Sunday, August 28, 2016

سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے ۔ سندھ نامہ ۔

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ سے سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے۔ یہ تبدیلی بظاہر چانک تھی لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے لئے میدان پہلے سے تیار کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی طے تھا کہ کس کردار کو کب اور کیا رول ادا کرنے ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رہنما فارق ستار نے لندن کی قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کر کے عملی طور پر پارٹی کو بچا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی اور حیدرآباد میں میئر کے انتخابات بھی جیت لئے۔ اخبارات میں یہ خبریں اور تبصرے بھی شایع ہوئے کہ فاروق ستار کے اس عمل نے پارٹی پر پابندی لگنے سے بچا لیا۔ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے باقی شہروں میں جہاں جہاں ایم کیو ایم کا وجود تھا وہاں دفاتر سیل کردیئے گئے ہیں۔ الطاف حسین کی تصاویر اتار دی گئی ہیں۔ اس پورے عمل پر ایم کیو ایم جس کا نعرہ تھا ’’قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ‘‘ خاموش رہی۔ ایک بہت بڑی تبدیلی بہت ہی خاموشی کے ساتھ اور پر امن طور پر آ گئی۔ پورا ہفتہ اس تبدیلی سے متعلق خبریں، تبصرے، مضامین، اور اداریے شیاع ہوتے رہے۔ اس ہٹ کرواقعہ یا خبر کم اہمیت اختیار کر گئی۔ 



روزنامہ عوامی آواز سرکاری زمینیں اور پارک چھڑانے کا فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سرکاری زمینوں، پارکوں ، سرکاری دفاتراور اسکولوں میں قائم یونٹ اور سیکٹر آفیسوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے اپنے ذاتی یا کرایے کی عمارتیں استعمال کرے۔ یہ فیصلہ السام آباد میں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی مشترکہ اجلاس میں کیا گیا۔ جو دو روز تک جاری رہا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلا چوہدری نثار علی خان نے کراچی کا دورہ کیا اور گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کر کے ضروری ہدایات دیں۔ چوہدرینثار علی نے کراچی کے عوام کو شاباش دی کہ 25 سال میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ وہ کسی کی دھمکیوں میں نہ آئے۔ انہپوں نے کہا کہ ایم کیو ایم دو یا تین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی اس کا پتہ ایک دو روز میں چل جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایم کیو ایم کی سوچ سے متعلق انہیں (وفاقی حکومت) کو کئی برسوں سے پتہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے پاکستان کے خاف بعض قوتوں کا پتہ ہونے کے باوجود ان کی طرف نرم رویہ رکھا۔ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے کسی شخص، گروپ یا پارٹی میں وفاقی حکومت نے بعض چھوٹے مفادات و معاملات کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ نے مدرسوں کی رجسٹریشن اور این جی اوز کی آڈٹ اور مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی کے بل کی بھی منظوری دے دی ہے۔ کابینہکو بتایا گیا کہ صوبے میں 8 ہزار مدارس بغیر رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے لئے نیا قانون متعارف کرایا جائے گا۔ والنٹیئر سوشل ویلفیئر ایجنسیز کے قانون میں ترمیمی بل کی بھی منظوری دی گئی۔ بنیادی طور پر سندھ کابینہ نے جو فیصلے کئے ہیں ا کا تعلق امن و مان سے ہے۔ جہاں تک مدارس کی بات ہے، سندھ میں صدیوں سے مدارس چل رہے ہیں جس کا کوئی بھی مخالف نہیں۔ لیکن اعتراض تب شروع ہوا جب بعض مدارس کو امن و مان بگاڑنے میں ملوث پایا گیا۔ مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس پر صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور دنیا میں بحث چل رہی ہے۔ دینی تعلیم الگ چیر ہے اور دینی تعلیم کے نام پر کچے ذہنوں کو غلط راہ پر لگانا بلکل ہی الگ بات ہے۔ مدارس کے اس بدلے ہوئے رول کو سمجھنے کے لئے ہمیں سرد جنگ کے دور میں جانا پڑے گا۔ جب ہمارے خطے میں مدارس دینی تعلیم کے ساتھ ایک کاص ایجنڈا پر کام کرنے لگے۔ خرابی میں شدت تب آئی جب ان کے قیام اور پروان میں غیر ملکی پیسہ آنا شروع ہوا اور اس کی بھی کوئی تحقیقات اور مانیٹرنگ نہیں ہو رہی تھی۔ اگر کوئی ادارہ رضاکارانہ طور پر بغیر کسی آمدن کے چلتا ہے تو وہ کسی اور طریقے سے چلتا ہے۔ اگر اس میں بعض دیگر ذرائع سے رقومات آنا شروع ہوں اور حکومتی اداروں کے کو بھی اس کا نہ پتہ ہو تو پھر ایسے نتائج نکلیں گی جس طرح کے نتائج بعض مدارس کی صورت میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔ مدرسہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ادارہ بغیر رجسٹریشن کے کیسے چل سکتا ہے؟ کوئی بھی ادارہ ہو اس کی نہ صرف رجسٹریشن ضروری ہے بلکہ اس کے بارے میں حکومت خواہ عوام کو بھی پورے طور پر آگاہی ہو نی چاہئے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر کوئی مانیٹرنگ اور چیک نہ ہونے ک وجہ سے بعض غیر ملکی عناصر نے اپنے ایجنڈا پر کام کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اس ضمن میں خاصی دیر ہوچکی ہے تاہم اب بھی اگر بلاامتیاز یہ کام کیا جائے تو اس کے مجموعی طور پر ہمارے معاشرے پر سیاسی، مذہبی، اور امن و مان کے حاولے سے بھی بہتر اثرات پڑیں گے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس پانی کی تقسیم میں سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کے عنوان سے لکھتا ہے کہ حال ہی میں ارسا کے اجلاس میں پانی کی موجودہ صورتحال، تربیلا ڈیم کے نہ بھرنے، صوبوں کے حصے اور دیگر معاملات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ارسا نے 28 جولائی کو تربیلا ڈیم بھرنے کے لئے واپڈا کو ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کو نظرانداز کیا گیا۔ جس کے بعد صورتحال خراب ہو گئی۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ پنجاب اب تریمو اور پنجند کیالز کے لئے منگلا سے پانی لے گا۔ دوسری طرف چشمہ جہلم لنک کینال کو بند کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ اور پنجاب کو ان کی ضروریات کے بجائے معاہدے کے پیرا 2 کے تحت پانی ملے گا۔ لیکن یہ پانی 20 فیصد لاسز کے حساب سے ملے گا۔ سندھ نے یہ موقف اختیار کیا کہ عملی طور پر لاسز 40 فیصد ہیں کیونکہ چشمہ سے پانی گڈو تک پہنچتے ہوئے کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا چالیس فیصد لاسز طے کر کے اس کے حساب سے سندھ کو پانی دیا جائے۔ 

سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی


Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi


سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں

سندھ نامہ   سہیل سانگی


روزنامہ کاوش سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم جو نئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کے لئے جو مسائل کے ڈھیر ورثے میں دے گئی ہے ان میں سے ایک مسئلہ افسران کی میرٹ پر، ضرورت اور معیار کی بنیاد پر تقرر اہم ہے۔ صرف وزیراعلیٰ ہاؤس میں 25 ہزار سمری ہی بغیر نمٹائے رہ گئی ہیں اس طرح کے کئی انتظامی مسائل حل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ یا انہیں جان بوجھ کر التوا ڈالا گیا تھا۔ جنہیں موجودہ وزیراعلیٰ حل کریں گے۔ ایک چھوٹی سی مثال عطا محمد پنہور کا ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی میں تقرر ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود سندھ حکومت نے ان کی خدمات واپس وفاق کے حوالے نہیں کی ہیں۔ سوال صرف اس افسر کا نہیں۔ سندھ میں ایک عرصے سے اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے افسران کو در در رسوا کیا جارہا ہے ۔ انہیں گریڈ 18 سے 17میں اور پھر نافرمانی کرنے پر گریڈ 14 میں سزا کے طور پربھیج دیا گیا۔


انتظامی نا انصافی کی یہ مثال صرف سندھ میں ہی ملتی ہے۔ کہ عدالت کے منع کرنے کے باوجود من پسند افسران کو پسندیدہ عہدوں سے نوازا گیا۔ جن توہین عدالت کی درخواستیں دائر ہوتی ہیں اور ان کی سماعت کے دوران جب عدالت حکومت سندھ کے دل پسند افسران کے بارے میں سوال کرتی ہے تو س سرکاری وکیل لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں ایک افسر دوسرے پر کوتاہی کا الزام لگتا ہے ، پھر دوسرا تیسرے پر ، اور یوں یہ سلسلہ آگے چیف سیکریٹری تک چلا جاتا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ سندھ میں افرسان کے تقرر، تبادلے اور ترقی کا معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد درخواستیں انصاف کے لئے عدالت میں دائر کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ تبصرے اور ریکامرکس بھی سننے کو ملتے ہیں کہ سندھ میں چھانٹ چھانٹ کے غلط افسران کو اہم عہدوں پرؓ تھایا گیا ہے۔ سندھ کے انتظامی ڈھانچے کی بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں ایس پی لیول کے عہدوں پر غلط ترقیاں دی گئی ہیں۔ جنہیں بعد میں عدالت کے حکم پر واپس کیا گیا۔ ایک محکمے کے افسران کو دوسرے محکمے میں ضم یا تقرر کیا گیا۔ محکمہ بلدیات میں ملازمت اتنی چمک والی چابت ہوئی کہ پی آئی اے کے بعض ملازمین بھی اس محکمے میں آکر موج کرنے لگے۔ اس کا اعتراف سابق وزیر بلدیات آغا سراج درانی کر چکے ہیں۔


