Friday, December 4, 2015

احسن اقبال کی تحقیقی رپورٹ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
  
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہونے والی دہشتگردی ابھی بھی موجود ہیں۔ ٹریفک اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ا کے بعد رینجرز کے اہلکاروں پر حملہ کیا گیا۔ اب ملٹری پولیس کے دو اہلکاروں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتحال میں جب عوام کے محافظ ہی محفوظ نہیں یقیننا عوام خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ سندھ کے خبارات نے اس موضوع پر اداریے لکھے ہیں۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بروز جمع قومی اسمبلی میں ملک کے تمام اضلاع کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں تھرپارکر تعلیم، صحت، روزگار اور ترقی کی سہولیات سے خالی اضلاع میں سے سر فہرست ہے ۔ جہاں تعلیم کی شرح 47.31 اور صحت کی سہولیات کی شرگ 37.77 بتائی گئی ہے ۔ جبکہ زندگی کی تمام سہولیات سے محروم اضلع میں ٹھٹہ دوسرے نمبر پر ہے ۔ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد اور کراچی دو ایسے اضلاع ہیں جو سندھ کے باقی اضلاع سے زیادہ سہولیات رکھتے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سندھ حکومت کی سات سالہ کارکردگی کا عکس جھلکتا ہے ۔ 
ممکن ہے کہ حکومت ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس رپورٹ کے حقائق سے انکار کرے جس کی مثال غذائی قلت کے باعث تھر میں فوت ہونے والے سینکڑوں بچے ہیں ۔ تھر کے بارے میں حکومت کا موقف یہ تھا کہ ان بچوں کی اموات کی وجہ غیر تربیت دایوں کے ہاتھوں زچگی ہے۔ باقی تھر میں نہ قحط ہے اور نہ ہی غذائیت کی قلت۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اس رپورٹ کو بھی سندھ حکومت کے خلاف سازش قرار دے دیا جائے۔ لیکن حقائق کو طویل عرصے تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ پزاروں کی تعداد میں بند اسکول، صحت کی سہولیات کی کمی، بیروزگاری کی وجہ سے روز رپورٹ ہونے والے خود کشی کے واقعات سندھ میں ترقیکی قلعی کھول دیتے ہیں۔ 
سندھ کو سماجی اور معاشی حوالے سے جتنا نقصان موجودہ دور حکومت میں پہنچا ہے اتنا ضیا دور میں بھی نہیں پنچا ہوگا۔ بربادی کی جو بنیادیں ضیا دور میں ڈالی گئی۔ موجودہ دور میں وہ بڑھ کر اپنی انتہا کو ہنچ چکی ہیں۔ روت، کرپشن، اقربا پروری، میرٹ کو کچلنا جس حد تک موجودہ دور میں ہوئی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عزت اور اقدار کی رکھوالی رکنے والوں نے سماج کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ لوگ عصمتوں کی نیلامی پر مجبور ہیں۔ اپنی اوالد کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سربازار آوازیں لگا کر بیچنے پر مجبور ہیں۔ 

 جس زراعت پر سندھ کو ناز تھا اسی زراعت کو ہاتھوں سے تباہ کیا گیا ہے۔ گنے اور دھان کے کاشتکار سرپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ انہیں وقت پت نہ مطلوبہ پانی مہیا کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی فصلوں کی قیمت مقرر کر کے خریداری کی جاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے نہ صرف زراعت سے وابستہ لوگ بلکہ مجموعی طور پر سماج پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ 

بلاشبہ سندھ کے لوگوں کو پیپلزپارٹی سے گزشتہ 42 سال سے بے پناہ محبت رہی ہے۔ اور انہوں نے اس کا اظہار ہمیشہ ووٹ دے کر کیا ہے۔ لیکن اس کے بدلے سندھ کے لوگوں کو سوائے نراسئی کے کچھ بھی نہیں ملا ہے ۔اگر پیپلزپارٹی کے ذمہ داران کو سندھ کے لوگوں کے ساتھ ذرا بھی محبت ہوتی تو گزشتہ پانچ سال اور حالیہ ڈھائی سال کا عرصہ سندھ کی ترقی کے لئے کافی تھا۔ اگر بہت زیادہ نہیں ہوتا تو بھی مذکورہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی اور لگائے گئے الزامات سے بچا جاسکتا تھا۔ 
موجودہ حکمرانوں سے سندھ کے عوام نے کبھی بھی نہ دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کی امید رکھی ہے۔ اور نہ ہی بلٹ ٹرین اور فوکر چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے تو صرف صحت، تعلیم اور مناسب روزگار کی آس لگائی تھی۔ حادثات سے محفوظ سڑکیں، امن امان کی زندگی کی توقع رکھی تھی ۔

سندھ حکومت کو مذکورہ بالا رپورٹ کی روشنی میں سندھ کے لوگوں کی محبت کا حق ادا کرنا چاہئے۔ 

روزنامہ کاوش نے واپڈا کی بڑٰ مچھلیاں کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ مملکتی وزیر بجلی و پانی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ سکھر اور حیدرآباد میں رکوری زیرو ہے ۔ سیپکو اور حیسکو میں رینجرز کی مدد سے 80 کروڑ روپے کی بجی کی چوری روک دی گئی ہے۔ وفقی وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ واپڈا کی چار ارب روپے کی ڈفالٹر ہے۔
سندھ میں سب سے زیادہ چوری ہوتی ہے اور بڑی مچھلیوں میں ہاتھ ڈالنے کے لئے انہوں نے وزیراعظم سے بات کر لی ہے ۔ ملک توانائی کے بحران کا مقابل کر رہا ہے وہاں اور بھی کئی بحران ہیں۔ یہ ملک لوڈ شیڈنگ کا لوڈ بھی برداشت کرتا ہے ۔ماضی قریب میں بجلی کی قلت دور کرنے کے بہت ڈھول بجائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بحران ڈھول بجانے سے دور ہونے والا نہیں۔ مطلب یہ کہ بجلی پر بھی سیاست ہوتی رہی ہے ۔ 
اگرچہ ملک میں بجلی کے بحران کا مستقل حل تھر کا کوئلہ موجودہے۔ دیگر بھی کئی وسائل اور حل موجود ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ ان وسائل اور ذرائع کی طرف نہیں جاتی۔ تمام زور تیل سے بجلی پیدا کرنے پر دیا جاتا ہے۔ مطلب وسائل ہوتے ہوئے بھی ان وسائل اور ان کے استعمال پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجے میں لوڈ شیڈنگ ہے جس نے صنعتوں کی تباہی سمیت کئی مسائل کو جنم دیا ہے ۔ وفاقی وزیر کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بجلی کی چوری ہوتی ہے۔ لیکن وزیر موصوف یہ بھی تو پتہ لگائیں کہ یہ چوری کس طرح سے ممکن بنادی جاتی ہے؟ کہیں کنڈے لگتے ہیں، کہیں میٹر کی رفتار سست کر دی جاتی ہے۔ اگر وزیر موصوف ان چیزوں پر توجہ دیں تو اس کے بھی بہت مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ غریب عوام صرف لوڈ شیڈنگ ہی برداشت نہیں کرتا وہ غلط اور اضافی بلوں کا لوڈ بھی برداشت کرتا ہے۔ 
وفاقی وزیر کو ان کالی بھیڑوں کا بھی کچھ کرنا چاہئے، جس کے نیتجے میں صارفین اضافی لوڈ برداشت کرتے ہیں۔

 روزنامہ سندھ ایکسپریس نے گنے اور دھان کی قیمتوں اور کاشتکار کی حالت پر اداریہ لکھا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ صوبے میں 38 شگر ملوں میں سے صرف 29 ملیں چل رہی ہیں اور کاشتکاروں کو وہی پرانا ریٹ مل رہا ہے ۔ اس قیمت سے کاشتکاروں اور کسانوں کو ٹکہ بھی نہیں بچتا کیونکہ یہ تمام رقم فصل کی لاگت میں چلی جاتی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تمام معاملے میں صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی
 ہوئی ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ کوئی امید نظر نہیں آتی کہ سندھ کے کاشتکاروں کے ساتھ انصاف ہو سکے گا۔ 
 نئی بات کی پانچ دسمبر ۵۱۰۲ کی اشاعت کے لئے

Friday, November 27, 2015

خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

گنے کے بعد دھان کی قیمتوں کا تنازع، 
خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس، 
احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھی چارج 
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
 سندھ میں ابھی گنے کی قیمت کا بحران خت پر مال مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان تنازع ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ دھان کی قیمتوں کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ چاول پیدا کرنے والے علاقے لاڑکانہ ڈویزن میں ایک ہزار سے زائد رائیس ملیں اور منڈیاں بند ہوگئی ہیں اور تاجروں نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ گنے کے بحران سے سندھ کے زیریں علاقہ کی زرعی معیشت متاثر ہوئی تھی جبکہ دھان کے بحران سے صوبے کے بالائی علاقے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ 
دلچسپ امر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے دھان کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ڈپٹی کمشنر کو دے دیا ہے۔ محکمہ خواراک اور دگر اداروں کو ایک طرف رکھ کر ملکی برآمدات کے اس جنس کو ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر نے دھان کی فی من قیمت 900 روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہائبرڈ اور نمی والے دھان پر دو سے تین کلو کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ 

 روزنامہ کاوش ”خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس پر توجہ دیں“ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ خراب حکمرانی کو نظر انداز کر کے عوام کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربارہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کی جس میں چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبے کے بارے میں رپورٹیں پیش کیں۔ 
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے حکومت سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کرت ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ نے کراچی کی صنعتوں کو نوٹس جاری کئے ہیں۔ اور تمام ٹریٹمنٹ پلانٹون کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس 2003 کا ہے اور بارہ سال میں حکومت نے صرف نوٹس جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ باقی سب کام چھوڑ کر خراب حکمرانی کے معاملات کو دیکھے؟ 

