Friday, June 19, 2015

سرکاری افسران کی گرفتاریاں, پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم

Sindhi Press Sindh Nama  - Sohail Sangi 
  سرکاری افسران کی گرفتاریاں, 
 پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم
سندھ نامہ سہیل سانگی

سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فوج پر تنقید کے بعد صورتحال سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے دیگر بعض شہروں میں سرکاری افسران کی گرفتاریاں جاری ہیں ابھی تک ڈیڑھ درجن افسران کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جبکہ نصف درجن اعلیٰ سرکاری افسران نے حفظ ماتقدم ضمانتیں کرالی ہیں ۔ صوبے میں ایک طرح کے کریک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اس کی وجہ سے کراچی میں صوبائی سیکریٹریٹ کے افسران میں خوف بھی پایا جاتا ہے۔
اخبارات نے پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم کی صورتحال اور کرپشن کے الزام میں افسران کی گرفتاریوں کو موضوع بنایا ہے۔
 

اخبارات کے مطابق کرپشن کی شکایات عام ہیں لیکن اس کو روکنے یا ختم کرنے کے لئے سویلین م اور صوبائی مکینزم موجود ہے ۔ اسی مکینزم کو فعال بناکر اقدامات کئے جائیں جو کہ قانون اور آئین دونوں کے تقاضوں کے مطابق ہونگی۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ سب کچھ رینجرز کا مینڈیٹ ہے؟ کیا یہ ادارہ اپنے حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہا؟ بعض تجزیہ نگاروں نے نیب اور رینجرز کے ان چھاپوں کو وفاق کی جانب سے صوبائی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور صوبے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے وفاقی یا سندھ بجٹ پر اخبارات میں جامع بحث نہیں ہو سکی۔
 

روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کی شکایات اور نیب اور رینجرز کے چھاپے کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق کے ماتحت ادارے رینجرز نے سندھ کے مختلف محکموں کرپشن کے خلاف تحقیقات کے لئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور رینجرز نے زمین کی الاٹمنٹ کا رکارڈ تحویل میں لیا۔ایک اور وفاقی ادارے نیب نے سندھ لائنز ایریاز ری ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پانچ اہم افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں چائنا کٹنگ کے ذریعے 1200 سے زیادہ پلاٹ مختلف مافیا کو فروخت کر کے چار ارب روپے سے زائد رقم ہڑپ کی۔ ای سی ایل میں پچاس سے زائد افسران کے نام ڈال دیئے گئے ہیں۔ صوبائی محکموں کے افسران کے خلاف رینجرز کی ان کارروایوں کے بارے میں صوبائی حکومت کو آگاہی نہ دینے پر صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ نیب کی کارروایوں اور رینجرز کے چھاپوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق سندھ حکومت پت عدم اعتماد کا اظاہر کر رہا ہے۔
 

ملک کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ میں کرپشن کا راگ گایا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف سندھ حکومت کو بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خطرہ ہے۔ اس میں کچھ کوتاہیاں اپنی بھی ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی اچھی حکمرانی کو یقینی بناتی اور عام آدمی کو پینے کے پانی، صحت، تعلیم وغیرہ کی بنیادی سہولیات مہیا کرتی وفاق کو سندھ حکومت پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی کو شفاف بنائے اور ایک ایسا نظام بنائے جس کے تحت کرپشن میں ملوث افسران قابل گرفت ہوں ۔ اگر وفاق کسی آڑ میں سندھ حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جس کے لئے وفاق سے باضابطہ بات کرنی چاہئے۔
 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کام زیادہ اور پیسہ کم ہے۔ سندھ کا خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ۔ اس خسارے کے لئے صوبائی حکومت وفاق کو ذمہ دار ٹہرا رہی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران وفاقی پول سے سندھ کو 381 ارب روپے ملنے تھے۔ بعد میں یہ تخمینہ کم کرکے 353 ارب روپے کیا گیا۔ لیکن عملا گزشتہ 9 ماہ کے دوران 287 روپے سندھ کو جاری کئے گئے اور مجموعی طور پر وفاق نے 52 ارب روپے کم جاری کئے ۔ وفاق سے کم رقم ملنے کی وجہ سے اہم ترین شعبوں تعلیم، صحت، بلدیاتی اداروں، جنگلات لایو اسٹاک کی ترقیاتی رقامت میں کٹوتی کی گئی ہے۔
 

سندھ تیل ، گیس، اور دیگر قدرتی وسائل کے ذریعے وفاق کو بڑی آمدنی دیتا ہے، لیکن صوبے کا کم حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جو حصہ رکھا جاتا ہے اس کی ادائیگی بی پوری نہیں کی جاتی اکثر ادفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ رقومات وقت پر جاری نہ کرنے کی وجہ سے سندھ میں ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کی طرف یہ رویہ اپنی جگہ پر۔ لیکن سندھ کی جانب سے باقاعدہ ہوم ورک کرکے وفاق کے ساتھ مالی معاملات اٹھائے نہیں جاتے۔ کے حکمران اس وقت نیند کے خمار سے جاگتے ہیں جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مسائل صرف وفاق کے حوالے سے شکایات کرنے سے دور نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو رقومات حاصل وہئی ہیں ان کے موثر اسعتمال کو یقینی بنایا جایت اور اس کے ساتھ ساتھ مالی امور کے حوالے سے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پورا سال اس پر کام کرتی رہی۔ اور جامع کیس بنا کر وفاق کے سامنے پیش کیا جائے۔
 

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاق کی جانب سے سندھ کو کم رقومات کے اجراء پر اداریہ لکھا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کو مالی وسائل میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔
  Sindh nama June 19, 2015

گدھا اور وزراء کی جذباتیت

Sindhi Press, Sindh Nama  Sohail Sangi 
گدھا اور وزراء کی جذباتیت
سندھ نامہ سہیل سانگی
وزراء کی جذباتیت کوگنیز بک میں شامل کرنا چاہئے کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ ہمارے ملک کا عام آدمی زندگی کی گاڑی تب چلا پاتا ہے جب وہ پورا دن محنت مزداری کرتا ہے۔اسے ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ دراصل یہ عام آدمی ہی ہے جس کے ووٹ کی چابی سے اقتدار کے ایوانوں کے تالے کھلتے ہیں۔ وہ رعایا بنتے ہیں اور ووٹ دے کر اپنا حاکم منتخب کرتے ہیں۔ اور خود پر حکمرنی کا حق دیتے ہیں۔ یہ ملک کے لوگ ہی ہیں جن کے ووٹ ایک ایک اینٹ بن کر اقتدار کا ایوان تعمیر کرتے ہیں۔ اس بندے کے کتنے مشکل ہیں زندگی کے اوقات۔ مہنگائی کی مہلک بیماری میں ملک کا ہر بندہ مبتلا ہے۔ بیروزگاری کی آگ میں اس کی اولاد جلتی رہتی ہے۔ بھوک بدحالی، مفلسی اور فاقہ کشی کا بھی یہی عام آدمی مقابلہ کر رہا ہے۔ اگر ان باتوں کو حقائق کے آئینے میں دیکھا جائے تو عام آدمی کا حخمرانوں کے خلاف کتنا بڑا کیس ہے؟

آج ہم بات کریں گے ملک کے حکمرانوں کی جو سرکاری گاڑی کی غلط ڈرائیونگ کر کے ان عام آدمیوں کی زندگگی میں حادثات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حادثات اچانک نہیں ہوتے۔ مگر اس ملک کے مسند نشینوں کی کیا بات کی جائے، کہ سب کچھ اجنتے پہوئے بھی بے خبر ہیں۔ 
ایک گدھا گاڑی چلانے والا کس طرح زندگی گزارتا ہے۔ ایک محنت کش کارخانوں اور اینٹوں کے بٹھوں میں کس طرح پکتا رہتا ہے۔ ؟ تعلیم اور ترقی کا سفر کیوں رک گیا ہے؟ حکمران عام آدمی کے ان حالات سے باخبر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی بے خبری آج کے دور کی بڑی خبر ہے۔ حیدرآباد کے قاسم آباد کے علاقے میں ایک ہفتہ پہلے بجلی کا تار گرنے کے باعث ایک محنت کش کا گدھا مر جاتا ہے تو اس کا مقدمہ حیسکو کے افسران کے خلاف داخل ہوتا ہے۔ تو پانی و بجلی کے مملکتی وزیر شیر علی تھانے کے باہر آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد پولیس کے گلو بٹ ڈوب کر مریں اگر ہمت ہے تو میرے افسران کو گرفتار کر کے دیکھیں۔ روز لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ ان کء مقدمات داخل نہیں ہوتے۔ مگر ھگے مرنے کا کیس داخل کرنے پو سندھ پولیس کا نام گنیز بک آف ریکارڈ میں شامل کیا جانا چاہئے۔
یہ زبان اور یہ دھمکیاں اس وزیر کی ہیں جس کے ہاتھ میں بجلی کا اہم محکمہ ہے۔ یہ ’’دلفریب ‘‘ زبان اس شخص کی ہے جنہیں ایک اہم محکمء کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ جس معاشرے میں انسان بے موت مرتے ہوں مگر ان کی قدردانی نہ ہو، اس معاشرے میں ایک گدھے کا مرنا بظاہر خواہ مملکتی وزیر کے لئے معمولی بات ہو، لیکن اس مزدور کے روزگار کا ذریعہ ختم ہو گیا۔ اس کے لئے زندگی کی گاڑی چلانا یقیننا کٹھن ہو گیا۔ کیا ملک کا قانون سب شہریون کے لئے برابر نہیں؟ یا مملکتی ویزر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود ، ان کا محکمہ اور اس کے ملازمین ہر احتساب سے آزاد ہیں۔ اور قانون سے بالاتر ہیں۔ اگر وزیر کی ’’زبان درازی‘‘ کی بات کی جائے تو جس میں وہ گدھے کو صرف گدھا کہہ کر اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ 

ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے جس اہم ادارے کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی گئی ہیوہ اس وقت کہاں کھڑا ہے؟ اس محکمے میں کتنی کرپشن ہے؟ ملک میں لوڈ شیڈنگ کتنی ہے؟ بجی کی چوری کتنی ہورہی ہے؟ کیا یہ تمام خامیاں دور کرنے میں وزیرکامیاب ہوئے ہیں۔ یا ان سے وہ خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مملکتی وزیر کے اس رویے پر لائیو اسٹاک اور فشریز کے صوبائی وزیر جام خان شورو اعتراض تو کرتے ہیں مگر اس صوبائی وزیر سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کی اپنی حکومت کی کیا کراکردگی ہے؟ یہ جو اتنے سارے لوگ بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں، ان کی ایف آئی آر کس کے خلاف داخل کی جائے۔
وفاق کے خلاف حکومت سنھ کی چیخ و پکار کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاق نے اگر سندھ کے خلاف ناانصافیاں ختم نہ کیں تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کرابی میں آب رسانے کے منصوبے کی سنگ بنیا د کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف امن و مان کے لئے کراچی میں اجلاس تو کرتے ہیں لیکن سندھ کو اس کے حصے کے فنڈز جاری نہیں کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ مایوس کن ہے اور سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال وفاق کے ترقیاتی پروگرام میں سندھ کے لئے 85 ارب روپے رکھے گئے لیکن صرف آتھ ارب روپے جاری کئے گئے۔ جبکہ اس سے پہلے 525 ارب روپے میں سے صرف 22 ارب روپے جاری کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سے بدلہ لیا جارہا ہے جہاں دیہی علاقوں میں 18 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔ 

سندھ کے ساتھ ناانصافیوں کے حوالے سے دو رائے نہیں۔ قومی خزانے میں سب سے زیادہ حصہ دینے والے صوبے کو آٹے میں نمک برابر دیا جاتا ہے۔ تیل، گیس اور دیگر معدنی وسائل سے مالا مال صوبے کی حالت کھنڈرات سے کم نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار ہیں۔ پچاس فیصد آبادی کو بھی پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ۔ سندھ کے عوام کو امید رہی کہ جن کو انہوں نے ووٹ دیئے ہیں وہ نہ صرف ان ناانصافیوں کے خالف آواز اٹھائیں گے بلکہ ان کے حاصلات کے لئے عملی اقدامات بھی کریں گے۔ لیکن افسوس کی گزشتہ سات سال سے معاملہ باتیں کرنے یا اخباری بیانات میں شکوہ کرنے سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ 
پیپلزپارٹی کی قیادت کو واقعی یہ احساس ہے کہ سندھ کے سات ناانصافی ہو رہی ہے تو پھر اسے یہ شکوے صرف جلسوں میں نہیں منتخب ایوانوں اور متعلقہ فورم میں کرنے چاہیءں۔ وفاقی سطح پر جب اجلاس ہوتے ہیں تو سندھ کی نمائندگی کرنے والوں کے منہ سے لفظ نہیں نکلتے، کیونکہ ٹھیک سے ہوم ورک کرکے مضبوط کیس بنا یا نہیں جاتا۔ سڑکوں پر نکلنے کی بات سندھ کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ سندھ حکومت کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاقی بجٹ میں سندھ کے لئے کم رقم رکھنے اور ہر سال کم رقم جاری کرنے پر اداریہ لکھا ہے۔


 
Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi - June 12, 2015

Wednesday, June 17, 2015

ٿر جي وسيلن کي ڪاروباري نظرن سان نه ڏسو!