وزیراعلیٰ سندھ بھلے یہ کہتے رہیں کہ سندھ میں اتنی خراب حکمرانی نہیں ہے۔ جتنا اس کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے۔ اچھا یا خراب تاثر تب بنتا ہے جب کوئی عمل ہوتا ہے۔ تاثر تبدیل کرنے کے لئے تحرک اور سرگرمیاں ہی کافی نہیں ہوتی، میرٹ کو رائج کرنا، ضرورت کے مطابق افسران کی تقرری اور تبادلے ، انتظامی ڈحانچے کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیوں کی آواز کو مدھم کر سکتے ہیں۔ حکمرانی سے متعلق اچھا تاثر تب بن سکتا ہے جب ورثے میں ملنے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے ماضی کی رپیکٹس سے نکالا جائے گا۔ پرانی ٹیم سے ممکن ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ ڈرے ہوئے نہ ہوں لیکن سندھ کے عوام ضرور ڈرے ہوئے ہیں۔ جس نے عوام کو گزشتہ آٹھ سال تک خراب حکمرانی کا مزہ چکھایا ہے۔ 
روزنامہ ایکسپریس سندھ وفاق تنازع کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد نواز لیگ کی حکومت تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ جب بھی نواز شریف کی حکومت آتی ہے وفاق اور صوبوں کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ ان کی حکومت صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ کبھی کالا باغ کے متنازع آبی منصوبے کو چھیڑا جاتا ہے۔ 
کبھی پانی کے معاہدے کو ایک طرف رکھ کر مختلف فارمولے سامنے آالئے جاتے ہیں۔ چیئرمین واپڈا اخباری مضامین کی سیریز کے ذریعے کالا باغ ڈٰم کا معاملہ نئے سرے سے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن وفاقی حکومت ان سے پوچھ ہی نہیں رہی کہ آخر اسکو کیوں چھیڑا جارہا ہے۔ صندھ کے مشیر اطلاعات مولابخش چانڈٰو کہتے ہیں کہ اگر سندھ حکومت کو ہلایا گیا تو پورا وفاق ہل جائے گا۔ وفاقی وزیرداخلا چوہدری نثار علی خان سندھ حکومت کو مختلف آپشنز کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے بھی جو موقف سامنے آرہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیاں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا لازمی طور پر فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ اور وفاق کے درمیان جو بھی اختلافات اور کشیدگی ہے اس کو بات چیت کے ذریعے اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 



روزنامہ عبرت وزیراعلیٰ سندھ کے حیدرآباد دورے کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ان کے دورے نے حیدرآباد کی انتظامیہ کو بڑی پریشانی میں مبتلا کردیا کیونکہ سڑکوں کی زبون حالی، گلیوں کی صفائی، سیوریج کے پانی کی ناقص نکاسی کے معاملات ان کی کارکردگی کی چغلی لگا رہے تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ بھر کے شہروں کو تفصیل سے دیکھنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح کا مکینزم بننا چاہئے کہ وزیراعلیٰ نہ بھی دورہ کر سکیں تو بھی نظام چلنے لگے اور لوگوں کو سہولیات اور انصاف ملتا رہے۔ 

Saturday, August 13, 2016

چھوٹے صوبوں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کا اعتراف ۔ سندھ نامہ ۔


سندھ نامہ ۔۔۔۔ سہیل سانگی

 سندھ کو پانی، مالیاتی امور، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کرنے کے حوالے سے شکایات تھی ہی، لیکن اب رینجرز کو منتخب سندھ حکومت کی مرضی کے برعکس پولیسنگ کے خصوصی اختیارات دینے کے حوالے سے بھی شکایت پیدا ہوگئی ہے۔ اس شکایت کو اب ایک سال ہونے کو ہے۔ ہر تین ماہ بعد جب اختیارات کی میعاد میں توسیع کا معاملہ آتا ہے وفاق اور صوبائی حکومت میں اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ روان ہفتہ بھی اخباری اداریے اور مضامین کا زیادہ تریہی موضوع رہا۔ 

اخبارات کے مطابق رینجرز کو کیا اور کتنے اختیارات ہونے چاہئیں یہ طے کرناسندھ حکومت حق ہے۔ اخبارات نے اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلا چوہدری نثار علی خان کے بیانات اور رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس شبہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ چوہدری صاحب کی اپنی خواہش یا مرضی ہے یا نواز شریف حکومت کی۔ 

 سندھ میں وزارت اعلیٰ کے منصب میں تبدیلی اور نئے وزیراعلیٰ سے وابستہ امیدیں بھی اخبارات کا موضوع رہا، جس میں مختلف اخبارات نے صوبے کے ابھرے ہوئے مسائل کی طرف نئے وزیر اعلیٰ کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ 

