Friday, September 18, 2015

کاش سندھ حکومت چند سال پہلے ایسا کرتی

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

کاش سندھ حکومت چند سال پہلے ایسا کرتی 

سندھ نامہ ۔۔۔۔ سہیل سانگی 
’’روزنامہ عبرت ‘‘ لکھتا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ و توانائی سید مراد علی شاہ، اور سنیئر وزیر نثار احمد کھڑو نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں، اگرچہ ان باتوں سے سندھ کے ہر فرد کی ترجمانی ہوتی ہے۔ لیکن وقت کے انتخاب کی وجہ سے ان باتوں کا اثر زائل ہوسکتا ہے ۔عام لوگوں کا یہ خیلا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے لگوں کو کرپشن کیسز سے بچانے کے لئے سندھ کے یہ اشوز اٹھا رہی ہے۔ اس دلیل میں وزن بھی ہے کیونکہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ میں حکمرانی کرنے ولای پیپلزپارٹی کو یہ سب معاملات کیوں نظر نہیں آئے۔ دو سال تک وفاقی حکومت کے ساتھ شیر و شکر ہو کر رہنے والی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے یہ مطلابات کیوں نہیں کئے۔ آج آکر اس پارٹی کی آنکھوں میں سندھ کا درد کیوں امنڈ آیا ہے؟۔ سندھ کے لئے پید اہونے والا یہ احساس کہیں بلدیاتی انتخابات کی مہم کا حصہ تو نہیں۔ 
سندھ کے لوگ اس تجربے سے گزرے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران پیپلزپارٹی نے سندھ حکومت ہر اس قدم کو جائز سمجھتی رہی جس سے اس کے اقتدار کو طول مل سکتا تھا۔ اس کی بڑی مثال گزشتہ دور حکومت میں سندھ حکومت کو انتظامی طور پر دو حصے کرنا تھا۔ سوات آپریشن کے لئے استقبالی کیمپ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر غیر اور اجنبی کو اپنی گود میں لینا شامل ہے۔ لاکھوں انسانوں کو ہاتھوں سے پانی میں ڈبویا گیا۔ اور بعد میں یہ متاثرین جب کراچی میں عارضی کیمپ قائم کرنے کے لئے پہنچے تو انہیں دھکے دے کر نکالا گیا۔ ان پر گولیاں برسائی گئیں،۔ 
آج وہی حکمران جب تنگی میں آئے ہیں، تو سندھ کے درد کی بات کر کے آنکھوں میں خون کے آنسو لا رہے ہیں۔ یہ بات دو وزراء کی اس پریس کانفرنس میں بھی نظر آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف افغانستان، تاجکستان اور بھارت سے بجلی خرید کرنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن سندھ سے بجلی خرید کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرارت پانی و بجلی شہباز شریف چلا رہے ہیں اور انہوں نے سندھ میں سولر اور ونڈ کے پاور پروجیکٹ بند کر ادیئے ہیں۔ جبکہ پنجاب میں شریف برادران کی کمپنی زونرجی کو سولر اور ونڈ کے پچیس منصوبوں کے معاہدے کئے ہیں۔ جس سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی ہوگی اور پنیتیس روپے فی یونٹ تک بیچی جائے گی۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو دنیا کے مہنگے ترین منصوبے بنانے کا شوق ہے۔ تھر میں بڑے مقدار میں کوئلہ موجود ہونے کے باوجود نواز حکموت کوئلہ درآمد کررہی ہے ۔
