Friday, June 28, 2019

افغان پناہ گزین ، ٹڈی دل اور سندھ


افغان پناہ گزین ، ٹڈی دل اور سندھ

سندھ نامہ سہیل سانگی

28-Jun-2019 

 ابھی سندھ صوبے میں ایچ آئی وی سے لڑ رہا تھا کہ دو اور مسائل افغان پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع اور ٹڈی دل کے حملے کی لپیٹ میں آگیا ہے۔” روزنامہ پنہنجی اخبار“ لکھتا ہے کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت تیس جون کو ختم ہو رہی ہے۔ قرضوں کی دل دل میں پھنسے پاکستان کے شہریوں کی حالت بھی پناہ گزینوں سے کم نہیں۔ باقی سہولیات کو چھوڑیئے، پانی کا صاف پانی بھی میسر نہیں لوگ گٹر کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزینوں کو ٹہرانے والاپاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ امن و امان کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 153 نمبر پر ہے۔ضیا

¾ دور سے لیکر ان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں مسلسل توسیع کی جاتی رہی ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے بھی ان پانہ گزینوں کو امن و امان خراب کرنے کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائیم افغاان پناہ گزین ملوث ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس روزگار نہیں، تو پھر ان کی قیام کی مدت میں کیوں تودیع کی جارہی ہے؟ افغان پناہ گزینوں کو ٹہرانے کی وجہ سے دہشتگردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ درگاہ قلندر شہباز، مزار نورانی اور دیگر مقامات ان کے نشانے پر رہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور بھ اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات کے بعد عوام میں غم و غصے کی لہر دور گئی۔ اور تمام حلقے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ تب سیکیورٹی ادارے بھی حرکت میں آئے اور سرچ آپریشن کر کے ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں مقیم افغان پناہگزینوں کو واپس بھیج دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم واقعات اور زخم بھول جاتے ہیں اور کسی نئے سانحے کاانتظار کرنے لگتے ہیں۔ ہم غیر ممالک سے قرضے لیکر اپنے شہریوں کو پا ل رہے ہیں۔

 یہ امر فہم سے بالاترہے کہ سال ہا سال سے ان پناہ گزینوں کی تعداد وہی 14 لاکھ باتئی جارہی ہے۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ افغان پانہ گزینوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے چالیس لاکھ سندھ میں آبادہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ افغان بارڈر کھلا رہنا چاہئے۔ بعد میں ان کے شناختی کارڈبنا کر دینے کی بھی بات ہوئی۔ اگست 2016 میں پناہ گزینوں کے ایک وفد نے عمران سے ملاقات کی تو انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے چلایس ہزار ٹن گندم بطور امدا افغانستان کو بھیجی، جب تھر میں قحط کی وجہ سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی تھی۔ وفاقی حکومت نے اس قحط زدہ علاقے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ آگے چل کر یہ بھی انکشاف ہوا کہ 90 ہزار افغانیوں نے پاکستان کے شناختی کارڈ بنوا لئے ہیں۔ بعد میں یہ کارڈ بلاک کرنے کی بھی خبریں آئیں۔ لیکن بتدریج یہ بلاک کارڈز کھول دیئے گئے۔ابھی وفاقی حکومت نے چیف سیکریٹری سندھ کو خط لکھ کر غیر قانونی طور قیام پذیر تارکین وطن کو نادرا کے ذریعے رجسٹر کرنے سے متعلق تجاویز طلب کی ہیں۔ گزشتہ سال جنرل باجوہ نے میونخ میں کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان افغان پناہ گزین کیمپوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں باعزت طریقے سے واپس اپنے وطن بھیج دیا جائے۔ یہ تارکین وطن بتدریج سندھ کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں توسیع کرنے جارہی ہے تو اس پر سندھ کو بھرپور آواز اٹھانی چاہئے۔ سندھ حکومت کو سخت موقف اختیار کرنا چاہئے۔
 سندھ اسمبلی نے تقریبا بارہ کرب روپے کا سالانہ بجٹ منظور کر لیا ہے۔ اپوزیشن نے 543 کٹوتی کی تحاریک پیش کیں جنہیں اسمبلی نے مسترد کردیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مالی بحران سندھ کی وجہ سے نہیں وفاقی حکومت کی وجہ سے ہے۔ اس سے پہلے ضمنی بجٹ کی منظوری کے موقع پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، بھلے سب کو گرفتار کرلیا جائے، جب تک اللہ اور پارٹی چاہے گی میں وزیراعلیٰ رہوں گا۔ انہوں نے اس امر پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نت بغیر کسی عدالتی فیصلے کے پورے سندھ صوبے کا کرپٹ قرار دے دیا ہے۔
سندھ کی میڈیا کے مطابق سندھ کے چھ اضلاع ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے زرعی فصلوں کو زبردست نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ سندھ کے میدانی اور زرعی بیلٹ پر ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہے۔ مٹیاری، دادو، جامشورو، نوابشاہ، نوشہروفیروز، سانگھڑ، اور خیرپور اضلاع میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ان کا رخ پنجاب کی طرف ہے۔ اڑنے والے کیڑے پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو زرعی شعبے کو بڑانقصان پہنچے گا۔اگرچہ ٹڈی دل کا حالیہ لشکر مارچ میں ایران میں داخل ہو چکا تھا، لیکن وفاق و صوبائی حکومت بلوچستان اور سندھ نے پیشگی تیاری نہیں کی۔ضلعی حکام سندھ حکومت کو خطوط لکھ رہے ہیں۔ مون سون کی وجہ سے ان کی افزائش نسل میں اضافہ ہوگا۔ اس کے بعد صورتحال اور بھی خطرناک ہو جائے گی۔
پاکستان میں پچاس، ساٹھ اور نوے کے عشروں میں ٹدی دل کے حملے ہوئے تھے۔ آخری مرتبہ ٹڈی دل کا حملہ پاکستان میں 1993 اور 1997 میں ہوا تھا۔ ایک مرتبہ پھر بلوچستان سے لیکر سندھ کے مخلتف اضلاع کے تین لاکھ مربع کلو میٹر کے علاقے میں پھیل چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ پنجاب کے ریگستانی علاقوں میں بھی داخل ہونگے۔ اس مرتبہ افریقہ کے ممالک سوڈان اور اریٹریا سے شروع ہوا اور یمن، سعودی عرب سے ہوتے ہوئے ایران پہنچے جہاں چار لاکھ مربع کلومیٹر کو متاثر کیا۔ یہاں سے یہ کیڑا بلوچستان میں داخل ہوا۔ تربت، دشت، گوادر، جیوانی، لسبیلہ، خضدار، اتھل، خاران دالبدین وغیرہ میں انہیں کنٹرول رکنے کی کوشش کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اور عالمی ادارے فوری طور پر حرکت میں آئیں۔


