Friday, February 15, 2019

نئی تعلیمی پالیسی پر مشاورت



نئی تعلیمی پالیسی پر مشاورت

سندھ نامہ سہیل سانگی 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں نئی تعلیمی پالیسی پر مشاورت جاری ہے۔ گزشتہ ماہ حیدرآباد میں منعقدہ ورکشاپ کے بعد کراچی میں بھی ایک ورکشاپ منعقد ہوا جس میں انہی تجاویز کو دہرایا گیا۔ تعلیمی پالیسی مرتب کے لئے دی گئی تجاویز کے اہم نکات یہ تھے۔ اسکولوں میں پینے کے پانی اور واش رومز کی سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کی بھرتی کے لئے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی شرط نہ کرنا۔نصاب کو جدید بنانا، تاریخ سے متعلق مواد میں جعلی ہیروز کا مواد نکال کر اس دھرتی کے اصل ہیروز اور خواتین سے متعلق مواد شامل کرنا۔ ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اچھا گریجوئیٹ اگر بی ایڈ یا ایم ایڈ نہیں پاس نہیں ہوتا وہ ٹیچر کی اسامی کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اساتذہ کی بھرتی کے لئے ایم ایڈ اور بی ایڈ کی شرط ختم کی جارہی ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال یونیورسٹی میں کوئی بھی شخص پچاس ہزار روپے فیس ادا کر کے یہ ڈگریاں لیکر آجاتا ہے۔ اس موقع پر وزیرتعلیم سید سردار علی شاہ نے واضح کیا کہ قانون پر عمل نہ کرنے والے اسکولوں کی رجسٹریشن ختم کردی جائے گی۔ 
دنیا کے ممالک میں جو معیار تعلیم ہے ہم اس سے دو صدی پیچھے ہیں۔ ہم آج بھی انیسویں صدی کے معایر تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اساتذہ کی مہارت، تعلیم دینے میں سنجیدگی اور خلوص کا موازنہ کیا جائے تو ایک بڑی پستی کا پتہ چلتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی معیار کے بجائے اگر ملک کے دوسرے صوبوں کی تعلیم سے بھی موازنہ کیا جائے تو بھی ہم یں ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ صوبے میں موجود نجی اسکولوں سے سرکاری اسکولوں کے معیار کاموازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نجی اسکولوں کا معیار ارفع اور اعلیٰ ہے۔ اصل قصہ سرکاری شعبے کے اسکولوں کی پستی کا ہے۔ بلاشبہ بہتر تعلیمی پالیسی سے تعلیمی بہتری ممکن ہے۔ معیاری تعلیم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انفرا اسٹرکچر بھی بہتر ہو۔ اسکولوں کی عمارات بہتر ہوں، وہاں بجلی، پانی، واش روم، اور چودیواری سمیت سہولیات موجود ہوں۔ تاکہ بچے پرسکون اور آرام دہ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ 
یہ بھی درست ہے کہ تعلیمی نصاب کی حالت ابتر ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آخر بچے کو کیوں کر پڑھایا جائے؟ نصاب جدید تقاضوں کے مطابق ہو،نا چاہئے۔نصاب کے حوالے سے بعض عالمی ضروریات اور تقاضے ہیں اور دوسرے مقامی۔ یعنی نصاب کو تہذیب اور ثقافت سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ یہ نصاب یہاں کی تاریخ کا عکس ہو۔ اس میں مزاج اور نفسیات کا خیال رکھا جائے۔ دوسرا مسئلہ یہ نصاب پڑھانا اور اس میں موجود علم منتقل کرنے کا ہے۔ یہ نصاب پڑھانے کے لئے جدید تربیت یافتہ اساتذہ کا ہونا لازمی ہے۔ کم از کم وہ تعلیم کی پروفیشنل ڈگری (بی ایڈ ایم ایڈ) رکھنے والے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نچلی کلاسوں میں پروفیشنل ڈگری ضروری ہے۔ اس سطح پر بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور اس کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تو بھڑیں پالنے کے لئے بھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اسپیشلائیزیشن کا دور ہے۔ کیا گاڑی چلانے کے لئے ڈرائیونگ لائسنس ضروری نہیں؟ اگر کوئی بغیر تربیت کے بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ کرے گا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا پائلٹ کو بغیر تربیت کے جہاز اڑانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ 
جہاں تک نجی اسکولوں کی رجسٹریشن ختم کرنے کا معاملہ ہے ، اس موضوع پر وزیر تعلیم اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ لب کشائی کر چکے ہیں۔ کیا یہ بتانے کی زحمت کی جائے گی کہ سندھی مضمون نہ پڑھانے والے ، سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل نہ کرنے والے کتنے بڑے اسکولوں کی رجسٹریشن ختم کی گئی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ نئی تعلیمی پالیسی لازمی طور پر مرتب کی جائے، اس مقصد کے لئے ماہرین اور حاضر سروس ٹیچرز سے بھی مشاورت کی جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’بدین کے کاشتکاروں کا معاشی قتل‘‘ کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ ایک سال سے سندھ میں پانی کی قلت کی شدید شکایات بڑھ گئی ہیں۔ اس قلت کا اثر سندھ کے زرعت پر مجموعی طور پر اور مختلف علاقوں کے کاشتکاروں کی معاشی حالت پرخصوصی طور پر پڑرہا ہے۔ قلت کے شکار علاقوں میں معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ شاخوں میں پانی نہ آنے کی وجہ سے زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ اگر صرف صوبے کے ضلع بدین کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں پر کیا صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ ایک عرصے سے پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے فصلوں کی کاشت نہیں ہو سکی ہے۔بدین کے کاشکار ایک عرصے سے پانی کی قلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔ جب چوہدری افتخارمحمد چیف جسٹس تھے، بدین کے کاشتکار احتجاج ریکارڈ کرانے اسلام آباد بھی گئے تھے۔ لیکن انہیں صرف کئی یقین دہانیاں ہی ملی، پانی نہیں مل سکا۔ گزشتہ روز کی رپورت کے مطابق امام واہ میں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس کینال میں دس ماہ سے جاری قلت کے خلاف احتجاج کاشتکار اور دیگر رہائشیوں نے گزشتہ روز احتجاج کیا۔ مظارہین کا کہنا ہے کہ دس ماہ سے پانی نہ پہنچنے کے بعد علاقے میں قحط کی صورتحال ہے۔ پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے مویشی پیاسے مر رہے ہیں۔ زراعت مکمل طور پر تباہ ہے۔ لوگ پچاس روپے گیلن کے حساب سے پانی خرید کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کینال میں صرف دو ماہ کے لئے پانی دیا جاتا ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ آبپاشی عملہ صرف بااثر اور پیسے ادا کرنے والوں کو پانی مہیا کرتا ہے۔ مسلسل قحط کا شکار کاشتکاروں کے پاس اب پیسے بھی نہیں رہے کہ وہ آبپاشی عملے کو دے کر انی خرید کر سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں بدین کے کاشتکاروں کا یہ مطالبہ جائز ہے۔ اس ضمن میں محکمہ آبپاشی اور حکومت کے دیگر اداروں کو فوری اقدامات کرنے چاہیءں۔ 
آئل ریفائنری سندھ میں قائم کی جائے کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ پاکستان میں ایشیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سعودی تعاون سے بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر کے پاس قائم ہونے والی یہ ریفائنری دنیا کی تیسری اور ایشیا کی سب سے بڑی ریفائنری ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اس ریفائنری پر پندرہ ارب روپے کی لاگت آئے کی۔ اور اس سرمایہ کاری کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ سندھ میں بدین، سانگھڑ، جامشورو، گھوٹکی، شہدادکوٹ کے پاس تیل کے ذخائر ملے ہیں۔ جہاں سے کئی بیرل تیل روزانہ نکالا جارہا ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں تیل ملک کے کسی صوبے سے نہیں نکالا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود آئل ریفائنری سندھ سے باہر لگائی جارہی ہے۔ وفاقی خواہ صوبائی حکومت کو اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ جہاں سے تیل نکل رہا ہے وہیں ریفائنری قائم ہونی چاہئے۔