 یہ بات ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے کئی علاقے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بلدیات میں گھوسٹ ملازمین کی بھر مار ہے۔ کیا صفائی کے کام کی نگرانی بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کریں؟ ملکی اعلیٰ ترین عدالت کی صوبائی حکومتوں پر برہمی درست ہے۔ صرف سندھ کی حالت کو دیکھا جائے، کئی صنعتی ادارے ماحولیات کو آلودہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ 
کئی شگر ملوں کا آلودہ پانی انسانی بستیوں کے قریب سے گزرتا ہے۔ جس کی وجہ سے سانس اور چمڑی کی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس زہریلے اور آلودہ پانی کی بدبو نے رہائشیوں کا جینا محال کر دیا ہے۔
 شہروں کی حالت یہ ہے کہ ہر طرف گندگی کے ڈھیر زنظر آتے ہیں۔ 
سندھ کے شہر اجڑ چکے ہیں اور کھنڈرات کا سماں پیش کر رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف امراض شہریوں کی زندگی کا جز لازم بن چکے ہیں۔ اور ہسپتالوں میں مریضوں کی رش ہے کہ ایمرجنسی میں بھی کوئی بسترہ خالی نہیں ملتا۔
 معاملہ صرف ماحولیاتی آلودگی یا کسی ایک محکمے کی خراب کارکردگی کا نہیں۔ اصل قصہ حکمرانی کے انداز کا ہے۔ ادارہ جس طرح کی کارکردگی دکھائیں گے حکمرانی کا عکس اسی سے ظاہر ہوگا۔ سندھ کو ایک طویل عرصے سے اچھے حکمرانی کا ثمر نہیں ملا ہے۔بدتر حکمرانی کا ایسا دور آیا کہ ہر معاملے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو مداخلت رکنی پڑ رہی ہے۔
اگر حکومت سندھ کی کارکردگی اور انداز حکمرانی کو دیکھا جائے تو سفید سیاسہ سب عاں ہو جائیں گے۔ تعلیم ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن یہ اہم شعبہ بھی آکسیجن پر چل رہا ہے۔ کئی اسکول گودام، مویشیوں کے باڑے یا اوطاقیں بنے ہوئے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا غیر معیاری ہو گیا ہے کہ والدین غیر سرکاری اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ محکمہ صحت کو خود بیمار ہے اور علاج کا متقاضی ہے ۔ 
پولیس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے اہلکار بھوتاروں کے کہنے پر چلتے ہیں۔ بہتر حکمرانی ایک خواب سا لگتا ہے۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی عوام کے مسائل سے لاتعلقی ہے۔ اداروں کی باگ دوڑ صحیح ہاتھوں میں نہیں۔ عوام کے دکھ درد اور مسائل بہتر حکمرانی کے ذریعے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ اور بہتر حکمرانی کے لئے حکمرانی کا انداز تبدیل کرنا پڑے گا۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ تیسرے مرحلے کے انتخابات ایک ہفتے بعد ہونگے۔ جب کہ آدھا مرحلہ اور بھی باقی ہے۔ وہ ہے صوبے کے 14 اضلاع میں 80 سے زائد اداروں میں اور ایک مکمل ضلع میں ملتوی شدہ انتخابات منعقد کرانا باقی ہیں۔ بھوتار ابھی سے ” ظل سبحانی بننے کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سیاسی تاجر بھی میدان میں آگئے ہیں۔ ۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں یہ عمل جاری ہے۔ اس معاملے میں سیاسی اخلاقیات کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل عوام کے ووٹ سے دھاندلی ہے۔ 

 روز نامہ عبرت نے اساتذہ پر کراچی میں لاٹھی چارج کے خلاف اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ روز حکومت نے اس وقت تمام حدود پار کر لی جب کراچی میں اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا گیا۔اس طرح لاٹھیاں شاید مجرموں پر بھی نہیں برسائی گئی ہونگی۔ 
سندھ بھر سے پرائمری استاد اور ایجوکیشن کے ملازمین مطالبات منوانے کے لئے کراچی پہنچے تھے۔ انہوں نے آتھ گھنٹے تک دھرنا دیا۔ لیکن حکومت کا کوئی بھی ذمہ دار عہدیدار ان سے ملنے، بات چیت کرنے یا یہ پوچھنے تک نہیں آیا کہ آخر آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟ بحالت مجبوری اساتذہ نے چیف منسٹر ہاﺅس کی طرف مارچ کیا۔ راستے میں اساتذہ کو روک کر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔

 سندھ کی تعلیم کو ایک نئے ویزن کی ضرورت ہے۔ اس کے بگاڑ میں سرکاری افسران، سیاستدانوں سے لے کر اساتذہ تک سب شامل ہیں۔ لیکن احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھیاں برسانا کسی طور پر بھی جمہوری ای انسانی قدم نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اساتذہ اور محکمہ کے احتجاج کرنے والے ملازمین سے بات چیت کرے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ محکمہ کو کوئی نیا ویزن دے۔ 

 Nai baat Nov 27, 2015

Thursday, November 19, 2015

کئی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نچلی سطح تک موجود ہی نہیں



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 
۰۲۔ نومبر ۵۱۰۲ع

سندھ میں گزشتہ ایک ہفتے تک بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی گہماگہمی رہی۔ اخبارات نے بھی اداریے، کالم اور
 مضامین اسی موضوع پر شایع ہوتے رہے۔ اخبارات کی زیادہ تر توجہ اس معاملے پر تھی کہ پہلے مرحلے میں خیرپور ضلع میں جو بارہ افراد کا قتل ہوا تھا اس واقعہ کو کسی طرح سے نہ دہرایا جائے۔ اخبارات مختلف حوالوں سے انتظامیہ کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے رہے تاکہ انتخابات صاف شفاف اور پع امن ہو سکیں۔ میڈیا کا رول اس وجہ سے بھی سامنے آیا کہ روزنامک کاوش اور دیگر بعض اخبارات نے صرف انتخابی سرگرمیوں اور انتظامیہ کو مشورہ دینے تک میڈٰا کو محدود نہیں رکھا، بلکہ ہر ضلع کا پروفائل بھی دیا کہ وہاں پر شہری اور بنیادی سہولیات کی کیا صورتحال ہے؟ کون کون سے منصوبے ادھورے پڑے ہوئے ہیں میڈیا کا یہ ایک روشن پہلو تھا جس کے ذریعے ووٹروں، امیدواروں اور سیاسی جماعتوں وک یاد دلایا جاتا رہا کہ وہ شہری سہولیات کی عدم موجودگی پر بات کریں اور عوام سے وعدے کریں۔ 
 دوسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کی صورتحال پر اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ یہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے یہ پہلے بلدیاتی انتخابات تھے ۔ ورنہ اس سے پہلے یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے ہیں ۔ان انتخابات میں یہ بات عیان ہوگئی کہ کئی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نچلی سطح تک موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئے صرف حکمران جماعتیں ہی فائدے میں رہیں۔ خواہ سندھ میں پیپلزپارٹی ہو یا پنجاب میں نواز لیگ یا پھر کے پی میں تحریک انصاف۔ 

 آتھ سال قبل جمہوریت کا سلسلہ دوبارہ جڑا ہے تب سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کم اور اپنی کرسی بچانے پر زور زیادہ دیتی رہی ہیں۔ شاید یہی سلسلہ آگے بھی جاری رہے۔ اس کی بناید وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعتوں نے تعلیم ، روزگار، صحت، مواصالات اور دیگر اہم امور کی طرف توجہ نہیں دی ۔ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہارنے والی جماعت ہمہشہ جیتنے والوں پر دھاندلی کے الزامات خواہ ان میں کوئی وزن یا سچائی نہ بھی ہو، عائد کرتی ہے ۔ نتیجے میں مقامی، صوبائی اور ملکی سطح پر انتشار پھیلتا ہے۔ اور یہ صورتحال ام ومان خراب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ 
 دوسرے مرحلے کے انتخابات کے دوران بعض الیکشن عملے کی کوتاہیاں بھی نظر آئیں۔ حیدرآبا کی دو یو سیز میں انتخابی نشان غلط چھپے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے یہاں پولنگ ملتوی کرنی پڑی۔ ہارنے والوں کو اپنی شکست قبول کرنی چاہئے اور جیتنے والوں کو کھلے دل کے ساتھ ہارنے ولاوں سے ہاتھ ملا کر ساتھ مل کر چلنا چاہئے تاکہ عام لوگوں کو شہری سہولیات میسر ہو سکیں۔ 

 روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے روڈ پروٹیکشن ایجنسی کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا ہے تاکہ روڈوں پر ہونے والی بڑی سرمایہ کاری کا تحفظ کیا جاسکے۔ صوبائی حکوم نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے غیر ملکی فنڈنگ پر مشتمل منصوبوں کی نگرانی کرنے اور ملکی خواہ غیر ملکی اداروں سے کلئرنس ھاصل کرنے کے لئے ایک فوکل پرسن کے تقرر کی بھی منظوری دی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ صوبے میں 560 کلو میٹر کے 181 منصوبے معایری کام کے ساتھ مقررہ مدت میں مکمل کئے جائیں ۔ 
ان منصوبوں کے لئے تین ارب روپے پہلے ہی جاری کئے جا چکے ہیں ۔ ان سڑکوں میں سے 50 کلو میٹر ٹھٹہ کراچی رود کو ڈبل کرنا، سانگھڑ نواب شاہ 60 کلو میٹر روڈ کو مکمل کرنا شامل ہے ۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ صوبے میں سڑکوں کا جال بچھانے کے لئے ایک جامع فارمولا بنائے۔ ان سڑکوں کی تعمیر اولیت کی بناید پر کی جائے جن کا تعلق براہ راست صوبے کی معیشت سے ہے۔ یہ سڑکیں کچھ اس طرح کی بنائی جائیں کی آئندہ تیس سال تک ان کی مرمت یا دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ سڑکوں کا معیار، ان کی ضرورت کی بنیاد پر تعمیر اور وقت پر کام مکمل ہونا یہ تینوں شرائط بہت اہم ہیں۔ جن کا تعمیراتی کام کے دوران خیال رکھا جانا چاہئے ۔

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ اگرچہ ہمارا ملک زرعی ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ جیسے ہی فصل تیار ہوتی ہے اس کی قیمتوں کا تنازع اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اب سندھ میں گنے کی فصل تیار ہو چکی ہے لیکن اس کی قیمت طے نہیں ہوسکی ہے۔ کاشتکاروں کا مطالبہ ہے 230 روپے فی من گنے کی قیمت مقرر کی جائے۔ پاکستان شگر ملز ایسو سی ایشن 160 روپے فی من پر ہی بضد ہے ۔ گنے کی پسائی اکتوبر میں شروع ہونی تھی۔ لیک نومبر کا ا نصف ماہ گزر چکا ہے، اور فسل سوکھ رہی ہے۔ ن تاحال اس کی قیمت مقرر نہیں کی جاسکی ہے ۔ گزشتہ بر بھی جب گنے کی فصل اتری تھی تو قیمت کا معاملہ کھڑا ہو گیا تھا۔ حکومت اور محکمہ زراعت اس معاملے میں سنججیدہ نظر نہین آرہے ہیں۔ لہٰذا گنے کی قیمت کے جھگڑے کو طول دیا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد سے جلد گنے کی قیمت کا تعین کر کے صوبے کی زرعی معیشت کو بحران سے بچایا جائے۔

