار انداز میں مسکراتے ہوئے بتایا کہ پیسے اس کے پاس بھی نہیں ہیں۔ میں نے کہا پھر کیسے چلیں گے نوابشاہ۔ ہم لوگ بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پورا راستہ میں جھگڑتا رہا کہ یہ کیا بے وقوفی ہے، مفت میں پکڑے جائیں گے ۔ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ٹکٹ چیکر کو بتائیں گے کہ ہم طالب علم ہیں اور ہاریوں کے لئے جا رہے ہیں۔‘‘ اس کو یقین تھا کہ چیکر اس کی اس سچائی کو سمجھ اور مان لے گا۔ انہوں ہدایت کے انداز میں کہا ’’ اگر کام کرنا ہی ہے تو سمجھو ہر صورت میں کرنا ہے۔‘‘

بےنظیر بھٹو بیان ریکارڈ کروانے فوجی عدالت میں داخل ہو رہی ہیں۔ تصویر میں وکیل صفائی

یوسف لغاری، ملزمان میں جام ساقی نظر آرہے ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ مصنف سندھ یونیورسٹی میں سیاسی کام کرنے کے لیے وہ روزانہ آبائی شہر ٹنڈوالٰہ یار سے آتے تھے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر دن بھر کے کام کا جائزہ لینے اور نوٹس کا تبادلہ کرنا ہوتا تھا لیکن وہ بس میں سوئے ہوئے ہی ملتے تھے۔میں نے ایک دن بس میں سونے کی وجہ پوچھی توبتایا کہ رات کو وہ میونسپل ناکے پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ڈیوٹی ختم ہونے پر سیدھے یونیورسٹی آ جاتے ہیں۔ وہ بلدیہ ٹنڈوالٰہ یار میں ناکہ منشی تھے اور اپنی ڈیوٹی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا سیاسی کام بھی مکمل طور پر کرتے تھے۔

نذیر کی شادی پر مقدمہ بھی دائر کیا گیا کہ انہوں نے شادی کے نام پر سیاسی جلسہ کیا ہے اور جلوس نکالا ہے۔ انہیں گرفتار کرکے کوئٹہ کے قلی کیمپ میں رکھا گیا۔ اسی عرصے میں ان کے والد کا انتقال ہوا لیکن انہیں آخری دیدار کے لیے بھی رہا نہیں کیا گیا۔ شادی کے بعد ان کی بیوی حمیدہ جو کہ پارٹی کی کارکن تھیں، کو ’’پٹ فیڈر ہاری تحریک‘‘ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

وہ قلی کیمپ کوئٹہ سے رہائی پر انہوں نے بتایا کہ انہیں خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دھمکی دی ہے کہ تم نے اگر اپنا سیاسی کام بند نہ کیا اور اب کے پکڑے گئے تو زندہ نہیں بچوگے۔ 1980 میں ان اہلکاروں نے یہ بات سچ ثابت کرکے دکھائی، نذیر عباسی کی دوران تفتیش پراسرار حالات میں موت واقع ہوگئی۔

پارٹی نے نذیر کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی۔ اور وہ روپوش ہوگئے۔ روپوشی میں پارٹی کا کام پہلے سے بھی زیادہ لگن کے ساتھ جاری رکھا۔

30 جولائی 1980 نذیر عباسی دوبارہ گرفتار ہوگئے اور نو اگست کو انہیں اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔ انہیں ایدھی نے غسل اور کفن دیا اور سخی حسن قبرستان کراچی میں دفنایا گیا۔ ایک کمیونسٹ لیڈر کوایک لاوارث کی طرح دفن کردیا گیا۔

دوران تفتیش مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون کون گرفتار ہوا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اگست کے شروع میں ایک دن کچھ فوجی افسران آئے اورانہوں نے میری طبیعت پوچھی اور کہا کہ ٹارچر تو نہیں ہوا ہے وغیرہ۔ مجھے بہت تعّب ہوا کہ آج اچانک ان کا لب ولہجہ اتنا نرم اور انسانیت والا کیوں ہے؟ میں اس رویے کو ڈرامہ سمجھتا رہا جو اکثر اوقات دوران تفتیش خفیہ ادارے اپناتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ سب کچھ نذیر کی موت کے بعد ہوا تھا۔

تقریباً دو ماہ کی سخت تفتیش اور ٹارچر کے بعد جب مجھے جیل بھجوانے کے لیے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت پروفیسرجمال نقوی کو بھی لایا گیا تھا۔ پولیس گاڑی میں جیل جاتے وقت میں نے پروفیسر کو بتایا کہ حالات خاصے خراب ہیں میں نے تفتیشی افسران کے آنکھوں میں وحشی پن دیکھا ہے۔ سخت سزائیں آئیں گی۔ یہ کسی کو لٹکانا چاہ رہے ہیں۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ نہیں، وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ میرا یہ شبہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے عدالت کے ذریعے تو سخت سزا نہیں دی لیکن تشدد کے ذریعے ایک ساتھی کو مار دیا۔

نذیر نے جان کا نذرانہ دے کر بہت کچھ بچالیا تھا۔ اپنے نظریے اور پارٹی کی ساکھ کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کو بھی، جو گرفتار تھے اور جو باہر تھے۔۔ ایک ایسی شخصیت جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے سوچ بھی نہیں سکتی۔

ولی خان فوجی عدالت میں کمیونسٹوں کے ایک کیس میں بطور صفائی گواہ بیان قلمبند کرانے سے پہلے جام ساقی اور دوسرے اسیران سے بات چیت کر رہے ہیں۔ (بائیں سے) جام ساقی، ولی خان، سہیل سانگی، کمال وارثی، عابد زبیری، اور امر لال۔ جبکہ بدر ابڑو اور شبیر شر کھڑے ہوئے

ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ مصنف وہ ایک خوش مزاج اور سریلی آواز والے نڈر انسان تھے۔ انقلابی نغموں کے علاوہ لوک گیت اور بعض فلمی گیت بھی بڑے شوق سے گاتے تھے۔’’پنجرے کے پنچھی رے تیرا درد نہ جانے کوئی‘‘ بہت اچھا گاتے تھے۔

جنرل ضیاء کی موت کے بعد بینطیر بھٹو حکومت نے ایک ادھوری کوشش کی کہ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھولا جائے لیکن تب تک دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی اور اس معاملے کی مطلوبہ پیروی نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمیونسٹ کا قتل جس کی خاصی شہادتیں موجود تھیں، ملزمان کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔

2008 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آغاز میں بھی ایک تحریک چلی اور میڈیا میں بھی شور ہوا کہ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔مگر بات آگے نہیں بڑھ سکی۔تاہم زیر الزام سابق فوجی افسر امتیاز بلا نے میڈیا میں الٹی سیدھی وضاحتیں کیں۔

نذیر عباسی ایک دیومالائی کردار بن گیا ہے جو سیاسی کارکنوں کو متاثر کرتا رہے گا۔کیونکہ عباسی نے ایک آمر سے لڑتے ہوئے ٹارچر سیل میں مرنا پسند کیا مگر نظریاتی وفاداری پر آنچ نہ آنے دی۔

Dawn.com

جمہوریت کی تحریک ابھی جاری ہے MRD


جمہوریت کی تحریک ابھی جاری ہے

Friday 16 August 2013 سہیل سانگی

تحریک کے پہلے دن سکھر میں پیپلز پارٹی کے رہنما میر ہزار خان بجارانی، جمیعت علمائے اسلام کے مولانا شاہ محمد امروٹی، اور عوامی تحریک کے حسین بخش ناریجو گرفتاری پیش کر رہے ہیں۔ پولیس کی بھاری نفری موقع پر موجود ہے۔ —. فوٹو مصنف اگست انیس سو تراسی کو بالآخرضیاء شاہی کے خلاف چھ سال سے پکتا ہوا لاوا دھماکے سے پھٹ پڑا

اور لوگ بغاوت پر اتر آئے۔ ملک بھر میں چلائی گئی تحریک میں باقی صوبے بھی شامل ہوئے لیکن سندھ میں اس کا زور کچھ اور

ہی تھا جہاں یہ پرامن تحریک تشدد میں بدلی اور جس کے بعد سندھ کا تشخص ہی بدل گیا۔ ضیا دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کثیر جماعتی اتحاد ایم آرڈی کا باضابطہ قیام چھ فروری انیس سو اکیاسی کو ستر کلفٹن پر منعقدہ ایک اجلاس میں عمل میں آیا۔ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ خواجہ خیرالدین گروپ، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان مزدور کسان پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، قومی محاذ آزادی، جمیعت علمائے اسلام، اور تحریک استقلال نے شرکت کی۔ بعد میں عوامی تحریک اور پاکستان نیشنل پارٹی بھی اس اتحاد میں شامل

ہوگئیں۔ یوں مختلف نظریات رکھنے کے باوجود یہ تمام جماعتیں ضیاء کے مارشل لا کے خلاف متحد ہوگئیں۔ الائنس کا چار نکاتی ایجنڈا تھا:

۔ مارشل لا کا خاتمہ

۔ آئین کی بحالی

۔ پارلیمانی انتخابات

۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کا انتقال

اختر حسین ایڈووکیٹ، عبدالحفیظ لاکھوایڈووکیٹ، سہیل سانگی (صحافی) اور بدر ابڑو (ادیب)

کراچی سینٹرل جیل کے وکلاء کے وراڈ میں خوشگوار موڈ میں۔ —. فوٹو مصنف قیام پاکستان کے بعد سندھ کے لوگوں نے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر سرگرمی دکھائی اور تحریک کو طاقت دی۔ ضیا ٹولے نے اس تحریک کو سندھ کی علحدگی یا پاکستان کے خلاف تحریک قرار دینے کی ناکام کوشش کی مگر بعد میں ضیا دورکے سیکریٹری داخلہ روئیداد خان نے اعتراف کیا کہ حکومت اس تحریک کے بارے میں تصور تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی جس کی وجہ سے اس کو بڑے پیمانے پر

ملک گیر حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ ایم آرڈی کو پہلا دھچکا پی آئی اے جہاز کے ہائی جیکنگ سے لگا۔ کراچی سے پشاور جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرکے کابل کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا اور بعد میں اسے شام کے

دارالحکومت دمشق لے جایا گیا۔ ہائی جیکنگ کا ڈرامہ جب ختم ہوا تو ہائی جیکر ایک فوجی افسر سمیت چھ افراد کو قتل کر چکے تھے۔ حکومت نے جہاز کے مسافروں کے عوض، ساٹھ سیاسی قیدیوں کو، جن میں اکثریت پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی تھی، رہا کیا۔ واقعہ کی ذمہ داری الذوالفقار نے قبول کی جس کے سربراہ

ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو تھے۔ حکومت نے اس واقعے کو پیپلز پارٹی سے منسلک کرنے کی کوئی کوشش رائیگاں نہ جانے دی۔ حکومتی پروپیگنڈا اور الذولفقار کے نام پر گرفتاریوں نے ایک غیر معمولی خوف کی فضا پیدا کردی اور یوں مارشل لاء کے خلاف تحریک کو دو سال پیچھے دھکیل دیا۔

تحریک شروع ہونے سے دو روز قبل ایم آرڈی سکھر ڈویژن کا اجلاس، پیپلز پارٹی کے غلام قادر بھٹو

اور عوامی تحریک کے رہنما حسین بخش ناریجو دیگر رہنماؤں کے ساتھ۔—. فوٹو مصنف ایم آرڈی کو دوبارہ سرگرم اور منظم ہونے میں دو سال لگے اور چودہ اگست انیس سو تراسی میں ملک میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس پر ضیاء شاہی آمریت دباؤ میں آگئی اور تحریک شروع ہونے سے صرف دو دن پہلے ضیا نے ایک نئے سیاسی ڈھانچے کا اعلان اور مرحلہ وار انتخابات کرانے کا وعدہ کر لی۔ تاہم اس نے فوج کے کردار، تہتر کے آئین اور سیاسی پارٹیوں

کے کردار کے بارے میں کوئی واضح بات نہ کی۔سو اس اعلان کا تحریک پر کوئی اثر نہ ہوا۔ فیصلے کے مطابق ایم آر ڈی کے کارکنوں اور لیڈروں نے بشمول پیپلز پارٹی کے قائم مقام چیئرمین غلام مصطفیٰ جتوئی کے، مقررہ تاریخ پر رضاکارانہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔ چند ہی روز میں ہی تحریک زور پکڑ گئی۔ طلبہ، مزدور، وکلاء اور دیگر پیشہ ورانہ تنظیموں نے بھی تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ جب مزدورروں کی شرکت بڑھنے لگی تو حکومت نے آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے پر سزائے موت تجویز کی گئی۔ مگر اس کے

باوجود مزدور تنظیمیں باز نہ آئیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ سندھ میں تحریک نے چند ہفتوں میں زور پکڑا لیکن دراصل یہ لاوا ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کو دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ نو اگست انیس سو اسی کو سندھ کے نوجوان لیڈر نذیر عباسی کو اذیت دے کر مار دیا گیا اور پھر ان لاش تک کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا۔ تب تک سندھ کی مختلف جیلیں درجنوں سیاسی کارکنوں سے بھر چکی تھیں جنہیں مارشل لا ء کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کرکے قید اور کوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔ لوگوں کو غصہ تھا۔ ایسا بھی لگتا تھا کہ وہ بھٹو کے قتل کا ’’پلاند‘‘ (بدلہ) بھی لینا چاہتے تھے۔