ٿر جي وسيلن کي ڪاروباري نظرن سان نه ڏسو!
جمع 09 جنوري 2015ع
ٿر جي ڏڪاريل ڏيهه ۾ مٺي کي آر او پلانٽ ملي ويو. اڳوڻي صدر ۽ پ پ جي شريڪ چيئرمين آصف علي زرداري افتتاح ڪيو. دعوى آهي ته اهو ايشيا جو وڏي ۾ وڏو آر او پلانٽ آهي. هونئن به اسين هر معاملي ۾ پاڻ کي وڏو ڪرڻ لاءِ اهڙي وڏائي جو اصطلاح ججهو استعمال ڪندا رهيا آهيون. خير اهو ڀلي کڻي ايشيا جو وڏي ۾ وڏو پلانٽ نه به هجي، مٺي، اسلام ڪوٽ سان گڏوگڏ وچ ۾ آباد 80 کن ڳوٺن کي مٺو پاڻي پهچائيندو. هونئن نئون ڪوٽ وٽان درياهه جو پاڻي مٺي ۽ اسلام ڪوٽ تائين پهچايو ويندو هو، ان جي جاءِ تي هاڻي آر او وسيلي پاڻي ڏنو ويندو. اها به خوشخبري آئي آهي ته ٿر ۾ ست ارب روپين جي ماليت سان 750 آر او پلانٽ لڳايا ويندا. اهي سمورا پلانٽ لڳائڻ کان اڳ ۾ ڪو اسٽڊي يا سروي به ڪيو ويو؟ ضرورتن ۽ سهوليتن توڙي ايندڙ وقت کي ڪيترو نظر ۾ رکيو ويو؟ ان ڏس ۾ حڪومت توڙي پلانٽ لڳائيندڙ ڪمپني ٻنهي وٽان ڪابه ڄاڻ نه ڏني ويئي آهي. اهو ان ڪري به سوال اٿي رهيو آهي جو دريائي پاڻي جي سپِلاءِ جي مرمت ۽ ان جي توسيع جي لاءِ گذريل ٻن سالياني بجيٽن ۾ 2 ڪروڙ کان وڌيڪ رقم رکي ويئي هئي. جيڪڏهن حڪومت وٽ آر او پلانٽ لڳائڻ جي رٿا موجود هئي ته دريائي پاڻي جي سپلاءِ ۽ انهن جي لائينن لاءِ ڇو رقم رکي ويئي؟
 
ٿر جي ماڻهن کي مٺو پاڻي ملڻ تي ڪير به ارهو ڪونهي. پر جنهن طريقي سان اهي پلانٽ لڳايا پيا وڃن، سي گهڻو وضاحت طلب آهن. ڪجهه عرصي لاءِ ڪمپني انهن پلانٽن جي هلائڻ ۽ انهن جي سار سنڀال لاءِ ذميوار هوندي. پر هڪ دفعو ڪمپني ان مان هٿ ڪڍيا ته پوءِ انهن پلانٽن کي جاري رکڻ لاءِ ڪير ذميروار هوندو؟ ڪيترن ڳوٺن ۾ اهي پلانٽ بااثر ماڻهن جي گهرن ۽ اوطاقتن تي به لڳايا ويا آهن. يا وري اهو ته هڪ ئي ڳوٺ ۾ مختلف پاڙن ۾ هنيا ويا آهن. پلانٽ لڳائڻ بدران اها رقم پاڻي گهرن تائين پهچائڻ لاءِ خرچ ڪري ماڻهن کي وڌيڪ سهولت ڏيئي ٿي سگهجي. موجوده رٿا هيٺ ماڻهو رڳو کوهه مان پاڻي ڪڍڻ جي محنت کان بچي سگهيا آهن. باقي پاڻي ڀري گهرن تائين وڃڻ واري محنت پنهنجي جاءِ تي برقرار آهي. هي اها محنت آهي جيڪا عورت کي ڪرڻي آهي، ان ڪري وڏي تعداد ۾ اهي پلانٽ لڳائڻ بدران رٿابندي سان لڳايا وڃن ها ته انهن جي پائيداري، مستقبل ۾ جاري رهڻ ۽ وڌيڪ سهولتون ڏيڻ جو سبب ٿين ها. ان صورت ۾ خرچ ۾ شايد اوترو ئي ٿئي ها. ائين نه ڪري حڪومت اڌ مبارڪ حاصل ڪرڻ کان رهجي وئي.

ٿر جي معاملن تي گهري نظر رکندڙن وٽان اهو به سوال ٿي رهيو آهي ته ٿر جي ماڻهن کارو پاڻي ايترين صدين کان پيتو پئي ۽ ڏکيو سکيو پاڻي حاصل ڪري رهيا هئا. پر ايڏي وڏي رقم جيڪڏهن ڏڪار جي مستقل حل لاءِ خرچ ڪئي وڃي ها ته ماڻهن جو گهڻو ڀلو ٿي پوي ها. کارو پاڻي يا بيماريون ماڻهن کي تڏهن تڪليف ڏين ٿيون جڏهن ڏڪار پوي ٿو. غذائي کوٽ ٿئي ٿي.
صدر آصف زرداري جي مٺي ۾ آمد جي موقعي سمجهيو پئي ويو ته هو ڏڪار جي مستقل حل لاءِ ڪجهه عملي اپاءُ وٺندو ۽ ڪجهه اعلان ڪندو. زرداري صاحب جي علم ۾ اها ڳالهه ضرور هوندي ته ٿر جو ڏڪار ۽ اتي ٻارڙن جي مرڻ وارو معاملو گهڻو حساسيت اختيار ڪري ويو آهي. ميڊيا جون رپورٽون ۽ تبصرا پنهنجي جاءِ تي خود پارٽي اندر به ڏڦيڙ جو ڪارڻ بڻيل رهيا آهن. بلاول ڀٽو زرداري طرفان نوٽيس وٺڻ، ٻن مخدومن خلاف وڏي وزير جي ڪارروائي، منظور وساڻ واري انڪوائري، ايم ڪيو ايم طرفان معاملو اٿارڻ انهن مان ڪي چند واقعا آهن. 

انهي حساسيت ۽ ڏڪار جي شدت جي پيش نظر ئي سنڌ حڪومت ٿر ڊولپمينٽ ڪميٽي جوڙي هئي، جنهن پنهنجون ذميواريون پوريون ڪندي ٽي مهينا اڳ پنهنجون ٻه سفارشون حڪومت سنڌ کي موڪلي ڇڏيون هيون. انهن سفارشن ۾ سنڌ بابت ڏڪار پاليسي ۽ ٿر ۾ ڏڪار جي مستقل حل لاءِ ٿر ڊولپمينٽ اٿارٽي ٺاهڻ مکيه آهن. اهي ٻئي مسودا حتمي شڪل ۾ سنڌ حڪومت وٽ پيل آهن، جن کي رڳو اسيمبلي مان پاس ڪري قانوني شڪل ڏيڻ جي ضرورت آهي. خبر ناهي ته اهي ٻئي سفارشون پارٽي جي ڪنهن اندروني ڇڪتاڻ جو شڪار آهن يا ٻين ”لازمي“ خفن وچان اهي ٻئي سفارشون حڪومت جي ترجيح نه بڻجي رهيون آهن؟ جيڪا به صورت هجي ڀوڳڻو ٿر جي ماڻهو کي پوي پيو. جيڪڏهن اندروني ڇڪتاڻ يا گروهه بندي جو معاملو آهي ته زرداري صاحب کي ان جو نوٽيس وٺڻ گهرجي. اهو به ڪري پيو سگهجي ته فوري طور تي سمورين سفارشن تي جيڪڏهن ڪنهن سبب ڪري عمل ممڪن ناهي ته ڪجهه شيون مثال طور ٿر يونيورسٽي، ميڊيڪل ڪاليج، پيرا ميڊيڪل اسڪول، انجنيئرنگ ڪاليج وغيره جي شروعات ڪري سگهجي ٿي. ان سان گڏوگڏ سنڌ زرعي يونيورسٽي کي زرعي جنسن ۽ چوپائي مال جي سار سنڀال لاءِ خاص پروگرام ٺاهڻ جون هدايتون ڏيئي سگهجن ٿيون.

 ڪن حلقن جي طرفان اها تنقيد ٿي رهي آهي ته آر او پلانٽ حڪومت جي نه، پر ڪمپني جي ترجيح آهي، ان جو ڌنڌو ۽ ڪاروبار آهي. ان تنقيد جي باوجود اها چڱي ڳالهه آهي جو حڪومت ان ۾ هٿ وڌو آهي ۽ پنهنجو ڪيو آهي. ڪمپني ڀلي پنهنجو ڌنڌو ڪري پر حڪومت کي ته پنهنجو ڪم ڪرڻ گهرجي. جيڪڏهن حڪومت پنهنجو ڪم نٿي ڪري ته پوءِ رڳو ڪمپني جو ڌنڌو ئي رهجي وڃي ٿو.

آر او پلانٽ ذريعي ٿر واسين کي مٺو پاڻي ڏيڻ اها ڳالهه واضح ڪئي آهي ته ٿر کي درياءَ مان پاڻي نٿو ڏئي سگهجي ”اپڻي گهوٽ ته نشا ٿيوئي“ يعني ٿر کي پنهنجي وسلين تي ئي ڀاڙڻو پوندو. اها چڱي ڳالهه آهي، پوءِ ٿر جي ڪوئلي کي به مڪمل طور تي ٿر جي لاءِ استعمال ڪيو وڃي. اهو ٿر جو واحد وسيلو آهي، جنهن جي ذريعي هتي ترقي اچي سگهي ٿي. زرداري صاحب پنهنجي تقرير ۾ ٿر جون زمينون فارم لاءِ ڪمپني کي ڏيندي اتي زراعت کي ترقي ڏيارڻ جي ڳالهه ڪئي آهي. ٿر ۾ زير زمين پاڻي جي مقدار ۽ ان جي استعمال بابت مڪمل اڀياس جي ضرورت آهي، ان اڀياس جي نتيجي ۾ جيڪڏهن اهو پاڻي پوک لاءِ استعمال ٿي سگهي ٿو ته ٿر جي ماڻهن کي بي زمين ڪرڻ بدران مقامي ماڻهن کي ئي سهولتون ڏنيون وڃن، جو اهي پنهنجون ٻنيون کيڙين. اسان جي پاڙيسري ملڪ ڀارت جي راجسٿان واري علائقي ۾ جڏهن پاڻي پهچايو ويو ته اتي ٻاهرين ماڻهن کي فارم لاءِ زمينون ڏيڻ بدران مقامي ماڻهن جي سگهه وڌائي ويئي ۽ کين سهولتون ڏنيون ويون ته اهي پوءِ پنهنجون زميون پاڻ کيڙين. جيڪڏهن حڪومت وٽ ڪا اهڙي تجويز آهي ته ان تي نظرثاني ڪري ماڻهن جي حق ۾ پاليسي جوڙڻ جي ضرورت آهي.