https://www.naibaat.pk/15-Feb-2019/21056


Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

مالیاتی ایوارڈ پر سندھ کی رائے عامہ


مالیاتی ایوارڈ پر سندھ کی رائے عامہ
سندھ نامہ سہیل سانگی
قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس اور اس میں پیش کی گئی تجاویز سندھ کے اخبارات کا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ اجلاس سے قبل بھی اخبارات میں اس موضوع پر اداریے، ، کالم اور تجزیے شایع ہوتے رہے۔ سندھ کے اخبارات نے مالی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے حکومت سندھ کے موقف کی حمایت کی ہے۔ مجموعی طور پر سندھ کی رائے عامہ یہ ہے کہ کسی طور پر بھی صوبوں کا حصہ کم نہ کیا جائے۔ اور یہ کہ مالی وسائل کی بین الصوبائی تقسیم میں صرف آبادی کا بنیاد نہ بنایا جائے۔روزنامہ عبرت ’’قومی مالیاتی ایوارڈ اورسندھ کا موقف‘‘ کے عنوان سے ادایے میں لکھتا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں صوبوں نے ایف بی آر کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ کا یہ موقف کہ فاٹا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اس کا حصہ صبوں کے بجائے وفاق کے حصے میں سے دیا جائے۔ سندھ کا یہ موقف ہے کہ ٹیکس کی کم وصولی کی وجہ سے صوبوں کو حصے سے کم رقم ادا کی گئی۔رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں سندھ کو ساٹھ ارب روپے کم ادا کئے گئے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال بھی اس صوبے کو 104 ارب روپے کم ملے۔ سندھ حکومت نے یہ دونوں بقایاجات ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ بعض ٹیکسوں کی وصولی صوبے بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ صوبائی ٹیکسوں میں کی وصولی میں 26فیصد اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا سیلز ٹیکس اور بعض دیگر ٹیکسوں کی وصولی کا کام صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیا مالیاتی ایوارڈ نئی مردم شماری پر دینے کا معاملہ تب دیکھیں گے جب مردمشماری کا معاملہ حتمی طور پر طے ہوگا۔نتیجۃ چھوٹے صوبوے معاشی خواہ سماجی طور پر پسماندہ رہے۔ قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس کی سب سے مستحسن بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اٹھارویں ترمیم کو تسلیم کیا ہے۔یہ امر اس کئے بھی اہم ہے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے یہ کہا جارہا تھا کہ حکومت اس ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیرخزانہ نے واضح طور پر بتایا کہ اس ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ۔اس بحث کی وجہ سے صوبوں کے درمیاں فاصلے بڑھ رہے تھے۔ اس وضاحت کے بعدصورتحال میں بہتری آنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاق کو چاہئے کہ وہ صوبوں کے مشوروں کو بھی خاطر میں لے آئے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیاں مالی وسائل کی تقسیم کے سوال پر ایک عرصے سے کشمکش جاری ہے۔ خاص طور پر چھوٹے صوبوں کو شکایت رہی ہے کہ انہیں جائز حصہ نہیں مل رہا ۔ لیکن وفاق کی جانب سے ان کی شکایات کو بہت کم خاطر میں لایا گیا ۔
قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں سندھ کا کیس بھرپور طریقے سے رکھنے پر وزیراعلیٰ سندھ ؂ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ میں خراب حکمرانییا کرپشن کے معاملات اپنی جگہ پر ہیں لیکن صوبے کی صورتحال خراب ہونے میں مالی وسائل کی کم دستیابی بھی ایک بڑی وجہ بنی رہی ہے۔ مالی وسائل کم ملنے کے اثرات ترقیاتی منصوبوں پر بھی پڑتے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کو اس کا حصہ ملنے کی امید پر بعض منصوبے شروع کئے گئے تھے۔ لیکن یہ رقم نہ ملنے کی وجہ سے منصوبے ادھورے رہ گئے ہیں۔سندھ میں مسلسل تیسری مرتبہ پیپلزپارٹی کی حکمرانی رہی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت کے مقابلے میں سندھ کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی ہے۔ دراصل پیپلزپارٹی کے لئے یہ چیلینج تھا کہ وہ سندھ میں اپنی اچھی کارکردگی کو ثابت کرے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ صوبے کو مالی وسائل میں جائز حصہ ملنے کے بعد پیپلزپارٹی اپنی کارکردگی بہتر بنائے گی۔