”چھوٹے صوبوں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کا اعتراف “کے عنوان سے” روزنامہ عبرت “لکھتا ہے کہ بجلی بلوں کی کم ادائیگی اور لائن لاسز کے بارے میں جاری کردہ تفصیلات میں پانی و بجلی ک وزارت نے اعتراف کیا ہے کہ وسطی پنجاب کے اضلاع میں بجلی کے بلوں کی کم ادائیگی اور ہیوی لاسز کے باوجود باقی تینوں صوبوں کی نسبت کم لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ وزارت کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 14گھنٹے، قبائلی علاقوں کی چھ ایجنسیوں میں 18گھنٹے ، حیسکو کے صار اضلاع میں 12 گھنٹے، سیپکو کے ایریا میں 16 گھنٹے، جبکہ بلوچستان کے اکثر ایریاز میں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔

 ایک عرصے سے چھوٹے صوبوں میں محرومیاں پل رہی ہیں کہ وفاقی حکومت بڑے صوبے کے مقابلے میں ان پر کم توجہ دے رہی ہے۔ دوسرے صوبے اگرچہ اس حوالے سے شکایات کرتے رہے ہیں۔ جبکہ کے بلوچستان کے لوگوں نے باقاعدہ اس ضمن میں مزاحمتی عمل اختیار کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس صوبے میں بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی نقل و حرکت بھی مشکل بن گئی ہے۔ اگرچہ آج کل حالات میں امن ہے۔ کچھ عرصے سے کوئی ناخوشگوار خبر نہیں ملی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل جو خبریں آرہی تھیں وہ بڑے صوبے کے لئے یقیننا پریشانی کا باعث تھیں۔ 
سندھ میں بھی ایک بڑے حلقے کو شکایت ہے کہ وفاقجان جوبجھ کر یہاں کے عوام کو نظرانداز کر رہا ہے۔ جبکہ کچھ عرصے سے سندھ حکومت بھی وفاق سے ناراض نظر آتی ہے۔ انہیں شکایت ہے چھوٹے صوبوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے۔ پانی اور مالیاتی امور اپنی جگہ پر، بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر سندھ کے ذمہ داران نے پریس کانفرنس کے ذریعے وزیراعظم کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی بھی دی تھی۔ تب موجودہ وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ وفاق نہ مطلوبہ بجلی فراہم کر رہا ہے اور نہ سندھ میں پیدا ہونے والی بجلی خرید کرنے کے لئے تیار ہے۔ بلکہ وفاق نے سندھ میں پن بجلی بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ 

اس احتجاج اور دھمکی کے بعد امید یہ کی جارہی تھی کہ وفاقی حکومت کا کوئی ذمہ دار نمائندہ یا وزیراعظم حکومت سندھ کی اس شکایت کا ازالہ کرے گا۔ لیکن تاحال ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جس سے اندازہ ہو سکے کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے شکوے کا نوٹس لیا ہے۔ حکومت سندھ اور میڈیا صوبے میں لوڈ شیڈنگ کے جو اعداد وشمار بتاتے رہے ہیں ان کو وفاقی وزیر ”مبالغہ“ قرار دے کر مسترد کرتے رہے ہیں۔ مگر اب پانی و بجلی کی وزارت نے خود اعتراف کیا ہے کہ سندھ سمیت تینوں چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے مقابلے میں زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

 اب تینوں صوبوں کی حکومتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ وفاق کے اس امتیازی رویے کے خلاف احتجاج کریں کہ یہ کس جرم میں بطور سزا انہیں کئی گھنٹے بجلی کے بغیر رکھا جارہا ہے۔ ہم اس پر اعتراض نہیں کہ وسطی پنجاب کے لوگوں کو لوڈشیڈنگ سے محفوظ رکھا جارہا ہے۔ لیکن یہ کہنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ اگر بڑے صوبے کے عوام کو رلیف دیا جارہا ہے تو چھوٹ صوبوں کے عوام نے کیا قصور کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں موسمی سختی زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں ریکارڈ گرمی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان لوگوں پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب بڑھانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ ایسا کرنے سے جو محرومیاں بڑہیں گی وہ نفرتوں کو جنم دیں گی۔ 

ہونا تو یہ چاہئے کہ جو علاقے زیادہ سختی میں ہیں یا جہاں لوگوں کی مالی حالت رہی نہیں کہ بھاری بل ادا کر سکیں ان کو رعایت دے کر ان کی زندگی آسان بنائی جائے۔ سندھ کو بھی آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ وہ گیس خواہ مالیات میں دیگر صوبوں سے زیادہ حصہ دیتا ہے۔ اس لئے بھی یہاں کہ لوگوں کو حق بنتا ہے کہ انہیں دیگر سہولیات کے ساتھ بجلی کی بھی سہولت دی جائے۔ 