 روزنامہ نئی بات کے لئے 

Tuesday, November 17, 2015

آپریشن کے اخراجات

سندھ نامہ سہیل سانگی 
 کراچی میں جاری دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے اخراجات کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہی ہے۔ اخبارات نے سندھ حکومت کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے بارہ ارب روپے مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وفاقی حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی۔ روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ آپریشن کا تمام کریڈٹ کی دعوا کرنے والی وفاقی حکومت کو اس کے اخراجات بھی اٹھانے چاہئے۔ آپریشن میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کے ازالے کے لئے مطلوبہ وسائل کا بھی بندوبست کرنا چاہئے ۔ اخبار نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سندھ کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کرے۔ 

 روزنامہ عوامی آواز نے اپنے ایک اور اداریے میں وزیراعظم کی کراچی میں منعقدہ دیوالی کے تہوار میں شرکت کو سراہا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں بھگت کنور میڈیکل کامپلیکس تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیر اعظم کی ہندوﺅں کے تہوار میں شرکت پڑوسی ملک میں انتہا پسندی کی تازہ سیریل پر وار ہے ۔ اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کے رویوں کے بارے میں صاف آئینہ مل گیا ہے ۔

 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت بعض بلدیاتی اداروں میں تین سو گھوسٹ ملازمین کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ شعبہ انسداد دہشتگردی کے ایس ایس پی نوید خواجہ نے ایک انٹریو میں بتایا کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے دہشتگردوں نے دوران تفتیش ا عتراف کیا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں تین سو سے زائد گھوسٹ ملازمین کا تعلق بھارتی ایجنسی ”را“ سے ہے۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان نے اپنا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی ظاہر کیا ہے۔ ان افراد نے محمد انور اور محمود صدیقی کے نام بطور سہولت کار بتائے ہیں ۔

دنیا کے پرامن اور ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکی افراد کا غیر قانونی طور پرقیام اتنا آسان نہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں افغان پناہ گزین ہوں یا دیگر پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن، وہ لاکھوں کی تعدا میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ کئی سال سے پاکستان ان کا بوجہ اٹھاتا رہا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ اور قانونی طور رہنے کے دستاویزات کی مناسب جاچ پڑتال نہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان غیر قانونی تارکین وطن کے پہنچنے کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں۔ نتیجے میں غیر قانونی تارکین وطن دعض اداروں اور افراد کی مدد سے خود کو سرکاری ملازمتوں بھی بھرتی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی اداروں میں بھی اس طرح کا آپریشن کیا جائے جس سے ان عناصر کا خاتمہ ہو سکے جو تخریبکاروں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اور یہی لوگ ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ آج کل ملک میں حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کے تعین ، پارلیمان کی اہمیت اور آئین کی حکمرانی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے ۔ بحث کا مرکزی نقطہ نیشنل ایکشن پلان ہے جس کے تحت خیال ہے کہ ملک کی تعمیر نو کی جارہی ہے ۔ آج اس پلان کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس پلان پر کس حد تک عمل ہوا؟ اور ابھی کتنا باقی ہے؟ اس پلان پر حکومت کتنی سنجیدگی کے ساتھعمل کر رہی ہے؟ اداروں کا ایک دوسرے سے کس حد تک تعاون ہے؟ اس میں کونسے اداروں کا کیا اختیار ہے؟ کس ادارے کی حدود اختیارات کہاں شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں؟ اس طرح کے سوالات جب عام ہونے لگے تو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی کہ آخر کیا اسباب ہیں کہ انتے برس گزر جانے کے بعد بھی ملک میں نہ خوشحالی آسکی نہ لوگوں کو حقوق مل سکے اور نہ امن بحال ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ تاحال ادھورے ہی رہے ہیں ۔

 یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی نام سے کوئی بھی منصوبہ ہو، اس کا مقصد بہرحال عوام کی ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے۔ اگر یہ مقصد سامنے رکھا جائے تو پھر الجھاوہ یوں ہے؟ ہمارے پاس ایک جمہوری آئین موجود ہے۔ پھر جہاں بھی اداروں کی حود کے تعین کا سوال اٹھتا ہے، ہماری قیادت مایوسانہ انداز میں ایک دوسرے کا منہ تکنے کے بجائے اس سے رہنمائی کیوں نہیں حاصل کرتی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی ہم تمام مسائل اور مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں ۔ آئین میں ہر ادارے کے حدود اور کردار کا تعین کیا گیا ہے ۔اب سوال صرف کارکردگی کا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی کاکردگی بہتر بناتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرحلہ وار ہم وہ نتائج یقیننا حاصل کر لیں گے جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کے باعث بنیں گے۔ 

 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ملک کی جبلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خسارے کی حد 13.9 سے بڑھاکر15.27 مقرر کرید گئی ہے۔ جس کے بعد بجلی پیدا کرنے والی اور سپلائی کرنے والی کمپنیاں اپنے خسارے کی مد میں 2.27 فیصد رقم بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کر رہی ہیں۔ سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی ملک بھر میں خسارے کے حوالے سے پہلے نمبر پر اور حیسکو دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی جانے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بجلی کا بحران برسہا برس سے جاری ہے اور نہ حل ہونے کی کوئی تدبیر ہے اور نہ ختم ہونے کا کوئی امکان۔ قصہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی کے ذریعے روشنی فراہم کرنے والا ادارہ خود اندھیروں کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کی چوری، لائین لاس، یا پھر صارفین سے اضافی بلوں کی وصولی کی شکایات اس ادارے کی ساکھ کو پرکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ بجلی کے میٹر جو صارفین کو دیئے گئے ہیں وہ وہ پہلے ہی تیز رفتار ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کی دس بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو 2.27 فیصد اضافی رقم وصول کرنے کی اجازت دینا کسی بھی طور رپر دانشمندانہ قدم نہیں۔ 

For Nai Baat 
 Nov 13, 2015

Friday, November 13, 2015

حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کا تعین


حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کا تعین
Nov 13, 2015 for Nai Baat
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 کراچی میں جاری دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے اخراجات کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہی ہے۔ اخبارات نے سندھ حکومت کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے بارہ ارب روپے مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وفاقی حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی۔ روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ آپریشن کا تمام کریڈٹ کی دعوا کرنے والی وفاقی حکومت کو اس کے اخراجات بھی اٹھانے چاہئے۔ آپریشن میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کے ازالے کے لئے مطلوبہ وسائل کا بھی بندوبست کرنا چاہئے ۔ اخبار نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سندھ کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کرے۔ روزنامہ عوامی آواز نے اپنے ایک اور اداریے میں وزیراعظم کی کراچی میں منعقدہ دیوالی کے تہوار میں شرکت کو سراہا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں بھگت کنور میڈیکل کامپلیکس تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیر اعظم کی ہندوﺅں کے تہوار میں شرکت پڑوسی ملک میں انتہا پسندی کی تازہ سیریل پر وار ہے ۔ اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کے رویوں کے بارے میں صاف آئینہ مل گیا ہے ۔
 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت بعض بلدیاتی اداروں میں تین سو گھوسٹ ملازمین کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ شعبہ انسداد دہشتگردی کے ایس ایس پی نوید خواجہ نے ایک انٹریو میں بتایا کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے دہشتگردوں نے دوران تفتیش ا عتراف کیا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں تین سو سے زائد گھوسٹ ملازمین کا تعلق بھارتی ایجنسی ”را“ سے ہے۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان نے اپنا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی ظاہر کیا ہے۔ ان افراد نے محمد انور اور محمود صدیقی کے نام بطور سہولت کار بتائے ہیں ۔
دنیا کے پرامن اور ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکی افراد کا غیر قانونی طور پرقیام اتنا آسان نہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں افغان پناہ گزین ہوں یا دیگر پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن، وہ لاکھوں کی تعدا میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ کئی سال سے پاکستان ان کا بوجہ اٹھاتا رہا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ اور قانونی طور رہنے کے دستاویزات کی مناسب جاچ پڑتال نہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان غیر قانونی تارکین وطن کے پہنچنے کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں۔ نتیجے میں غیر قانونی تارکین وطن دعض اداروں اور افراد کی مدد سے خود کو سرکاری ملازمتوں بھی بھرتی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی اداروں میں بھی اس طرح کا آپریشن کیا جائے جس سے ان عناصر کا خاتمہ ہو سکے جو تخریبکاروں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اور یہی لوگ ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ 
 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ آج کل ملک میں حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کے تعین ، پارلیمان کی اہمیت اور آئین کی حکمرانی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے ۔ بحث کا مرکزی نقطہ نیشنل ایکشن پلان ہے جس کے تحت خیال ہے کہ ملک کی تعمیر نو کی جارہی ہے ۔ آج اس پلان کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس پلان پر کس حد تک عمل ہوا؟ اور ابھی کتنا باقی ہے؟ اس پلان پر حکومت کتنی سنجیدگی کے ساتھعمل کر رہی ہے؟ اداروں کا ایک دوسرے سے کس حد تک تعاون ہے؟ اس میں کونسے اداروں کا کیا اختیار ہے؟ کس ادارے کی حدود اختیارات کہاں شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں؟ اس طرح کے سوالات جب عام ہونے لگے تو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی کہ آخر کیا اسباب ہیں کہ انتے برس گزر جانے کے بعد بھی ملک میں نہ خوشحالی آسکی نہ لوگوں کو حقوق مل سکے اور نہ امن بحال ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ تاحال ادھورے ہی رہے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی نام سے کوئی بھی منصوبہ ہو، اس کا مقصد بہرحال عوام کی ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے۔ اگر یہ مقصد سامنے رکھا جائے تو پھر الجھاوہ یوں ہے؟ ہمارے پاس ایک جمہوری آئین موجود ہے۔ پھر جہاں بھی اداروں کی حود کے تعین کا سوال اٹھتا ہے، ہماری قیادت مایوسانہ انداز میں ایک دوسرے کا منہ تکنے کے بجائے اس سے رہنمائی کیوں نہیں حاصل کرتی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی ہم تمام مسائل اور مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں ۔ آئین میں ہر ادارے کے حدود اور کردار کا تعین کیا گیا ہے ۔اب سوال صرف کارکردگی کا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی کاکردگی بہتر بناتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرحلہ وار ہم وہ نتائج یقیننا حاصل کر لیں گے جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کے باعث بنیں گے۔ 
 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ملک کی جبلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خسارے کی حد 13.9 سے بڑھاکر15.27 مقرر کرید گئی ہے۔ جس کے بعد بجلی پیدا کرنے والی اور سپلائی کرنے والی کمپنیاں اپنے خسارے کی مد میں 2.27 فیصد رقم بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کر رہی ہیں۔ سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی ملک بھر میں خسارے کے حوالے سے پہلے نمبر پر اور حیسکو دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی جانے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بجلی کا بحران برسہا برس سے جاری ہے اور نہ حل ہونے کی کوئی تدبیر ہے اور نہ ختم ہونے کا کوئی امکان۔ قصہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی کے ذریعے روشنی فراہم کرنے والا ادارہ خود اندھیروں کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کی چوری، لائین لاس، یا پھر صارفین سے اضافی بلوں کی وصولی کی شکایات اس ادارے کی ساکھ کو پرکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ بجلی کے میٹر جو صارفین کو دیئے گئے ہیں وہ وہ پہلے ہی تیز رفتار ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کی دس بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو 2.27 فیصد اضافی رقم وصول کرنے کی اجازت دینا کسی بھی طور رپر دانشمندانہ قدم نہیں۔