روزنامہ کاوش اور سندھ ایکسپریس نے سندھ میں مجوزہ بھرتیوں پر ادایے لکھے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سندھ حکومت اگر ہزارہا نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے جارہی ہے ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی حکومت کی جانب سے ملازمتیں دینے کا تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا، محکمہ تعلیم میں بغیر میرٹ کے ملازمتیں دی گئیں۔ یہ بھرتیاں بغیر میرٹ کے اور پیسوں کے عوض ہوئیں۔بعض جعلی تقررنامے بھی جاری کئے گئے۔ حالیہ اعلان کردہ بھرتیاں میرٹ پر دینا لازمی ہو گا ہے۔ کیونکہ مختلف اداروں میں اہل افراد کی اشد ضرورت ہے۔ جب نااہل لوگ ادارے میں بھرتی ہو جاتے ہیں ، تو یہ لوگ نہ صرف اداروں پر بوجھ ہوتے ہیں بلکہ ادارے صحیح طور پر چل بھی نہیں پاتے ہیں۔ دوسری طرف میرٹ نظرانداز کرنے کی وجہ سے ذہین اور میرٹ رکھنے والے نوجوانوں میں مایوسی پھیل جاتی ہے۔ اس کے مجموعی طور پر تعلیم اور سماجی صورتحال پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ معاشرے کے تمام حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ بھرتیوں کو شفاف رکھا جائے ۔ سندھ کابینہ کی کمیٹی نے گریڈ چھ سے پندرہ تک ملازمتوں کی بھرتی غیرجانبدار ٹیسٹنگ ادارے کے ذریعے کرنے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ان گریڈوں پر بھرتی کے لئے آئی بی اے سکھر، این ٹی ایس یا بحریہ فاؤنڈیشن کے ذریعے ٹیسٹ لیا جائے اور بعد میں اس ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر خالی اسامیاوں پر بھرتی کی جائے۔ سفارشات کے مطابق گریڈ ایک سے پانچ تک پر بھرتی متعلقہ محکموں یا اداروں کے ذریعے کی جائے۔ لیکن ان بھرتیوں کے لئے بھی ٹیسٹ اور انٹرویو منعقد کئے جائیں۔ محکمہ تعلیم میں چھ اساتذہ کی چھ ہزار اسامیوں ک پر بھرتی کے لئے ٹیسٹ کا ٹاسک آئی بی اے سکھر کو دیا گیا۔ آئی بی اے نے گزشتہ اکتوبر اورنومبر میں ٹیسٹ لیا۔ٹیسٹ پاس کرنے کا معیارساٹھ فیصد مارکس رکھا گیا۔ نتیجے میں بمشکل 24 فیصد پاس ہو سکے ۔ اب محکمہ تعلیم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاس کرنے کا معیار کا ازسرنو تعین کرکے پچاس فیصد کیا جائے۔ نیا معیار مقرر کرنے کے لئے یہ جواز پیش کیا گیا کہ دوبارہ ٹیسٹ کے انعقاد کی صورت میں ایک تعلیم سال ضایع ہوگا اور مالی وسائل کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ پچاس فیصد مارکس کا معیار سے رکھنے سے 76فیصد امیدوار پاس ہو جائیں گے تاہم چوبیس فیصد اسامیاں پھر بھی خالی رہ جائیں گی۔ حکومت کو بہرحال میرٹ کا پاس رکھنا چاہئے۔ تحریری ٹیسٹ کے بعد انترویوز میں بھی میرٹ اور شفافیت کو یقنینی بنانے کے انتظامات کئے جانے چاہئیں۔
صوبے میں ایک بار پھر چھوٹے بڑے جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی جرائم کی وارداتیں چند سال پہلے صوبے کے اس بڑے شہر میں روز تین چار جرائم کی وارداتیں معمول بن گئی تھی۔ اس کو روکنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا کام بہتر طریقے سے کیا، جس کے بعد جرائم کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب ایک بار مجرم سرگرم ہو گئے ہیں۔ جس نے شہریوں کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔

Job and recruitment, NFC meeting

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Friday, February 1, 2019

سندھ میں اپوزیشن کا کردار

https://www.naibaat.pk/01-Feb-2019/20743

سندھ میں اپوزیشن کا کردار 
سندھ نامہ سہیل سانگی 
سندھ کے عوام حکمرانی، پالیسی سازی، خواہ عوام کے مصائب کے حوالے سے متعدد مسائل کا شکارہیں۔ سرکاری اعداد شمار اور رپورٹس کے مطابق صوبے میں دیہی خواہ شہری علاقوں میں غربت بڑھ رہی ہے۔ لوگ پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ا س کا سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس مسلم ہانی کی سربراہی میں قائم واٹر کمیشن کی رپورٹس مشاہدات سے ہوسکتا ہے۔ صوبے میں اڑھائی سال پہلے سنافذ کی گئی تعلیمی ایمرجنسی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔ زراعت پانی کی قلت، انتظام کاری اور مارکٹنگ میں گڑبڑ کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے، یہاں تک کہ کاشتکار گنے اور کپاس کے بجائے دیگر چھوٹی فصلیں کاشت کرنے کی طرف جارہے ہیں۔ صحت سمیت مختلف ادارے اپنے وجود کی حیثیت کھو بیٹھے ہیں۔اس صورتحال پرحکومت خواہ اپوزیشن سندھ اسمبلی میں بات چیت نہیں کررہی۔ ایک دوسرے پر تنقید اور گالیاں دینے کا الزام لگا کر ایوان کو مچھلی مارکیٹ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ عوام کو تو بھول بیٹھے ہیں بلکہدونوں فریقین ایوان کا تقدس بھی بھول گئے۔ گزشتہ روز معاملہ کا آغازجی ڈی اے کے رکن عارف مصطفیٰ جتوئی کے اس سوال سے ہوا کہ کیاجیل میں ایک وائرس کی وجہ سے ایک سیاستدان متاثر ہوئے ہیں۔ پھر یہی الزام تراشی ہوتی رہی کہ کس نے کس کو گالی دی ۔ 
اپوزیشن کی جانب سے صوبائی وزیر مکیش کمار چاولہ پر گالی دینے کے الزام کے بعد ہنگامہ، شورشرابے شروع ہوا۔ اپوزیشن لیڈر اورسعیدغنی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور ہنگامہ آرائی اورشور شرابے کے باعث ایوان کا ماحول سخت کشیدہ ہوگیا۔ ایوان میں اپوزیشن ارکان کی جانب سے یہ شکایت کی گئی کہ سرکاری بنچوں پر موجود ایک وزیر کی جانب سے گالی دی گئی ہے۔صوبائی وزرامکیش کمار چالہ اور امتیاز شیخ نے اپوزیشن کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے کوئی گالی نہیں دی۔اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرائیں گے۔تعجب کی بات ہے کہ اپوزیشن کے پاس سرکاری بنچوں سے پوچھنے کے لئے یہی سوال رہ گیا تھا؟ اس طرح کی صورتحال ممکن ہے کہ حکومت کے حق میں جائے کہ اصل مسائل پر اس سے نہ پوچھا جائے، اس کے بجائے فروعی معاملات پر بحث ہو، یا ہنگامہ آرائی ہو۔ اس معاملے میں اپوزیشن کا کردار زیادہ اہم اور ذمہ دارانہ بنتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے حکومت کو سوالات سے بھاگنے کا موقع نہ دے ۔اور اس کو اس طرف لے آئے کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل، اداروں کی کارکردگی، سرکاری پالیسیوں پر بحث کرے تنقید کرے۔ لگتا ہے کہ اپوزیشن نان اشو کو اشو بنا رہی ہے۔ 
سندھ میں نیب کے دائر کردہ مختلف مقدمات میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ سکھر میں ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن اور اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف نیب انکوائری ختم کرنے کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نے ریماکس دیئے کہ نیب نے ادارے کو کیوں مذاق بنایا ہوا ہے۔نیب تین تین سال انکوائریاں کرتاہے اورچوتھے سال کہتاہے ملزم مطلوب ہی نہیں‘نیب کے تفتیشی افسران کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں۔ دریں اثناء قومی احتساب بیورو (نیب) کراچی ریجن کے تمام پراسیکیوٹرز نے استعفیٰ دے دیا۔بظاہر یہ کہا جارہا ہے کہ مستعفی ہونے والے تمام پراسیکیوٹرز نے تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ نیب پراسیکیوٹرز ایک لاکھ دس ہزار سے چالیس ہزار کے درمیان تنخواہیں لے رہے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ تنخواہیں بڑھا کر ایڈووکیٹ جنرل کے پراسیکیوٹرز کے برابر کی جائیں۔
قومی ادارہ امرض قلب کراچی وفاقی حکومت کے ماتحت ہو یا سندھ حکومت کے ؟اس معاملے پر دونوں حکومتوں کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق جناح پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل سینٹر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر وفاق حکومت کے ماتحت ہیں۔ سندھ حکومت نے این آئی وی سی ڈی سے متعلق بل صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا۔ لیکن گورنر سندھ نے دستخط کرنے کے بجائے بل واپس کردیا تھا۔ سندھ اسمبلی نے دوبارہ بل پاس کرلیا ہے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ محکمہ صحت صوبائی حکومت کے ماتحت ہے۔ لہٰذا صوبائی حکومت اس پر قانون سازی کر سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ عدالتی حکم کے بعد وفاقی سیکریٹری صحت نے خط لکھ کر بتایا ہے کہ وفاق اس ادارہ کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ حیرت کی بات ہے کہ صرف ریسرچ کی وجہ سے اس ادارے کو وفاق کے حوالے کیا جارہا ہے۔ 
گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ وزیراعظم کے 130 مختلف احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ یہ صورتحال صرف وفاقی حکومت تک محدود نہیں۔ سندھ میں مختلف محکمہ جات میں 957 عدالتی حکم نامے التوا میں پڑے ہوئے ہیں ۔ مجموعی طور پر حکمرانی کا یہ حال ہے۔ 

