Friday, November 8, 2019

بھولا ہوا کراچی پھر یاد آیا۔۔


Nai Baat Nov 8, 2019
بھولا ہوا کراچی پھر یاد آیا۔۔

سندھ نامہ   سہیل سانگی 

ایک وقفے کے بعدوزیراعظم عمران خان نے کراچی کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ کراچی کے حالات روز بروز بدتر ہورہے ہیں‘سندھ حکومت مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔دھرنا مارچ کے بعد وزیراعظم کا سندھ حکومت اور کراچی کے بارے میں پہلا بیان ہے۔گزشتہ ایک ماہ تک وفاقی حکومت آزادی مارچ کے معاملے میں مصروف تھی، یہ مصروفیت اب بھی ہے لیکن اس اعلان سے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت ایک بار پھر پیپلزپارٹی  اور سندھ حکومت کے بارے میں کچھ کرنا چاہتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ قدم پیپلزپارتی کی جانب سے آزادی مارچ کی حمایت کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ سندھ حکومت کا معاملہ پیپلزپارٹی کو دھرنے کے ابتدائی دنوں میں دور رکھے ہوئے تھا۔ لیکن اب معاملات پک چکے ہیں تو پیپلزپارٹی واضح لائن اختیار کرنے کی طرف جارہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی میں صفائی مہم تب تک چلتی رہی  جب تک صوبائی حکومت پیسے دیتی رہی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ معمول کی بھی صفائی نہیں ہورہی ہے۔ اب میئر کراچی سارا کچرا سندھ حکومت پر ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ کراچی تباہ ہورہا ہے صوبہ اور ملک کے چیف ایگزیکٹو صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں ورنہ بہت زیادہ نقصان ہوجائے گا کے ڈی اے، واٹر بورڈ اور دیگر شہری ادارے حکومت سندھ نے اپنے ماتحت کرکے زیادتی کی ہوئی ہے۔ شہر میں پانی و سیوریج، سڑکیں اور کچرے کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکاہے۔

دوسری طرف کراچی شہر میں سگ گزیدگی سے ایک اور ہلاکت ہو گئی جس کے بعد رواں سال اس شہر میں کتے کے کاٹے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 21ہوگئی۔میڈیا کی خبروں کے مطابق کراچی میں ڈینگی وائرس سے دو بچے ہلاک ہوگئے جبکہ178افراد ڈینگی وائرس سے متاثرہوگئے، رواں سال شہر میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 10ہزار60 جبکہ اموات کی تعداد 32ہوگئی ہے۔اگر گزشتہ برسوں کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔چلیں مان لیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی نہیں، لیکن کراچی بلدیہ عظمیٰ اور دیگر اداروں کی کارکردگی کہاں ہے؟کراچی بلدیہ عظمیٰ اور دیگر کراچی کے ادارے  احتساب سے بچنے کے لئے  شہر سے متعلق شکایات کر رہے ہیں۔ 
 سندھ کے اخبارات نے بجلی کے نرخوں میں اضافے،  احتجاج کرنے والے کالج اساتذہ پر پولیس کے تشدد،  تھر میں خود کشی کے واقعات پر اداریے  اور کالم لکھے ہیں۔ 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ خود کشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان اور خواتین
کی ہے۔ جن کا تعلق پسماندہ ہندو برادریوں سے ہے، جن کے گذر سفر کا ذریعہ شہروں وغیرہ میں جا کر محنت مزدوری کے ذریعے ہے۔ 

ایک اور اداریے میں کاوش لکھتا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ لیکن یہ ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے جو فاؤل پلے شروع کیا ہے، اس سے صوبوں کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔ 