 روزنامہ عوامی آواز نے بحریہ ٹاﺅن کراچی کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے عدالت نے بحریہ ٹاﺅن میں تب تک کام بند کردیا جائے جب تک سندھ میں مکمل طور پر روینیو ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہو جاتا اور یہ معلوم نہیں ہو جاتا کہ کہ کونسی زمین سرکاری ملکیت ہے اور کونسی نجی ملکیت ہے۔ سپریم کورٹ نے 28 نومبر 2013 کو سندھ میں خاص طور پر کراچی ڈویزن میں سستے داموں زمین کی فروخت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سرکاری زمین کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کردی تھی۔ 
یہ امر قدیمی باشندوں کے لئے یقیننا امید افزا تھا۔ کیونکہ زمین پر قبضے کی سوچ نے اصلی باشندوں کو اپنی ہی سر زمین پر اجنبی اور بینگانہ بنادیا تھا۔ 1948 کے بعد اس شہر کی زمین ، وسائل اور قدیم بستیوں پر قبضے اور قدیمی باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے مختلف منصوبے بنتے رہے۔

 جب سپریم کورٹ نے پابندی لگائی تو قدیمی باشندوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب شاید اپنی زمین سے بے زمین ہونے کی سازشیں ختم ہو جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا توڑ یہ نکالا گیا کہ صوبائی حکومت نے دمبر 2013 میں ملیر اور لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹیز کے 2002 میں منسوخ کئے گئے ایکٹ دوبارہ بحال کر دیئے۔ لہٰذا 2002 سے 2013 تک جو غیر قانونی الٹمنٹ کی گئی اس کو قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ 

یہ ایکٹ بحال ہونے کے بعد بحریہ ٹاﺅن تعمیراتی منصوبے کے لئے ملیر کی 45 دیہوں میں الگ الگ موجود زمین یکمشت کر دی گئی تاکہ بحریہ ٹاﺅن کا تعمیری منصوبہ باآسانی مکمل ہو سکے۔ ویسے بحریہ ٹاﺅن کو 22 ہزار 156 ایکڑ پ زمین لاٹ کی گئی ہے لیکن علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تعمیراتی کام 23 ہزار ایکر پر چل رہا ہے۔ جبکہ مزید 42 ہزار ایکڑ زمین بھی طلب کی گئی ہے۔ اس علاقے میں 45 سے زائد انسانی بستیاں ہیں، اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی کی چراگاہوں کے طور پر یہ کام آتا ہے۔ مزید یہ کہ نصف درج سے زائد برساتی نالے ان پہاڑوں سے نکل کر سمندر میں جا گرتے ہیں ۔ اس درمیانی علاقے میں یہ نالے زراعت اور پینے کے پانی کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس علاقے میں بعض تاریخی مقامات بھی واقع ہیں۔ 
سندھ حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جن سے قدیم باشندوں ، ان کی املاک، چراگاہوں وغیرہ کے لئے تحفظ کا احساس ہو۔ 