for Nai Baat 

Friday, November 6, 2015

د سندھ اب دوسرے مرحلے کی طرف

سندھ نامہ سہیل سانگی 
 بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد سندھ اب دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔پہلے مرحلے کے انتخابات میں گیارہ افراد مارے گئے۔ سندھ کے اخبارات نے ان انتخابات کو ہی اپنا موضوع بنایا ہے۔ اداریوں، کالموں اور تجزیوں میں انتخابات کے انتظامات، نتائج کے اثرات، اور نئے رجحانات پر لکھاہے۔ اخبارات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خیرپور جیسا واقعہ کسی اور ضلع میں نہ دہرایا جائے۔
 انتخابات کے نتائج پر رائے زنی کرتے ہوئے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سندھ چند بااثر خاندانوں کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے۔ جو اختیار اور اقتدار کی چابی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ خاندان اپنے گھر کے ہر فرد کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ اکثریت حاصل کرنے والی ان سیاسی جماعتوں کے پاس ان اضلاع میں کوئی اور آپشن نہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اسٹیٹسکو برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔ پہلے مرحلے بعد دوسرے مرحلے میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم زمین کے قطع کی طرح ہونے جارہی ہے۔ سندھ ایک بار پھر بھوتاروں کی جیب میں جا رہی ہے۔ جہاں بلدیاتی ادارے پہلے سے اے ٹی ایم بنے ہوئے ہیں۔ جب چاہیں جتنا چاہیں پیسے نکال سکتے ہیں۔ پہلے ٹی ایم اوز تھے اگرچہ وہ بھی ان بھوتاروں کے غلاموں کی طرح ہی تھے اور ہر حکم بجا لاتے تھے۔ لیکن اب تو وہ خود براہ راست ان اختیارات کے مالک ہوگئے ہیں ۔ان کا احتساب کون کرے؟ عوام تو نہیں کر پا رہا ہے۔ اب نیب نے چند مقامات پر احتساب کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صوبائی معاملات میں نیب کی مداخلت کو جائز سمجھتے ہیں۔ ہم اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتین اور صوبائی حکومت اپنا خود احتسابی نظام قائم کرے تاکہ باہر سے کسی کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران نیب کی پکڑ دھکڑ کے بعد سندھ کے بلدیاتی اداروں کے اکوﺅنٹس میں کروڑہا روپے بچ گئے ہیں۔ جبکہ مختلف شہروں میں صفائی، نکاسی آب اور گلیوں اور سڑکوں کی حالت زار ہے۔ سندھ کے عوام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سہولیات سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات بھی ان کو شہری سہولیات نہیں دے سکے گا۔ 
 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ملک میں جب انتخابات کی موسم آتی ہے تو ہر شخص یہی ورد کرتا ہے کہ انتخابات خیر سے ہو جائیں۔ کہیں کوئی تصادم اور تضاد نہ ہو۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بارہ قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں۔ اب وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں فیصؒہ کیا گیا ہے کہ صوبے کے پندرہ اضلاع میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراچی کی طرز پر ٹارگیٹیڈ آپریشن کیا جائے گا۔ جبکہ حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں پر فوج اور رینجرز تعینات کرنے ، پیٹرولنگ کے لئے ریپڈ رسپانس فور س کو ذمہ داری دینے اور ایک ہفتے کے لئے اسلح کے لائسنس معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر پیشگی حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں تو درازا خیرپور کی طرز کے سانحے سے بچا جاسکتا ہے۔ بات صرف فیصلہ کرنے کی نہیں بلکہ ان فیصلوں پر پورے جذبے کے ساتھ عمل کرنے کی ہے ۔ 
روزنامہ عوامی آواز بھی اسی موضوع پر اداریے میں لکھتا ہے کہ الیکشن کو پرامن اور شفاف رکھنے کے لئے بھی اس طرح کے فیصلے ضروری
 ہیں۔

Friday, October 30, 2015

بلدیاتی انتخابات: عوام کو کیا ملے گا؟

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi
http://naibaat.com.pk/ePaper/karachi/31-10-2015/details.aspx?id=p13_05.jpg
Add caption

Friday, October 23, 2015

خاموش بلدیاتی اانتخابات اور جعلی بھرتیاں

روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

سندھ میں خاموش بلدیاتی اانتخابات ہونے جارہرے ہیں ان انتخابات کی پولنگ میں باقی ایک ہفتہ ہے، لیکن تاحال انتخابی مہم شروع ہی نہیں ہوئی۔ نہ روایتی گہماگہمی ہے، نہ بینر نہ پوسٹر، نہ کارنر میٹینگیں۔امیدواروں عوام سے رجوع نہیں کر پائے ہیں۔ لہٰذا پروگرام یا وعدے وعید بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ امیدوار اور سیاسی جماعتیں صرف چند بااثر افراد کی حمایت کرنے کی سعی میں ہیں۔ یہ بھی شکایات ہیں کہ وقت پر امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری نہیں کی گئی۔ یہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں نہیں بلکہ انتظامیہ کی نگرانی میں ہو رہے ہیں۔ جہاں پر رٹرننگ افسران روینیو، اور دیگر صوبائی محکموں سے لئے گئے ہیں۔ ان انتخابات کی حلقہ بندیوں اور رٹرننگ افسران کے تقرر پر آخر وقت تک اعتراضات جاری رہے۔ ان تمام شکایات میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہی۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ مخالفین کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لئے ان کو ہرااں کرنے اور دباؤ ڈالنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ شہدادکوٹ میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے امیدوار سردار جروار کے گھر پر ڈی ایس پی کی سرکردگی میں ’’ چھاپہ‘‘ مارا اور ان کے چار مالزمین کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں مذاکرات کے بہانے سردار جروار کو بھی بلا کر انہیں گرفتار کر لای گیا۔ نوابشاہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار گل بہار خاصکیلی کو دستبردار ہونے کے لئے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انہوں نے تنگ آکر خود کشی کرنے کی کوشش کی ۔ مختلف اضلاع میں آر اوز پر جانبداری اور حکومتی فریق ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں احتجاج بھی ہوتے رہے لیکن الیکشن کمیشن نے ان شکایات اور احتجاجوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی وڈیروں کی انا کی بلی تھیلی سے باہر آگئی۔ مست فیل کی طرح اس انا کو نہ انتظامیہ اور نہ کوئی قانون روک سکا ہے ۔ خود کو جدی پشتی ھاکم سمجھنے والے ان سے ہم صری یا برابری کا حق کسی اور کو دینے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا میں بھلے ایسے منصبوں کو عوامی خدمت کا منصب سمجھا جاتا ہو، اور وہاں پر عوامی نمائندگی کو ضروری سمجھا جاتا ہو، لیکن ہمارے ہاں یہ وڈیرا شاہی کسی طور پر بھی مسند چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ انتظامیہ کی طاقت بھی ’’ حاکم کھڑی ہاں میں تیرے بنگلے دے نال‘‘ کے مثل ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ الیکشن کمیشن اور حکومت سندھ کو ان شکایات کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے اور ان کا ازالہ کرنا چاہئے، تاکہ انتخابات شفاف اور غیر متنازع بن سکیں۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت سندھ کی خصوصی انکوائری کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں محکمہ بلدیات میں 13 ہزار غیر قانونی ملازمین بھرتی ہوئے ہیں۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ان بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف منسٹر انپیکشن ٹیم نے سال 2012 کے دوران کی گئی غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری کو بھیج دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تحقیقت کے دوران تقرر نامے اور ان کی تصدیق کے احکامات جعلی ثابت ہوئے ہیں۔ اکثر ملازمین کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبادلہ کر کے جعلی بھرتیاں کی گئی ہیں۔
میرٹ کو کچلنے کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ معاملہ پیسوں کے عوض ہو یا کسی کی چٹھی یا سفارش پر بھرتی کا ہو، ملازمتیں نیلام ہوتی رہی ہیں۔ اہل اور باصالاحیت نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی رہی ہے۔ ایک ہی محکمہ میں 13 ہزار بھرتیاں کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اہلیت اور میرٹ کا گلا گھونٹنے والوں کو احتساب کیا جائے۔ اور جعلی بھرتیوں کا ہمیشہ کے لئے راستہ بند کرنے کی تدابیر کی جائیں۔ 
روزنامہ عبرت نے میرٹ کو نظر انداز کرنا کے عنوان سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے دفتر پو نیب کے چھاپے کے حوالے سے اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ تعلیمی بورڈز اور وہ ادارے جہاں پر مقابلے امتحانات کے ذریعے گریڈ 16 اور 17 میں بھرتیاں کی جاتی ہیں ان کے ابرے میں شکایات گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل ر ہی تھی۔ یہ بھی ہوتا رہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کو ایک طرف رکھ کر ایڈہاک بنیادوں پر بارہ راست افسران کی بھرتیاں کی گئیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن میں 2003 میں ہونے والی بدعنوانی اک اب نوٹس لیا گیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے سندھ کے مختلف محکموں میں کرپشن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے۔ سندھ کا کوئی بھی ذی شعور شخص اپنے اداروں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ یہ ادارے سلامت ہونگے تو سندھ اور یہ ملک بھی سلامت ہوگا۔ باقی لوٹ مار کرنے والے عناصر کو نہ سندھ سے نہ اداروں سے اور نہ ہی سندھ کے عوام سے کوئی دلچسپی ہے ۔ حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں ایجنٹوں کے ذریعے پیسے وٓصول کر کے رزلٹ تبدیل کئے جاتے رہے۔ اور کرپشن کے ذریعے من پسند نمبر اور گریڈ دیئے جاتے رہے۔ ان شکایات پر کئی بار چاھپے مارے گئے، جوابا افسران کے گھروں پر فائرنگ کی گئی۔ رواں سال کسی حد تک حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں رزلٹ میں اس ہیرا پھیری کو روکا جاسکا ہے۔ اسی طرح کی ہیرا پھری سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں بھی ہوتی رہی۔ جس کی اب تحقیقات کی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں تعلیمی بورڈ اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے ماتحانات اور نتائج کو شفاف بنانا از حد ضروری ہے، کیونکہ ایک طرف ملک کی انتظامی مشنری چلانے کے لئے اہل افراد کا سامنے آنا ضروری ہے تو دوسری طرف محنتی نوجوانوں کو ان کا حق دینا ضروری ہے۔