ارسا نے چشمہ جہلم لنک کینال پر بجلی گھر بنانے کی منظوری دی ہے، جو کہ اس کا اختیار نہیں۔اس کے  منصوبے کے خلاف سندھ اسمبلی  اسمبلی کی قراردادا کو غیر ضروری قراردیاتے ہوئے اس کو اختیارات میں مداخلت  قرار دیا ہے۔ پہلے پپانی کے معاملے میں پنجاب کی حمایت کے لئے واپڈا آگے آگے ہوتا تھا۔ لیکن اب ارسا بھی میدان میں آئی ہے۔ چشمہ جہلم لنک کینال ایک فلڈ کینال ہے۔  اس میں صرف اس وقت پانی چوڑا جاسکتا ہے جب دریا میں سیلاب ہو۔ ایسے کینال پر اب بجلی گھر تعمیر کیا جارہا ہے۔ 

حد ہے کہ اس بجلی گھر کی تعمیر کے خلاف سندھ کے منتخب ادارے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو ایک غیر منتخب ادارہ غیر ضروری ٹہراتا ہے۔ ارسا ایک غیر منتخب ادارہ ہے اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ  وہ سندھ کے منتخب ادارے کی توہین کرے۔  دراصل یہ روش رہی ہے کہ منتخب اداروں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ان کی رائے کی توہین کی جاتی ہے۔  سندھ اسمبلی کے کالاباغ سے متعلق قراردادوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا رہا۔ اس طرح کی روش اور دانش سے عاری فیصلوں  نے پہلے بھی اس ملک کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ 
ملک کے قایم کے چوبیس سال بعد اس کا مشرقی حصہ علحدہ ہو گیا۔ لیکن اس المیے  سے بھی ہامرے حکمرانوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ سندھ کے عوام اور میڈیا بارہا یہ بتاتا رہا ہے کہ سندھ کوئی مفتوح علاقہ نہیں۔ اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔ اب ارسا یہ  طے کرے گا کہ منتخب اداروں کو کونسا کام کرنا چاہئے اور کونسا نہیں۔  ہم ارسا کی جانب سے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو غیرضروری قرار دینے کی مذمت کرتے ہیں، اور سندھ کے منتخب ایوان سے کہنا چاہیں گے کہ وہ عوام کے مینڈٰیٹ کا بھرم رکھے۔ 

روزنامہ پنہنجی اخبار ”کیا کالج اساتذہ بے رحمانہ  سلوک کے مستحق ہیں؟“کے عنواننسے لکھتا ہے کہ  یہاں کوئی بادشاہی نظام نہیں،  نہ ہی حکمرانوں کے لئے بنائی گئی عمارات محلات ہیں۔  جن کے سامنے عام کا گزر شجر ممنوع ہے۔ لیکن یہ بات سندھ کے اکابرین کے عقل میں نہیں آتی جو کسی عوامی احتجاج پر بھی باہر نہیں نکلتے۔  
مزید یہ کہ  احتجاج کرنے والوں کے مسئلہ کا حل لاٹھیاں برسانے کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔ گزشتہ روز بی چی ایم ہاؤس کے سامنے  کچے ایسے ہی مناظر پیش آئے۔ رہے ہیں۔ 

اس سے پہلے بھی اس مقام پر ایسے مناظر پیش ہوتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ لاٹھیاں کاھنے والے کالج کے اساتذہ تھے جو پروموشن اور ٹائین اسکیل کے مطالبات لیکر سندھ کے مختلف شہروں سے یہاں پہنچے تھے۔ 

پہلے رویہ تھا، اب حکمرانوں کی عادت بن گئی ہے کہ عوام کے مسائل سننے ہی نہیں ہیں اور اگر سن بھی لئے تو حل نہیں کرنے ہیں۔ اگر لوگوں نے احتجاج کیا تو اسے نظرانداز کرنا ہے۔  لگتا ہے  جیسے کوئی حکومت ہی نہ ہو، مگر جیسے ہی احتجاج کرنے والے  ریڈ زون میں قدم رکھتے ہیں تو حکومتی مشنری پورے ساز وسامان کے ساتھ  جاگ اٹھتی ہے اور احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نمٹتی ہے۔ افسرشاہی اپنے مطالبات منوا لیتی ہے لیکن اساتذہ  کی سنی نہیں جاتی، اور جب وہ اپنی بات سنانے کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ حکومت کا یہ رویہ  خواہ انداز حکمرانی کسی طور پر عوام دوست نہیں۔