Saturday, June 10, 2017

سندھ میں پانی کی سیاست ۔ سندھ نامہ ۔



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ میں پانی کی سیاست 

سندھ نامہ سہیل سانگی 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں ٹیل کے کاشتکار احتجاج، مظاہرے اور دھرنے لگا رہے ہیں۔پانی کی تقسیم میں ہونے والی بدنظمی، چوری اور زوری کے بارے میں گزشتہ روز ایک تفصیلی رپورٹ شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وارابندی کے نام پر کس طرح سے محکمہ آبپاشی کے افسران کمائی کر رہے ہیں۔ اور بعض افراد کس طرح اپنا اثر رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ صرف نارا کینال کی ہی مثال سے بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ 1360 کیوسک پانی کے لئے ڈیزائین کردہ اس کینال میں 14600 کیوسکس پانی دینے کے بعد بھی پانی کی قلت کی شکایات دور نہیں ہو سکی ہے۔ میرپورخاص، تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ اضلاع میں خریف کی فصل صحیح طور پر بوئی نہیں جاسکی ہے۔ محکمہ آباشی اور سیڈا کے پانی وارابندی (روٹیشن) سے متعلق الگ الگ فرمان اور حوالے ہیں ۔ اس کنفیوزن سے افسران فائدہ اٹھاکر پیسے سمیٹ رہے ہیں۔ یوں اس کا وزن زراعت کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 
وارابندی کے شیڈیول کا حشر یہ ہے کہ جو روٹیشن میں شاخین کھلی ہوئی دکھائی گئی ہیں عملا وہ بند پڑی ہوئی ہیں۔ اور اسی طرح س کاغوں میں بند شاخیں کھلی ہوئی ہیں اور ان میں پانی بہہ رہا ہے۔ مٹھڑاؤ کینال کی پلی مائنر شیڈیول کے مطابق 24 مئی سے کھلی رکھنی ہے۔ لیکن یہ شاخ 27 مئی تک نہیں کھل سکی تھی۔ کاشتکار کی آنکھوں کے سامنے فصل سوکھ رہی ہوتی ہے۔۔ جب یہ شاخ کھلی تو محکمہ آباشی کے افسران نے 39 کاشتکاروں کے خلاف پانی کی چوری کا مقدمہ داخل کر دیا۔ وہ پانی کے چور نہیں کہلائے جنہوں نے غیر قانونی طور پر تین روز تک پانی بند رکھا۔ لیکن جن کاشتکاروں نے آگے بڑھ کر اپنا حق حاصل کیا اور پانی کھولا وہ چور ٹہرے۔ یہ درست ہے کہ ریاست کے معمول میں دخل اندازی مثبت عمل نہیں۔ کیونکہ اس کام کے لئے سرکاری ملازم تعینات ہیں۔ لیکن جب عوام کے خادم عوام کو تکلیف اور اذیت دینے لگیں تو عوام کو کونسا راستہ اختیاار کرنا چاہئے۔ 
سندھ میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی شکایات کی پرانی تاریخ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر انتقامی کارروائی اور سیاست پانی پر ہی ہوتی رہی ہے۔ سندھ میں جو سیاست پانی کے ذریعے کی جاسکتی ہے وہ محکمہ داخلہ کے ذریعے بھی نہیں کی جاسکتی۔ حال ہی میں کنری کے علاقے میں انتقامی سیاست کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔ پانی کی صرف غیر منصفانہ تقسیم ہی نہیں ہوتی، پانی کا معاملہ صرف بدانتظامی کا قصہ نہیں بلکہ پانی سب لوگوں کو پارٹی میں لانے کاسندھ میں حکمران جماعت کا ہتھیار ہے۔ جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آرہا۔ 
سندھ میں پانی کی چوری اور سینہ زوری کرنے والوں کو عام طور پر بااثر کہا جاتا ہے۔ یہ بااثر ہر دور میں اس لئے حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ ان کی شاخیں اور واٹر کورس بند نہ ہوں۔ یہاں جتنا پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ہے سندھ حکومت نے اتنی ہی کم توجہ دی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے آبپاشی کا کوئی وزیر ہی مقرر نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصے تک ایک مشیر کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا۔ اس دور میں بھی پانی کی تقسیم کی شکایات رہی، صوبے کے دیہی علاقوں کی معیشت کا مکمل طور پر انھصار پانی پر ہے اور زراعت آبپاشی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے صوبے کی ترقی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لئے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ 
روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ حکومت سندھ نے صوبے میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے اختیارات بلدیاتی اداروں کو دے دیئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویزراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کراچی کے لئے ترقیاتی فنڈ نہیں مختص کئے گئے ہیں۔ سید مرادعلی شاہ نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کا آنا وفاقی حکومت کی ناکامی ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمیں نہیں سنا گیا جبکہ مالیاتی کمیشن کے لئے ہم نے مختلف تجاویز تیار کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران این ایف سی ایوارڈ میں سے سندھ حکومت کو 68 ارب روپے کم ملے ہیں۔ 
بجٹ پیش ہونے سے پہلے یہ خبریں میڈیا میں ؤئی تھیں کہ رواں مالی سال کے اہداف پورے نہیں ہوئے ہیں اور مختلف محکمے ترقیاتی بجٹ استعمال نہیں کر سکے ہیں۔ ہر سال کی طرح یہ عمل ان محکموں کی عادت سی بن گئی ہے۔ نتیجۃ ترقیاتی کام وقت پر مکمل نہیں ہوتے ۔ بجٹ میں مختلف سرکاری محکموں میں ملازمتیں دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ماضی میں صوبائی حکومت پر یہ الزام آتا رہا ہے کہ ملازمتیں میرٹ پر دینے کے بجائے پیسوں کے عوض دی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اس مرتبہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں گی۔ ہم وفاقی حکومت کو یاد دلاتے ہیں کہ نیا این ایف ایوارڈ دینا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جو وفاق پوری نہیں کر سکا۔ یہ شکایات بڑھتی جارہی ہیں کہ وفاق دوسرے صوبوں کو نظر انداز کر کے صرف ایک ہی صوبے پر پیسے خرچ کر رہاے ہے۔ صوبوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے اور اٹھارہویں ترمیم کے مطابق اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ روبروز سنگین صورت اختیار کرتاجارہا ہے۔ صورتحال یہ جا کے بنی کہ وزیراعلیٰ سندھ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ’’ سندھ کے عوام اس شدید گرمی میں 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے شدت کے تجربے سے گزر رہا ہے۔‘‘ صوبے کے مختلف شہروں سے لوڈ شیڈنگ اور لوگوں کے احتجاج کی خبریں آرہی ہیں ۔ کراچی سے لے کر کشمور تک کوئی ایسا شہر نہیں جوطویل اوربدترین لوڈ شیڈنگ سے بچا ہوا ہو۔ حد ہے کہ بعض دیہی علاقوں بجلی نام کی کوئی چیز آج کل دستیاب نہیں ۔ اس وجہ سے سندھ میں غصے احتجاج کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سندھ میں اس طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جارہی ہے؟ جبکہ پر دعوا کیاا جاتا ہے کہ 18 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ کے جواز میں بار بار بلوں کی عدم ادائگی کی بات کرتی رہی ہے۔ لیکن اتنے طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود اتنے ہی بھاری بل آرہے ہیں۔ ایک طرف عوام کو بجلی فراہم نہیں کی جارہی، دوسری طرف اتنے بھاری بل بھیجے جارہے ہیں۔ چھ ماہ کے اندر بجلی کی قلت ختم کرنے کے دعویداروں نے سندھ میں مکمل طور پر بجلی غائب کردی ہے۔ 
ملک گرمی کی شدید لپیٹ میں ہے۔لوگوں کی تکالیف کی کوئی حد نہیں رہی۔ جب حالات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں تو لوگوں کے پاس سوائے احتجاج کے اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ایسے میں لوڈشیڈنگ کے خلاف لوگ توڑ پھوڑ پر اتر آتے ہیں۔ حکومت طویل لوڈشیڈنگ کا فوری نوٹس لے اور اس کے سدباب کے لئے اقدامات کرے۔ 