عوامی تحریک کے رہنما فاضل راہو کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔ —. فوٹو مصنف دوسری طرف سندھی سماج میں احساس محرومی تھا، خاص طور پر حکومتی حلقوں تک رسائی کا۔ وہ اس حکومتی ایوانوں میں خود کو اس حصے سے محروم تصور کرتے تھے تھے جو انہیں بھٹو نے دیا تھا۔ یہاں تک کہ وڈیرے بھی اقتدار سے باہر تھے۔ اس لیے وہ بھی اس تحریک کے ذریعے اقتدار میں واپسی کا راستہ ڈھونڈھ رہے تھے۔ اس سے پہلے سندھ میں ون یونٹ کے خلاف تحریک چلی تھی مگر اس میں وڈیرہ شامل نہیں ہوا تھا۔

جب تحریک سندھ میں عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو مارشل لا حکام نے مظاہرین پر گولیاں، آنسو گیس اورلاٹھیاں برسائیں۔ تحریک اتنی جاندار تھی کہ غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے محتاط سیاستدان بھی گرفتاری دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں تحریک کا کردار خود رو تھا۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں دیہی آٓبادی زیادہ تھی اور منصوبہ بندی اور رہنماؤں کے بغیر ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اس میں عوام کی شرکت اور ہجوم کا ایکشن زیادہ تھا جو کہ دوسرے صوبوں میں نہیں تھا۔

تاہم سندھی قوم پرست جی ایم سید اس تحریک سے دور رہے اور ان کے مطابق یہ عوام کی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی تحریک تھی۔ تاہم ایک وقت پر وہ بھی مجبور ہوگئے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو لکھیں کہ سندھ میں خوں ریزی بند کرائی جائے۔

سندھ میں عام لوگوں کو موبلائیز کرنے میں چار عناصر نے کام کیا:

سب سے اہم عنصر پیپلز پارٹی تھی جس کے لیے لوگوں کے دلوں میں کشش موجود تھی۔ پھر اس کی قیادت وڈیرہ کررہا تھا۔ دیہی لوگ بڑے آدمی کے سائے میں لڑنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں سو اس نے ان کو باہر نکلنے میں مدد دی۔

دوسرے نمبر پر بائیں بازو کی تنظیمیں تھیں۔ ان تنظیموں نے تیسری طاقت کے طور پر کام کیا جس میں عوامی تحریک، ہاری کمیٹی، ارباب کھوڑ کی سندھ وطن دوست پارٹی اور کمیونسٹ شامل تھے۔

غلام مصطفیٰ جتوئی نوابزادہ نصراللہ خان سے ایم آرڈی کے ایک اجلاس کے موقعہ پر مشورہ کر رہے ہیں۔

تصویر میں ولی خان بھی ان کی بات توجہ سے سن رہے ہیں۔ —. فوٹو مصنف تیسرا عنصر سندھ کے دانشو تھے۔ انہوں نے اس تحریک کو فکری بنیادیں فراہم کیں اور عوام کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ سائیں جی ایم سید کی مخالفت کے باوجود لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس

میں حصہ لیا۔ تحریک میں آخری عنصر مذہبی رہنماؤں کا تھا جنہوں نے مولانا شاہ محمد امروٹی کی قیادت میں تحریک کا ساتھ دیا۔

یہ ناصرف ضیا ء کی پالیسیوں کے خلاف سندھ کے لوگوں کا ردعمل تھا بلکہ مظاہرین بھٹو کا انتقام لینے کے نعرے بھی لگایا کرتے تھے۔ سندھ کے لوگوں کے نزدیک مارشل اور فوج کا مطلب پنجاب ہے۔ سندھیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کے مفادات مارشل لا کے تحت محفوظ نہیں ہیں۔

تشدد تشدد کو ہی جنم دیتا ہے۔ جب مارشل لا حکام نے تشدد شروع کیا تو جواب میں فائرنگ، ٹرینوں، تھانوں، بینکوں اور سرکاری املاک پرمسلح حملے ہونے لگے۔ تحریک کے چوتھے ہی دن دادو میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ پانچویں دن چار افراد ہلاک ہوئے اور تحریک اور تیز ہوگئی۔ مارشل لا اتھارٹیز نے اور سخت اقدامات کئے تو لوگ اور بپھر گئے۔ لوگوں میں سزاؤں اور گرفتاریوں ڈر ختم ہونے لگا۔ خیرپور ناتھن شاہ میں سات افراد اور گوٹھ پنھل چانڈیو میں سولہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ایم آ رڈی کے ایک اجلاس کا منظر: تصویر میں بینظیر بھٹو، معراج محمد خان، نوابزادہ نصراللہ

خان، فتحیاب علی خان، بی ایم کٹی اور دیگر رہنما نظر آرہے ہیں۔ —. فوٹو مصنف سرکاری طور پر کہا گیا تھا کہ اکسٹھ افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہوئے جبکہ چار ہزار چھ سو اکیانوے کو گرفتار کیا گیا مگر محققین کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں مرنے والوں کی تعداد چھ سےآٹھ سو سے زیادہ تھی اور پندرہ ہزار سے زائد گرفتار کیے گئے۔ جیلیں بھر گئیں اور وہاں

مزید قیدی رکھنے کی گنجائش نہ رہی۔ دادو اور بدین میں ضیاء الحق کو آنے نہیں دیا گیا۔ ایم آرڈی تحریک کی وجہ سے صوبے میں انتظامیہ غیرموثر ہوکر رہ گئی۔ امن وامان کی صورتحال اتنی تباہ ہوئی کہ اس کا اظہار سابق گورنر جنرل جہانداد خان کے ان واضح الفاظ میں ملتا ہے: بشیر صدیقی آئی جی سندھ پولیس کو دادو سے لاڑکانہ کا دورہ ملتوی کرنا پڑا کیونکہ ان کے پولیس گارڈز نے ان کو تحفظ دینے سے انکار کردیا تھا۔

جہاں تحریک سندھ میں سیاسی تبدیلی کا لینڈ مارک ثابت ہوئی وہاں پنجاب میں اسے وہ پذیرایی نہ حاصل ہو پایی۔ شاید پنجاب فوج اور بیوروکریسی میں بھرپور نمائندگی کی وجہ سے مارشل لا کے تحت بھی اقتدار میں شریک تھا۔ پھر یہ بھی کہ ضیا حکومت کا رویہ پنجاب میں اتنا سخت نہیں تھا۔ یہ وہ دوری ہے جو سندھ اور پنجاب کے درمیان ضیا آمریت نے ایسی بوئی کہ آج بھی اس کے اثرات دکھاؕئی دیتے ہیں۔

یوں سندھ اکیلا رہ گیا اور یہاں تحریک کو پرتشدد بنانا آسان ہوگیا۔ یہاں تک کہ بعد میں غلام مصطفیٰ جتوئی نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر پنجاب ساتھ دیتا تو ضیا کو جانا پڑتا۔

مارشل لا کے سزا یافتہ ملزم کو سر عام کوڑے مارے جارہے ہیں۔ ہزاروں کا ہجوم اس کا تماشہ

دیکھ رہا ہے۔ —. فوٹو مصنف کراچی میں تحریک جاری رہی مگر یہاں بھی اردو بولنے والوں کی تعداد ایک خاص حد سے نہ بڑھ سکی۔

اگرچہ ایم آر ڈی کی تحریک فوری طور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی لیکن اس نے ضیا شاہی جبر کو اتنا ڈرا دیا کہ حکومت کو انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کروانے پڑے جو سویلین کو اقتدار کی منتقلی کا پہلا قدم ثابت ہوا۔ تیس سال گزر جانے کے بعد آج بھی لگتا ہے کہ جمہوری عمل مستحکم ہونا باقی ہے اور عملی طور پر عوام جمہوریت کے پھل سے محروم ہیں لیکن ایسی تحریکوں کے اثرات جتنے بھی سست کیوں نہ ہوں، دیرپا ضرور ہوتے ہیں۔

قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان کی گرفتاری کا منظر۔ —. فوٹو مصنف ضیاء شاہی نے سندھ اور پنجاب کے درمیان جو دوری کا بیج بویا اس کی جڑیں اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں مگر جمہوریت کا سفر اگر تیز تر ہو تو یہ اس کی بقا میں زیادہ بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بحالیِ جمہوریت کی تحریک آج بھی جاری ہے۔

جمهوريت جي بحالي لاءِ جدوجهد جي شروعات جو ڏينهن MRD


جمهوريت جي بحالي لاءِ جدوجهد جي شروعات جو ڏينهن

سهيل سانگي

اهو 14 آگسٽ جو ڏينهن هو، جڏهن ضياءَ شاهي خلاف ڇهن سالن کان پچندڙ لاوو ڌماڪي سان ڦاٽي پيو ۽ ماڻهو بغاوت تي لهي آيا. پرامن گرفتارين جي هيءَ تحريڪ پرتشدد ٿي ويئي. ٻيا صوبا اڳتي نه آيا، هن تحريڪ سنڌ جو تشخص بدلائي ڇڏيو. ضياءَ دور ۾ مارشل لا جي خلاف گهڻ جماعتي اتحاد جو باضابطا اعلان ڇهه فيبروري تي 1981ع تي 70 ڪلفٽن تي هڪ اجلاس ۾ ڪيو ويو. هن اجلاس ۾ پيپلز پارٽي، مسلم ليگ خواجا خير الدين گروپ، پاڪسان ڊيموڪريٽڪ پارٽي، پاڪستان مزدور ڪسان پارٽي، قومي محاذ آزادي، جميعت علماءِ اسلام ۽ تحريڪ استقلال شرڪت ڪئي. بعد ۾ عوامي تحريڪ ۽ پاڪستان نيشنل پارٽي به هن اتحاد ۾ شامل ٿي ويون. جيتوڻيڪ اتحاد ۾ شامل پارٽيون هڪ ٻئي جي مخالف خيال رکندڙ هيون، پر ضياءَ جي مارشل لا خلاف متحد ٿي ويون. پيپلز پارٽي به اها ڪڙي گوري کاڌي، جو انهن ماڻهن سان اتحاد ڪيو، جيڪي ستر واري ڏهاڪي ۾ ان جي حڪومت ڊاهڻ جو سبب بڻيا ۽ ان بعد ڀٽي کي ڦاسي جي سزا آئي. اهو اتحاد چار نڪاتي هو، جنهن جا مارشل لا جو خاتمو، آئين جي بحالي، پارلياماني چونڊون ۽ اقتدار عوام جي حوالي ڪرڻ اهم نڪتا هئا.

ايم آر ڊي سنڌ جي ماڻهن جي طاقتور تحريڪ هئي، پاڪستان ٺهڻ کانپوءِ سنڌ جي ماڻهن پهريون ڀيرو سول نافرماني جي انداز ۾ عوامي سطح تي سرگرمي ڏيکاري. جيتوڻيڪ ون يونٽ خلاف تحريڪ به سنڌ ۾ وڏي سجاڳي آندي، پر هي تحريڪ ان کان به هيٺين سطح تي هئي. ضياء ٽولي هن تحريڪ کي سنڌ جي عليحدگي يا پاڪستان خلاف تحريڪ قرار ڏيڻ جي ڪوشش ڪئي، پر اتحاد ۾ اعتدال پسند ڌرين جي موجودگي ۽ 73ع واري آئين جي مطالبي انهيءَ الزام کي ڌوئي ڇڏيو ۽ دنيا کي اهو پيغام مليو ته ”اهي احتجاج ڪندڙ ماڻهو ته 73ع واري آئين جي بحالي پيا گهرن.“ ان ڳالهه جو اعتراف ضياء ٽولي جي گهرو سيڪريٽري روئيداد خان بعد ۾ پنهنجي يادگيرين ۾ به ڪيو ته حڪومت هن تحريڪ جي باري ۾ عوام وٽ تصور تبديل/خراب ڪرڻ ۾ ڪامياب نه ويئي، جنهن ڪري ان کي ملڪ ۾ وڏي پيماني تي حمايت حاصل نه ٿي سگهي. ايم آر ڊي ٺهڻ کانپوءِ جنرل ضياءَ مارچ 81ع ۾ عدليه جا اختيار گهٽائي ڇڏيا، جنهن تحت عدالتون مارشل لا جي سزائن قيد ۽ ڦٽڪن کي معطل يا نظر بندي کي ناجائز قرار نٿي ڏيئي سگهيون.

مارشل لا جي خلاف ٺهيل هن اتحاد کي پهريون ڌڪ پي آءِ اي جي جهاز جي هائيجيڪنگ سبب لڳو، ڪراچي کان پشاور ويندڙ جهاز کي هائيجيڪ ڪري ڪابل جي هوائي اڏي تي لاٿو ويو. بعد ان جهاز کي شام جي گاديءَ واري شهر دمشق نيو ويو. هائيجيڪنگ جو ڊرامو تڏهن ختم ٿيو، جڏهن هائيجيڪرن هڪ فوجي آفيسر سوڌو ڇهن ڄڻن کي قتل ڪيو ۽ مارشل لا حڪومت 60 سياسي قيدين کي، جن ۾ اڪثريت پي پي ڪارڪنن جي هئي، جهاز جي مسافرن جي عيوض آزاد ڪري دمشق موڪليو ويو. ”الذوالفقار“ تنظيم هن واقعي جي ذميواري قبول ڪئي، جنهن جو سربراهه ذوالفقار علي ڀٽي جو وڏو فرزند مير مرتضى ڀٽو هو. هن واقعي کي حڪومت پيپلزپارٽي سان ڳنڍڻ لاءِ سمورا زور لڳايا. حڪومتي پروپيگنڊا ۽ الذوالفقار جي نالي ۾ گرفتارين ملڪ ۾ خاموشي پيدا ڪري ڇڏي. هن واقعي ڄڻ مارشل لا خلاف تحريڪ کي ڪجهه عرصي لاءِ پوئتي ڌڪي ڇڏيو.