اصل ڳالهه اها آهي ته ٿر جي زميني، معدني ۽ قدرتي وسيلن کي ڪمپنين ۽ ڪاروبارين جي نظر سان نه، پر عوام جي نظر سان ۽ عوام جي لاءِ ڏسڻ جي ضرورت آهي. اهو ئي ڀٽي صاحب جو فلسفو آهي جنهن جو زرداري صاحب پنهنجي تقرير ۾ حوالو ڏنو هو، اها ئي پيپلز پارٽي جي پرک بيهندي ته اها ڪهڙي پاليسي تي ٿي بيهي.

سندھ قلمکارکانفرنس ۔ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ، گنے کی قمیتیں

Sindhi Press, Sindh Nama   Sohail Sangi
سندھ کے قلمکاروں کی کانفرنس ۔ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ، گنے کی قمیتیں
سندھ نامہ          سہیل سانگی
9-11-2012
 

سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے بارے میں احتجاج جاری ہے۔ سندھ کے ادیبوں، شاعروں اور دیگر قلمکاروں کی ایک کانفرنس حیدرآاباد میں منعقد ہوئی، جس میں دوہرے نظام کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبے کے قلمکاروں کی یہ کانفرنس اس احتجاج سے الگ ہے جو مختلف سیاسی جماعتیں چلا رہی ہیں۔سندھ کے مخلتف اضلاع میں قتل، اغوا، لوٹ مار کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جس کو اخبارات نے اپنے صفحات کی زینت بنایا۔
 

روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ مائی کلاچ کی کل کائنات اور مورڑ و کے مسکن کراچی کو مقتل گاہ میں تبدیل کرنے کی کاروایاں بندنہیں ہوئی تھی کہ حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ شروع ہوگئی۔ صرف چارروز میں دس افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ شہر میں غیر یقینی اور خوف کا راج ہے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے لگتا ہے کہ ان قاتلوں کو سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے جو بیچ شہر میں لوگوں کو مار رہے ہیں ،مگر پولیس اور قانوں نافذ کرنے والوں کو نظر نہیں آتے ۔ ایک سندھ وہ ہے جہاں پر امن و امان حکمرانو ں کے بیانوں میں نظر آتا ہے، جہاں شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پے پانی پیتے لفظی تصویر میں دیکھایا جا رہا ہے۔ خوں اور بد امنی میں جلتے ہوئے سندھ کی راج دھانی میں حکومت دوربینی سے دیکھنے سے بھی نہیں ملتی ۔ریاست کی آنکھ اورکان سمجھے جانے والے ادارے اپنی سماعت اور بصارت کیسے کھو بیٹھے ہیں کہ ان کو لوگوں کو مارنے والا راکشس نظر کیوں نہیں آتا۔
 

حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو امن و امان کی صورتحال پورے سندھ میں ٹھیک نہیں۔ مگر کراچی میں تو قانون اپنے وجود کی ثابتی دینے سے بھی قاصر ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ میں روزانہ ایک درجن افرادقتل کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں رینجر زاور پولیس بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود ٹارگیٹ کلنگ پر کنٹرول نہیں ہو سکا ااب یہ سلسلہ حید آباد میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں نا کام ہو گئی ہے۔ چار دن سے جاری حیدرآباد میں ٹارگیٹ کلنگ اور بدامنی کو حکومت سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ۔ چوتھے روزنتظامیہ کو ہوش آیا اور اس نے موٹر سائیکل پربل سواری پے پابندی لگادی ۔یہ الگ بات ہے کہ اس حکم پر کتنا عمل ہوگا۔ سندھ میں امن دشمن مافیا اتنی طاقتور ہیں کہ وہ جب چاہیں،جہان چاہیں، جو چاہیں کر سکتی ہیں گزشتہ روز حیدرآباد میں دن بھر اور پھر رات کو بھی فائرنگ ہوتی رہی۔
 

حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس نے امن دشمنون کو گرفتار کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں امن امان پے قابو پانا مشکل کام ہے مگر حیدرآباد جیسے چھوٹے شہر میں بھی حکومت نظر نہیں آتی۔ محرکات تو پتہ نہیں کیا ہیں مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے سندھ میں رینجرز صوبائی انتظامیہ کی معاونت کر رہی ہے ۔جب بھی اس کی واپسی کی بات ہوتی ہے  سندھ بھر میں خاص طور پر بڑے شہروں میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ امن دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے محرم الحرام کے اجتماعات کو دہشتگردی کا نشانہ بنا تے ہیں جاتا ہے۔ اب محرم میں چند روز باقی ہیں تو اس قسم کی کاروائی تشویشناک ہے۔ 
 
’’روزنامہ عوامی آواز‘‘ لکھتا ہے کہ ہر سال کی طرح رواں سال بھی سندھ کی شوگر ملوں نے ابھی تک گنے کی پیسائی شروع نہیں کی جسکی سب سے بڑی وجہ گنے کی قیمیوں پر عمل کرانا ہے۔ کاشتکار تنظیموں کا اصرار ہے کہ حکومت گنے کی قیمت300روپے فی من مقرر کرے۔شگر ملز کی تنظیم پاسما ابھی تک گنے کی قیمت مقرر نہیں کرا سکی ہے ۔جس کی وجہ سے شگر مل مالکاں اور کاشتکار اس معاملے پر الجھے ہوئے ہیں ۔
 

گنے کی قیمت مقررنہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک شگر ملز نے اینڈینٹ جاری نہیں کئے ہیں۔ سندھ میں شگر ملز مالکان بااثر شخصیات ہیں۔ اکثر مالکان حکومت میں شامل ہیں جس کی وجہ سے پاسما بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہے ۔ ایہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ پاسما نے کاشتکاروں کو مالی فائدے دینے اوربہتر امدادی قیمت پر عمل درآمد کرانے کے بجاے شگر مل مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
 

قانون کے تحت شگر ملزکی چمنی اکتوبر میں جلانی ہے۔ اور نومبر کے پہلے ہفتے میں گنے کی پیسائی شروع کرنی ہے۔ مگررواں سال نومبر کے پہلے ہفتے میں چمنیاں جلی ہیں ان کے بوائلر کوگرم ہونے میں 20سے 25دن لگیں گے۔ شگر ملز مالکان کا رویہ دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دسمبر بھی گذر جائیگا۔نومبر دسمبر کے دو مہینے گندم کی کاشت کے لیے اہم ہیں۔
 

اصولی طور گنے کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ہو جانی چاہیئے کیونکہ اس مدت میں بھر پور رس والا گنا شگر ملز کو ملتا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جائے گا گنا سوکھتا جائے گا اس صورت میں کاشتکاروں کا دو طرفہ نقصان ہو گا۔ ایک گنے کی بہتر پیداوار نہیں دے سکے گے دوسرا یہ کہ گنے کی کٹائی کے بعد گندم کے لیے زمیں کو تیار کرنے کے لیے 20سے25دن در کار ہوتے ہیں۔گنا دیر سے نکلے گا تو گندوم بھی دیر سے بوئی جائے گی۔ حکومت کو چاہے کہ شگر ملز مالکان کو شگر ایکٹ پر عمل درآمد کرائے اور مقرر وقت پر گنے کی امدادی قیمت مقرر کر کے گنے کی پیسائی شروع کرائی جائے۔
’’

روزنامہ سندھ ایکسپریس ‘‘لکھتا ہے کہ برسوں سے محرومی کا شکار سندھی سماج کا ایک مستقل المیہ پرانے جھگڑے ہیں جن کا آغاز انتہائی معمولی باتوں پر ہوتا ہے تھا مگر بعد میں یہ انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں گاؤں کے گاؤں اجڑ جاتے ہیں۔ نسلوں کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ ان تنازعات کے اسباب کیا ہیں ان کے حل کے لیے قانوں اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے کتنے مؤثر ثابت ہوئے ہیں؟ اس ا مر پہ غور کیا جائے تو مایوسی ہوگی۔
عملی طور ایسا لگتا ہے کہ برادری کی حاکمیت اور انتظامی طلسم کا کاروبار ایسے جھگڑوں پر ہی چلتا ہے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ علاقے میں موجود قانوں نافذ کرنے والے ادارے اورر انصاف گھروں کی موجودگی میں معاملات چنگاری سے شعلہ بن جاتے ہیں۔ لوگ بات چیت کے بجائے بندوق سے معاملات حل کرکے اپنی زندگیاں زہر بناتے ہیں۔
 

سکھر کے علاقے میں لکھن برادری میں پرانا جھگڑا بھڑک اٹھا ہے۔سندھی قوم کی اپنے ہی ہاتھوں یہ نسل کشی کچھ نہیں چھوڑے گی۔لکھن برادری کا یہ جھگڑا 1975 میں شروع ہوا تھاوہ اب تک ایک عورت سمیت دس افراد کی جان لے چکا ہے۔ زمین کی ملکیت پر یہ تکرار شروع ہوا تھا جس کا فیصلہ 37 سال میں بھی نہیں ہو سکا۔ ہم سندھ کو اجاڑنے والے اس مظہر پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں اورقانوں اور
 

انصاف مہیا کرنے والے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان تنازعوں کو ختم کرنے کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کریں۔

 

Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi 
9-11-2012

بلدیاتی اتحاد کے خلاف احتجاج جاری . بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی.

بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی.   بلدیاتی اتحاد کے خلاف احتجاج جاری, 
سندھ نامہ سہیل سانگی
25-09-12
سندھ میں بلدیاتی
نظام کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ دن بدن جارحانہ ہوتا جا رہاہے۔بلدیاتی نظام کے خلاف سندھ کی اپنی آواز تسلیم کرنے کے بجائے وہ قوم پرستوں پر کو مورد الزام ٹہرا رہی ہے کہ وہ پنجاب کی ایما ء پر خاص طور پر نواز شریف کے کہنے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلارہی ہے۔رواں ہفتے کے دوران بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسلم لیگ فنکشنل لیگ اس پورے احتجاج کو کیش کرنا چاہ رہی ہے۔پیر پگارا نے سندھ کے قلم کار وں کے ایک نمائندہ وفد نے ملاقات کی اور انہیں سندھ کی وحدت کے لیے اپنی حمایے کا یقین دلایا۔سندھ بچایو کمیٹی نے عید کے بعد تحریک کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا ہے۔یہ سب واقعات سندھ کے اخبارات کا خبروں، اداریوں اور کالموں میں موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس تمام سیاسی کرماگرمی کے باوجود اخبارات مقامی مسائل کو بھی فوکس کررہے ہیں۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے موجودہ حکومت کیجانب سے نوجوانوں کو مختلف ہنر، مہارتوں میں تربیت دے کے ان کو روزگار کے قابل بنانے اور بیروز گاری کے خاتمے کے لیے شروع کیا جانے والا بینظیر بھٹو یوتھ ڈولپمیٹ پروگرام بہتر نتائج نہیں دے سکاہے۔ حکومت وعدے کے مطابق تر بیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکی ہے۔اس پروگرام کے تحت صحت کے شعبے میں ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دینی تھی۔ مگر صحت کے 19مختلف شعبوں میں تربیت التواء کا شکار ہے ۔سندھ کے 31 تربیتی مراکزپر کام کرنے والے 366ڈاکٹرز،اور پیرامیڈیکل عملے کو آٹھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ۔چار ہزار سے زائدزیر تربیت نوجوان تیں ماہ سے وظیفے سے محروم ہیں ۔ اس پروگرام کا یہ پانچواں مرحلہ ہے جوالتواء کا شکار ہوا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی نے بجٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے فورا بعد بیروزگاری کے خاتمے کے لیے جو اہم قدم اٹھائے تھے ان میں سے ایک قدم بینظیربھٹو یوتھ ڈولپمیٹ پروگرام بھی ہے۔ مگر یہ پروگرام بہتر منصوبہ بندی اور حکومت کی غیرسنجیدگی کے باعث بہتر نتائج نہ دے سکا ۔حکومت نے یہ پروگرام شروع تو کیا مگر اس کو کامیابی سے چلا نہ سکی ۔اس پروگرام کے تحت تربیت مکمل والوں کو حکومت نے ملازمتیں دینے کا اعلاں کیا تھا۔نہ صرف اتنا بلکہ یہ بھی وعدہ کیا تھا کے تر بیت مکمل کرنے والوں کو ملازمت کے لیے بیرون ملک بھی بھیجا جائے گا۔حکومت اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکی ۔ اس تربیت کا کیافائدہ ؟ا حکومت نے اتنا خرچ بھی کیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔تربیت یافتہ نوجوانوں کا ایک لشکر تیار ہے جوملازمتوں کے انتظار میں ہے۔
اس پروگرام میں بے قاعدگیوں کے کی خبریں میڈیا تک پہنچی ہیں۔ لاتعداد ایسے نوجوان ہیں جو سفارش کی بنیاد پے اس پروگرام میں کاغذوں میں تربیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کو وظیفہ بہی ملتا رہا ہے دوسری طرف لاتعداد نوجوان وظیفے سے محروم ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ تربیت کے معیار پربھی کئی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کہ یہ پروگرام اگر ہترین منصوبہ بندی کے ساتھ چلایا جاتا تو اس کے بہتر نتائج ملتے۔حکومت نے بیروزگار نوجوانوں کا لشکر تو پیدا کر دیا ہے مگر جس مقصد کے لیے یہ تربیت دی گئی یعنی روزگار کے لیے وہ وعدہ پورانہیں کیا جاسکا ۔حکومت سندھ سے گذارش ہے کہ اس پروگرام کے تحت تربیت مکمل کرنے والوں کو روزگار فراہم کیا جائے پروگرام کو چلانے اور اس کے مقرر ہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے فنڈ جاری کیے جائیں۔

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے ادبی اور سیاسی حلقوں نے مشترکہ طور پہ ایک بار پھر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کومسترد کردیا ہے۔مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ کے سینئر ادیبوں اورصحافیوں نے خبردار کرکیا ہے کہ جب تک حکومت آرڈیننس واپس نہیں لیتی تب تک حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی۔
ادبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سندھ کے سیاسی ، قومپرست اور ادبی حلقوں سے بات کرنے کو تیار ہے تو کم سے کم سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012پرعمل درآمد روک دے۔انکا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے تو دوسری طرف کراچی میں ٹاؤن بحال کرکے وہاں ٹاوٗن آفیسرز کا تقررکر رہی ہے۔ 
سندھ کے عوام باشعور ہیں وہ اپنا نفع نقصان خوب سمجھتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس سے صوبے میں دوہرا نظام نافذ قائم ہو جائیگا اور یہ متنازع اور سندھ دشمن ہے کیونکہ یہ سندہ کو انتظامی طور تقسیم کرنے کا قانون ہے اس بنیاد پے آگے چل کے کچھ حلقے الگ صوبے کا مطالبہ کر سکتے ہیں لہٰذا سے سندھ کے عوام کو کافی خدشات ہیں ۔
سندھ کے ادیب ،صحافی، سیاسی جماعتیں،قوم پرست حلقے تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ متنازع بلدیاتی نظام ختم نہیں کیا جاتا۔ سندھ پر جب بھی برا وقت آیا ہے تو سندھ دوست سیاسی جماعتوں ،قومپرست جماعتوں ادیبوں ،سول سوسائٹی اور سندھ کی عوام نے مل کے اس کی جغرافیائی وحدت پر وار نہ کرنے ،سندھیوں کا قومی تشخص برقرار رکھنے اور سندھی زبان کو بچانے کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سندھ کے سینئر صحافی اورادیب پیر پاگارا کی رہائش گاہ پر سندھ کے وجود پر وار کے خلاف جمع ہوئے اور مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر گاوں اور بستی میں جا کے اس آرڈیننس کے منفی اثرات کے بارے میں لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح سندھ کوتقسیم کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر کراچی میں پانچ اضلاع کوختم کرکے ایک انتظامی یونٹ بنا دیا گیا ہے۔ کراچی کی سندھی آبادی کے لاکھوں لوگوں کو کس طرح اتحادی جماعت کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کچھ ادارے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس لسانی پارٹی کے پاس مسلح ونگ بھی ہے جو کراچی سے سندھیوں، بلوچوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں کو نکالنا چاہتا ہے۔

سینئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کے ٹارگیٹ کلنگ بھی اس منصوبہ کا حصہ ہے ۔اور کراچی میں پی پی کے خاتمے کی ذمہ دار بھی یہ ہی اتحادی جماعت ہے۔کچھ عرصہ قبل پی پی کراچی ڈویزن کے صدر نے بھی پی پی رہنماوں کے ٹارگیٹ کلنگ سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی تھی مگر پی پی کے رہنماوں نے اپنا اتحاد برقرار رکھنے کے لیے اس کو چپ کرا دیا ۔ حکومت کی یہ اتحادی جماعت نے اقلیت میں ہے مگروزیر اعلیٰ کا عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے میئر کے نام پے وزیر اعلیٰ کے سب اختیارلینے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد ریاست کے اندر ریاست قائم کرنا ہے۔


روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی میں ایک عرصے سے امن کا خواب بن گیا ہے ۔روزانہ ایک درجن افراد ٹارگیٹ کلنگ میں مارے جاتے ہیں جب کے ڈاکے لوٹ مار روز کا معمول ہیں۔ منگل کے روز کراچی میں بدامنی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سندھ حکومت، رینجرزاور پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے کہا کہ آئین کے آرٹیکل۹کے تحت شہریوں کی جان اور مال کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے۔ مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں شہریوں کو تحفظ مہیا کرنے سے متعلق عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا ۔
عدالت نے صدارتی کیمپ آفیس بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی کے لیے روڈ پے دیوار تعمیر کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ سرکاری روڈ پر 50فٹ دیوار کھڑی گئی ہے کوئی بھی سرکاری روڈ پے قبضہ نہیں کر سکتا۔ اگر ضرورت ہے تو روڈ خرید کر لیا جائے۔ عدالت نے پولیس اور رینجرز کی جانب سے شہر میں نو گو ایریاز کے خاتمے کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے کہا کہ پورا شہر نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ ایک علاقے کا آدمی دوسرے علاقے میں نہیں جاتا ہے تو بوری میں بند لاش ملتی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ کراچی میں اتنی نفری ہونے کے باوجود اب تک آخر موت کے سوداگر کے ہاتھ روکے کیوں نہیں جا سکے ہیں ؟ ان سوداگروں نے ادو دہائیوں میں کتنے گھر اجاڑے؟اس پر قانوں نافذ کرنے والے اورسرکاری حلقے غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ بہر حال کراچی ملکی معیشت کے لیے حب کی حثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا امن ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار کر سکتا ہے۔ لہٰذاہر حال میں امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ کراچی کو کسی بھی سیاسی مصلحت سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیے ۔ ہر اس حلقے اور گروپ کے خلاف سخت کاروائی کی جائے جو کراچی کا امن بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

کراچی میں اسلحے کے انبار ہیں جس کے زور پے مجرموں نے دہشت کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ جب تک کراچی کو اسلحے سے پاک نہیں کیا جاتا امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
 

Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi 
25-09-12

بارشوں کی تباہی، متاثرین کی حالت زار - اور نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج

سندھ نامہ          سہیل سانگی
بارشوں کی تباہی، متاثرین کی حالت زار - اور نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج 

سندھ کے اخبارات بارشوں سے ہونے والی تباہی، متاثرین کی حالت زار اور صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاجوں کو موضوع بنایا ہے۔ ان دو معاملات پر خبریں، کالم اور تبصرے بھرپور انداز میں شایع ہوئے ہیں۔

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ بچاؤ کمیٹی کی اپیل پر سندھ کے عوام نے پر امن ہڑتال کرکے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے خلاف خدشات ، غم و غصے کا اظہار کیا۔سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ہوتی ہیں اور جمہوریت جمہور سے جڑی ہوتی ہے یہ عوام ہی ہیں جو نمائندوں کو اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں۔ حکمرانی کا حق دیتے ہیں۔ لہٰذا حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایسے کام کرے جس سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ حکمران ، نوکرشاہی ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سب کے سب عوام کے خادم ہیں ریاست کے حقیقی وارث عوام ہیں جمہوری اداروں میں فیصلے ہمیشہ جمہور کے دیئے گئے مینڈیٹ کی روشنی میں کئے جاتے ہیں۔جہاں عوام سمجھتے ہیں کہ بادشاہ سلطنت اور رعایا کے حق میں فیصلے نہیں کرتا ہے تو اس ملک کی رعایا بادشاہ کو تخت سے اتار کر تختی پر بٹھا دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر جمہوری حکومت میں آمرانہ فیصلے ہونگے تو ان حکمرانوں کا حشر پرویز مشرف جیسا ہوگا۔