حکومت سندھ آج جو باتیں کر رہی ہے، کاش وہ ایساگزشتہ سالوں کے دوران کرتی یا دو سال کے دوران ہی کر دیتی۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت کے زرعی پیکیج کے فسانے میں سندھ کا کوئی ذکر نہیں۔ نہ گنے کے کاشتکاروں کے لئے رلیف ہے اور نہ ہی قحط سے متاثرین کاشکاروں کی مدد کے لئے کسی اقدام کا حوالہ ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ پیکیج پنجاب کے کاشتکاروں کو نظر میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اگر ملک بھر کے لئے یہ پیکیج بنتا تو یقیننا اس میں سندھ کا ذکر بھی ہوتا اور اسکا حصہ بھی ہوتا۔ سندھ زرعی صوبہ ہے۔ یہاں ڈاؤن اسٹریم کوٹری دریا میں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر سندھ کی زرخیز زمینیں نگل رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے سولر ٹیوب ویل کے لئے بلا سود قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا سندھ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ پنجاب کا زیر زمین پانی میٹھا ہے۔ اور سندھ میں زیر زمین پانی کڑوا ہے۔ سندھ کا گنے کا بیلٹ ایک عرصے سے توجہ طلب ہے، جس پر کوئی کام نہ کرنے اور امدادی اقدامات نہ لینے کے نتیجے میں یہ بیلٹ اور یہاں کے لوگوں کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ شگر مل مالکان کی اجارہ داری، وقت پر شگر ملیں شروع نہ ہونے، کاشتکاروں کو سرکاری طور پر مقرر کردہ قیمت کی ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے گنے کی کاشت میں کمی آرہی ہے۔ اس پیکیج میں گنے کے کاشتکاروں کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت تھی۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ زمینوں پر قبضے کی کہنایاں کراچی میں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔لیکن یہ کہانیاں صرف کراچی تک محدود نہیں ۔ ایسے قصے سندھ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیس بھی شہر کا نام لیں وہاں آپ کو زمینوں پر قبضے کی سینکڑوں داستانیں ملیں گی۔ اس حوالے سے جامشورو نہایت ہی زرخیز علاقہ ہے۔ باقی کہانیوں کو چھوڑیں، سندھ یونیورسٹی کی وائیس چانسیلر نے چیئرمین اینٹی کرپشن ممتاز علی شاہ سے ملاقات کر کے سندھ یونیورسٹی کی زمینوں پر قبضے کے ثبوت پیش کئے۔ جامشورو میں لینڈ مافیا صرف سراکاری اداروں کی زمینوں پر ہی نہی، کئی پرائیویٹ لوگوں کی زمینوں پر بھی ہاتاھ صاف کر رہی ہے ۔ عام لوگ اس مافیا کا اس لئے بھی مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس مافیا کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یونیورسٹی جیسے اداروں کے پاس ہر معاملے میں بڑے وسائل اور اثر رسوخ بھی ہوتا ہے ۔ ایسے میں اگر یونیورسٹی بھی لاچاری دکھائے گی تو یہ عمل قبضہ مافیا کی حوصلہ افزائی کے زمرے میں آئے گا۔ یونیورسٹی کی وائیس چانسیلر نہ صرف معاملہ اینٹی کرپشن کے پاس لے گئیں بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ اس عمل میں یونیورسٹی کے بعض ملازمین بھی شامل ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے ملازمین شامل ہیں تو ان کے خلاف وائیس چانسیلر کے علاوہ اور کون مجاز اختیاری ہوسکتی ہے جو ان کے خالف کارروائی کر سکے؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ ملازمین اتنے بااثر ہیں کہ خود وائیس چانسلربھی ان کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہیں ۔
وائیس چانسلر نے زمینوں سے قبضہ چھڑانے کی جو کشش شروع کی ہے اس کی ہمت افزائی کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اردگرد موجود دیگر سرکاری اداروں کی زمینوں پر جو قبضے ہیں انہیں بھی خالی کرانی کو یقینی بنایا جائے۔ 
For Nai Baat Sept 19, 2015

