Saturday, December 23, 2017

سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی

Dec 23, 2017
Sindh Nama Nai Baat -

سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی
سندھ نامہ سہیل سانگی 
’’منڈی کی جنس کی طرح فروخت ہوتا ہوا قانون‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ صرف ایک روز کے اخبارات میں رپورٹ ہونے والے روڈ حادثات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں زندگی حادثات کی راہ چل پڑی ہے۔ صرف ایک روز میں 12 انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بیس بتائی جاتی ہے۔ نوری آاد کے قریب خیرپور سے کراچی جانے والی مسافر وین ایک ڈمپر سے ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجے میں چار افراد موقع پر ہی ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ۔ ٹھٹہ کے قریب گجو میں مسافر بس پولیس موبائیل سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار فوت ہو گیا۔ بھان سید آباد میں ایک ٹریکٹر ٹرالی الٹنے کی وجہ سے دو نوجوان فت ہوگئے۔ مٹیاری کے قریب گاڑی الٹنے سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح سے میہڑ، سجاول بائی پاس، سیہون، مٹیاری قاضی احمد، خیرپور، اور ٹنڈوجام میں حادثات میں ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ یہ وہ خبریں ہیں جو میڈیا میں شایع ہوئی ہیں۔ لیکن میڈیا کی رسائی سے دور بھی حادثات ہوئے ہونگے جو رپورٹ نہیں ہو سکے ہیں۔ 
سندھ میں روڈ حادثات بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا، تیز رفتاری، لاپروائی، سڑکوں کی خراب ھالت، ان فٹ گاڑیاں، موالی اور منشیات کے عادی ڈرائیور، اور ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء میں متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پاسداری نہ کرنا شامل ہے۔ سندھ میں روڈ اور سڑکوں پر گاڑیاں تو چلتی ہیں لیکن قانون نہیں چلتا۔ ایک کہاوت ہے کہ قانون کو بھی موت کی طرح ہونا چاہئے۔ جس میں کوئی مستثنیٰ نہ حاصل نہ ہو۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ یہاں قانون کو سکہ رائج الوقت کے عوض خریدا جا سکتا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس سے لیکر ٹریفک قوانین سے استثنیٰ تک ہر چیز قابل فروخت ہے۔ 
سندھ میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ اکثر سڑکیں صرف کاغذوں پر ہی بنی ہوئی ہیں۔ سندھ میں ترقی کا ثبوت کاغذوں سے باہر نہیں نکلتا۔ بجٹ میں ہر سال سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بجٹ بھی ’’حادثات‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگر سڑک بنتی بھی ہے تو چند ماہ میں ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ کیونکہ اس سڑک پر بجٹ کا ایک معمولی حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ تیزرفتاری بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹریفک قانون میں اس کی ایک حد مقرر ہے۔ لیکن ان قوانین پر عمل کون کرے؟ چھوٹی سڑکیں ہوں یا شاہراہیں، لوہے کے ہاتھی بے قابو دوڑتے رہتے ہیں۔ جب قانون پر عمل نہیں ہوگا، نظام ترتیب اور تنظیم کھو بیٹھے گا۔ ایسے میں حادثات کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کی فٹنیس بھی اہم مسئلہ ہے۔ جب قانون کی قیمت سکہ رائج الوقت میں ادا کر دی جاتی ہو، ایسے میں ان ٖت گاڑیوں کو کیسے روڈ سے آف کیا جاسکتا ہے؟ سندھ میں حادثات میں روز لوگ مر رہے ہیں، پھر ان کو ھادثات کیسے کہا جاسکتا ہے؟ حادثے تو اچانک ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ یہاں تو اسبا اور وجوہات موجود ہیں۔ پھر ان کو ھادثہ کیسے کہا جائے؟ جب ٹریفک قوانین کی خالف ورزی کی جائے گی، جب ان فٹ گاڑیوں پر سڑکوں پر آنے سے روکا نہیں جائے گا، جب ڈرائیونگ لائسنس ایک بکتی ہوئی جنس کی طرح ہو، ظاہر ہے اس کا نتیہجہ حادثات کی شکل میں ہی سامنے آئے گا۔ جب حادثات کے اسباب مہیا کئے جاتے ہیں تو پھر ان کو ھادثہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ سندھ میں روڈ حادثات، اس کی وجوہات ختم کرنے سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ 
فالتو اور اضافی اساتذہ
’’سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کی مثال!‘‘ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی ایرمجنسی نافذ ہے۔ سندھ حکومت اپنے تئیں صوبے میں تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش میں رہتی ہے کہ وہ تعلیمی ترقی کے لئے بہت پریشان ہے۔ لیکن عملی طور پر اس ضمن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی تازہ مثال گزشتہ روز صوبائی دارلحکومت کراچی میں اساتذہ پر برسائی گئی لاٹھیوں اور ان کی گرفتاریوں سے ہوتا ہے۔ جس کی صوبے بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جو ایک عرصے سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔لیکن انہیں ریگیولرائز نہیں کیا گیا۔ یہ اس حکومت کا رویہ ہے جس کو صوبے کے عوام کااکثریتی مینڈٰٹ حاصل ہے۔ استاد کا احترام کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کی پہلی نشانی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا شعبہ تعلیم ہی ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ کے ساتھ ہر دور میں یہ روش رہی ہے جیسے کہ وہ اضافی یا فالتو لوگ ہوں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران تعلیم کے بارے میں جو بھی اجلاس منعقد ہوئے ان میں وزیراعلیٰ سندھ نے جو بڑے بڑے وعدے کئے وہ ریکارڈ پر ہیں۔ گزشتہ روز کرایچ میں اساتذہ پر ہونے والی کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اپنے وعدوں کا کتنا پاس رکھا ہے۔ ایک طرف بتایا جاتا ہے کہ صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں اسکول بند ہیں ۔اور اساتذہ کی کمی ہے۔ دوسری طرف نئے اساتذہ بھرتی کرنے کے بجائے جو اساتذہ برسہا برس سے اپنے فرائض منصبی بخوبی ادا کر رہے ہیں ان کو مستقل نہیں کر کے آخر حکومت عوام کو اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ 
چند روز پہلے بھی اساتذہ پر کراچی میں تشدد کیا گیا تھا۔ وزیر تعلیم نے اس کارروائی کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی کہ گزشتہ دور حکومت میں غیر ضروری طور پر اساتذہ بھرتی کئے گئے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ بھرتیاں پیسوں کے عوض کی گئی تھی۔ لہٰذا ان کو مستقل نہیں کیا جاسکتا۔ کیا وزیر محترم بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت کس سیاسی جماعت کا تھا؟ وزارت تعلیم کا قلمدان کس کے پاس تھا؟ گزشتہ دور حکومت بھی موجودہ حکمران جماعت کا تھا۔ ہم وزیر موصوف کے ان دلائل کو مسترد کرتے ہیں اور ان زمینی حقائق کی طرف لے آتے ہیں کہ آج بھی سرکاری اعداد وشمار کے مطاب ہزاروں اسکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں ۔ جب زمینی حقیقت یہ ہے تو پھر یہ اساتذہ اضافی یا فالتو کیسے ٹہرے؟ 

نئی بات  سندھ نامہ

https://www.pakdiscussion.com/sindh-main-taraqi-kagazoun-say-bahir-nahi-nikalti-sohail-sangi/

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/53643/Sohail-Sangi/Sindh-Main-Taraqi-Kaghzon-Se-Bahir-Nahi-Nikalti.aspx 

http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-dec-23-2017-149506
سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی