Saturday, December 23, 2017

سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی

Dec 23, 2017
Sindh Nama Nai Baat -

سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی
سندھ نامہ سہیل سانگی 
’’منڈی کی جنس کی طرح فروخت ہوتا ہوا قانون‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ صرف ایک روز کے اخبارات میں رپورٹ ہونے والے روڈ حادثات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں زندگی حادثات کی راہ چل پڑی ہے۔ صرف ایک روز میں 12 انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بیس بتائی جاتی ہے۔ نوری آاد کے قریب خیرپور سے کراچی جانے والی مسافر وین ایک ڈمپر سے ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجے میں چار افراد موقع پر ہی ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ۔ ٹھٹہ کے قریب گجو میں مسافر بس پولیس موبائیل سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار فوت ہو گیا۔ بھان سید آباد میں ایک ٹریکٹر ٹرالی الٹنے کی وجہ سے دو نوجوان فت ہوگئے۔ مٹیاری کے قریب گاڑی الٹنے سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح سے میہڑ، سجاول بائی پاس، سیہون، مٹیاری قاضی احمد، خیرپور، اور ٹنڈوجام میں حادثات میں ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ یہ وہ خبریں ہیں جو میڈیا میں شایع ہوئی ہیں۔ لیکن میڈیا کی رسائی سے دور بھی حادثات ہوئے ہونگے جو رپورٹ نہیں ہو سکے ہیں۔ 
سندھ میں روڈ حادثات بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا، تیز رفتاری، لاپروائی، سڑکوں کی خراب ھالت، ان فٹ گاڑیاں، موالی اور منشیات کے عادی ڈرائیور، اور ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء میں متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پاسداری نہ کرنا شامل ہے۔ سندھ میں روڈ اور سڑکوں پر گاڑیاں تو چلتی ہیں لیکن قانون نہیں چلتا۔ ایک کہاوت ہے کہ قانون کو بھی موت کی طرح ہونا چاہئے۔ جس میں کوئی مستثنیٰ نہ حاصل نہ ہو۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ یہاں قانون کو سکہ رائج الوقت کے عوض خریدا جا سکتا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس سے لیکر ٹریفک قوانین سے استثنیٰ تک ہر چیز قابل فروخت ہے۔ 
سندھ میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ اکثر سڑکیں صرف کاغذوں پر ہی بنی ہوئی ہیں۔ سندھ میں ترقی کا ثبوت کاغذوں سے باہر نہیں نکلتا۔ بجٹ میں ہر سال سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بجٹ بھی ’’حادثات‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگر سڑک بنتی بھی ہے تو چند ماہ میں ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ کیونکہ اس سڑک پر بجٹ کا ایک معمولی حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ تیزرفتاری بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹریفک قانون میں اس کی ایک حد مقرر ہے۔ لیکن ان قوانین پر عمل کون کرے؟ چھوٹی سڑکیں ہوں یا شاہراہیں، لوہے کے ہاتھی بے قابو دوڑتے رہتے ہیں۔ جب قانون پر عمل نہیں ہوگا، نظام ترتیب اور تنظیم کھو بیٹھے گا۔ ایسے میں حادثات کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کی فٹنیس بھی اہم مسئلہ ہے۔ جب قانون کی قیمت سکہ رائج الوقت میں ادا کر دی جاتی ہو، ایسے میں ان ٖت گاڑیوں کو کیسے روڈ سے آف کیا جاسکتا ہے؟ سندھ میں حادثات میں روز لوگ مر رہے ہیں، پھر ان کو ھادثات کیسے کہا جاسکتا ہے؟ حادثے تو اچانک ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ یہاں تو اسبا اور وجوہات موجود ہیں۔ پھر ان کو ھادثہ کیسے کہا جائے؟ جب ٹریفک قوانین کی خالف ورزی کی جائے گی، جب ان فٹ گاڑیوں پر سڑکوں پر آنے سے روکا نہیں جائے گا، جب ڈرائیونگ لائسنس ایک بکتی ہوئی جنس کی طرح ہو، ظاہر ہے اس کا نتیہجہ حادثات کی شکل میں ہی سامنے آئے گا۔ جب حادثات کے اسباب مہیا کئے جاتے ہیں تو پھر ان کو ھادثہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ سندھ میں روڈ حادثات، اس کی وجوہات ختم کرنے سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ 
فالتو اور اضافی اساتذہ
’’سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کی مثال!‘‘ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی ایرمجنسی نافذ ہے۔ سندھ حکومت اپنے تئیں صوبے میں تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش میں رہتی ہے کہ وہ تعلیمی ترقی کے لئے بہت پریشان ہے۔ لیکن عملی طور پر اس ضمن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی تازہ مثال گزشتہ روز صوبائی دارلحکومت کراچی میں اساتذہ پر برسائی گئی لاٹھیوں اور ان کی گرفتاریوں سے ہوتا ہے۔ جس کی صوبے بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جو ایک عرصے سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔لیکن انہیں ریگیولرائز نہیں کیا گیا۔ یہ اس حکومت کا رویہ ہے جس کو صوبے کے عوام کااکثریتی مینڈٰٹ حاصل ہے۔ استاد کا احترام کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کی پہلی نشانی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا شعبہ تعلیم ہی ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ کے ساتھ ہر دور میں یہ روش رہی ہے جیسے کہ وہ اضافی یا فالتو لوگ ہوں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران تعلیم کے بارے میں جو بھی اجلاس منعقد ہوئے ان میں وزیراعلیٰ سندھ نے جو بڑے بڑے وعدے کئے وہ ریکارڈ پر ہیں۔ گزشتہ روز کرایچ میں اساتذہ پر ہونے والی کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اپنے وعدوں کا کتنا پاس رکھا ہے۔ ایک طرف بتایا جاتا ہے کہ صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں اسکول بند ہیں ۔اور اساتذہ کی کمی ہے۔ دوسری طرف نئے اساتذہ بھرتی کرنے کے بجائے جو اساتذہ برسہا برس سے اپنے فرائض منصبی بخوبی ادا کر رہے ہیں ان کو مستقل نہیں کر کے آخر حکومت عوام کو اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ 
چند روز پہلے بھی اساتذہ پر کراچی میں تشدد کیا گیا تھا۔ وزیر تعلیم نے اس کارروائی کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی کہ گزشتہ دور حکومت میں غیر ضروری طور پر اساتذہ بھرتی کئے گئے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ بھرتیاں پیسوں کے عوض کی گئی تھی۔ لہٰذا ان کو مستقل نہیں کیا جاسکتا۔ کیا وزیر محترم بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت کس سیاسی جماعت کا تھا؟ وزارت تعلیم کا قلمدان کس کے پاس تھا؟ گزشتہ دور حکومت بھی موجودہ حکمران جماعت کا تھا۔ ہم وزیر موصوف کے ان دلائل کو مسترد کرتے ہیں اور ان زمینی حقائق کی طرف لے آتے ہیں کہ آج بھی سرکاری اعداد وشمار کے مطاب ہزاروں اسکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں ۔ جب زمینی حقیقت یہ ہے تو پھر یہ اساتذہ اضافی یا فالتو کیسے ٹہرے؟ 

نئی بات  سندھ نامہ

https://www.pakdiscussion.com/sindh-main-taraqi-kagazoun-say-bahir-nahi-nikalti-sohail-sangi/

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/53643/Sohail-Sangi/Sindh-Main-Taraqi-Kaghzon-Se-Bahir-Nahi-Nikalti.aspx 

http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-dec-23-2017-149506
سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی

Friday, November 24, 2017

پیپلزپارٹی اپنے ہی ووٹر کو غریب کر رہی ہے

Sindhi Press- Sindh Nama 25-11-2017
Sohail Sangi
Nai Baat
پیپلزپارٹی اپنے ہی ووٹر کو غریب کر رہی ہے
سندھ نامہ     سہیل سانگی
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے شگر ملز وقت پر نہ چلانے اور گنے کی قیمت مقرر نہ کرنے کے خلاف سندھ میں تحریک جاری ہے۔ اب یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ جہاں عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو 29 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے من مقرر کردی ہے لیکن سندھ حکومت اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے۔ 

صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ کاشتکار ایک ہفتہ صبر کریں ۔انہیں مناسب دام دیئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے چینی کے اسٹاک پڑے ہیں۔ جنہیں ایکسپورٹ نہیں کیا جاسکا ہے۔ سندھ کے اخبارات نے کاشتکاروں کے اس احتجاج اور مطالبات کے حق میں اداریئے لکھے۔ اخبارات نے فیض آباد کے دھرنے کو بھی موضوع بنایا ہے اور کہا ہے کہ ریاست کی رٹ کو تماشہ نہ بنایا جائے۔ ان دو مسائل پر سندھ کے اخبارات کی متفقہ رائے ہے۔ 

’’حکومت کو سندھ کے کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہیں آتا ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز گمبٹ کے قریب قومی شاہراہ پرکاشتکاروں نے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں کاشتکاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ ایک طرف اشیائے صرف و خوردنی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے جس کو حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔

دوسری جانب جب بھی کوئی زرعی جنس اترتی ہے تو تاجر مافیا اس کی قیمتیں گرا دیتی ہے اور محنت مزدوری سے پیدا کی گئی فصل کا معاوضہ اس کی لاگت کے برابر بھی نہیں ملتا۔ زرعی اجناس کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے کسان اور چھوٹا کاشتکار مفلس ہو گیا ہے۔ سندھ کی اکثریتی دیہی آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ جو مسلسل بحران کا شکار ہے۔ صوبے کی حکمران جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اس کی پالیسیاں دراصل اپنے ہی ووٹر کو مزید غریب کر رہی ہیں۔

’’روزنامہ کاوش ‘‘نے موسمی تبدیلیوں کے پس منظر میں سندھ میں پانی کی قلت کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ یہ ایک نیا پہلو ہے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کی لاتعلقی پر تنقید کی ہے۔
اخبار ’’سندھ کے پانی کا مقدمہ اور ہمارا نیرو‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک ہنگامہ بپا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں انسان کی زندگی و بقا اور ماحولیاتی سے مطابقت اور نئے ماحول میں زندہ رہنے کے طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ چین کے صحرا گوبی کو ڈرپ آبپاشی نظام کے ذریعے آباد کردیا گیا ہے۔ دنیا کے بعض ممالک سمندر کے پانی کو میٹھا کر کے انسانی استعمال کے لائق بنا کر وہاں کے باشندوں کو مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے نیرو بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔ انہیں کسی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ عوام ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ لہٰذا نہ ہی کسی مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اندازہ کر سکیں کہ آئندہ چند برسوں میں سندھ کی کیا حالت ہو گی۔ 