نئين ٺهيل اتحاد کي پنهنجو پاڻ منظم ۽ عوام کي سرگرم ڪرڻ ۾ ٻه سال لڳي ويا. جيئن ئي ايم آر ڊي 14 آگسٽ کان تحريڪ هلائڻ جو اعلان ڪيو ته ضياءَ دٻاءَ ۾ اچي ان کان 2 ڏينهن اڳ يعني 12 آگسٽ تي نئون سياسي ڍانچو پيش ڪيو ۽ مرحليوار چونڊون ڪرائڻ جو واعدو ڪيو. پر فوج جي ڪردار 73ع واري آئين ۽ سياسي پارٽين جي ڪردار جي باري ۾ ڪا واضح ڳالهه نه هئي. پر ضياءَ جي هن اعلان باوجود تحريڪ جهڪي نه ٿي. ايم آر ڊي جي ڪارڪنن ۽ ليڊرن فيصلي موجب 14 آگسٽ کان رضاڪارانه طور گرفتاريون ڏيڻ شروع ڪيون. چند ئي ڏينهن ۾ تحريڪ عروج تي پهچي ويئي. سڄي سنڌ ۾ ڪمال جو جوش، جذبو ۽ ولولو نظر آيو. شاگردن، مزدورن، وڪيلن، هارين ۽ ٻين پيشيوارانه تنظيمن به هن تحريڪ جي حمايت جو اعلان ڪيو. جڏهن مزدورن جي شرڪت وڌڻ لڳي ته حڪومت هڪ آرڊيننس جاري ڪيو، جنهن تحت عوام جي ملڪيت کي نقصان پهچائڻ تي موت جي سزا رکي ويئي.

سنڌ ۾ اُڀار جا سبب:

بظاهر اهو ٿو لڳي ته ان تحريڪ چند هفتن ۾ زور ورتو، پر ائين ناهي. در اصل سنڌ ۾ هڪ عرصي کان بي چيني پچي رهي هئي. ڀٽي جي ڦاسيءَ کي اڃا ٻه سال به نه ٿيا هئا جو 9 آگسٽ 1980ع تي سنڌ جي هڪ نوجوان نذير عباسيءَ کي اذيت گاهه ۾ عقوبتون ڏيئي شهيد ڪيو ويو ۽ سندس لاش کي لاوارث قرار ڏيئي دفنايو ويو. سنڌ ۾ سوين ڪارڪن قيد ۽ ڦٽڪن جون سزائون ڀوڳي رهيا هئا. سنڌ جي ماڻهن کي ان تي به ڪاوڙ هئي. تحريڪ کي سنڌ ۾ عوامي حمايت حاصل ٿيندي ڏسي مارشل لا حڪام ماڻهن تي گوليون، لٺيون ۽ آنسو گئس وسايا. گرفتاريون ۽ ڦٽڪا ته اڳ ئي هئا، ائين تحريڪ ۾ تشدد جو عنصر به شامل ٿي ويو. ٻين صوبن جي ڀيٽ ۾ سنڌ ۾ تحريڪ وڌيڪ خود رو هئي، ان جي اها به خصوصيت هئي ته ان تي ٻهراڙين جو رنگ حاوي هو ۽ اها بنا منصوبا بندي جي بنا ڪنهن وڏي ليڊر جي هئي، ان ۾ عوام جي شرڪت ۽ هجوم جو ايڪشن هو، جيڪو ٻين صوبن ۾ نه هو.

وڏيرن جي شموليت:

سنڌ ۾ تحريڪ جي اڀار جو ڪارڻ اهو به بڻيو، جو سنڌ ملڪ جي ايليٽ ۾ بنهه موجود نه هئي. سنڌ جو ايليٽ طبقو 77ع کان پوءِ اقتدار کان ٻاهر هو. ضياءَ جي نظام ۾ هن کي ڪا جاءِ نه پئي ملي.هن اها جاءِ واپس وٺڻ پئي گهري. هن تحريڪ هن لاءِ اهڙو موقعو پيدا ڪيو. اها به حقيقت آهي ته سنڌ جي وڏيري هن کان اڳ ڪنهن اهڙي تحريڪ ۾ حصو نه ورتو هو. سنڌ جي هن کان اڳ هليل وڏي ۾ وڏي تحريڪ ون يونٽ ٽوڙ تحريڪ هئي. وڏيرو ان ۾ پاسيرو رهيو هو. ٻيو ڪارڻ اهو به هو ته وڏيري کي هيٺان کان دٻاءُ هو. يعني ٻهراڙي وارن ماڻهن جو دٻاءُ. سنڌي سماج ۾ حد کان وڌيڪ احساس محرومي هئي. خاص ڪري حڪومتي حلقن تائين ان جي رسائي بلڪل ختم ٿي چُڪي هئي. هو اقتدار ۾ شموليت جي ان احساس کان محروم هو، جيڪو کين ڀُٽي ڏنو هو. ٽيون ڪارڻ اهو هو ته سنڌ جي ماڻهن کي (جنهن ۾ ننڍا وڏا وڏيرا پڻ شامل آهن) هن تحريڪ ۾ جان نظر آئي ۽ هو وڏي پيماني تي تحريڪ ۾ شريڪ ٿيا، جڏهن انهن ڏٺو ته غلام مصطفى جتوئي جهڙو محتاط سياستدان به گرفتاري ڏيڻ لاءِ تيار هو. هي پهريون موقعو هو، جو قيادت فرنٽ لائين تي هئي. ليڊرن گرفتاريون ڏنيون. ان جو سبب اهو هو، جو گذريل ڪجهه سالن دوران هن جي پوزيشن گهٽ ٿي ويئي هئي، سا هو بحال ڪرڻ پيو گهري. ائين ليڊر ۽ ڪيڊر ٻئي ميدان ۾ هئا.

تشدد تشدد کي ئي جنم ڏيندو آهي، جڏهن مارشل لا حڪام تشدد ڪيو ته جواب ۾ فائرنگ، ريل گاڏين، ٿاڻن، بئنڪن ۽ ٻين سرڪاري عمارتن تي حملا ٿيا. تشدد جو اندازو ان مان ڪري سگهجي ٿو ته تحريڪ جي ٻئي ڏينهن تي دادو ۾ فورسز ۽ احتجاج ڪندڙن جي وچ ۾ چڪريون ٿيون، جنهن ۾ هڪ ڄڻو مارجي ويو. پنجين ڏينهن تي چار ماڻهو مارجي ويا. تحريڪ اڃا تيز ٿي ته مارشل لا اختياري وارا وڌيڪ مڇرجي پيا ۽ سخت قدم کنيائون. پر ماڻهن کي هاڻي سزائن ۽ گرفتارين جو ڊپ نه هو. خيرپور ناٿن شاهه ۾ ست ۽ سڪرنڊ ويجهو ڳوٺ پنهل چانڊيو ۾ 16 ماڻهو شهيد ڪيا ويا.

سرڪاري طور تي اهو چيو ويو ته 61 ماڻهو قتل ۽ 200 زخمي ٿيا آهن. جڏهن ته 4691 ڄڻا گرفتا رڪيا ويا آهن، پر محققن جو چوڻ آهي ته مارجي ويلن جو تعداد 600 کان 800 آهي ۽ پندرنهن هزار کان وڌيڪ ماڻهو گرفتار ٿيا هئا. جيل ڀرجي ويا، اتي گنجائش کان وڌيڪ قيدي رکيا ويا. فوجي حڪومت جو سنڌ جي ماڻهن ڏانهن رويو ٻين صوبن کان مختلف هو، هتي حڪومت تشدد جو عنصر شامل ڪيو ته جيئن ماڻهن کي ماري ڪُٽي، ڊيڄاري هيسائي ماٺ ڪرائجي. پر هن تشدد سبب صورتحال اها هئي، جو ماڻهو فوج خلاف وڙهي رهيا هئا. دادو ۽ بدين ۾ سمورن حفاظتي اُپائن جي باوجود سروٽا وسايا ويا. گڏهن تي ضياءَ جو نالو لکي سندس رستي تي ڇڏيا ويا. ايم آر ڊي تحريڪ سبب صوبي ۾ انتظاميا غير موثر بڻجي ويئي. ان جو اظهار تڏهوڪي گورنر جهانداد خان جي يادگيرين واري ڪتاب مان هن ريت ملي ٿو. آءِ جي سنڌ پوليس بشير صديقي کي دادو کان لاڙڪاڻي وارو دورو ملتوي ڪرڻو پيو، ڇاڪاڻ جو پوليس کيس تحفظ ڏيڻ کان لاچاري ڏيکاري.

سنڌ ۾ ماڻهن کي متحرڪ ڪرڻ ۾ پنجن ڳالهين ڪم ڪيو.

(1) پيپلز پارٽي، جنهن لاءِ ماڻهن ۾ ڇڪ هئي ۽ ان جي قيادت وڏيرن وٽ هئي. مخصوص نفسيات مطابق ڳوٺاڻو ماڻهو ڪنهن وڏي ماڻهو جي آڙ ۾ ورهڻ ۾ سهولت محسوس ڪندو آهي.

(2) کاٻي ڌر جون تنظيمون، انهن تنظيمن نئين طاقت جو ڪم جنهن ۾ عوامي تحريڪ، ڪميونسٽ پارٽي، ڊاڪٽر ارباب کهاوڙ جي وطن دوست پارٽي ۽ هاري تنظيمون، ڊاڪٽر ارباب کهاوڙ جيئي سنڌ محاذ مان ڌار ٿي پنهنجي پارٽي ٺاهي هئي.

(3) سنڌ جا دانشور، جن ماڻهن انهيءَ سڄي تحريڪ کي فڪري بنياد فراهم ڪرڻ سان گڏ ماڻهن جي اڀار کي صحيح قرار ڏيندي مڃتا ڏني. انهيءَ مڃتا سبب سائين جي ايم سيد طرفان هن تحريڪ کان پري رهڻ ۽ ان کي پيپلز پارٽي جي تحريڪ قرار ڏيڻ باوجود ماڻهن اڳتي وڌي ان ۾ حصو ورتو.

(4) ڪجهه حصو سنڌ جي ڪن مذهبي ڌرين جو به آهي، جن ۾ مولانا شاهه محمد امروٽي جي اڳواڻي ۾ تحريڪ جي قيادت ڪئي. ڏٺو وڃي ته هي تحريڪ ضياءَ جي پاليسين خلاف سنڌ جي ماڻهن جو رد عمل هو. احتجاج ڪندڙ ڄڻ ڀٽي جي قتل جو پلاند وٺڻ لاءِ ٿي نڪتا. هن تحريڪ سنڌ ۾ قومپرستيءَ کي ٻيهر جيئاريو. ڇاڪاڻ جو سنڌ جي ماڻهن وٽ مارشل لا ۽ فوج جو مطلب پنجاب آهي. سنڌين جي اڪثريت سمجهيو ته انهن جا مفاد مارشل لا تحت محفوظ ناهن.

پنجاب جي عدم شرڪت:

اها تحريڪ سنڌ ۾ سياسي تبديلي جو لينڊ مارڪ ثابت ٿي، پر پنجاب جي ان تحريڪ ۾ شرڪت نه ٿي سگهي. ضياءَ سنڌ ۽ پنجاب کي الڳ الڳ ڪيو. هڪ ته پنجاب جي فوج ۽ نوڪر شاهي وغيره ۾ موثر موجودگي سبب ان جي اقتدار ۾ شرڪت ۽ شموليت موجود هئي. ٻئي طرف ضياء جيڪا ٻنهي صوبن وچ ۾ اها دوري پيدا ڪئي هئي، سا اڄ به موجود آهي. هڪ پاسي پنجاب ۾ تحريڪ اڳتي نه وڌي. ٻئي پاسي سنڌ ۾ تشدد جو عنصر شامل ٿي ويو. جنهن تي ضياء ٽولي کي اهو چوڻ ۾ آساني ٿي ته سنڌ جو عوام عليحدگيءَ لاءِ وڙهي رهيو آهي. غلام مصطفى جتوئي پنجاب طرفان ڪردار ادا نه ڪرڻ تي هڪ انٽرويو ۾ چيو هو ته جيڪڏهن پنجاب ساٿ ڏئي ها ته ضياءَ ڪڏهوڪو هليو وڃي ها. ڪراچيءَ ۾ تحريڪ جاري ته رهي، پر ان ۾ سنڌي ۽ بلوچ شامل هئا.

اردو ڳالهائيندڙن مان ڪي چند اچي سگهيا. ڪراچي جي اردو ڳالهائيندڙن جي انهي دوري، اڳتي هلي ايم ڪيو ايم جي شڪل اختيار ڪئي. اڄ مصر يا ٻين ملڪن ۾ عوامي اڀار سڄي دنيا جي توجهه جو مرڪز بڻيل آهي. ان اڀار ۾ ميڊيا ۽

پيغام رساني جي جديد ٽيڪنالاجي جو وڏو هٿ آهي.

ايم آر ڊي تحريڪ در اصل ان اڀار کان وڏي تحريڪ آهي. ڇاڪاڻ جو ايم آر ڊي جي ڏينهن ۾ سينسر شپ هئي ۽ ايڏي وڏي ملڪي توڙي عالمي سطح تي نه ميڊيا هئي ۽ نه وري پيغام رساني جا اڄوڪا ذريعا.