وفاق کی طرف منتقل ہوتے ہوئے ادارے اور حکومت سندھ کی خاموشی کے عنوان سے ’’ روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے سندھ میں خراب حکمرانی ہے۔ نیتجۃ صوبے کا کوئی بھی محکمہ یا وزارت روایتی کام کرنے کے انداز سے باہر نکل نہیں سکتے ہیں۔ خراب حکمرانی کی وجہ سے سندھ زوال کا شکار ہوا۔ جس سے معاشی، سماجی ، نفسیاتی اور سیاسی بدحالی کی علامات بھی واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ خراب حکمرانی اور صوبے کے مفادات کی صحیح طور پر نمائندگی نہ کرنے کی وجہ سے اب صورتحال یہ بنی ہے کہ سندھ سے سرکاری اور نجی اداروں کے ہیڈکوارٹرز اسلام آباد منتقل کئے جا رہے ہیں۔ جب تمام دفاتر اسلام آباد منتقل کئے ہو جائیں گے تو پھر اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات دینے کی کیا معنیٰ رہ جائیں گی؟ کراچی اسٹاک ایکسچینج کا نما تبدیل کر کے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کر کے ہیڈکوارٹر اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ نیوی کے بعد مسلم کمرشل بینک، لائیڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر سندھ سے منتقل کئے گئے۔ اب پی آئی اے کا ہیڈکوارٹر بھی اسلام آباد لے جایا جارہا ہے۔ اس طرح سے چھوٹے بڑے اداروں کے دفاتر اسلام آباد منتقل کر کے وسائل پرکنٹرول ، انتظام کاری اورحاکمیت مرکز کی طرف منتقل کی جارہی ہے۔ اس طرح کی نتقلی سے صوبے میں روزگار اور مستقبل کی ترقی کے سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سندھ کے منتخب نمائندے اور سندھ اسمبلی اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکی ہے۔ یہ سوال صرف سندھ کا نہیں بلکہ ملک کے تمام جمہوریت پسندوں کا سوال ہے۔ انہیں اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