اقوام متحدہ نے تبدیل شدہ حالات میں زندہ رہنے اور ترقی کے لئے 17 ہدف مقرر کئے تھے جس میں سنیٹیشن یعنی صحت اور صفائی ستھرائی چھٹے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ان اہداف کی سندھ کے منتظمین کو فکر نہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت صفائی اور پینے کے پانی وغیرہ کی ضروریات کو دیکھیں۔ محکمہ منصوبہ بندی ابھی تک گہری نیند میں ہے۔ وہ اس پر سنجیدہ ہونے کے لئے تیار نہیں کہ دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ 20 فیصد کم ہو جائے گا۔ 

سندھ کو حصے میں جو پانی دیا جاتا ہے اس میں سے 30 فیصد پانی پہلے ہی گم ہو جاتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی وزیر ہی مقرر نہیں۔ مزید انتظامی تدبر یہ ہے کہ صوبائی سیکریٹری بھی نان ٹیکنیکل افسر ہے۔ جس کو پانی کی انتظام کاری اور ریگیولیشن کا کوئی تجربہ نہیں۔ جب اس محکمے کو اس طرح سے چلایا جائے گا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آغاز میں موجود کاشتکاروں کو پانی ملے گا اور جو آخر میں ہونگے وہ پریشان ہونگے۔ 
واپڈا اور ارسا سے لیکر سیڈا تک 18 ادارے ہیں جو پانی کی انتظام کاری کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے کوئی نظام مرتب نہیں ہو سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں ٹیلی میٹری نظام قائم کیا گیا تاکہ دریائے بہاؤ کو سیٹلائیٹ کے ذریعے مانیٹر کیا جاسکے۔ اس کا انتظام واپڈا کے حوالے کیا گیا۔ لیکن یہ سسٹم بھی ناکام ہو گیا۔ سندھ کے حکمران صوبے کے لئے منصفانہ حصہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 

سندھ کے منصوبے نظرانداز ہوتے رہے۔ دراوت اور گاج ڈیم بھی نہیں بن سکے۔ 15 سال سے رینی کینال کا منصوبہ بھی رولے کا شکار ہے۔ محکمہ 
آبپاشی سیاسی بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سیڈا کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے۔ سیڈا کی کارکردگی دیکھ کر سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ گاڑیاں کونسے سیارے پر چلتی ہیں؟ اگر سندھ میں چلتی تو یہاں کی آبپاشی کی حالت یقیننا بہتر ہوتی۔ تنخواہوں، دیگر مراعات اور وائیٹ ہاءؤس کی طرح تعمیر شدہ دفتر کو چھوڑ کر صرف گاڑیوں کے تیل کا بجٹ اگر لیا جائے ، اس سے ضلع کا ایک ہاسپیٹل چل سکتا ہے۔ سیڈا کا کام فارمرز آرگنائزیشن قائم کرکے ان کی تربیت کرنا اور کاشتکاروں کو غی ر ملکی دورے کرانا ہے۔ تاکہ وہ دوسرے ممالک میں مروجہ نظام سے واقف ہو سکیں۔ 

سندھ کے منتظمین تاحال واٹر پالیسی بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ یہ پالیسی یقیننا دوسرے صوبوں سے مختلف ہوگی۔ کیونکہ اس صوبے کو زوال پزیر سندھو کے ڈیلٹا کو زندگی دینے کے لئے پانی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے ٹھوس منصوبہ بندی کرکے سندھ کے پانی کا مضبوط مقدمہ تیار کیا جائے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ے کہ سندھ اسمبلی نے پروفیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ منظور کیا ہے۔ اس بل کے تحت کام کرنے کے مقامات پر اتنظامات اور صحتمند ماحول رکھنا لازم ہوگا۔ کام کے مقامات مثلا کارخانے، دکان، شاپنگ مال، شادی ہال، وغیرہ میں حفاظتی انتظامات مکمل رکھنے پڑیں گے۔ نئے قانون کے مطابق سندھ اکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کونسل قائم کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کے محنت کشوں کے لئے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ کام کرنے کے مقامات اور حالات کار کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ قانون بن جانا اچھی بات ہے۔ حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے، اور اس کا ایک ایسا مکینزم بنائے کہ محنت کش لوگ سکون سے کام کرسکیں۔

Sindh Nama, Sindhi Press
http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/52532/Sohail-Sangi/Peoples-Party-Apne-Hi-Voter-Ko-Ghareeb-Kar-Rahi-Hai.aspx

http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/25-11-2017/details.aspx?id=p13_03.jpg


Thursday, November 23, 2017

یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی!

Sindhi Press - Sindh Nama   Sohail Sangi  
Nov 18, 2017 
یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی!

سندھ نامہ   سہیل سانگی
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو دس سال مکمل ہونے کو ہیں۔ سندھ کے اخبارات اس س حساس صوبے میں حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں کا جائزہ لییتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اخبارات کی نظر میں سندھ کی دیہی آبادی بھی حکومتی پالیسیوں اور طرز حکومت سے مطمئن نہیں۔ دیہی آبادی کا اہم شعبہ زراعت بھی زوال پذیر ہے۔
 ”روزنامہ کاوش“ نے ” سندھ میں شگر کین بیلٹ کو تباہ نہ کریں“ کے عنوان سے ادارایہ لکھا ہے کہ شگر ملز شروع نہ ہونے اور گنے کی قیمت مقرر نہ ہونے کے خلاف سندھ میں کاشتکاروں کا احتجاج جاری ہے۔ ” باغ تو سارا جانے“لیکن سندھ کے حکمرانوں کو یہ احتجاج نظر نہیں آتا۔ منتظمین مسئلے کو حل کرنے کے برعکس اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ماسکو مزید الجھا رہے ہیں۔ سندھ میں گنے کی پسائی اکتوبر کے آغاز میں شروع ہونی ہے۔ لیکن حکمران نومبر کے وسط تک شگر ملز شروع کرانے سے عاجز نظر آتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کو روکنے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ 
سندھ اسمبلی نے گنے کی پسائی میں تاخیر اور گنے کی قیمت کے بارے میں تحریک التوا مسترد کرتے ہوئے صرف شگر ملز جلدی شروع کرنے کی ترمیم کے ساتھ قرارداد منظور کی ہے۔ تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھڑو نے کہا کہ ضروری نہیں کہ شگر ملز اکتوبر کے اوائل میں شروع ہوں۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ گنے کی دیر سے کٹائی سے گندم اور دیگر فصلیں متاثر ہونے کا تاثر بھی درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پانچ سندھی، اردو، اور انگریزی اخبارات پڑھتے ہیں انہیں کہیں بھی کاشتکاروں کی احتجا جی تحریک نظر نہیں آئی۔ 
 سندھ زرعی صوبہ ہے۔ سندھ کو پانی کا منصفانہ حصہ ملنا، اور بعد میں محکمہ آبپاشی کی غلط انتظام کاری کی وجہ سے خطرات پیش ہیں۔ ان میں سے ایک خطرہ سندھ حکومت کی زراعت سے متعلق غلط پالیسی بھی ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سندھ کا شگر کین بیلٹ تباہ ہورہا ہے۔ ہر سال شگر ملیں وقت پر نہیں چلائی جاتی۔ کاشتکاروں کا احتجاج بھی حکمرانوں کے رویے میں تبدیلی نہیں لا رہا ہے۔ سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ فیکٹریز ایکٹ بظاہر نافذالعمل ہیں۔ لیکن شگر ملز مالکان وقت پر ملیں چلانے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ اس ضمن میں سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد، جو کہ مجموعی طور پر سندھ کی زراعت اور یہاں کے عوام کے فائدے میں ہے، اس کو روکنے کے لئے حکمران جامعت تمام طریقے استعمال کر رہی ہے۔ 
جو کام حکومت کے حصے کا ہے وہ نہیں کیا جاتارہا ہے۔ گنے کی قیمت مقرر کرنا اور وقت پر شگر ملیں شروع کرانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ حکومت پہلے مل مالکان کا دفاع کرتی رہتی ہے۔ جب احتجاج بڑھ جاتا ہے تو مل مالکان کی منت سماجت کرتی نظر آتی ہے کہ ” اچھے بچے بنو، ایسا نہ کرو“۔ رواں سیزن میں حزب اختلاف کو سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے نہیں دی گئی۔ اور ترمیمی قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ جلد شگر ملیں شروع کی جائیں۔ قراداد کے متن میں جلد لفظ موجود ہے لیکن کسی معینہ مدت کا ذکر نہیں۔ چلیں یہ بھی مان لیےتے ہیں۔ 
سندھ کا منتخب ایوان سمجھتا ہے کہ گنے کی پسائی میں دیر ہوئی لہٰذا قرارداد میں لفظ ” جلد“ ڈالا گیا ہے۔ جہاں تک پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھڑو کی منطق کا تعلق ہے کہ گنے کی دیتر سے کٹائی سے گندم یا دوسری فصلوں کو نقصان کا احتما ل نہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کیونکہ اجب گنے کی کٹاءہوگی اور زمیں صاف ہوگی تب ہی گندم بوئی جائے گی۔ دیر سے گنے کی کٹائی کے نتیجے میں نہ صرف زمین فارغ نہیں ہوگی بلکہ کھڑی ہوئی گنے کی فصل کو گندم کے حصے کا پانی بھی دیا جاتا رہے گا۔ میڈیا پہلے بھی اس امر کی نشاندہی کرتا رہا ہے کہ دیر سے گنے کی کٹائی کی وجہ سے گنا خزک ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وزن بھی کم ہونے لگتا ہے۔ جس کا نقصان کاشتکار کو اٹھانا پڑتا ہے۔ 
گنے فصل پنجاب میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہاں پر کاشتکاروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا۔ وہاں حکومت کاشتکاروں کو مل مالکان اور پاسما کے رحم کرم پر نہیں چھوڑتی۔ جہاں تک ویزر موصوف کو کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہ آنے کا معاملہ ہے، وہ تو ” میں نہ مانوں“ کا معاملہ ہے۔ حکومت گنے کی قیمت دیر سے شروع کرتی ہے تب تک گنا سوکھ جاتا ہے۔ کاشتکار کو گنے کی لاگت تو دور کی بات اس کی کٹائی بھی مہنگی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی کاشتکار کھڑی ہوئی فصل جلا دیتے ہیں۔ سندھ میں جلانے کی لکڑئی بھی تقریبا 400 روپے من ہے۔ کاشتکاروں کو گنے کی قیمت لکڑی کے دام کے نصف برابر ملتی ہے۔
ضروت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر گنے کی قیمت مقرر کر کے شگر ملیں شروع کی جائیں اور آئندہ کے لئے ایک مستقل فریم ورک مرتب کیا جائے، تاکہ وقت پر گنے کی قیمتیں مقرر ہوں اور شگر ملین بھی وقت پر شروع ہوں۔ ایسا کرنے سے کاشتکار فصلیں بونے کا ایک مکمل ژیدیول بنا سکیں گے۔ اور زراعت ایک سسٹم کے تحت چلنا شروع ہو جائے۔ 
 ”یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی! “ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے مختلف اداروں کی کارکردگی اور عوامی مسائل کا جو خاکہ روز پیش ہو رہا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر باشعور شخص کے پاس ایک ہی سوال ہے کہ کیا سندھ میں بہتر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ صرف گزشتہ ایک روز کی خبریں برعکس تصویر پیش کرتی ہیں۔ جس میں سندھ کے عوام کرب سے گزر رہے ہیں۔ 
صرف ایک نقطہ میرٹ کو ہی لے لیجیئے جس کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ سندھ ہائی کورٹ نے این ٹی ایس ٹیسٹ کیس میں ایک امیدوار کی درخواست کی سماعت کے دوران ریماکرس دیئے ہیں۔ کہ سرکاری اداروں میں جاہلوں کو بھرتی کیا جا رہاہے اور پڑھے لکھے محنتی افراد کو نظر انداز کر کے کئی مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں۔ تعلیم کا معالہ بھی کچھ ایسا ہے۔ جس کے بارے میں حکومت کا دعوا ہے کہ معیار تعلیم بہتر بنانے کے لئے ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ اس ایمرجنسی کے نتائج یہ ہیں کہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں 76 اسکول بند آج بھی ہیں۔
 تعلیم کے بعد صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس میں محکمہ صحت کی کارکردگی یہ ہے کہ سانگھڑ سول ہسپتال کی ادویات چھ ماہ تک ٹرک اڈے پر پڑی رہی۔ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث لاکھوں روپے کی یہ دوائیں مستحق مریضوں تک پہنچنے کے بجائے پڑے پڑے خراب ہو گئیں۔ ٹرک اڈے کے مالکان کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی کہ دوائیں وصول کر لی جائیں۔ لیکن کسی بھی سرکاری اہلکار نے زحمت نہیں کی۔ 
پولیس جس کا عوام زندگی سے روز کا واسطہ ہے۔ اس کے مظالم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خبر ہے کہ گھوٹکی کے تھانہ کھینجو کی حدود میں ایک پولیس اہلکار نے مفت سگریٹ نہ دینے پر ایک کیبن والے کو زدوکوب کرنے کے بعد لاک اپ میں بند کردیا۔ شکایت کرنے پر پولیس اس کے کیبن اور گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے گئی۔ انہیں بغیر جرم کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بعد میں ےیس ہزار روپے رشوت نہ دینے پر اس کو چرس رکھنے کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر نے کی دھمکی دیتے رہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ ہے اس پارٹی کی حکومت کی کارکردگی جس نے سندھ سے اکثریت میں ووٹ ھاصل کئے ہیں۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان خبروں کی روشنی میں اپنی اس کارکردگی کا عکس دیکھے جس کے لئے اس کا دعوا ہے کہ وہ بہتر ہورہی ہے۔ کاش سندھ حکومت کو اپنی ساکھ کا تھوڑا سا لھاظ ہوتا، تو وہ یقیننا اپنا احتساب کرتی۔
Sindh Nama, Sindhi Press
Sindh Nama  Nai Baat Nov 18, 2017 
Sohail Sangi 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Friday, November 17, 2017

غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کیوں ؟

Sindhi Press - Sindh Nama  Sohail Sangi
غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کیوں ؟ 

 برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے پر سندھ کے خدشات 

سندھ نامہ     سہیل سانگی 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ اگرچہ محکمہ شماریات کے سربراہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مردم شماری کے نتائج پر سندھ کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ابھی یہ تنازع نمٹ نہیں سکا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئین میں ترمیم کر کے کراچی میں غیر قانونی طور پر مقیم برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی حکومت کے اس منصوبے نے سندھ کی ڈیموگرافی میں نابرابری پیدا ہونے کا خوف پیدا کردیا ہے۔ 
سنیٹ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کے سنیٹرز نے ایک تحریک جمع کرائی ہے جس پر پالیسی بیان دیتے ہوئے امور داخلہ کے مملکتی وزیر طلال چوہدری نے کہا کہ گورنر سندھ نے برمیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے معاملے پر بات کی ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

آج کل نواز لیگ کی سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ نیا رومانس چل رہا ہے۔ اس قربت کے عوض شیاد نواز لیگ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہو۔ لیکن اس سے قبل پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب بھی ایم کیو ایم کی نسرین جلیل اور نواز لیگ کے طلال چوہدری جیسا موقف دے چکے ہیں۔ 
پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ میانمار میں برمی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ہم آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن جو برمی پاکستان میں رہ رہے ہیں انہیں حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ یہاں حقوق سے پیپلز پارٹی کے سنیٹر کی مراد انہیں سندھ کے رہائشی کے طور پر قومی شناختی کارڈ جاری کرنا ہے۔ ایسا ہی ایک بیان پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھڑو بھی دے چکے ہیں۔
برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے لئے پہلے پیپلزپارٹی نے رائے عامہ بنائی۔ اب اس رائے عامہ کی بنیاد پر ایم کیو ایم اور نواز لیگ نے آئین میں ترمیم کے لئے سنیٹ میں تحریک پیش کی ہے۔
سیاسی جماعتیں سندھ اور خاص طور پر اس کے صوبائی دارالحکومت میں اپنے سیاسی بقا کے لئے مختلف ادوار میں اس طرح کے حساس مسائل پر تحریکیں لاتی رہی ہیں۔ اب نواز لیگ اور ایم کیو ایم نے مشترکہ طور پر یہ تحریک پیش کی ہے، سندھ کے حقوق کی دعویدار صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی بھی اسی طرح کا اظہار کر چکی ہے۔ ان سب کو سندھ کے صوبائی داالحکومت میں غیر قانونی طور پر مقیم ان تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا معاملہ یاد آیا ہے۔
ان سب کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ کراچی میں غیر قانونی طور رہائش پذیر ان افراد کی منفی سرگرمیوں کے نتائج نہ صرف کراچی بلکہ پورا ملک بھگت چکا ہے۔ ملک میں دہشتگردی کی جو لہر چل رہی ہے اس کو روکنے کے لئے غیر قانونی طور پر مقیم ان برمیوں، بہاریوں اور بنگالیوں کو فی الحال کیمپوں میں منتقل کر کے ، انہیں واپس اپنے اپنے ملک بھیجنے کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جس صوبے کے پرانے اور حقیقی باشندوں کو حالیہ مردم شماری پر خدشات ہوں، انہیں اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہو، وہاں ھکومت منظم طور پر قانون سازی کر کے آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔ اس اقدام سے صوبے اور وفاق کے درمیان مزید دوریاں بڑہیں گی، بہتر ہے کہ حکومت آئین میں ایسی کوئی متنازع ترمیم نہ کرے ۔ جس کے سندھ اور وفاق پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’سندھ کی تعلیم میں کیا بدلاؤ آیا؟ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ صوبے میں اسکول مویشیوں کے باڑے، وڈیروں کی اوطاق، یا گودام بنے ہوئے ہیں۔ بعض صورتوں میں سرزمین پر اسکول ہی موجود نہیں۔ یہ سندھ حکومت کی بڑی ناکامی ہے جس کا اعتراف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ گزشتہ روز ان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ لاکھوں بچوں کا اسکول سے باہر ہونا ہماری ناکامی ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ناکامی کے اعتراف کے بعد بھی صورتحال کو بہتر بنانے میں حکومت سنجیدہ نہیں۔ لالو رینک کے گاؤں ورند ماچھی مین بوائز پرائمری اسکول باڑے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ استاد گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔
گاؤں والوں نے محکمہ تعلیم کے افسران کو خط لکھے، احتجاجی مظاہرے کئے ۔ لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ یہ صورتحال مکمل تباہی کی نشاندہی کرتی ہے۔ کسی بہتر معاشرے میں اگر ایسا واقعہ رپورٹ ہوتا تو تہلکہ مچ جاتا۔ لیکن یہاں پر کسی چھوٹے افسر کو بھی پروہ نہیں۔
حکومتی دعوؤں کے پیش نظر اس اسکول کے بارے میں رپورٹ آنے پر وزیر تعلیم کو مستعفی ہو جاچاہئے تھا۔ لیکن ہمارا وزیر تعلیم سرخ قالین پر چلتا ہے اور تقاریر کرکے کے ہم سب کو تعلیم بہتر کرنے کے بھاشن دیتا ہے۔ میڈیا مسلسل بااثر افراد کے زیر قبضہ اسکولوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ 
تعلیم کو بتاہ کر کے حکمرانوں نے سندھی قوم کی بربادی کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے بموں اور میزائیلوں کی ضرورت نہیں۔ اس قوم کو اپاہج کرنے کے لئے اس کی تعلیم تباہ کردو۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ حکمران اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں نہیں پڑھاتے۔ لہٰذا نہ ان کو کوئی نقصان ہے اور نہ ہی ضمیر پر بوجھ۔ تعلیمی اداروں میں کرپشن کی انتہا ہے۔ جہاں ضلع اور تحصیل سطح کے افسران ان اداروں کے فنڈ ہضم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تھصیل، ضلع اور ڈویزن سطح کے افسران کا بلا امتیازاحتساب کیا جائے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس اے ڈی کواجہ کا تبادلہ کر کے عبدالمجید دستی کو سندھ کا نیا پولیس سربراہ مقرر کرنے کی سفارش وفاقی حکومت کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ کے اجلاس میں صوبائی پولیس سربراہ اے ڈی کواجہ کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ 
اے ڈی خواجہ نے یہ موقف رکھا کہ انہیں صوبے اور وفاق کی مشترکہ مرضی سے آئی جی سندھ مقرر کیا گیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اس عہدے پر ماضی میں 14 پولیس افسران فائز رہ چکے ہیں۔ اور یہ عہدہ گریڈ 21 اور 22 دونوں کے لئے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ کرنے کا آپ کو اختیار ہے لیکن یہ فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ ایک ایسے آئی جی پولیس کو ہٹا دیا گیا جس پر کوئی سنجیدہ الزام نہیں تھا۔ نہیں پتہ کہ اے ڈی خواجہ کے اس موقف پر اجلاس کے شرکاء کے دل پر کوئی اثر ہوا یا نہیں، لیکن عوام ان کے اس موقف کو ضرور یاد رکھیں گے۔ 
پولیس منفی کردار کی وجہ سے بدنام رہی ہے۔ ابھی بھی کلی طور پر یہ کردار تبدیل نہیں ہوا۔ لیکن اے ڈی خواجہ نے بعض اہم اصلاحات ضرور کی۔ جس کے بعد متاثرہ لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس لے جانے لگے تھے۔ یوں اس اہم محکمہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ سندھ کے عوام اے ڈی خواجہ کو اسی عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے عوام کے ان جذبات کو نہیں سمجھا وہ وفاق سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔

Nai Baat Nov 4, 2017    Sindh Nama - Sindhi Press ---  Sohail Sangi 

Friday, November 3, 2017

356 ارب روپے استعمال نہیں کئے جا سکے

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
مبارک باد کا مستحق کون؟
سندھ نامہ سہیل سانگی

’’اس کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟ ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش ا‘‘داریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ وہ کسی بھی سال ترقیاتی جوبجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں کر سکی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ تھے۔ تب بھی تقریبا پینتیس ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوسکی تھی۔ رواں مالی سال کی تین سہ ماہیوں کے درواں صوبائی محکمہ مالیات نے مختص کی گئی 334 ارب روپے میں سے 67 ارب 20 کروڑ روپے جاری کئے۔ جس میں سے سندھ کے 44 محکمے اب تک صرف 36 فیصد رقم خرچ کر سکے ہیں۔ جبکہ گیارہ محکمے ایسے ہیں جو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر سکے ہیں۔ اس کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال بھی ترقیاتی رقومات استعمال کرنے کی صورتحال گزشتہ 9 برسوں جیسی ہی رہے گی۔ 
گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ اس کارکردگی سے ہی گورننس کا پروفائیل بنتا ہے۔ لیکن سندھ اداروں کا قبرستان بن گیا ہے۔ جس سے عیاں ہے کہ سندھ میں گورننس کی کیا سورتحال ہے۔ کیا اس گورننس سے سندھ کے لوگوں کو جمہوریت کا ثمر مل سکتا ہے؟ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ فینڈز نہیں ہیں، دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ فنڈز موجود ہیں لیکن اداروں کے منتظمین کے پاس انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں۔
ہر سال ایک بڑی رقم بغیر استعمال کے لیپس ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی رقم عوام کے لئے ترقیاتی کاموں پر استعمال نہ کرنا دراصل ترقی کو روکنے کے برابر ہے۔ سندھ میں ترقی کی راہ میں بندشیں گزشتہ 9 سال سے جاری ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران بھی منتظمین اسی راہ پر عمل پیرا ہیں۔ جو رقم خرچ کی جاتی ہے اس میں کس حد تک شفافیت ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسا ہاضمہ رکھنے والی بیوروکریسی کیوں چاہے گی کہ ترقیاتی منصوبوں پر عمل ہو، عوام کو سہولیات میسر ہوں؟ 
پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکمرانی میں جو ترقیاتی رقومات استعمال نہیں ہوسکی، ان کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے۔کہ 2008 -09 سے لیکر 2016-15 
تک 356 ارب روپے استعمال نہیں کئے جا سکے ہیں۔ حد ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 11 محکمے ایک روپیہ بھی ترقیاتی مد میں خرچ نہیں کرسکے۔ ۃم سمجھتے ہیں کہ ان 11 محکموں کے منتظمیں کی اس نااہلی کا نوٹس لیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے کہ وہ کیونکر عوام کو ان سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ 
روزنامہ عبرت کارساز سانحے کی تحقیقات کس کی ذمہ داری ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بعض ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو تاریخ کی مٹی بھی دھندلا نہیں سکتی۔ ایسا ہی واقعہ دس برس پہلے کراچی کے کارساز کے علئاقے میں ہوا تھا۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تھی۔ یہ منظر لاکھوں لوگوں کی آنکھوں میں فریز ہے۔ بنظیر بھٹو ملک کی کروڑیں خواتین، مزدوروں، طلبہ کسانوں اور روشن خایل لوگوں کی امید کی کرن تھی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی گاڑی کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعہ میں محترمہ تو بچ گئیں لیکن درجوں افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کئی آنکھیں سوالیہ بن کر محترمہ کے وارثوں اور پارٹی کے رہنماؤں سے پوچھتی ہیں کہ کیا انہوں نے محترمہ سے عقیدت کرنے والے ان عوام کے ساتھ کتنا نبھایا ہے؟ ان کی زندگی میں انقلاب نہ سہی، کوئی مثبت تبدیلی لا سکے ہیں؟ 
محترمہ کی شہادت سے لیکرّ ج تک ان کی پارٹی کی حکومت ہے ۔ ان کا ہی حکم چلتا ہے۔ ڈس سال کی حکمرانی بڑا عرصہ ہوتی ہے۔ اس عرصے میں سندھ کے لوگوں کی تبدیل کی جاسکتی تھی۔ عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کی جاسکتی تھیں۔ یہ سب چکھ ہوسکتا تھا۔ کیا ان کے ووٹ کی قدر کی گئی ہے؟ 
یہ وہ سوالات ہیں جو ہرشخص کی آنکھوں میں ہیں۔ جو کسی مصلحت یا مجبوری کی وجہ سے پوچھ نہیں سکتے۔ جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں تب شاید ہر خاص و عام حکمران جماعت کے ہر نمائندے سے یہ سوالات پوچھ سکے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے پیپلزپارٹی کے پاس کیا
تیاری ہے؟ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ سندھ کے لوگ عجیب مزاج رکھتے ہیں۔ وہ اگر اپنی بات پر آئیں تو پھر کیا میر کیا پیر اور جاگیردار کیس کی نہ سمنتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ اور اپنی کرتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے اپنے ضمیر کا ایسا مظاہرہ کیا بھی تھا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ ارسا میں وفاق کے کوٹا پر سندھ کا نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سوبے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط لکھا ہے کہ اس طرح سے ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ارسا ایکٹ کے مطابق پانی کی صوبوں میں تقسیم کے ذمہ دار اس ادارے کو پانچ ممبر ہونگے۔ ایک ایک چاروں صوبوں سے ہوگا اور پانچواں ممبر وفاق کی نمائندگی کرے گا۔ ایکٹ کے مطابق پانچواں ممبر وفاق کا نامزد کردہ ہوگا مگراس کا ڈومیسائیل سندھ کا ہوگا۔ لیکن گزشتہ چھ سال سے ارسا ایکٹ کی اس شق پر عمل نہیں ہو رہا۔
وزیراعلیٰ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس صورتحال میں نہ صرف ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی بلکہ سندھ کے ساتھ بھی ناانصافی ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کے لئے اکثریت کی بناید پر فیصلے ہوتے ہیں، اور وفاق کا نمائندہ اپنے مرضی سے ووٹ دیتا ہے جو کہ زمینی حقائق سے دور ہوتا ہے۔ نیتجۃ سندھ میں پانی کا بحران رہتا ہے۔ ارسا کی ترتیب اس لئے رکھی گئی تھی تاکہ سندھ کو مسلسل پانی کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ اب مجموعی طور پر پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ایسے میں سندھ کے کاشتکار پریشان ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی کمی کا تناسب سندھ کے ہی کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ محکومت کا موقف جائز ہے۔ اور جب وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کردیا ہے اب وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ نہ صرف وہ ارسا ایکٹ پر عمل کرائے بلکہ پانی کی قلت کے حوالے سے سندھ کی شکایات کا سدباب کرنے کے لئے ہدایات جاری کرے۔ 
Sindh Nama   Sindhi Press    Sohail Sangi  
Nai Baat Oct 21, 2017

Sunday, October 29, 2017

عوام حکمرانوں کو مینڈیٹ بادشاہی کے لئے نہیں دیتے



سندھ نامہ    سہیل سانگی
وفاق میں سندھ کی ملازمتوں کے حصے کا سوال کے عنوان سے ’’روزنامہ عبرت ‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ حکومت نے وفاق میں ملازمتوں صوبائی کوٹا کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھیجنے اور اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقدہ کابینہ کے اجلاس میں کوٹا سسٹم میں توسیع پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ کہ کوٹہ سسٹم میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر سنیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کی جائے۔ اجلاس نے اسٹبلشمنٹ ڈویزن کو کوٹہ پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیکر سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی ۔

وزیراعظم نے کہا کہ کوٹہ سسٹم 1973 میں دس سال کے لئے نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن چار دہائیوں کے بعد بھی وہی سسٹم نافذ ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کر کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ہمارے ملک میں متعدد وسائل ہیں جنہیں بروئے کار لا کر صوبائی خواہ وفاقی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے شروع سے ہی غیر ملکی قوتوں پر انحصار کو اپنا شیوہ بنایا۔ نہ صرف اتنا، بلکہ سرمایہ کاری کے لئے بھی غیر ملکی سرمایہ کاری وک ملکی سرمایہ کاری پر ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ نتیجۃ اس کا براہ راست اثر روزگار پر پڑا۔
آج ملک میں بیروزگار کی سب سے بڑی تعداد گریجوئیٹس اور پوسٹ گریجوئیٹس نوجوانوں کی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کم اجرت والی یا ان کی ڈگری اور تعلیم سے میچ نہ رکھنے والی ملازمتوں میں ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان روزگار کے لئے بھٹک رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسٹمز، ریلوے، انکم ٹیکس، پورٹ اینڈ شپنگ، جیسے محکموں میں سندھ کے لوگوں کو ملازمت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور سندھ کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ امر یقیننا قابل تشویش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں۔ کئی بار سندھ کے نوجوانوں نے وفاق میں ملازمت نہ ملنے کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی یہ معاملہ وفاق کے پاس اٹھایا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملازمتوں میں حصے کا معاملہ ہو، یا قومی مالیاتی ایوارڈ میں شیئر، یا گیس اور بجلی کی فراہمی ہو، ان تمام معاملات میں وفاق سندھ کو مسلسل نظرانداز کرتا رہا ہے۔ اگر سندھ ملازمتوں یا دیگر معاملات پر آواز اٹھاتا ہے تو اس کی آواز اکیلی رہ جای ہے۔ اس صورتحال پر سندھ کے منتخب نمائندے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی یہ خاموش ان کی ایمانداری اور سچائی پر سوالیہ نشان ڈال دیتی ہے۔وہ عوام دوستی کا دعوا کرتے ہیں لیکن جب عوام کے حقوق کا معاملہ آتا ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اب وفاقی کابینہ نے کوٹہ سسٹم کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں سندھ کے منتخب نمائندوں کو ایک بار پھر موقعہ ملا ہے کہ وہ عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کا تقدس قائم رکھتے ہوئے سندھ کے نوجوانوں کا ان کا حق دلائیں ۔ بلکہ صوبے کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق کوٹہ اضافہ کرائیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں لیکن اس کے باوجود ایک خاص طبقے یا صوبے کو اہمیت دی جائے تو یہ سندھ اور دیگر متاثرہ صوبوں سے ناانصافی ہوگی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ بھی سندھ میں آکر ملازمت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سندھ کے باسیوں کے لئے روزگار کے مواقع اور کم ہو جاتے ہیں۔ سرکاری محکمے ہوں یا نجی ادارے، ایک جامع اور منصفانہ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس سے مقامی لوگوں کو روزگار حاصل ہو سکے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ مجموعی طور پر سندھ تباہی اور بربادی کی بھیانک تصویر بنی ہوئی ہے۔ لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ غربت اتنی کہ ان کے جسم اور روح کے درمیان رشتہ برقراررکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
سندھ کے مختلف جغرافیائی حصے لاڑ، شمال، تھر، کوہستان، ہر جگہ ایک جیسی صورتحال ہے۔ لیکن گیس کی دولت سے مالا مال کاچھو کے علاقے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کاچھو حکومت کے انتظامی حدود سے باہر ہے۔ یہاں کے لوگ پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت وغیرہ کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
ضلع دادو کے خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ اور جوہی تحصیلوں کی بیس یونین کونسل کی بیس لاکھ آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ 2010 کے سیلاب کے آٹھ سال بعد بھی یہاں کی سڑکیں اور لنک روڈ ابھی تک ٹوٹے ہوئے ہیں۔ لوگ گڑھوں کا پانی پیتے ہیں۔ ان کی غیر انسانی حالات زندگی پر یہاں کے منتخب نمائندے مطمئن ہیں۔ ان کا یہ موقف شایع ہوا ہے کہ کاچھو کے رہائشی پہلے کے مقابلے میں کوش اور مطمئن ہیں۔