Water as tool for rulers
Nai Baat June 10, 2017


Friday, June 9, 2017

سندھ کو سرپرائیز ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی

سعودی عرب کی دعوت پرمیں منعقدہ مسلم ممالک کی کانفرنس اور اس میں ٹرمپ کی شرکت، بجٹ، جے آئی ٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کی تفتیش کا آغازمسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی اور سندھ میں طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ اور بریک ڈاؤن اخبارات میں زیر بحث رہے۔ جتنی ملک کی سیاسی فضا میں گرماگرمی ہے اتنی ہی گرمی سدنھ میں پڑ رہی ہے اس پر طرہ یہ کہ شدید لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ابھی دو ہفتے قبل سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی بجلی کے حوالے سے احتجاج کرتی رہی ہے۔ حالیہ واقعات نے پیپلز پارٹی کے اس احتجاج کو جائز قرار دے دیا ہے۔ طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ پر تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔
روزنامہ کاوش ’’پہلے روزے پر سندھ کو سرپرائیز ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کے حصے میں ویسے بھی زیادہ لوڈ شیڈنگ آتی رہی ہے ۔ لیکن ماہ صیام کی آمد کے ساتھ اس صوبے کو نہ صرف تاریکیوں بلکہ تندور میں جھونک دیا ۔ سندھ کے لوگ ابھی پہلے روزے کی سحری کی تیاری کر رہے تھے کہ بریک ڈاؤں سے بلیک آؤٹ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔ جس نے اس جھلسا دینے والی شدید گرمی میں لوگوں کو تڑپا کے رکھ دیا۔ صوبائی دارلحکومت، حیدرآباد، میرپورخاص اور سکھر ڈویزنوں میں 10 گھنٹے تک مسلسل بریک ڈاؤن رہا۔ ( چار روز بعد تک بھی بجلی کی صورتحال معمول پر نہ آسکی تھی۔)
سندھ میں بجلی کی فراہمی اور ٹرانسمیشن کا انفراسٹرکچر اتنا زبون ہے کہ اس میں خرابیوں کے باعث صارفین بجلی سے محروم رھتے ہیں۔ بجلی تقسیم کنندگان کمپنیوں کی اندرونی کرپشن، اور ٹرانسمیشن اینڈ دسپیچ کمپنی کی نااہلی کے باعث وقتا فوقتا نئے مسائل سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن ان فنی و انتظامی خرابیوں کو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔بجلی و پانی کی وزارت کے دونوں وفاقی وزراء سندھ کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھے ہیں، وہ ہر وقت سندھ کے لوگوں کو بجلی چور ٹہرانے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لمبے بریک ڈاؤن کے 24 گھنٹے بعد بھی بجلی مکمل طور پر بحال نہیں کی جاسکی۔ یہ دونوں وزرا اس ضمن میں ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لا سکے۔ وزارت بجلی نے ماہ صیام کے دوران خاص طور پر سحری اور افطار کے وقت لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکی۔ جب وعدوں پر عمل کی یہ صورتحال ہو، اگلے سال لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ نواز لیگ نے 2013 کی انتخابی مہم میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔کہا جاسکتا ہے کہ حکمران پارٹی نے اس وعدے پر ہی انتخابات جیتے ۔ اب اقتدار کی مدت ختم ہونے کو ہے، لیکن اس وعدے کے ایفا ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ صورتحال میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اگر تبدیلی ہوتی تو مرحلیوار ہوتی اور نظر آتی۔ پہلے روزے پر طویل بریک ڈاؤن اور اس پر حکام کی غیرسنجیدگی سندھ کو کیا پیغام دیا جارہا ہے۔ یہ امر حیرت میں اضافہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ گڈو سے لے کر شکارپور، دادو اور جامشورو تک جو ٹاور 21 مئی کو گرے تھے ایک ہفتے بعد تک بھی بحال نہیں ہو سکے۔ جھلسا دینے والی گرمی میں بجلی بند ہو، اور اس کی وجہ سے فراہمی و نکاسی آب کا نظام بھی معطل ہو گیا۔ شدید گرمی میں لوگوں کا سکون چھین کر س ان کے صبر کو آزمایا جارہا ہے۔ اس بریک ڈاؤن اور اس کی طرف متعلقہ حکام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایڈہاک حل کے بجائے مستقل حل تلاش کیا جائے۔ اور ٹرانسمیشن اور فراہمی کا نظام میں اصلاحات کی جاءئیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس’’ زراعت بغیر سندھ کی ترقی کا تصور‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کی معیشت سے اگر زراعت کو نکال دیا جائے تو کچھ بھی نہیں بچتا۔ لیکن المیہ ہے کہ حکومت اس بنیادی شعبے کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ پانی کی شدید قلت، کھیتی باڑی کے بھاری اخراجات، نقلی بیج، کھاد اور زرعی ادویات کے مسائل سے لیکر فصل اترنے پر مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے سندھ کے کسانوں اور کاشتکاروں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ سندھ کے کسان اور کاشتکار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، وہ اپنے مسائل اور ان کے حل متعلق کی عملی تجاویز حکام کے سامنے پیش بھی کرتے رہے ہیں۔لیکن نتیجہ صفر ہے۔
اب سندھ کے کاشتکاروں نے حکومت سندھ سے بغیر سود قرض، سولر ٹیوب ویل ، فصلوں کی انشورنس، پنجاب سے آنے والی نقلی ادویات اور بیج وغیرہ کی روک تھام اور کینالوں کو پختہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کاشتکاروں کے ایک وفد نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کر کے یہ مطالبات پیش کئے۔ کاشتکاروں کے ان مطالبات کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت زرعی پالیسی دینا چاہتی ہے اس لئے زراعت اور آبپاشی پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ مویشیوں کی فارمنگ پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ کاشتکاروں کے وفد کو بتایا گیا کہ حکومت سولر ٹیوب ویل دینا چاہتی ہے اور اس کے لئے سبسڈٰ ی بھی رکھی گئی ہے۔ سندھ کی زراعت ک کثیرالنوع مسائل کا شکار ہے۔ یہ اجلاس ایک مثبت قدم ہے لیکن اس اجلاس میں کاشتکاروں نے جو مطالبات پیش کئے ہیں ان پر جلد اور مستقل عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اخبارات میں بینظیر بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کے چلڈرین ہسپتال میں بچوں کی اموات پر اداریے لکھے ہیں۔ اخبارات کے مطابق یہ ہسپتال بچوں کی اموات کے حوالے سے تھر کو بھی مات دے گیا۔ تھر میں گزشتہ تین ماہ کے دوران جتنے بچے فوت ہوئے اتنے ہی یعنی 185 لاڑکانہ چلڈرین ہسپتال میں ایک ماہ کے اندر فوت ہوئے ہیں۔ جس میں اکثریت نوزائیدہ بچوں کی ہے۔ جو ہسپتال پہنچنے کے 24 سے 48 گھنٹے بعد فوت ہوئے ہیں۔ یہاں آئی یو سی میں داخل بچوں کی نگہداشت کے لئے پروفیشنل عملہ موجود نہیں ہوتا۔ نوزائیدہ بچوں کی ھیاتی بچانے کے لئے ہسپتال میں موجود وینٹیلیٹر اور مانیٹر برسوں سے کمروں میں بند پڑے ہوئے ہیں۔ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کو آخری مرحلے پر ہسپتال لے آتے ہیں۔وینٹیلیٹر موجود ہیں لیکن چلانے کے لئے تربیت یافتہ عملہ بھرتی نہیں کیا گیا ہے۔ تھر میں خوراک کی کمی اور علاج کی بہتر سہولیات کی عدم موجودگی پر سندھ ابھی تک ماتم کدہ ہے۔ ایسے میں لاڑکانہ ہسپتال میں بچوں کی بڑے تعداد میں اموات کی خبر کسی بجلی گرنے سے کم نہیں۔ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ اس ہسپتال کے معاملات میں فورا مداخلت کر کے اصلاح اھوال کی جائے۔ اور معاملہ کہ بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ برسہا برس گزرنے کے بعد بھی کیونکر تربیت یافتہ عملہ مقرر کیا گیا؟ اگر باقی محکموں میں تقرریاں کی جاسکتی ہیں تو اس ضروری ادارے میں کانٹریکٹ بنیاد پر کیوں نہیں بھرتیاں کی گئیں؟ تحقیقات کے بعد ذمہ دار افراد کو سزا بھی دی جائے۔
Nai Baat June 3, 2017