Thursday, June 28, 2018

الیکشن 2018 کے نئے رجحانات سہیل سانگی





الیکشن 2018 کے نئے رجحانات
میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
پچیس جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں بعض نئے رجحانات سامنے آئے ہیں۔جو ایک سیاسی، سماجی، ٹیکنولاجی اورا دارتی حوالے سے نئی صورتحال کا اظہار ہیں۔ درج ذیل صرف اب تک کے رجحانات ہیں۔ جبکہ باقاعدگی سے انتخابی مہم کا آغاز ہونا اور پولنگ کے مراحل باقی ہیں۔ان انتخابات کے پس منظر میں تین باتیں صاف طور پر ابھر کر سمنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے یا ملتوی ہوجائیں گے۔ یہ التوا چند ہفتے کا بھی ہو سکتا ہے اور چندماہ کا بھی۔ انتخابات ہونے کی صورت میں آکر وقت تک غیر یقینی صورتحال کے بادل چھائے رہیں گے۔ یعنی غیر یقینی صورتحال میں ہی انتخابات ہونگے۔ 
پس منظر میں دوسری بات یہ ہے کہ انتخابی مہم مختصر اور دھوم دھڑاکے والی نہیں ہوگی۔ بڑی حد تک گونگی مہم ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو بڑے جلسے کرنے یا عام رائے کو سرگرم کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ خیال ہے کہ یہ اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ ملک ایک تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر مندرجہ بالا دو چیزیں ہونے لگتی ہیں تو اسٹیٹسکو نہیں رہتا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہر جماعت سمجھتی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی ۔ وہ ہر صورت میں اپنی پسند کے نتائج چاہتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں کے نزدیک صرف وہی انتخابات ’’ آذادانہ ‘‘ قرار پائیں گے جس میں ان کے شیئر کو یقینی بنایا ہوا ہوگا۔ 
ان بنیادی مظاہر کے علاوہ کچھ اور زمینی حقائق بھی سامنے آئے ہیں۔ صاف ظاہر ہوا کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں امیدواروں کوٹکٹ کے اجراء پر بحران کا شکار ہیں۔ وہ یا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں یا ان کے فیصلوں کو پارٹی کے اندر مخلتف سطح پرچیلینج کیا جارہا ہے۔ پارٹیوں نے جو ٹکٹ جاری کئے ہیں، ان پر پارٹی کے اندر اختلافات ہیں اور ان اختلافات کا کھل کر اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ کئی مقامات پر پارٹی یہ رہنما اپنی پارٹی کے نامزد امیدواروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جو ظاہر کرتے ہیں کہ پارٹی قیادت کے فیصلے درست نہیں۔ اس کی وجہ ملک کی بڑی جماعتوں کی جانب سے پارٹی، اس کا پروگرام اور کارکن اہم نہیں بلکہ الیکٹبل اہم قرار دیئے گئے تھے۔ 

پارٹیوں کے اندرونی معاملات:

کارکنوں کی احتجاجی مہم کا آغاز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کیا اور پارٹی کے سربراہ عمران خان کی رہائشگاہ بنی گالہ کے باہر کئی روز تک دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے کراچی میں بلاول ہاؤس کے باہر دھرنا دیا۔ انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم پر سیاسی جماعتیں پریشانی کا شکار رہیں، کئی مقامات پر جھگڑے اور مظاہرے ہوئے ۔ بعض حلقوں میں دباؤ کی وجہ سے پارٹیوں کو امید واروں تبدیل کرنے پڑے ۔حال ہی میں تحریک انصاف سندھ کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے گھر کے باہر کارکنان نے پی ایس 118 پر امیدوار اسد امان کو تبدیل کرکے ان کی جگہ ملک عارف کو ٹکٹ دینے کے خلاف شدید احتجاج اور دھرنا دیا۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے قبل تحریک انصاف کراچی کے دفتر میں کارکنوں نے ہنگامہ آرائی کی تھی۔ ملتان میں پی ٹی آئی خواتین نے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف شاہ محمود قریشی کی رہائشگاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیدیا،اس موقع پرخواتین کے دوگروپوں میں جھگڑا بھی ہوا جس میں دوخواتین زخمی ہو گئیں۔ 

الیکٹ ایبلز اور کارکنا ن کے جھگڑے:

سندھ میں اگرچہ پیپلزپارٹی ’’ ہم جنگل میں اکیلے شیر‘‘ کی طرح کا معاملہ ہے ،لیکن یہاں بھی صورتحال مکمل طور پر اس کے قابو میں نہیں۔ضلع مٹیاری میں پیپلز پارٹی کے مخدوم امید واروں کو جیالوں کی جانب سے بغاو ت کاسامنا ہے۔ ہالہ کے مخدوم خاندان نے اس سیاسی خاندان کو مناسب حد تک ایڈجسٹ نہ کرنے پر پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔ بعد ضلع میں تین ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔پیپلزپارٹی ضلع مٹیاری کے سابق صدرورکن سندھ اسمبلی پیرامیرشاہ ہاشمی نے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 59پرمخدوم رفیق الزماں کوپارٹی ٹکٹ دیئے جانے پرسخت احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ مٹیاری کے لوگ مخدوم رفیق الزماں کوووٹ نہیں دینگے۔ مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد مخدوم خاندان پہلی مرتبہ الیکشن لڑنے جارہا ہے۔
ساحلی ضلع ٹھٹھہ میں پیپلز پارٹی نے شیرازی برادران سے مصالحت کے بعد انہیں مطلوبہ پارٹی ٹکٹس جاری کردی ہیں۔ ضلع کے رہنماؤں اور پرانے کارکنوں نے پارٹی قیادت پر الزام عائد کیا ہے کہ قیادت نے بی بی کے ساتھیوں اور ہمدردوں کو نظر انداز کردیا۔پیپلزپارٹی کو تھرپارکر کے تین حلقوں میں مشکل کاسامنا ہے ۔ایک قومی اسمبلی کی نشست اور ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں کر پائی۔ یہ اسلام کوٹ کی صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے جو کوئلے کا علاقہ ہونے ک وجہ سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پارٹی کے نصف درجن الیکٹیبلز آمنے سامنے ہیں۔ ادھر نگرپارکر چھاچھرو کے صوبائی حلقہ پر پارٹی کے نامزد امیدوار کے سامنے دوپارٹی کے دو مقامی رہنما علی اکبر راہموں اور عبدالغنی کھوسو میدان ہیں۔جو دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کو قمبر شہدادکوٹ، گھوٹکی، نوشہروفیروز اور دادو میں بھی کارکنوں یا الیکٹیبلز کے احتجاج کا سمان ہے۔ عمرکوٹ میں مخدوم آف ہالہ کے قریبی علی مراد راجڑ نے گزشتہ دور کے صوبائی وزیر ثقافت سردار علی شاہ کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کردیا ہے۔ 
پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی کے نامزد امیدواروں کیخلاف سڑکوں پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ اورامیدوار کی نامزدگی کا فیصلہ تبدیل نہ کرنے کی صورت میں احتجاجی دھرنا دینے اور امیدواروں کو سپورٹ نہ کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ 
میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 160 اور پی پی 144 کے امیدواروں کیخلاف مقامی لیگی قیادت نے حلقہ میں نامنظور کے بینرز لگائے، سابق صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کے خلاف حلقے میں بینرز آویز ا ں کئے اور احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ سرگودھا میں بھی ن لیگ کے کارکنان ٹکٹوں کی تقسیم کیخلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، مظا ہر ین نے این اے 90،پی پی 77،پی پی 78میں حامد حمید، عبدالرزاق ڈھلوں کو ٹکٹ دینے کامطالبہ کیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پرپی پی 114فیصل آباد میں بھی ناراضگی موجود ہے۔ نوازلیگ کے رہنما و امیدوار پی پی 115کی جانب سے این اے 109میں میاں عبدالمنان کو ٹکٹ دینے کے خلاف احتجاجی جلسہ کیا گیا۔ نواز لیگ کی جانب سے پی پی 160 کیلئے توصیف شاہ کوٹکٹ جاری کی کرنے کے خلاف یونین کونسل کے چیئرمینوں و کارکنوں نے احتجاج کیا ہے۔ سرگودھامیں تحریک انصاف کے کارکنوں نے پارٹی قیادت کی طر ف سے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلا ف بھر پور احتجا ج کا فیصلہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ چوہدری ممتا ز اختر کاہلو ں کو این اے90 کا ٹکٹ جا ری نہیں کیا گیا تو وہ احتجا ج کریں گے۔اس طرح کے متعدد اعتراضات اور اختلافات سامنے آئے ہیں۔
ووٹرز کی جانب سے جواب طلبی:

یہ تو تھے الیکٹبلز کے آپس میں یاکارکنان کے ایلکٹیبلز سے جھگڑے اوریا امیدواروں کی نامزدگی پر اعتراضات۔ ایک پہلو اور بھی ہے کہ ان امیدواروں کے ساتھ ووٹرز بھی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اور جواب طلبی کر رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جب کہوٹہ پہنچے تو مسلم لیگ نوازکے کارکنان نے ان کی گاڑی کا گھیراؤکرلیا مظاہرین نے سابق وزیراعظم عباسی کے خلاف نعرے لگائے۔مظاہرین نے انہیں انتخابی مہم کے وعدے یاد دلائے ۔سندھ میں پیر پاگارا کی قیادت میں قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے گھوٹکی میں پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کو ٹکٹ دیا تھا۔ میاں مٹھو پر ہندو لڑکیوں کو اغوا اور ان کو زبردستی مذہب تبدیل کرانے اور شادی کرانے کا الزام ہے۔ سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد جی ڈی اے نے ان سے ٹکٹ واپس لے لیا ہے۔ 
سکندر حیات بوسن ن لیگ چھوڑنے کے بعد پہلی بار اپنے حلقے این اے 154 ملتان پہنچے تو شہریوں نے ان کی گاڑیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ اورنے’لوٹے۔۔ لوٹے‘ کے نعرے لگائے۔ سکندر حیات بوسن علاقہ مکینوں کو وضاحتیں دیتے رہے۔اب پی ٹی آئی نے سخت تنقید کے بعد سکندر بوسن سے ٹکٹ واپس لے لیا ہے۔ چند روز قبل مسلم لیگ ن کے رہنما سردار جمال لغاری ڈیرہ غازی میں اپنے حلقے کے دورے پر پہنچے تو انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نہیں ۔ اس طرح کے چند واقعات سندھ میں بھی پیش آئے ہیں۔ نصف درجن مقامات پر ایسا ہوا ہے کہ انتخابی مہم کے لئے امیدوار پہنچے تو ووٹرز نے جواب طلبی کی اور یہ بھی اتنا عرصہ کہاں تھے۔

سوشل میڈیا کا استعمال : 

ووٹرز کی جانب سے کی جانے والی جواب طلبی کے واقعات سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ۔جس سے مزیڈ
 امیدواروں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان واقعات سے ہٹ کر بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال ہورہا ہے جس میں امیدواروں کے حق میں یا ان کے خلاف معلومات اور بعض صورتوں میں کسی کہانیس منسلک کر کے تصویری یا ویڈیو کی شکل میں انتخابی مہم کے پیغامات چلائے جارہے ہیں۔ اس صورت میں امیدواران یا ان کے مخالفین رروایتی میڈیا کے محتاج نہیں رہے۔ عام لوگوں میں اس بات کو اہمیت دی جارہی ہے کہ امیدوار جیسا عام زندگی میں ہے ویسا میڈیا یا عوام کے سامنے جلسے میں بھی نظر آئے۔ سرگرم میڈیا اور سوشل میڈیا کے زمانے میں کوئی معلومات چھپی نہیں رہ سکتی۔ ڈیجیٹلائزیشن نے انتخابی مہم کو تبدیل کردیاہے۔ اب ہر کوئی آن لائین ہے۔
ٹیکنالاجی کے عنصر کا انتخابی مہم میں استعمال بلاشبہ اہم ہے اور اس کے اثرات کا فی الحال اندازہ نہیں لگایا جاسکتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ خود سیاسی محاذ پر بھی کچھ تو گربڑ ہے۔ سیاسی جماعتیں مقبولیت بڑھانے یا مخالف کو گرانے میں زیادہ مصروف رہتی ہیں۔سیاسی جماعتیں، پارٹی کارکنان، الیکٹیبلز اور ووٹرز کے درمیان بہت بڑے فاصلوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باقاعدگی سے تنظیم سازی اور پارٹی کے اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ جہاں پر عام آدمی اور پارٹی کیڈر غیر حاضر ہے۔ 

