Saturday, December 22, 2018

سندھ میں کیا ہو رہا ہے؟



سندھ میں کیا ہو رہا ہے؟ 


سندھ نامہ سہیل سانگی

وفاقی حکومت کی ہدایات اور عدالتی ’’مداخلت‘‘ کے باوجودسندھ میں گنے کا بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اکتوبر س وسط میں گنے کی پسائی شروع کا شروع ہونے والا سیزن مل مالکان کی ٹال مٹول کی وجہ تاحال شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے یہی صورتحال رہی ہے کہ کاشتکار یا عدالت چاہے کچھ بھی کر لے، سیزن جنوری سے پہلے شروع نہیں ہوتا۔ 10 دسمبر کو حکومت سندھ کے گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کی تھی۔لیکن شگر مل مالکان نے حکومت کے مقرر کردہ قیمت کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر عمل درآمد سے انکار کردیا ہے۔ 

مل مالکان کا کہنا ہے کہ یہ قیمت کابینہ سے منظوری بغیر مقرر کی گئی ہے، لہٰذا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مزید یہ کہ یہ قیمت قابل عمل بھی نہیں کشتکاروں کا موقف ہے کہ نہ مقررہ قیمت ادا کی جا رہی ہے اور نہ شگر ملز چلائی جارہی ہیں، کین کمشنر کا دعوا ہے کہ 26 شگر ملز چل رہی ہیں۔ عدالت نے 10 جنوری تک سندھ حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ کئی کاشتکاروں کی گزشتہ سال کی بقایاجات ادا نہیں ہو سکی ہیں۔ عدالت نے 22 جنوری کو تفصیلات طلب کی ہیں۔

گزشتہ روز اس صورتحال پر کاشتکاروں نے سندھ اسمبلی کے پاس دھرنا دیا وہ اسمبلی جانا چاہ رہے تھے لیکن، انہیں اسمبلی تک جانے نہیں دیا گیا۔ وزیر زراعت اسماعیل راہو نے انہیں یقین دہانی کرا کے واپس روانہ کردیا۔ اس مسئلے پر اخبارات نے اداریے اور کالم شایع کئے ہیں۔ 
سرکاری طور پر کاربونیٹیڈ ڈرنکس پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن اس اعلان پر عمل درآمد کے لئے کیا کوئی پلان موجود ہے اور نہ ہی انتظامی مشنری۔ فوڈ اتھارٹی خود ایک نوزائید ادارہ ہے۔ اس کے پاس نہ اتنا عملہ ہے اور نہ ہی وسائل۔ مزید براآں اس مقصد کے لئے کوئی آگاہی مہم بھی نہیں چلائی گئی۔ پولیس اور ضلع انتظامیہ پہلے ہی ناجائز تجاوزات می مہم میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس حکومتی اعلان پر مستقبل قریب میں عمل درآمد کا کوئی امکان نہیں۔
محکمہ صحت کی بھی صورتحال قابل ستائش نہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے کے کئی چھوٹے شہروں میں گیناکالاجسٹ موجود نہیں۔ اور یہ بھی کہ 400 ڈاکٹرز میں سے صرف 174 نے جوائننگ دی ہے۔ شاید ان ڈاکٹر صاحبان کو مرضی کی پوسٹنگ نہیں ملی تھی۔ 
سندھ میں بھی اسٹینڈنگ کمیٹیز کی تشکیل کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ بعض اہم کمٹیوں کی سربراہی حکومت اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس ، داخلہ، ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن، خزانہ، اور خوراک کے محکموں کی سربراہی ۔ قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کو دینے کا مطالبہ کرنے والی پارٹی یہ کام سندھ میں نہیں کر رہی ہے۔ اور نہ ہی دیگر کمیٹیوں کی تشکیل کر رہی ہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی کے معاملات گزشتہ تین ماہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ تین اہم بل عارضی طور پر تشکیل کردہ کمیٹیوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ کمیٹیوں کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ 
سندھ کی یونیورسٹیز کے معاملات مسلسل موضوع بحث رہے ہیں۔ اب حکومت نے بعض وزراء کو پروچانسلر مقرر کردیا ہے ان ترامیم سے یونیورسٹیز کی خود مختاری متاثر ہوگی ۔ سینڈیکیٹ کے دس میں سے آٹھ اراکین سرکاری ملازمیں ہونگے۔۔ سندھ ہائی کورٹ میں سندھ یونیورسٹیز ایکٹ میں ترامیم کے خلاف آئینی درخواست دائر کردی گئی ہے۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے ذمہ داران تعلیم کی بہتر دعوؤں میں کوئی کسر اٹھا کر نہیں رکھی ہے۔ دوسری طرف اس محکمہ کی نااہلی کے نئے نئے ریکارڈ تصویری شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایک تصویر مانجھند کے قریب امیدعلی برہمانی گوٹھ کے گرلزپرائمری اسکول کی ہے جس پر مقامی بااثر نے قبضہ کر کے محکمہ آبپاشی کے ٹھیکدار کی سیمنٹ کی سینکڑوں بوریاں اور اپنے عملے کی رہائش کے لئے چارپائیاں اور بسترے لگا رکھے ہیں۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے بچیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے، دوسری تصویر دو ماہ سے بند بھریا روڈ کے گوٹھ نبی بخش راجپر کے مین پرائمری اسکول کی ہے اسکول کے طلباء و طالبات استاد نہ ہونے کے خلاف اسکول کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں۔رہائشیوں نے متعلقہ تعلیمی افسران کو شکایات کیں اور تحریری طور پر بھی درخواستیں دیں، لیکن محکمہ نے کوئی اقدام نہیں کیا کہ تعلیم کا باقاعدہ بندوبست ہو سکے۔ 
یہ درست ہے کہ ملک بھر میں تعلیم کا نظام اطمینان بخش نہیں لیک سندھ میں تعلیم کی تباہی گزشتہ چار عشروں سے بلا رکاوٹ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ ہر اقتداری دور سرکاری تعلیم کو تباہی کی طرف لے جاتا رہا ہے۔ اور ہر آنے والا دور مزید تباہی کو وہاں سے شروع کرتا ہے جہاں گزشتہ دور نے اس تباہی کو چھوڑا تھا۔ سندھ میں جب خراب حکمرانی اور بدانتظامی کی شکایت کی جاتی ہے تو اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقی معنوں میں جمہوریت کے خلاف سازش تو یہ ہے کہ بد انتظامی اور خراب کارکردگی کی وجہ سے جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنے نہ پائیں۔ ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانی صرف د عوے اور وعدے کرنے کا نام ہے۔ مہذب ملک اپنے مستقبل کے لئے تعلیم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں جان بوجھ کر تعلیم کو تباہ کیا جارہا ہے۔ کئی ماہ تک اسکول بغیر استاد کے رہتے ہیں لیکن محکمہ تعلیم اس سے بیخبر ہرتا ہے۔ 
آج بھی سندھ میں سینکڑوں اسکول بھینسوں کے باڑوں اور اناج کے گوداموں بنے ہوئے ہیں۔ کئی اسکولوں پر باثر افراد کے قبضے ہیں۔ محکمہ تعلیم یہ قبضے چھڑانے سے عاجز ہے۔ کچھ عرصہ قبل محکمہ تعلیم کی انتظامیہ نے اسکولوں پر بااثر افراد کے قبضے چھڑانے میں بر بدترین ناکامی کے بعدان اسکولوں کو غیر ضروری قرار دے کر بطور اسکول ختم کردیا تھا۔ لہٰذا یہ عمارتیں ان بااثر افراد کو بطور بخشش دے دی گئیں۔ اساتذہ کی بایو میٹرک نے کرپشن کی ایک نئی ونگ قائم کردی۔ 
جس طرح نجی ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لئے ریلوے اور سرکاری ٹرانسپورٹ کو تباہ کیا گیا، اسی طرح صوبے میں تعلیم اور صحت کے سرکاری نظام کو تباہ کر کے نجی سرمایہ کاروں کے لئے سہولت اور مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔ 
Nai Baat - SIndh Nama - Sohail Sangi , Dec 21, 2018
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
https://www.naibaat.pk/21-Dec-2018/19702 

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/65970/Sohail-Sangi/Sindh-Hukumat-Ki-Karkardagi--.aspx

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/sindh-hukumat-ki-karkardagi-9482.html 

http://politics92.com/singlecolumn/65970/Sohail-Sangi/Sindh-Hukumat-Ki-Karkardagi--.aspx