هي تحريڪ هلائي ته سڄي ملڪ جي ماڻهن هئي، بدقسمتي سان هن تحريڪ ۾ ٻين صوبن جي شرڪت معمولي رهي. سنڌ ۾ فوجي حڪمرانن ماڻهن تي گوليون هلايون. اها تحريڪ ضياءَ حڪومت لاءِ وڏو چئلينج هئي. ڇاڪاڻ جو اها 77ع ۾ چونڊيل حڪومت جو تختو اونڌو ڪرڻ کي چئلينج ڪري رهي هئي. ايم آر ڊي کڻي سڄي ملڪ جي ماڻهن کي متحرڪ نه ڪري سگهي. پر سنڌ جي ماڻهن پنهنجو ڪم ڪري ڏيکاريو، جيڪي ڀٽي جي ڦاسيءَ سبب وڌيڪ حساس هئا. ان ڪري سنڌ هن تحريڪ ۾ اڳيان اڳيان رهي. فوج سان ٽڪر سبب اهي ڏند ڪٿائون ٽٽي ويون ته سنڌ جو ماڻهو مسلح جدوجهد نٿو ڪري سگهي. جيتوڻيڪ پهرين نطر ۾ اها تحريڪ عام چونڊون ڪرائڻ ۾ ناڪام رهي، پر 1985ع واريون غير جماعتي چونڊون ايم آر ڊي تحريڪ جو نتيجو هيون، جيڪو سويلين حڪومت ڏي پهريون قدم هو. ڏٺو وڃي ته اڄ به ملڪ جو عوام جمهوريت جي ڦل کان وانجهيل آهي. ضياء سنڌ ۽ پنجاب وچ ۾ ۽ ڪراچي جي ماڻهن جي باقي سنڌ جي ماڻهن کان دوري جو جيڪو ٻج ڇٽيو، سو اڄ به ڏچو بڻيل آهي.

Kawish Aug 14, 2013

Thursday, August 8, 2013

مڪاني ادارن جي انتظامي ڍانچي ۾ آيل تباهي - اختيار کوکر


مڪاني ادارن جي انتظامي ڍانچي ۾ آيل تباهي ۽ ان جا سبب

اختيار کوکر

سنڌ حڪومت صوبي جي مڪاني نظام لاءِ هڪ ڀيرو ٻيهر نئين قانون جو مسودو تيار ڪري ورتو آهي. انساني معاشري جي ڪنهن به سرشتي جي قيام ۽ ان کي هلائڻ لاءِ قانون ۽ قاعدن جي بنيادي حيثيت ٿئي ٿي، پر ڪنهن به نظام کي هلائڻ لاءِ قانون قاعدا لاڳو ڪرڻ کان وڌيڪ انهن تي عمل ڪرڻ ۽ قانون جي ڪتابن ۽ مسودن ۾ ان قانون تي عمل ٿيڻ سان عوام کي ملندڙ لاڀ جي ٿيل دعوائن کي حقيقت جو روپ ڏيڻ جي اهيمت ٿئي ٿي. مڪاني ادارن ۽ مڪاني سرشتي جو سڌو سنئون تعلق عوام جي بنيادي شهري سهولتن سان ٿئي ٿو، شهري توڙي ٻهراڙي وارن علائقن جي صفائي سٿرائي، پاڻي فراهمي ۽ نيڪالي، روڊن رستن، گهٽين ۽ ٻين بنيادي سهولتن جي اڏاوتن، مارڪيٽن ۽ منڊين، مال پڙين، بيمارين کان بچاءَ وارين سرگرمين کان وٺي زندگيءَ جي بنيادي سهولتن واريون ٻيون گهڻيون ذميواريون مڪاني ادارن جي ذمي اچن ٿيون، ائين کڻي چئجي ته زندگي جي سک ۽ خوشحاليءَ جو مڪاني ادارن ۽ مڪاني نظام سان گهڻو ويجهو ناتو آهي، پر اسان جي بدقسمتي اها آهي جو گذريل ٽن سالن کان مڪاني نظام کان سنڌ وانجهيل آهي.

جيڪڏهن 1979ع وارو مڪاني قانون لاڳو به رهيو آهي ته اڳوڻن اتحادين جي سياسي دٻاءَ سبب حڪومت عمل ناهي ڪرائي سگهي. ان کان وڏي خرابي اها ٿي آهي، جو ٽرانزيشن يا ڪنهن ٻئي نالي ۾ جنهن مڪاني نظام کي هلايو پيو وڃي، اهو مڪمل طور تي ڪرپشن ۽ بدترين بد انتظامي جي صورتحال جي ور چڙهيل آهي. ڏٺو وڃي ته سنڌ ۾ عوام جي پاپولر راءِ موجب قابل عمل مڪاني قانون لاڳو ڪرڻ کان وڌيڪ اهميت مڪاني ادارن ۾ ڪرپشن ۽ بدانتظاميءَ جي جنم ورتل نئين ڪلچر کي ختم ڪرڻ ۽ قانونن ۽ قاعدن واري لغام مان بي لغام ٿي ويل گهوڙي کي ڪنٽرول هيٺ آڻڻ جي آهي. هاڻي اچو ته ڏسون ٿا ته سنڌ ۾ مڪاني سطح تي ڇا پيو ٿئي.

سنڌ حڪومت کان 1998ع ۾ ختم ٿيل آڪٽراءِ ۽ ضلع ٽيڪس جي بدلي صوبي جي مڪاني ادارن کي هر سال 37 کان 43 ارب رپيا منتقل ٿين ٿا، اهڙي طرح گذريل پنجن سالن دوران صوبائي حڪومت کان مڪاني ادارن کي اٽڪل پوڻا ٻه کرب رپيا منتقل ٿيا آهن، پر صوبي جي شهري توڙي ٻهراڙين جي صفائي سٿرائي، پيئڻ جي پاڻي جي فراهمي، گندي پاڻي جي نيڪالي ۽ ٻين شهري سهولتن ۾ آيل تباهي، شهرين ۽ ملازمن جي احتجاجن، ڌرڻن ۽ جلوسن جي خبرن سان روزانو اخبارون ڀريون پيون آهن. صوبي جي شهرن جا روڊ رستا، گهٽيون، ناليون اکڙيون پيون آهن، ننڍن شهرن کي ته ڇڏيو، سکر، شڪارپور، لاڙڪاڻو، حيدرآباد، ميرپورخاص جهڙن وڏن شهرن جا روڊ رستا پڻ گندي پاڻي جا تلاءَ بڻيل آهن.

تازين برساتن ته رهيل ڪسر به پوري ڪري ڇڏي آهي ۽ مڪاني ادارن جي ناڪامي جي سڄي پت وائکي ڪري وڌي آهي. پوڻا ٻه کرب تمام وڏي رقم آهي. جيڪڏهن اها رقم ٺيڪ طرح سان صوبي جي شهرن ۽ ٻهراڙين جي عوام کي بنيادي شهري سهولتون ڏيڻ تي خرچ ٿئي ها ته سڄي سنڌ جي اها حالت نه هجي ها. سوال اهو آهي ته جيڪڏهن اها وڏي رقم عوامي سهولتن لاءِ خرچ ٿيندي نظر نٿي اچي ته پوءِ ڪيڏانهن وئي؟ ۽ اڃا به مڪاني ادارن کي هر مهيني صوبائي ناڻي کاتي کان جاري ٿيندڙ اٽڪل 3 ارب رپيا ڪيڏانهن گم ٿي وڃن ٿا؟ ان رقم مان اٽڪل 75 ڪروڙ رپيا ڪراچي جي مڪاني ادارن کي جاري ٿين ٿا، ڪراچي جي مڪاني ادارن تي ڪنهن جو ڪنٽرول آهي، اها ڪا لڪل ڳالهه ناهي اهو به درست آهي ته ڪي ايم سي ڪراچي ۽ ڪراچي جي ٽائونن جو انتظامي نظام پڻ گهڻو بگڙيل آهي ۽ ادارن هڪ مخصوص ڌر ۽ سندن ذاتي ڪمپني جي حيثيت اختيار ڪري ويا آهن، اهو به ٿيو آهي ته هنن پنهنجا هزارين ڪارڪن انهن مڪاني ادرن ۾ ڀرتين تي پابندي جي باوجود ٻيون سموريون گهربل ڪوڊل فارملٽيز پوريون ڪرڻ بنا ڀري ڇڏيا آهن، ڪيترن ئي هڪ ۽ ٻه گريڊ ۾ ڀرتي ٿيل پٽيوالن، مالهين، قولين ۽ خاڪروبن کي غير قانوني ترقيون ڏئي آفيسر بڻائي ڇڏيو اٿن،

هن شهر جي مڪاني ادارن جي ٺيڪن ۽ ڀتن جو پڻ ڪو حساب ڪونهي، پر پوءِ به ڪراچي ۾ ڪجهه نه ڪجهه ڪم ٿيندي نظر اچي ٿو، پر صوبي جي ٻهراڙين وارن ٻين ضلعن جي شهرن ۾ ته اونداهه لڳي پئي آهي، ڇڙو ڌوڙ پئي اڏامي ۽ گندگي جا ڍير لڳل آهن، اها هاڻي ڪا لڪل ڳالهه ناهي رهي ته گذريل پنجن سالن دوران مقامي ڀوتارن ۽ مڪاني ادارن واري کاتي جي ڪرپٽ عملدارن لاءِ صوبي جا مڪاني ادارا سونا آنا ڏيندڙ ڪڪڙ بڻجي ويا آهن.

رڪارڊ جي ڳالهه اها آهي جو سنڌ جي وڏي وزير پاڻ هڪ سمري تي لکيو آهي ته سنڌ حڪومت پاران مڪاني ادارن کي جاري ٿيندڙ سمورا فنڊ ڪرپشن جي ور چڙهي ٿا وڃن ۽ صوبائي حڪومت پاران اربين رپيا جاري ٿيڻ باوجود ڪو به ترقياتي ڪم ناهي ٿيو، مڪاني ادارن جون ترقياتي رٿائون صرف ڪاغذن ۾ ٺهن ٿيون، پر عوام کي انهن جو ڪو به لاڀ نٿو ملي. سيد قائم علي شاهه صوبي جي مڪاني ادارن بابت حقيقت تي ٻڌل اهي تاريخي ريمارڪس مڪاني ادارن واري کاتي پاران سندس اڳوڻي حڪومت جي ڏينهن ۾ صوبي ۾ 1979ع وارو مڪاني نظام لاڳو هجڻ جي باوجود ٽرانزيشن جي نالي ۾ مشرف واري ناظمي نظام هيٺ مڪاني ادارن کي فنڊ جاري ڪرڻ لاءِ اماڻيل هڪ سمري تي لکيا. اسان سنڌ جي وڏي وزير جي انهن ريمارڪس کي بلڪل درست سمجهون ٿا، پر سوال اهو آهي ته وڏو وزير پنهنجي حڪومت ۾ ٿيل ان بد انتظامي جو ذميوار ڪنهن کي ٿو قرار ڏي؟

صورتحال کي جيڪڏهن اڃا وڌيڪ واضح ڪجي ته حالت اها آهي جو سپريم ڪورٽ آف پاڪستان انيتا تراب ڪيس واري فيصلي ۾ حڪومتن کي پابند بڻايو آهي ته بنا سبب ڪنهن به آفيسر کي مقرري کان پوءِ ٽن سالن جي مدي تائين سندس عهدي تان نه هٽايو وڃي، ان کانسواءِ سنڌ جو وڏو وزير وقت به وقت صوبي ۾ بدلين ۽ مقررين تي پابندي لاڳو ڪرڻ جا نوٽيفڪيشن جاري ڪرائيندو رهيو آهي، پر سنڌ جو مڪاني ادارن وارو کاتو سپريم ڪورٽ توڙي صوبائي حڪومت جي ڪنهن به فيصلي ۽ قاعدي قانون جي دائري ۾ شايد نٿو اچي. صوبي جي مڪاني ادارن ۾ چيف آفيسر ۽ ٽي ايم اوز وارن اهم انتظامي عهدن تي گذريل ٽن سالن کان ماهوار بنيادن تي آفيسر بدلي ٿي رهيا آهن، ڪٿي ته ائين به پيو ٿئي جو هڪ مهيني اندر ٽي ٽي آفيسر بدلي ٿي وڃن ٿا.

هاڻي وري مڪاني ادارن واري کاتي جي نئين وزير موصوف مڪاني ادارن جي گذريل ڏهن سالن جي خرچن جي آڊٽ ڪرائڻ جو اعلان ڪيو آهي، سٺو اعلان آهي، آڊٽ ٿيڻ گهرجي، پر جيڪڏهن هر مهيني چيف آفيسر خرچن جا ٻيا مجاز آفيسر بدلي ٿيل هجن ته بد انتظامين جو ذميوار ڪنهن کي قرار ڏنو ويندو؟ هتي ته صورتحال اهڙي بڻيل آهي، جو علائقي جا ماڻهو اڪثر ٽي ايم ايز جي شڪل به نٿا ڏسن، ٻين علائقن جا عارضي طور مقرر ٿيل اهي آفيسر فنڊن جي قسط اچڻ تي صرف اڪائونٽ مان پيسا ڪڍرائڻ ايندا آهن. ٻيو اهو ته آڊٽ ڪير ڪندو؟ ڇا صوبائي ناڻي کاتي جي انتظامي ڪنٽرول هيٺ هلندڙ لوڪل فنڊ آڊٽ وارا اهي آفيسر آڊٽ ڪندا، جن جي پري آڊٽ (خرچن کان پهرين واري آڊٽ) جي منظوري سان اهي خرچ ٿيل آهن، جيڪي طئه ٿيل حساب ڪتاب سان بلن تي پري آڊٽ جو اکيون ٻوٽي ٺپو هڻي ڏيندا آهن.

