Sunday, October 29, 2017

عوام حکمرانوں کو مینڈیٹ بادشاہی کے لئے نہیں دیتے



سندھ نامہ    سہیل سانگی
وفاق میں سندھ کی ملازمتوں کے حصے کا سوال کے عنوان سے ’’روزنامہ عبرت ‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ حکومت نے وفاق میں ملازمتوں صوبائی کوٹا کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھیجنے اور اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقدہ کابینہ کے اجلاس میں کوٹا سسٹم میں توسیع پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ کہ کوٹہ سسٹم میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر سنیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کی جائے۔ اجلاس نے اسٹبلشمنٹ ڈویزن کو کوٹہ پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیکر سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی ۔

وزیراعظم نے کہا کہ کوٹہ سسٹم 1973 میں دس سال کے لئے نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن چار دہائیوں کے بعد بھی وہی سسٹم نافذ ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کر کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ہمارے ملک میں متعدد وسائل ہیں جنہیں بروئے کار لا کر صوبائی خواہ وفاقی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے شروع سے ہی غیر ملکی قوتوں پر انحصار کو اپنا شیوہ بنایا۔ نہ صرف اتنا، بلکہ سرمایہ کاری کے لئے بھی غیر ملکی سرمایہ کاری وک ملکی سرمایہ کاری پر ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ نتیجۃ اس کا براہ راست اثر روزگار پر پڑا۔
آج ملک میں بیروزگار کی سب سے بڑی تعداد گریجوئیٹس اور پوسٹ گریجوئیٹس نوجوانوں کی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کم اجرت والی یا ان کی ڈگری اور تعلیم سے میچ نہ رکھنے والی ملازمتوں میں ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان روزگار کے لئے بھٹک رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسٹمز، ریلوے، انکم ٹیکس، پورٹ اینڈ شپنگ، جیسے محکموں میں سندھ کے لوگوں کو ملازمت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور سندھ کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ امر یقیننا قابل تشویش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں۔ کئی بار سندھ کے نوجوانوں نے وفاق میں ملازمت نہ ملنے کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی یہ معاملہ وفاق کے پاس اٹھایا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملازمتوں میں حصے کا معاملہ ہو، یا قومی مالیاتی ایوارڈ میں شیئر، یا گیس اور بجلی کی فراہمی ہو، ان تمام معاملات میں وفاق سندھ کو مسلسل نظرانداز کرتا رہا ہے۔ اگر سندھ ملازمتوں یا دیگر معاملات پر آواز اٹھاتا ہے تو اس کی آواز اکیلی رہ جای ہے۔ اس صورتحال پر سندھ کے منتخب نمائندے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی یہ خاموش ان کی ایمانداری اور سچائی پر سوالیہ نشان ڈال دیتی ہے۔وہ عوام دوستی کا دعوا کرتے ہیں لیکن جب عوام کے حقوق کا معاملہ آتا ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اب وفاقی کابینہ نے کوٹہ سسٹم کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں سندھ کے منتخب نمائندوں کو ایک بار پھر موقعہ ملا ہے کہ وہ عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کا تقدس قائم رکھتے ہوئے سندھ کے نوجوانوں کا ان کا حق دلائیں ۔ بلکہ صوبے کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق کوٹہ اضافہ کرائیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں لیکن اس کے باوجود ایک خاص طبقے یا صوبے کو اہمیت دی جائے تو یہ سندھ اور دیگر متاثرہ صوبوں سے ناانصافی ہوگی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ بھی سندھ میں آکر ملازمت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سندھ کے باسیوں کے لئے روزگار کے مواقع اور کم ہو جاتے ہیں۔ سرکاری محکمے ہوں یا نجی ادارے، ایک جامع اور منصفانہ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس سے مقامی لوگوں کو روزگار حاصل ہو سکے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ مجموعی طور پر سندھ تباہی اور بربادی کی بھیانک تصویر بنی ہوئی ہے۔ لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ غربت اتنی کہ ان کے جسم اور روح کے درمیان رشتہ برقراررکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
سندھ کے مختلف جغرافیائی حصے لاڑ، شمال، تھر، کوہستان، ہر جگہ ایک جیسی صورتحال ہے۔ لیکن گیس کی دولت سے مالا مال کاچھو کے علاقے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کاچھو حکومت کے انتظامی حدود سے باہر ہے۔ یہاں کے لوگ پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت وغیرہ کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
ضلع دادو کے خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ اور جوہی تحصیلوں کی بیس یونین کونسل کی بیس لاکھ آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ 2010 کے سیلاب کے آٹھ سال بعد بھی یہاں کی سڑکیں اور لنک روڈ ابھی تک ٹوٹے ہوئے ہیں۔ لوگ گڑھوں کا پانی پیتے ہیں۔ ان کی غیر انسانی حالات زندگی پر یہاں کے منتخب نمائندے مطمئن ہیں۔ ان کا یہ موقف شایع ہوا ہے کہ کاچھو کے رہائشی پہلے کے مقابلے میں کوش اور مطمئن ہیں۔