http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-dec-22-2018-189279

سندھ میں گیس کا بحران اور بے چینی


سندھ میں گیس کا بحران اور بے چینی

سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی
گیس بحران معاملے کی سنگینی کو نظر میں رکھا جائے کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ ملک کی کل پیداوار کا 71 فیصد پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس صوبے کو گیس کی فراہمی میں ناانصافی کی جاتی رہی ہے۔ سی این جی اسٹیشنز، صنعتی خواہ گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی بند کردی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی سندھ میں گیس کا بحران پیدا کیا گیا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے تمام سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی تا حکم ثانی بند کردی ہے۔ مختلف علاقوں میں بحران کی آڑ میں گھریلو صارفین کو بھی گیس کی سپلائی معطل ہے۔ سندھ ٹرانسپورٹ اتحاد نے اس صورتحال کے پیش نظر غیر معینہ مدت تک پبلک ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس ضمن میں وفاق کے پاس احتجاج کیا ہے۔ سندھ ملک کے باقی تین صوبوں کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ گیس پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ گیس کی فراہمی میں ناانصافی ہو رہی ہے۔ پنجاب باقی صوبوں کے مقابلے میں کم گیس کی پیداوار دیتا ہے لیکن استعمال زیادہ کرتا ہے صوبے میں ٹرانسپورٹ کی ممکنہ ہڑتال کے نتیجے میں بحران پیدا ہو گیا ہے۔ سی این جی بند ہونے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ ڈٰزل اور پیٹورل پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے کرایے بڑھ گئے ہیں۔ ٹراسنپورٹ مہنگی ہو گئی ہے ۔ اس کا تمام تر وزن عام آدمی کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ سی این جی اسٹیشنز ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ ان کے بند ہونے کے بعد سندھ میں ہزارہا افراد بیروزگار ہو جائیں گے ۔ 
بجلی کے بدترین لوڈ شیڈنگ اور گیس کے بحران کے پیچھے تیل امپورٹ کرنے والی لابی کے ہاتھ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس لابی کی کوشش یہ رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیل امپورٹ ہو۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کو بریفنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ سوئی سدرن اور سوئی ناردن کمپنیوں نے گیس کی اصل طلب اور رسد حکومت سے چھپائے رکھی۔ لگتا ہے کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت کی انتظامی امور پر گرفت کمزور ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بھی بے خبر رہے۔ 
تین روز قبل وزیراعظم نے کراچی کے دورے کے دوران کراچی کی صنعتوں کی گیس بند نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ابھی وزیراعظم کے وعدے کی بازگشت ہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ گیس کمپنیوں نے سندھ میں گیس کا بحران پیدا کردیا ہے۔ گیس کی بدنی سندھ میں احتجاجوں اور امن و امان کے مسئلے کو جنم دے سکتی ہے ۔ یہ احساس اپنی جگہ پر ہے گیس کی زیادہ پیداوار دینے والا صوبہ ہی اس کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’مظاہرین پر تشدد کی روایت کے خاتمہ کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں روز مختلف متاثر لوگ مظاہرے کرتے ہیں۔ اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاجوں کا یہ سلسلہ ہر دور حکومت میں جاری رہا ہے۔ لیکن مظاہرین کو روکنے کے لئے حکومت تشدد کا طریقہ اپناتی ہے۔ صوبے کے دارالحکومت کراچی میں پریس کلب خواہ دیگر مقامات پر احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ دو روز پہلے کراچی پریس کلب کے سامنے پورٹ قاسم اتھارٹی کے ملازمین وزیراعظم عمران خان کی کراچی آمد کے بعد ان کی موجودگی کے دوران گورنر ہاؤس می پہنچنے کی کوشش کی۔ مظاہرین کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لء پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور واٹر کیننگ کی۔ پولیس نے پھوارہ چوک کے پاس رکاوٹیں کھڑی کر کے گورنر ہاؤس جانے والے راستوں کو سیل کر دیا۔ لاٹھی چارج کے بعد متعدد مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا۔ گرفتار شدگان کی رہائی حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ احتجاج کرنے والے پورٹ قاسم کے وہ ملازمین ہیں جنہیں گزشتہ پناچ چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ملازمین بلاوجہ ملازمت سے فارغ بھی کردیا گیا ہے۔ تشدد کے بعد مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یہ یقین دہانی بغیر تشدد کے بھی کرائی جاسکتی تھی۔ حکومت کو چاہئے کہ لوگوں کو مظاہروں اور احتجاج پر مجبور نہ کرے، اور اگر کسی وجہ سے احتجاج ہوتا ہے تو تشدد کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کیا جائے۔ 
سندھ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی صدارت میں منعقدہ سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبے میں جرائم کے خاتمے اور اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ قائد آباد میں دھماکہ ، چینی قونصلیٹ پر حملہ، گلستان جوہر میں محفل میلاد پر دھماکہ افسوسناک واقعات ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کو بتایا کہ اسٹریٹ کرائیم کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون میں اصلاحات لائی جارہی ہیں۔ سی آر پی سی دفعہ 30 کے تحت خصوصی میجسٹریٹ اسٹریٹ کرائی کے مقدمات کی سماعت کریں گے۔ اس کے تحت مجرموں کو تین سے پانچ سال تک کی سزا دی جاسکے گی۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ موٹر سائکلوں میں بھی ٹریکر لگائے جائیں گے۔ پرانی موٹر سائکلوں کی مارکیٹ میں کارروائی کی جائے گی۔ جرائم کے خاتمے کے لئے قوانین میں اصلاحات ضروری ہیں ۔ کوئی بھی معاشرہ خواہ کتنا ہی ترقی کی بلندیوں پر کیوں نہ ہو، اس معاشرے میں اگر امنو امان نہیں ہے تو لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام تک چل پھر نہیں سکتے۔ ایسی ترقی جلد ہی تنزلی میں بدل جاتی ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں کے بجائے اپنے شہر کراچی کی مثال لے سکتے ہیں۔ یہاں ماضی قریب میں ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری، اور اسٹریٹ کرائیم کی وجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی ۔سرمایہ کار تیزی سے کراچی چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو رہے تھے۔ جس کی وجہ سے شہر کی رونقیں تباہ ہو گئی۔ بعد میں ان عناصر کے خلاف آپریشن کی وجہ سے ماحول پرامن ہوا، تو رونقیں دوبارہ بحال ہو گئی۔ یہی صورتحال حیدرآباد اور صوبے کے دوسرے
چھوٹے بڑے شہروں ک ہے۔ جہاں رونقیں بحال ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لوگ سکون سے ایک مقام سید وسرے مقام تک جا رہے ہیں لیکن یہ بات ملک دشمن عناصر کو پسند نہیں۔ وہ سندھ سمیت ملک بھر میں کسی بہانے کی آڑ میں خوف کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔ ایپکس کمیٹی میں جو فیصلے کئے گئے فیصلوں پر جلد عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایپکس کمیٹی کے بائیسویں اجلاس میں مدارس کی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا اس پر بھی عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ 



Sindh Nama - Nai Baat- Soahil Sangi - Gas laod Shedding
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
------------- 


لمحے گزرتے اور ماضی بنتے جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ خود کو دیکھتا ہے۔ 


شام ڈھلتے ہی دل پر تھاپ پڑتی تھی۔ڈنگر مویشی کے گلے میں پڑی گھنٹی کی آواز

Saturday, December 8, 2018

تعلیم اور انسداد رشوت ستانی میں سرگرمی


سندھ نامہ سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ سندھ بھر میں سندھی ثقافت کا دن منایا گیا۔ صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی گئیں۔ہر عمر اور ہر مکتبہ فکرکے لوگ خواہ خواتین نے سڑکوں پر آکر اپنی ثقافت سے محبت کا بھرپور اظہار کیا۔ گزشتہ دس سال سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جارہا ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز سندھی میڈیا نے ہی کیا تھا۔ تعلیمی اداروں خواہ نجی طور پر متعدد ثقافتی پروگرام اور محفلیں منعقد ہوئیں۔ تقریری مقابلوں سے لیکر ثقافتی گیتوں اور ڈانس تک ، ادبی نشستوں سے لیکر لوک محفلوں تک کے پروگراموں نے خوشی اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ اظہار کیا کہ اس دھرتی کے لوگ کثیر رنگی اور تنوع کے ساتھ متحد بھی ہیں۔ جب سندھ کو قبائلی رسم و رواج نے سندھی معاشرے کو آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں چھوڑی، قوم کو ذات اور برادری کی بنیاد پر تقسیم نے قومی وجود کو نقصان پہچایا ہے۔ کئی علاقوں میں ریاستی قانون کے بجائے جرگہ سسٹم رائج ہے، جس نے سندھی قوم کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایسے میں یہ اظہار یقیننا ایک اچھا پیغام دیتا ہے۔ سندھ کی میڈیا نے بڑے پیمانے پر ثقافتی دن کی سرگرمیوں اور پروگراموں کو کوریج دی۔ اداریے اور مضامین شایع کئے۔جن میں عام لوگوں کو اور اہل فکر نظر کو سندھ کے اندرونی مسائل اور الجھنوں کے بارے میں بتایا اور ان کو حل کرنے کے لئے اسی طرح متحد ہونے اور موثر طور پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔
تھر میں قحط اور بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکیوٹو کے استعیفا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کول مائننگ ایریا اور تھرکا دورہ کیا۔اگرچہ سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ قحط کے دوران تھر کے تمام مویشیوں کے لئے چارہ فراہم کرے گی۔ تاہم حکومت صرف کول ایریا کے مویشیوں کے لئے چارہ فراہم کرنے کے لئے رقم مہیا کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے وزیراعلیٰ نے سندھ اینگرو کول کمپنی کے ذیلی ادارے تھر فاؤنڈیشن کو پانچ کروڑوپے کا چیک بھی دیا۔ باقی تمام تھر کے لوگ اس سہولت سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت کے نزدیک صرف کو ل ایریا ہی قحط زدہ ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ حکومت قحط کے متاثرہ لوگوں کو اینگر کمپنی کے ذریعے کیوں چارہ تقسیم کر رہی ہے؟
سندھ میں دو اور شعبوں تعلیم اور انسداد رشوت ستانی میں سرگرمی نظر آرہی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے پہلے بڑے شہروں میں کام کرنے والے بڑے نام والے اسکولوں میں فیس کے مسلسل اضافے کے خلاف اقدامات کئے، اور انہیں نوٹس دیئے۔ پرائمری سطح پر نصاب بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔
صوبے میں این ٹی ایس کے ذریعے ٹیسٹ لینے کے بعد بھرتی ہونے والے گیارہ ہزار سے زائد اساتذہ کو مستقل کردیا گیا ہے۔ یہ اساتذہ گزشتہ چار سال سے کانٹریکٹ پر کام کر رہے تھے۔ ابھی تک اساتذہ کی دو اور کھیپ ہیں جنہیں کانٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا لیکن تاحال انہیں کنفرم نہیں کیا گیا ہے۔ حیدرآباد کے ایک پو ش تعلیمی ادارے پبلک اسکول حیدرآباد کو آئی بی اے سکھر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ اسکول کئی برسوں سے شدید انتظامی بحران کا شکار ہے۔ اسکول کے بورڈ آف گورنرس نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ اس اسکول کے لئے زمین ایک تالپور خاندان نے بطور تحفہ دی تھی۔ جس کو قانونی طور پر کسی نجی ادارے کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی بی اے سکھر بطور اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اچھا چل رہا ہے، اس پر مزید بوجھ ڈالنے سے اس ادارے کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ یاد رہے کہ آئی بی اے سکھر یونیورسٹی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں میں بھرتیوں کے لئے بطور ٹیسٹنگ ادارے کے بھی کام کر رہا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ حال ہی میں صوبے کے مختلف اضلاع میں تعلیمی سہولیات اور مجموعی تعلیمی صورتحال کے بارے میں سروے کئے گئے ہیں۔ سروے کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے آبائی ضلع ضلع جامشورو میں 594 اسکول کام کر رہے ہیں جبکہ 150 اسکول بند ہیں۔ جو اسکول فنکشنل ہیں ان میں سے صرف 346 اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت موجود ہے۔ 257 اسکوولں میں بجلی کی سہولت نہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر یہ سب چبے اسکول جانا شروع کردیں تو کیا سرکاری اسکولوں میں اتنی عمارتیں، دیگر سہولیات اور مطلوبہ اساتذہ موجود ہیں؟
اچھی حکمرانی نہ ہونے کی مسلسل شکایات کے بعد سندھ حکومت زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہسپتالوں میں انتظامی عہدوں کے لئے ٹیسٹ لی گئی۔ یعنی ہسپتالوں میں انتظامی کیڈر الگ ہوگا۔ اس سے قبل سنیئر ڈاکٹرز کو میڈیکل سپرنٹینڈنٹ یا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے عہدوں پر لگایا جاتا تھا۔ یہ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اس سے قبل حکومت نے تعلیم کے شعبے میں بھی یہ تجربہ کیا تھا، جو ابھی تک چل رہا ہے لیکن کوئی زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔
محکمہ اینٹی کرپشن نے گندم کی سرکاری خریداری کے لئے باردانہ کی تقسیم میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات مکمل کرلی ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق محکمہ کے افسران نے یہ سرکرای باردانہ پیسوں کے عوض فروخت کیا یا پھر سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیا۔ غیر شفاف تقسیم کی وجہ سے مستحق کاشتکار اس سہولت سے محروم ہو گئے۔ صرف سانگھڑ ضلع میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کے غبن کی تصدیق ہوئی ہے۔ غیر شفاف طریقے سے باردانہ حاصل کرنے والوں میں جام مدد علی سابق لیڈر آف پاوزیشن سندھ اسمبلی، جام ذوالفقار، میر خان مری اور دیگر نام شامل ہیں۔ اینٹی کرپشن کے ذرائع کے مطابق اس غبن میں افسران اور بعض بااثر افراد ملوث ہیں۔ غیرقانونی جائدایں بنانے پر سابق سیکریٹری علی احمد رند اور دیگر چھ افراد کے خلاف احتساب عدالت نے فرد جرم عائد کردی ہے۔
سپریم کورٹ میں برساتی ندی گاج پر ڈیم کی تعمیر کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ مشرف دور میں شروع کئے گئے اس منصوبے پر سولہ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔ اب کہا جارہا کہ ڈیم کا مقام صحیح نہیں۔ 46 ارب روپے وفاقی حکومت کو دینے تھے اور سندھ حکومت کو ڈیم بنانا تھا۔ سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تاحال 51 فیصد کام ہوا ہے۔ ٹھیکدار کی جانب سے دی گئی دو ارب روپے کی بینک گارنٹی جعلی نکلی۔ دوسری طرف پورٹس اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر علی زیدی نے پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی گزشتہ بیس سال کے دوران لیز کی گئی زمین کی آڈٹ کا حکم دیا ہے۔