Friday, June 22, 2018

زمین کی غیرقانونی تقسیم کی تحقیقات


https://www.naibaat.pk/22-Jun-2018/13889

روزنامہ عبرت سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان ن جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بنچ نے سندھ میں زمینوں کی لیز اور الاٹمنٹ کے مقدمہ کی سماعت کی ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قبضہ مافیا پورے ملک کو کھاگئی ہے۔ ریاست کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ سرکاری پلاٹوں کی بندر بانٹ ہونے نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے پولٹری اور صنعتی مقاصد کے لئے زمین کی الاٹمنٹ کو شفاف بنانےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں جو کچھ ہوتا رہا ہے،قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا فیصلہ کریں گے۔ سندھ میں زمینیں اپنے لوگوں میں بانٹی گئی ہیں۔ لوگ گھر بیٹھے پلاٹ کی درخواست دیتے ہیں ، جن پر ان کی ہی پسند کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر الاٹمنٹ کی جاتی ہے۔
قابل تحسین امر ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے سندھ میں زمین کی تقسیم کا نوٹس لیا ہے۔ اور متعلقہ فریقین سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ من پسند لوگوں کو زمین الاٹ کرنے کا معاملہ کوئی آج کل کا قصہ نہیں ہے۔ بلکہ اس ریاست کے وجود میں آنے سے لیکر آج تک جاری ہے۔ سیاستدان، افسرشاہی اور ان کے قریبی لوگ اپنوں کو نوازنے کے لئے کوڑیوں کے بھاؤ زمین الاٹ کرتے رہے ہیں۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ان کی ملکیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ دوسری طرف غریب ایک چھوٹے سے گھر کے لئے عمر بھر تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لاکھوں خاندانوں کی کئی نسلیں کرایے کے مکانوں میں زندگی گزار دیتی ہیں۔ مگر کسی بھی دور کے حکمران نے ان کو گھر دینے کی زحمت نہیں کی ۔ دیہی علاقوں میں یہ المیہ ہے کہ وہاں لوگ بھوتار ، سرداریا وڈیرے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے گھر کے نہ مالکانہ حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنا گھر وڈیرے کی مرضی کے بغیر بیچ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار سردار یا وڈیرے کی ناراضگی مول لینے پر رات کی تاریکی میں اپنے بچے لیکرجانے کا حکم ملتا ہے۔ مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہاہے کہ ہر گاؤں اور قصبے میں لوگوں کو گھر کے مالکانہ حقوق دے کر وڈیرے یا بھوتار کی محتاجی سے بچایا جائے۔ لیکن اس ضمن میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ شاید اس لئے کہ قانون بنانے والوں میں اکثریت ان بھوتاروں اور وڈیروں کی ہی ہے، وہ نہیں چاہتے کہ لوگ آزاد حیثیت میں زندگی گزار سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرگ لاکھوں بلکہ کروڑہا لوگ گھر سے محروم ہیں اور دوسری طرف صنعتی مقاصد کے نام پر ہزارہا ایکڑ زمین من پسند لوگوں کو الاٹ کی جاتی ہے۔ اس کی بڑی مثال چیف جسٹس کے یہ ریمارکس ہیں ’’کے ڈی اے نے 37 سال پہلے دو روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمین لیز پر دی ۔ کیا ایکڑ کی قیمت دو روپے ہوسکتی ہے؟ صرف کے ڈی اے ہی نہیں، ہر چھوٹے بڑے شہر کے ادارے نے یہ ظلم کیا ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں اور دیہی علاقوں کی منصوبہ بندی نہیں ہوسکی، جس کی جو مرضی میں آیا اس نے تعمیرات کردی، سڑکیں بنا لیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ اعلیٰ عدالت نے اس ناانصافی کا نوٹس لیا ہے۔ اگر اس تحقیقات کو منطقی نتیجے تک پہنچایا گیا ، کرپشن کے ذمہ دار افراد کو سزائیں دی گئی، تو ہم آئندہ نسلوں کے لئے ایک ایسا نظام اور ماحول چھوڑ کے جائیں گے جو ان کی خوشحالی کی طرف ایک اہم قدم شمار ہوگا۔
’’ نگران منتظمین سندھ میں قانونی حکمرانی کو یقینی بنا سکیں گے؟ ‘‘کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ نگران حکومت نے اقتدار تو سنبھال لیا ہے لیکن وہ بدانتظامی اور خراب طرزحکمرانی کا تسلسل تبدیل نہیں کرسکے ہیں۔ وہی لاقانونیت اور خونریزی جاری ہے۔ اخبارات کرائم ڈائری کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ قانون جو طویل عرصے ہائبرنیشن میں چلا گیا تھا، وہ اس صورتحال سے نکل کر اپنی بالادستی تو دور کی بات ، موجودگی کو بھی ثابت نہیں کر سکا ہے۔ سندھ کے نئے آئی جی پولیس ’’عفو اور در گزر ‘‘ پر عمل پیرا ہے۔ سیاہ کاری اور پرانی دشمنی کے نام پر قتل رک نہیں سکے ہیں۔ چند ماہ یا چند سال کا قصہ نہیں ۔ سندھ ایک عرصے سے اداروں کا قبرستان بنا ہوا ہے۔ گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ جب یہ سرزمین اداروں کی قبرستان بنی ہوئی ہو، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں کس طرح کی گورننس رہی ہوگی؟ رہی سہی کسراداروں میں کرپشن اور سیاسی مداخلت نے پوری کردی۔ توقع تھی کہ نگران حکومت بدانتظامی کے اس تسلسل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بدانتظامی اور لاقانونیت کی جو اس کو ’’امانت ‘‘ملی تھی، اس کو نگرانوں نے جوں کا توں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس میں کوئی بہتری لانے کو ’’خیانت‘‘ سمجھتے ہیں۔ انتخابات کے بعد یہ امانت باسلامت منتخب منتظمین کے حوالے کی جائے گی۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہر ادارے میں سیاسی مداخلت ہے۔ اب ایسا کوئی عذر نہیں رہا۔ اب بہتری لانے کے مواقع ہیں ، ان کو یہ بہتری دکھانی چاہئے۔
سندھ میں پانی کی چوری ر وکنے کے لئے ایک بار پھر رینجرز تعینات کردی گئی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں بیراجوں میں اپنی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد چھوٹی بڑی نہروں پر رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ نگران حکومت کی مدت محدود ہے لہٰذا رینجرز کا تقرر کوئی بڑے نتائج نہیں دے سکے گا۔ یہ ضرور ہوگا کہ جن نہروں اور شاخوں پر غیر قانونی لفٹ مشینیں لگی ہوئی ہیں اس چوری میں کمی آئے گی۔ پانیکی چوری کی وجہ خراب انتظام کاری نہیں۔ پانی کی چوری کے لئے سیاستدانوں اور افسر شاہی نے محکمہ آبپاشی سے گٹھ جوڑ کر کے ایک الگ نظام قائم کرلیا ہے، جس کے تحت پانی چوری کے ساتھ ساتھ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہوتی ہے۔ اس چوری اور غیر منصفانہ پانی کی تقسیم کی وجہ سے آخری سرے کے کاشتکار زراعت کے پانی سے محروم رہتے ہیں بلکہ ان کو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ یہ درست ہے کہ صوبے میں پانی کی قلت ہے۔ لیکن انتظام کاری اور اچھی حکمرانی کی قلت اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر حکومت چاہے تو انتظام کاری کو بہتر بنا کر کسی حد تک آخری سرے کے کاشتکاروں کو پانی پہنچا سکتی ہے۔ نگران اگر واقعی کوئی ٹھوس اقدام کرتے ہیں تو آئندہ حکمرانوں کے لئے ایک مثال ہوگی۔ اور ایک راستہ ہوگا۔