سندھ کے عوام کہتے ہیں کہ جب اسمبلیاں موجود ہیں تو رات کی تاریکی میں سندھ لوکل گورنمنٹ آردیننس جاری کیا گیا۔ جبکہ گزٹ نوٹیفکیشن کئی روز بعد آٹھ شیڈول میں سے ایک شیڈول کے ساتھ جاری کیا گیا ۔ جبکہ باقی سات شیڈول ابھی تیاری کے مرحلے میں ہیں۔ 
سندھ کے عوام حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر حکومت کو ایسی کیا جلدی تھی کہ اسمبلی میں بل لانے کے بجائے آرڈٰننس جاری کیا گیا۔اور آڈیننس بھی اتنی عجلت میں کہ اس کی شقیں سندھ حکومت نے پریس کانفرنس میں بتائیں، گزٹ نوٹیفکیشن میں نہیں۔ سندھ کے عوام نے ہڑتال کر کے اپنی طاقت اور عوام کی رائے کا اظہار کر چکی ہے۔ تو  سندھ حکومت کو عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔حکومت نے ہڑتال کے دوران عوام کا نقط نظر دیکھنے کے بجائے ہڑتال کے دن ہی گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے عوام کے دکھ اور غصے میں اضافہ کر دیا۔ 
دوسری طرف سندھ بچاؤ کمیٹی نے مزید ہڑتالوں اور قومی شاہراہوں کو بلاک کرنے کا اعلان کرچکی ہے ۔ کمیٹی کے رہنماؤں نے دھمکی دی ہے کہ جب تک آردیننس واپس نہیں لیا جاتا شاہراہوں پر دھرنے ختم نہیں کئے جائیں گے۔ یہ دھرنے طویل عرصے چلے تو ملک میں آمدرفت اور رسد کے ذرائع بند ہو جائیں گے تو۔دوسری طرف نیٹو کی سپلائی بھی بند ہو جائے گی۔ سپلائی بند ہونے کی وجہ سے باہر کی دنیا کو پاکستان کے لیے کوئی اچھاپیغام نہیں جائے گا۔ سندھ کے عوام بڑی مشکل سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے تیار ہوا تو اسٹبلشمنٹ نے عوام کو آپس میں لڑا کر الجھا دیا سندھ کے عوام سمجھتے ہیں کہ اپنے وجود اور سندھ کو بچانا ہے کیونکہ تاریخ میں ان کی پہچان سندھ سے ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سندھ کے عوام کٹ کے مر تو سکتے ہیں مگر سندھ کو تقسیم کرنے والے کسی بھی وار یا آرڈینس کو قبول نہیں کرینگے۔
 ہم سندہ حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ جمہوریت کی دعویداروں کوجمہور کی آواز سنے کیونکہ و ہی سندھ کے اصل وارث ہیں اگر سندہ کے عوام ہڑتال کرکے اس آرڈینس کومسترد کر چکے ہیں۔ سندہ حکومت کو بھی وہی فیلصلہ کرنا چاہہئے ے جو عوام چاہتے ہیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے خبرشایع ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ میں موجود وڈیرہ شاہی کی وجہ سے مظلوم عورت کی زندگی ہر وقت موت کے سائے میں کٹتی ہے۔ یہاں پولیس جاگیرداروں کے ساتھی کی صورت میں وڈیروں کو مکمل چھوٹ دیئے ہوئے ہے کہ وہ جس طرح چاہیے کریں اور جس کو چاہیے موت کے گھاٹ اتاریں، گاؤں میں اگر ان کی بات کوئی نہ مانے تو اس پہ جھوٹا کیس داخل کیا جاتا ہے یا گاؤں سے نکال دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی فریاد حد کی پولیس کے پاس درج نہیں ہوتی کیونکہ پولیس تھانے وڈیروں کے خرچ پہ چلتے ہیں۔ وڈیرے کی اوطاق پہ جرگہ ہوتا ہے جس میں حد کا ایس ایچ او بھی شریک ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک جرگہ کی خبر شکارپور کی ہے ۔
گنج پور تھانے کی حد میں خیر شاہ محلے کی صنم کو اپنی پسند سے جیون ساتھی چننے کے جرم میں جرگہ بلا کے گولیاں ماری گئی ۔رپورٹ کے مطابق گولیاں وڈیرے کی فتواسے اس کے گارڈز نے چلائیں۔ مگر پولیس کا کہنا ہے کہ وڈیرہ بے قصور ہے گولیاں لڑکی کے رشتیداروں نے چلائیں۔ کیس لڑکی کے ماموں کے خلاف درج لیا گیا ہے۔ فریاد کیلیے کے کس کے پاس جایا جائے؟ پولیس تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کے وڈیرہ بے قصور ہے۔ اب اس سے کس قسم کی تحقیقات کی امید کی جائے؟ سب سے پہلے لڑکی کا بیان لیا جائے جس کی زندگی گاؤں والوں نے بچائی۔ اایک غیرجانبدار کمیٹی تشکیل دی جاے جو گاؤں کے لوگوں کے بیانات قلمبند کرے۔ کیونکہ ان کو اصل حقیقت کا پتا ہوگا اس انسانیت سوز جرم کا فیصلہ پولیس کے حوالے نہ کیا جائے جس نیہمیشہ وڈیروں کی ڈھال اور ساتھی بن کے قانون اور انصاف کا سر جھکایا ہے۔


روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ حالیہ بارشوں کے بعد سندھ کے شمالی علاقوں کے شہر اور گاؤں زیرآب آگئے۔ وہاں اب وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ بارشوں میں مکانات گرنے اور پانی کی نکاسی نا ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ دربدر ہیں۔ سکھر، شہدادکوٹ اور دوسرے شہروں اور گاؤں میں پانچ سے چھ فٹ پانی ہے۔ گذشتہ برس کی بارشوں کے بعد لوگوں نے بمشکل سکون کی سانس لی تھی کہ ر واں سال بارشوں میں ان کے گھر کھیت سب زیر آب آگئے۔تاحال انتظامیہ نے کوئی رلیف نہیں دیا اگر ان علاقوں سے پانی نہ نکالا گیا تو وبائی امراض کی وجہ کئی جانیں ضایع ہو سکتی ہیں۔ ان علاقوں سے پانی نکال کے کم سے کم لوگوں کو بیماریوں سے بچایا جائے ۔
اب بارشیں تو ختم ہوگئی ہیں مگرمختلیف نہروں میں شگافوں کی وجہ سے گاوں زیرآبب آگئے ہیں۔نہ صرف لوگوں کے مکانات گرے ہیں بلکہ کئی جانیں بھی ضایع ہوئیں، ہزاروں ایکڑپر کھڑی فصلیں بھی پانی کی نذر ہوگئیں۔ گذشہ سال جن پشتوں کو مضبوط نہیں کیا گیا تو اس سال ہزاروں لوگ متاثر ہوئے اگر اس بار بھی یہ کام نہیں کیا گیا تو زیادہ نقصان ہوگا۔


روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت کا بارش متاثرین کی طرف رویہ یہ ہے کہ ان کی کوئی مدد نہ کی جائے اور اگر کی جائے گی تو عزت نفس مجروح کرکے۔ تذلیل کرکے ، ان پر لاٹھیاں برسانے کے بعد کی جائے گی۔اخبار لکھتا ہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ گھوٹکی سے رپورٹ ہوا ہے جہاں ضلع کے مختلف گاؤں سے تعلق رکھنے والے لوگ امداد کی تقسیم کا سن کرمقامی سرکٹ ہاؤس پہنچے۔انتظامیہ نے سرکٹ ہاؤس کا گیٹ بند کر دیا۔
ہم گذشتہ دو سال سے سیلاب کے تجربے سے گزرے ہیں ۔ ہمیں پتہ ہے کہ لوگوں کو سیلاب نے اتنا نہیں ڈبویا، جتنا سرکاری اہلکاروں کے رویے نے ڈبویا ہے۔سیلاب صرف پانی میں ڈوبنے کا نام نہیں، بلکہ سیلاب کے بعد جو مسائل جمن لیتے ہیں ان کا مقابلہ کرنا اتنا ہی ضروری ہے۔سیلاب کے متاثرین کو سب سے پہلے سر چھپانے کی محفوظ جگہ چہائے، اس کے بعد کھانا بھی چاہئے۔ 
سیلاب کے بعد جو امراض پھوٹ پڑتے ہیں انکا علاج بھی ضروری ہے۔ کہیں گیسٹرو، کہیں ملیریا تو کہیں چمڑی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ حکومتی ادارے متاثرین کی کتنی مؤثر مدد کر رہے ہیں؟ اس کا اندازہ وزیراعلیٰ کے رلیف سے متعلق مشیر کے رونے سے لگایا جاسکتا ہے ، جو متاثرین کی حالت زار دیکھ کر رو دیئے تھے۔کوئی بھی سرکاری اہلکار ایسی بات نہیں کرتا ہے جس سے حکومت کی ساکھ خراب ہو۔ظاہر ہے کہ جب انہوں نے ایسے حالات دیکھے اور سرکاری اہلکاروں کی بے حسی دیکھ کے رونا آگیا۔
یہ بات حکومت کی بے بسی اور بے حسی دونوں کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج لاکھوں افراد امداد کے منتظر ہیں جن کی وقت پر مدد نہ کی گئی تو انسانی سانحہ ہونے کا امکان ہے۔

20-9-12

Tuesday, June 16, 2015

سندھ میں یہ ہفتہ بھاری گزرا




 سندھ میں یہ ہفتہ بھاری گزرا
سندھ نامہ سہیل سانگی
 بلدیاتی نظام, پیپلز پارٹی ایم کیو ایم معاہدہ, صوبے بھر میں ہڑتال, متروکہ املاک ٹرسٹ
سندھ میں یہ ہفتہ بھاری گزرا۔ صوبے کے بالائی حصے میں بارشوں نے تباہی مچا دی جس میں ابھی تک ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ شکارپور، جیکب آباد اور کندھ کوٹ کے ضلع ہیڈکوارٹرز میں تین تین فٹ پانی کھڑا ہوگیا۔ ہزاروں مکانات مسمار ہوگئے۔
کروڑوں روپے کی املاک کا نقصان ہوا۔ کراچی کی فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جس میں تین سو افراد جاں بحق ہوگئے۔ 
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں متنازع اور دہرا بلدیاتی نظام آڈیننس کے ذریعے نافذ کیا گیا جس پر حکومت کی تین اتحادی جماعتوں مسلم لیگ فنکشنل، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنیل پیپلز پارٹی نے ناراضگی کا اظہار کیا اور حکومت سے علحدگی اختیار کر لی۔ نہ صرف اتنا بلکہ ان جماعتوں نے قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر 13 ستمبر کو صوبے بھر میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔ ہڑتال کے اس اعلان میں نواز لیگ بھی شامل تھی مگر ای روز قبل ہڑتال کی کال سے علحدگی اختیار کر لی۔
نئے بلدیاتی نظام پر کامیاب ہڑتال ہوئی کاروبار بند رہا۔ صوبے بھر میں احتجاج ہوا۔ سندھ کے تمام اخبارات نے ان تینوں واقعات پر اداریے لکھے اور مختلف کام نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیے شایع کئے ہیں۔ ان کالم نگاروں نے بارش کے حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے بروقت ناتظام نہ کرنے پر تنقید کی ہے، جبکہ بلدیاتی نظام کی سندھ کی میڈیا نے متفقہ طور پر مخالفت کی ہے۔

روزنامہ عبرت نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ نئے نظام کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔ ایک طرف اس آرڈیننس کع سپریم کورٹ میں چیلینج کرکے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ یہ نظاک غیر منصفانہ ہے۔اور سندھ کی دیہی اور شہری آبادی کے درمیان تضادات اور فاصلوں کو مزید بڑھانے کا بسب بنے گا۔یہ نظام دیہی اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دلانے میں ناکام رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین کی شق نمبر 4، 5 A ، 25، 32، 140 کے خلاف ہے۔لہٰذا اس آرڈیننس کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا جائے۔اخبار لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض وزراء نے قوم پرست جماعتوں کو تانگہ پارٹی کہہ کر م ان کے دباؤ میں نہ آنے کی بات کی ہے۔بلدیاتی نظام کا مسئلہ اپنی جگہ پر مگر جو اس حوالے سے زبان استعمال کی گئی ہے وہ مسئلے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھائے گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے سندھ میں نہ صرف قوم پرستی وجود رکھتی ہے بلکہ قوم پرست جماعتوں کے حامی بھی لاکھوں میں ہیں۔اس کا ثبوت کراچی میں بشیرخان قریشی کی رہنمائی میں نکالی گئی ریلی ہے۔اس کے علاوہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی جیت میں بھی قوم پرستی کا خاصا عمل دخل ہے۔لہٰذا اس طرح کی زبان استعمال کرکے لاکھوں لوگوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے محکمہ بین الصوبائی رابطہ نے خط لکھ کرصوبے کے تمام محکموں کو مطلع کیا گیا ہے کہ سندھ میں موجود متروکہ املاک ٹرسٹ کے زیر انتظام دو ہزار سے زائد تاریخی عمارات جس میں شیوا کنج ہوسٹل، ہندو جیمخانہ، میٹھارام ہاسٹل، سمیت ساٹھ اہم مندروں ، ہاسٹلوں اور دوسری عمارتیں ایک بار پھر ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ی