Nai Baat SIndh Nama Sohail Sangi Dec 7, 2018

What keeps PPP in power



What keeps PPP in power
Sohail Sangi December 9, 2018

PPP continues to be the leading force in rural Sindh. Opponents accuse it of misgovernance and corruption but an objective view of the on-ground situation is in order.
Pakistan People’s Party (PPP) continues to lead from the front in Sindh. After completing two terms in government, the party has again been voted in for a third time in Sindh. Its base remains in the rural areas. What is it about the party that has kept it in power for more than ten years? While the mainstream media continues to project Sindh, and hence PPP, as a test case of bad governance and corruption, an objective view of the reality on ground is in order.
In all these years, among other things, what goes to the PPP’s credit is the opening of as many as half a dozen universities and the same number of university campuses in rural areas. Sindh is also a major beneficiary of Benazir Income Support Programme (BISP). According to figures from 2017, the number of beneficiaries of the programme in Sindh is 1,905,436 as opposed to 2,022,831 for Punjab — a difference of 117, 395.
Of course, there are factors which gave an edge to PPP and it played them intelligently. The interplay of culture and politics — dynamics of power and resistance in the cultural and social sphere — play an important role whose symbols, identities and narratives the PPP deploys skillfully to further its politics.
Political dynamics, especially those that are rooted in history, suggest that Sindh has consistently remained engaged in a struggle for its identity, language and culture. Sindhi intelligentsia believes the province’s identity has been under threat since the British period when it had to endeavour for separation from Bombay Presidency. After a gap of two decades, when One Unit was imposed in the new country, it struggled afresh for its identity and language. Settlement of affectees of partition in the province further complicated the situation.
Therefore, continuing with its track record of soft cultural activities, PPP has opened institutes for music. It has engaged with writers and intellectuals, while organising literary and cultural festivals in nearly all districts of the province. No doubt these are progressive steps. Some say the party has been playing with the emotions of the people; others see it as the party’s essential ethos.
Emergence of Mohajir politics in the province’s urban centres weakened all national level parties. PPP was a major sufferer as it was confined to rural areas. Ethnic divide does play a part in voting pattern and political support. The fear factor has also helped PPP bag votes. This fear further rises when some sections talk about the division of Sindh. It is construed that if PPP did not get a mandate, the geographical integrity of Sindh would be jeopardised. This forces a united mandate in favour of PPP from the rural belt.
It is assumed that it is only PPP that can bring power to the Sindhis and they do feel empowered. This fact lures the electables into its fold. The party has been playing gimmicks of mainstreaming marginalised sections of society, like making a Kolhi girl from Thar Krishna Kumari a senator and Tanzeela Sheedi an MPA.
It also won over nationalistic aspirations by trying to raise the issues of finance and water etc, which were otherwise taken up by nationalists. It raised the issue of power shortage for the province during the last five years, both at the level of government and the party.
Politics is not a three-month cycle of election; it is a continuous process spread over five years and more. In Sindh, PPP is the only party which has been in this mode. Analyst Naz Sahto explains: “PPP remains consistently in election mode. Other parties which have a following in some districts do not venture into new areas. They do not bother to formally review the post-election scenario and look for mistakes made during the campaign.”
PPP has a network and it acts as a political force, both in normal days as well as in election days.
What is more, the local leadership gets to benefit a lot when the party is in power. It gets its share in jobs, contracts, development work and commissions. Despite all criticism, middle and upper middle classes have benefited from ‘corruption’ or what is known as patronage. “A good number of people are beneficiaries of this corruption, directly or indirectly,” analyst Manzoor Shaikh points out.
According to Vice Chairman Jeay Sindh Qaumi Mahaz Asif Baladi, “we [in Sindh] have a different type of development approach: to give a bit to the people and they will stand in hope for more. PPP has done it; it gave some jobs, some roads, electricity and some water pumps. Now people have started questioning and bargaining, though brokers gain more from this bargaining.”
PPP focuses on local arrangements of biradaris and tribes; these local arrangements help it get votes. Ironically, this non-political factor was introduced in our politics by Gen Ziaul Haq and was matured by Gen Musharraf, particularly in the local bodies’ elections.
Pakistan People’s Party has the sort of access that other parties don’t. “No one turns up after elections, whether they win or lose. Murtaza Jatoi and Pir Sadaruddin Shah have both been federal ministers; they practically delivered nothing to their voters or even to the people of Sindh,” says researcher Aslam Khwaja.
Absence of alternative is another major factor that has kept PPP in power; this means an alternative that is better than the PPP. No strong and organised opposition exists in Sindh. The parties and groups posing themselves as alternatives, practically and in perception, are worse than the PPP.
Traditional mainstream political parties, like PML-N and PTI, are least interested in Sindh affairs. Rather they are more interested in ‘sweeping’ the elections in Punjab. These parties do not opt for mass moblisation and organisation in Sindh. There might be two possible indigenous alternatives: one, the elites who are opposed to PPP’s governance and policies; two, the middle class or rising new classes, this includes Sindhi nationalists, as happened in Punjab, KP and to some extent in Balochistan.
The alternative of elites under the leadership of Functional Muslim League (FML) has been a failed experiment, mainly because such parties or alliances surface only on the occasion of the election. They do not believe that people matter in politics. Besides, they have no alternate programme and strategies. As for the nationalists, they stand divided, without any clear-cut goal and strategy. Therefore, PPP continues to be the leading force in Sindh
Apart from provincial autonomy, the 18th Constitutional Amendment has devolved more powers and funds to provinces. This has defused the nationalist upsurge in provinces. In Sindh, there is no narrative left with the nationalists except that PPP is not sincere with Sindh.