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/60402/Sohail-Sangi/Zameen-Ki-Gair-Qanoon-Taqseem-Ki-Tehqeeqat.aspx 

http://politics92.com/singlecolumn/60402/Sohail-Sangi/Zameen-Ki-Gair-Qanoon-Taqseem-Ki-Tehqeeqat.aspx 

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/zameen-ki-gair-qanoon-taqseem-ki-tehqeeqat-4705.html


لوڈشیڈنگ کی نئی کہانی



سندھ نامہ سہیل سانگی 

انتخابی گہما گہمی میں غائب عوام مسائل ۔ پانی کی چوری، ٹرانسپورٹ کے کرایے اور نگران
انتخابات کی گہما گہمی نے تمام عوامی مسائل کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ خود انتخابی مہم میں بھی کہیں عوامی مسائل نہیں جھلکتے۔ سیاسی جماعتوں کے بیانیے میں نہیں لگتا کہ پاکستان کے عوام کن معاشی، سماجی و ثقافتی مسائل کا شکار ہیں۔ ملکی آئین کے مطابق انتخابات سے پہلے قائم ہونے والی نگراں حکومت کا مینڈیٹ بہت ہی محدود ہے۔ اس لئے اس کو سیاسی اصطلاح میں کام چلاؤ حکومت کہا جاتا ہے۔ لیکن عملا دیکھا جائے ، اگر صحیح حکمرانی ہو تو بہت سارے مسائل جو صرف حکمرانی کے دائرے میں آتے ہیں حل ہو سکتے ہیں۔ 
سندھ کی نگراں حکومت نے دو اہم مسائل کا سخت نوٹس لیا ہے۔ ایک صوبے میں زراعت کے لئے پانی کی تقسیم اور دورا ٹرانسپورٹ۔ سندھ میں ایک عرصے سے پانی پر سیاست ہوتی رہی۔ جو زمیندار حکومت کا ساتھ نہیں دیتے تھے ان کو اپنے حصے کا پانی نہیں ملتا تھا۔ اب پانی چوروں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ سندھ میں کاشتکاروں کے پانی کی فراہمی نہ ہونے پر گزشتہ ڈھائی ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ 
حکومت سندھ کوبھی ماہ مارچ سے شکایت ہے سندھ کو اپنے حصے کا پانی نہیں فراہم کیا جارہا ہے۔ پنجاب پانی کی قلت شیئر کرنے کو تیار نہیں۔ نہروں اور شاخوں پر رینجرز تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ رینجرز کی تعینات اگرچہ نئی بات نہیں۔ 
دوسرا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے ۔ یہ شکایت عام رہی ہے کہ ٹرانسپورٹرز مقررہ کرایوں سے زیادہ وصولی کرتے رہے ہیں۔حکومتی سطح پر مسافروں کی اس لوٹ مار کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مسافروں سے کرایوں کے نام پر یہ لوٹ مار عید کے موقع پر اور ہی بڑھ جاتی ہے۔ عام طور پر عید کے موقع پر ٹرانسپورٹر کراچی خواہ دیگر شہروں سے باہر جانے والی بسوں اور ویگنوں کے کرایے دوگنا تین گنا کر لیتے تھے۔ شکایات کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا تھا۔
ابھی موٹر وے پولیس نے کراچی سے لیکر قومی شاہراہ اور انڈس ہائی وے پر چلنے والی بسوں پر چھاپے مارے اور زیادہ کرایہ وصول کرنے پر 278 بسوں اور 116 ویگنوں پر چھاپے مارے اور مسافروں کو 32 لاکھ روپے زائد رقم لوٹائی جو ان سے زیادہ کرایے کی مد میں وصول کی گئی تھی۔ تعجب کی بات ہے کہ مسافروں کو یہ رقم لوٹادی گئی، اس رقم سے لگتا ہے کہ عید کے موقع پر ہر مرتبہ کروڑوں روپے مسافروں سے غیر قانونی طور پر وصول ہوتے رہے ہیں۔ 
صوبائی پولیس، ٹرانسپوڑت اتھارٹی، ہائی وے پولیس ان سب کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس غیرقانونی وصولی کو روکتے۔ایسا نہیں کیا گیا، جس سے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ متعلقہ محکموں کے علم میں ہوتے ہوئے رونما ہو رہا تھا۔ بلاشبہ یہ محسن اقدام ہے۔ ایک پہلو ضرور رہتا ہے کہ رقم تو واپس کردی گئی لیکن قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ٹرانسپورٹروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ 



