Friday, December 4, 2015

احسن اقبال کی تحقیقی رپورٹ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
  
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہونے والی دہشتگردی ابھی بھی موجود ہیں۔ ٹریفک اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ا کے بعد رینجرز کے اہلکاروں پر حملہ کیا گیا۔ اب ملٹری پولیس کے دو اہلکاروں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتحال میں جب عوام کے محافظ ہی محفوظ نہیں یقیننا عوام خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ سندھ کے خبارات نے اس موضوع پر اداریے لکھے ہیں۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بروز جمع قومی اسمبلی میں ملک کے تمام اضلاع کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں تھرپارکر تعلیم، صحت، روزگار اور ترقی کی سہولیات سے خالی اضلاع میں سے سر فہرست ہے ۔ جہاں تعلیم کی شرح 47.31 اور صحت کی سہولیات کی شرگ 37.77 بتائی گئی ہے ۔ جبکہ زندگی کی تمام سہولیات سے محروم اضلع میں ٹھٹہ دوسرے نمبر پر ہے ۔ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد اور کراچی دو ایسے اضلاع ہیں جو سندھ کے باقی اضلاع سے زیادہ سہولیات رکھتے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سندھ حکومت کی سات سالہ کارکردگی کا عکس جھلکتا ہے ۔ 
ممکن ہے کہ حکومت ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس رپورٹ کے حقائق سے انکار کرے جس کی مثال غذائی قلت کے باعث تھر میں فوت ہونے والے سینکڑوں بچے ہیں ۔ تھر کے بارے میں حکومت کا موقف یہ تھا کہ ان بچوں کی اموات کی وجہ غیر تربیت دایوں کے ہاتھوں زچگی ہے۔ باقی تھر میں نہ قحط ہے اور نہ ہی غذائیت کی قلت۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اس رپورٹ کو بھی سندھ حکومت کے خلاف سازش قرار دے دیا جائے۔ لیکن حقائق کو طویل عرصے تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ پزاروں کی تعداد میں بند اسکول، صحت کی سہولیات کی کمی، بیروزگاری کی وجہ سے روز رپورٹ ہونے والے خود کشی کے واقعات سندھ میں ترقیکی قلعی کھول دیتے ہیں۔ 
سندھ کو سماجی اور معاشی حوالے سے جتنا نقصان موجودہ دور حکومت میں پہنچا ہے اتنا ضیا دور میں بھی نہیں پنچا ہوگا۔ بربادی کی جو بنیادیں ضیا دور میں ڈالی گئی۔ موجودہ دور میں وہ بڑھ کر اپنی انتہا کو ہنچ چکی ہیں۔ روت، کرپشن، اقربا پروری، میرٹ کو کچلنا جس حد تک موجودہ دور میں ہوئی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عزت اور اقدار کی رکھوالی رکنے والوں نے سماج کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ لوگ عصمتوں کی نیلامی پر مجبور ہیں۔ اپنی اوالد کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سربازار آوازیں لگا کر بیچنے پر مجبور ہیں۔ 

 جس زراعت پر سندھ کو ناز تھا اسی زراعت کو ہاتھوں سے تباہ کیا گیا ہے۔ گنے اور دھان کے کاشتکار سرپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ انہیں وقت پت نہ مطلوبہ پانی مہیا کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی فصلوں کی قیمت مقرر کر کے خریداری کی جاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے نہ صرف زراعت سے وابستہ لوگ بلکہ مجموعی طور پر سماج پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ 

بلاشبہ سندھ کے لوگوں کو پیپلزپارٹی سے گزشتہ 42 سال سے بے پناہ محبت رہی ہے۔ اور انہوں نے اس کا اظہار ہمیشہ ووٹ دے کر کیا ہے۔ لیکن اس کے بدلے سندھ کے لوگوں کو سوائے نراسئی کے کچھ بھی نہیں ملا ہے ۔اگر پیپلزپارٹی کے ذمہ داران کو سندھ کے لوگوں کے ساتھ ذرا بھی محبت ہوتی تو گزشتہ پانچ سال اور حالیہ ڈھائی سال کا عرصہ سندھ کی ترقی کے لئے کافی تھا۔ اگر بہت زیادہ نہیں ہوتا تو بھی مذکورہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی اور لگائے گئے الزامات سے بچا جاسکتا تھا۔ 
موجودہ حکمرانوں سے سندھ کے عوام نے کبھی بھی نہ دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کی امید رکھی ہے۔ اور نہ ہی بلٹ ٹرین اور فوکر چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے تو صرف صحت، تعلیم اور مناسب روزگار کی آس لگائی تھی۔ حادثات سے محفوظ سڑکیں، امن امان کی زندگی کی توقع رکھی تھی ۔