https://www.naibaat.pk/28-Jun-2019/24330

https://www.pakistantoday.com.pk/2019/06/28/govt-allows-afghan-refugees-to-stay-in-pakistan-for-another-year/

The federal government has decided to extend the stay of registered Afghan refugees living in Pakistan till June 30, 2020.

The decision, notified by the Ministry of States and Frontier Regions (SAFRON), comes during Afghan President Ashraf Ghani’s ongoing visit to Pakistan and days before the current extension ends on June 30, 2019.

“In pursuance of approval of the Federal Cabinet conveyed vide Cabinet Division’s Memorandum No.550(S)/Rule-19/2019-Cab, dated 27 June, 2019, the Government of Pakistan is pleased to extend the Validity in respect of Tripartite Agreement, Proof of Registration (PoR) Cards till 30-06-2020,” read the notification.

The ministry also announced an extension in the validity of Afghan Citizen Cards (ACC) till October 31, 2019.

Prime Minister Imran Khan also informed the Afghan president about the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) government’s decision.

As per data collected by the United Nations High Commissioner for Refugees (UNHCR), there were 1,405,715 registered Afghan refugees and 210,465 Afghan families in Pakistan as of June 3, 2019.

The UN refugee agency defines registered Afghans as those who have valid Proof of Registration (PoR) cards issued by the Pakistani government.

The data shows the agency facilitated voluntary repatriation of 4,374,208 Afghan refugees from 2002 till December 4, 2018.

This year – till June 24, 2019 – UNHCR has facilitated the voluntary repatriation of 2,036 Afghan refugees.

At the UNHCR hosted and chaired 30th Tripartite Commission Meeting in Islamabad on June 18, Pakistan, Afghanistan and the refugee agency reaffirmed their commitment to uphold the principle of voluntary repatriation – in safety and dignity – under the Tripartite Agreement.

They called for enhanced efforts to create an environment conducive to voluntary return and sustainable reintegration in Afghanistan, and vowed to continue supporting the host communities in Pakistan, within the framework of the Solutions Strategy for Afghan Refugees (SSAR).

All three stakeholders also expressed concern at the decrease in the voluntary repatriation grant provided to Afghan refugees and encouraged the international community to increase the cash grant to its previous level of approximately $400 per individual.



June 29, 2019 
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے اُن افغان مہاجرین کے قیام میں مزید ایک سال کی توسیع دے دی ہے جو پی او آر یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈز کے حامل ہوں جبکہ افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والے افغانوں کی رہائش میں رواں سال 31 اکتوبر تک کے لیے توسیع کی گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر نے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پریشانی اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار افغان مہاجرین کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایک سال کی مزید توسیع کے اس فیصلے اور افغانوں کی بہترین مہمانداری کرنے پر پاکستانی حکومت اور عوام کا شکرگزار ہے، جو چار دہائیوں سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یواین ایچ سی آر پاکستان کو ان پریشان مہاجرین کے لیے ایک ایسا میزبان تصور کرتی ہے جس کی مثال دی جاسکتی ہے اور کہا کہ ان کا ادارہ اس بہترین کردار کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔
  یوں تو پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد ایک اعشاریہ چار ملین یعنی 14 لاکھ ہے لیکن بہت سارے افغان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو مہاجر کے طور پر رجسٹر نہیں کروایا۔ ایک اندازے کے مطابق ان رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان نے سال 2017 میں ایسے آٹھ لاکھ افغانوں کو، جو مہاجر کے طور پر پروف آف رجسٹریشن کے حامل نہیں ہیں، کو افغان سٹیزن کارڈ کے ذریعے رجسٹر کیا تھا۔
پاکستان کی وزارت برائے سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے سہ فریقی معاہدے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پی او آر کارڈز کے حامل افغانوں کو مزید ایک سال تک قیام کی منظوری دی ہے جبکہ افغان سٹیزن کارڈز کے حامل لوگوں کے لیے مدتِ قیام میں رواں سال کے اکتوبر کی آخری یعنی 31 تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ سہ فریقی کمیشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں افغانستان، پاکستان اور یو این ایچ سی آر کے حکام شامل ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح کی گورننگ باڈی کا کام کرتی ہے۔ پاکستان میں سیفران جبکہ افغانستان میں مہاجرین کے وزیر اس کمیشن کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ دونوں ملکوں میں یو این ایچ سی آر کے حکام اس کمیشن کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کا آخری اجلاس چند روز قبل ہی اسلام آباد میں ہوا تھا۔
قیصر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں غیرملکی مہاجرین کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر 14 لاکھ افغان مہاجرین زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ترکی ہے جہاں پر 37 لاکھ مہاجر رہائش پذیر ہیں۔
اسلام آباد میں 20 جون کو مہاجرین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران یو این ایچ سی آر کے نمائندوں نے بتایا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں 85 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں آباد ہیں جبکہ صرف 15 فی صد ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر سیفران شہریار آفریدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک 85 فیصد مہاجرین کا بوجھ اٹھارہے ہیں خصوصاً پاکستان، جسے خود بھی مالی بحران کا سامنا ہے، گذشتہ چار دہائیوں سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔
کابینہ اجلاس کے بعد وزارت سیفران سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کابینہ نے توسیع کے ساتھ ساتھ 18 جون کو اسلام آباد میں اس حوالے سے ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے اعلامیے کی بھی منظوری دی۔ مذکورہ سہ فریقی اجلاس میں پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے وفود نے شرکت کی تھی، جس کے اعلامیے میں 40 سال تک اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کی مہمانداری کرنے پر اس کے کردار کی تعریف کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ ان افغانوں کو رضاکارانہ اور باعزت طریقے سے وطن واپس لوٹنے کے قابل بنایا جائے گا۔ سہ فریقی اجلاس کے اختتامی بیان میں رضاکارانہ وطن واپس لوٹنے والوں کے لیے رقم میں کمی پر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس رقم میں اضافہ کیا جائے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سال 2002 سے اب تک 43 لاکھ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس لوٹ چکے ہیں جو کہ یو این ایچ سی آر کی تاریخ میں سب سے بڑی رضاکارانہ واپسی سمجھی جارہی ہے۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ افغان سال 2016 میں اُس وقت واپس وطن لوٹے، جب واپس جانے والے ہر افغان کے لیے گرانٹ 200 ڈالر سے بڑھا کر 400 ڈالر کی گئی، تاہم بعد ازاں سال 2017 میں یہ گرانٹ واپس کم کرکے 200 ڈالر فی کس کردی گئی۔ پاکستان کی جانب سے فی کس گرانٹ کو واپس 400 ڈالر کرنے کے لیے کوششیں بھی کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افغان وطن واپس جاسکیں۔



سیاسی مصروفیتیں اور خواتین پر تشدد کے واقعات

Nai Baat June 14, 2019

حکومت کی سیاسی مصروفیتیں اور خواتین پر تشدد کے واقعات
انصاف اور قانون سیاسی مصرفیتوں کی نذر
 سندھ میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات
سندھ نامہ سہیل سانگی
 پیپلزپارٹی کی قیادت کی گرفتاریوں نے سندھ کی سیاسی فضا کو گرما دیا ہے۔حلقوں کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کو بھی خارج ازامکان نہیں قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی توجہ بجٹ کو آخری شکل دینے پر بھی رہی۔ جبکہ نیا پولیس قانون گورنر سندھ کی جانب سے اعتراضات اٹھانے اور دستخط نہ کرنے کی وجہ سے تاحال بیچ میں لٹکا ہوا ہے، اب یہ بل دوبارہ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔صوبائی حکومت اور گورنر کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف اقدامات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف سندھ اور صوبے میں موجود اپنے اتحادیوں سے بھی ملاقات کی ہے۔اس ملاقات میں انہوں نے سندھ پر توجہ دینے کا اشارہ دیا ہے۔ بؑعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے نیتجے میں وفاقی حکومت ایک بار پھرسندھ میں ان ہاﺅس تبدیلی کی کوشش کرے گی ۔ گزشتہ مرتبہ یہ کوشش اس وجہ سے معطل کردی گئی تھی کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی گرینڈ نیشنل الائنس کے درمیان وزارت اعلیٰ کے منصب کے لئے اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ اقتدار کے قریبی ذرائع کے مطابق ان ہاﺅس تبدیلی کی کوشش کو سندھ کے عوامی حلقوں خواہ حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں صوبائی وزیر ناصر شاہ کا نام لیا جارہا ہے۔ گزشتہ مرتبہ جی ڈی اے کے کوشش بھی ناصر شاہ کو بنیاد بنا کر کی گئی تھی۔لہٰذا ناصر شاہ سب کے لئے قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ اور وہ سید بھی ہیں۔
سندھ بھر میں آصف علی زرداری کی گرفتاری کے خلاف دو روز تک مظاہرے ہوتے رہے اور سندھ اسمبلی نے بھی ان کی گرفتاری پرمذمتی قرارداد منظور کی۔ اپوزیشن سرکاری بنچوں کو پریشان کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے ایوان میں ایکو ساﺅنڈ لے کر آئی۔ اپوزیشن ساﺅنڈ سسٹم اپنے چیمبر میں رکھ کر مائیک ایوان میں لے آئے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل بینرز اور پلے کارڈ لیکر پہنچے تو سکیورٹی عملے نے انہیں روک دیا۔
حکومت سندھ کی توجہ سیاسی معاملات پر زیادہ رہی۔انتظامیہ خواہ جرائم پیشہ افراد یا پھر کسی کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لئے انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگ حکومت کی سیاسی مصروفیت کے موقع کو غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں وہ قانون کی پکڑ سے بچ جائیں گے۔جس کی وجہ سے صوبے بھر میں امن و مان کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ ابھی حکومت صوبے میں ایچ آئی وی کے مسئلے سے مناسب طور پر نمٹ نہ سکی تھی کہ سماج کے پسماندہ طبقوں اور حصوں کے خلاف نا انصافیوں میں اضافہ ہوا ہے۔خاص طور پر خواتین کے خلاف ناانصافیوں اور زیادتیوں خواہ تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ان مظالم کا شکار ہونے والی خواتین کا تعلق پچھڑے ہوئے طبقات سے ہے۔
 گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خواتین کے خلاف تشدد یا انصافیوں کے سولہ بڑے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں ۔گہرائی سے تحقیق کے نتیجے میں اس تعداد میں اضافہ ہوگا۔ٹنڈو محمد خان میں دو ملزمان نے تیرہ سالہ جمنا سامی کو نشہ پلا کر اغوا کیا اور جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا اور اس کے بعد مین اسٹریم میڈیا میں شور مچ جانے کے بعد ملزمان گرفتار کر لئے گئے ہیں اور متاثرہ لڑکی نے عدالت میں ان کی شناخت کر لی ہے۔ متاثرہ لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ فوٹو سیشن کا سلسلہ بند کیا جائے انصاف دیا جائے۔
سیٹھارجا کے قریب شادی شدہ سکھاں شوہر اور دیور کے مظالم اور تشدد کی وجہ سے فصلوں میں جا چھپی۔شکایت پر چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ۔ اور لڑکی کو الدین کے حوالے کردیا۔
 محرابپور میں چھ بچوں کی ماں یاسمین نے گلے میں پھندہ ڈال کر خود کشی کرلی ۔ متوفیہ پولیس اہلکار کی بیوی بتائی جاتی ہے۔ خانپور کے قریب چار ملزمان نے اپنی چچازاد لڑکی کو گلا دبا کر ہلاک کردیا۔ وراہ میں رشتے کے تنازع پر مسلح افراد نے حملہ کرکے لڑکی کو اغوا کرلیا گیا، ماں سمیت دو افراد زخمی ہو گئے۔ ٹنڈو آدم کے قریب بیروزگار نوجوان نے گھریلو مسائل سے تنگ آکر خود کشی کر لی، سامارو میں شریمتی رادھا نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔ بغیر پولیس کو اطلاع کے لاش دفنا دی گئی۔ کوٹ غلام محمد کے قریب ایک عورت کو اجتماعی جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کنڈیارو کے قریب صبا بی بی گھانگھرو پراسرار طور پر فوت ہوگئی۔واقعہ کے بارے میں قتل کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ تھر کے شہر چھاچھرو کے گاﺅن کانگیا میں ایک دوسرے کو چاہنے والے لڑکے اور لڑکی نے مبینہ طور پر کنویں چھلانگ لگا کر خود کشی کی کوشش کی۔ کیونکہ والدین ان کی شادی کے لئے تیار نہیں تھے۔
لڑکی ہلاک ہو گئی۔ لڑکے کو نازک حالت میں ہسپتال داخل کردیا گیا ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ خود کشی نہیں قتل ہے۔کندھ کوٹ کے قریب بھینس بیچنے سے منع کرنے پر جانل جعفری شوہر کے ہاتھوں قتل ہوگئی۔ سکھر کے قریب گاﺅں رضا مہر میں بھائیوں کے ساتھ مل کر شوہر نے بیوی کو ”کاری“ ہونے کے الزام میں قتل کردیا۔ ٹھل میں ایک شادی شدہ خاتون رانی گل کھوسو گھریلو تشدد سے تنگ آکر تھانے پہنچی۔ انہیں بعد میں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ جیکب آباد میں ایک شخص وزیر خارانی نے کارو کاری کے الزام میں بہن اور ایک شخص کو قتل کردیا۔ ماتلی میں تین بچوں کی ماں گڑیا کولہی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی۔ مورو کے قریب گوٹھ دھیرن میں شادی شدہ جوڑے نے گھریلو پریشانیوں تنگ آکراپنی جان لے لی۔ نوابشاہ میں اکیلو بھیل اور اسکی کی بیوی نے اپنی جوان بیٹی کو بازیاب کرانے کے لئے احتجاج کیا۔ میرپور ماتھیلو میں چار بچوں کی ماں کو رات کو سوتے میں قتل کردیا گیا۔
سندھ میں خواتین کی حقوق کے لئے ایک مکمل وزارت اور خواتین کے حقوق کے لئے ایک کمیشن بھی موجود ہے ۔ ان دونوں اداروں کی جانب سے خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اور نہ ہی متاثرین کی مدد یا ان سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ وفاقی وزارت قانون، انصاف و انسانی حقوق کے اشتہارات بھی اخبارات میں شایع ہو رہے ہیں۔ لیکن سندھ کے پسماندہ طبقات اور کمزور حصے نہ انصاف تک پہنچ پاتے ہیں اور نہ قانون ان تک پہنچ پاتا ہے۔