ان کانسواءِ اهو به ٿيو آهي، جو ميرپورخاص ۽ سانگهڙ ضلعن جي ڊپٽي ڪمشنرن ڪجهه ڏينهن اڳ مڪاني ادارن واري کاتي جي انتظاميا کي خط لکي دانهن ڏني آهي ته مڪاني ادارن جي جن ٽي ايم اوز کي مڪاني ادارن واري کاتي هٽائڻ جو نوٽيفڪيشن جاري ڪري ڇڏيو آهي ۽ ڊي سي کين عهدن تان فارغ ڪري چڪا آهن ۽ لاڳاپيل بينڪن کي لکي چڪا آهن ته ٽي ايم اي جا اڪائونٽ هلائڻ لاءِ سندس صحيح وارا چيڪ ڪيش نه ڪيا وڃن، پر پوءِ به بينڪ انتظاميا ساڳين هٽايل آفيسرن سان ملي ڀڳت ڪري سندن صحيح سان اڪائونٽن مان ڪروڙين رپين جو ادائگيون ڪري رهي آهي، يعني هاڻي صورتحال اتي وڃي پهتي آهي جو ڪجهه بينڪن جي مقامي انتظاميا پڻ مڪاني ادارن جي فنڊن ۾ هلندڙ لٽ مار واري مافيا جو حصو بڻجي وئي آهي. عام طور اڪائونٽ مان ٻه ٽي لک رپيا ڪيش ڪرائڻ تي پڻ بينڪن جي انتظاميا اٿلائي پٿلائي ڪاغذ ڏسندي آهي ته ڪٿي ڪا غير قانوني ادائيگي نه ٿي وڃي، هڪ مڪاني ادارن جي غير مجاز آفيسرن کي ڪروڙين رپين جون ادائيگيون هڪ ئي ڏينهن ۾ ڪيئن ٿيون ٿي وڃن؟ پهرين صوبي جي مڪاني ادارن جا اڪثر اڪائونٽ ٻين بينڪن ۾ هوندا هئا، جيڪي سنڌ حڪومت جي خاص هدايتن تي سنڌ حڪومت جي پنهنجي بينڪ جي برانچن ڏانهن منتقل ٿي ويا آهن، يعني بينڪ به جيڪڏهن سنڌ حڪومت جي پنهنجي ڪنٽرول هيٺ آهي ته پوءِ ان ۾ ٿيندڙ ڪنهن مالي بي قاعدگيءَ جو ذميوار ڪنهن کي قرار ڏجي؟

صوبي جي مڪاني ادارن جي انتظامي ڍانچي ۾ آيل تباهيءَ جو ٻيو وڏو ڪارڻ پيپلز پارٽي جي اڳوڻي صوبائي حڪومت جي دور ۾ مڪاني ادارن ۾ سياسي سفارش ۽ رشوت جي بدلي ۾ جايون خالي نه هجڻ جي باوجود اٽڪل 50 هزار وڌيڪ ڀرتيون ٿيڻ آهي، انهن انڌا ڌنڌ ڀرتين جو نتيجو اهو نڪتو، جو مڪاني ادارن لاءِ مالي طور ملازمن جي پگهارن جي ادائيگين جو بار برداشت ڪرڻ ناممڪن بڻجي ويو، ۽ هزارين ملازم پگهارن کان محروم بڻيل آهن. صورتحال اهڙي ٿي وئي آهي جو مڪاني ادارن سنڌ حڪومت جي قانونن ۽ قاعدن کان هٽي ملازمن جي پگهارن جي ادائگين جا پنهنجا اصول طئه ڪري ڇڏيا آهن، چند سفارشي ملازمن کي ته هر مهيني پوري پگهار ملي ٿي پر هزارين غير سفارشي ملازم پگهارن کان محروم آهن. سنڌ حڪومت مڪاني ادارن ۾ کاتي جي مجاز آفيسرن جي صحيحن سان جاري ٿيل آرڊرن ذريعي ڀرتي ٿيل انهن ملازمن جي ڀرتين کي پڻ هاڻي غير قانوني قرار ڏئي کين نوڪري مان فارغ ڪرڻ جو اعلان ڪري چڪي آهي ۽ ان ڏس ۾ ڇنڊ ڇاڻ ڪري سفارشون ڏيڻ لاءِ مڪاني ادارن واري کاتي ايڊيشنل سيڪريٽري جي سربراهي ۾ هڪ ڪميٽي پڻ قائم ڪري ڇڏي آهي.

اهو درست آهي ته مڪاني ادارن ۾ مالي صورتحال کي نظر ۾ رکڻ بنا حد کان گهڻو وڌيڪ ٿيل ڀرتين وارو بار صوبي جي مڪاني ادارن لاءِ برداشت ڪرڻ ممڪن ناهي پر سوال اهو آهي ته صوبي جي مڪاني ادارن کي تباهيءَ واري ان حالت ۾ پهچائڻ جو ذميوار ڪير آهي ۽ ان سڄي عمل ۾ ڀرتي ٿيل ملازمن جو ڪهڙو ڏوهه آهي، جو کين فارغ ڪرڻ جي سزا ڏئي معاملو لئه مٽي ڪرڻ جي تياري ڪئي پئي وڃي؟ ڀرتي ٿيل ملازمن کي فارغ ڪرڻ وارو فيصلو ڪرڻ بدران واڌو ملازمن کي صوبائي حڪومت جي سرپلس پول ۾ آڻي کين ڪنهن ٻئي هنڌ ضم ڪرڻ واري مشق ڇو نٿي ڪئي وڃي؟ ان کان به وڏو سوال اهو آهي ته مڪاني ادارن واري کاتي ۾ مڪاني ادارن واري سيڪريٽريٽ مان 6 هزار جايون خالي هجڻ جي باوجود 60 هزار ملازمن جي ڀرتي جا آرڊر ڪيئن جاري ٿي ويا؟ انهن آرڊرن جي منظور ڪنهن ڏني؟ جيڪڏهن هيٺين آفيسرن پنهنجي مرضيءَ سان آرڊر جاري ڪيا آهن ته کاتو هلائيندڙ مٿيان آفيسر ۽ وزير ڪهڙي مرض جي دوا آهن؟ اهو ڪيئن ممڪن آهي ته مسلسل ٽن سالن تائين ماڻهو ڀرتي ٿيندا رهيا ۽ هنن کي خبر ئي نه پئي؟ حيرت انگيز ڳالهه اها آهي ته مڪاني ادارن واري کاتي ۾ مئي 2011ع کان مارچ 2013ع تائين ڀرتي ٿيل ملازمن جي پوري لسٽ به ٺهيل ناهي، نه ئي ملازمن جي ڀرتي جي ڪنهن مجاز سليڪشن ڪميٽي کان منظوري مليل آهي. ڀرتين جو سلسلو ائين جاري رهيو جو مٿان کان لسٽون اينديون هيون ۽ هيٺان آرڊر جاري ٿي ويندا هئا.

انهيءَ کانسواءِ اهو به ٿيو آهي ته مڪاني ادارن ۾ مڪاني ادارن واري کاتي جي منظوري سان پهرين ڪچي ملازم طور هزارين ملازم ڀرتي ڪري بعد ۾ ڪجهه مهينن اندر کين پڪو ڪرڻ جي منظوري ڏني وئي آهي، جڏهن ته ڪنهن ڪچي ملازم کي پڪو ڪرڻ جي منظوري ڏيڻ جو مطلب اداري ۾ نيون جايون پيدا ڪرڻ ٿئي ٿو، ۽ صوبائي حڪومت جي ڪنهن به اداري ۾ ڪا به نئين جاءِ ناڻي کاتي جي منظوري کانسواءِ پيدا نٿي ڪري سگهجي، ته پوءِ صوبي ۾ مڪاني ادارن ۾ هزارين ڪچن ملازمن کي پڪو ڪرڻ لاءِ ناڻي کاتي کان قاعدن موجب منظوري ڇو نه ورتي وئي؟ انهيءَ کانسواءِ مڪاني ادارن جي بي شمار عهدن کي ناڻي کاتي جي منظوريءَ کانسواءِ اپ گريڊ ڪري ماڻهن کي غير قانوني طور مٿين گريڊ ۾ ترقيون پڻ ڏنيون ويون آهن. سئو ملين ڊالر جو سوال اهو به آهي ته 2010ع ۾ مشرف واري ناظمي نظام جي خاتمي سان گڏ قانوني طور ختم ٿي ويل ٽي ايم ايز ۾ سال 2011ع، 2012ع ۽ 2013ع ۾ 50 هزار ملازم ڪيئن ۽ ڪهڙي قانون هيٺ ڀرتي ڪيا ويا ۽ انهن ڊفنڪٽ ادارن جي عهدن کي اپ گريڊ ڪري هيٺين ملازمن کي ترقيون ڏيڻ جو سلسلو ڪيئن جاري رکيو ويو؟

چوڻ جي آخري ڳالهه اها آهي ته سنڌ ۾ بنيادي مسئلو قانون جو نه پر قانون تي عمل ڪرڻ ۽ وڌي وڻ ٿي ويل بيڊ گورننس کي پاڙ کان پٽڻ جو آهي. توهان مڪاني ادارن جو ڪهڙو به قانون لاڳو ڪريو پر جيڪڏهن مڪاني ادارن جا انتظامي ۽ مالياتي معاملا ائين هلايا ويا، جيئن هاڻي هلايا پيا وڃن ته صوبي جي مڪاني نظام ۾ بهتري اچڻ ۽ مڪاني ادارن کي هر سال جاري ٿيندڙ 35 ارب رپين جو عوام کي لاڀ ملڻ ممڪن ناهي.

akhtiarkhokhar@hotmail.co.uk

سنڌ ۾ ڪهڙو مڪاني نظام لاڳو ٿيڻ گهرجي؟ جامي چانڊيو


سنڌ ۾ ڪهڙو مڪاني نظام لاڳو ٿيڻ گهرجي؟

جامي چانڊيو

سنڌ کي ڪهڙو مڪاني حڪومتن جو نظام گهرجي؟ مڪاني حڪومتن جو نظام پاڪستان ۾ هميشه هڪ تڪراري مسئلو رهيو آهي، پر گذريل حڪومتي دور ۾ سنڌ ۾ اهو سوال تمام تڪراري رهيو. جڏهن ته دنيا جي اڪثريتي جمهوري ۽ وفاقي ملڪن ۾ اهو نظام سڀني کان وڌيڪ سادو ۽ غيرتڪراري هوندو آهي، ڇاڪاڻ ته دنيا ۾ ڪٿي به مڪاني حڪومت کي آئيني حڪومت جو درجو حاصل نه هوندو آهي ۽ ان جي اختيارن ۽ ڪم ڪار جو دائرو رڳو هيٺين سطح تي ماڻهن کي شهري سهولتون فراهم ڪرڻ تائين محدود هوندو آهي ۽ شهري سهولتن جي فراهمي ڪڏهن به تڪراري مسئلو ناهي هوندو. گهڻ-قومي يا گهڻ-علائقائي رياستن ۾ جيڪي آئيني ۽ سياسي معاملا تڪراري بڻبا آهن، مڪاني حڪومتن جو ان سان ڪوبه لاڳاپو نه هوندوآهي. پر پاڪستان جي سياسي نظام جي زوال پذيريءَ جو اندازو ان مان لڳائي سگهجي ٿو ته دنيا جي جمهوري ۽ وفاقي نظامن ۾ جيڪي معاملا اڳ ئي نبيريل ۽ اُڪلايل آهن، پاڪستان ۾ اڃا تائين انهن تي ڏڦيڙ ۽ تڪرار هلندڙآهي. هونئن ته سمورن جمهوري ملڪن ۾، پر خاص طور گڏيل قومن جي ميمبر 194 ملڪن مان 28 وفاقي ملڪن ۾ مڪاني حڪومتن جي سرشتي کي سياسي نظام جو لازمي حصو سمجهيو ويندو آهي. جيئن ته جمهوريت ۽ وفاقيت جا بنيادي اُصول آزادي، خودمختياري ۽ عدم مرڪزيت هوندا آهن، ان ڪري هيٺينءَ سطح تي مڪاني حڪومتن جي نظام کي دنيا جي سمورين جمهوري ۽ وفاقي ملڪن ۾ نه رڳو اهم پر ضروري سمجهيو ويندو آهي. دنيا جي ڪامياب جمهوري ۽ وفاقي ملڪن ۾ ٽن حڪومتن يعني وفاقي، صوبائي/ رياستي ۽ مڪاني حڪومتن جي وچ ۾ اختيارن جو توازن اهڙيءَ طرح طئي ڪيو ويندو آهي، جو نه رڳو ٽئي حڪومتون پنهنجن پنهنجن اختيارن جي دائري ۾ خودمختيار هونديون آهن، پر اُهي هڪٻئي جون محتاج به نه هونديون آهن، ها البته سڄيءَ دنيا ۾ مڪاني حڪومتون آئيني طور لاڳاپيل صوبن يا رياستن جي ماتحت هونديون آهن.

جيتوڻيڪ مڪاني حڪومتن جو نظام دنيا ۾ سڀ کان اڳ اول سئٽزرلينڊ ۾ سورهين صديءَ ۾ اُسريو، پر ننڍي کنڊ ۾ به اهو انگريز دور ۾ ئي ڪجهه علائقن ۾ لاڳو ٿي چڪو هو. ننڍي کنڊ ۾ سڀ کان اول 1688ع ۾ مدراس ۾ ايسٽ انڊيا ڪمپنيءَ پاران ميونسپل ڪارپوريشن قائم ڪئي وئي، جڏهن ته 1842ع ۾ ڪنزروينسي ايڪٽ پاس ٿيو، جنهن ۾ مڪاني حڪومتن جي نظام کي واضح ڪيو ويو. 1846ع ۾ ڪراچيءَ ۾ پڻ ايڪٽ آف ڪنزروينسي پاس ٿيو، جنهن جو مقصد ڪراچيءَ ۾ سگهارو ميونسپل نظام رائج ڪرڻ هو. 1882ع ۾ لارڊ رپنس مڪاني خودمختيار حڪومتن بابت پنهنجون آئيني ۽ قانوني تجويزون ڏنيون. انگريز سرڪار 1907ع ۾ منٽو مارلي آئيني سڌارن کان هڪ سال اڳ “عدم مرڪزيت ڪميشن” قائم ڪئي. انگريز سرڪار 1927ع ۾ سائمن ڪميشن ۾ پڻ هندوستان، مڪاني حڪومتن جي قيام تي زور ڏنو، پر سائمن ڪميشن جي ناڪاميءَ سبب اها ڳالهه اڳتي نه چُري. نيٺ وڃي 1935ع ۾ جيڪو حتمي انڊين ايڪٽ آيو، اُن ۾ اِنَ کي واضح ڪيو ويو. ورهاڱي کان اڳ موجوده پاڪستان ۾ برطانوي راڄ ۾ اڄوڪي پاڪستان ۾ پنجاب اهو واحد صوبو هو، جتي اهو نظام اڳ ئي لاڳو هو.