October 23, 2015 for nai baat 

کالاباغ ڈیم کی بحث

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات

سندھ  نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 

کالاباغ ڈیم کی بحث نے سندھ کے سیاسی، اور عوامی حلقوں میں ایک بار پھر ہلچل پیدا کردی ہے۔ تمام اخبارات نے اداریوں، کالموں اور مضامین کے ذریعے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ گزشتہ روز حیدرآباد میں کالاباغ ڈیم پر ایک ڈائلاگ بھی منعقد ہوا، جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس متنازع آبی منصوبے کو سندھ کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس نے ’زکر ڈاؤن اسٹریم کوٹری زندگی کا‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں لکھتا ہے کہ مطلوبہ پانی ڈاؤن اسٹریم کوٹری نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہزاروں میل کے علاقے میں زندگی اور جینے کے وسائل تباہ ہوئے ہیں اس کا ذکر وقتا فوقتا اقتداری حلقوں میں ہوتا رہا ہے۔ لیکن جب بھی سندھ کو پانی دینے کا سوال آتا ہے تو حکومت بالکل انکاری ہو جاتی ہے۔ 
حال ہی میں سنیٹ کی منصوبہ بندی اور ترقی کے بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی نے داؤں اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ روزانہ پانچ ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے۔کیونکہ پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہر سال پچاس ہزار ایکڑ زمین سمندر اپنے لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اب تک 24 لاکھ ایکڑ زمیں سمندر ہضم کر چکا ہے۔ اگر اس حساس مسئلے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آئندہ پچاس سال میں کراچی ٹھٹہ، سجاول اور بدین سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ 
اخبار لکھتا ہے حال ہی میں وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کالاباغ ڈیم کے حق میں جو کیس بنانے کی کوشش کی ہے وہ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی چھوڑنے کو زیان قرار دینا غلط ہے۔ ڈاؤن اسٹریم کوٹری لاکھوں لوگ ہزاروں برس سے آباد ہیں ۔ جن کا دیرائے سندھ پر حق ہے۔ ہ سنیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کو اس حوالے سے سب سے بڑی سچائی سمجھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سفرشات پر عمل کیا جائے۔ 
’’تھر کول منصوبے پر وفاق کی عدم دلچسپی ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت ‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان شکایات کی طویل تاریخ ہے۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کے پاس شکایات کی ایک طویل فہرست بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان دونوں صوبوں میں مختلف تحریکیں سر اٹھاتی رہی ہیں۔

بلوچستان باقاعدہ جنگ کے مرحلے سے بھی گزرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود وفاق کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان دونوں صوبوں کو مفتوح ہونے کا احساس دلایا جاتارہا ہے۔ اسی نوعیت کی شکایات اتوار کے روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ تھر کول اور انرجی بورڈ کے اجلاس کے دوران سننے میں آئی ۔ اجلاس میں بورڈ کے ممبران نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت تھر کول منصوبے کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق کے نمائندے تھر کول انجی بورڈ کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس منصوبے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم کو خط لکھ کر وفاق کے اس رویے سے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ زیر زمین گیسیفکیشن کے بارے میں ڈاکٹر ثمر مبارک سے بریفنگ کے بعد اس منصوبے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔ 
ملک آج کل بدترین توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ دیہی علاقوں کو تو چھوڑیئے، شہروں میں بھی اندھیروں کا راج ہے۔ کارخانے، فیکٹریز اور دیگر چھوٹے بڑے کاروبار اس بحران سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جتنا انتشار دہشتگردی نے معاشرے میں پیدا کیا ہے اتنا ہی نقصان توانائی کے بحران نے کیا ہے۔ فرسٹریشن، ذہنی پریشانیاں، معاشی حوالے سے غیر یقینی صورتحال معاشرے کے ہر فرد کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے کئی اظہار کبھی اجتماعی اور کبھی انفرادی طور پر سامنے آتے رہتے ہیں۔
اگر تھر کول کے منصوبے پر عمل کیا جاتا تو اس طرح کی صورتحال سے بڑی حد تک بچا جاسکتا تھا۔ اب یہ خیال بھی پختہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت اور بعض مقتدرہ حلقے نہیں چاہتے کہ پنجاب سندھ کا محتاج بنے۔ ہم سمجھتے ہیں تھر کول انرجی بوڈ میں سامنے آنے والی شکایات فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ اب اس ضمن میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔ 
روزنامہ کاوش صوبوں کو ملنے والی رائلٹی کہاں خرچ کی جارہی ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے سانگھڑ کی تیل اور گیس کمپینوں کی پیداور اور ترقایتی رقومات کے بارے میں کیس کی سماعت کی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کہنا ہے کہ سندھ میں روڈوں کی حالت انتہائی زبون ہے۔ پتہ نہیں کہ رائلٹی کی رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ آج تک کتنے فنڈز آئے؟ کتنے اور کہاں پر خرچ ہوئے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے کے 16 اضلاع میں تیل اور گیس کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ سندھ کو تاحال 4 ارب، 75 کروڑ، 20 لاکھ روپے مل چکے ہیں جن میں سے دو ارب 91 لاکھ روپے مختلف اسکیموں پر خرچ کئے جاچکے ہیں ۔ 
سندھ کی سڑکوں کی حالت زار ہے، صوبے میں ترقیاتی کام نہیں ہورہے ہیں۔ دیہی علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صوبے کو اس کے وسائل کی پوری رائلٹی نہیں مل رہی اور جو کچھ مل رہی ہے وہ ٹھیک سے خرچ نہیں کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تکلیف کا احساس عدالت کو تو ہوا لیکن ہامری جمہوری حکومت اور منتخب نمائندوں کو نہیں ہوا۔ سندھ کو رائلٹی کتنی ملتی ہے اور وہ کہاں خرچ کی جارہی ہے اس معاملے کو تمامباشعور لوگ دیکھیں۔ 
October 16, 2015 for Nai baat

Sunday, October 4, 2015

عوام کے لاکھوں ووٹوں پر شوگر ملوں کے 30 ووٹ بھاری۔۔۔

روزنامہ عوامی آواز ’’ عوام کے لاکھوں ووٹوں کے بجائے شوگر ملوں کے 30 ووٹ ‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کو گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی خراب کرنے کی صورت حال جاری رکھی جائے گی یا اس میں کچھ تبدیلی لائی جائے گی؟ سندھ نے گزشتہ برس یہ بھگتا کہ گنے کے بجائے کاشتکار پستیرہیں۔ ان کی فصل ضائع ہوتی رہی۔ شوگر مال مالکان حکومت کو کو جیسے کہیں گے وہ ویسا ہی کرے گی ۔ اجلاس طلب کر کے دو تین مرتبہ تاریخیں دی جائیں گی۔ گنے کی قیمت بڑھنے کے بجائے امدادی قیمت مقرر کرنے میں اتنی دیر کی جائے گی کہ گنے کا رس اور کاشتکاروں کا خون بھلے تب تک خشک ہو جائے۔
خبر ہے کہ گنے کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی جاسکی ہے شوگر مل مالکاں نے اکتوبر میں گنے کی پیسائی
 شروع کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے ان احکامات کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے کہ شوگر ملیں گنے کی پیسائی دس اکتوبر سے شروع کریں۔ مل مالکان نے گنے کی قیمت 169 روپے فی من خود دینے اور حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کو سبسڈی دینے کامطالبہ کردیا ہے صوبائی وزیر زراعت نے وزیر اعلیٰ سے مشاورت کے لئے دس روز کی مہلت مانگی ہے۔
گنے کی امدادی قیمت اور پیداواری ہدف مقرر کرنے کے لئے صوبائی وزیر زراعت سردار علی نواز مہر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کاشتکاروں کے نمائندوں نے مطالبہ کیا کہ گنے کی امدادی قیمت 230 روپے فی من مقرر کی جائے۔ کیونکہ گزشتہ برسوں کے دوران پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں گنے کی قیمت 184 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔ سندھ میں مخصوص حالات کے پیش نظر یہ قیمت 230 روپے کی جائے۔ جس پر پاکستان شوگر ملز ایسو سی ایشین سندھ زون کے عہدیداران نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امدادی قیمت 160 روپے برقرار رکھتے ہوئے حکومت مل مالکان کو 12 روپے فی من کے حساب سے سبسڈی دے۔ ان کا کہنا ہے کہ گنے کی قیمت بڑھانے کے لئے چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ کیونکہ کارخانے چار ماہ میں بارہ ماہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چینی تیار کرتے ہیں۔ اگر گنے کی قیمت بڑھائی گئی تو ہر طرف گنے کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ پھر چینی کے ذخائر جمع ہو جائیں گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ دونوں فریقین کی تجاویز جمع کرنے کے بعد حکومت 10- 12 روز میں سندھ شوگر کین بورڈ کا اجلاس طلب کر کے گنے کی امدادی قیمت کا اعلان کرے گی۔ سندھ آبادگار بورڈ کے نمائندے ذوالفقار یوسفانی کا کہنا ہے کہ مل مالکان ضد پر کھڑے ہیں۔انہوں نے گزشتہ سال کی قیمت یعنی 160 روپے فی من اور حکومت کی جانب سے 12روپے فی من پر سبسڈی دینے کامطالبہ کیا ہے۔ مل مالکان نے واضح طور پر صوبائی وزیر زراعت کو بتایا کہ وہ 10 اکتوبر سے کرشنگ شروع نہیں کر سکتے۔ بلکہ نومبر کے آخر یا دسمبر میں ملوں کی چمنیاں جلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال چینی کی قیمت 45 روپے فی کلو تھی جو اب بڑھ کر 65 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔
پیپلزپارٹی کے پاس اب صرف سندھ صوبے میں ہی حکومت ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کو چاہئے کہ سندھ کے کسانوں اور عوام کے بھلے کے لئے بعض اچھے کام بھی کرنا شروع کرے۔ اگر 30 شوگر ملوں کے 30 مالکان یا تیس سرمایہ دار خاندانوں کے مفادات سے بہتر وہ لاکھوں عوام ہیں جو ان تیس خاندانوں کے مقابلے میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
روزنامہ کاوش ارسا کے اجلاس میں پانی کی قلت کا ذکر کے عنوان سے لکھتا ہے کہ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والی ربیع کے موسم کے دوران 14 فیصد پانی کی قلت کا جائزہ لینے اور اس کمی کو سامنے رکھ کر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کرنے کے لئے گزشتہ روز ارسا کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں تین صوبوں کے ممبران اور سندھ کے ایڈیٰشنل سیکریٹری نے شرکت کی ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ یکم اپریل سے 30 ستمبر تک بہت سار پانی سمندر میں ضایع ہو چکا ہے ۔ لہٰذا ربیع میں صوبوں کو 14 فیصد کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ ربیع میں سندھ کو 12.90 ملین ایکڑ فٹ، پنجاب کو 17.08 ملین ایکڑ فٹ، بلوچستان کو 1.02 ملین فٹ پانی فراہم کیا جائے گا۔ جبکہ خیبر پختونخوا کو 0.70 ملین فٹ پانی مل سکے گا۔ اجلاس میں پنجاب کے نمائندے نے ایک بار پھر یہ نقطہ اٹھایا کہ کالاباغ ڈٰیم، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم اگر بن جاتے تو اتنا پانی ضائع نہیں ہوتا۔ اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری سندھ نے پنجاب کی جانب سے چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے پانی حاصل کرنے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
دوسرے صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ اس وجہ سے بھی پانی کی قلت کو زیادہ برداشت کرتا ہے کہ کیونکہ یہ صوبہ ٹیل پر ہے۔ پانی ملک کے بالائی صوبوں سے ہو کر یہاں پہنچتا ہے۔ ارسا نے فیصلہ کیا ہے کہ ربیع کی سیزن کے دوران صوبوں کو 14 فیصد کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن عملا سندھ کو اس سے بھی زیادہ قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ پانی کی قلت کے خلاف مسلسل شکایات اور احتجاج ریکارڈ کراتا رہا ہے۔ لیکن صورتحال یہ بنی ہے کہ ماضی میں جو معاہدے ہوئے ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ ارسا کے اجلاس میں ایک بار پھر کالاباغ ڈٰیم کی راگنی چھیڑی گئی ہے۔ اگرچہ تین صوبے سرکاری طور پر کئی بار اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب ہر مرتبہ سرکاری طور پر یہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اس متنازع آبی منصوبے کا ذکر کرے۔ پنجاب جس پانی کو سمندر میں جانے کو ضیاع سمجھتا ہے یہ پانی کوٹری سے نیچے سمندر تک کے علاقے کی معیشت اور ڈیلٹا کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ سمندر میں کم مقدار میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے ہر سال سمندر سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین نگل جاتا ہے ۔ اگر صوبوں کو کم پانی دیا گیا تو لازمی طور پر یہاں کی فصلیں متاثر ہونگی جس سے معیشت اور عام لوگوں کے زندہ رہنے کے وسائل میں کمی واقع ہوگی۔ پانی کی قلت ختم کرنے کے دیگر طریقے بھی ہیں جنہیں اپنانے کی ضرورت ہے، یہ ضروری تو نہیں کہ کالاباغ کے مردہ گھوڑے کو ہر بار اٹھایا جائے اور صوبوں کے درمیاں غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