Thursday, December 6, 2018

قبل از وقت انتخابات : سیاسی بیل آؤٹ پیکیج



سیاسی بیل آؤٹ پیکیج کا مطالبہ

میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
وزیراعظم عمران خان کے دو ارشادات نے صورتحال کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ اول: قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں۔ دوئم : حکمران جماعت اپنا ایجنڈا صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے آگے بڑھائے گی۔ عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کا اشارہ دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے حکومت چلائی جارہی۔ بلکہ انہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی میں مشکل پیش آرہی۔ 
وزیراعظم عمران خان یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ضروری دستور سازی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر آرڈیننسوں کے ذریعے کی جائے گی۔ آرڈیننس کے تحت قانون کے ذریعے مقدمات جلد نمٹائے جانے کے علاوہ خواتین اور بیواؤں کو ان کے حقوق وراثت مل سکیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے قانون سازی اور اصلاحات کے ایجنڈا پر عمل کے لئے صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے کریں گے۔ آرڈیننس اگرچہ قانونی طریقہ ہے لیکن اس کا بار بار استعمال پارلیمنٹ کی نفی اور اس کے اختیارات میں مداخلت ے۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کواتنی اکثریت حاصل نہیں کہ آئین میں ترامیم کر سکیں تاہم اتنی اکثریت حاصل ضرور ہے کہ وہ قانون سازی کرسکیں۔ لیکن کوئی بھی ایکٹ تب قانون بن سکتا ہے جب اسکو سینیٹ بھی منظور کرے۔ جہاں پر حکمران اتحادیوں کو اکثریت حاصل نہیں۔
ایوان بالا میں حکمران جماعت کے حق میں عددی اکثریت آئندہ سینیٹ کے انتخابات میں مل سکتی ہے۔ لیکن سینیٹ کے انتخابات میں اڑھائی سال چاہئیں یعنی 2021 میں ہونگے۔ تب تک تحریکانصاف حکومت اپنی نصف آئنی مدت پوری کر چکی ہوگی۔ 
صرف ایگزیکیوٹو کے زور پر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی بالادستی ہونے کے باعث آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی حقیقت پسندانہ نہیں۔ عمران خان صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے ضروری قانون سازی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو اکثریت حاصل نہیں۔نامور قانون دان اور ایوان بالا کے سابق چیئرمین وسیم سجاد کے مطابق اگر اپوزیشن کسی جاری آرڈیننس کی منظوری نہیں دیتی تو وہ قرارداد کے ذریعے اسے نامنظور کر دیتی ہے تو وہ اپنی 120 روزہ معیاد کی تکمیل سے پہلے ہی غیر موثر ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے مختلف فیصلوں میں حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے دستور سازی کو رد کر چکی ہے کیونکہ یہ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار ہے۔ اسمبلی ہی کو اس میں مزید اتنی ہی مدت کے لئے توسیع کا اختیار ہے۔ تمام دیگر آرڈیننس جن میں آرٹیکل (2)73 کے حوالے سے معاملات کی دفعات نہ ہوں تو وہ 120 دن گزر جانے کے بعد منسوخ تصور ہوگا۔ تاہم ایوان بالا یا زیریں میں قرارداد کے ذریعے نافذ آرڈیننس میں مزید 120 دنوں کی توسیع ممکن ہے۔
یہ کوئی جواز نہیں کہ تحریک انصاف صدرتی آرڈیننسوں کا راستہ اختیار کرکے پارلیمنٹ کو درکنار کر ے ۔ آرڈیننسوں کے ذریعے کوئی مستقل قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔پارلیمنٹ کو درکنار کر کے صدارتی آرڈیننس سے معاملات چلانے اٹھارہویں ترمیم کے بعد ممکن نہیں رہا۔ کیونکہ آرڈیننس کی عمر اب 120 روز ہوگی اور اس میں مزید 210 روز کی توسیع دونوں ایوانوں میں سے کسی ایک کی منظوری ضروری ہوگی۔ 
آرڈیننس کتنے اچھے ہونے؟ ایک الگ سوال ہے۔ پارلیمنٹ چل نہیں پارہی۔ کیونکہ حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا تنازع ہے۔ حکومت کسی طور پر بھی یہ عہدہ اپوزیشن کو دینا نہیں چاہتی۔ ماضی میں یہ عہدہ بطور روایت اپوزیشن کے پاس رہا ہے۔ اگر وزیراعظم آرڈیننسوں کے ذریعے قانون لانا چاہ ر ہے ہیں تو اس کے بعد خود حکومت اور اپویشن کے درمیان ایک اور خلیج پیدا ہوگی۔ تحریک انصاف کو اپنی پارلیمانی قوت کا احساس ہونا چاہئے اور پارلیمنٹ کے ساتھ جھگڑا کرنے کے بجائے اپنے اصلاحات کے ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے ئے کام کرنا چاہئے۔ 
معاملہ صرف قانون سازی کا نہیں۔ بعض آئینی ترامیم کا بھی ہے ۔ جن میں این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی اور جنوبی پنجاب صوبے کا قیام جیسے معاملات شامل ہیں۔ آئین میں ترمیم کے لئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ نیا صوبہ بنانے کیلئے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔خسرو بختیاروفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں وقت لگے گا۔ ممکن ہے کہ تب تک نئے انتخابات ہو جائیں۔ نئے صوبے کا دارالحکومت ملتان ہو یا بہاولپور، بات ہورہی ہے، خسرو بختیار نے کہا ہے کہ 30جون سے پہلے ایسے انتظامات کر دیں گے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے صرف آئینی ترمیم اور ایک لکیر کھینچنا ہوگی،نیا صوبہ بنتا ہے تو موجودہ اسمبلی ارکان کی تقسیم ہوجائے گی یا نیا الیکشن ہوگا،ن لیگ ہمیشہ بہاولپور صوبہ کا مطالبہ کر کے جنوبی پنجاب صوبہ کو متنازع بنادیتی ہے۔
پنجاب میں نئے صوبے سے متعلق کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب صوبہ بناتی ہے تو اصل پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ نیا صوبہ بنتا ہے تو نیا این ایف سی ایوارڈ اور جنوبی پنجاب اور سینیٹ کے نئے الیکشن ہوں گے۔پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ پر وزیراعظم عمران خان کا ایک اور یوٹرن نظر آرہا ہے۔حکومت ون یونٹ بنانے جارہی ہے جس کی پیپلز پارٹی مزاحمت کرے گی۔خسرو بختیار کہتے ہیں جنوبی پنجاب کو پچھلے چھ سال سے آبادی کے مطابق طے شدہ حصے میں سے آدھا ملتارہا، جنوبی پنجاب کیلئے ترقیاتی پیکیج لے کر آئیں گے اور سیکرٹریٹ بھی وہیں بنے گا۔تجزیہ گاروں کا خیال ہے کہ فوری طور پر صوبے کے قیام کا اعلان کے بجائے فی الحال حکومت نئے صوبے کا سیکریٹریٹ اور مجوزہ صوبے کے دارلحکومت کا انفرا اسٹرکچر بنائے۔تحریک انصاف کیسامنے یہ سوال ہے کہ بہاولپور صوبہ بنے یا جنوبی پنجاب۔نئے صوبے کا دارالحکومت ملتان ہو یا بہاولپور۔ اس پر بھی خود تحریک انصاف میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔خسرو بختیار کہتے ہیں کہ جلد فیصلہ کرلیں گے کس شہر میں نئے صوبے کی بنیاد کا ڈھانچہ بنائیں۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ نواز لیگ بہاولپور صوبہ کا مطالبہ کر کے جنوبی پنجاب صوبہ کو متنازع بنادیتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی واحد پارٹی ہے جو عوامی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سندھ کے مختلف اضلاع کا دورہ کر چکے ہیں۔پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ ایک یہ کہ پارٹی کی قیادت کے خلاف کوئی ایکشن ہونے والا ہے، دوسرا یہ کہ ملک کے انتظامی و اختیاراتی ڈھانچے میں بھی کچھ ردوبدل ہونے جارہا ہے۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ شقوں میں تبدیلی کر کے آئین میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں جو ہم نہیں ہونے دیں گے، آصف زرداری کے مطابق اٹھارویں ترمیم کی کچھ شقوں کا بہانا بنا کر وہ 1973کا آئین منسوخ کرنا چاہتے ہیں، شقوں کا بہانہ بناکر دوبارہ ون یونٹ کی سیاست شروع کرنا چاہتے ہیں، ہم دوبارہ ون یونٹ کی سیاست نہیں ہونے دیں گے۔ 
وزیراعظم چاہتے ہیں کہ انہیں وہ سب کچھ کرنے دیا جائے جو وہ چاہتے ہیں ۔ نہیں تو قبل از وقت انتخابات کراکے دیں۔ اس صور تحال میں نئے انتخابات کا مطالبہ بیل پیکیج کے برابر لگتا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کی پیپلزپارٹی، نواز لیگ، اے این پی مخالف ہیں۔اپوزیشن کا خیال ہے کہ حکومت خود اپنے بوجھ تلے غیر مقبول ہو۔ عمران خان نئے انتخابات سے پہلے نواز شریف، آصف علی زرداری اور بعض مذہبی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اور اس امر کا جب انہیں یقین ہو جائے گا تب انتخابات کرائیں گے۔ بصورت دیگرے وہ اپوزیشن پارٹیوں میں فارورڈ بلاک بنائیں گے۔ 
Nai Baat Dec 7, 2018 - Sohail Sangi

Tuesday, December 4, 2018

گنے کے بحران سے زرعی بحران تک

Nov 10

گنے کے بحران سے زرعی بحران تک
سندھ نامہ سہیل سانگی 
وزیراعلٰ سندھ کہتے ہیں کہ سندھ میں نیب کی کارروایوں کی وجہ سے افسران خوف زدہ ہین اور سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسران خوف میں کیوں ہیں؟ اگر وہ صحیح کام کر رہے ہیں یا حکومت سندھ ان سے صحیح کام لے رہی ہے تو پھر خوف کی فضا نہیں ہونی چاہئے۔ اخبارات نے وزیراعلیٰ کے اس بیان پر کالم اور مضامین لکھے ہیں۔ 
روزنامہ کاوش سندھ کی زراعت پر بحرانوں کی بلا کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے سندھ کی زراعت کو مشکل وقت کا سامنا ہے۔ اس ضمن میں نہ کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ ہی بحرانوں کی یہ آفت سندھ کی زراعت سے ٹل سکی۔ کاشتکاروں کو فصلوں کی صحیح قیمتیں نہیں ملتی۔ دوسرا بحران شگر ملز کا وقت پر گنے کی پسائی شروع نہ کرنے اور گنے کی قیمت کا ہے جو بغیر ناغے کے چلتا رہتا ہے۔
سندھ شگر کین ایکٹ کے تحت اکتوبر میں شگر ملز چالو کرنی ہیں۔ لیکن حکومت سندھ اس قناون پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ نیتجۃ شگر ملز بمشکل دسمبر میں گنے کی پاسئی اور خرایدری شروع کرتی ہیں۔ رواں سال حکومت سندھ نے شگر کین بورڈ کی تشکیل تو کی ہے جس کو گنے کی پسائی شروع کرنے کا وقت اور قیمت کا تعین کرنا ہے۔ لیکن اس بورڈ کا اجلاس تاحال طلب نہیں کای جاسکا ہے۔ رواں سال وفاقی حکومت نے ہر حال میں چاروں صوبوں میں گنے کی پسائی 15 نومبر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن تاحال کوئی تحرک نظر نہیں آتا۔ پسائی شروع کرنے سے پہلے شکر ملز چمنی جلاتی ہیں، اس کا بھی آغاز نہیں ہو سکا ہے۔ 
صوبے کو حصہ کا پانی نہ ملنا، اور جو پانی ملتا ہے اس کی صحیح ریگیولیشن نہ ہونا، پانی کی چوری، آبپاشی افسران کی جانب سے پانی کی فروخت، یا محکمہ آبپاشی کو سیاسی مقصد کے لئے استعملا کرنا، نقلی بیج، کھاد اور جراثیم کش ادویات کی سر عام فروخت نے سندھ کی زراعت کو مشکل صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔ اگرچہ حکومت سندھ نے زرعی پالیسی کا اعلان کیا ہے، لیکن اس میں بھی کئی کوتاہیاں ہیں جن کی نشاندہی میڈیا خواہ کاشکتکاروں کی نمائندہ تنظیمیں کر چکی ہیں۔ لیکن اس ناقص زرعی پالیسی پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ 
حکومت سندھ ہر سال گنے کی قیمت مقرر کرتی ہے لیکن اس پر عمل کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ گنے کی پسائی وقت پر شروع نہ کرنے کی وجہ سے گنا خشک ہونا شروع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وزن کم ہونے لگتا ہے، یوں کاشتکاروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ گنے کی کٹائی دیر سے شروع ہونے کی وجہ سے زمین گندم کی کاشت کے لئے خالی نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ جب تک گنے کی فصل کھڑی ہے اس کو پانی بھی دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا گنے کی دیر سے خریداری کے نتیجے میں گندم کے حصے کی زمین اور پانی گنے کو چلا جاتا ہے۔ یوں زراعت میں بحران کا سائیکل جاری ہے۔ جس کی چین کو کوئی توڑنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ 
ایک اور اہم بات کاشتکاروں کی شگر ملز پر بقایاجات ہیں۔ ایک سیزن کی بقایاجات دوسری سیزن میں بھی نہیں مل پاتی۔ اگرچہ اس تمام معاملے میں حکومت سندھ ایک فریق ہے، جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فیصؒ وں اور پالیسی پر عمل درآمد کرائے۔ لیکن اس کا کردار شگر مل مالکان اور کاشتکار آپس میں جانے والا ہے۔ حکومت سندھ پاسما کے دباؤ میں رہتی ہے۔ نیتجے میں جب کاشتکار احتجاج کرتے ہیں تو حکومتی مشنری ان پر طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ وزیر زراعت کی سربراہی میں تشکیل کردہ کین بورڈ کا اجلاس بلانے کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی۔ 
اب پہلے بورڈ کا اجلاس ہوگا، گنے کی قیمت کا تعین کیا جائے گا، اس کے بعد گنے کی پاسئی اور کٹائی کی تاریخ طے کی جائے گی۔کارخانوں کی چمنیاں جلانے کے لئے کم از کم دس سے پندرہ روز لگ جائیں گے۔ بورڈ کے فیؒ سوں پر مل مالکان عمل درآمد رکیں یا نہ کریں ایک ایک اور باب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دسمبر کے وسط سے پہلے گنے کی سیزن شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ کین بورڈ کا فوری طور پر اجلاس بلایا جائے اور اس کے پہلے اجلاس میں ہین گنے کی قیمت اور کٹاء کی تاریخ کا تعین کر دیا جائے۔ حکومت اس معاملے کو بھی یقنی بنائے کہ مل مالکان بورڈ کے فیصلوں پر عمل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمائش ہے کہ کاشتکاروں کی گزشتہ سیزن کی باقیاجات کی ادائیگی کو بھی دیکھے۔ 
سندھ کے حصے کا پانی چوری ہونے کا اعتراف کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ آبی وسائل کے وفاقی وزیر نے اعتراف کیا کہ نوز لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں سندھ اور بلوچستان کے حصے کا پانی چوری کیا جاتا رہا ہے۔ سندھ کو اپنے حصے کا پانی نہ ملنے کے بارے میں قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر موصوف نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کے تحفظات میں بڑی حد تک صداقت ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سندھ کی معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ پانی بھی چوری کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ٹیلی میٹری سسٹم بحال کرانے کی وشش کریں گے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ 1991 کے معاہدے پر عمل درآمد رکانے کی کوشش کی جائے گی۔ سندھ کو اپنے حصے سے کم پانی ملنے کے نتیجے میں صوبے کی زراعت زوال کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے صوبے میں معاشی پسماندگی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف ملک کے بالائی علاقوں کا زہریلا پانی سندھ میں آنے کی وجہ سے صوبے کی 56 فیصد زمیںیں تباہ ہو چکی ہیں جہاں پر زراعت نہیں کی جارہی۔ پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ڈیلاٹا بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ڈیلٹا کی موجودگی میں لاکھوں افراد کو ماہی گیری وغیرہ سے روزگار ملتا تھا۔ اور ان کی غذائی ضروریات پوری ہوتی تھی۔ اب بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے، غربت بھی ہیے گذائیت کی کمی بھی۔ وفاقی حکومت معاملے کا فوری طور پر نوٹس لے۔ اور ماضی میں سندھ سے پانی کے معاملے مین کی گئی ناناصافی کا ازالیہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں بڑھتی ہوئی معیشت کی پسماندگی، بیروزگاری، غربت اور غذائی قلت کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات کرے۔ 
Sugarcane crisis to agriculture crisis - Sindh Nama - Nov 10

سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی پر سوالات

Nov 3
سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی پر سوالات
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ پبلک سروس کمیشن ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ خبریں اس ادارے کی ناقص کارکردگی، غیر شفافیت، اقربا پروری سے متعلق ہیں۔ عدالتی حکم پر لئے گئے امتحان کا کمیشن نے حال ہی میں نتائج کاا علان کیا ہے۔ ان نتائج پر متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ میڈیا میں خبرین ہیں کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر کمیشن نے اقربا پروری کی ہے۔ نہ صرف کمیشن کے چیئرمین اور دیگر اعلیٰ افسران کی اولاد کو پاس کیا گیا ہے بلکہ پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والوں کو بھی نوازا گیا ہے۔ خواتین، اقلیتوں خواہ معذورین کی کوٹا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
2013 میں مقابلے کے ان امتحانات میں بے قاعدگیوں کے بعد سپریم کورٹ نے نتائج مسترد کرتے ہوئے چیئرمین اور دیگر افسران کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دوبارہ امتحان لینے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ امتحان دسمبر 2017 میں لیا گیا۔ اور اب گریڈ 16، 17 کی کل 182 اسامیوں کے لئے کامیاب امیدواروں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اگرچہ ملکی قانون کے مطابق ہر سطح کی ملازمتوں میں خواتین کے لئے دس فیصد، معذورین اور اقلیتوں کے لئے پانچ پانچ فیصد کوٹا مقرر ہے۔ اس حساب سے خواتین کی18 اور اقیلتوں اور معذورین کی ہر ایک کی 9 اسامیاں بنتی ہیں۔، یہ امر قابل ذخر ہے کہ ان کیٹگریز میں میرٹ پر کامیاب ہونے والوں کا معاملہ الگ ہے۔ لیکن کمیشن نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوٹا پر عمل نہیں کیا۔ اگرچہ نتائج میں شہری اور دیہی کوٹا کا ذکر الگ الگ موجود ہے۔ مگر اقلتیتوں، خواتین اور معذورین کے کوٹا کا کوئی ذکر نہیں۔ میرٹ والے نتائج کے مطابق چار اقلیت کے,16 خواتین امیدورا کامیاب ہو ئی ہیں۔ اس معاملے میں کمیشن کا عجیب موقف سامنےّ یا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کی 45، اور سیکشن آفیسر کی 75 اسامیاں خالص میرٹ پر تھی۔ باقی اسامیوں کے لئے کوٹا تھا لیکن ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ کوٹا بن ہی نہیں پا رہا تھا۔ کیونکہ کمیشن کو بیس اسامیوں پر ایک سیٹ کوٹا پر دینی پڑتی ہے۔ لیکن امتحانی نتائج کمیشن کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ مختیارکار کی 24 اسامیاں تھی، لیکن اس پر کوٹا کا اطلاق نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2009 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پورے ملک میں اقلیتوں کے لئے پانچ فیصد کوٹا مقرر کیا گیا تھا۔ اس پر عمل نہ ہونے پر 20114 میں سپریم کورت نے وفاقی خواہ صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ خواتین ، اقلیتوں خواہ معذورین کے لئے نہ صرف کوٹا مقرر کرنے، بلکہ ملازمتوں کے لئے اشتہارات جاری کرتے وقت اس کوٹا کاذکر لازمی بنایا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد سندھ حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر کے تمام محکموں کو اس کوٹا پر سختی سے عمل درآمد کا پابند بنایا۔ کمیشن انتظامیہ نے عدالتی احکامات خواہ حکومتی ہدایات کو ایک طرف رکھ دیا۔
سوال یہ ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے نتائج ہر مرتبہ متنازع کیوں ہو جاتے ہیں؟ آج کے دور میں نتائج کو شفاف اور غیر متنازع بنانا اتنا مشکل نہیں۔ کئی جدید طریقے متعرف ہو چکے ہیں۔ لیکن سندھ پبلک سروس کمیشن یہ طریقے استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کمبائنیڈ کامپیٹیٹو اگزام 2018 کی اسکریننگ ٹیسٹ میں کئی ایسے سوالات دیئے گئے جن کے جوابات کا نہ کمیشن کو اور نہ ہی پرچہ سیٹ کرنیوالوں کو پتہ تھا۔ ہوا یہ کہ ہزاروں امیدوار جوابی آپشنز کے لئے کنفیوزن کا شکار ہو گئے۔اس وجہ سے متعدد امیدواران ایک یا دو نمبر سے رہ گئے۔ کیونکہ کمیشن نے بعد میں متعدد سوالات کتؤے جوابات تبدیل کر دیئے تھے۔ کیا کمیشن کے پاس مستند معلومات کا ذخیرہ نہیں کہ ہر مرتبہ غیر مستند کتابوں سے سوالات نکال کر دیئے جاتے ہیں؟ یہ مار واضح ہے کہ جب بھی کسی ادارے میں بے قایدگیوں کا معاملہ کا معاملہ سامنے ؤتا ہے، حکومت وقت پر ہی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ لہٰذا کمیشن میں بے قاعدگیوں کے لئے حکومت سندھ سے ہی پوچھا جارہا ہے۔ حکومت وقت کو فوری طور پر معاملہ کی تحقیقات کرانی چاہئے۔ اور مجموعی طور پر امیدواروں میں نظام کے بارے میں پائی جانے والی بے چینی کا ازالہ کرنا چاہئے۔
’’ سندھ میں بے قاعدگیاں آخر کب تک ؟‘‘ کے عنوان سے روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے بعد عدالت کے باہر مختلف مسائل کے لئے احتجاج کرنے والوں کے مسائل سنے۔ اور ان کے حل کی یقین دہانی کرئی۔ مظاہرین نے صوبائی و وفاقی اداروں خواہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی سست روی، زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے، مہنگائی، بیروزگاری، میرٹ کو نظرانداز کرنے، پانی کی قلت، پراسار گمشدگیوں، پولیس اور دیگر محکموں کے افارد کی زیادتیوں کے بارے میں شکایات کی۔
سندھ کے باسی کئی ایک مسائل کی لپیٹ مین ہیں۔ ان میں سے بعض اجتماعی اور بعض وفاقی دائرہ اختیار کے مسائل ہیں۔ یہ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ معاشرے میں اختیارات سے تجاوز ، بے قاعدگیاں اور بدعنوانی عروج پر ہے۔ قیادت کے عدم توجہگی کی وجہ سے مسائل بحران کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جنہیں بعد میں حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مختلف اداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے لوگ مجبور ہو کر صوبے کے پریس کلبوں کے سامنت احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ تاکہ حکمران اور متعلقہ ادارے ان کی آواز سن سکیں۔ لیکن ہویہ رہا ہے کہ اس کے باوجود متاثرہ افراد کی نہیں سنی جاتی۔ اور ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور انتظامیہ کی یہ عدم دلچسپی اور عدم توجہگی معاشرے میں لاتعلقی اور بیگانگی پیدا کر رہی ہے۔ یعنی حکمران اور انتظامیہ لوگوں سے بیگانہ اور لوگ حکمرانوں اور انتظامیہ سے بیگانہ ہے۔ یہ لاتعلقی ایک بہت برا مرض ہے۔ جس میں لوگ کسی بھی سرکاری فیصلے پالیسی سے تو لاتعلق ہوتے ہیں بلکہ وہ سرکاری املاک اور سہولیات سے بھی خود کو لاتعلق سمجھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو اگر واقعی اس بات کا احساس ہوا ہے تو یہ ایک مثبت امر ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ کو اس ضمن میں باقاعدہ اور متواتر کوشش کرنی پڑے گی اور لوگوں کو سننا پڑے گا۔ ان کے مسائل کو حل کرنا پڑے گا، تب صورتحال بہتر ہو سکے گی۔
۳۔ نومبر ۲۰۱۸
Sindh Nama - Nai Baat - Performane of SPSC questioned - Sohail Sangi