ہ عمارتیں سندھ کی ہندو کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلیے وقف تھیں مگر قیام پاکستان کے بعد حکومت نے ان تاریخی عمارتوں پر قبضہ کرکے کئی عمارتیں سرکاری محکموں کو الاٹ کرکے ان میں سرکاری دفاتر اور ہوسٹل قائم کیں۔ جب کہ بعض عمارتوں پر غیرقانونی قبضہ کرکے ان میں گھر قائم کئے گئے۔ بعض مندروں ،آتش کدوں، ریڈیو پاکستان کراچی کی بلڈنگ، رتن تلاؤ اور آرام باغ کے پاس موجود قدیم مندروں کو ذاتی یا سرکاری مقاصد کے لیے استعمال میں لایا گیا۔
اب ان عمارتوں کو ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔ دیکھنا یہ ہے یہ عمارتیں ان کو عملی طور ملتی بھی ہیں یا نہیں۔ وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ نے لیٹر جاری کردیا ہے ۔ ان متروکہ املاک کے بارے میں فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے 6 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔
سندھ میں متروکہ املاک سے جو سلوک روا رکھا گیاجو کسی مخالف کے ساتھ بھی نہیں رکھا گیا۔ متروکہ املاک دراصل علاقے کے لوگوں اور عوام الناس کے لیے ہندو سیٹھوں نے وقف کی تھیں اور قیام پاکستان سے پہلے یہ جائداد ان ہی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں مگر بعدمیں متروکہ جائداد کو مال مفت سمجھا گیا۔
کراچی حیدرآباد اور دیگر کئی مقامات پر ہندوؤں کی تاریخی عمارتوں پر غیر قانونی قبضہ کرنے اور ان کو گرا کر وہاں مکانات تعمیر کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ جب ہندوٗوں کی چھوڑی ہوئی املاک کو وفاقی حکومت کے محکمہ متروکہ املاک نے لوگوں کو لیز پر بھی دیا۔ متروکہاملاک ٹرسٹ کی جائداد صرف فلاحی مقاصد کے لیے ہوتی تھیں۔ کسی بھی فلاحی مقصد کے لیے مخصوص پلاٹ، زمین ،عمارتوں یا عبادت گاہوں کو نہ وفاقی حکومت کسی کو لیز کرنے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ اختیارات سندھ حکومت کو حاصل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں متروکہ املاک ٹرسٹ کے زیرانتظام زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کئے گئے ہیں۔ اور کمرشل عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے پنجاب میں متروکہاملاک کا معاملہ حل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کیا ہے۔
حکومت سندھ سندھ میں دو ہزار سے زائد متروکہاملاک جس میں عمارتیں ، ہوسٹلز ، منداور دیگر عبادت گاہیں شامل ہیں ان کو دوبارہ ہندو کمیونٹی اور ان کی تنظیموں کے حوالے کرنے کے فیصلہ ایک احسن قدم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج متروکہ املاک اور ان پر کئے گئے قبضے خالی کراکے ہندوؤں اور ان کے نمائندہ تنظیموں کے حوالے نہ کی گئیں تو ان عمارتوں کی نہ صرف تاریخی حیثیت ختم ہو جائے گی بلکہ ان پر مفاد پرست عناصر اور لینڈ مافیا قبضہ کر لے گی۔ اور ان فلاحی مقاصد کے لیے مخصوص کی گئی عمارتوں ، عبادت گاہوں اور زمینوں کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ کیونکہ ان تاریخی عمارتوں کی وہی حفاظت کر سکتے ہیں۔ جو ان تاریخی عمارتوں اور املاک کے اصل مالک ہیں۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں حالیہ بارشوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ہمارے پاس جگاڑی انفراسٹرکچر ہے اومعمولی بھی بارش ہوتی ہے تو شہروں خواہ دیہات کی حالت بری ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف اموات واقع ہوتی ہیں اور بچا کھچا انفرا سٹرکچر بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ بارشوں میں سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہوتا ہے۔ایسے مواقع پر حکومت اور انتظامیہ غائب ہوتی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت انتظامات کرتے ہیں۔اگر حکومت انفرا اسٹرکچر کو ہی بہتر بنانے کی کوشش کرے تو ہم کئی تباہیوں سے بچ سکتے ہیں ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بارشوں سے قدیم تہذیب کی علامت موہن جو دڑو کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔اس تاریخی مقام کے مختلف حصوں میں پانی کھڑا ہے۔جس کی نکاسی نہیں ہوپائی ہے۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور انکے گرنے کا خطرہ ہے۔

روزنامہ کاوش’’ بارش میں مرنے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے سرکاری ادارے ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب لوگوں کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے تب سرکاری ادارے ان کی مدد کرنے کے بجائے مذاق اڑانے لگتے ہیں، لوگوں کا مذاق اڑانے کی باری ہر ادارے نے لی ہے۔ اس مرتبہ این ڈی ایم یعنی نیشنل ڈزاسٹر اتھارٹی کی تھی۔ جس کو حالیہ بارشوں میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد صرف چارنظر آئے۔
نادارا سے لیکر نیپرا تک اور پیمرا سے لیکر این ڈی ایم تک یہ اتھارٹیز اتنی بے رحم کیوں ہیں۔جن کو باقی تو سب کچھ نظر آتا ہے مگر عوام یا لوگ نظر نہیں آتے۔این ڈی ایم کا قیام ہی اس مقصد کے لیے لایا گیا ہے کہ یہ ادارہ کسی آفت کی صورتحال میں لوگوں کو رلیف پہنچائے اور ان کو بچانے کا بندوبست کرے۔متاثرہ لوگوں کو بچانا تو دور کی بات یہ ادارہ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔این ڈی ایم کے سربراہ نے بارشوں سے پہلے شدید سیلاب کا خطرہ ظاہر کر کے حکومت سے خطیر رقم کا مطالبہ کیا تھا۔آج جب اتنی تباہی ہو چکی ہے تو انسانی جانیوں کے کم تعداد کیوں پیش کررہا ہے۔اس سوال کا جواب اتنا مشکل نہیں۔ کیونکہ اس ادارے کا فائدہ زیادہ نقصان دکھانے میں ہے ، انسانی جانیں ضایع ہونے کے اعداد وشمار میں نہیں۔
اس ادارے نے بڑی رقم کا مطالبہ بھی اس لیے کیا تھا کہکہانتظام کاری کے نام پر کچھ کمایا جائے۔بعض ایسے ادارے ہیں جن کو ایسے انتظامات کرنے ہیں کہ نقصانات نہ ہوں۔ مثلا محکمہ آبپاشی کی کارکردگی اگر بہتر ہو تو کینالوں اور نہروں میں شگاف نہیں پڑیں گے۔ اگر شہری اداروں کی کارکردگی اچھی ہو تو گلیوں اور گھروں پانی کھڑا نہ ہو۔اگر افسر شاہی بہتر ہو تو بے گھر افراد یوں لاوارث اور پریشان نہ ہوں۔ان کے لیے کوئی کیمپ موجود ہو۔مگر یہ سب ادارے اور ان کے افسران اور کوئی بھی کام کر سکتے ہیں مگر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے جو عام لوگوں کے بھلے کا ہو،بعض ادارے ایسے ہیں جن کو کسی آفت کے آنے سے پہلے کردار ادا کرنا ہے۔
دوسری کیٹگری ان اداروں کی جن کو آفات آنے کے بعد انتظامات کرنے ہیں۔اس کیٹگری میں محکمہ رلیف، محکمہ بحالیات اور این ڈی ایم
شامل ہیں۔اتنے سارے محکمے اور ضلع انتظامیہ ہونے کے باوجود لوگوں کی حالت قابل رحم ہے۔

14-09- 2012

محکمہ صحت سیاست کی نذر

محکمہ صحت سیاست کی نذر
سندھ نامہ         سہیل سانگی
6-09- 2012
سندھ کے اخبارات نے صوبے میں بلدیاتی نظام کے لیے دو اتحادی جماعتوں کے درمیان جاری مذاکرات اور صدر آصف علی زرداری کے دورہ کراچی ، سندھ سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس کو موضوع بحث بنایا۔

 

روزنا مہ کاوش ’’قومی مفاد میں جاری کردہ آرڈیننس‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ اب تمام نان کیڈر افسران جو کیڈر عہدوں پر مقرر ہیں انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔اور وہ افسران جنہوں نے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کیں، اور وہ ریٹائرڈ ملازمین جنہیں قومی مفاد میں دوبارہ ملازمت میں رکھا گیا ہے وہ بھی پریشان ہونا چھوڑ دیں۔کیونکہ اب انہیں قانونی تحفظ مل چکا ہے۔اورانہیں کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا۔
 

گورنر سندھ عشرت العباد نے آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دے سکتے ہیں بلکہ ڈیپیوٹیشن، انضمام اور کانٹریکٹ کی بنیاد پر تقرریاں بھی کر سکتے ہیں۔
سندھ سول سرونٹس سروسز ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کسی بھی سول سرونٹ کو غیرمعمولی کارکردگی کی بنیاد پرآؤٹ آف ٹرن ترقی ، ایوارڈ یا انعام دے سکتے ہیں۔


یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جن معاملات کو آرڈیننس کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے ان میں سے بعض مقدمات پر سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے۔جبکہ بعض مقدمات زیر سماعت ہیں۔جب اسمبلیاں موجود ہوں تو قانون سازی اسمبلیوں کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔ آرڈننس اس وقت جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی وجود نہیں رکھتی یا پھر کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے کہ اسمبلی میں یہ قانون پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مگر آج اسمبلی بھی موجود ہے، کوئی ایمرجنسی بھی نہیں۔تو پھر اتنی عجلت میں یہ آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟
 

ممکن ہے کہ نان کیڈر افسران، آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کرنے والے یا دوبارہ مقرر ہونے والے ریٹائرڈ افسران کو ایمرجنسی ہو۔اس طرح کی قانون سازی سے ممکن ہے چند سو افسران کا بھلا ہو جائے۔مگر اس سے مجموعی طور پر سروس اسٹرکچر کا جو بیڑا غرق ہوگا اسکاکسی آرڈیننس جاری کرنے سے بھی ازالہ ممکن نہیں۔
 

اس قسم کی قانون سازی سے جو تھوڑا بہت میرٹ بچا ہے اس کو بھی لپیٹا جارہا ہے۔کیڈر عہدوں پر کمیشن کے ذریعے تقرر ہوتا ہے۔مگر اب کہیں سے بھی کسی کو بھی اٹھاکر کسی اہم اور ذمہ د ار عہدے پر بٹھایا جا سکتا ہے۔پھر وہ سب نوجوان جو کسی بڑے انتظامی عہدے کے لیے اس وقت محنت کرکے کمیشن کی طرف راغب ہیں وہ اس قسم کی قانون سازی کے بعدخود میں میرٹ پیدا کرنے کے بجائے تمام صلاحیتیں اس پر لگائیں گے کہ جوں توں کرکے گریجوئشن کے بعد ملازمت حاصل کرکے کوئی سفارش تلاش کرکے کسی بڑے انتظامی عہدے پر چلے جائیں۔ گریڈ 17 کا ایک اسکول ٹیچرکوشش کرے گا کہ وزیراعلیٰ تک رسائی کرکے ڈی او روینیو لگ جائے۔گریڈ18 کا کالج لیکچرار یہ خواب دیکھے گا کہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا ایس پی لگ جائے۔یعنی اس کا تمام شعبوں پر اثر پڑے گا۔اور کہیں بھی کام کرنے کا اچھا اسپرٹ پیدا نہیں ہو پائے گا۔
’’

روزنامہ عبرت ‘‘کے کالم نگار سرفراز وسطڑو ’’ محکمہ صحت سیاست کی نذر‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ حیدرآباد سول ہسپتال جس میں اندرون سندھ کے مختلف علاقوں سے مریض علاج کے لیے آتے ہیں وہ آج کل پیپلز پارٹی اور اسکی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی سیاسی مداخلت کا شکار ہے۔ یہاں مریضوں کے علاج پر انتظامیہ کی توجہ کم اور اپنے عہدے بچانے پر زیادہ ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس ہسپتال کے بڑے عہدے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پی پی اور ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔
 