نئی بات ۹ اگست 


سپريم ڪورٽ جو ساراهه جوڳو فيصلو


سپريم ڪورٽ جي ٻه رڪني بينج، سنڌ خاص ڪري ان جي راڄڌاني ڪراچيءَ جي زمينن جي الاٽمينٽ وارو ڪيس ٻڌندي بحريا ٽائون کي ان وقت تائين پنهنجو ڪم بند ڪرڻ جو حڪم ڏنو آهي، جيستائين سنڌ اندر مڪمل طور روينيو رڪارڊ ڪمپيوٽرائيزڊ نه ٿو ٿئي ۽ اها خبر نه ٿي پئي ته ڪهڙي ۽ ڪيتري زمين سرڪاري ملڪيت آهي ۽ ڪيتري خانگي.
سپريم ڪورٽ سنڌ خاص ڪري ڪراچيءَ ڊويزن اندر زمينن جي سستي اگهه تي غير قانوني الاٽمينٽ جو پاڻمرادو نوٽيس وٺندي 28 نومبر 2013ع تي سرڪاري زمينن جي الاٽمنيٽ تي پابندي  هڻي ڇڏي هئي، جيڪا يقيني طور ڌرتي ڌڻين لاءِ هڪ اتساههَ جي ڳالهه هئي، ڇو جو قبضي واري سوچ هن شهر کي ڌرتيءَ ڌڻين لاءِ اوپرو بنائڻ ۾ وسان ڪين گهٽايو آهي، 1948ع کان پوءِ هن شهر جي زمين تي وسيلن  تي ۽ قديم ڳوٺن تي قبضي جي ۽ ڌرتي ڌڻين کي اقليت ۾ تبديل ڪري هن شهر  تي ڀانت ڀانت جي ڪاٺيءَ جي دعوائن جو دڳ فراهم ڪرڻ لاءِ جيڪي سازشون ۽ منصوبابنديون ٿينديون رهيون آهن، سي ڪنهن کان ڳجهيون ڪونهن، سو سپريم ڪورٽ جڏهن زمينن جي الاٽمينٽ تي پابندي هنئي هئي ته ڪراچيءَ جي مقامي ماڻهن ان ڪري به سُک جو ساههُ کنيو هو ته هاڻي شايد پنهنجي ئي ڌرتيءَ تان سندن پاڙون پٽڻ لاءِ ٿيندڙ سازشون  ختم ٿينديون پر ايئن نه ٿيو.
سپريم ڪورٽ جي طرفان هنيل پابنديءَ جو توڙُ وري 19 ڊسمبر 2013ع تي سنڌ اسيمبليءَ مان ايڪٽ منظور ڪرائي ملير ۽ لياري ڊولپمينٽ اٿارٽين جا 2002ع ۾ ختم ٿيل ايڪٽ بحال ڪري ڪڍيو ويو، اهڙي طرح انهن جا 2002 کان 2013ع تائين جيڪي غير قانوني حيثيت وارا ڪم هئا، تن کي قانوني تحفظ ڏنو ويو، اهي ايڪٽ بحال ٿيڻ کانپوءِ بحريا ٽائون کي پنهنجي تعميراتي منصوبي لاءِ ملير جي 43 ديهن ۾ ڇڙوڇڙ زمين يڪمشت ڪري فراهم ڪئي وئي، ته جيئن ان جو تعميراتي منصوبو آسانيءَ سان شروع ۽ مڪمل ٿي سگهي.
چوندا آهن ته اُٺ تڏهن ٿي رڙيا جڏهن ٻورا ٿي سبيا، سو سنڌ جا ماڻهو، خاص ڪري ڪراچيءَ جا اصلوڪا رهاڪو اهڙن تعميراتي منصوبن خلاف اهو چوندي رڙندا پئي رهيا آهن، احتجاج ڪندا پئي رهيا آهن ته اهي منصوبا سندن گهرتڙ ۽ سنڌي ماڻهن جي ڪراچيءَ تي دعويٰ ۽ سڃاڻپ ختم ڪرڻ جي سازش آهن پر انهن جي انهن دانهن تي نه ته انهن ڌيان ڏنو آهي جيڪي ڌاريا آهن، نه ئي  انهن جيڪي چوڻ ۾  ته پنهنجا آهن ۽ پنهنجي هٿان ئي ووٽ ڏئي چونڊي اسيمبلين ۾ موڪليا ويا آهن.
سپريم ڪورٽ ۾ ڪالهوڪي ٻڌڻيءَ دوران نيب طرفان جيڪا رپورٽ پيش ڪئي وئي آهي، تنهن ۾ ته چيو ويو آهي ته بحريا ٽائون کي 22 هزار 156 ايڪڙ زمين الاٽ ڪئي وئي آهي، پر جنهن علائقي ۾ بحريا ٽائون وارو منصوبو اڏجي رهيو آهي، اتان جي وارثن ۽ ڌرتي ڌڻين جو چوڻ آهي ته ملير جي جن قديم ديهن ۾ بحريا ٽائون جي اڏاوت هلندڙ آهي اتي جي پکيڙ 23 هزار ايڪڙ آهي، جڏهن ته اڳتي لاءِ وڌيڪ 42 هزار ايڪڙديهه حدر واهه، ديهه لٺ ڪرمتاڻي ۽ پراڻي يونين ڪائونسل موندان جي ديهن ۾ گهري وئي آهي، 23 هزار ايڪڙ ايراضيءَ واري جنهن علائقي ۾ بحريا ٽائون جو منصوبو اڏجي رهيو  هو، سو علائقو جابلو علائقو آهي، جيڪو هڪ ته چراگاهن تي مشتمل آهي، ٻيو ته اتي 45 قديم ڳوٺ به آهن، انهن جبلن مان ٿڌو، ملير جرندو، لنگهجي، ٻوهاڙي، ڪرڪٽي، ميلو، ٻاڙو، برساتي نئيون ۽ ڍورا ڪاٺوڙ، ملير، گڏاپ ۽ ڀرپاسي کان وهي سمنڊ ۾ ڇوڙ ڪن ٿا، انهن واهڙن ڍورن ۽ نئين جي ڪري ئي ملير زرعي حوالي سان سرسبز ۽ شاداب آهي، بحريا ٽائون واري منصوبي تي جنهن تي تيزيءَ سان ڪم به هلي پيو سو هڪ ته هتان جا جبل تباههُ ڪندو، ٻيو هتان جي زراعت به ختم ٿي ويندي، ان سان گڏوگڏ هن جي حدن ۾ جيڪي قديم ۽ تاريخي ماڳ اچن ٿا، سي به مٽجي ويندا، پوءِ هن شهر ۾ سنڌين سان به اهڙو ئي حشر ٿيڻو آهي جهڙو فلسطين ۾ فلسطينين سان.
هئڻ ته ايئن گهرجي ته ڌرتيءَ ڌڻين جا جبل، زراعت، قديم ماڳ ۽ ايتري تائين جو سڃاڻپ به ميساري ڊاهڻ لاءِ ههڙن منصوبن لاءِ جنهن ڪوڙ، بدوڙ، جعلسازي ۽ هيرا ڦيريءَ ذريعي، داٻي ۽ دٻاءَ سان بندش باوجود زمين الاٽ ڪئي وئي، تنهن جو ازالو اهڙي جعلبازيءَ ۾ ملوث ڪردارن خلاف اثرائتي قانوني ڪارروائيءَ ذريعي ٿيڻ گهرجي، نه رڳو ايترو پر حڪومتي سطح خاص ڪري سنڌ سرڪار جي سطح تي اهڙن قدمن جي به ضرورت آهي، جنهن سان هن شهر جي قديم وسندين ۽ ماڳن کي خطرو محسوس نه ٿئي پر تحفظ جو احساس ٿئي، سپريم ڪورٽ جو فيصلو يقيني طور سنڌ جي ماڻهن، خاص ڪري ان علائقي واسين، جن جي زمينن جا کاتا ڦيرائي هي نئون شهر اڏيو ٿي ويو، تن لاءِ آٿت جو سبب ته بڻيو آهي پر اهي سُک جو ساههُ ان صورت ۾ ئي کڻي سگهن ٿا، جڏهن سندن زمين، زراعت، جبل ۽ قديم ماڳ ۽ وسندين جي تحفظ جو ڪو مستقل بندوبست ٿئي.