ڈر کے مارے سندھ میں افسران کام نہیں کر رہے


سندھ نامہ سہیل سانگی

ویزراعلیٰ سندھ پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ نیب کی انکوائریوں کی وجہ سے ڈر کے مارے سندھ میں افسران کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ اب جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں کل 172 افراد کے نام شامل ہیں ۔ چونکہ یہ اومنی گروپ، اور زرداری کمپنی کے خلاف رپورٹ ہے لہٰذا اس میں تقریبا تمام نام سندھ سے ہیں۔ اومنی گروپ کو سستی قیمت پر سرکاری چینی دلانے، مختلف مدوں میں سبسڈی دینے اور قرض دینے کے معاملات شامل ہیں لہٰذا خیال کیا جارہا ہے کہ کئی افسران بھی شامل ہیں۔ تھر کول پروجیکٹ اور بحریہ ٹاؤن کے معاملات بھی اس لپیٹ میں آگئے ہیں۔ جے آئی ٹی میں جن لوگوں کے نام لئے گئے ہیں وفاقی کابینہ نے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔کراچی میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما علی رضا عابدی کے مسلح افراد کے ہاتھوں قتل نے نہ صرف رکاچی میں امن و مان بلکہ سیاسی صورتحال کو بھی نیا رخ دے دیا ہے۔ واٹر کمیشن سرگرم ہے۔ نتیجے میں مختلف شہروں اور قصبوں پینے کے پانی، نکاسی آب اور صفائی کے منصوبے بھی اسکروٹنی میں آرہے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی واٹر اینڈ سینیٹیشن اور کراچی واٹر بورڈ میں گزشتہ دس سال کے دوران کی گئی بھرتیوں اور ترقیوں کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔ ادویا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ دو سو سے زائد ادویات نایاب جبکہ متعدد کی قیمتوں مین بیس سے لیکر چالیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 
’’بلدیاتی اداروں کو زیادہ کارآمد بنانے کی ضرورت ‘‘کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبائی دارلحکومت کراچی، سمیت حیدرآباد، میرپورخاص، سانگھڑ، سکھر، مورو اور دیگر شہروں میں ضمنی بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ضمنی انتخابات بلدیاتی نظام کی اہم ضرورت تھی جو اب پوری ہوگئی ہے۔ اب جب یہ فورم مکمل ہو چکے ہیں تو اس کا فائدی عام لوگوں کو بھی لنا چاہئے، جو بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ شاید ہی کوئی روز ایسا گزرتا ہو جب کسی نہ کسی شہر میں لوگ گٹر وں کے ابلنے، معصوم بچوں کے مین ہول میں گرنے، گند اور کھیچڑ کے خلاف احتجاج کر کے انتظامیہ کو اسکی ذمہ داری یاد نہ دلاتے ہوں۔ ان عوامی احتجاجوں کے باوجود عوام کو شہری سہولیات کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی ہے۔ 
یہ درست ہے کہ بلدیاتی نظام آمریت کے دور کی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ یہ نظام جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نام پر عوام پر مسلط کیا تھا۔ یہ لطیفہ اپنی جگہ پر ہے کہ غیر جمہوری نظام میں جمہوری نظام کی کیٹگری زیادہ توجہ کا مرکز رہی ہے۔کیونکہ غیر جمہوری دور میں آمر اس نظام کو عوام سے رابطے کی پل کے طور پر اس نظام کو استعمال کرتے تھے۔ اور اس نظام کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے تھے۔ آمر ضیاء نے پھر شوریٰ کے نظام کا سہارا لیا۔ بعد میں جنرل مشرف نے ضلع حکومت کا نظام نافذ کر کے عوام کے دروازے پر اختیارات لانے کے خالی اعلانات کئے۔ عملی طور پر وڈیروں اور سرداروں کو اضلاع کا ’’ظل الاہی ‘‘مقرر کر کے حکومت کے اندر حکومتیں بنا دیں۔ 
بلدیاتی نظام جمہوری حکومتوں کے دور میں بھی کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا ہے۔ اس نظام کے بعض نقائص اگر دور کردیئے جائیں تو یہ نظام نہایت ہی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ عوامی نچلی سطح پر اپنے نمائندوں کے ذریعے بنیادی سہولیات حاصؒ کر سکتا ہے۔ ماضی میں مختلف حلقوں کو اس نظام کو ناک میں نکیلی ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق چلا کر اپنی تجوڑیاں بھری ، آج بھی اس نظام کو افسرشاہی کا محتاج بنایا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت اس نظام کے گلے پر سے لات ہٹانے کے لئے تیار نہیں۔ٹی ایم ایز منتظمین کے لئے یہ ادارے اے ٹی ایم بنے ہوئے ہیں۔ کروڑہا روپے کا بجٹ کہاں جاتا ہے۔ کچھ پتہ نہیں۔ ایک چیز واضح ہے کہ یہ رقم شہروں اور ان کی آبادی کو بنیادی سہولیات پہنچانے کے خرچ نہیں ہورہی۔ یہی وجہ ہے کہ قصبے اور گاؤں تو دور کی بات چھوٹے خواہ بڑے شہر بھی گندگی کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ فنڈز لکڑ ہضم پتھر ہضم منتظمین کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے چھوٹے ملازمین خاص طور رپ صفائی کرنے والے عملے کو کئی ماہ تک تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ تنخواہیں نہ ملنے پر یہ عملہ اکثر احتجاج کرتا رہتا ہے۔ 
اس محکمے میں گزشتہ دس سال کے دوران جو کرپشن ہوئی ہے اور غیر قانونی بھرتیاں ہوئی ہیں ، ملازمتیں فروخت ہوئی ہیں اس کا اندازہ کرپشن کیسز اور انکوائری کمیٹیوں کی رپورٹس سے لگایا جاسکات ہے۔اس عرصے کے دوران سندھ میں نوکریوں کی دکانیں کھل گئی تھیِ ۔ مسلم سفید پوش نوجوانوں کو بھی سینیٹری ورکرز کی ملازمتیں دی گئیں۔جن میں سے اکثر تنخواہ والے روز بینک پر کرصرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ وہ نہ ڈیوٹی کے پابند ہیں اور نہ انہیں پابند کیا جارہا ہے۔ اگر ان پر زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے تو اپنے حصے کا ایک تنخواہ دار ذاتی طور رکھ لیتے ہیں۔جو صفائی کا کام کرتا ہے۔ مطلب انہوں نے ملازمت لیز پر دی ہوئی ہے۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ فنڈنگ وغیرہ کے حوالے سے بلدیاتی اداروں کو افسرشاہی کا محتاج بنانے کے بجائے ان اداروں کو آذادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے۔ 
’’خواتین کو علاج معالجے کی سہولیات کا معاملہ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ چنگچی خواہ فٹ پاتوں کو بچوں کو جنم دینے کے واقعات سندھ میں رونما ہو رہے ہیں۔ یہ لاپروائی اس لئے کی جارہی ہے کہ سرکاری صحت مراکز میں ایسی صورتحال پیدا کی گئی ہیں کہ خواتین کے لئے کارآمد نہیں رہے۔ ہسپتالوں کا کام حاملہ عورتوں کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن آج بھی ہماری ہسپتالیں علاج گھر کے بجائے کوس گھر بنی ہوئی ہیں۔چک گاؤں کی خاتون کو زچگی کے لئے پی پی ایچ آئی کے صحت مرکز رستم لے جایا گیا جہاں پر لیڈی ڈاکٹر نے زچگی کرانے سے انکار کردیا۔ خاتون کو سکھر لے جایا جارہا تھا کہ اس نے چنگچی میں ہی بچے کو جنم دے دیا۔ سندھ میں محکمہ صحت کو اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے، لیکن سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر کیس اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔
Sindh Nama