لوڈشیڈنگ کی نئی کہانی
’’لوڈشیڈنگ: عوام سے حقائق کیوں چھپائے جارہے ہیں؟ ‘‘ کے عنوان سے ’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ رواں موسم میں جب سورج آگ برسا رہا ہے۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ نے عام لوگوں کی زندگی کو مزید اذیت ناک بنا دیا ہے۔ لوڈشیڈنگ بھگتنے ولاوں پر یہ خبر بجلی کی طرح گری کہ جولائی اور اگست میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔ قوم کو یہ نوید نیپرا کی جانب سے دی گئی ہے۔ نیپرا نے لوڈ شیڈنگ کی تما تر ذمہ داری نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کمپنی کے گرڈ اسٹیشن درست نہیں لہٰذا بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں لوڈشیڈنگ پر مجبور ہیں۔ نیپرا نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران این ٹی ڈی سی کے ٹرانسمیشن نظام کو مستحکم کرنے کے لئے 96 ارب 63 کروڑ روپے لگانے کی منظوری دی گئی تھی، لیکن ٹرانسمیشن کے لئے ذمہ دار یہ ادارہ اپنے نیٹ وک میں بہتری نہ لاسکا۔ نیپرا کے مطابق مسلسل بریک ڈاؤن ، این ٹی ڈی سی گرڈ اسٹیشنوں پر اضافی لوڈ، ٹرانسمیشن اور گرڈ اسٹیشنوں کے منصوبوں میں دیر، پاور پلانٹس سے بجلی کی منتقلی کے مسائل این ٹی ڈی سی خراب کارکردگی کی مثال ہیں۔ 
مسلم لیگ نون نے 2013 کے انتخابات میں لوڈژیڈنگ کے خاتمے کے نعرہ سے حصہ لیا تھا۔ وفاق میں حکومت کی تشکیل کے بعد لوڈژیڈنگ کے خاتمے کے لئے مختلف شنوائیاں ملتی رہی۔ جب نواز حکومت کو پتہ چلا کہ معاملہ بہت ہی بھاری ہے، اس نے اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے والے سال یعنی 2018 میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ڈیڈلائن دے دی۔ 2017 کے آخر میں لوڈشیڈنگ کی ایورسٹ چوٹی سر کرنے کی تشہیر شروع کردی گئی۔ لیکن لوڈشیڈنگ ختم نہ ہو سکی۔ اس کمزوری اور لوڈشیڈنگ کو ان بیانوں کے ذریعے چھپایا گیا کہ’’ جہاں جہاں سے وصولی نہیں ہوگی، وہاں لوڈشیڈنگ ہوگی۔‘‘ سندھ میں اتنی لوگ شیڈنگ کی گئی کہ لوگ تڑپ اٹھے۔ اس صوبے کے لوگوں کو یقین ہوچلا کہ ان سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کا بدلہ لیا جارہا ہے۔ 
اب نیپرا نے جو انکشافات کئے ہیں اس کے بعد نیپرا کو کیوں تحفظ دیا جارہا ہے؟ 
میڈیا مسلسل یہ سوالات اٹھاتا رہا کہ اچانک 2018میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کسیے ممکن ہے؟ یہ ایک مرحلیوار عمل ہے۔ تب وزیر بجلی اور پانی عابد شیر علی الٹے سیدھے اعدادو شمارکے ذریعے قوم کو الجھاتے رہے۔ اگر این ڈی سی کی کارکردگی اتنی ہی خراب تھی ، تو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے عوام کو سچ کیوں نہیں بتایا گیا؟ گزشتہ سال اپریل میں نیپرا نے اسپیشل وزٹ کی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں این ٹی ڈی سی کے پاور پروجیکٹس، ٹرانسمیشن لائنوں، لوڈشیڈنگ کی صورتحال سسٹم کی توسیع کے منصوبوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ این ٹی ڈی سی کے منصوبوں میں دیر کی وجہ سے 2018 میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ امر ناقابل فہم ہے کہ وہ بات جو عوام کے مفاد میں ہے وہ عوام سے کیونکر چھپائی جارہی ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران بجلی سے متعلق منصوبوں پر ایک کھرب روپے سے زائد سرمایہ کاری کے باوجود مطلوبہ نتائج کیوں حاصل نہ ہو سکے؟ 
دوسرے صوبوں کے مقابلے میں لوڈشیڈنگ سندھ کے حصے میں زیادہ آتی رہی ہے۔ اس کے اثرات عام لوگوں کی معمول کی زندگی پر ہی نہیں بلکہ پانی وغیرہ کے فراہمی کے ساتھ ساتھ معیشت پر بھی پڑتے ہیں۔ زراعت ہو یا صنعت اور تجارت سب کا پہیہ بجلی سے ہی چلتا ہے۔ مسئلے کی صحیح نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کا صحیح حل تلاش کرنے اور اوراس پر بروقت موثر طور پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ 