Monday, June 10, 2019

پولیس آپریشن کی ناکامی میں پولیس کا کردار

Nai Baat June 8, 2019
پولیس آپریشن کی ناکامی میں پولیس کا کردار
سندھ نامہ سہیل سانگی
 گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی کی مین اسٹریم میڈیا مسلسل کراچی کے پانی، صفائی ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کے مسائل اٹھا رہی ہے جس سے ایم کیو ایم کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کو نظرانداز کر رہی ہے۔ صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے کوشاں ہے کہ وہ اس بیانیے کو پختہ ہونے نہ دے۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک حساس پچ ہے، اس بنیاد پر کسی بھی وقت وفاقی حکومت یا وفاقی اور عدلیہ ادارے نوٹس لے کر اس کو مشکل صورتحال میں ڈال سکتے ہیں۔
مملکتی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی گھوٹکی کی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات کے لئے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ یہ نشست اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ گھوٹکی کے مہر خاندان سے موجودہ سندھ حکومت کو دو مرتبہ خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ چیف سردار محمد بخش مہر پیپلزپارٹی کی قیادت سے قریب ہیں۔ اب مرحوم علی محمد مہر کے بیٹے نے بلاول بھٹو سے ملاقات کر نے کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے جس سے گھوٹکی کی سیاست میں تبدیلی آگئی ہے، اور اس کا جھکاﺅ پیپلزپارٹی کی طرف ہو گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے عید آبائی شہر نوابشاہ میں گزاری۔ اس موقع پر انہوں نے پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں کی۔ نوابشاہ کے قریبی علاقوں میں تقریبات سے خطاب کیا۔ جلد حکومت کو گرا کر لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔
 شکارپور کے قریب ڈاکوﺅں سے ناکام پولیس مقابلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔”پولیس آپریشن کی ناکامی میں پولیس کا کردار“ کے عنوان سے ”روز نامہ کاوش“ لکھتا ہے کہ سندھ میں جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ آپریشن کے نام پر پولیس فنڈ تو خرچ کرتی ہے لیکن اس سے جرائم پیشہ افراد کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔اکثر آپریشن ناکام ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس اپنا ہی جانی نقصان کر کے لوٹ آتی ہے۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا کہ پولیس جب اپنا ہی تحفظ نہیں کر پاتی تو عوام کا تحفظ کای کر پائے گی۔ ایسا ہی کچھ شکارپور ضلع میں ہوا۔مقتول کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے اے ایس پی شکارپور سٹی کی قیادت میں چین والی بکتر بند اور موبائل گاڑیوں میں جانے والی مختلف تھانوں کی پولیس پارٹی پر گھات لگاا کر بیٹھے ہوئے ڈاکوﺅں نے جدید ہتھیاروں سے حملہ کردیا۔ ان بکتر بند گاڑیوں میں سے گولی پار ہونے کی وجہ سے لکھی تھانے کے ایس ایچ او اور چک تھانے کا اے ایس آئی شہید ہو گئے۔بعج دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے اور پولیس بغیر آپریشن واپس آ گئی۔
 سندھ میں اغوا انڈسٹری موجود ہے۔ غیر مقامی بگاڑ کی فیکٹریوں میں پیدا ہونے والی مقامی پراڈکٹ نے قانون کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ شکارپور ضلع جرائم اور قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے منفرد تشخص رکھتا ہے۔ یہاں جرائم بھوتاروں کی معیشت کا حصہ بن چکے ہیں۔جب آپریشن ہوتا ہے جرائم پیشہ افراد کو پیشگی اطلاع ہو جاتی ہے، اس واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ گھات لگا کر پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا۔ اور ایسے ہتھیار استعمال کئے جو بکتر بند گاڑی کی چادر توڑ دی۔ جس سے اے پی سی کے اندر بیٹھے ہوئے دو پولیس افسران شہید ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سال قبل ان اے پی سیز کی مرمت کے لئے فزیبلٹی رپورٹ بنائی گئی تھی۔ ایک کمپنی نے گاڑی کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ مشنری ہماری ہے لیکن گاڑی کا اوپر والا ڈھانچہ اور پلیٹ فارم غیر معیاری ہے جو کہ دوسری کمپنیوں کا بنایا ہوا ہے ۔ہم اگر مرمت کر کے اپنی کمپنی کے پرزہ جات لگائیں گے تو نچلے حصے سے میچ نہیں کریں گے، کمپنی نے جب مرمت کرنے سے انکار کردیا، تو ایک کروڑ روپے خرچ کر کے مقامی مستریوں سے دو گاڑیاںمرمت کر اکے روڈ پر لائی گئیں۔
 لگتا ہے کہ سندھ پولیس کو دی گئی اے پی سیز غیر معیاری ہیں۔اب تو سندھ بھر میں پولیس کو فراہم کی گئی اے پی سیز کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ ڈاکو آگاہ تھے کے ان کے پاس موجود اسلح اے پی سی کو تباہ کرسکتا ہے۔ اب کوئی افسر ان اے پی سی کے پر انحصار کر کے آپریشن کی ہمت کرےگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ سندھ میں اسلح سازی کے کارخانے موجود نہیں، پھر ڈاکوﺅں کے پاس یہ انتہائی بھاری اور جدید اسلح کہاں سے آتا ہے؟ اس طرح کا اسلح پولیس کے پاس بھی نہیں۔ جرم صرف سرپرستی کی چھتری کے نیچے پنپتے ہیں۔ جرائم اور مجرموں کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی اور پولیس کی نااہلی بھی جرائم کے اضافے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔اس آپریشن کی ناکامی کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
 ”روزنامہ پہنجی اخبار“ نے صوبے میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ” آخر حکومت کتنے روڈ حادثوں کے بعد بیدار ہوگی“ کے عنوان سے اداریہ لکھاہے۔ صوبے بھر سے روزانہ حادثات کی خبریں شایع ہو رہی ہیں۔ جیسے ڑوڈوں پر ملک الموت موت گشت کر رہا ہے۔ نوری آباد، میرپور ساکرو، گجو، ٹنڈو جام، واہی پاندھی وغیرہ میں حادثات میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ حادثات ہر مرتبہ حکومت اور ٹریفک حکام کے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہراہوں پر نہ ٹریفک قوانین پر عمل ہورہا ہے اور نہ حادثے کی صورت میں ٹراما سینٹر یا طبی امدا د کی سہولت دستیاب ہے۔ حکومت کے نزدیک حادثات اتفاقیہ ہوتے ہیں۔ نہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور نہ کیس پر ذمہ داری فکس کی جاتی ہے۔کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک سال کے درواں درجنوں انسانی جانیں چلی گئی ہیں۔ مہذب ممالک میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں سب کچھ ڈرائیوروں کی مرضی پر ہے کہ وہ کس طرح گاڑیاں چلائیں۔ خاص طور پربسوں اور کوچز میں مسافر
 ڈرائیورز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو روڈ حادثات کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔اور قوانین پر پابندی کرانے کو یقینی بنانا چاہئے۔