ان جماعتوں کے حامی ڈاکٹروں کے علاوہ بھی بعض ڈاکٹر بڑی بڑی رقومات دے کر یہ عہدہ حاصل کرنے کے جتن کر تے رہے ہیں ۔ آج کل دو بڑے ڈاکٹروں کیپٹن ڈاکٹر کاظم شاہ اور ایم کیو ایم کے حامی ڈاکٹر خالد قریشی کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر کاظم شاہ عہدے کا چارج لیکر ابھی ہسپتال کا کام کاج چلانے کی پوزیشن میں بمشکل آتے ہیں کہ ان کو ہٹا کر ڈاکٹر خالد قریشی کو میڈیکل سپرنٹینڈنٹ مقرر کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ہر تیسرے چوتھے روز ہوتا رہتا ہے۔میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ان دو ڈاکٹروں کے درمیان مقابلہ ان دو کو ذاتی فائدہ یا نقصان تو دیتا ہی ہوگا۔مگر اس سے زیادہ یہاں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

علاوہ ازیں حیدرآباد ضلع کے ایگزیکیوٹو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی جو اب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی پوسٹ ہے اس کے لیے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے حامی ڈاکٹروں کے درمیان سخت مقابلہ خاصے عرصے سے جاری ہے۔پہلے اس عہدے پر پیپلز پارٹی کے ٹنڈوالہیار سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے امداد پتافی کے والد ڈاکٹر بخش علی پتافی کو مقرر کیا گیا۔ بعد میں ایم کیو ایم کے ایک ذمہ دار عہدیدار کے رشتیدار کو یہ عہدہ دیا گیا۔ اسی طرح سے ہیپٹائٹس کی روک تھام والے پروگرام کے صوبائی منیجر ڈاکٹر عبدالمجید چھٹو کو مقرر کیا گیا۔

 

جیسے جیسے ملکی و غیر ملکی فنڈز اس پروجیکٹ میں آنے لگے ہیں کئی ڈاکٹروں نے یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ڈاکٹر چھٹو حال ہی میں جب امریکہ گئے ہوئے تھے تو ان کی غیرحاضری میں چانڈکا میڈٰکل کالج ہسپتال کے ڈاکٹر ذوالفقار سیال کو اس عہدے پر مقرر کیا گیا۔ جب ڈاکٹر چھٹو واپس آئے تو انہیں یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے ذریعے بڑی تگ و دو کرنی پڑی۔ مگر ایک ماہ کے بعد ان کو دوبارہ ہٹادیا گیا۔ کیونکہ نئے آنے والے کی سفارش اس سے بھی بھاری تھی۔
 

سندھ کے محکمہ صحت میں اب مریضوں کے علاج پر توجہ دینے کے عہدے حاصل کرنے کے لیے مال کمانے اور مال پہنچانے کا محکمہ بن گیاہے۔یہ تمام عہدے ایسے ہیں جہاں کروڑوں روپے کی مشنری اور دوائیں خرید کی جاتی ہیں۔ مگر زیادہ تر یہ دونوں چیزیں مریضوں پر استعمال کرنے کے بجائے صرف کاغذوں پر ہی رہ جاتی ہیں۔

’’سندھ کو یہ کیسا روگ لگ گیا ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عوامی آواز ‘‘لکھتا ہے کہ مورو شہر میں معصوم رضوان عباسی کے قتل کے سنگین واقعے نے ایک مرتبہ پھر سندھ میں اخلاقی دیوالیہ پن کو عیاں کر دیا ہے۔اگرچہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اب اس طرح کے واقعات نئے نہیں رہے۔ مگر اس طرح کے واقعات کے واقعات میں اضافہ سندھ کے شعور کے لیے دھچکہ ہیں۔ہر ایک یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ پھول جیسے سات سالہ رضوان عباسی نے کسی کا کوئی قصور یا گناہ نہیں کیا تھا۔اتوار کے روز معصوم رضوان کی لاش کھلے گٹر سے ملی۔ وہ تین روز قبل لاپتہ ہوگئے تھے۔ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ انہیں بدفعلی کے بعد تشدد کرکے قتل کردیا گیا۔ورثاء کے مطابق ان کی کسی سے بھی دشمنی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی غفلت کی وجہ سے ان کا بچہ قتل ہوا ہے۔

 

سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اسباب تھے کہ اس بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی اور بعد میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیاگیا۔کیا پولیس ملزمان کو گرفتار کر لے گی؟ ویسے تو پولیس اپنی جیبیں بھرنے کے لیے شک میں کئی لوگوں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کونسی سرزمین ہے کہ اس طرح کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔جہاں کبھی اخلاقی قدریں موجود تھیں اور جہاں عورتوں اور بچوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔یہ ایک چیلینج ہے سماج کے محافظوں کے لیے اور ان کے لیے بھی جو عوام کی نمائندگی کا دعوا کرتے ہیں۔کہ وہ اس سلسلے کو روکیں اور آئندہ اس قسم کا واقعہ نہ ہونے کو یقینی بنائیں۔
   Sindh Nama 6-09- 2012

سندھ نامہ ۔۔ جعلی بھرتی, کرا چی جاری دہشتگردی اور ٹارگیٹ کلنگ . امریکہ کی 20ریاستوں کی وفاق سے علحدہ ہونے کی پٹیشنز

سندھ نامہ: محکمہ تعلیم میںجعلی بھرتی, کرا چی  جاری دہشتگردی اور ٹارگیٹ کلنگ. امریکہ کی  20ریاستوں  کی وفاق سے علحدہ ہونے کے لیے پٹیشنز
  سہیل سانگی
 16-11- 2012
 
سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ دوسری طرف کراچی میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر آئی ہوئی ہے جس پر تمام سیاسی، مذہبی اور تجارتی و سماجی حلقے تشویش کا اظہار رک رہے ہیں۔

’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ جیکب آباد میں محکمہ تعلیم میں تیں ہزار جعلی بھرتیوں کے معاملے کا ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی او تعلیم کو طلب کر لیا ۔ ڈی او اتنی بڑی تعدادمیں جعلی تقرر نامے جاریہونے کا اطمینان بخش جواب نہیں دے پائے۔ ڈی سی کا کہنا ہے کہ چند روز میں ہی یہ تقرر نامے منسوخ کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جائیگا۔ جیسی ہوا چلے گی ایسے کام ہونگے۔ محکمہ تعلیم کے افسر نے بھی ایسا ہی کیا۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ میں ملازمتیں بیچی جا رہی ہیں۔ یہ ایک اچھا کاروبار بن گیاہے۔ اس کاروبارکا آغاز موجودہ حکومت کی اہم شخصیات نے کیا۔ اس کے بعد ساری ڈیل ان کے کچھ کوآرڈینٹر، مشیر ، پی اے وغیرہ کر رہے ہیں۔ گذیشتہ پانچ برسوں میں ملازمتیں بیچنا انڈسٹری بن گئی ہے۔
ہمیں اس پرا عتراض نہیں کے سندھ کی عوام کو نوکریاں نہ ملیں مسئلہ یہ ہے کہ اصل حقدار کو نہیں ملتی اس بات پرا عتراض ہے ۔ ملازمتیں میرٹ پر نہیں ملتی بلکہ بیچی جاتی ہیں۔ جیکب آباد کے محکمہ تعلیم میں تیں ہزارتقررنامے جاری ہونا کوئی کم کرپشن نہیں ۔ ڈی او سطح کا کوئی افسر اگر نوکریاں بیچتا ہے تو اس کو اس بات کا پتا ہے کہ اوپر تک یہ کاروبار چل رہا ہے۔ا گر انکوئری ہوئی تولین دین کر کے کر کے معاملا رفادفعا ہو جائیگا۔ کرپشن کے اس بدترین شکل کا کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا۔ خدارا ذرا سوچو جن لوگوں کو تعلعم جیسے محکمے میں پیسوں کے بدلے نوکری ملے گی وہ ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ کیا حشرکرے گا؟
جیکب آباد میں جعلی آڈر کا ایک کیس ظاہر ہوا ہے نہ جانے دوسرے اضلاع میں ایسے کتنے کیس ہونگے جو اب تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ ہم گزارش کرتے ہیں کے فوری طور پر سندھ بھرمیں محکمہ تعلیم میں غیر قانونی اور پیسوں کے بدلے کی گئی بھرتیوں کا نوٹس لیا جائے ۔


’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ انسانی خون دہشتگردی کی ڈائن کے منہ کو ایسا لگا ہے کہ کرا چی میں دن بہ دن لوگوں کو مارنے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ یا اور اہم چوراہوں پر پولیس کی غیر موجودگی پر غصے کا اظہار کرتے کہا کہ پولیس اور رینجرز کی ذمہ داری پرٹوکول نہیں بلکہ لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت ہے۔ عرصے سے کراچی بیروت بنا ہوا ہے۔ صوبائی داروالخلافہ میں انتظامی افسران اور حکومتی اہلکاروں کی بیان بازی اور دعوؤں کے باوجود امن قائم نہیں ہو سکا ۔
سندھ پولیس کے سربراہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو محرم الحرام کے دوراں فرقیوارانہ فسادات کرانے کی سازش قرار دے کر خود کو ان ذمہ اریوں سے بری الذمہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی میں جتنی تعداد میں رینجرز اور پولیس نفری تعینات کی گئی ہے اتنی تعداد دہشتگردوں کی نہیں ہو گی۔ رینجرزاور پولیس کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ٹارگیٹ کلنگ پر کنٹرول نہیں ہو سکا ہے۔
بات صاف ہے صرف انتظامی سکے ہی کھوٹے نہیں ،قانون نافذ کرنے والوں کی نیت میں بھی رولا ہے ۔تبھی تو قانوں کے محافظ شہر کی شاہراؤں اور چوراہوں سے غائب ہیں۔ اگر منتظمیں اپنے گھروں سے نکل کر شہر کی سڑکوں پر شان بی نیازی سے نظر ڈالتے توان کو گڈ گورنس کی دعوا کا پتا چلتا۔سندھ میں یہ پریکٹس دیکھنے میں آئی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی ایک بڑی نفری وی وی آئی پیز کے پرٹوکول میں مصروف رہتی ہے۔ ان وی آئی پیز کے پاس اپنے باڈی بھی ہوتے ہیں۔ مگرعوام کی حفاظت کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے ۔قانون کے پہرے میں چلنے والے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے تقریریں کرنے والے یہ کہ سکتے ہیں کہ سندھ بدامنی سے پاک ہے۔ مگر عوام تو گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

منتظمیں کے دعوے پر یقیں کیسے کیا جائے؟ کراچی میں لاقانونیت کی حد ہے۔ قانوں پر عمل کرنے والے اپنا فرض بھول چکے ہیں۔ کراچی میں جاری دہشتگردی اور ٹارگیٹ کلنگ پرہمیں تشویش ہے۔ لوگ دہشتگردوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ریاست کو چاہئے کہ ان کاتحفظ کرے،کراچی میں جاری قتل و غارت کو بندکیا جائے۔ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی کوتاہی اور غیر ذمہ داری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟۔

سجاد نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھا تھاجس میں اس نے لکھا کہ’’ ظالم مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ زندگی سے بیزار ہوگیا ہوں۔ امی مجھے معاف کر دینا ان ظالموں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے میں خود کو زندہ جلا رہا ہوں امی جان میں جانتا ہوں اسلام میں خودکشی حرام ہے امی میری بخشش کے لیے دعا کرنا اماں میں تم کو روتا نہیں دیکھ سکتا میری قبر میرے ابو کی قبر کے قدموں میں بنائی جائے میری بہن عذرا کی شادی اس کی مرضی سے کی جائے‘‘۔