کالاباغ ڈیم اور سپریم کورٹ کا موقف
روزنامہ سندھ ایکسپریس اور عبرت نے کالاباغ ڈیم کا معاملہ سپریم کورٹ میں آنے پر اداریے لکھے ہیں۔’’کالاباغ ڈیم اور سپریم کورٹ کا موقف ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے چند روز ہوئے کہ کالاباغ ڈیم پر سپریم کورٹ بھی بیچ میں آگئی ہے۔ چونکہ یہ ایسا منصوبہ ہے جس کو تین صوبائی اسمبلیاں مسترد کر چکی ہیں لہٰذا یہ سپریم کورٹ کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کا متبادل تلاش کیا جائے۔ اب عید کے بعد اس موضوع پر سیمینار کئے جائیں گے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے 1991 کا معاہدہ موجود ہے۔ جب تک اس معاہدے پر اصل جوہر کے مطابق عمل نہیں ہوتا تب تک اپنی سے متعلق کسی منصوبے پر اتفاق رائے تلاش کرنا کارآمد نہیں ہوگا۔ 

Sunday, June 10, 2018

کالا باغ ڈیم رہنے دیں، اتفاق رائے ممکن نہیں - محکمہ انسداد رشوت ستانی کا رول



کالا باغ ڈیم رہنے دیں، اتفاق رائے ممکن نہیں

سندھ نامہ سہیل سانگی
   محکمہ انسداد رشوت ستانی کا رول 
روز نامہ کاوش اکثر لوگوں اس رائے کے ہیں کہ اگر محکمہ انسداد رشوت ستانی نہیں ہوتا، سندھ میں کرپشن کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ یہ منحکمہ کرپشن ختم کرنے کے بجائے اس کو تحفظ کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس محکمہ کا کیا رول ہے؟ اس کا اندازہ صوبے میں موجود عروج پر پہنچی ہوئی کرپشن سے لگایا جاسکتا ہے۔ اکثر معاملات میں نظر یہ آیا ہے کہ یہ محکمہ کرپٹ افسران کو گرفت میں لانے کے بجائے ان کو جھار پونچھ کر لانڈری سے گزار کر صاف ستھرے ہونے کا سرٹفکیٹ دے دیتا ہے۔ اس کی تازہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور سندھ اسیمبلی میں غیر قانونی بھرتیوں اور خریدار میں بے ضابطگیوں کی دوبارہ تحقیقاتی رپورٹس ہیں۔ محکمہ انسداد رشوت ستانی کی ٹیم نے کراچی شہر کے مختلف ٹاوئنز میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر، پابندی کے باوجود کثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت، رہائشی پلاٹوں کو غیر قانونی طور پر کمرشل پلاٹوں میں تبدیل کرنے سمیت دیگر غٰر قانونی معاملات کی دوباری تفتیش میں دھو کر صاف ستھرا قرار دے دیا ہے۔ اس سے قبل محکمہ انسداد دہشتگردی کے ڈپٹی ڈائریکٹرنے اپنی پہلی رپورٹ میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 128 افسران کو غیر قانونی کاموں میں ملوث قرار دیا تھا۔ ان افسران کو دوسری رپورٹ میں لانڈری سے دھو کر بے داغ قرار دیا گیا ہے۔ اور معاملات اسی ادارے ( بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی )کے ڈائریکٹر جنرل کو ریفر کئے گئے ہیں، جس پر پچاس ارب روپے کے کرپشن کے الزامات ہیں۔ دریں اثناء سندھ اسمبلی میں ایک سو سے زائد غیر قانونی بھرتیوں، سال 2014 سے لیکر 2017 تک 85 کروڑ 38 لاکھ روپے کی خریدار ی میں بے قاعدگیوں کی ازسرنو تحقیقات میں اسپیشل سیکریٹری پراجیکٹ اوردیگر افسران کو بری قرار دیا گیا ہے۔ 
سندھ میں کرپشن کے معاملات کی جب نیب نے تحقیقات شروع کی تھی، صوبائی حکومت نے نیب کی گرفت سے بچنے کے لئے کئی مقدمات محکمہ اینٹی کرپشن کو بھیجے تھے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ کرپشن کی تحقیات صوبائی محکمہ کر رہا ہے۔ اس محکمہ نے کیسی تحقیقات کی ؟ اس کا پتہ ان دو رپورٹوں سے چلتا ہے۔ ان دونوں معاملات کی دو مرتبہ تحقیقات کی گئی۔ پہلی تحقیقات محکمہ کے سنیئر افسران نے کی جس میں کرپشن کی ثبوت ملے۔ لہٰذا دوبارہ تحقیقات کی ضرورت ہی نہیں تھی، اسی تحقیقات کی بنیاد پر مقدمہ درج ہو نا چاہئے تھا۔ یہ مروج طریقہ ہے جس پر پہلے بھی عمل ہوتا رہا ہے۔ لیکن چیئرمین اینٹی کرپشن نے دوبارہ تحقیقات کی منظوری حاصل کی اور دسری بار ہونے والی تحقیقات میں زیر الزام افسران کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ معاملہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ کو ریفر کردیا گیا۔ کیا یہ ممکن لگتا ہے کہ سندھ میں کرپشن کی بہتی گنگا میں محکمہ اینٹی کرپشن بھی اس میں ہاتھ دھو رہا ہے؟ محکمہ کی دونوں رپورٹس متضاد اورایک دوسرے 180 درجے کے زاویے پر ہیں۔ 