Friday, November 30, 2018

سندھ کول مائننگ کمپنی کے چیف شمس شیخ کا استعیفا

Anti Encroachment operation in Hyderabad, Sindh Engro Coal Chief Resigns, 

30-Nov-2018
سندھ نامہ سہیل سانگی 

سندھ میں بعض اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ انسداد تجاوزات مہم سندھ کے دارالحکومت کے بعد سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی پہنچ گئی ہے۔ حیدرآباد کی انتظامیہ نے پکا قلعہ، میروں اور کلہوڑوں کے مقبروں سے تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بسنت ہال، میٹھارام ہوسٹل، سٹی کالج، دیال داس کلب سمیت 114 عمارتوں کو قومی ورثہ قرا دیا گیا تھا۔ ان پر سے قبضے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سندھ کول مائننگ کمپنی کے چیف اگزیکیوٹو شمس الدین شیخ نے عہدے سے استعیفا دے دیا ہے۔ اب تھرکول سے بجلی بنانے میں رلا پر گیا ہے۔ تھر کول کے بلاک ٹو میں کوئلہ نکالنے پر اس وقت تحفظات کا اظہار کیا گیا جب مائننگ کمپنی نے زیر زمین پانی کی ایک بڑی مقدار کول ایریا سے باہر تقریبا 40 کلومیٹر کے فاصلے پر جمع کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کی مقامی آبادی خواہ ماہرین نے مخالفت کی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے متاثرہ علاقے کی زمین بنجر ہو جائے گی۔مستعفی ہونے والے چیف ایگزیکیوٹو نے حکومت سے عدم تعاون کے الزام بھی لگائے ہیں اور تھر کے لوگوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا ہے۔ 

تیسرا اہم واقعہ منی لانڈرنگ کیس میں پیپلزپارٹی کے سپریمو آصف علی زرداری اوران کی ہمشیرہ فریال تالپور جے آئی ٹی کے سامنے پیشی تھی۔ دونوں نے میڈیا سے کوئی بات نہیں کی۔ فریال تالپور نے اکثر سوالات کے جواب میں بتایا کہ ان کے قانونی اور دیگر معاملات ان کے وکیل ابوبکر زرداری دیکھتے ہیں۔ وہی ان سوالات کے بارے میں بتائیں گے۔ بعد میں جے آئی ٹی نے ابوبکر زرداری اور فریال تالپور کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔ جبکہ آصف علی زرداری اکثر سوالات کے جواب میں ’’مجھے نہیں پتہ ‘‘ کہتے رہے۔ 

سندھ کول مائننگ کمپنی کے چیف اگزیکیوٹو شمس الدین شیخ کا استعیفا مین اسٹریم خواہ سوشل میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ مستعفی ہونے والے چیف اگزیکیوٹو نے الزام لگایا ہے کہ تھر کے لوگوں کے بارے میں سندھ حکومت کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے انہوں نے استعیفا دیا ہے۔ میڈیایہ سوالات کئے جارہے کہ انہوں نے استعیفا کیوں دیا؟ کیا اب مائننگ اور پاور پلانٹ کا کام جاری رہے گا اور پروگرام کے مطابق بجلی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی؟ یاد رہے کہ دو ہفتے قبل نیب نے سندھ کول مائننگ کمپنی کے معاملات کی تحقیقات شروع کردی تھی۔کمپنی میں پچاس فیصد سے زائد حکومت سندھ کے شیئر ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے کمپنی کی جانب سے تشکیل دی گئی تھر فاؤنڈیشن کوکروڑہا روپے سماجی خدمات کے نام پر دیئے تھے۔ شمس الدین شیخ کا مقامی لوگوں کے ساتھ جارحانہ ہی نہیں تحکمانہ اور توہین آمیز رویہ رہا۔وہ خود کو ہی سندھ حکومت قرار دیتے تھے۔ اس صورتحال میں کمپنی اور اس کا منصوبہ متنازع بن گیا اور میڈیا خواہ عام رائے اس کے خلاف ہو گئی۔ 

کالمنگار امر سندھو روزنامہ کاوش میں لکھتی ہیں کہ کوئلے کے کاروبار میں کس کس نے ہاتھ کالے نہیں کئے؟ ان لوگوں نے بھی جن کی زمینیں تھی۔ ایک اہم اہلکار نے یہ تک کہا تھا کہ 2019 تک بجلی پیدانہیں ہوئی تو خودکشی کرلیں گے۔ لیکن آپ نے پیسے سمیٹنے کے بعد اپنا تھیلا اٹھایا اور خدا حافظ کہا۔ یہ کہنا اتنا مشکل بھی نہیں تھا کیونکہ آپ اس سودے کا معاوضہ وصول کر چکے تھے۔ علم ادب، آرٹ، سمیت آپ نے سیاست اور سیاسی کارکنوں سماجی مزاحمت کاروں ، ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں کی قیمت لگائی۔ اور انہیں توقع سے زیادہ قیمت ادا کی۔ تھر کے لوگوں کے پاس شاید بھٹائی جتنا وطن کا وسیع تصور نہیں تھا۔ مگر ایک جھونپڑی، ایک ریت کے ٹیلے اور اتنی زمین کہ اس کی ایک بکری زندہ رہے، بس یہی ان کا وطن تھا۔اس مختصر وطن کو بھی آپ نے دنیاوی علوم، آپ کی ترقی کے نئے تصور نے خوب مذاق اڑایا۔ آپ نے اس خلق خدا کے اس وال کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تھری باشندے ترقی کے دشمن ہیں۔ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ الزام کس فیکٹری سے آرہا تھا؟ ترقی دشمنی کے الزام بنگال لگے اور بلوچستان پر بھی لگے۔ ممکن ہے کہ تھر کے لوگوں کو علم نہ ہو کہ اس پورے گورکھ دھندے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ لیکن آپ کو تو پتہ تھا کہ کسی بھی وقت کمپنی سرکار آپ کو واپسی والی گاڑی میں بٹھا کر روانہ کردے۔ آپ نے پھر بھی تھر کے لوگوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنی تنخواہ کے لئے سب کچھ کیا۔ اس تنخواہ کو حلال کہا جائے جو وطن کے لوگوں کو اپنے گھر زمین، بڑوں کی قبریں چھوڑنے پر مجبور کردے۔ اور زبردستی اپنی سرزمین سے نکال دے؟ آج کی جدید دنیا میں بھی کوئی ایسا ہیرو موجود نہیں جس نے تنخواہ پر وطن کو ترجیح دی ہو۔ تھر ایک صحرا سہی، ماروی کا وطن تھا جس کو آپ نے بیچ دیا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ صوبے کے مختلف شہروں میں تجاوزات ہٹانے کے لئے آپریشن جاری ہے جس سے شہریوں کو سہولت پیدا ہو رہی ہے۔ حیدرآباد ، لاڑکانہ اور میرپورخاص میں بھی آپریشن کیا گیا۔ اس اقدام سے شہروں کی حالت قدرے بہتر ہوئی ہے۔ اس سے بڑھ کر بااثر افراد کو یہ پیغام ملا ہے کہ ناجائز تجاوزات کسی طور پر بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ حیدرآباد شہر میں بھی اہم بازاروں اور علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔ بلدیہ اور اینٹی انکروچمنت عملہ نے تلک چاڑھی سے حیدر چوک تک اور اسٹیشن روڈ پر فوٹ پاتھوں اور سڑکوں پر سے تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کیبنز، دکانوں کے چھپرے، سڑکوں پر سجا کر رکھے ہوئے سامان کو ہٹا دیا ہے۔ جبکہ لیڈٰی ڈفرن ہاسپیٹل، اور الیکٹرانک مارکیت کے دکانداروں کو مہلت دی ہے کہ وہ خود یہ تجاوزات ہٹا دیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پریٹ آباد فلٹر پلانت کے پاس بھی تجاوزات ہں۔ جن کو ہٹانے کی انتظامیہ نے تیاری مکمل کر لی ہے۔ علاوہ ازیں لطیف آباد اور قاسم آباد میں بھی کارروائی کی گئی۔ آج بھی شہر میں کھانے کے کئی اسٹال فوٹ پاتھوں پر موجود ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو چلنے میں دقت کا سامنا ہے۔ کھانے کے ان اسٹالز کے پاس گاڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں جس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں میں تمام تجاوزات ہٹائی جائیں۔ جو فوٹ پاتھ شو رومز یا دکانوں کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ 

Dec 1, 2018 Nai Baat, Sindh Nama Sohail Sangi

https://www.naibaat.pk/30-Nov-2018/19088
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Resigned due to 'indifference' of Sindh rulers towards Tharis, says Thar mining firm's CEO

Updated November 28, 2018



Former CEO of SECMC Shamsuddin Ahmed Shaikh. — Photo courtesy: Aurora
Former CEO of SECMC Shamsuddin Ahmed Shaikh. — Photo courtesy: Aurora

The former chief executive officer of the Sindh Engro Coal Mining Company (SECMC), Shamsuddin Ahmed Shaikh, on Wednesday cited the "indifference and callous approach" of Thari lawmakers as well as the Sindh government towards the local people as the reason for his 'shock' resignation.
In a move that was received by most executives and workers of the company as a surprising development, Shaikh had earlier this week left the mining company, just a month before the scheduled inauguration of the power plant he worked on for eight years.
The SECMC is a joint venture between Engro and the Sindh government.
Under Shaikh's watch, the SECMC reportedly achieved almost all of its goals and met the targets vis-a-vis extraction of coal, installation of two 330MW power units at Thar coal project’s block-II near Islamkot, and completing the work five months ahead of schedule.
"I tendered my resignation well ahead of time because I was shattered to see the total indifference of the rulers towards their commitments made with the local people living near the Thar coalfield to provide them the basic amenities of life," Shaikh said while talking to Dawn by phone.
He alleged that most of the lawmakers from Thar were totally "incompetent" and too timid to raise the actual issues being faced by the desert region at the appropriate forums.
He said Tharis — both those living in the coalfield area and in rest of the district — needed sustainable policies to mitigate their unending suffering caused by recurring droughts, "instead of hollow slogans and fake promises".
Shaikh alleged that hardly any lawmaker from Thar was committed to providing relief to the local residents through the Thar coal projects by placing the facts and figures before the top brass of the ruling PPP and high-ups in the Sindh government.
According to the former CEO, several functionaries of the Sindh government — which is a major shareholder in the coal mega project — including Sindh Chief Minister Murad Ali Shah and PPP Chairman Bilawal Bhutto Zardari during their visits to the mining site had promised to provide all basic facilities to the local people, including paying them royalty from the coal projects, but when he approached them to keep their words, "they turned a blind eye to my frequent reminders".
"I cannot continue to serve as the chief of a company which despite achieving its targets much before the scheduled time was not in a position to help even the [locally] displaced people due to the indifferent attitude of Sindh government functionaries," he said.
Shaikh also deplored that while the SECMC was all set to provide 660MW to the national grid through the transmission line, no local lawmaker or Sindh government official had made the effort to provide electricity to the villagers living in the coal project’s block-II.
He also regretted that the Sindh government had failed to complete the work on a 123-kilometre-long water pipeline from Left Bank Outfall Drain (LBOD) near Nabisar area.
The retiring official clarified that he had "no differences with the bosses of the company" and that he was proud to be a part of the firm which made it possible to complete the extraction of coal reserves, installation of power plants and more.
"I am still 100 per cent hopeful that the firm will continue its work as per its commitment and I wish all the best to my former colleagues to carry it out," he added.
"It was a very painful moment when I decided to quit the job long before my retirement," he said.
Shaikh had taken up the job as the firm’s CEO in 2010 and his retirement was due in 2023. Abul Fazal Rizvi, until now the chief operating officer of the company, has replaced Shaikh.
Moreover, Dawn has learnt that before his sudden decision to resign, Shaikh had reportedly exchanged harsh words with high-ranking officials of the provincial government, who according to Shaikh were not serious about implementing the various schemes announced by them for Tharis.
Talking to Dawn, the PPP Member of National Assembly and former member of the Sindh Coal Authority from Thar, Dr Mahesh Kumar Malani, outright rejected the allegations made by Shaikh, suggesting that his early retirement might have been an "internal issue of the mining firm”.
He claimed that the PPP government in Sindh had greatly helped the SECMC in achieving its targets, and urged Shaikh to “come forward with solid evidence against the Sindh government”.
Dr Malani said no PPP lawmaker from Thar had ever tried to intervene in the affairs of the mining firm "despite the Sindh government holding 54 per cent shares in the coal project".