Friday, September 18, 2015

کاش سندھ حکومت چند سال پہلے ایسا کرتی

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

کاش سندھ حکومت چند سال پہلے ایسا کرتی 

سندھ نامہ ۔۔۔۔ سہیل سانگی 
’’روزنامہ عبرت ‘‘ لکھتا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ و توانائی سید مراد علی شاہ، اور سنیئر وزیر نثار احمد کھڑو نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں، اگرچہ ان باتوں سے سندھ کے ہر فرد کی ترجمانی ہوتی ہے۔ لیکن وقت کے انتخاب کی وجہ سے ان باتوں کا اثر زائل ہوسکتا ہے ۔عام لوگوں کا یہ خیلا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے لگوں کو کرپشن کیسز سے بچانے کے لئے سندھ کے یہ اشوز اٹھا رہی ہے۔ اس دلیل میں وزن بھی ہے کیونکہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ میں حکمرانی کرنے ولای پیپلزپارٹی کو یہ سب معاملات کیوں نظر نہیں آئے۔ دو سال تک وفاقی حکومت کے ساتھ شیر و شکر ہو کر رہنے والی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے یہ مطلابات کیوں نہیں کئے۔ آج آکر اس پارٹی کی آنکھوں میں سندھ کا درد کیوں امنڈ آیا ہے؟۔ سندھ کے لئے پید اہونے والا یہ احساس کہیں بلدیاتی انتخابات کی مہم کا حصہ تو نہیں۔ 
سندھ کے لوگ اس تجربے سے گزرے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران پیپلزپارٹی نے سندھ حکومت ہر اس قدم کو جائز سمجھتی رہی جس سے اس کے اقتدار کو طول مل سکتا تھا۔ اس کی بڑی مثال گزشتہ دور حکومت میں سندھ حکومت کو انتظامی طور پر دو حصے کرنا تھا۔ سوات آپریشن کے لئے استقبالی کیمپ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر غیر اور اجنبی کو اپنی گود میں لینا شامل ہے۔ لاکھوں انسانوں کو ہاتھوں سے پانی میں ڈبویا گیا۔ اور بعد میں یہ متاثرین جب کراچی میں عارضی کیمپ قائم کرنے کے لئے پہنچے تو انہیں دھکے دے کر نکالا گیا۔ ان پر گولیاں برسائی گئیں،۔ 
آج وہی حکمران جب تنگی میں آئے ہیں، تو سندھ کے درد کی بات کر کے آنکھوں میں خون کے آنسو لا رہے ہیں۔ یہ بات دو وزراء کی اس پریس کانفرنس میں بھی نظر آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف افغانستان، تاجکستان اور بھارت سے بجلی خرید کرنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن سندھ سے بجلی خرید کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرارت پانی و بجلی شہباز شریف چلا رہے ہیں اور انہوں نے سندھ میں سولر اور ونڈ کے پاور پروجیکٹ بند کر ادیئے ہیں۔ جبکہ پنجاب میں شریف برادران کی کمپنی زونرجی کو سولر اور ونڈ کے پچیس منصوبوں کے معاہدے کئے ہیں۔ جس سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی ہوگی اور پنیتیس روپے فی یونٹ تک بیچی جائے گی۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو دنیا کے مہنگے ترین منصوبے بنانے کا شوق ہے۔ تھر میں بڑے مقدار میں کوئلہ موجود ہونے کے باوجود نواز حکموت کوئلہ درآمد کررہی ہے ۔
حکومت سندھ آج جو باتیں کر رہی ہے، کاش وہ ایساگزشتہ سالوں کے دوران کرتی یا دو سال کے دوران ہی کر دیتی۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت کے زرعی پیکیج کے فسانے میں سندھ کا کوئی ذکر نہیں۔ نہ گنے کے کاشتکاروں کے لئے رلیف ہے اور نہ ہی قحط سے متاثرین کاشکاروں کی مدد کے لئے کسی اقدام کا حوالہ ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ پیکیج پنجاب کے کاشتکاروں کو نظر میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اگر ملک بھر کے لئے یہ پیکیج بنتا تو یقیننا اس میں سندھ کا ذکر بھی ہوتا اور اسکا حصہ بھی ہوتا۔ سندھ زرعی صوبہ ہے۔ یہاں ڈاؤن اسٹریم کوٹری دریا میں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر سندھ کی زرخیز زمینیں نگل رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے سولر ٹیوب ویل کے لئے بلا سود قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا سندھ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ پنجاب کا زیر زمین پانی میٹھا ہے۔ اور سندھ میں زیر زمین پانی کڑوا ہے۔ سندھ کا گنے کا بیلٹ ایک عرصے سے توجہ طلب ہے، جس پر کوئی کام نہ کرنے اور امدادی اقدامات نہ لینے کے نتیجے میں یہ بیلٹ اور یہاں کے لوگوں کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ شگر مل مالکان کی اجارہ داری، وقت پر شگر ملیں شروع نہ ہونے، کاشتکاروں کو سرکاری طور پر مقرر کردہ قیمت کی ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے گنے کی کاشت میں کمی آرہی ہے۔ اس پیکیج میں گنے کے کاشتکاروں کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت تھی۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ زمینوں پر قبضے کی کہنایاں کراچی میں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔لیکن یہ کہانیاں صرف کراچی تک محدود نہیں ۔ ایسے قصے سندھ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیس بھی شہر کا نام لیں وہاں آپ کو زمینوں پر قبضے کی سینکڑوں داستانیں ملیں گی۔ اس حوالے سے جامشورو نہایت ہی زرخیز علاقہ ہے۔ باقی کہانیوں کو چھوڑیں، سندھ یونیورسٹی کی وائیس چانسیلر نے چیئرمین اینٹی کرپشن ممتاز علی شاہ سے ملاقات کر کے سندھ یونیورسٹی کی زمینوں پر قبضے کے ثبوت پیش کئے۔ جامشورو میں لینڈ مافیا صرف سراکاری اداروں کی زمینوں پر ہی نہی، کئی پرائیویٹ لوگوں کی زمینوں پر بھی ہاتاھ صاف کر رہی ہے ۔ عام لوگ اس مافیا کا اس لئے بھی مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس مافیا کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یونیورسٹی جیسے اداروں کے پاس ہر معاملے میں بڑے وسائل اور اثر رسوخ بھی ہوتا ہے ۔ ایسے میں اگر یونیورسٹی بھی لاچاری دکھائے گی تو یہ عمل قبضہ مافیا کی حوصلہ افزائی کے زمرے میں آئے گا۔ یونیورسٹی کی وائیس چانسیلر نہ صرف معاملہ اینٹی کرپشن کے پاس لے گئیں بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ اس عمل میں یونیورسٹی کے بعض ملازمین بھی شامل ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے ملازمین شامل ہیں تو ان کے خلاف وائیس چانسیلر کے علاوہ اور کون مجاز اختیاری ہوسکتی ہے جو ان کے خالف کارروائی کر سکے؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ ملازمین اتنے بااثر ہیں کہ خود وائیس چانسلربھی ان کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہیں ۔
وائیس چانسلر نے زمینوں سے قبضہ چھڑانے کی جو کشش شروع کی ہے اس کی ہمت افزائی کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اردگرد موجود دیگر سرکاری اداروں کی زمینوں پر جو قبضے ہیں انہیں بھی خالی کرانی کو یقینی بنایا جائے۔ 
For Nai Baat Sept 19, 2015