سندھ سیاسی گہماگہمی کی طرف بڑھ رہا ہے


سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ سیاسی گہماگہمی کطرف بڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف ریفرنس کی تیاری کی جارہی ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں عوامی جلسے جلوس کرنے جارہی ہے۔ اس کے جواب میں پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس صوبے میں سرگرمیاں تیز کرنے جارہی ہیں۔ سندھ اسمبلی نے بلدیاتی اداروں کے قانون میں 7 ترامیم منظور کرلی ہیں۔اب میئر، ڈپٹی میئر، کونسل کے چیئرمین، وائیس چیئرمین کو دو تہائی اکثریت کے بجائے سادی اکثریت سے ہٹایا جاسکے گا۔ اپوزیشن جماعتوں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے ترمیم کی مخالفت کی ۔اپوزیشن کے مطابق یہ ترامیم پیپلزپارٹی نے اپنے مخالفین کو عہدوں سے ہٹانے کے لئے کی ہیں۔ مخالفین نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اراکین کو خرید کرکے مخالف عہدیداران کو ہٹایا جائے گا۔ ان میں سے چھ ترامیم الیکشن کمیشن کی سفارش پر کی گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کا یہموقف ہے کہ بلدیاتی اداروں کے عہدیداران کو سادہ اکثریت سے ہٹانے سے متعلق ترمیم اس لئے کی گئی ہے کہ قانون کے مطابق وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کو بھی سادہ اکثریت سے ہٹایا جا سکتا ہے ۔
منی لانڈرنگ کیس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، فریال تالپور اور دیگران کی بینکنگ کورٹ نے 14 فروری تک ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کردی ہے۔گزشتہ سماعت کے موقع پر تفتیشی افسر اسلام آباد میں مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوئے سکے ۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس مقدمے کا ریکارڈ نیب کے حوالے کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے مزید تحقیقات کے لئے معاملہ نیب کے حوالے کیا ہے لہٰذا بینکنگ کورٹ اس پر مزید کارروائی نہیں کرسکتی۔ عملدرآمد بینچ بھی بنائی ہے ۔اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے تین بیٹوں، بحریہ ٹاؤن کے ریاض ملک کوشش کر رہے ہیں کہ بینکنگ کورٹ سے ضمانت حاصل کرلیں۔
سندھ اور وفاق کے درمیان بھی کشیدگی بڑھنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کہتے ہیں کہ ہم سندھ کے حقوق وفاق سے چھین کر لیں گے۔انہوں نے متنبیہ کیا کہ اگر یہ پکڑ دھکڑ جاری رہی تو وزیراعظم بھی نہیں بچ سکیں گے۔ وزیراعظم کوچار خطوط لکھے ہیں مگر کسی کاجواب نہیں ملا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ حکومت سندھ کے ساتھ محکمہ ریلوے تعاون نہیں کر رہا۔
سندھی اخبارات نے روڈ حادثات، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور محفوظ سفری سہولیات کو اپنے اداریوں مین موضوع بحث بنایا ہے۔