ایک سندھ وہ ہے جس کا عکس حکمرانوں کے بیانات اور دعوؤں میں ملتا ہے۔ یہ سندھ ترقی یافتہ اور خوشحال سندھ ہے جہاں غربت کی وجہ سے لوگ خودکشی نہیں کر رہے ہیں۔ لوگوں کو تمام بنیادی سہولیات حاصل ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ صورتحال بنی کہ کہ جو ’’بیکار ‘‘تھا وہ ’’کار والا ‘‘ ہو گیا۔ جو سائیکل چلاتا تھا وہ چند برسوں میں لگزری گاڑی چلا رہا ہے۔ بعض نے ملازمتوں کی دکانیں کھولی۔ (جس کی تحقیقات تفتیشی ادارے کرتے رہے ہیں ) حکومت نے اس طرح سے فروخت کی گئی ملازمتوں کی تنخواہیں بھی بند کی۔ کئی ملازمتوں کے بیوپاری نیب اور دیگر تفتیشی اداروں کے پاس مقدمہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ باقی عام بیروزگاروں کو چھولے اور حلیم کا ٹھیلا لگانے کے مشورے دیئے جاتے ہیں۔

اس سندھ میں بااثر افراد اور اہلکار منہ بھی منرل واٹر سے دھوتے ہیں۔دوسری سندھ وہ ہے جس کا عکس اخبارات میں رپورٹنگ اور عوامی شکایات کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ یہ وہ سندھ ہے جس میں لوگ غلاظت آمیز پانی پیتے ہیں۔ سرکاری اسکول اور ڈسپینسریاں میویشیوں کے باڑے، اناج کے گودام یا اوطاقیں بنی ہوئی ہیں۔ جب ایسی حکمرانی کی بات کی جاتی ہے کہ تو حکمران کہتے ہیں کہ ترقی دیکھنی ہے تو تھرپارکر جا کر دیکھیں۔مٹھی اور اسلام کوٹ کے ہسپتال اور مٹھی اسلام کوٹ روڈ کی مثالیں دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں موبائل سیٹ کی تعداد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایک سندھ وہ بھی ہے جو حکمرانی کے خلاف لوگوں کے احتجاجوں میں نظر آتی ہے۔ ان احتجاجوں کی وجہ سے پریس کلبوں کے آگن آباد ہیں۔

کسی بھی سماج میں احتجاج دراصل حکمرانی اور انتظام کاری سے عدم اطمینان کا اظہار ہوتے ہیں۔ سماج میں موجود بے چینی اور تشویش کا اظہار اس طرح کے اظہار سے ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جہاں کسی نہ کسی مسئلے پر احتجاج نہ ہوتا ہو۔ دراصل گورننس کے حوالے سے سوالات ہمارے حکمرانوں کی چڑ بن چکے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے؟ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی گورننس کا ہی اشو ہے۔ عوام حکمرانوں کو مینڈیٹ بادشاہی کے لئے نہیں دیتے۔ بلکہ اپنے حقوق اور بنایدی سہولیات کی فراہمی کے لئے دیتے ہیں۔ 