Saturday, June 1, 2019

سندھ نامہ: ہم بیماریوں کے معاملے میں خود کفیل ہو چکے


 سندھ نامہ   سہیل سانگی
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق  وفاقی حکومت غربت مٹاؤ  منصوبے کے تحت بعض پروگرام شروع کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا پہلے نام تبدیل کرنا چاہ رہی تھی، اب اس پروگرام کو چھوٹا کر کے اس کے بجائے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے پروگرام لانا چاہ رہی ہے۔ حکمران جماعت کا خیال ہے کہ گزشتہ انتخابات میں سندھ میں پیپلزپارٹی نے اس پروگرام کا سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔  وفاقی حکومت کی اس حکمت عملی کے توڑ کے طور پر سندھ حکومت نے غربت گھٹانے کے پروگرام کا اعلان کیا  ہے۔ نوجوانوں اور خواتین کو  چھوٹے قرضے دینے،  نوجوانوں کو اسکالرشپ دینے،  بینظیر کسان کارڈ جاری کرنے،  مدر اینڈ چائلڈ سپورٹ پروگرام  شروع کرے گی۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے احتجاج کے باوجود و صوبے کی 15 ارب روپے مالیت کی 36 منصوبے  وفاقی ترقیاتی پروگرام میں سے نکال دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی زیر صادرت منعقدی قومی  اقتصادی کونسل کے اجلاس  نے مرکز اور صوبوں کے لئے کل  1837 ارب روپے کے منصوبوں کی منظوری دی۔وزیراعلیٰ سندھ کا موقف ہے کہ سندھ میں جاری منصوبے شامل نہ کرنا ناانصافی ہے۔  ان کا کہناہے کہ اس ضمن میں ان سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ رواں سال سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے گزشتہ سال کے مقابلے میں بھی کم رقم رکھی گئی ہے۔ ترقیاتی پروگرام میں دس ارب پودے لگانا،  وزیراعظم اسکل ڈوپلمنٹ پروگرام،  لائن آف کنٹرول کے متاثرین کی بحالی، گلگت، چترال اسکردو روڈ کی تعمیر، گلگت میں سیوریج اور سنیٹیشن  نظام میں بہتری کے پی شامل کردہ فاٹا کے اضلاع کی ترقی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے اہم جز ہیں۔ ان منصوبوں میں سکھر بیراج کی بحالی، جامشورو سیوہن روڈ کی تعمیر، سدرن بائی پاس میرپورخاص عمر کوٹ روڈ کی تعمیر، گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم، اور محکمہ آبپاشی کے چار منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں پر پہلے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود سخت موقف اختیار کئے ہوئے ہیں، انہوں نے صحافیوں کو  وفاقی حکومت کے مجوزہ پی ڈی ایس پی  کی کاپی بھی دکائی  اور کہا کہ وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت رواں مالی سال کے دروان  78 ارب روپے خرچ ہوئے جس میں سے سندھ پر صرف ایک ارب روپے خرچ کئے گئے۔ شہدادکوٹ بائی پاس، حیدرآباد بائی پاس، نادرن بائی پاس، سندھ  زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام اور مہران یونیورسٹی کا ایک ایک منصوبہ، منچھر جھیل کے پانی کو صاف کرنے کا منصوبہ، کے بی فیڈر کی لائننگ شامل ہیں۔ 
 تازہ اطلاعات کے مطابق سندھ میں پانچ ہزار سے زائد عطائی ڈاکٹروں کی کلینکس ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔  سب سے  زیادہ عطائی ڈاکٹر سانگھڑ میں ہیں جہاں یہ تعدا  ۷۹۶  ہے۔میرپورخاص دوسرے نمبر پر ہے