Friday, September 11, 2015

سندھ: بالآخر بلدیاتی انتخابات پر ابہام کا خاتمہ

سندھ: بالآخر بلدیاتی انتخابات پر ابہام کا خاتمہ
سندھ نامہ۔۔۔ سہیل سانگی 

’’روزنامہ عبرت ‘‘ لکھتا ہے کہ سندھ میں بالاّخر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ابہام بالآخر ختم ہو گیا۔ سکھر اور لاڑککنہ ڈویزنوں میں کاغذات نامزدگی جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا معمالہ ایک عرصے تک التوا کا شکار تھا۔ موجودہ خواہ سابق حکومت نے ہر ممکن طور طور پر ٹالمٹول سے کام لیا۔ لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ نے تمام حربوں کو ناکام بنادیا اور حکم جاری کیا کہ کسی بھی طور پر بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایاجائے۔ اس حکم پر سب سے پہلے شورش کی لپیٹ میں پھنسے ہوئے صوبے بلوچستان نے آغاز کیا۔ اس کے بعد خیبر پختونخو میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ اس کے بعد سندھ اور پنجاب کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ زیادہ عرصے تک انانتخابات سے بھاگ سکیں۔ لہٰذا دونوں صوبائی حکومتوں نے بحالت مجبوری انتخابی عمل شروع کر دیا۔ جس کا پہلا مرحلہ سندھ میں شروع ہو چکا ہے۔ یہ ایک مثبت عمل ہے۔
نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل کو جلدی حل کرنے کے لئے بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس اس نظام اور انتخابات کو جمہوریت مخالف حلقوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ ضیا کا ریفرینڈم ہو یا مشرف کا بلدیاتی نظام اس کے ذریعے دونوں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔اس لئے بھی جمہوری سیاسی جماعتیں اس نظام کو ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جمہوری حکومتوں کو اپنے اختیارات میں کمی کا بھ احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ان انتخابات سے بھاگنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ وس وجہ سے بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کا مقصد فلاح و بہبود نہیں بلکہ ختیارات کا حصول ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، خواہ اس کا منشور الفاظ میں کتنا ہی ملک اور قوم کے بھلے کی بات کرتا ہو، یلکن عملا ان جماعتوں کی کوشش خود کو یا اپنے آدمیوں کو بااختیار بناے کی ہوتی ہے۔ ان کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل کا لامنتہائیسلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ 
سیاست کو مہنگا سودا بنادیا گیا ہے۔ عام آدمی صوبائی یا قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ بھلے سیاست اور سماجیت میں کتنی ہی قابلیت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس جعلی ڈگریاں لیکر جاگیردار، چوہدری اور سرمایہ دار سرمایہ کاری کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرے گا وہ اپنا خر وصول کرنے کے بجائے بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرے گا؟ بلکہ اس شخص کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ انتخابات میں کی گئی سرمایہ کاری وصول کرنے کے ساتھ ساتھ منافع بھی کمائے۔ ایک عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تو بعض اراکین اسمبلی کی جرائم پیشہ گروہوں سے روابط کی بھی خبریں آرہی ہیں۔ 
مطلب ہمارے ہاں سیاست کمائی کا ایک ذریعہ ہے۔ نتیجے میں ہم جب اپنی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسے ممالک سے بھی دتر حالت پاتے ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے۔ ہمارے ہاں تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کا رجحان بھی رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب تقریبا تمام محکموں کے قلمدان اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔سندھ میں بھی بڑی حد تک یہی صورتحال ہے۔ اگر سب قلمدان ایک شخص کے پاس نہیں ہیں تو ان کی تقسیم میرٹ کے بجائے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ عام فلاح کے کام التوا کا شکار ہیں۔ 
اس صورتحال میں بلدیاتی انتخابات اور فعال بلدیاتی نظام کا ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ جس کے تحت عام آدمی کم از کم اپنی گلی محلے کی شکایت اپنے منتخب نمائندے تک پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ از حد ضروری ہوجاتا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ان انتخابات کو شفاف بنایا جائے۔ 
روزنامہ کاوش کراچی میں میڈیا نشانے پر کے عنوان سے لکھتا ہے کہ کراچی کی سرزمین نے لاکھوں بے گھر اور بیروزگار لوگوں کو اپنی گود میں جگہ دی ہے۔ لیکن اس شہر کو کبھی بھی سکھ چین حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ صوبے کے دارالحکومت اور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے اس شہر میں اب صحافی ہدشتگرد کارروایوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک ٹی چینل کے سیٹلائیٹ انجنیئر کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد ایک سینئر صحافی آفتاب عالم کو موت کی ابدی نیند سلادیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے معاملے کی آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ جبکہ صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے میں قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں دو صحافیوں کے قتل نے کراچی آپریشن کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔یہ دو واقعات اس وقت سامنے آئے ہیں جب رینجرز اور پولیس نے پریس کانفرنس میں یہ دعوا کیا کہ کراچی میں ساٹھ سے ستر فیصد تک کمی آئی ہے۔ ملک بھر میں صحافی دہشتگردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ لیکن کراچی میں سچ کا آئینہ دکھانے والے کچھ زیادہ ہی زیر عتاب رہے ہیں۔ یہ کراچی کا ہی شہر تھا جہاں چند سال پہلے امریکی صحافی ڈٰنئل پرل کو اغوا کرکے قتل کیا گیا تھا۔ 2011 میں ایک نجی چینل کے صحافی ولی بابر کو قتل کیا گیا گزشتہ سال نامور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ستمبر 2013 میں کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کو اب دو سال کمل ہو چکے ہیں۔ اور اب بھی یہ آپریشن جاری ہے۔ مختلف واقعات کے باوجود صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ ضروی ہو گیا ہے کہ ہر مشکل صورتحال میں بھی حقائق پیش کرنے والے اس پیشے سے منسلک افراد کے خلاف ان پرتشدد واقعات کے لئے حکومت نوٹس لینے اور مذمت سے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے 
اور صحافیوں کو تحفظ کا احساس دلانا چاہئے۔

http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A2%D8%AE%D8%B1-%D8%A8%D9%84%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%A8%DB%81%D8%A7%D9%85
 Nai Baat Sep 12, 2015 

Friday, September 4, 2015

بشیراں کی خود کشی اور حکمرانوں کی کرپشن

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

بشیراں کی خود کشی اور حکمرانوں کی کرپشن
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
کرپشن کے خلاف کارروائیاں اور اس پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا رد عمل مجموعی طور پر اخبارات کا موضوع ہیں۔ دوسری جانب عرصہ دراز تک ٹال مٹول کے بعدصوبے میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کا عمل شروع ہو رہا ہے۔ صوبے میں سیاسی سرگرمیاں کراچی میں جاری آپریشن اور کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے چل رہی تھیں س۔ اب یہ سرگرمیاں انتخابات کے حوالے سے بھی بڑھ گئی ہیں ۔ اخبارات کا یہ رویہ ہے کہ کرپشن کے خلاف ہونے والی کارروائیاں بلا امتیاز ہونی چاہئے، اور اگر اس میں کسی بھی قسم کا امتیاز برتا گیا تو اس کو سیاسی معنوں میں استعمال کیا جائے گا۔
’’روزنامہ عبرت‘‘ لکھتا ہے کہ اخبارات میں یہ خبرشایع ہوئی کہ شاہپور چاکر ( ضلع سانگھڑ) کی بائیس سالہ بشیراں خاتون نے اپنے دو بیمار بچوں کا علاج نہ کر سکنے کے باعث دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ بشیراں کا شوہر ایک ہوٹل پر مزدوری کرتا ہے، اس کام کے عوض ملنے والا معاوضہ بچوں کے علاج تو کیا دو وقت کی روٹی کے لئے بھی ناکافی تھا۔ پریشانیوں سے تنگ آکر بشیراں نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی۔ ارباب اختیار و اقتدار پر اس خبر کا کیا اثر ہوا ہوگا؟ شایدیہ خبر ان کی نظروں سے گزری بھی نہیں ہوگی۔ یہ خبر سندھی سماج کے فرسٹریشن کا اظہار ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعات روزانہ جنم لے رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک اخبارات میں پر جگہ لے پاتے ہیں۔ ورنہ اکثر واقعات قسمت کا لکھا سمجھ کر میڈیا کے کالموں سے غائب رہتے ہیں۔
شاداب اور خوشحال سندھ کے ہر اہل دانش و فکر کے لئے یہ واقعہ باعث تشویش ہونا چاہئے۔ افسوس کہ آٹھ سال سے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے حکمرانوں کو اس واقعہ پرذرا برابر بھی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ حکومت سندھ جتنی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر حرکت میں آئی یا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اس معاملے کو امکانی خاتمے کو جنگ تک لے جانے کی دھمکی دی۔ سندھ کی صورتحال کو بہتر بنانے یا سماج میں پھیلی ہوئی مایوسی پر اس کے چوتھائی برابر بھی اگر تحرک لیا جاتا، تو کئی بچے یتیمی کے روگ سے بچ جاتے۔ کئی ماؤں کی گود خالی نہیں ہوتی۔ لیکن افسوس کے ہمارے حکمرانوں کو اپنے چیلے چانٹوں کے علاوہ اور کوئی یاد ہی نہیں ۔ انہیں وہ لاکھوں لوگ نظر نہیں آتے جن کے چولہے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار جلتے ہیں۔
اگر سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات اور ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنایا جاتا تو بشیراں کو یہ انتہائی قدم اٹھانا نہ پڑتا۔ اگر ان کے شوہر کو سرکااری طور پر مقرر کردہ کم از کم تنخواہ ملتی تو معصوموں کی مسکراہٹیں سسکیوں میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ کیا ہمارے حکمران اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک ہوٹل پر کام کرنے والے مزدور کو کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ اینٹوں کے بٹھوں پر اپنے ارمان جلانے والا مزدور کتنا کماتا ہے؟ مل، کارخانے یا کھیت میں کام کرنے والا محنت کش کس مشکل سے زندگی گزارتا ہے؟ یہ سب باتیں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسے گھرانوں کے ارمان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے روزانہ عام لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ مطلب ملک کی اکثریت انتہائی تنگدستی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بڑے شہروں میں پھر بھی روزگار کے مواقع ہیں۔ چھوٹے شہروں میں جینا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ نتیجے میں کئی بشیراں جیسی مائیں زندگی سے یا اپنے بچوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ مہذب ممالک میں اس طرح کے واقعات حکمرانوں کا درد سر بن جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کٹھورپن کی انتہا ہے کہ میڈیا، حکمران اور سماج میں اصلاح کے دعویدار اس پر غور کرنے کو وقت کازیاں سمجھتے ہیں۔ شاید انہیں نہیں معلوم کہ غربت اور محرومیاں کن تباہیوں کو دعوت دیتی ہیں۔ حال ہی میں سندھ محکمہ داخلہ نے خفیہ اداروں کی مدد سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں نو ہزار مدارس میں پانچ لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے بعض ممکن ہے کہ صرف علم حاصل کرنے کے لئے ان مدارس کا رخ کرتے ہوں گے ، لیکن ایک بڑی تعداد غربت کے باعث ان مدارس کے حوالے کردی جاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ غربت ہر برائی کی ماں سمجھی جاتی ہے۔ اگر سندھ میں مائیں اپنے بچوں کی بھوک برداشت نہیں کر سکتیں اور خودکشی کر لیتی ہیں۔ کل کو اس غربت اور بھوک سے تنگ آکر کسی دوسرے کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ ایک طرف شاہوکار سندھ کے رہائشی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب اسکے حکمرانوں کو کرپشن کی کہانیوں میں مرکزی کردار ادا کرنے پر یاد کیا جاتا ہے۔ روزانہ نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ اگر حکمران ذاتی خواہشات کے بجائے تھوڑا سا ہی سہی، عوام پر دیتے تو سینہ تھنخ کر کرپشن کے الزامات کو رد کر سکتے تھے۔ اور سندھ کے حالات بھی قدرے بہتر ہوتے۔
’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ 1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت ڈاؤن اسٹریم کوٹری 10 ملین ایکڑ فٹ پانی اور عالمی ماہرین کی سفارش کے مطابق 8.5 ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنے سے انکار کرنے والے ادارے ارسا نے متنازع چشمہ جہلم لنک کینال کے ماحولیاتی ضروریات کی خاطر 10 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر سندھ کے نمائندے نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے کہ سی جے کینال کو صرف سیلاب کے دنوں میں کھولا جاسکتا ہے۔ جبکہ ماحولیاتی ضروریات کے لئے اس کینال میں پانی چھوڑنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں۔ حکومت سندھ نے پانی کے بہاؤ میں کمی ہونے کے بعد پنجاب کے محکمہ آبپاشی کی طرف سے غیر قانونی طور پر چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے یہ کینال فوری طور پر بند کئے جائیں۔ سندھ کے ساتھ طویل عرصے سے ناناصافی ہو رہی ہے۔ اور اس کے خلاف وہ مسلسل احتجاج کر رہا ہے۔ اس کے باوجود اس کی شکایت کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ اور تو چھوڑیئے پانی کی تقسیم سے متعلق جو معاہدے کئے گئے ہیں ان پر بھی عمل نہیں کر رہا۔ حال ہی میں ارسا نے پنجاب کی ماحولیاتی ضروریات کی آڑ میں چشمہ کینال میں 10 ہزار کیوسک پانی جاری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف سندھ میں پانی کی قلت ہے۔ اس کی سر سبز زمینیں خشک اور ٹھوٹھ بن چکی ہیں۔ زراعت تباہ ہے۔ روزگار کے ذرائع تباہ ہیں۔ ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں ضرورت کے مطابق پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ماحولیات، جنگلی و آبی حیاتیات اور ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ارسا کی نظر سندھ کی اس تباہی پر نظر نہیں پڑتی۔ جبکہ پنجاب ماحولیاتی ضروریات کی آڑ میں سندھ کے حصے کا پانی لے رہا ہے۔ یہ تمام معاہدوں کی خلاف ورزی اور ناناصافی ہے۔
September,4, 2015 for Nai Baat