ایک سندھ وہ ہے جس کا عکس حکمرانوں کے بیانات اور دعوؤں میں ملتا ہے۔ یہ سندھ ترقی یافتہ اور خوشحال سندھ ہے جہاں غربت کی وجہ سے لوگ خودکشی نہیں کر رہے ہیں۔ لوگوں کو تمام بنیادی سہولیات حاصل ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ صورتحال بنی کہ کہ جو ’’بیکار ‘‘تھا وہ ’’کار والا ‘‘ ہو گیا۔ جو سائیکل چلاتا تھا وہ چند برسوں میں لگزری گاڑی چلا رہا ہے۔ بعض نے ملازمتوں کی دکانیں کھولی۔ (جس کی تحقیقات تفتیشی ادارے کرتے رہے ہیں ) حکومت نے اس طرح سے فروخت کی گئی ملازمتوں کی تنخواہیں بھی بند کی۔ کئی ملازمتوں کے بیوپاری نیب اور دیگر تفتیشی اداروں کے پاس مقدمہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ باقی عام بیروزگاروں کو چھولے اور حلیم کا ٹھیلا لگانے کے مشورے دیئے جاتے ہیں۔

اس سندھ میں بااثر افراد اور اہلکار منہ بھی منرل واٹر سے دھوتے ہیں۔دوسری سندھ وہ ہے جس کا عکس اخبارات میں رپورٹنگ اور عوامی شکایات کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ یہ وہ سندھ ہے جس میں لوگ غلاظت آمیز پانی پیتے ہیں۔ سرکاری اسکول اور ڈسپینسریاں میویشیوں کے باڑے، اناج کے گودام یا اوطاقیں بنی ہوئی ہیں۔ جب ایسی حکمرانی کی بات کی جاتی ہے کہ تو حکمران کہتے ہیں کہ ترقی دیکھنی ہے تو تھرپارکر جا کر دیکھیں۔مٹھی اور اسلام کوٹ کے ہسپتال اور مٹھی اسلام کوٹ روڈ کی مثالیں دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں موبائل سیٹ کی تعداد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایک سندھ وہ بھی ہے جو حکمرانی کے خلاف لوگوں کے احتجاجوں میں نظر آتی ہے۔ ان احتجاجوں کی وجہ سے پریس کلبوں کے آگن آباد ہیں۔

کسی بھی سماج میں احتجاج دراصل حکمرانی اور انتظام کاری سے عدم اطمینان کا اظہار ہوتے ہیں۔ سماج میں موجود بے چینی اور تشویش کا اظہار اس طرح کے اظہار سے ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جہاں کسی نہ کسی مسئلے پر احتجاج نہ ہوتا ہو۔ دراصل گورننس کے حوالے سے سوالات ہمارے حکمرانوں کی چڑ بن چکے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے؟ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی گورننس کا ہی اشو ہے۔ عوام حکمرانوں کو مینڈیٹ بادشاہی کے لئے نہیں دیتے۔ بلکہ اپنے حقوق اور بنایدی سہولیات کی فراہمی کے لئے دیتے ہیں۔ 

October 14, 2017
Sindhi Press , Sindh Nama
Nai Baat, Sohail Sangi

Friday, October 13, 2017

سندھ میں بدانتظامی کی قبولیت

Sindh Nama, Sindhi Press 
Nai Baat - Sohail Sangi
سندھ میں بدانتظامی کی قبولیت کی حد

سندھ نامہ سہیل سانگی 
روز نامہ کاوش ’’ سائنسی دور میں پراسرار امراض‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ محکمہ صحت کی اس سے بڑھ کر اور کونسی نااہلی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے لوگ مختلف وائرس میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ لیکن محکمہ صحت کے منتظمین ان وائرسز کی بروقت تشخیص کر کے اس کا علاج کرکے لوگوں کی زندگی بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ محکمہ صحت کی یہ نااہل ’’نفری‘‘ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے امراض کو ’’پر اسرار‘‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ 
ٹنڈو الہ یار ضلع میں چمبڑ کے ایک گوٹھ مرید خان لونڈ میں وائرس کی وجہ سے چھ بچوں کی زندگی چلی گئی۔ لیکن محکمہ صحت اس وائرس کا سرغ نہ لگا سکا۔ محکمہ نے گاؤں والوں کو ڈیڑھ سو مچھردانیاں فراہم کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ کوٹ غلام محمد کے قریب ایک گاؤں میں ’’پراسرار مرض‘‘ نے ایک ہی خاندان کے چار افراد کی زندگی چھین لی۔ عاملوں نے اس مرض کا جنات کا سایہ قرار دے کر اپنا کاروبار چمکایا۔ 



لوگ مختلف وائرسز میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ لیکن ان کی زندگی بچانے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ محکمہ صحت اپنی نااہلی کی وجہ سے عاملوں کے کاروبار کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ محکمہ صحت کی باگ دوڑ ایک ڈاکٹر وزیر، اور ڈاکٹر سیکریٹری کے پاس ہے۔ متعلقہ شعبے کے سند یافتہ یہ عہدیدار محکمہ کی صحت کو ٹھیک نہیں کر سکے ہیں۔ دراصل کرپشن کے دیو نے ہمارے محکموں کے گھٹنے چاٹ لئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ محکمے اپاہج ہو گئے ہیں۔ بیمار محکمہ صحت لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کر رہا ہے۔ میڈیا مسلسل حکومت کی توج اس طرف منبذول کراتا رہا ہے کہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بیمار بیوروکریسی کے ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔ 


دراصل امراض پر اسرار نہیں ہوتے محکمہ صحت پراسرار بن گیا ہے۔ آج کے جدیدسائنسی دور میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے امراض کو پراسرار قرار دے کر محکمہ جگ ہنسائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرسز کے ٹیسٹ کرا کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں اور عاملوں سے نجات دلانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ 
روزنامہ کاوش نے اپنے اداریے میں گوسٹ اسکولوں کے بعد گھوسٹ ڈسپینسریوں کے انکشاف کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ابھی تین ہزار بند اسکول کھونلنے کے لئے حکومتی اعلان کی گونج ہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انتظامی نااہلی کی نئی خبر آئی ہے کہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی طرح گھوسٹ ڈسپینسریاں بھی موجود ہیں۔ محکمہ صحت کے سماعت و بصارت سے عاری انتظامیہ کو یہ نظر نہیں آرہی۔ ججز کے چھاپوں کے بعد ایک بڑی خبر کے طور پر یہ حقیقت سامنے آئی ہے۔
خبر کے مطابق نو دیرو کے قریب پانچ ڈسپینسریاں مویشیوں کے باڑوں، اوطاقوں گوداموں یا گیرجز کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں ۔ سول جج رتو دیرو کے چھاپے کے دوران ان گھوسٹ ڈسپینسریوں کا انکشاف ہوا۔ سندھ میں کرپشن جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ گھوسٹ ٹیچرز، اور گھوسٹ اسکولوں کے بعد گھوسٹ ڈسپینسریوں کی نئی اصطلاح سامنے آئی ہے۔ یہ ڈسپینسریاں بااثر افراد کے ذاتی استعمال میں ہیں جہاں مویشیوں کے باڑے، اوطاق، ، گودام یا گیریج چل رہے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان ڈسپینسیروں میں ڈاکٹر تعینات ہیں لیکن وہ ’’ویزے‘‘ پر ہیں اور اپنی سرکاری فرائض انجام نہیں دے رہے۔ سندھ میں انتظام کاری کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ 
تعلیم کے بعد یہ دوسرا محکمہ ہے جس کا تعلق براہ راست عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہاں انتظام کاری کی صورتحال بدتر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بدترین انتظام کاری کو اس حد تک قبولیت ہے کہ کوئی اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا۔ محکمہ صحت کا پروفائیل کرپشن کے حوالے سے کسی بھی طور پر محکمہ تعلیم سے کم نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں نجی شعبے کو آگے لانے اور پروان چڑھانے کے لئے منظم طور پر محکمہ تعلیم اور صحت کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے۔ سرکاری شعبے کی تعلیم تقاضوں کے مطابق نہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کے لئے علاج کی سہولیات وفات پا گئی ہیں۔ ان شعبوں کو تباہ کرنے میں کرپٹ اور بد دماغ بیوروکریسی کا ہاتھ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر صحت کی سہولیات پت توجہ دی جائے، اور اس منظم پلان کو ناکام بنایا جائے جو صوبے کے غریب عوام کو ابھی بھی تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے اور آنے والے وقتوں میں ان کو نجی شعبے کے حوالے کردے گا۔ 



روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’ درگاہ فتح پور پر حملہ: یہ ناسور کب ختم ہوگا؟ ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ انتہا پسندی ملک کے لئے ناسور بنی ہوئی ہے۔ درگاہوں کو نشانہ بنانے کو ہم ملک کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ صوفی بزرگوں کی درگاہیں، اور ٹھکانے نسل، رنگ، مذہب اور فرقے سے بالاتر رہے ہیں اور انسانی بھائی چارے کا مرکز رہے ہیں۔ جو ہمیشہ امن کا پیغام عام کرتے رہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بعض عناصر ان درگاہوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں, تاکہ عام لوگوں سے روحانی تسکین کا یہ آخری سہارا بھی چھین لیا جائے۔ جہاں سماج کے بالادست طبقوں یا افراد اور نظام کی پالیسیوں کے شکار لوگ آکر چند اطمینان کی گھڑیاں گزارتے ہیں۔ 
اس سے پہلے قلندر لعل شہبار اور دیگر درگاہوں پر بھی دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے اور دلی طور پر تکلیف ہوئی ہے۔ 
حالیہ واقعہ بلوچستان کی حود میں ہوا ہے جہاں کی صورتحال پہلے سے ہی خراب ہے۔ لیکن ہم درگاہ فتح پور پر حملے کو بلوچستان کی بدامنی کی صورتحال سے لاگ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس حملہ میں براہ راست درگاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے میں وہی گروہ ملوث ہیں جو ملک بھر میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کو اس حملے میں ملوث ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے ۔ اس طرح کی کارروایوں سے عام لوگوں کو جانی نقصان کے ساتھ ساتھ نفسیاتی عذاب کا شکار ہوتے ہیں ان کا ازالہ اگر بروقت نہیں کیا گیا، تو لوگوں کے ذہنوں میں خود ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان آجاتے ہیں۔


Nai Baat Oct 7, 2017 
Sohail Sangi


Sindh Nama, Sindhi Press

Friday, September 29, 2017

کیا محکمہ شماریات اب محب وطنی کا سرٹفکیٹ دے گا؟

Sindh Nama, Sindhi Press 
Sohail Sangi
Nai Baat

کیا محکمہ شماریات اب محب وطنی کا سرٹفکیٹ دے گا؟

سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ میں سیاسی سرگرمی اب شروع ہوئی ہے تاہم صوبے میں عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور سماجی خدمات کی صورتحال افسوس ناک ہے جس کا اندازہ حال ہی جاری کی گئی تین رپورٹوں سے ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے بجٹ منظور ہونے کے تین ماہ بعد ضلعی ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص سوا 24 ارب روپے کی رقم میں سے صرف چار ارب روپے جاری کئے ہیں۔ لیکن صوبے کے 29 اضلاع میں سے صرف 22 کو رقومات جاری کی گئی ہیں جبکہ سات اضلاع اس ترقیاتی مرحلے میں محروم رکھے گئے ہیں۔ سرکاری طور پر جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق خیرپور اور لاڑکانہ پر حکومت کی خاص نوازش رہی اور گھوٹکی اور نوشہروفیروز محروم رہے۔ ایک اور رپورٹ میڈیا میں شایع ہوئی ہے جس میں حکومت سندھ نے گزشتہ تین سال کے دوران 965 اسکیموں کا کام غیر معیاری ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ وفاقی، صوبائی حکوموتں اور ضلع انتظامیہ تینوں کی جانب سے ایک ہی اسکیم پر کام ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ 



روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں یہ شکوہ جڑیں پکڑ ہو رہا ہے کہ وفاق کا سلوک اس کے ساتھ مفتوح علاقے جیسا ہے، نہ وعدوں اور معاہدوں پر عمل کیا جاتا ہے، نہ ہی مختلف معاملات پر خدشات اور تحفظات کو دور کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس وقت نظر آیا جب سندھ حکومت نے وفاقی محکمہ شماریات سے مردم شماری بلاکس کی تفصیلات، ڈیٹا فارم، سٹلائیٹ نقشے اور مردم شماری فارم آر ای این 2 مانگا۔ سندھ حکومت کو صوبے میں قیام پذیر غیر ملکیوں کا ڈیٹا بھی نہیں دیا گیا۔ مثبت جواب کے بجائے محکمہ شماریات کے ناصحین نے سندھ کو اداروں پر شک کرنے کا طعنہ دیا۔ اور اس کو وفاق پرستی کے بھاشن دیئے۔ اس کو تبیہ جیسے جملے بھی سننے پڑے۔ کہا گیا کہ اس طرح کے اعتراضات کے خراب نتائج نکلیں گے۔ کیا سندھ کو محکمہ شماریات سے محب وطنی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا؟ 
وطن عزیز کے حکمرانوں نے کبھی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ ہر مرتبہ ملک کے’’ چھوٹے صوبوں ‘‘کے ساتھ جو رویہ رکھتے آئے ہیں اسی رویے کی وجہ سے قیام پاکستان کے 24 سال کے بعد بنگالیوں نے راہیں جدا کر لی۔ 1971 سانے کے ذمہ دار یہی رویے تھے۔ وفاق کی مضبوطی کا انحصار صوبوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے اور انہیں اس مرضی پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرنے کی روش پر نہیں بلکہ صوبوں کو اعتماد لینے میں مضمر ہے۔ 
صوبوں اور وفاق کے درمیاں اعتماد کی رسی اس وقت کمزور ہو جاتی ہے جب عدم اعتماد اور بے اطمینانی جنم لیتی ہے۔ پانی کے جائز حصے کا معاملہ ہو، مالی وسائل کی درست تقسیم کا مطالبہ ہو، یا وفاق میں سندھ کے حصے کی ملازمتوں کی بات ہو، سندھ کے مطالبے اور اعتراضات کو حساب میں ہی نہیں لیا جاتا۔ ایسا ہی اہم معاملہ مردم شماری کا بھی ہے۔ مردم شماری کا عمل شروع ہونے سے پہلے سندھ حکومت نے طریقہ کار پر اعتراض کیا۔ اور مردم شماری کے فارم کی کاپی صوبائی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے ہو۔، اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔ سندھ حکومت کے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس نے اس اہم عمل کے نتائج کو مشکوک اور متنازع بنا دیا ہے۔ اگر کسی صوبے کو تحفظات اور اعتراضات ہیں، تو ان اعتراضات کو دور کرنے اور اس کے اطمینان کے لئے مطلوبہ ریکارڈ کیوں نہیں فراہم کیا جاتا۔ 
محکمہ شماریات کی جانب سے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار نے کئی شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ اور محکمہ نے خود کو مشکوک بنادیا ہے۔ صوبوں کے اطمینان کے لئے ریکارڈ فراہم نہ کر کے کون سی قومی خدمت کی گئی ہے؟ لاہور شہر کی شرح آبادی میگا سٹی کراچی کی شرح سے زیادہ دکھائی گئی ہے۔ ایسے میں شکوک پیدا ہونا منطقی امر تھا۔ اس حوالے سے سندھ کے خدشات دور کرنا اشد ضروری ہے۔ اگر کوئی دوسرا صوبہ مردم شماری کے نتائج پر اعتراض نہیں کرتا، تو کیا سندھ کو اس پر خاموش رہنا چاہئے؟ سندھ میں تارکین وطن کی تعداداہم قومی راز نہیں، جسے سندھ سے چھپایا جائے۔ 
سندھ کو مردم شماری کا ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار، دھمکی کا لہجہ دکھانا قابل افسوس امر ہے۔ سندھ حکومت کو یہ معاملہ مکمل تیاری اور سنجیدگی کے ساتھ مجاز فورم میں اٹھانا چاہئے۔ سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس نقطہ پر جمع ہونا پڑے گا۔ 



روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران سندھ کے حکمرانوں کی تعلیم کے شعبے میں کارکردگی کیسی رہی؟ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ سے عیاں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے پچاس فیصد اسکول پینے کے پانی اور باتھ روم کی سہولت سے محروم ہیں۔ دو سو ارب روپے کی بجٹ ہونے کے باوجود صوبے کے تعلیمی ادارے انتہائی زبون حالت میں ہیں۔ ان بھیانک زمینی حقائق کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے غریبوں کے بچوں کا مستقبل کسی طورپر ان کے ایجنڈا کا حصہ نہیں۔ شہر ہوں یا دیہی علاقے، سرکاری اسکولوں کا ماحول دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ اساتذہ کی ھاضری سے لیکر نصاب تک ، درجوں معاملات حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ 
دس برس پہلے کہا گیا تھا کہ سندھ میں پانچ ہزار سکول بند ہیں۔ لیکن آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے کتنے اسکول حکومت بحال کر سکی ہے؟ سرکاری اسکولوں کی زبون حالی کا یہ عالم ہے چلتے کلس کے دوران چھت کے ٹکڑے طلباء پر گر چکے ہیں۔ نتیجے میں متعدد بچے زخمی ہو چکے ہیں۔ رواں سال حکومت نے دو سو ارب روپے محکمہ تعلیم کے لئے مختص کئے ہیں، یہ رقم کون سی مد میں خرچ ہوگی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیسیف کی اس رپورٹ کے بعد سندھ حکومت عوام کے سامنے تفصیلی وضاحت پیش کرے۔ کیونکہ پچاس فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی اور باتھ روم کی سہولیات نہیں۔ 



Sindh Nama - Sindhi Press - Nai Baat Sep 30, 2017
Sohail Sangi

Sunday, September 24, 2017

سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟

Sindh Nama, Sindhi Press 
Sohail Sangi 

سندھ نامہ   سہیل سانگی 


سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟

روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ یہ ایک دو سال کا قصہ نہیں۔ گزشتہ دو تین عشروں سے نہ کاشتکاروں کو گنے کا صحیح دام مل رہا ہے اور نہ ہی حکومت سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ شکر فیکٹریز ایکٹ پر عمل درآمد کراتے ہوئے وقت پر شگر ملز میں گنے کی پسائی شروع کرنے کاپابند کر سکی ہے۔ گنے کی ہر سیزن میں کاشکاروں اور شگر مل مالکان کے درمیان دنگل ہوتا ہے ۔ اس تمام معاملے میں حکومت کا کردار تماشائی کی طرح رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے شگر مل مالکان کو ’’ بھئی ایسا نہ کریں‘‘ کہتے ہوئے منت سماجت کرتے سیزن گزر جاتا ہے۔ قانون کے تحت گنے کی قیمت کا تعین اور گنے کی پسائی اکتوبر کیاوائل میں شروع کرنے کا پابند کرناہے۔ لیکن ہر مرتبہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رھتی ہے۔ 