سندھ کے سماج میں کرپشن سرائیت کر گئی ہے۔ اس کرپشن کی وجہ سے جمہوریت کا پھل عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ عوام کے ٹیکس کی رقم کی لوٹ مار لگی ہوئی ہے۔ قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کر کے اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے لئے بنائے گئے ادارے کرپشن کو چھپانے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم نا منظور 
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’ کالا باغ ڈیم نا منظور ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ اپنی کے وسائل سے متعلق سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے کالاباغ ڈیم سے متعلق خدشات کو درست قرار دیا ہے۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ واپڈا کے نمائندے نے سندھ کے موقف کو درست تسلیم کیا ہے۔ چیئرمین واپڈا ک کا ماننا تھا کہ سندھ کے خدشات اس لئے درست ہیں کیونکہ سندھ سمجھتا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب کو پانی ملے گا۔ لہٰذا جب تک اتفاق رائے سامنے نہیں آتا، اس ڈیم کی تعمیر شروع نہیں کی جاسکتی۔ ہم چیئرمین واپصا کے اس اظہار کو مثبت سمجھتے ہیں، جس میں انہوں نے سندھ کے خدشات کو محسوس کیا ہے۔ آج ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر بڑے ڈیموں کا تذکرہ ہونے لگا ہے۔ اس صورتحال میں بعض حلقے پانی کی قلت کا واحد کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو قرار دے رہے ہیں۔اس ڈیم پر برسوں سے جاری بحث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کالا باغ ڈیم اس لئے ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں دو سوبے سندھ اور پختونخوا تباہی کے کنارے پر پہنچ جائیں گے۔ اب تک ہونے والی سیاسی و فنی تمام بحث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ ڈیم سندھ اور خیبرپختونخوا کے لئے تباہی کا پروانہ ہے۔ لیکن پھر بھی بعض کوتاہ نظر غیر ضروری طور پراس متنازع ڈیم کا ذکر چھیڑ کر ملک میں مزید غیر یقینی حالات پید اکرنا چاہ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے اس معاملے کو ہوا دیان ناقابل برداشت ہے۔ 
بین القوامی قانون کے مطابق دریا پر پہلا حق آخری سرے پر آباد لوگوں کا ہے۔ جائز حصہ کا پانی دینے کے سندھ کے مطالبے کو رد کرنا بین الاقوامی خواہ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جہاں تک کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے کا تعلق ہے، یہ اتفاق رائے نہ کل تھا اور نہ آج ہے، نہ ہی آنے والے وتقوں میں ممکن ہے۔ اس متنازع ڈیم کے خلاف چار میں سے تین صوبے ایک ہی وقت قراردادیں منظور کر چکے ہیں اور اس کو رد کر چکے ہیں۔ سندھ میں ہرمکتب فکر کے لوگ اس کو اپنے دریا پر وار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا یہ سوال ہی فضول ہے کہ اس منصوبے پر اتفاق رائے ممکن ہے۔ ویسے بھی ایک غیر قانونی اور غیر فطری منصوبے پر اتفاق رائے بے معنی لگتا ہے۔ سندھ کو ابھی پانی کی جس قلت کا سامنا ہے ، اس وجہ کیا صرف مجموعی قلت ہے؟ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پنجاب اس قلت کے دوران اپنے وہ کینال زبردستی چلاتا رہا ہے، جو صرف سیلاب یا بہت زیادہ پانی کے بہاؤ کی صورت میں چلانے ہیں۔ پنجاب پانی سے متعلق منصوبوں کے حوالے سے اعتماد کھو چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں اگر سب کو مل جل کر رہنا ہے، تو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ غیر ضروری تنازعات کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔ کالاباغ ڈیم بھی اس زمرے میں آتا ہے، لہٰذا اس کے لئے ضد اور تکرار بھی بند ہونی چاہئے۔ کیونکہ پانی کی منصفانہ تقسیم وفاق کی وحدت اور سلامتی کی ایک اہم کڑی ہے۔