 ”روز نامہ پنہنجی اخبار“ لکھتا ہے کہ  اب لگتا ہے کہ ہم بیماریوں کے معاملے میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز مملکتی وزیر برائے صحت ظفر مرزا  ایڈز کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے  سندھ آئے تھا، جہاں انہوں نے ان اعتراف کیا کہ پاکسیان میں میں ہیپیٹائیٹس کا مرض سب سے زیادہ ہے۔  اس بیماری کے حوالے سے پاکستان کا پہلے نمبر پر ہونے پر ہمیں کوئی شک نہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر آلود پانی پینے سے پھیلتی ہے۔  ملک میں کئی برسوں سے پینے کے پانی کی صورتحال یہ ہے کئی مقامات پر انسان تو چھوڑیں جانوروں کے پینے کے لائق بھی پانی نہیں۔ یہ پانی انسان استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں باقی صبوں کے مقابلے میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ جہاں لاکھوں مریض ہیپیٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں۔ سندھ ہپیٹائیٹس کنٹرول بورڈ کے صرف گزشتہ سال کے جاری کردہ  اعدا وشمار صدمے کی صورتحال پیش کرتے ہیں۔صرف ایک سال کے دوران تیس ہزار کیس ظاہر ہوئے۔ اگرچہ ہیپٹائیٹس کنٹرول بورڈ صوبے میں  ہیپٹائیٹس کے مریضوں کی تعداد اڑھائی لاکھ بتاتا ہے۔یہ وہ مریض ہیں جو صوبے  کے علاج معالجے کے مراکز پر رجسٹرڈ ہیں۔ صوبے میں لاکھوں ایسے مریض موجود ہیں جو ان مراکز تک نہیں پہنچ سکے ہیں اور خود کو رجسٹرڈ نہیں کراسکے ہیں۔ سندھ حکومت کا دعوا ہے کہ صوبے بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر اس مرض کے علاج کے 61 مراکز  سور 17 اسکریننگ  اور ویکسینیشن سنیٹرز ہیں۔ کبھی زحمت کر ے وہاں موجود ادویات، ویکسین  اور عملے کی موجودگی کا جائزہ لیا جاتا کہ یہ سب سرزمین پر موجود بھی ہیں یا نہیں؟  
ہپٹائیٹس کنٹرول انتظامیہ کا کام مرض میں مبتلا ہونے کے بعد علاج کرنا نہیں بلکہ  اس سے پہلے حفاظتی اقدامات لینا ان کے فرائض میں شامل ہے، تاکہ لوگ اس مرض میں مبتلا ہونے سے بچ سکیں۔ سندھ میں واٹر کمیشن کے قیام کے بعد جو ہوش اڑانے والے انکشافات ہوئے ان میں کہا گیا کہ پینے کے پانی اور گٹر کے پانی میں کوئی فرق نہیں۔ کئی شہروں میں سیوریج لائینز پینے کے پانی کی لائنوں سے مل گئی ہیں۔ دنیا جہان کا گند کچرہ کینالوں اور شاخوں میں ڈالا جا رہا ہے جہاں سے ملنے والا پانی انسانی آبادی کے استعمال میں صوبے کے دوردراز علاقوں میں  واٹر سپلائی کا کوئی نظام نہیں، لہٰذا لوگ یہاں پر کھڑے ہوئے پانی کے گڑھوں  سے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی رپورٹس ہیں کہ کئی مقامات پر زیر زمین پانی کڑوا اور قابل استعمال نہیں۔ ایسے میں لوگوں کو اس موتمار بیماری سے کون بچائے گا؟؟ اصل کام بیماری کی جڑ کو ختم کرنا ہے۔  وہ اسباب ڈھونڈنے اور ان کو ختم کرنا ہے۔ ایسا کرکے  ہر سال اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کو روکا جاسکتا ہے۔ واٹر کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں صوبائی حکومت کی غر سنجیدگی اس مرض کو بڑھا رہی
 ہے۔ صوباء حکومت کا رویہ اپنی جگہ پر، مملکی وزیر کے فراخدلی کے ساتھ اعتراف پر تعجب ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیا صرف اعتراف کرنے سے مرض ختم ہو جائے گا؟ اگر وفاقی حکومت تین ہسپتالیں اپنی تحویل میں لینے کے لئے جلدی کر سکتی ہے، اس طرح کے ہنگامی اقدامات ایڈز اور ہیپٹائیٹس کے خامے کے لئے بھی لے سکتی ہے۔



https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/sindh-ke-masail-zimmedar-kaun-13423.html