سندھ کا زرعی شعبہ کئی بحرانوں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار پر خراب اثرات پڑتے ہیں۔ سندھ کے کاشتکار کو پانی کی قلت سے نمٹنے کے لئے ٹیوب ویل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تیل اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے صوبے میں زرعی پیداور کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ یہ امر گنے کی فصل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ گنے کی فصل پر سندھ میں فی ایکڑ لاگت پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حکومت گنے کیی قیمت کم مقرر رکتی ہے باقی کسر مل مالکان پورے کر دیتے ہیں جو وقت پر ملیں چالو نہیں کرتے۔ اور کاشتکار دیر سے کٹائی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، دیر سے کٹائی شروع کرنے کی وجہ سے گنا خشک ہو جاتا ہے اور اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ دیر سے کٹائی شروع ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں کو گندم کے حصے کا پانی گنے کی فصل کو دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا کاشتکاروں کو دگنا نقصان ہوتا ہے۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ بعض کاشتکار اس دگنے نقصان سے بچنے کے لئے گندم کی فصل کو جلا دیتے ہیں، تاکہ وقت پر گندم کی بوائی کر سکیں۔ 


گزشتہ سال گنے کی سیزن میں حکومت نے گنے کی قیمت 182 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی تھی۔کاشتکاروں کا مطالبہ تھا کہ کم از کم قیمت 200 روپے کی جائے۔ عملا یہ ہوا کہ حکومت سرکاری طور پر مقررہ قیمت بھی کاشتکاروں کو نہیں دلا سکی۔ گنے کی پسائی اکتوبر کے اوائل میں شروع کرنی تھی لیکن حکومت نے نومبر کے وسط کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نیتجۃ گنے کی پسائی بمشکل دسمبر میں شروع ہو سکی۔اگرچہ حکومت اس معاملے میں تیسرا فریق ہے جس کا کام حکومت سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ شکر فیکٹریز ایکٹ سمیت مختلف قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ مگر شگر ملز کے معاملے میں وہ بچاری نظر آتی ہے۔

گنے کی پسائی کا نوٹیفکیشن دیر سے جاری کرتے ہے، اور اس پر عمل درآمد بھی نہیں کرا پاتی۔ حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مل مالکان کاشتکاروں کو سرکای قیمت ادا نہیں کرتے، دوسری طرف چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ حکومت اس اقدام پر بھی کوئی کارروائی نہیں کر پاتی۔ سندھ کی کاشتکار تنظیمیں تمام سیزن احتجاج کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت ان کے احتجاج کو حساب میں ہی لے آتی۔ اب سمتبر کا آخری ہفتہ ہے لیکن حکومت گنے کی قیمت مقرر کرنے اور شگر ملز قانون کے مطابق مقررہ وقت پر شروع کرنے سے متعلق فکرمند نظر نہیں آتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت ابھی سے اس مسئلے پر منصوبہ بندی کرے اور 15 اکتوبر سے گنے کی سیزن شروع کرنے اور سرماری قیمت کے تعین کے معاملات نمٹائے۔ تاکہ بحران پیدا نہ ہو جو کہ کاشتکاروں اور عام صارفین کو نقصان سے بچ سکیں۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں پینے کے پانی کی قلت اور خراب معیار کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ عدالت عظمیٰ نے ایک مستقل کمیشن قائم کردی۔ کمیشن میں سندھ حکومت کی جمع کرائی گئی رپورٹ سے واضح ہے کہ ہامرے حکمران عوام کے اس بنایدی مسئلے کو حل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ رواں سال اپریل سے کمیشن نے کام شروع کردیا، جس کی تاحال 13 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ جس کے دروان اس اہم انسانی معاملے کے مختلف پہلو سامنے آئے۔ متعلقہ افسران نے عدالت میں پیش ہو کر مختلف وعدے کئے۔لیکن ان میں کوئی وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔ بلکہ معاملہ مزید خراب ہوا۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ کراچی شہر کو فراہم کیا جانے والا 230 ملین گیلن پانی بغیر کلورین کے کیا جارہا ہے۔ اس پانی کو کلورائیز کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تاحال صورتحال وہی ہے۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران حکومت سندھ نے تمام یقین دہانیوں کے باوجود پینے کے پانی اور گندے پانی کی نکاسی کے ضمن میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ پانی کی فراہمی اور ناکسی کے منصوبے نامکمل پڑے ہیں۔ ہسپتالوں میں پینے کا پانی بہتر نہیں کیا گیا۔ پینے کے پانی کی صورتحال بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 16 مارچ کو گندے پانی کی نکاسی کے موثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں میں کمیشن کا سلسلہ عام ہے۔ لیکن احتساب کا عمل صفر ہے۔ قاسم آباد حیدرآباد کے نکاسی آب کے منصوبے پر ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود ناکام ہے لیکن اس کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سندھ انوائرمنٹل ایجنسی نامکمل ہے۔ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات کے بعد بھی سندھ کے ادارے اور افسران کام کرنے کے لئے تیار نہیں تو سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟ 

روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ گزشتہ پیر کے روز کراچی پریس کلب اور ریڈ زون کے آسپاس کے علاقے میدان جنگ بنے ہوئے تھے۔ جہاں ایک طرف خالی ہاتھ تنخواہوں کا مطالبہ کرنے والے اساتذہ اور سندھ ریزرو پولیس کے برطرف کئے گئے اہلکار تھے۔ دوسری طرف انتظامی اہلکار تھے جو ڈنڈوں، آنسو گیس، واٹر کین سے مسلح تھے۔ لاٹھی چارج ، واٹر لین کے استعمال کے بعد زخمی اساتذہ اور برطرف پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس لئے ان کو روکا گیا۔ اس طرح کے مناظر اس سے پہلے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دیگر مالزمین کے احتجاج کے مواقع پر دیکھنے کو ملے تھے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک سیاسی پارٹی کے کراکنوں نے اس طرح کیا تو ان کے خلاف انتظامیہ نے تشدد نہیں کیا۔ یہ انتظامیہ کا دہرا معیار کیوں؟ 

پیپلزپارٹی عوامی پارٹی ہونے کا دعوا کرتی ہے اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے۔ اس وقت حیرت کی حد نہیں رہتی جب اس پارٹی کی حکومت جب روزگار یا تنخواہوں کے لئے احتجاج کرنے والوں پر تشدد کرتی ہے ۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں دادو میں جلسہ عام میں کئی وعدے کر کے آئے ہیں۔ ہم بلاول بھٹو کو یاد دلاتے ہیں وہ ان اساتذہ اور برطرف کئے گئے پولیس اہلکاروں کے مسئلے پر بھی توجہ دیں۔ ان کو اس گناہ کی سزا مل رہی ہے جو انہوں نے نہیں کیا بلکہ بعض بااثر افراد نے کیا۔ 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sohail Sangi, Nai Baat Sep 23, 2017 
Daily Kawish, Sindh Express, Ibrat, Sindh Sugar industry, Suagrcane

Friday, September 15, 2017

اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

سندھ ہائی کورٹ نے بلآخر سندھ پولیس کے سرارہ اے ڈی خواجہ کو تمام اختیارات سمیت بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ گزشتہ چند ماہ سے حکومت سندھ اور اے ڈی خواجہ کے درمیان انتظامی و عدالتی جنگ چل رہی تھی۔ صوبائی حکومت ان کا تبادلہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن سول سوسائٹی کے بعض افراد نے حکومت کے اس حکمنامہ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے ان کا تبادلہ روک دیا۔ اس عدالتی حکم کے بعد حکومت نے رولز آف بزنیس میں ترامیم لا کر اختیارات وزیرداخلہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے ہاتھ میں دے دیئے۔ صوبے بھر میں عمومی اور دارلحکومت کراچی میں خصوصی طور امن وامان کی صورتحال خراب ہے، اور صوبائی حکومت کی مدد کے لئے رینجرز کو طلب کیا ہوا ہے، وہاں حکومت اور صوبائی پولیس سربراہ کے درمیان تنازع سے عام آدمی بری طرح سے متاثر ہو رہا تھا۔ یہ تنازع مسلسل اخبارات میں موضوع بحث رہا۔ اور حکومت پر تنقید ہوتی رہی۔ 


وفاقی محکمہ شماریات نے جب مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا تو سندھ بھر میں حکومت خواہ قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ لہٰذا صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف جو بیانیہ چل رہا تھا اس میں تبدیلی آئی، اور سیاسی لڑائی کا رخ وفاق کی طرف ہوگیا۔ اسی اثناء میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بینظیر بھٹو مقدمہ قتل کا فیصلہ سنا دیا، جس میں پانچ ملزمان کو بری کردیا جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے ۔ دو پولیس افسران کو قید اور جرمانہ کی سزائیں سنائی گئی۔ پرویز مشرف کو بھگوڑا قرار دیا گیا۔ یہ تین مضوعات سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہے۔ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے فیصلے پر سندھ کے تمام حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا اور اس کی ذمہ داری استغاثہ کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی پر بھی ڈالی کہ وہ اپنے دور حکومت میں اس مقدمے کی صحیح طور پر پیروی نہیں کر سکی۔ اور مقدمے کے اہم ملزم ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے عہدے سے ہٹانے کے بعد اہتمام کے ساتھ بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کی وجہ سے پیپلزپارٹی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی اور اس کو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کا علان کرنا پڑا۔ 



چوتھا اہم معاملہ ایم کیو ایم پاکستان کے سندھ اسمبلی میں رہنما اظہار الحسن پر عید کے روز قاتلانہ حملے میں کراچی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم کے ملوث ہونے کے بعد سامنے آیا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے معاملے کو کچھ اس طرح اٹھایا کہ صوبے کی جامعات میں دہشتگرد پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یونیورسٹی طلباء کی سیکورٹی آڈٹ کا اعلان کردیا۔ کراچی یونیورسٹی نے بھی اسی طرح کی پالیسی کا منصوبہ بنایا۔ 



’’اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟‘‘کے عنوان سے روز نامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والی رکن سندھ اسیمبلی پر عید کے روز قاتلانہ حملے نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ پہلا شبہ لندن سے دھمکیاں بھیجنے ولاوں پر کیا گیا۔ لیکن سندھ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے دوران شبہ بعض دیگر عناصر پر کیا گیا۔ سندھ پولیس کے مطابق حملہ آور کا تعلق انصار ال شریعہ اپکستان سے ہے۔ جو کہ کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کے طالب علم رہے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر ملک کے تعلیمی اداروں سے انتہا پسند ذہن پیدا کرنے کا سوال سامنے آیا ہے۔ اس حملہ کو صرف ایک واقعہ کے طور پر نہیں لینا چاہئے ، بلکہ اس انداز سے بھی لینا چاہئے کہ آئے دن اعلیٰ تعلیمی ادروں سے تعلیم یافتہ نوجوان دہشتگردی میں ملوث نکل رہے ہیں۔ اس کے کیا اسباب ہیں؟ 



سنیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے طلباء کا ریکارڈ خفیہ اداروں سے آڈٹ کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کو خط لکھا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یونیورسٹیز میں طلباء یونین بحال کرنے اور وہاں ادبی اور دوسری غیر تدریسی سرگرمیاں بڑھانے سے صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔ 