یہ خط اس نے خودسوزی سے پہلے اپنے ہاتھوں سے لکھا۔اصل میں یہ ایک قتل ہے اس لیے کہ اس معصوم کی کوئی مجبوری نہیں تھی ۔ وہ پڑھائی میں بھی اچھا تھا اگر اس کے ساتھ زیادتی نہ ہو تی اس کو بلیک میل نہ کیا جاتا تو وہ کبھی خودکشی نہیں کرتا۔ اس کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچیں۔ گزشتہ سال بھی ایسا واقعہ تھر پارکر میں رونما ہوا تھاایک لڑکے کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کو شاید یہ پتا نہیں تھا کی اس کی وڈیو بھری جارہی ہے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس کے دوستوں نے وہ وڈیو یوٹیوب پے رکھ دی۔ پھر فیس بک پر شیئر کردی۔ جن لوگوں نے یہ وڈیو بنائی وہ اس میں نظر بھی آرہے ہیں مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی ۔جو لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے زیادتی کرکے وڈیو بناتے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے۔


’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے بارک اوبامہ کے دوبارہ صدر بننے پرامریکہ کی 20ریاستوں کے بشندوں نے وفاق سے علحدہ ہونے کے لیے پٹیشنز داخل کی ہیں۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت کی پالیسیاں ان ریاستوں کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے لیے بہتر نہیں ہیں، اس لیے وہ وفاق کے ساتھ مزیدوقت نہیں چل سکتے۔ انہوں نے پر امن طریقے سے الگ حکومت قائم کرکے دینے کی اپیل کی ہے ۔ پٹیشن داخل کروانے والی ریاستوں میں ارزیانا کے علاوہ فلوریڈا،جارجیا ،الاباما،جنوبی کیرلینا،کینٹ کی،انڈیانا،شمالی ڈکوٹا،مونٹانا،کولوراڈو سمیت دیگر ریاستیں ہیں ۔

یاد رہے کہ 1776میں آزادی کے وقت عوام کو یہ حق دیا گیا تھاکہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں علحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس درخواست پر 25ہزار لوگوں نے دستخط کئے ہیں۔ یہ خبر کتنی سنجیدگی کی حامل ہے آئندہ چند دنوں میں پتا لگ جائے گا ۔ وہاں کی عوام ابھی سینڈی کو بھولے نہیں ۔ اوباما کے لیے نئے چیلینج نظر آرہے ہیں ۔ کیونکہ علحدگی کے مطالبے ایسے ریاستوں سے آرہے ہیں جہاں رومنی کے حمایتی زیادہ تھے۔ یہ بات بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ مستقبل میں و ہی ملک اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے جو معاشی طور مستحکم ہونگے اس لیے ہار اور جیت کا فیلصلہ ہتھیار نہیں بلکہ معاشی وسائل ہونگے۔

16-11- 2012

سندھ نامہ۔۔ امن و امان, ذوالفقارآباد

سندھ نامہ۔۔ امن و امان, ذوالفقارآباد 
   سہیل سانگی
 
سندھ کے اخبارات میں اس ہفتے صدر آصف علی زرداری کی کراچی میں موجودگی اور اس حوالے سے کئے گئے مختلف فیصلوں پر کلام اور اداریے لکھے ہیں۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ میگاپروجیکٹ ذوالفقارآباد کا معاملہ زیادہ زیر بحث رہا۔

روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کاہمیشہ اصل فوکس بڑے شہر ہوتے ہیں اور چھوٹے شہر نظرانداز ہوجاتے ہیں۔دیکھا جائے تو سندھ کے چھوٹے شہر بھی جرائم پیشہ افراد کے پاس یرغمال بنے ہوئے ہیں۔صرف ایک روز کا اخبار اٹھا کے دیکھیں آپ کو اغوا سے لیکر سر عام دکانوں سے لوٹ مار کے واقعات کی خبریں ملیں گی۔بلوچستان سے اغوا کئے گئے خیرپور کے آٹھ مغوی تو واپس آ گئے مگر پولیس میہڑ کے تین مغویوں کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔نتیجتہ ایک مغوی کا باپ بیٹے کی جدائی کے صدمے میں فوت ہو گیا۔شکارپور میں جرائم پیشہ افراد کا راج ہے، جہاں اغوا برائے تاوان ایک کاروبار بن گیا ہے۔یہاں کے 8 مغویوں کا تاحال کو سراغ نہیں ملا ہے۔شہدادکوٹ میں ایک جوئیلر کا اغوا کر لیا گیا۔ حیدرآباد میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کے دوران ایک ملزم مارا گیا۔بدین ضلع میں مسلح افراد کے ہاتھوں ایک شخص ہلاک ہوگیا، بدین میں ڈیپلو کے رہائشی مغوی کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا گیا۔ جامشورو بدامنی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔مگر پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔قاسم آباد میں ایک جنرل اسٹور سے لوٹ مار کی جارہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے ملزمان کو پکڑ لیا۔عمرکوٹ میں بدامنی کے خلاف شہریوں نے ریلی نکالی۔


یہ سب ایک روز کی خبریں ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کے لوگ بدامنی کے جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا سورج ڈوب چکا ہے۔مجرموں کا راج عروج پر ہے۔

حالت یہ ہے کہ لوگ جب کسی دکان پر خریداری کرنے جاتے ہیں تو وہاں بھی ڈاکو کھڑے ہوتے ہیں۔سو میں سے کوئی ایسا واقعہ ہوگا کہ لوگ مزاحمت کرے لٹیروں کو پکڑ لیتے ہیں۔جیسے قاسم آباد میں ہوا۔ورنہ اکثر واقعات میں لوگ اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگاتے۔پولیس نہ ڈاکوؤں سے تحفظ دیتی ہے اور نہ ہی اغوا کرنے والوں سے۔پھر بھی وہ خود کو محافظ کہلاتی ہے۔جب اس طرح کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں لوگ آواز اٹھاتے ہیں تو لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے حکومت آپریشن کا اعلان کرتی ہے۔مگر اس آپریشن کا نتیجہ ماسوائے سرکاری گولیاں ضایع کرنے کے کچھ نہیں نکلا ہے۔ا

گر کبھی مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں تو معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کو پولیس خانہ پوری کے طور پر پکڑتی ہے۔باقی وہ مجرم جنہوں نے علاقے میں آگ لگائی ہوئی ہوتی ہے ایسے آپریشن میں نہ کبھی گرفتارہوئے ہیں نہ مارے گئے ہیں۔دور کیوں جاتے ہیں باگڑجی میں جو آپریشن چل رہا ہے اسکا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ یہ آپریشن پولیس کی کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا ہے اورپولیس ہر گھر میں گھس رہی ہے۔اور مبینہ طور گھروں میں لوٹ مار کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپریشن کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ایوارڈز بھی عطا کئے گئے ۔ کسی کارنامہ کے برعکس پولیس زیادتیوں کی خبریں شایع ہو رہی ہیں پھر بھی اہلکاروں کو ایوراڈ؟

الیکٹرانک اور پرنٹ میں میڈیا میں بدامنی کے حوالے سے جو تصاویر آرہی ہیں انکو دیکھ کے ہونا تو یہ چاہئے کہ پولیس اہلکاروں کو ایوارڈ نہیں سزائیں ملنی چاہئیں۔ پہلے مجرم چھپ چھپ کے وارداتیں کرتے تھے اب تو لوگوں کے ہجوم میں گھس جاتے ہیں اور اسلحے کے زور پر لوگوں سے پیسے چھین لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ مجرموں کو پتہ ہے کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے پاس یرغمال بنی ہوئی ہے۔


روزنامہ کاوش کے کالم نگار اشفاق آذر’’ فیملی گیٹ کونسے بچے اور انڈے دے گا ‘‘کے عنوان سے چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار اور ان پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں دونوں صورتوں میں اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔


روزنامہ عبرت کے کالم نگار نثار لغاری سندھ بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بجٹ میں شہید بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں انٹرنیشنل وٹنری انڈ اینیمل سانئسز یونیورسٹی اور لاڑکانہ میں اس یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔بجٹ میں کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ بینظیرآباد، سکھر، میرپورخاص کے لیے خصوسی پیکیج رکھے گئے ہیں۔بدین، تھرپارکر اور بعض دوسرے بڑے اضلاع کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

کالم نگار لکھتے ہیں کہ بجٹ میں تو بڑے بڑے اعلانات کئے جاتے ہیں مگر مالی سال کے اختتام پر پتہ چلتا ہے
کی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم خرچ ہی نہ ہو سکی ہے۔گذشتہ مالی سال کے دوران بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ جس پر لوگوں میں غم اور غصہ پایا جاتا ہے۔کیونکہ دیہات میں سڑکیں، اسکول اور ہسپتالیں ک تباہ حال ہیں۔صوبے میں سینکڑوں ایسے دیہات ہیں جہاں روڈ، گیس، بجلی اور پینے کے پانی کا بندوبست نہیں۔


روزنامہ عوامی آواز’’ ذوالفقارآباد سے متعلق عوام کے خدشات دور کرنے کی ضرورت ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے کہا ہے کہ ذوالفقارآباد منصوبے پر نظرثانی کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو قوم پرستوں سمیت سندھ کے عوام کو منصوبے کے بارے میں مکمل معلومات دے گی۔ اور انہیں اعتماد میں لے گی۔اگر منصوبے میں کوئی خامی یا کوتاہی ہوگی تو اسے دور کیا جائے گا۔اور مقامی لوگوں کی رائے لازمی طور پر شامل کی جائے گی۔

جب گوادر پورٹ بن رہا تھا تب بلوچستان کے قوم پرستوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہاں پر ملکی خواہ غیر ملکی لوگوں کو آباد کیا جائے گا۔جس سے بلوچ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔مگر حکومت نے بلوچوں کی ایک بھی نہیں سنی۔ بعد میں دنیا نے دیکھا کہ بلوچوں نے دوسرے صوبوبوں کے آبادکاروں کے لیے بلوچستان کی سرزمین تنگ کردی۔ملکی خواہ غیرملکی سرمایہ کار جو دوسری قوموں کے وسائل ہڑپ کرنے کی تاک میں رہتے ہیں وہ ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

بلوچستان کی خوشحالی اور ترقی کی آڑ میں انکو اقلیت میں تبدیل کرنے بلوچوں سے ان کے وسائل اس طرح سے چھینے جاتے جس طرح سے دنیا می بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں بسایا گیا۔آج دنیا سمجھتی ہے کہ فلسطین کی دھرتی کے اصل مالک عرب تھے۔آج زمین کے مالکان کو دھکیل کر دور کردیا گیا ہییہودیوں کا ملک اسرائیل ایسی طاقت بن کے ابھرا ہے کہ جو اسرائیلیوں نے نہ صرف مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ردی ہے بلکہ بلکہ اسلامی ممالک کے درمیان بیٹھ کر انہیں آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اگر بلوچ ترقی کے نام پر باہر کے لوگوں کی دلی طور پر آجیاں کرتے تو آئندہ 40 برسوں میں بلوچ بلوچستان میں اپنی شناخت کھو بیٹھتے۔اور اقلیت میں آجانے کے بعد اکثریت کے سامنے گھٹنے تیک دیتے۔

غیرجاندار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ذوالفقار آباد ان منصوبوں کی کڑی ہے جن کا مقصد سندھ کے پرانے باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔نئے شہر وق کی ضرورت ہوتے ہیں مگر ایسے شہر جن سے مقامی لوگوں کو خدشات ہوں ہرگز نہیں بننے چاہئییں۔ذوالفقارآباد سے متعلق سندھ کے لوگوں کے خدشات دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔اب وقت بتائے گا کہ صوبائی حکومت یہ خدشات کس طرح سے دور کرتی ہے۔سندھ کے لوگوں کو ترقی میں شامل کرنے، اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے کیا ضمانت دیتی ہے۔

  Sindh Nama June, 15, 2012