October 14, 2017
Sindhi Press , Sindh Nama
Nai Baat, Sohail Sangi

Friday, October 13, 2017

سندھ میں بدانتظامی کی قبولیت

Sindh Nama, Sindhi Press 
Nai Baat - Sohail Sangi
سندھ میں بدانتظامی کی قبولیت کی حد

سندھ نامہ سہیل سانگی 
روز نامہ کاوش ’’ سائنسی دور میں پراسرار امراض‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ محکمہ صحت کی اس سے بڑھ کر اور کونسی نااہلی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے لوگ مختلف وائرس میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ لیکن محکمہ صحت کے منتظمین ان وائرسز کی بروقت تشخیص کر کے اس کا علاج کرکے لوگوں کی زندگی بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ محکمہ صحت کی یہ نااہل ’’نفری‘‘ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے امراض کو ’’پر اسرار‘‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ 
ٹنڈو الہ یار ضلع میں چمبڑ کے ایک گوٹھ مرید خان لونڈ میں وائرس کی وجہ سے چھ بچوں کی زندگی چلی گئی۔ لیکن محکمہ صحت اس وائرس کا سرغ نہ لگا سکا۔ محکمہ نے گاؤں والوں کو ڈیڑھ سو مچھردانیاں فراہم کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ کوٹ غلام محمد کے قریب ایک گاؤں میں ’’پراسرار مرض‘‘ نے ایک ہی خاندان کے چار افراد کی زندگی چھین لی۔ عاملوں نے اس مرض کا جنات کا سایہ قرار دے کر اپنا کاروبار چمکایا۔ 



لوگ مختلف وائرسز میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ لیکن ان کی زندگی بچانے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ محکمہ صحت اپنی نااہلی کی وجہ سے عاملوں کے کاروبار کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ محکمہ صحت کی باگ دوڑ ایک ڈاکٹر وزیر، اور ڈاکٹر سیکریٹری کے پاس ہے۔ متعلقہ شعبے کے سند یافتہ یہ عہدیدار محکمہ کی صحت کو ٹھیک نہیں کر سکے ہیں۔ دراصل کرپشن کے دیو نے ہمارے محکموں کے گھٹنے چاٹ لئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ محکمے اپاہج ہو گئے ہیں۔ بیمار محکمہ صحت لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کر رہا ہے۔ میڈیا مسلسل حکومت کی توج اس طرف منبذول کراتا رہا ہے کہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بیمار بیوروکریسی کے ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔ 