انتہا پسندی اور تشدد کی سونامی نے صرف مدار کو ہی نہیں بلکہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دہشتگرد کارروئیوں میں ملوث گرفتار بعض ملزمان کا جامعات کے طلباء اور ملازمین کے طور رپ شناخت ہوئی ہے۔ 


انتہا پسندی کا زہر معاشرے کے پورے جسم میں سرایے کر گیا ہے۔ کراچی کی یونیورسٹیں ہوں یا جامشورو اور خیرپور کی یونورسٹیاں، وہاں انتہا پسندی کے پاؤں کے نشان ملتے ہیں۔ قلندر لال شہباز کی درگاہ پر حمہ آور کا تعلق بھی ایک یونیورسٹی سے تھا۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری لاہور تک جا پہنچی تھی۔ ان عناصر کی نگرانی کرنا ان اداروں کی ہے جو ریاست کی آنکھیں اور کان تصور کئے جاتے ہیں۔ یا ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ہے؟ تعلیمی ادارے طلباء، والدین اور انتظامیہ کے ربط سے چلتے ہیں۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلباء کی تعلیمی پروگریس رپورٹ سمیت ان کی تمام سرگرمیوں سے متعلق والدین کو آگاہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں سے بری الذمہ سمجھا جائے۔نصاب میں تبدیلی لانے سے متعلق سنیٹ چیئرمیں کیاس تجویز کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ اصل سوال طلباء کی سوچ اور فکر تبدیل کرکے اسکو مثبت بنانا ہے۔ لیکن یہ کام سائنسی انداز سے کیا جانا چاہئے۔ 



روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ ھکومت نے مردم شماری کا معالہ بین الصوبائی کمیٹی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اپنا جو کیس تیار کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز کی سطح پر گڑ بڑ ہوئی ہے۔ محکمہ شماریات کے ڈیٹا نٹری آپریٹرز کا تعلق ایک خاص صوبے سے ہے۔ سندھ کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز اور دیگر ملازمین کے ذریعے من پسند نتائج تیار کئے گئے ہوں۔ 



سندھ حکومت کا یہ موقف بھی ہے جن خاندانوں اور افراد کو شمار کیا گیا، ان کو اپنے ڈٰٹا کے بارے میں لاعلم رکھنا عالمی اصولوں اور حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ محکمہ شماریات جعلی ڈٰیٹا کے حوالے سے سندھ حکومت کے تحفظات دور نہیں کر سکی ہے۔ سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ مردم شماری کے عمل میں بعض فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن کو بھی بطور پاکستانی شمار کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ نہایت ہی اہم ہیں۔ ان نکات کا تدارک ہونا اور صوبائی حکومت کے تحفظات دور رکنا ازحد ضروری ہو گیا کیونکہ مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ شماریات اور وفاقی حکومت اس کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے سنجیدگی سے لے گی۔


Sindh Nama,  Sohail Sangi 
Nai Baat Sep 9, 2017 

برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے مطالبے پر برہمی سندھ نامہ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے مطالبے پر برہمی


سندھ نامہ   سہیل سانگی

’’بنگالیوں کے بعد اب برمیوں کے لئے بھی شناختی کارڈ ‘‘کے عنوان سے ’’روز نامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ کراچی سیاسی حالات تبدیل ہوتے ہی پیپلزپارٹی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے کوشش اس حد تک بڑھا دی ہیں کہ اب اسکو سندھ کے مفادات ہی نظر نہیں آتے۔ پہلے صوبائی سنیئر وزیر نثار کھوڑو نے برمیوں کو پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب سنیٹ میں سندھ سے منتخب پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ برما (میانمار) کے مسلمانوں پر مظالم پر ہم چیخ پکار کر رہے ہیں۔ لیکن جو برمی پاکستان میں موجود ہیں ان کو حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ بنائے جائیں۔
ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ مختلف مواقع پر اٹھنے والے مسائل کو اپنے ووٹ بینک بڑھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ سندھ کے مفادات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔

کچھ عرصہ پہلے کورنگی میں ایک جلسہ عام میں بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا گیا وہان یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں بیس لاکھ بنگالی موجود ہیں۔ اب پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب نے سنیٹ میں بتیا ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ برمی آباد ہیں ۔ جہاں تک کراچی اور ملک میں برمیوں کی تعداد کا تعلق ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کے علاوہ کہیں بھی برمی آباد نہیں۔ سندھ حکومت نے بنگالیوں کو نہ صرف شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، بلکہ ترقیاتی منصوبوں، ملازمتوں میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف مسائل حل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے تو ان کو بھی برابری کی بنیاد پر سہولیات دی جائیں گی۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برمیوں، بہاریوں، بنگالیوں اور افغانیوں سمیت دوسرے ممالک کے تارکین وطن غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ ان میں سے بعض کو سیاسی پناہ کی چھتری مہیا کی گئی ہے۔ ان کی آبادکاری میں سہولتاری بھی کی گئی ہے۔ اور انہیں پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی بنا کر دیا گیا ہے۔
اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں دیکھتے دیکھتے کراچی کی ڈیموگرافی تبدیل ہوگئی۔ شہر میں ہزارہا کچی بستیاں وجود میں آگئی۔ کیا پیپلزپارٹی ان غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کر رہی ہے؟ پہلے بنگالیوں کے ووٹوں کے لئے اب برمیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی طاقت کا مرکز سندھ ہے۔ لہٰذا اسکو سندھ کے مفادات زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ سب پر باہر کی آبادی کا پہلے ہی دباؤ بہت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ باہر کے لوگ جنہیں غیر کہا جاسکتا ہے ، سندھ کے وسائل پر بوجھ ہیں۔

ہونا یہ چاہئے تھا کہ سندھ پر سے اضافی بوجھ کم کرنے کے لئے غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن کو نکالا جاتا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے انہیں قانونی شہری بنانے کے لئے سندھ کے مفادات کی دعویدار پارٹی کوشاں ہے۔ ظاہر کہ کسی پارٹی کے سنیٹر کا سنیٹ میں بیان اس پارٹی کا سیاسی موقف ہی سمجھا جائے گا۔ شناختی کارڈ کا حصول کا مطلب شہریت کا حصول ہے۔ کیا غیر قانونی طور پر مقیم کسی شخص کو وہاں کا قانونی شہری تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ دنیا کے دستور سے ہمارے سیاست دانوں کا تدبر اتنا وکھری ٹائپ اور مختلف کیوں ہے؟ ان غیروں کو نکالنے کے بجائے انہٰن شہریت دے کر کون سی سندھ کی خدمت کی جارہی ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو شہریت دینے سے آبادی کا تناسب تبدیل ہوگا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس سلسلے سے منتخب ایواں میں سندھ کے لوگوں کی نمائندگی پر کیا اثرات پڑیں گے؟

پیپلزپارٹی کے سنیٹر نے جو مطالبہ کیا ہے وہ کسی بھی طور پر سندھ کا مطالبہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس اساتذہ پر تشدد کے بجائے ان کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہم سندھ میں تعلیم کی تباہی پر روز رونا دھونا کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے اساتذہ کو ذمہ دار ٹہراتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلیم کی تباہی کا ایک پہلو ہے۔ اس سے ہٹ کر انتظامی حوالے سے کئی امور ہیں جن کی وجہ سے صوبے میں تعلیم کی کشتی ڈولتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز پیر مظہر الحق کے دور وزارت میں بھرتی اساتذہ نے تنخواہیں نہ ملنے اور برطرفیوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔ جس پر پولیس نے تشدد کیا نتیجے میں دو اساتذہ زخمی ہوگئے۔ اس احتجاج میں خواتین اساتذہ بھی شامل تھیں، انہیں بھی پولیس تشدد کے دوران نہیں بخشا گیا۔ پیپلزپارٹی کے حالیہ دور حکومت کے دوران پہلے بھی اساتذہ احتجاج کرتے رہے ہیں۔ جن پر اسی انداز تشدد کیا جاتا رہا ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں تدریس کے پیغمبری پیشے سے وابستہ اساتذہ کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔

ماضی میں جو بھرتیاں ہوئی، جنہیں موجودہ حکومت تسلیم نہیں کرتی اس کے لئے یہ اساتذہ ذمہ دار نہیں۔ اس دور کے اعلیٰ عدیداران اور افسران ہیں۔ انہی سے پوچھ گچھ کی جانی چاہئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں محکمہ تعلیم سمیت مختلف محکموں میں جس طرح سے میرٹ کو ایک طرف رکھ کر بھرتیاں کی گئیں اس نے تمام محکموں کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ آج بھی صوبے میں اساتذہ کیہزارہا اسامیاں خالی ہیں۔ جنہیں پر کرنے کے لئے حکومت اعلان بھی کر چکی ہے۔ ان اساتذہ کو ان خالی اسامیوں پر بحال کرکے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے اساتذہ کوگزشتہ تین چار سال سے تنخواہیں ادا کی جاتی رہی۔ اب اچانک حکومت نے یہ اقدام کیا ہے۔
حکومت وزراء اور دیگر بااثر اراکین اسمبلی کے کہنے پر ترقرر نامے جاری کرتی رہی۔ اس دوران بھرتیوں کے آرڈر فروخت بھی ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ پر تشدد ایک بدترین عمل ہے۔ حکومت پرامن احتجاج کرنے والے اساتذہ کے مطالبات سن سکتی تھی۔ اس کے حل کے لئے کوئی راستہ نکال سکتی تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ ان اساتذہ کو سنا جائے اور ان کے مسائل حل کئے جائیں۔

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تھر کول کے بلاک ون میں کوئلہ نکالنے کا پچاس فیصد کام مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وہ تھر کول منصوبے کو آگے بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر وفاق اس میں دلچسپی لیتا تو ابھی ہم اس منصوبے سے دس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر رہے ہوتے۔ انہوں کہا کہ وفاق کے اس امتیازی سلوک کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے تھر کول منصوبے کے منافع میں تین فیصد متاثرہ افراد کو ادا کرنے ، دو فیصد تھر کی ترقی کے لئے تھر فاؤنڈیشن کو دینے اور گوڑانو ڈیم کے متاثرین کے لئے تیس سال تک پیکیج دینے بھی اعلان کیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے وفاق کے رویے کے بارے میں جو شکوہ کیا ہے وہ صحیح لگتا ہے۔ وفاق بتائے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے اس شکایت کی وجہ اور پس منظر کیا ہے اور اس شکایت کا فوری ازالہ کیا جانا چاہئے۔

Nai Baat Sep 16, 2017
Sindh Nama - Sindhi Press by Sohail Sangi