Tuesday, August 2, 2016

وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور سندھی میڈیا : سندھ نامہ - سہیل سانگی


وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور سندھی میڈیا
سندھ نامہ سہیل سانگی 
ہر شعبے میں انتظامی، نااہلیت، امن و امان، کرپشن کی مسلسل شکایات کے بعد صوبے میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو تبدیل کردیا ہے ۔ ان کی جگہ پر جواں سال سید مراد علی شاہ کو یہ منصب سونپا گیا ہے۔ 

اکثر اخبارات نے سندھ میں معاملات خراب ہونے کے لئے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو کم اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو زیادہ ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والے مضامین تجزیوں اور تبصروں کے مطابق شاہ صاحب کے پاس اختیارات نہیں تھے اور پردے کے پیچھے کچھ اور لوگ فیصلے کرتے تھے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت حکمرانی کے حوالے سے اپنی روش تبدیل نہیں کرے گی تب تک نیا وزیراعلیٰ بھی وہی کرتا رہے گا جو سابق وزیراعلیٰ کرتے رہے۔ بلکہ بعض مبصرین نے سید قائم علی شاہ کو ان کے روش، سیاسی کردار ، پارٹی کے ساتھ طویل وفاداری، اور جدوجہد کو سراہا ہے اور 83 برس کی عمر میں بھی ان تھک محنت کرتے رہے۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو نئے فیصلے کرنے کی ضرورت کارکردگی کی وجہ سے پڑتی ہے۔ ہمارے پاس اگرچہ ان تبدیلیوں کے لئے گرمجوشی کے ساتھ توقعات نہیں کی جاری لیکن پھر بھی عوام جو صرف امید رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا ، وہ اس تبدیلی سے بھی امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ صوبہ جن متعدد مسائل کی لپیٹ میں ہے وہ نئے ویزراعلیٰ کے لئے بڑا چیلینج ہیں۔ ان کے حل کے لئے محنت، کردار، ارادے کی پختگی، برداشت، رواداری کی روش از حد ضروری ہے۔ پیپلزپارٹی خواہ دیگر جماعتویں وقتا فوقتا عوام سے جو وعدے کرتی رہی ہیں وہ نامکمل ہی رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ میں یہ تبدیلی حقیقی معنوں میں عوام کے لئے تبدیلی واقع ہوتی ہے یا نہیں۔ 

 روزنامہ عبرت نے ” نئے وزیر اعلیٰ کی ترجیحات“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے نامزدگی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ امن و مان ان کی اولین ترجیح رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سول ادارے صحیح طریقے سے کام کریں تو دوسرے اداروں کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے صحت اور تعلیم کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے اور کہا ہے کہ ان دو شعبوں یعنی صحت اور تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرنی پڑے گی۔ صحت اور تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے عزم کو عوام میں مثبت قرار دیا جارہا ہے۔ 