Friday, September 11, 2015

سندھ: بالآخر بلدیاتی انتخابات پر ابہام کا خاتمہ

سندھ: بالآخر بلدیاتی انتخابات پر ابہام کا خاتمہ
سندھ نامہ۔۔۔ سہیل سانگی 

’’روزنامہ عبرت ‘‘ لکھتا ہے کہ سندھ میں بالاّخر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ابہام بالآخر ختم ہو گیا۔ سکھر اور لاڑککنہ ڈویزنوں میں کاغذات نامزدگی جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا معمالہ ایک عرصے تک التوا کا شکار تھا۔ موجودہ خواہ سابق حکومت نے ہر ممکن طور طور پر ٹالمٹول سے کام لیا۔ لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ نے تمام حربوں کو ناکام بنادیا اور حکم جاری کیا کہ کسی بھی طور پر بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایاجائے۔ اس حکم پر سب سے پہلے شورش کی لپیٹ میں پھنسے ہوئے صوبے بلوچستان نے آغاز کیا۔ اس کے بعد خیبر پختونخو میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ اس کے بعد سندھ اور پنجاب کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ زیادہ عرصے تک انانتخابات سے بھاگ سکیں۔ لہٰذا دونوں صوبائی حکومتوں نے بحالت مجبوری انتخابی عمل شروع کر دیا۔ جس کا پہلا مرحلہ سندھ میں شروع ہو چکا ہے۔ یہ ایک مثبت عمل ہے۔
نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل کو جلدی حل کرنے کے لئے بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس اس نظام اور انتخابات کو جمہوریت مخالف حلقوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ ضیا کا ریفرینڈم ہو یا مشرف کا بلدیاتی نظام اس کے ذریعے دونوں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔اس لئے بھی جمہوری سیاسی جماعتیں اس نظام کو ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جمہوری حکومتوں کو اپنے اختیارات میں کمی کا بھ احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ان انتخابات سے بھاگنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ وس وجہ سے بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کا مقصد فلاح و بہبود نہیں بلکہ ختیارات کا حصول ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، خواہ اس کا منشور الفاظ میں کتنا ہی ملک اور قوم کے بھلے کی بات کرتا ہو، یلکن عملا ان جماعتوں کی کوشش خود کو یا اپنے آدمیوں کو بااختیار بناے کی ہوتی ہے۔ ان کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل کا لامنتہائیسلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ 
سیاست کو مہنگا سودا بنادیا گیا ہے۔ عام آدمی صوبائی یا قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ بھلے سیاست اور سماجیت میں کتنی ہی قابلیت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس جعلی ڈگریاں لیکر جاگیردار، چوہدری اور سرمایہ دار سرمایہ کاری کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرے گا وہ اپنا خر وصول کرنے کے بجائے بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرے گا؟ بلکہ اس شخص کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ انتخابات میں کی گئی سرمایہ کاری وصول کرنے کے ساتھ ساتھ منافع بھی کمائے۔ ایک عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تو بعض اراکین اسمبلی کی جرائم پیشہ گروہوں سے روابط کی بھی خبریں آرہی ہیں۔ 
مطلب ہمارے ہاں سیاست کمائی کا ایک ذریعہ ہے۔ نتیجے میں ہم جب اپنی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسے ممالک سے بھی دتر حالت پاتے ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے۔ ہمارے ہاں تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کا رجحان بھی رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب تقریبا تمام محکموں کے قلمدان اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔سندھ میں بھی بڑی حد تک یہی صورتحال ہے۔ اگر سب قلمدان ایک شخص کے پاس نہیں ہیں تو ان کی تقسیم میرٹ کے بجائے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ عام فلاح کے کام التوا کا شکار ہیں۔ 
اس صورتحال میں بلدیاتی انتخابات اور فعال بلدیاتی نظام کا ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ جس کے تحت عام آدمی کم از کم اپنی گلی محلے کی شکایت اپنے منتخب نمائندے تک پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ از حد ضروری ہوجاتا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ان انتخابات کو شفاف بنایا جائے۔ 
روزنامہ کاوش کراچی میں میڈیا نشانے پر کے عنوان سے لکھتا ہے کہ کراچی کی سرزمین نے لاکھوں بے گھر اور بیروزگار لوگوں کو اپنی گود میں جگہ دی ہے۔ لیکن اس شہر کو کبھی بھی سکھ چین حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ صوبے کے دارالحکومت اور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے اس شہر میں اب صحافی ہدشتگرد کارروایوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک ٹی چینل کے سیٹلائیٹ انجنیئر کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد ایک سینئر صحافی آفتاب عالم کو موت کی ابدی نیند سلادیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے معاملے کی آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ جبکہ صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے میں قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں دو صحافیوں کے قتل نے کراچی آپریشن کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔یہ دو واقعات اس وقت سامنے آئے ہیں جب رینجرز اور پولیس نے پریس کانفرنس میں یہ دعوا کیا کہ کراچی میں ساٹھ سے ستر فیصد تک کمی آئی ہے۔ ملک بھر میں صحافی دہشتگردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ لیکن کراچی میں سچ کا آئینہ دکھانے والے کچھ زیادہ ہی زیر عتاب رہے ہیں۔ یہ کراچی کا ہی شہر تھا جہاں چند سال پہلے امریکی صحافی ڈٰنئل پرل کو اغوا کرکے قتل کیا گیا تھا۔ 2011 میں ایک نجی چینل کے صحافی ولی بابر کو قتل کیا گیا گزشتہ سال نامور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ستمبر 2013 میں کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کو اب دو سال کمل ہو چکے ہیں۔ اور اب بھی یہ آپریشن جاری ہے۔ مختلف واقعات کے باوجود صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ ضروی ہو گیا ہے کہ ہر مشکل صورتحال میں بھی حقائق پیش کرنے والے اس پیشے سے منسلک افراد کے خلاف ان پرتشدد واقعات کے لئے حکومت نوٹس لینے اور مذمت سے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے 
اور صحافیوں کو تحفظ کا احساس دلانا چاہئے۔

http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A2%D8%AE%D8%B1-%D8%A8%D9%84%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%A8%DB%81%D8%A7%D9%85
 Nai Baat Sep 12, 2015 