بدقسمتيءَ سان پاڪستان ۾ مڪاني حڪومتن جي سرشتي کي سياسي يا چونڊيل حڪومتن ڪڏهن به گهربل اهميت نه ڏني، جو پاڪستان جي پارلياماني سياست ۾ هميشه اُهي پارٽيون ئي مُهندار رهيون، جيڪي بنيادي طور مرڪزيت پسندسوچ رکندڙ هيون، جنهن جو منطقي نتيجو اهو نڪتو، جو ان کي هر آمر پنهنجي ناجائز ۽ غيرجمهوري مفادن لاءِ بدترين طريقي سان استعمال ڪيو. سڀ کان اول جنرل ايوب خان “بنيادي جمهوريت” جي نالي ۾ 1959ع ۾ مڪاني نظام جي نالي ۾ جمهوريت تي راتاهو هنيو. يعني جيڪو مڪاني حڪومتن جو سرشتو جمهوريت ۽ وفاقيت جو بنياد هوندو آهي، ان کي ئي جمهوريت ۽ وفاقيت خلاف راتاهي جي آئيني هٿيار طور استعمال ڪيو ويو. ايوب خان جي ان متعارف ڪرايل نظام پاڪستان ۾ وفاقي پارلياماني جمهوري نظام جي تباهيءَ جا بنياد رکيا. جيتوڻيڪ 1975ع ۾ شهيد ذوالفقار علي ڀُٽي پيپلز لوڪل گورنمينٽ آرڊيننس جاري ڪيو، پر ان تحت چونڊون نه ٿي سگهيون ۽ اهو آرڊيننس عمل ۾ اچي نه سگهيو. ايوب خان کانپوءِ جنرل ضياءُ الحق ٻيو بدترين آمر هو، جنهن 1979ع ۾ ميونسپل ايڊمنسٽريشن آرڊيننس تحت ڪمشنريٽ نظام يعني نام نهاد مڪاني حڪومتن جو سرشتو لاڳو ڪيو. هن نظام جي اها بنيادي خرابي هئي ته اهو هڪ آمر طرفان جمهوريت تي راتاهي هڻڻ جو جواز هو، پر اصل ۾ ان نظام جي ٻي وڏي خرابي اِها آهي ته اِهو مڪمل طور ڪاموراشاهيءَ جي راڄ جو نظام آهي. ظاهر آهي ته جمهوريت ۽ عوام جي راءِ ۽ خودمختياريءَ کان نفرت ڪندڙ هڪ آمر اِهو ئي ڪري سگهيو ٿي. ضياءُ الحق جي دور جي پڄاڻيءَ کانپوءِ ڪنهن به سياسي حڪومت مڪاني حڪومت جي سرشتي کي سنجيدگيءَ سان لاڳو ڪرڻ لاءِ ڪابه ڪوشش نه ورتي. ايئن وري 2001ع ۾ ملڪي تاريخ جي چوٿين آمر جنرل پرويز مشرف ڊيوليوشن پلان 2001ع تحت ملڪ ۾ مڪاني حڪومتن جو نظام لاڳو ڪيو، جنهن جو ظاهر آهي ته بنيادي مقصد پنهنجي لاءِ اليڪٽورل ڪاليج ٺاهڻ هو. جنرل پرويز مشرف جي ڏنل ناظمي سرشتي ۾ ڪجهه جزوي چڱائين باوجود اهو نظام بنيادي طور صوبن جي آئيني حقن تي هڪ راتاهو هو. هن نظام کي سڌيءَ ريت صوبن بدران مرڪز جي ماتحت هلايو ٿي ويو. دنيا جي اڪثر ڪامياب ۽ جمهوري مڪاني حڪومتن جي اُبتڙ ناظم سڌيءَ ريت چونڊيا نه ٿي ويا. انتظامي طور ان سرشتي ۾ مڪمل عدم توازن هو، يعني نه رڳو ناظمي نظام صوبن جي ماتحت نه هو، پر ان جا ٽئي حصا يعني ضلعي، تعلقي ۽ يونين ڪائونسل جدا جدا حيثيت ۾ ڪم ڪري رهيا هئا. ان نظام ۾ انتظامي چڪاس جو به ڪو سرشتو موجود نه هو. نيٺ هر آمر جي نظام وانگر پرويز مشرف جو اهو متعارف ڪرايل نظام پڻ 2008ع ۾ چونڊيل جمهوري حڪومت اچڻ شرط ختم ڪيو ويو. 2010ع ۾ ميثاقِ جمهوريت تحت جيڪا 18هين آئيني ترميم ڪئي وئي، ان ۾ آئين جي آرٽيڪل 140-A تحت ملڪ ۾ ٽه-حڪومتي نظام کي لازمي قرار ڏنو ويو ۽ ان ئي آرٽيڪل جي شق يعني 140-A (1) تحت صوبن کي پڻ پابند بڻايو ويو ته اُهي پنهنجو پنهنجو مڪاني حڪومتن جو نظام لاڳو ڪن، جنهن جي 140-A (2) تحت اهو پڻ واضح ڪيو ويو ته مڪاني حڪومتن جون چونڊون پڻ اليڪشن ڪميشن جي ماتحت ڪرايون وينديون. آئين جو آرٽيڪل 32 (Principles of Policy) پڻ رياست کي پابند ڪري ٿو ته اُها مڪاني حڪومتن جي سرشتي جي حوصله افزائي ڪري، جنهن ۾ هارين، مزدورن ۽ خواتين جي نمائندگيءَ کي يقيني بڻايو وڃي، پر جيئن 18هين آئيني ترميم جي ٻين ڪيترن آئيني معاملن تي مڪمل عمل نه ٿي سگهيو آهي، تيئن مڪاني حڪومتن جو نظام پڻ ڪوبه صوبو لاڳو نه ڪري سگهيو. 18 مئي 2012ع تي سنڌ هاءِ ڪورٽ جي بينچ جسٽس فيصل عارب جي سربراهيءَ ۾ سنڌ حڪومت کي حڪم ڏنو ته اُها نوي ڏينهن اندر چونڊون ڪرائي. ان کان اڳ فيبروري 2010ع ۾ پڻ سنڌ حڪومت کي اهو اختيار ملي چڪو هو ته اُها لوڪل باڊيز جو نظام لاڳو ڪري، ان تحت آفيسر مقرر ڪري ۽ 120 ڏينهن ۾ پارٽي بنيادن تحت چونڊون ڪرائي. اپريل 2012ع ۾ چونڊون ڪرائڻ جو وقت وڌائي 165 ڏينهن مقرر ڪيو ويو.

تاريخ جي رڪارڊ تي اهو هميشه ياد رهندو ته گذريل حڪومتي دور ۾ پاڪستان پيپلز پارٽيءَ جي سنڌ حڪومت مڪاني حڪومتن جي نظام جي حوالي سان سنڌ ۾ اڪثريتي مينديٽ هئڻ باوجود بدترين فيصلا ڪيا. سڀ کان پهرين ڳالهه ته ان وٽ پنهنجو ڪو ويزن نه هو، اُها رڳو متحده قومي موومينٽ ۽ سنڌ جي قومپرست ڌرين جي دٻاءُ تحت فيصلا تبديل ڪندي رهي. سڀ کان اول 2011ع ۾ سنڌ اسيمبليءَ بدران بابر اعواڻ ۽ گورنر عشرت العباد طرفان گورنر هائوس مان هڪ ٻٽو نظام لاڳو ڪيو ويو، جنهن تحت ڪراچي، حيدرآباد ۽ سکر ۾ پرويز مشرف جو 2001ع وارو ناظمي نظام ۽ باقي سنڌ ۾ جنرل ضياءُ الحق وارو 1979ع جو نظام لاڳو ڪيو ويو. اهو حڪومت جي ڪمزوري ۽ بدحواسيءَ جو هڪ عجيب ثبوت هو. سنڌ ان فيصلي خلاف ٻري اُٿي ۽ نيٺ جولاءِ 2012ع ۾ حڪومت اهو سرشتو ختم ڪري سڄي صوبي ۾ 1979ع جو ڪمشنريٽ نظام بحال ڪري ڇڏيو ۽ 1967ع جي لينڊ روينيو ايڪٽ ۾ ترميمون ڪيون ويون. ايئن ٻه سال واري واري سان 1979ع ۽ 2001ع وارا نظام سنڌ ۾ عارضي طور لاڳو ٿيندا رهيا. حد تڏهن ٿي جڏهن 2012ع ۾ سنڌ پيپلز لوڪل گورنمينٽ ايڪٽ تحت هڪ بدترين مڪاني حڪومتن جو نظام سنڌ ۾ لاڳو ڪيو ويو، جنهن نه رڳو سنڌ جي انتظامي ورهاڱي جا بنياد رکيا، پر سنڌ حڪومت جا بنيادي کاتا پڻ ڪراچيءَ جي ميٽروپوليٽن شهري حڪومت حوالي ڪيا ويا. سڄي سنڌ ان ٻٽي نظام، جنهن کي سنڌ جي عوام سنڌ جي انتظامي ورهاڱي سان تعبير ڪيو، خلاف هڪ آواز ٿي اُٿي بيٺي ۽ سنڌ جي عوام، اديبن، دانشورن، قومپرست سياسي جماعتن ۽ ويندي سماجي تنظيمن، ميڊيا مطلب ته سڄي سنڌ تيستائين بس ڪري نه ويٺي، جيسين اهو بدترين نظام ساڳيءَ سنڌ اسيمبليءَ مان ساڳيءَ طرح واپس نه ٿيو. جيتوڻيڪ پيپلز پارٽي سنڌ ۾ متبادل سياسي قوتون نه هئڻ سبب مئي 2013ع جي چونڊن ۾ ته هڪ ڀيرو وري اڪثريتي پارٽيءَ طور کٽي وئي، پر اها حقيقت آهي ته مڪاني حڪومتن جي نظام تي گذريل پيپلز پارٽيءَ جي حڪومت جي ڪردار هن پارٽيءَ جي ساک ۽ ڪردار کي وڏو ڌَڪ رسايو، يعني ڄڻ ته اهو طئي ٿي ويو ته هيءَ پارٽي ڪرسيءَ خاطر ڪنهن به سطح تي سنڌ جي قومي مفادن جو سودو ڪري سگهي ٿي.

هاڻي جڏهن سپريم ڪورٽ سيپٽمبر ۾ مڪاني حڪومتن جون چونڊون ڪرائڻ لاءِ صوبن کي حتمي حڪم جاري ڪري ڇڏيو آهي ته هڪ دفعو وري سنڌ ۾ اهو سوال ڪَرَ کڻي بيٺو آهي ته سنڌ ۾ پيپلز پارٽيءَ جي حڪومت ڪهڙو مڪاني حڪومتن جو نظام لاڳو ڪندي؟ هن ڀيري جيئن ته متحده قومي موومينٽ سنڌ ۾ حڪومت جو حصو نه آهي، ان ڪري شايد پيپلز پارٽيءَ جي حڪومت تي ان ڏس ۾ دٻاءُ گهٽ آهي ۽ ٻيو ته پارٽيءَ اندر به اِهو احساس هڪ حد تائين موجود آهي ته 2011ع ۽ 2012ع واريون ساڳيون سنگين غلطيون ورجائڻ جو شايد هن ڀيري پيپلز پارٽي ڌڪ پچائي نه سگهندي، جو اُها هاڻي عملي طور ملڪ جي وڏي ۾ وڏي پارلياماني پارٽيءَ بدران هڪ صوبائي پارٽيءَ تائين محدود ٿي وئي آهي. اِها هڪ مثبت ڳالهه آهي ته هن ڀيري سنڌ ۾ مڪاني حڪومتن جو بل اسيمبليءَ ۾ آڻڻ کان اڳ سنڌ حڪومت سنڌ جي قومپرست پارٽين ۽ ڪجهه دانشورن ۽ ماهرن سان پڻ رابطو ڪيو آهي ته اُهي ان ڏس ۾ سنڌ حڪومت کي پنهنجا رايا ڏين. (مون کي پڻ قانون ۽ پارلياماني معاملن جي وزارت پاران اهڙو خط اُماڻيو ويو آهي) جيتوڻيڪ سنڌ جي قومپرست پارٽين اڃا تائين سنڌ حڪومت کي ان ڏس ۾ اڃا تائين ڪي به تجويزون نه اُماڻيون آهن، پر سنڌ جي ڪجهه دانشورن ۽ ماهرن پنهنجون تجويزون سنڌ حڪومت کي اُماڻي ڇڏيون آهن. مان ان ڏس ۾ چند تجويزون ميڊيا جي معرفت سنڌ حڪومت کي ضرور ڏيڻ چاهيندس. مثال طور:

.1979ع ۽ 2001ع جا مڪاني حڪومتن جا نظام پنهنجي بيهڪ ۽ سرشتي ۾ مثبت، جمهوري ۽ عوام دوست نه آهن، ان ڪري سنڌ ۾ مڪاني حڪومتن جو نئون سرشتو آڻڻ لاءِ انهن مان ڪنهن به هڪ کي ماڊل طور سامهون رکڻ نه گهرجي. .سنڌ ۾ مڪاني حڪومتن جو نظام ڪنهن به مخصوص سياسي جماعت ۽ گروهه بدران مڪمل غيرجانبداريءَ سان ۽ بنا ڪنهن فرق جي سنڌ جي عوام لاءِ آندو وڃي.