سندھ حکومت کو مذکورہ بالا رپورٹ کی روشنی میں سندھ کے لوگوں کی محبت کا حق ادا کرنا چاہئے۔ 

روزنامہ کاوش نے واپڈا کی بڑٰ مچھلیاں کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ مملکتی وزیر بجلی و پانی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ سکھر اور حیدرآباد میں رکوری زیرو ہے ۔ سیپکو اور حیسکو میں رینجرز کی مدد سے 80 کروڑ روپے کی بجی کی چوری روک دی گئی ہے۔ وفقی وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ واپڈا کی چار ارب روپے کی ڈفالٹر ہے۔
سندھ میں سب سے زیادہ چوری ہوتی ہے اور بڑی مچھلیوں میں ہاتھ ڈالنے کے لئے انہوں نے وزیراعظم سے بات کر لی ہے ۔ ملک توانائی کے بحران کا مقابل کر رہا ہے وہاں اور بھی کئی بحران ہیں۔ یہ ملک لوڈ شیڈنگ کا لوڈ بھی برداشت کرتا ہے ۔ماضی قریب میں بجلی کی قلت دور کرنے کے بہت ڈھول بجائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بحران ڈھول بجانے سے دور ہونے والا نہیں۔ مطلب یہ کہ بجلی پر بھی سیاست ہوتی رہی ہے ۔ 
اگرچہ ملک میں بجلی کے بحران کا مستقل حل تھر کا کوئلہ موجودہے۔ دیگر بھی کئی وسائل اور حل موجود ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ ان وسائل اور ذرائع کی طرف نہیں جاتی۔ تمام زور تیل سے بجلی پیدا کرنے پر دیا جاتا ہے۔ مطلب وسائل ہوتے ہوئے بھی ان وسائل اور ان کے استعمال پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجے میں لوڈ شیڈنگ ہے جس نے صنعتوں کی تباہی سمیت کئی مسائل کو جنم دیا ہے ۔ وفاقی وزیر کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بجلی کی چوری ہوتی ہے۔ لیکن وزیر موصوف یہ بھی تو پتہ لگائیں کہ یہ چوری کس طرح سے ممکن بنادی جاتی ہے؟ کہیں کنڈے لگتے ہیں، کہیں میٹر کی رفتار سست کر دی جاتی ہے۔ اگر وزیر موصوف ان چیزوں پر توجہ دیں تو اس کے بھی بہت مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ غریب عوام صرف لوڈ شیڈنگ ہی برداشت نہیں کرتا وہ غلط اور اضافی بلوں کا لوڈ بھی برداشت کرتا ہے۔ 
وفاقی وزیر کو ان کالی بھیڑوں کا بھی کچھ کرنا چاہئے، جس کے نیتجے میں صارفین اضافی لوڈ برداشت کرتے ہیں۔

 روزنامہ سندھ ایکسپریس نے گنے اور دھان کی قیمتوں اور کاشتکار کی حالت پر اداریہ لکھا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ صوبے میں 38 شگر ملوں میں سے صرف 29 ملیں چل رہی ہیں اور کاشتکاروں کو وہی پرانا ریٹ مل رہا ہے ۔ اس قیمت سے کاشتکاروں اور کسانوں کو ٹکہ بھی نہیں بچتا کیونکہ یہ تمام رقم فصل کی لاگت میں چلی جاتی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تمام معاملے میں صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی
 ہوئی ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ کوئی امید نظر نہیں آتی کہ سندھ کے کاشتکاروں کے ساتھ انصاف ہو سکے گا۔ 
 نئی بات کی پانچ دسمبر ۵۱۰۲ کی اشاعت کے لئے