Sindh CM's adviser lashes out at ex-CEO of Thar mining firm

November 30, 2018



Work on the power plant having a capacity of 1,320 megawatts underway in full swing at Thar. —Dawn Archives
Work on the power plant having a capacity of 1,320 megawatts underway in full swing at Thar. —Dawn Archives

Sindh Chief Minister's Adviser on Information Murtaza Wahab on Thursday lashed out at former CEO of Sindh Engro Coal Mining Company (SECMC) Shamsuddin Ahmed Shaikh, terming the latter’s allegations against the Sindh government“unfortunate, uncalled for and contrary to reality”.
Shaikh has said that he resigned from SECMC in utter frustration over the “callous” attitude of Thar lawmakers and Sindh government functionaries towards welfare and development projects for the drought-hit desert dwellers.
Responding to Shaikh’s allegations, Wahab claimed that the Sindh government, in addition to being the largest equity partner in SECMC, has also provided back up for the sovereign guarantee of $700 million for the mining project and developed key infrastructure in the region.
“What better support can the [Sindh] government provide [than] by giving the joint venture the necessary enabling environment as well as a sovereign guarantee to step in for the project completion," the adviser said.
“Needless to say that Thar coal project is of national and strategic importance. The Sindh government remains a dedicated and able sponsor in this transformational programme," he maintained.
“We won’t be surprised if Shaikh ends up joining the other ex-employee of Engro in a federal government’s advisory council,” Wahab said, hinting towards the incumbent Finance Minister Asad Umar who has previously served as the CEO of Engro Corporation before joining the Pakistan Tehreek-i-Insaf.
“It seems that Shaikh has found an exciting career opportunity whose first requirement is to bash his former employers, the Sindh government,” Wahab said.
Meanwhile, the Engro Corporation has distanced itself from the allegations levelled by the former SECMC CEO against the Sindh government, terming them as “his personal views”.
Shaikh resigned just a month before the scheduled inauguration of the power plant he worked on for eight years.
Under his watch, the company achieved almost all its goals and met the targets vis-a-vis extraction of coal, installation of two 330MW power units at Thar coal project’s block-II near Islamkot and the completion of work five months ahead of schedule.
"I tendered my resignation well ahead of time because I was shattered to see the total indifference of the rulers towards their commitments made with the local people living near the Thar coalfield to provide them the basic amenities of life," Shaikh had told Dawn on Wednesday.
He alleged that most of the lawmakers from Thar were totally "incompetent" and too timid to raise the actual issues being faced by the desert region at the appropriate forums.
He said Tharis — both those living in the coalfield area and the rest of the district — needed sustainable policies to mitigate their unending suffering caused by recurring droughts, "instead of hollow slogans and fake promises".
Shaikh alleged that hardly any lawmaker from Thar was committed to providing relief to the local residents through the Thar coal projects by placing the facts and figures before the top brass of the ruling PPP and high-ups in the Sindh government. 

Sindh Engro seeks reduction in returns on energy projects

Updated November 12, 2018



Thar coal-based power project of 660MW achieves 92pc physical progress. — File photo
Thar coal-based power project of 660MW achieves 92pc physical progress. — File photo

THAR: Ahead of energisation of the first Thar coal-based 660MW power project, the Sindh Engro Coal Mining Company (SECMC) — a public-private enterprise — is seeking substantial reduction in returns on future energy projects and shift in focus to gasification for fertiliser and other uses from domestic coal.
The “generation cost (of electricity) is way too high in Pakistan and becoming so unaffordable” that the consumer is forced to steal it, according to Chief Execu­tive Officer of SECMC Shamsuddin Shaikh.
Speaking to a group of journalists from Lahore, Karachi and Islamabad at the project site, Mr Shaikh said the first Thar coal-based power project of 660MW had achieved 92 per cent physical progress by now against targeted 83pc and the project cost was 20pc less than the approved cost. This had become possible despite the inherent risk of the unknown about Thar, the coal deposit, its quality, etc.
Advocating a reduction both in capital costs and return investments, Mr Shaikh said Pakistan’s power sector had gone bankrupt and it was becoming difficult for the investors to sell their energy to a system which had no way to pay while sitting on Rs700-1,200bn circular debt.
Thar coal-based power project of 660MW achieves 92pc physical progress
He said not only the generation cost was very high but the distribution system had too much losses and theft had become part of it because high prices offer incentive.
“Theft will keep on increasing as prices go up,” he said, adding that all stakeholders — the government, companies, investors, consumers — needed to put their efforts together to reduce power prices and make them reasonable.
The SECMC chief said the power generation should now shift to renewable sources where the prices were declining steeply and now stood at 4 to 4.3 cents per unit, compared to above 8 cents of coal and other fossil fuels.
“The future is now in renewable, not in fossil fuel,” he said, adding that his company was now working on solar projects of 200MW and above at 3.9 cents per unit. In the next 20 to 25 years it will be all the renewable energy and the use of fossil fuel will diminish.
He said the National Electric Power Regulatory Authority (Nepra) had given very high rates in the past and should now find the right prices and reduce them.
Responding to a question, Mr Shaikh said the first 660MW project at Thar now in final stage was also given 20pc return but would no more require such rates for the second phase of 660MW.
“Now is the time to rationalise returns and capital costs simultaneously,” he said, adding that every future project should now go through competitive bidding.
“We are ready to reduce prices, others should also bring them down otherwise the country cannot afford electricity while Nepra and CPPA should get together and hold international competitive bidding for all future projects,” he said.
In reply to a question, he said the return on equity (ROE) of 27.2pc for Sahiwal Coal power project was actually 18pc internal rate of return (IRR) on investment which was very high compared to 12 to 14pc global IRRs.
“Sahiwal Power project is a national suicide,” he said in response to a question saying a coal plant in the fertile land of Punjab was not only illogical and hence criminal but also expensive because of huge transportation costs being far away from the port.
When asked what would then be the future of 175 billion tonnes of Thar coal after switching over to renewable, the SECMC chief said the time had come to shift from power generation to other purposes initially to fertiliser production in view of diminishing domestic natural gas. “We should not see our coal just as a resource to produce power, in fact, world is now converting coal into diesel, gas and industrial materials and we should also start working in this direction.”
He said the first ever Thar-based 660MW Lignite Coal Power plant was set to go into production by January 2019 against scheduled commercial operation date of June 2019. With 94pc and 92pc completion respectively, the power project and mine project both are five months ahead of their schedule and will add the first electron from Thar to the national grid by January 2019.
He said the company successfully connected its power plant with the national grid to receive back-feed power supply for plant startup. The next part of this dream will be achieved by next month or January 2019, when the first electron from Thar Coal will be added to the national grid. Prime Minister Imran Khan is expected to inaugurate the project.
Mr Shaikh suggested that all coal projects in Pakistan, including Sahiwal and Port Qasim coal projects should use at least 20pc of Thar coal by blending it with imported coal to save foreign exchange and facilitate indigenous resource utilisation. He said the cost of per unit power production from Thar coal block-II would reduce significantly after phases II and III became operational.
He said the first project now in final stage was based on subcritical technology but the company had now asked the government to allow super-critical technology for all future projects in phases II and III to achieve 3pc greater efficiency than ­subcritical plants.
Published in Dawn, November 12th, 2018

‘Thar coal power plant to start producing 660MW by Dec’

February 04, 2018


MITHI: Seventy per cent work on both mining and power projects have been completed ahead of schedule and the first electron from Thar Coal Block-II will start generating power by the end of this year, according to Sindh Engro Coal Mining Company (SECMC) chief executive officer.
SECMC CEO Shamsuddin Shaikh informed a delegation of members of Sindh Assembly, civil society representatives, senior journalists and corporate executives who visited Thar Coal Block-II on Saturday that the power to be generated from Thar coal would be the cheapest in Pakistan.
Mr Shaikh said while briefing the delegation on the progress achieved so far in the mining and the power plant construction that they were just 20 meters away from the first steam coal to supply coal to 660MW mine-mouth power plant.
SECMC, a joint venture between Sindh government and Engro Powergen Ltd, was all set to start generating power to supply to the national grid from early next year, he said.

Interview with Shamsuddin Ahmed Shaikh, CEO, Sindh Engro Coal Mining Company.