 اخبار لکھتا ہے کہ اب لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے آئینی مدت حکمرانی کے باقی اٹارہ انیس ماہ کے دوران واقعی عوام کو کچھ ڈلیور کرے گی۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پارٹی کی حکمرانی کی باقی مدت کے دوران وہ اتنا کام کرنا چاہتے ہیں کہ نہ صرف سندھ میں بلکہ باقی صوبوں میں بھی ان کی کارکردگی مثال بن جائے۔ سید مراد علی شاہ نے جن نکات کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے، یہ وہ نکات ہیں جو معاشرے کو پستی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر لے آتے ہیں۔ کوئی بھی خطہ چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، اگر وہاں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں، لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، تو یہ ترقی کچھ زیادہ عرصہ چل نہیں پائے گی۔ اس کے لئے ہم دور کیوں جائیں، آج سے تین عشرے پہلے تک حیدرآباد ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔ جہاں ملک بھر کے لوگ روزگار کے لئے آتے تھے۔ لیکن جیسے ہی لسانی جھگڑوں کی آگ کی لپیٹ میں آیا تو اب وہ ساتویں نمبر پر آگیا۔ بدامنی کسی بھی آباد علاقے کو برباد کرنے میں دیر نہیں کرتی۔ سندھ اگر ملک کے دیگر علاقوں سے ترقی کے معالے میں پیچھے رہ گیا ہے ، اس میں دیگر عوامل اپنی جگہ پر لیکن بدامنی سب سے بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ قبائلی اور برادریوں کے جھگڑے، کارو کاری کے واقعات، ڈاکے اور لوٹ مار ، انتہا پسندی، دہشتگردی وہ عوامل ہیں جنہوں نے خوشحال سندھ کو کنگال اور غریب بنادیا ہے۔ 
اگر مرادعلی شاہ کابینہ اس حوالے سے واقعی کچھ کرتی ہے تو یہ سندھ کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ اس اس لئے بھی ضروری ہے کہ باتیں تو ہر کوئی آکر کرتا ہے ی لیکن عمل کرنا ہی اصل ضرورت ہے۔ 

 ہم صوبے میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اور عوام سے بھی توقع رکھتے یں کہ یہ دو اہم شعبے جن کا تعلق براہ راست عام آدمی سے ہے، اس میں حکومت سے تعاون کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ترجیحات کو پورا کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت نئے وزیراعلیٰ کا ساتھ دے گی؟ اب تک سندھ حکومت کے معاملات میں جو مداخلت دیکھنے میں آئی ہے ، اس س کے پیش نظر یہ سب کچھ مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔ ہم بھی اسی طرح امیدوں کا دامن ہاتھوں میں لئے ہوئے انتظار کریں گے کہ پارٹی کی قیادت ان ترجیحات کو پورا کرنے کے لئے نئے صوبائی سربراہ کو فری ہینڈ دے گی۔ اس سے نہ صرف سندھ اور یہاں کے لوگوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ خود پیپلزپارٹی کی بھی نیک نامی ہوگی۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ بلاشبہ چینی اقتصادی راہداری منصوبے کی مد میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک کے لئے بہت بڑی اقتصادی امداد ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ متنازع بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں مختلف وقت میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے تاحال اس منصوبے کے اہم فیچرز عوام خواہ صوبائی حکومتوں کے سامنے ظاہر نہیں کئے ہیں۔ بدھ کے روز سنیٹ میں جب اس منصوبے کے ارے میں بحث ہو رہی تھی تو تین صوبوں کے سنیٹرز ایک طرف تھے اور پنجاب کے سنیٹرز دوسری طرف تھے۔ بحث میں اتنی تلخی آگئی کہ تینوں چھوٹے صوبوں کے نمائندگان کو کہنا پڑا کہ” راہداری منصوبہ دھوکہ ہے۔ وزیراعظم نے اگر خدشات دور نہیں کئے تو وفاق کو خطرہ درپیش ہوگا۔“ 

 کسی بھی وفاقی نظام میں اس طرح کی دوریاں اچھی علامت نہیں ہوتی۔ اگر چار بھائیوں میں تین بھائی ایک طرف ہوں اور اپنے ساتھ ناانصافی کی شکایت کر رہے ہوں، ایسے میں بڑے بھائی کو ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ شکایات اور تحفظات دور کرنے چاہئیں۔ اگر یہ پورے ملک کا منصوبہ ہے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے، تودوسرے صوبو ں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس منصوبے کی صحت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں۔ 
 جب سے راہداری منصوبہ شروع ہوا ہے، وفاقی حکومت اس کے کئی فیچرز اور معلومات صوبوں کو بتانے سے گریز کرتی رہی ہے۔ ہم سمجھت ہیں کہ راہداری منصوبہ اس ملک کا نہایت ہی اہم منصوبہ ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کے رویہ کی وجہ سے متنازع بن رہا ہے۔ جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس منصوبے میں جو مبہم امور ہیں ان کے بارے میں صوبوں کو آگاہی دی جانی چاہئے۔ اگر 
صوبوں کو اس طرح کی شکایات رہیں تو وفاق کے مفاد میں نہیں

http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/30-07-2016/details.aspx?id=p13_03.jpg