’’ ریلوے نظام کیا صرف ایک صوبے کی سہولت کے لئے ہے ؟ ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے اس ملک کو انگریز دور میں جو سہولت ملی ، اس کو ہمارے حکمران بڑھانے کے بجائے اسے برقرار بھی نہیں رکھ سکے۔ ان میں ریلوے نظام بھی شامل ہے۔ ریلوے کے محفوظ اور سستے سفر کی سہولت سے عوام کو محروم کیا جارہا ہے۔ سندھ میں نہ صرف حیدرآباد میرپورخاص، حیدرآباد بدین، لاڑکانہ سمیت مختلف لائینیں تباہ کردی گئی ہیں۔ مین لائن کی ٹرینیں بھی دستیاب نہیں۔ سندھ میں متعدد چھوٹے بڑے اسٹیشن بند کردیئے گئے ہیں۔ اگرچہ مواصلات کے نئے ذرائع رائج ہو چکے ہیں تاہم دنیا ھر میں ریلوے کی اہمیت کم نہ ہو سکی ہے۔ جدید ٹیکنالاجی کو بروئے کار لا کر اسے جدید تر اور محفوظ بنایا جارہا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی ادا مختلف ہے۔ یہاں منصوبے کے تحت ریلوے نظام کو تباہ کیا گیا۔ سندھ میں ٹرینوں کا صرف گزر ہوتا ہے سہولت برائے نام ہے۔ حیدرآباد بدین لائن پر پہلے اپ اور ڈاؤن دو ٹرینیں چلتی تھی۔ بعد میں ایک ٹرین چلنے لگی ۔ گزشتہ دو سال سے وہ بھی بند ہے۔ اور صرف ہفتے میں ایک روز چلائی جاتی ہے۔ یہی صورتحال لاڑکانہ لائن کی ہے جہاں پر 16 ٹرینیں بند کردی گئی ہیں ۔ مختلف ٹرینیں خسارے کی آڑ میں بند کردی گئی ۔ تاجروں کے مطالبے کے باوجود نائیٹ کوچ شروع نہیں کی گئی۔ صوبے کے دوسرے روٹس پر یہی صورتحال ہے۔ ایک طرف پیسنجر ٹرین کی سہولت ختم کردی گئی دوسری طرف ایکسپریس ٹرینوں کے اسٹاپ ختم کردیئے گئے۔ جس کی وجہ سے سندھ کے لوگ محفوظ اور سستی سفری سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔ ریلوے کو زیادہ کمائی مال برداری سے ہوتی تھی۔ ایک ادارے کو فائدہ پہنچانے کے لئے ریلوے کے شعبہ مال برداری کو تباہ کیا گیا۔ ریلوے اسٹاپ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تائیم ٹیبل سے بھی شعبدہ بازی کی گئی۔ ٹرینوں کے اوقات آگے پیچھے کر کے نجی شعبے کے ٹراسپورٹرز کو کھلا میدان فراہم کیا گیا۔ اس سے ریلوے کی آمدنی پر اثر پڑا۔ لیکن یہ صورتحال ہاتھ سے خراب کی گئی۔ رہی سہی کسر ریلوے ملازمین نے پوری کردی۔ کہتے ہیں کہ ٹرینوں میں اگرر یلوے پولیس نہ ہو تو ریلوے میں خسارہ کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ ریلوے نظام کو تباہ کر کے ایک پورے کلچر کو ختم کیا گیا ہے۔ جو ریلوے سے منسلک تھا۔ ٹرینوں کے اسٹاپ ختم ہونے اور ریلوے اسٹیشن بند ہونے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا روزگار ریلوے اسٹیشنوں سے منسلک تھا۔ دوسری طرف نجی ٹرانسپورٹرز کو میدان خالی ملا، جس کی وجہ سے وہ اس شعبے پر چھا گئے۔ ٹرالر، کوچز اور وینیں بڑھ گئیں اس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ گئی۔تیل کا استعمال بڑھنے سے امپورٹ بل بھی بڑھ گیا۔ ویسے بھی تیل کی امپورٹ کے پیچھے ایک منظم مافیا موجود ہے۔بلاشبہ ریلوے نظام کو تباہ کرنے میں کرپشن کا بھی اہم کردارہے۔ خاص طور پر انجنوں کی خریداری مین کرپشن سے متعلق شکایات آتی رہی ہیں۔ ایسے انجن خریدے گئے جو مختلف اسٹشنوں پر فیل ہو گئے۔ نتیجۃ ٹرینیں لیٹ ہونے لگیں۔ ٹرینوں کے لیٹ ہونے نے بھی نقسان پہنچایا۔
اس ملک کی سرکاری سطح پر میسر کی جانے والی ہر سہولت پر سندھ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور صوبے کا۔ سندھ کے لوگوں کو سستی اور محفوظ سفری سہولت سے محروم رکھنا ناانصافی ہے۔ ہم وزیر ریلوے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ میں برسوں سے ند ریلوے اسٹاپ بحال کئے جائیں۔بند ٹرینیں چلائی جائیں۔ ریلوے ٹائیم ٹیبل عوام کی سہولت کے
مطابق مرتب کیا جائے۔ میرپورخاص بدین اور لاڑکانہ سمیت مختلف بندروٹس بحال کئے جائیں۔

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
Sindh Nama - Railway system and Sindh - Sohail Sangi - Nai Baat - Sindhi Press