.مڪاني حڪومت جو نظام مڪمل طور صوبائي اختيار هيٺ قائم ڪيو وڃي ۽ ضلعي توڙي ميٽروپوليٽن حڪومتن جي آڊٽ جا اختيار صوبن وٽ هئڻ گهرجن. يعني جيڪا سنڌ اسيمبلي مڪاني حڪومتن جو قانون پاس ڪرڻ جي مجاز آهي، ان کي ئي مڪاني حڪومتن جا حتمي اختيار هئڻ گهرجن. .مڪاني حڪومتن جي اختيارن جو دائرو رڳو شهري سهولتن جي فراهميءَ تائين محدود ڪيو وڃي ۽ صوبي جو ڪوبه آئيني ۽ قانوني اختيار مڪاني يا ميٽروپوليٽن حڪومتن جي حوالي نه ڪيو وڃي، ڇاڪاڻ ته مڪاني حڪومتون آئيني حيثيت جون حامل نه هونديون آهن، انهن جو رڳو انتظامي ڪردار هوندو آهي ۽ اهو به شهري سهولتن جي فراهميءَ تائين.

.سنڌ جي مخصوص حالتن ۽ شهرن ۾ ڌارين جي گهڻائي هئڻ جي ڪري روينيو ۽ پوليس جا اختيار مڪاني حڪومتن بجاءِ صوبائي حڪومت وٽ رهڻ گهرجن.

.ڪراچي جيئن ته سنڌ جي گاديءَ جو هنڌ آهي، جتي سامونڊي بندرگاهه، ڪارپوريٽ سيڪٽر ۽ صنعتون ملڪگير حيثيت جون حامل آهن، ان ڪري ان جي مالياتي وسيلن ۽ روينيو کي رڳو ڪراچيءَ جي ميٽروپوليٽن حڪومت جو اختيار نه هئڻ گهرجي. ڪراچيءَ جي ميٽروپوليٽن يا ضلعي حڪومتن جو مالياتي اختيار رڳو ضلعي يا شهري سطح جي وسيلن تائين محدود هئڻ گهرجي.

.ميٽروپوليٽن جي ميئر يا ضلعي ناظمن جي چونڊ ذيلي ناظمن معرفت نه پر سڌيءَ ريت ڪئي وڃي، دنيا جي اڪثر ميٽروپوليٽن شهري حڪومتن جهڙوڪ لنڊن، برسلز، نيويارڪ، برلن وغيره ۾ اهو سرشتو لاڳو آهي.

.مڪاني حڪومتن جي نظام سان گڏ صوبائي مالياتي ايوارڊ پڻ آندو وڃي، جنهن تحت معاشي طور پٺتي پيل ضلعن کي خاص گرانٽن ذريعي ترقيءَ جي ساڳي سطح تي آڻڻ لاءِ ڪوشش ڪئي وڃي. ڇاڪاڻ ته صوبي ۾ ناهموار ۽ بي انصافيءَ تي ٻڌل معاشي وسيلن جي ورهاست هڪ طرف ڪراچيءَ کي دنيا جي چند ترقي يافته شهرن مان هڪ ۾ تبديل ڪري ڇڏيو آهي ته ٻئي طرف سنڌ جي اڪثريتي ضلعن جي حالت ۽ ترقياتي ڍانچو نهايت خراب حالت ۾ آهي، جنهن بدترين تفريق ۽ اڻبرابريءَ کي جنم ڏنو آهي. .ڪراچيءَ جي ميٽروپوليٽن شهري حڪومت پنجن خودمختيار ضلعن تي مشتمل هئڻ گهرجي ۽ ميٽروپوليٽن جو ڪم رڳو منجهن رابطي ڪاريءَ جو هجي.

.آئين جي آرٽيڪل 32 تحت مڪاني حڪومت ۾ خواتين، هارين ۽ مزدورن جي نمائندگي گهٽ ۾ گهٽ 33 سيڪڙو رکي وڃي.

.سنڌ ۾ قدرتي آفتن يا حڪومتي نا اهليءَ ۽ ناقص رٿابنديءَ جي ڪري ايندڙ ٻوڏن جي ڪري ضلعي سطح تي انهن صورتن کي منهن ڏيڻ لاءِ خاص شعبا قائم ڪيا وڃن، جن وٽ نه رڳو وسيلا هجن، پر انهن جي انتظامي صلاحيت پڻ وڌائي وڃي.

.آئين جي آرٽيڪل 19-A تحت رياست جي وهنوار سان لاڳاپيل معلومات تائين، شهرين جي رسائيءَ بابت ضلعي ۽ تعلقي توڙي يونين ڪائونسل سطح تي خاص ادارو قائم ڪيو وڃي ته جيئن ان تي عمل آسان ٿي سگهي.

.ضلعي ترقياتي بورڊ قائم ڪيا وڃن، جنهن ۾ چونڊيل نمائندن سان گڏ شهرين ۽ سول سوسائٽيءَ جي نمائندن کي پڻ شامل ڪيو وڃي ۽ سمورن ضلعي ترقياتي بورڊن کي صوبائي ترقياتي بورڊ جي ماتحت هلايو وڃي.

اظهار جي آزادي ۽ حڪمرانن جا رويا- سهيل سانگي


اظهار جي آزادي ۽ حڪمرانن جا رويا

سهيل سانگي

ايشيا جي ماڊل ڊڪٽيٽر ضياءُ الحق صحافين کي داٻو ڏنو هو ته، ”آئون 5 سالن لاءِ اخبارون بند ڪري ڇڏيندس. ڪير آواز به ڪونه اٿاريندو.“ هي بيان صحافت جي آزاديءَ ڏي پاڪستان جهڙن ملڪن ۾ حڪومت جي رويي جي صحيح عڪاسي ڪري ٿو. اسان وٽ زري گهٽ هر حڪومت جو ذهن صحافت بابت اهو ئي هوندو آهي. پر فرق رڳو ان جي اظهار ۽ رد عمل جي شڪل ۾ هوندو آهي. ڪنهن به حڪومت کي اها ڳالهه نه وڻندي آهي ته ان جي پالسي، فيصلي يا ڪنهن قدم سان ڪا ڌر اختلاف ڪري يا تنقيد ڪري، ٻين لفظن ۾ حڪومتون پاڻ کي عقل ڪُل ۽ اختيار ڪُل سمجهنديون آهن. ان ڪري اهي راءِ، ان جي اظهار، خيالن ۽ فڪر تي به پنهنجي هڪ هٽي سمجهنديون آهن ۽ اها هڪ هٽي وڏي حد تائين اهي ڪنهن نه ڪنهن طرح سان قائم به ڪري وٺنديون آهن.

اظهار راءِ جي آزادي جو دنيا ۾ مڃيل وڏي ۾ وڏو ذريعو ميڊيا آهي، ڇاڪاڻ ته ان وسيلي ئي معلومات يا ڄاڻ ۽ مختلف بلڪ اختلافي رايا ۽ خيال وڏي پيماني تي ماڻهن تائين پهچن ٿا، نه رڳو اهو بلڪه ميڊيا ۾ هڪ ئي وقت هڪ کان وڌيڪ رايا ۽ خيال موجود هوندا آهن. ميڊيا جي اهميت ان ڪري به آهي، جو اها ماڻهن تائين اهڙي معلومات پهچائي ٿي، جيڪا کين پنهنجي راءِ جوڙڻ ۾ مدد ڪري ٿي. ان بعد اها ساڳي ميڊيا راءِ جي اظهار جو به وسيلو بڻجي ٿي. ان ڪري اظهار راءِ جي آزادي صحافت يا ميڊيا جي آزادي سان ئي ڳنڍيل آهي. صحافت جي آزادي بنا اظهار راءِ جي آزادي جو تصور به نٿو ڪري سگهجي.

ڏٺو وڃي ته اها آزادي ئي جمهوري حقن ۽ هر طرح جي آزادين جو بنياد آهي. جمهوريت جنهن جي معنى عوام جي موثر بلڪه اڄوڪي زماني ۾ ڀرپور شرڪت آهي، ان جو ڪم ڪرڻ ۽ فيصلي سازي ۾ ماڻهن جي شرڪت، شهرين طرفان ووٽ جو صحيح استعمال به تڏهن ممڪن آهي، جڏهن ميڊيا آهي. جيستائين کين صحيح ڄاڻ نه هوندي، هو پنهنجي صحيح راءِ جوڙي نه سگهندا ۽ ان جو اظهار به نه ڪري سگهندا. هونئن ته اظهار راءِ جي آزادي انساني حقن جو حصو هجڻ ڪري انسان جي وقار جو معاملو آهي، پر اها جڏهن عمل ۾ اچي ٿي ته جمهوريت ۽ شرڪت سان گڏوگڏ احتساب جو به وڏو ذريعو بڻجي ٿي. جڏهن به جتي به اظهار راءِ جي آزادي جي ڀڃڪڙي ٿيندي، اتي هميشه جتي ان جي ڀڃڪڙي ٿيندي آهي، پوءِ اها ڀڃڪڙي جنهن سطح جي هوندي آهي، انهي سطح تي ئي حق ماريا ويندا آهن.

حڪومت جڏهن صحافت کي ڪنٽرول ڪرڻ جي ڪوشش ڪندي آهي ته اها سڌي يا اڻ سڌي طرح سمورا طريقا استعمال ڪندي آهي. ميڊيا جي لاءِ جوڙيل ريگيوليٽري ادارن کان وڌيڪ معاشي دٻاءُ، دڙڪو ۽ داٻي سان گڏ لوڀ لالچ تائين سمورا طريقا اختيار ڪندي آهي. ملڪي قانون، جيڪي هونئن ئي حڪمرانن ۽ حاڪم طبقي لاءِ ٺهيل هوندا آهن، تن جي ڪن مروڙ ڪري ميڊيا کي ڪنٽرول ۾ رکيو ويندو آهي. انهي ڪن مروڙ جو وڏو جهان آهي. پرنٽ ميڊيا جي صورت ۾ سرڪيوليشن جي آڊٽ، ڪاغذ جي ڪوٽا، اشتهار ڏيڻ کان وٺي اشتهارن جا پئسا روڪڻ تائين جا ڪيترائي معاملا شامل آهن.

اڄ جي دور ۾ حڪومت صحافت جي اثر کان ڀڄڻ يا گسائڻ لاءِ هڪ ٻيو طريقو به استعمال ڪندي آهي، اهو آهي ميڊيا ۾ ٻيتاڙ پيدا ڪرڻ لاءِ حڪومت هٿ ٺوڪيا ميڊيا آئوٽ ليٽ ٺاهيندي ۽ انهن جي پرورش ڪندي آهي. ائين غير پيشيورانه صحافت ۽ صحافي پيدا ٿيندا آهن. اهڙي طرح سان حڪومت ۽ عام ماڻهو لاءِ صحافت کي گهٽ وڌ ڳالهائڻ سولو ڪم ٿي پوندو آهي. ٻئي طرف انهي گهڻ ۾ هڪ ئي وقت ڪيئي آواز اچڻ شروع ٿي ويندا آهن ۽ سڄي رش ۾ حقيقي آواز به دٻجي ويندو آهي ۽ حڪومت ڏاڍي بي فڪر ٿي پوندي آهي. ڇاڪاڻ جو هاڻي ميڊيا هڪ آواز جي بدران هڪ گوڙ بڻيل هوندي آهي.

حڪمرانن جي ميڊيا يا ٻين لفظن ۾ اظهار جي آزادي ڏي اهڙي رويي سبب هيٺ معاشري ۾ به ان جي پيروي ٿيندي آهي. با اثر ڌريون، ڀوتار يا ڪڏهن ڪڏهن سياسي گروپ به ان جو فائدو وٺندا آهن. ان جو مثال نواز شريف حڪومت جو گذريل دور جو هڪ واقعو آهي، جڏهن لياقت جتوئي جي وڏ وزارت جي ڏينهن ۾ سڄي سنڌي ميڊيا ڪراچي ۾هڪ با اثر ماڻهو خلاف گڏ ٿي هئي ۽ انهن تي لٺين جو وسڪارو ڪيو ويو هو. مطلب ته جڏهن اهي پريشر گروپ صحافت خلاف ڪا ڪارروائي ڪن ٿا ته حڪومت صحافت جي قانوني مدد ڪرڻ لاءِ تيار نه هوندي آهي. اها ڳالهه سمجهڻ ضروري آهي ته اظهار جي آزادي جو مطلب رڳو پنهنجي راءِ جو اظهار نه پر ٻين کي به اظهار جو موقعو ڏيڻ هوندو آهي ۽ رڳو پنهنجي لاءِ اهو حق استعمال ڪرڻ ۽ ٻين جي اظهار راءِ نه مڃڻ کي جيڪڏهن ”اصول“ ٺاهيو وڃي ٿو ته پوءِ اهڙو اصول رياست ۽ رياستي ادارا اڳ ئي ٺاهي ويٺا آهن، جيڪي هر معاملي ۾ سڀني کان سگهارا آهن. اها مڃيل حقيقت آهي ته اظهار راءِ جي آزادي جو فائدو هميشه ڏٻري ڌر کي پوندو آهي. ان ڪري حقن جي جدوجهد ۾ رڌل ڌرين جو فرض آهي ته اهي اظهار جي آزادي جو ائين ئي تحفظ ڪن، جيئن هو پنهنجي ٻين حقن جو ڪن ٿا. سنڌي ميڊيا پنهنجي Formative مرحلي مان نڪري اڳتي وڌي رهي آهي. ان ۾ مرحليوار پروفيشنلزم به اچي رهيو آهي. اهو پروفيشنلزم جيترو جلد ايندو، جيترو سگهاري ٿيندو، اوتري ئي سنڌ جي ماڻهن ۽ سنڌي صحافت کي فائدو پهچندو. ان لاءِ سنڌي ميڊيا ۽ سماج جي سمورين ڌرين کي ان ڏس ۾ ڪوششون ڪرڻ گهرجن ته جيئن اهو ڏکيو سفر جلد طئي ٿي سگهي.