AURORA: Could we start with a brief overview of SECMC’s mandate in Thar?
SHAMSUDDIN AHMED SHAIKH: SECMC has been involved in Thar for the last eight years. For background, coal was discovered in Thar in the 1990s. At that time, the exploitation of Thar coal came under the Federal Government. Two attempts were made to invest and mine in Thar, but due to various reasons they came to nothing. Then in 2008, the responsibility for Mines and Minerals was devolved to the Sindh Government, which took the wise decision that since they could not handle Thar coal on their own, private sector partners should be involved. As a result, an international competitive bid was held and in 2009 Engro became a part of the Sindh Government’s joint venture and this led to the formation of SECMC. Engro and the Sindh Government pooled resources together – on a 60% Engro and 40% Sindh Government ratio – to undertake the feasibility.
When this was completed in 2012, it was decided to set up a 1,200 megawatt project with 6.5 million tons per annum (MTPA) mining at a cost of three billion dollars. Then a number of factors intervened. Firstly, due to the economic situation, it was almost impossible to raise three billion dollars in Pakistan at that time. Secondly, the international commodity market went down the drain and with it the price of coal, and it was no longer economically viable to mine Pakistani coal. So the project went on the backburner. At that time Engro asked me to look at what could be done with the project. I had always been keen to work in Thar, not so much because of the coal, but because I come from Hyderabad and I wanted to do something there. After I looked at the project, we decided to redefine the project from a 1,200 megawatt (MW) one to a 660 MW one in order to make it financially feasible and to approach other companies to see whether they would partner with us in this venture. We managed to convince eight companies to join us; six were Pakistani and two were Chinese.
A: Which are those companies?
SAS: The Pakistani companies are the Government of Sindh, Liberty Power Company, Engro Corporation, Habib Bank Limited (HBL), House of Habib (Thal) and Hub Power Company. The two companies from China are China State Power and China Machinery Engineering Cooperation (CMEC). Another positive was that the Government of Pakistan gave us a sovereign guarantee on our loan, with the Sindh Government as the primary obligator. In fact, the Sindh Government has been the backbone of this project; they have done everything possible for this company. They invested $110 as equity and spent almost $700 million providing the infrastructure, while Engro brought in the best expertise to make the project happen. The Government of Sindh-Engro collaboration has been a dream team for the development of coal fields in Thar.
A: Is SECMC the lead partner in this venture?
SAS: We formed two companies; SECMC (the mining company) and Engro Powergen Thar Limited (the power company). SECMC has seven shareholders; the Sindh Government with a 51% stake, followed by Engro Powergen, the House of Habib, Hub Power Company, HBL, CMEC and State Power International Mendong (SPIM) and the China State Power. Engro Powergen has four stakeholders; Engro with a 51% stake followed by CMEC with 35%, HBL with 10% and Liberty Power with five percent. The mining project at $845 million is one of the biggest mining projects ever undertaken and the power project is worth $1.1 billion. Today Engro is managing both projects, and this shows the confidence exhibited by all the stakeholders in Engro’s abilities and depth. The present government made us part of the China Pakistan Economic Corridor (CPEC), which was a great help and made the financing possible.
A: Why was this of help?
SAS: We became a priority project under CPEC. Within the CPEC, there are a number of projects and ours is the third and fourth one. The first is the Port Qasim Power Plant, the second is the Sahiwal Power Plant, the third is our mining project, and the fourth is our power project. The Federal Government also put up a transmission line from Thar to Matiari. In Pakistan it is almost impossible to work on a power or a mining project unless both the Federal and the Provincial Governments are completely aligned. We achieved financial closure on April 4, 2016 and we are seven months into the project. Our COD (Commercial Operation Date) is set for June 3, 2019, which is when we have to start generating power.
A: What is the full capacity of Thar?
SAS: Thar has reserves worth 175 billion tons and is the seventh largest coal reserve in the world. The Government divided these 175 billion tons into 13 different investment blocks and SECMC was given Block 2, which has two billion tons of coal, of which we will be able to exploit 1.5 billion economically and produce 5,000 MW energy for 50 years. Block 2 represents only one percent of the coal in Thar.

“Of the 1,200 Tharis working for us, 300 are now working on skilled jobs and the plan is to keep training. We have also hired a few Thari engineers and technicians but their percentage is lower than what we desire. Companies such as AmanTech, Hunar Foundation and Descon are providing training on site and we plan to hire a lot more Thari engineers under our training programme."


A: How far have you progressed with the project?
SAS: The coal is located at a depth of 135 metres, so we first have to remove the overburden. We have reached 33 metres and will reach 135 metres in the fourth quarter of 2018, which is when we can start taking the coal out. The good thing about mining is that as you keep on expanding the mine, the cost goes down, which means that the price of coal and power also goes down. In a few years, when we reach 4,000 MW, power prices will be the lowest in terms of any other source of power produced in Pakistan.
A: Where does the expertise come from?
SAS: Thar coal is lignite in type. Apart from the UK, all the coal used in Europe is lignite. We went to Germany to find the best possible company in the business and Rhenish-Westphalian Power Plant (RWE) are our main consultants or owner engineers as they are called. We have asked GE to design our boilers as we want them to be environmentally friendly. In fact Alstom, which is a European company but owned by GE, are designing the boiler. The turbines and the equipment are coming from China and a lot of mining machinery from Japan.
A: Are people from these companies working on the site?
SAS: Approximately 2,300 people are working on the site. Of these, about 750 are Chinese, although there are people from Germany and Japan as well. In addition 1,200 Tharis work there. We decided that 50% of the people we hired would be from Thar; as of now, there are 300 Pakistanis other than 1,200 Tharis and 750 Chinese working there.
A: What jobs do the Tharis do?
SAS: Unfortunately education levels in Thar are very low; people are mostly unskilled (apart from driving and cooking) and until we came in there were no jobs. We are now training them. Two hundred and fifty men between the ages 18 to 23 have been trained by the NLC driving institute to drive heavy duty trucks. Others are being trained in masonry, plumbing, electricals and scaffolding. Of the 1,200 Tharis working for us, 300 are now working on skilled jobs and the plan is to keep training. We have also hired a few Thari engineers and technicians but their percentage is lower than what we desire. Companies such as AmanTech, Hunar Foundation and Descon are providing training on site and we plan to hire a lot more Thari engineers under our training programme. We will also be relocating two villages; Sehnri Das and Thariyo Halepoto.
A: Will there be more relocations as you expand?
SAS: Not for the next eight to 10 years. Sehnri Das, which consists of 171 houses, will be relocated before 2018. We selected the site and 98% of the people approved and signed off on the new location. After that we showed them the layout and they signed off on this as well. Then we showed them the plans for the houses and they signed off here as well. However, I then thought that as these people do not really understand an architectural plan on paper, it would be better to build a model house and show it to them.
A: What will the model houses look like?
SAS: The houses will be built on 1,000 square yards. We have commissioned Murli, one of the best known architects and town planners in Pakistan, to do this. He went and talked to the people; we hired Sindhi-speaking women to talk to the Thari women in order to understand their requirements. They told us they wanted their own space at the back of the house so that they could observe purdah more easily. They wanted back lanes so that they could go to their neighbours’ houses without having to walk on the main roads. Almost 50% of the population is made up of Hindus and although they live in the same village, the Hindus live in one part and the Muslims in another, with a main road in between. We decided to construct the village in the same way; we are not there to change their culture or tell them how to live. We will construct a mohalla for them; there will be a mosque and a mandir and a community market and a community centre. The villagers have approved the model and we will now start building. We approached the Indus Hospital to set up the Marvi Mother and Child Clinic. A qualified gynaecologist and a paediatrician are already in place and in three year’s time, we plan to develop it into a 70-bed hospital.
A: Who is managing the clinic?
SAS: The Indus Hospital.
A: Who is providing the funding?
SAS: It will come either from the project or we will raise the money. On the education front, we have approached The Citizen’s Foundation and we plan to open schools in all seven taluka (tehsil) headquarters. Initially, there will be three primary and two secondary schools, with a capacity to enrol 2,000 children per school; ultimately with seven schools, 14,000 children will be enrolled. We also plan to set up a training institute. Because of our project, a lot of other companies are moving in there. A Dubai-based company bought six or seven acres in Thar to set up a technical training school. They asked us to train the people there and eventually they would send them to Dubai – and this is what made us realise the importance of having a big training institute in Thar. A catering company also approached us to set up a catering school to train cooks, who could then find work abroad, as Tharis are known to be good cooks. A lot of other things are coming up on the periphery of our project and benefitting the people. The project will be a game changer for Pakistan; it will provide cheaper electricity, and because the coal is indigenous, Pakistan will no longer have to import fuel.
A: How do you manage water and electricity?
SAS: There are three aquifers in Thar; at 70, 100 metres and 130 metres. At 70 metres, the water is sweet and suitable for consumption. As far as water for the project is concerned, we have signed an agreement with the Sindh Government to take the water from the Left Bank Outfall Drain (LBOD) starting in Nawabshah (this is dead water as it is very saline in content) clean and then use it; in this way we will not affect the water available to the locals. We are using RO (reverse osmosis) to clean the water from the second and third aquifers and supplying it to the neighbouring villagers. The Sindh Government is putting in place several RO plants, so people are happy because they are now getting more water. As far as electricity is concerned, Thar is connected to the local grid, although there is eight to 10-hour load shedding a day, this is not unusual.

“Almost 50% of the population is made up of Hindus and although they live in the same village, the Hindus live in one part and the Muslims in another, with a main road in between. We decided to construct the village in the same way; we are not there to change their culture or tell them how to live. We will construct a mohalla for them; there will be a mosque and a mandir and a community market and a community centre."


A: Can the people there afford electricity?
SAS: Almost all the houses have electricity and the houses we will be constructing will all have electricity. Almost 99% of the people will be employed by us and will be able to afford electricity. Thar’s population is migratory. If there is rain, they stay put and engage in agriculture; if there is none, they move towards the Indus and return to the plains when the rains come. We are changing the culture. If they are employed by us, whether it rains or not, they will still receive their salary. Also, as we are supplying them with water, in case the rains fail, their animals will have water to drink; migratory patterns will change and we believe these changes are for the better. Roads have been constructed, water schemes are in place and hospitals are under construction; a lot of good work is happening. We have hired women to work for us; earlier, even the men could not find jobs, now women too are working.
A: In which areas are Thari women employed?
SAS: I am hoping that by the end of next year, eight to 10 women will be driving our trucks. The majority of women are willing to work. We have employed one of the women at the Marvi Mother and Child Clinic. We realised she was literate and we have employed her to write down the names of the women patients who go to the clinic. Once she joined, other women approached us and we have hired a few of them as midwives.
A: Looking to the future, is the plan to exploit all of Thar’s coal reserves? Furthermore, coal is not a particularly clean source of energy and at some point will the development of alternate clean energy sources become sufficient enough to preclude the use of coal?
SAS: Engro will only exploit Block 2. Coal mining is extremely expensive and other ventures and new technologies will have to come in to mine the rest. In terms of the environment, there are many mitigation technologies, such as sulphur dioxides and nitrate oxides, to minimise pollution. As for alternative sources of energy, we believe that fossil fuels have a life of another 40 to 60 years, until that time other technologies will evolve. So far, there is no technology in the world that has reached the level where fossil fuels have become unnecessary. Our project has been set up for 30 years; Pakistan is desperate for energy, the country is going downhill because we do not have sufficient power, and the power we do have is very expensive, so something has to be done.

Shamsuddin Ahmed Shaikh was in conversation with Mariam Ali Baig.

Courtesy Aurora 

سندھ اینگرو کول مائننگ کالکی الیکٹرک پاور کمپنی سکیساتھ کوئلے کی ترسیل کامعاہدہ

9 اپریل ، 2018

In Thar, who matters more? Coal compies or TharIn Thar, who matters more? Coal companie