http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/60042/Sohail-Sangi/Kala-Bagh-Rehne-Dein-Ittefaq-e-Raie-Mumkin-Nahi.aspx 

http://insightpk.com/urducolumn/nai-baat/sohail-sangi/kala-bagh-rehne-dein-ittefaq-e-raie-mumkin-nahi 

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/kala-bagh-rehne-dein-ittefaq-e-raie-mumkin-nahi-4345.html 

Saturday, June 2, 2018

حکمرانوں کے ساتھ ساتھ موسم بھی نامہربان


حکمرانوں کے ساتھ ساتھ موسم بھی نامہربان

سندھ نامہ سہیل سانگی 
سندھ اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد بعض ایم پی ایز کو اچھی کارکردگی کے سرٹیفکیٹ دیئے۔ تعجب کی بات ہے کہ بعض ایسے اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں ، جن کی اجلاسوں میں شرکت نہیں رہی۔ اور بحث میں حصہ نہیں لیا۔ یہاں تک کہ ایک ایسے ایم پی اے بھی شامل ہیں، جو گرفتار ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات میں مقدمہ چل رہا ہے۔ میڈیا نے اس عمل پر تنقید کی ہے۔ اگر یہ دو چیزیں اچھی کارکردگی کے حوالے سے قابل ستائش تسلیم کی جائیں گی تو اس اسمبلی کا معیار کیا سمجھا جائے گا۔ میڈیا نے سوال کیا ہے کہ ایک منتخب ایوان جب اس طرح کے فیصلے کرتا ہے، تو اس ایوان کی عوام میں قدر کم ہو جاتی ہے۔
گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت 
سندھ میں حالیہ گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت نے ایک تکلیف دہ صورتحال پیدا کردی ہے۔ اس سے شہری خواہ دیہی دونوں آبادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اس صورٹاھل کو اپنا موضوع بنا یا ہے۔ ’’حکمرانوں کی طرح موسم بھی عوام پر نامہربان‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر حکمرانوں کی توجہ نہیں۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے گرمی ماضی کے ریکارڈ توڑ رہی ہے، دوسری طرف بجی فراہم کرنے والی کمپنیوں کا ظلم بھی شہریوں پر جاری ہے۔ گزشتہ روز سندھ کے شہروں میں درجہ حرارت 45 سے 48 فیصد رہا۔ اس جان لیوا گرمی میں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ دیہی علاقوں کو یہ کمپنیاں حساب میں ہی نہیں لاتی۔ صورتحال یہ ہے کہ حیدرآباد، لاڑکانہ، خیرپور، سیوہن، نوابشاہ، اور ان کے گردو نواح میں دس سے بارہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ رہی۔ فطرت میں مداخلت کی وجہ سے موسم تو لوگوں پر نامہربان ہے ، بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی سندھ کے لوگوں سے غیر اعلانیہ دشمنی نبھا رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں پانی کی قلت، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گرمی نے زندہ رھنے کے راستے مسدود کردیئے ہیں۔ تھوڑی بہت فرق کے ساتھ شہروں میں بھی یہی عالم ہے۔ موسمی تبدلیوں کے لئے طویل مدت کی منصوبہ بندی چاہئے۔ جن مسائل کا حل حکمران اور افسرشاہی فوری طور پر نکال سکتی ہے وہ مسائل تو حل کئے جاسکتے ہیں۔ 
سندھ میں پانی کی قلت شدت اختیار کر رہی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ دس سے بارہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ لاڑ کے علاقے کے باسی پانی کی قلت کی وجہ سے تھر جانے پر مجبورہو گئے ہیں۔ ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ بارشیں نہ پڑنے کی وجہ سے قحط سالی میں تھر کے لاڑ کے علاقے میں آکر رھتے تھے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنے آبائی گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، دوسری طرف کینالوں اور شاخوں کے آغاز میں رھنے والوں کوزیادہ پانی کے فصل گنے اور کیلے بونے کی فکر ہے۔ پانی کی غیر منصافنہ تقسیم سے نہ صرف سندھ کی زراعت پر منفی اثرات پڑے ہیں بلکہ مجموعی طور پر وہاں کی معاشی حالات پر بھی اثرات پڑے ہیں۔ 
اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا، درجہ حرارت میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ کے باعث سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زراعت نہیں ہوگی۔ زراعت نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقے پیچھے رہ جائیں گے۔ دیہی علاقوں کی زندگی اور معیشت براہ راست شہروں سے منسلک ہے۔ لہٰذا دیہی معیشت کے منفی اثرات سے شہر بھی بچ نہیں سکیں گے۔ سندھ آج کل سہ رخی عذاب کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف آسمان سے آگ کے گولے برس رہے ہیں ۔ تیسری طرف بجلی کی نہ ختم ہونے والی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہے۔ تیسری طرف لوگ پانی کے لئے ترس گئے ہیں۔ ماہ صیام میں بھی بجلی کمپنیوں کو خیال نہیں کہ وہ اعلان شدہ لوڈشیڈنگ کے مطابق بجلی فراہم کریں۔ جن علاقوں میں آٹھ گھنتے لوڈشیڈنگ کا اعالن ہے وہاں بارہ گھنٹے بجلی بند رھتی ہے۔ سندھ میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے نہروں کے آخری سرے کے علاقوں میں خریف کی فصلیں نہیں کاشت کی جاسکی ہیں۔ جن کاشتکاروں کے پاس سو ایکڑ زمین ہے، وہ ایک ایکڑ بھی زمین آباد نہیں کرسکے ہیں۔ پانی پر سیاست بھی ہوتی رہی ہے۔ اپنی کھیت آباد رکھنے کے لئے وڈیرے خواہ کاشتکار حکمران پارٹی کا سہارا لیتے ہیں۔ سندھ میں بجلی کی فراہمی کا معاملہ بھی اسی طرح سے ہے ۔ جس علاقے میں دو تین بااثر لوگ رہتے ہیں وہاں بجلی کی فراہمی بغیر رکاوٹ کے جاری ہے۔
ہندو میریج ایکٹ 
روزنامہ عبرت ہندو میریج ایکٹ میں ترمیم ایک احسن فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ اسمبلی نے مسلم لیگ فنکشنل کے ایم پی اے نندکمار گوکلانی کا پیش کردہ ہندو میریج ترمیمی بل منظور کیا۔ جس کی حمیات حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اور ایوان میں موجود دیگر جماعتوں نے بھی کی۔ اس بل کے ذریعے مختلف شقیں، ہندو میریج ایکٹ میں شامل کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کی روء سے کوئی بھی ہندو جوڑا علحدگی کے لئے عدالت میں درخواست دائر کر سکے گا۔ عدالت بیانات اور حقائق کی روشنی میں فیصلہ سنائے گی۔ ترمیمی بل کے مطابق ایسی کسی شادی کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی جو اٹھارہ سال سے کم عمر میں کی گئی ہو، یا بغیر رضامندی کے ہو، اسی طرح سے زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کی بھی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ ایسی شادی کو عدالت ختم کرسکے گی۔ ترمیمی بل کے مطابق شادی شدہ ہندو عورت کو بھی طلاق کے لئے عدالت میں درخواست دینے کا حق حاصل ہوگا۔ ہندو عور اس صورت میں یہ درخواست دے سکے گی کہ اگر شوہر دوسری شادی کررہا ہے یا دو سال سے اس کی دیکھ بھال نہیں کر رہا ہے۔ بل نے بیوہ ہندو عورتوں کو دوسری شادی کی اجازت دی ہے۔ 
یہ حقیقت ہے سندھ میں ہندو برادری کو متعدد مسائل درپیش رہے ہیں۔ خاص طور پر اغوا کر کے زبردستی شادی کرنے کے معاملات معمول بنے ہوئے تھے۔ اس عذاب کی وجہ سے کئی ہندو خاندان یہاں سے انڈیا منقتل ہو گئے۔ اس صورتحال میں نہ صرف ہندو برادری بلکہ اہل فکر ودانش ضرورت محسوس کر رہی تھی کہ ہندو لڑکیوں کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ یہ ترمیمی بل ایک احسن قدم ہے۔ امید کی اجسکتی ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ ہوسکے گا

http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-jun-2-2018-169167

http://insightpk.com/urducolumn/nai-baat/sohail-sangi/hukmarano-ke-saath-mausam-bhi-na-meharban