دراصل امراض پر اسرار نہیں ہوتے محکمہ صحت پراسرار بن گیا ہے۔ آج کے جدیدسائنسی دور میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے امراض کو پراسرار قرار دے کر محکمہ جگ ہنسائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرسز کے ٹیسٹ کرا کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں اور عاملوں سے نجات دلانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ 
روزنامہ کاوش نے اپنے اداریے میں گوسٹ اسکولوں کے بعد گھوسٹ ڈسپینسریوں کے انکشاف کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ابھی تین ہزار بند اسکول کھونلنے کے لئے حکومتی اعلان کی گونج ہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انتظامی نااہلی کی نئی خبر آئی ہے کہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی طرح گھوسٹ ڈسپینسریاں بھی موجود ہیں۔ محکمہ صحت کے سماعت و بصارت سے عاری انتظامیہ کو یہ نظر نہیں آرہی۔ ججز کے چھاپوں کے بعد ایک بڑی خبر کے طور پر یہ حقیقت سامنے آئی ہے۔
خبر کے مطابق نو دیرو کے قریب پانچ ڈسپینسریاں مویشیوں کے باڑوں، اوطاقوں گوداموں یا گیرجز کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں ۔ سول جج رتو دیرو کے چھاپے کے دوران ان گھوسٹ ڈسپینسریوں کا انکشاف ہوا۔ سندھ میں کرپشن جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ گھوسٹ ٹیچرز، اور گھوسٹ اسکولوں کے بعد گھوسٹ ڈسپینسریوں کی نئی اصطلاح سامنے آئی ہے۔ یہ ڈسپینسریاں بااثر افراد کے ذاتی استعمال میں ہیں جہاں مویشیوں کے باڑے، اوطاق، ، گودام یا گیریج چل رہے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان ڈسپینسیروں میں ڈاکٹر تعینات ہیں لیکن وہ ’’ویزے‘‘ پر ہیں اور اپنی سرکاری فرائض انجام نہیں دے رہے۔ سندھ میں انتظام کاری کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ 
تعلیم کے بعد یہ دوسرا محکمہ ہے جس کا تعلق براہ راست عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہاں انتظام کاری کی صورتحال بدتر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بدترین انتظام کاری کو اس حد تک قبولیت ہے کہ کوئی اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا۔ محکمہ صحت کا پروفائیل کرپشن کے حوالے سے کسی بھی طور پر محکمہ تعلیم سے کم نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں نجی شعبے کو آگے لانے اور پروان چڑھانے کے لئے منظم طور پر محکمہ تعلیم اور صحت کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے۔ سرکاری شعبے کی تعلیم تقاضوں کے مطابق نہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کے لئے علاج کی سہولیات وفات پا گئی ہیں۔ ان شعبوں کو تباہ کرنے میں کرپٹ اور بد دماغ بیوروکریسی کا ہاتھ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر صحت کی سہولیات پت توجہ دی جائے، اور اس منظم پلان کو ناکام بنایا جائے جو صوبے کے غریب عوام کو ابھی بھی تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے اور آنے والے وقتوں میں ان کو نجی شعبے کے حوالے کردے گا۔ 



روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’ درگاہ فتح پور پر حملہ: یہ ناسور کب ختم ہوگا؟ ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ انتہا پسندی ملک کے لئے ناسور بنی ہوئی ہے۔ درگاہوں کو نشانہ بنانے کو ہم ملک کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ صوفی بزرگوں کی درگاہیں، اور ٹھکانے نسل، رنگ، مذہب اور فرقے سے بالاتر رہے ہیں اور انسانی بھائی چارے کا مرکز رہے ہیں۔ جو ہمیشہ امن کا پیغام عام کرتے رہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بعض عناصر ان درگاہوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں, تاکہ عام لوگوں سے روحانی تسکین کا یہ آخری سہارا بھی چھین لیا جائے۔ جہاں سماج کے بالادست طبقوں یا افراد اور نظام کی پالیسیوں کے شکار لوگ آکر چند اطمینان کی گھڑیاں گزارتے ہیں۔ 
اس سے پہلے قلندر لعل شہبار اور دیگر درگاہوں پر بھی دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے اور دلی طور پر تکلیف ہوئی ہے۔ 
حالیہ واقعہ بلوچستان کی حود میں ہوا ہے جہاں کی صورتحال پہلے سے ہی خراب ہے۔ لیکن ہم درگاہ فتح پور پر حملے کو بلوچستان کی بدامنی کی صورتحال سے لاگ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس حملہ میں براہ راست درگاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے میں وہی گروہ ملوث ہیں جو ملک بھر میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کو اس حملے میں ملوث ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے ۔ اس طرح کی کارروایوں سے عام لوگوں کو جانی نقصان کے ساتھ ساتھ نفسیاتی عذاب کا شکار ہوتے ہیں ان کا ازالہ اگر بروقت نہیں کیا گیا، تو لوگوں کے ذہنوں میں خود ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان آجاتے ہیں۔


Nai Baat Oct 7, 2017 
Sohail Sangi


Sindh Nama, Sindhi Press