Kawish August 2, 2013

افغان پناهگيرن بابت نئين پاليسي:صوبن کان ته پڇو- سهيل سانگي


افغان پناهگيرن بابت نئين پاليسي:صوبن کان ته پڇو!
سهيل سانگي
جيئن جيئن افغانستان مان آمريڪي فوج جي واپسيءَ جي تاريخ ويجهي اچي رهي آهي، آمريڪي ۽ يورپي ملڪن جي سرڪاري اهلڪارن جا خطي جي ملڪن ۾ دورا وڌي رهيا آهن، پر پاڪستان ۾ ساڃهه وند ماڻهن جي ڳڻتيءَ ۾ تهان وڌيڪ اضافو ٿي رهيو آهي ته افغان پناهگيرن جو ڇا ٿيندو؟ اهو هن ملڪ جي ماڻهن جو فوري ئي نه، بلڪه ڊگهي پنڌ جو به مسئلو آهي. سرڪاري انگن اکرن موجب، پاڪستان ۾ باقي 16 لک افغاني وڃي بچيا آهن پر خيال آهي ته 4 لک کان 10 لک تائين ٻيا به افغاني آهن، جيڪي گڏيل قومن جي پناهگيرن وارن اداري وٽ رجسٽر ٿيل ناهن ۽ وٽن پاڪستان ۾ رهڻ جو قانوني پروانو ناهي، جڏهن ته روز اچڻ وارا افغاني ان کان علاوه آهن، جيڪي ڪاروبار، علاج، تعليم، مٽن مائٽن سان ملڻ جي بهاني ايندا ويندا رهن ٿا.
ايڏي وڏي آباديءَ اسان جي سرزمين تي پنهنجا گهر اڏي ڇڏيا آهن، هو هتي روزي ڪمائي رهيا آهن، ٻارن کي تعليم ڏياري رهيا آهن. دلچسپ ڳالهه اها آهي ته مقامي آباديءَ ۾ وڌندڙ بيچيني، محدود وسيلن ۽ شهري سهولتن توڙي امن و امان وارن معاملن جي باوجود پاڪستان انهن ”مهمانن“ جي پاڪستان ۾ ترسڻ لاءِ اڻ ڄاڻايل مدي تائين واڌ ڪري ڇڏي آهي ۽ گڏيل قومن جي پناهگيرن بابت ڪمشنر جي ترجمان پاڪستان سرڪار پاران افغان پناهگيرن کي ملڪ ۾ ترسائڻ جي مدي ۾ واڌ واري فيصلي جي آجيان ڪئي آهي، جيڪا هلندڙ سال 30 جون تي ختم ٿي وئي هئي.
پاڪستان دنيا جو واحد ملڪ آهي، جتي سڀ کان وڌيڪ پناهگير ٽڪيل آهن. اهو ضياءُ الحق جي ان پاليسيءَ جو نتيجو آهي، جو هن 1979ع ۾ پاڪستان کي پراڪسي جنگ ۾ اڇلايو هو، ان بعد لکن جي تعداد ۾ هتي افغاني آيا. پاڪستان سرڪار ڪڏهن به باقاعدگيءَ سان ۽ دل سان افغان پناهگيرن جي ڳڻپ نه ڪئي آهي. بهرحال، گڏيل قومن جي اداري ان جا انگ اکر گڏ ڪيا آهن. پاڪستان جو اهو الميو آهي ته هي ڄڻ پناهگيرن ۽ بي گهر ٿيلن جو ملڪ ٿي ويو آهي. اهي افغان پناهگير، جن جو تعداد ٿلهي ليکي ويهارو لک کن بيهندو، سو پنهنجي جاءِ تي، پر آڪٽوبر 2002ع ۾ سوا ست لک اندروني طور بي گهر ٿيل ماڻهو IDPs موجود هئا، جيڪي خيبر پختونخوا ۽ سوات وغيره ۾ سيڪيورٽي آپريشن دوران بي گهر ٿيا هئا، جن جو پڻ ڳچ حصو ڪراچيءَ پهچي ويو آهي. سنڌ ۾ 2010ع ۽ 2011ع جي ٻوڏ ۽ برساتن جا لکين ستايل به اڃا تائين واپس پنهنجن گهر ڏانهن موٽي نه سگهيا آهن. ڪراچيءَ ۾ سالن کان غير قانوني طور رهندڙ لکين بهاري، برمي ۽ بنگالي ان کان سواءِ آهن. ائين پاڪستان ڄڻ بي گهر ماڻهن جو ملڪ لڳي ٿو، جتي ماڻهن جي ترقي ۽ سهولت لاءِ جيترو به پئسو خرچ ٿئي ٿو، سو ڄڻ وهي وڃي ٿو. ان کان سواءِ اهڙي صورتحال ۾ غير يقيني ڪيفيت، عدم استحڪام سان گڏ سياسي، معاشي، سماجي ۽ ثقافتي اثر به پئجي رهيا آهن.
افغانين جو تعداد هاڻي ڪجهه گهٽيو آهي، جو گڏيل قومن جي اداري جي افغان پناهگيرن واري ڪمشنر مطابق، 2002ع کان پوءِ 38 لک افغانين کي واپس وطن موڪليو ويو آهي. هر واپس ويندڙ افغان پناهگير کي گڏيل قومن جو ادارو 150 ڊالر ڏئي ٿو، جيڪي کين سرحد پار ڪرڻ وقت ڏنا ويندا آهن.
ڏٺو وڃي ته افغان پناهگيرن جي واپسيءَ واري پاليسي زميني حقيقتن سان ٺهڪندڙ ناهي. ڪراچيءَ ۾ گڏيل قومن جي اداري رڳو ستر هزار افغانين کي رجسٽر ڪيو آهي. غير جانبدار ذريعن جو چوڻ آهي ته اتي موجود افغانين جو تعداد ان کان ڪيئي ڀيرا گهڻو آهي. اهي پناهگير پاڻ کي ان ڪري رجسٽرڊ نٿا ڪرائين، جو کين ائين ڪرڻ سان اوير سوير واپس وڃڻو پوندو. انهن هتي ڪنهن نه ڪنهن طرح سان شناختي ڪارڊ ۽ پاڪستاني شهريت جا ڪاغذ پٽ ٺهرائي ورتا آهن. اتي جيتوڻيڪ انهن لاءِ ٻوليءَ جي رڪاوٽ، مناسب رهائشي سهولتون، روزگار هٿ ڪرڻ وڏا مسئلا آهن پر ان جي باوجود هو هتي مستقل طور رهڻ گهرن ٿا. کين رهائش، معاشي سرگرمين ۽ تحفظ جي حوالي سان جيڪي هتي سهولتون حاصل آهن، سي سندن پنهنجي ملڪ ۾ ميسر ناهن. انهن لاءِ گڏيل قومن طرفان آڇيل ڏيڊ سئو ڊالرن جي اهميت ناهي. هو ٻارن جي تعليم، روزگار جو پڪو وسيلو، محفوظ هجڻ جو احساس ۽ غير يقيني ڪيفيت جو خاتمو گهرن ٿا. کين ڪابه اهڙي شئي نه پئي آڇي وڃي ۽ نه ئي وري ڪا اهڙي شئي پنهنجي ملڪ ۾ ڏسن ٿا، جو سرحد پار ڪن. کين هتي پاڪستان ۾ ڪم ڪرڻ، مسواڙ تي گهر وٺڻ، سفر ڪرڻ، اسڪول يا اسپتال ۾ داخلا جي قانوني اجازت آهي، جڏهن ته اهي غير قانوني طور تي زمينن تي قبضا به ڪريو ويٺا آهن. کين پنهنجي ملڪ ۾ گهرو ويڙهه جو خطرو لامارا ڏيندي نظر اچي ٿو.
ڪجهه بنيادي حقيقتن کي سمجهڻ ضروري آهي. افغان پناهگير پاڪستان ۾ سُک لاءِ آيا آهن. ايندڙ وقت ۾ انهن جي تعداد ۾ اضافو ٿيندو، ڇاڪاڻ جو افغانستان ۾ ايندڙ چونڊن ۽ 2014ع ۾ آمريڪي فوجين جي واپسيءَ بعد جيڪا افراتفري ٿيندي ۽ غير يقيني حالتون ٿينديون، ان جي نتيجي ۾ پناهگيرن جي نئين کيپ اچڻ جو امڪان آهي. ائين پاڪستان هڪ دفعو ٻيهر عالمي ادارن ۽ سگهارن ملڪن جي دٻاءُ ۾ اچي ويندو ته اهو انهن پناهگيرن کي پاڻ وٽ جڳهه ڏئي. آمريڪي اهلڪار جان ڪيري اچي يا برطانوي وزير، ان ڳالهه جو گهٽ امڪان آهي ته پاڪستان ۽ آمريڪا افغانستان بابت ڪنهن اهڙي حل تي متفق ٿين، جيڪو ٻنهي ڌرين جي مفاد وٽان هجي. اهو معاملو ٻنهي ڌرين جو اسٽريٽئجڪ اثاثو آهي. جيستائين بنيادي سوچ ۾ تبديلي نه ايندي، تيستائين يڪراءِ عمل جو امڪان ناهي.
گڏيل قومن ۽ ٻين اسٽيڪ هولڊرن مئي 2012ع ۾ زور ڀريو هو ته پاڪستان انهن پناهگيرن لاءِ ڪو قانون ٺاهي، يعني سياسي پناهه وغيره جي ڪا واٽ ڪڍي. مطلب اهو هو ته ايڏي وڏي آباديءَ کي پاڪستان جي شهريت ڏني وڃي ۽ ان کي قانوني طور پنهنجي آباديءَ ۾ ضم ڪيو وڃي. هن وقت پاڪستان ۾ سياسي پناهه جو ڪو قانوني فريم ورڪ موجود ناهي. گڏيل قومن جو پناهگيرن بابت ڪمشنر پاڪستان تي زور ڀري رهيو آهي ته پاڪستان ريفيوجي ڪنوينشن تي صحيح ڪري ۽ مهاجرن بابت ملڪي قانون جوڙي. پاڪستان کي اهو ڊپ آهي ته ٻوڏ جو اهو دروازو هڪ دفعو لکيو ته پوءِ ڪڏهن به بند نه ٿي سگهندو. پاڪستان ۾ تجارت ڪندڙ افغاني ڪارپيٽ، امپورٽ، ايڪسپورٽ، گاڏين جي شو رومن جو ڪم ڪندا آهن. افغاني ڪروڙن جو ڌنڌو ڪن ٿا پر ٽيڪس نٿا ڏين. رڳو پشاور ۾ 12 هزار افغاني ٺيڪ ٺاڪ ڪاروبار ڪن ٿا پر ٽيڪس کان جواب آهي. پاڪستاني حڪام کي جرئت ناهي جو کانئن پڇي به سگهن. ٽيهه سال گذرڻ بعد به حڪومت ڪا پاليسي ٺاهي نه سگهي آهي. ڪجهه افغاني ٽيڪسي ڊرائيور آهن يا وري ٺيلهن تي فروٽ وغيره وڪڻن ٿا. هزارن جي تعداد ۾ ننڍو وڏو ڪاروبار، نوڪريون يا مزدوري ڪن ٿا، جنهن سان مقامي ماڻهن لاءِ روزگار جا موقعا گهٽجي وڃن ٿا.
اصل قصو اهو آهي ته افغانستان هن مرحلي تي ايترا پناهگير واپس وٺڻ لاءِ تيار ناهي، جو ان سان گڏوگڏ افغان حڪومت وٽ به ڪاروبار، روزگار يا استحڪام بابت ڪا شئي آڇڻ لاءِ ناهي. ٻئي طرف گڏيل قومن جو مهاجرن بابت ادارو ڪئناڊا، آسٽريليا، جرمني، سوئيڊن وغيره ۾ افغانين کي سياسي پناهه ڏيڻ لاءِ ڪوششون وٺي رهيو آهي. جڏهن اها صورتحال هجي ته ظاهر آهي ته گهٽ پناهگير واپس وطن وڃڻ بابت سوچيندا. ڪيئي افغان پناهگير پاڪستان ۾ ئي ڄاوا آهن ۽ اهي 30 سالن کان هتي رهن پيا، پر اهي افغاني شهري شمار ٿين ٿا. ساڍا ڇهه هزار افغان شهري پاڪستان جي مختلف يونيورسٽين ۾ پڙهن ٿا. پئسي وارا افغاني پنهنجا ٻار سٺن اسڪولن ۾ پڙهائين ٿا. گڏيل قومن جي اداري جو زور آهي ته افغان پناهگيرن کي اهي سهولتون ۽ حق ڏنا وڃن، جيڪي پاڪستان جي ڪنهن شهريءَ کي پنهنجي ملڪ ۾ حاصل آهن.
پاڪستان افغانين بابت نئين پاليسي جوڙي رهيو آهي. ان نئين پاليسيءَ تحت افغان پناهگيرن کي ڊسمبر 2015ع تائين پاڪستان ۾ رهڻ جي اجازت هوندي. خيبر پختونخوا، سنڌ ۽ بلوچستان افغان پناهگيرن جي بار سبب سڀ کان وڌيڪ متاثر ٿيل آهن، پر افغان پناهگيرن بابت رٿيل پاليسيءَ ۾ انهن صوبن جي راءِ شامل ناهي ۽ نه ئي صوبن کي اعتماد ۾ ورتو ويو آهي يا ٻڌايو ويو آهي. دراصل افغان پناهگيرن جي موجودگيءَ مان جيڪي مسئلا پيدا ٿيندا، سي صوبن کي ئي ڀوڳڻا پوندا. تعليمي، طبي سهولتون، روزگار، امن امان جا معاملا سڀ صوبن سان ئي واسطو رکن ٿا. سنڌ جو مسئلو ان ڪري به آهي، جو هتي هڪ ئي شهر ۾ ٻه ٽي لک افغاني رهن ٿا.
Kawish August 06, 2013