Friday, September 4, 2015

بشیراں کی خود کشی اور حکمرانوں کی کرپشن

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

بشیراں کی خود کشی اور حکمرانوں کی کرپشن
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
کرپشن کے خلاف کارروائیاں اور اس پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا رد عمل مجموعی طور پر اخبارات کا موضوع ہیں۔ دوسری جانب عرصہ دراز تک ٹال مٹول کے بعدصوبے میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کا عمل شروع ہو رہا ہے۔ صوبے میں سیاسی سرگرمیاں کراچی میں جاری آپریشن اور کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے چل رہی تھیں س۔ اب یہ سرگرمیاں انتخابات کے حوالے سے بھی بڑھ گئی ہیں ۔ اخبارات کا یہ رویہ ہے کہ کرپشن کے خلاف ہونے والی کارروائیاں بلا امتیاز ہونی چاہئے، اور اگر اس میں کسی بھی قسم کا امتیاز برتا گیا تو اس کو سیاسی معنوں میں استعمال کیا جائے گا۔
’’روزنامہ عبرت‘‘ لکھتا ہے کہ اخبارات میں یہ خبرشایع ہوئی کہ شاہپور چاکر ( ضلع سانگھڑ) کی بائیس سالہ بشیراں خاتون نے اپنے دو بیمار بچوں کا علاج نہ کر سکنے کے باعث دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ بشیراں کا شوہر ایک ہوٹل پر مزدوری کرتا ہے، اس کام کے عوض ملنے والا معاوضہ بچوں کے علاج تو کیا دو وقت کی روٹی کے لئے بھی ناکافی تھا۔ پریشانیوں سے تنگ آکر بشیراں نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی۔ ارباب اختیار و اقتدار پر اس خبر کا کیا اثر ہوا ہوگا؟ شایدیہ خبر ان کی نظروں سے گزری بھی نہیں ہوگی۔ یہ خبر سندھی سماج کے فرسٹریشن کا اظہار ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعات روزانہ جنم لے رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک اخبارات میں پر جگہ لے پاتے ہیں۔ ورنہ اکثر واقعات قسمت کا لکھا سمجھ کر میڈیا کے کالموں سے غائب رہتے ہیں۔
شاداب اور خوشحال سندھ کے ہر اہل دانش و فکر کے لئے یہ واقعہ باعث تشویش ہونا چاہئے۔ افسوس کہ آٹھ سال سے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے حکمرانوں کو اس واقعہ پرذرا برابر بھی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ حکومت سندھ جتنی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر حرکت میں آئی یا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اس معاملے کو امکانی خاتمے کو جنگ تک لے جانے کی دھمکی دی۔ سندھ کی صورتحال کو بہتر بنانے یا سماج میں پھیلی ہوئی مایوسی پر اس کے چوتھائی برابر بھی اگر تحرک لیا جاتا، تو کئی بچے یتیمی کے روگ سے بچ جاتے۔ کئی ماؤں کی گود خالی نہیں ہوتی۔ لیکن افسوس کے ہمارے حکمرانوں کو اپنے چیلے چانٹوں کے علاوہ اور کوئی یاد ہی نہیں ۔ انہیں وہ لاکھوں لوگ نظر نہیں آتے جن کے چولہے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار جلتے ہیں۔
اگر سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات اور ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنایا جاتا تو بشیراں کو یہ انتہائی قدم اٹھانا نہ پڑتا۔ اگر ان کے شوہر کو سرکااری طور پر مقرر کردہ کم از کم تنخواہ ملتی تو معصوموں کی مسکراہٹیں سسکیوں میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ کیا ہمارے حکمران اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک ہوٹل پر کام کرنے والے مزدور کو کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ اینٹوں کے بٹھوں پر اپنے ارمان جلانے والا مزدور کتنا کماتا ہے؟ مل، کارخانے یا کھیت میں کام کرنے والا محنت کش کس مشکل سے زندگی گزارتا ہے؟ یہ سب باتیں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسے گھرانوں کے ارمان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے روزانہ عام لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ مطلب ملک کی اکثریت انتہائی تنگدستی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بڑے شہروں میں پھر بھی روزگار کے مواقع ہیں۔ چھوٹے شہروں میں جینا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ نتیجے میں کئی بشیراں جیسی مائیں زندگی سے یا اپنے بچوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ مہذب ممالک میں اس طرح کے واقعات حکمرانوں کا درد سر بن جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کٹھورپن کی انتہا ہے کہ میڈیا، حکمران اور سماج میں اصلاح کے دعویدار اس پر غور کرنے کو وقت کازیاں سمجھتے ہیں۔ شاید انہیں نہیں معلوم کہ غربت اور محرومیاں کن تباہیوں کو دعوت دیتی ہیں۔ حال ہی میں سندھ محکمہ داخلہ نے خفیہ اداروں کی مدد سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں نو ہزار مدارس میں پانچ لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے بعض ممکن ہے کہ صرف علم حاصل کرنے کے لئے ان مدارس کا رخ کرتے ہوں گے ، لیکن ایک بڑی تعداد غربت کے باعث ان مدارس کے حوالے کردی جاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ غربت ہر برائی کی ماں سمجھی جاتی ہے۔ اگر سندھ میں مائیں اپنے بچوں کی بھوک برداشت نہیں کر سکتیں اور خودکشی کر لیتی ہیں۔ کل کو اس غربت اور بھوک سے تنگ آکر کسی دوسرے کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ ایک طرف شاہوکار سندھ کے رہائشی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب اسکے حکمرانوں کو کرپشن کی کہانیوں میں مرکزی کردار ادا کرنے پر یاد کیا جاتا ہے۔ روزانہ نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ اگر حکمران ذاتی خواہشات کے بجائے تھوڑا سا ہی سہی، عوام پر دیتے تو سینہ تھنخ کر کرپشن کے الزامات کو رد کر سکتے تھے۔ اور سندھ کے حالات بھی قدرے بہتر ہوتے۔
’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ 1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت ڈاؤن اسٹریم کوٹری 10 ملین ایکڑ فٹ پانی اور عالمی ماہرین کی سفارش کے مطابق 8.5 ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنے سے انکار کرنے والے ادارے ارسا نے متنازع چشمہ جہلم لنک کینال کے ماحولیاتی ضروریات کی خاطر 10 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر سندھ کے نمائندے نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے کہ سی جے کینال کو صرف سیلاب کے دنوں میں کھولا جاسکتا ہے۔ جبکہ ماحولیاتی ضروریات کے لئے اس کینال میں پانی چھوڑنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں۔ حکومت سندھ نے پانی کے بہاؤ میں کمی ہونے کے بعد پنجاب کے محکمہ آبپاشی کی طرف سے غیر قانونی طور پر چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے یہ کینال فوری طور پر بند کئے جائیں۔ سندھ کے ساتھ طویل عرصے سے ناناصافی ہو رہی ہے۔ اور اس کے خلاف وہ مسلسل احتجاج کر رہا ہے۔ اس کے باوجود اس کی شکایت کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ اور تو چھوڑیئے پانی کی تقسیم سے متعلق جو معاہدے کئے گئے ہیں ان پر بھی عمل نہیں کر رہا۔ حال ہی میں ارسا نے پنجاب کی ماحولیاتی ضروریات کی آڑ میں چشمہ کینال میں 10 ہزار کیوسک پانی جاری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف سندھ میں پانی کی قلت ہے۔ اس کی سر سبز زمینیں خشک اور ٹھوٹھ بن چکی ہیں۔ زراعت تباہ ہے۔ روزگار کے ذرائع تباہ ہیں۔ ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں ضرورت کے مطابق پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ماحولیات، جنگلی و آبی حیاتیات اور ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ارسا کی نظر سندھ کی اس تباہی پر نظر نہیں پڑتی۔ جبکہ پنجاب ماحولیاتی ضروریات کی آڑ میں سندھ کے حصے کا پانی لے رہا ہے۔ یہ تمام معاہدوں کی خلاف ورزی اور ناناصافی ہے۔
September,4, 2015 for Nai Baat