Friday, August 14, 2015

کالاباغ ڈیم اور پنجاب کی ہٹ دھرمی

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

کالاباغ ڈیم اور پنجاب کی ہٹ دھرمی

سندھ نامہ
۔۔ ۔۔ ۔۔۔ سہیل سانگی
سندھ میں سیلاب کی صورتحال اور حکومت کی جانب سے کئے گئے ناقص انتظامات، جاری آپریشن اور اس کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے مخالفت اس کے علاوہ نیب کے کرپشن کے حوالے سے سرکاری دفاتر پر چھاپے سندھ کے اخبارات کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ادبی اور ثقافتی محاذ پر بڑا واقعہ بڑے پیمانے پر اور مختلف شہروں میں ممتاز دانشور ابراہیم جویو کی سالگرہ کا منایا جانا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران صوبے کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی آئی جب فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں کی جانب سے متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف اسمبلی میں پیش کی گئی قراداد کی پیپلزپارٹی نے حمایت کردی۔ پنجاب کی طرح سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انتخابات کب ہونگے؟

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں اور سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ایک بار پھر متنازع منصوبے کالاباغ ڈیم کو مسترد کردیا ہے۔ اب جب سیلاب کا موسم آیا ہے تو ایک بار پھرکالاباغ ڈیم پر قومی اسمبلی میں بحث چھیڑی گئی۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب کی ہٹ دھرمی ہے۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک کی ترقی کا واحد حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے۔ اس لئے کسی اور منصوبے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہا۔ ان اراکین کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ ایک بار پھر بے وقت کی راگنی شروع کردی گئی ہے جو ہر مرتبہ چھوٹے صوبوں کا درد سر بنتی ہے۔ 

مانا کہ پانی انسانی زندگی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس زرعی ملک میں لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ اور زراعت کے لئے پانی کی دستیابی ضروری ہے۔ ملک میں پانی کا مسئلہ اس وقت اس ملک میں کھڑا ہوا جب ملک کے بعض صوبے پانی کی اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں جو بچ جاتا ہے وہ دوسرے صوبوں کو نصیب ہوتاہے۔ یہاں تک کہ ماضی میں کئے گئے پانی کے مختلف معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی ۔ اس کا نتیجہ ی نکلا کہ ایک صوبہ سرسبز و شاداب ہے جبکہ دوسرے صوبوں کی زمینیں بنجر اور بے جان بن گئی ہیں۔ پانی نہ ملنے کی وجہ سے انسان خواہ حیوان پیاسے رہ جاتے ہیں بلکہ معیشت نہ ہونے کی وجہ سے انسان کے لئے جسم کے ساتھ سانس کا ناطہ برقرار رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ 

ایک بار پھر اس متنازع منصوبے کا راگ چھیڑا گیا ہے جس کو تین صوبے کئی بار مسترد کر چکے ہیں۔ ان صوبوں کے لوگ سمجھتے ہیں کالاباغ ڈیم ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس لء یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اس راگ کو چھیڑنے کے بجائے تینوں صوبوں کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے دفن کردے۔

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ برطانوی راج سے آزادی حاصل کئے 67 سال ہوچکے ہیں۔ ان بیتے برسوں کا اگر حساب کیا جائے تو فخر کم اور افسوس زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہامرے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مزید مایوسی ہونے لگتی ہے۔ 67 برس کسی بھی ریاست کے عروج اور زوال کے لئے بڑا عرصہ ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں قومیں اپنی خراب خصلتیں بھول کر نئی راہیں تلاش کر لیتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ماضی کی شاندار روایات بھولا کر زمانے کی گردش میں گم ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی لگتا ہے کہ ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ کس منہ سے ہم اپنے سماج کے بہتر ہونے کی حام مار سکتے ہیں کہ پیسے کی لالچ میں آکر بعض گروہ بچوں کے ساتھ بدفعلی کر کے اس کی ویڈیوز بناتے ہیں اور یہ ویڈیو کلپس والدین کو دکھا کر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔ 

 ہم نے اس ملک کو ایسا بنا دیا ہے کہ اگر پنچائت فیصلہ کرتی ہے کہ کسی ملزم کی بہن کے ساتھ بطور ہراجنہ سر عام جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ اور سماج اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہات ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر مکان خالی کرانا ہے تو علاقے کے مولوی سے فتوا لیکر سینکڑوں لوگ اس کے پیچھے لگائے جاتے ہیں۔ پھر اس شخص کو مار دیا جاتا ہے یا زندہ بٹھی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہاں ایسا بھی وہتا رہا ہے کہ کوئی ذہنی مریض بچوں کو اغوا کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد ان کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر جلا دیتا ہے۔

یہاں برسوں سے معصوم بچیاں کارو کاری کی بدترین رسم کی بھینٹ چڑہتی رہتی ہیں۔ برسہا برس تک لوگ دشمنیاں پال کے رکھتے ہیں۔ درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانیں ان دشمنیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مگر قانون نام کی چیز کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ مہذب سماجوں کی طرح یہاں بھی اعلیٰ ایوان، انصاف گھر، اور دجونوں ایجنسیاں موجود ہیں ، مگر نہیں معلوم کہ یہ سب کن کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔انہیں نہ سماج میں ہونے والی یہ زیادتیاں اور نا انصافیاں نظر آتی ہیں اور نہ ہی وہ کسی امکان پر یقین رکھتی ہیں۔ 

آج بھی حالت یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی سینکڑوں انسانی جانیں گنوانے والے تنازعات کا فیصلہ جرگوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ پنچائتیں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتی ہیں۔ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ خود اپنے طور پر چکاتے ہیں یا یہ قوت نہ ہونے کی صورت میں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں ان کی حفاظت کے لئے قائم کی گئی پولیس فورس یا قانون کا سہارا نہیں لیتے۔ انہیں یقین ہے کہ انصاف یا ازالے کے بجائے انہیں مزید لوٹا جائے گا۔

فرقہ واریت، لسانیت، محکومی اور دیگر سماجی نابرابری جس رفتار سے معاشرے میں بڑہی ہیں انہوں نے نفرتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد کی ہے۔ آج لوگ آزاد ہوتے ہوئے بھی خود کو قید اور تنہا محسوس کرتا ہے۔

ملک کے اعلیٰ اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان حالات کا بغور جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی وڈیرے اور سردار اپنی عدالتیں کیونکر چلاتے ہیں؟ پولیس اور اینجنسیوں کی باوجود ایسے گروہ کیونکر پیدا ہوتے ہیں جو لوگو کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں؟

روزنامہ نئی بات برائے ۱۵ ۔ اگست ۲۰۱۵ع

Friday, August 7, 2015

سندھ میں کشیدہ اور خوف ہراس کی صورتحال

سندھ میں کشیدہ اور خوف ہراس کی صورتحال
سندھ نامہ سہیل سانگی
June 19, 2015
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فوج پر تنقید کے بعد صورتحال سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے دیگر بعض شہروں میں سرکاری افسران کی گرفتاریاں جاری ہیں ابھی تک ڈیڑھ درجن افسران کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جبکہ نصف درجن اعلیٰ سرکاری افسران نے حفظ ماتقدم ضمانتیں کرالی ہیں ۔ صوبے میں ایک طرح کے کریک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اس کی وجہ سے کراچی میں صوبائی سیکریٹریٹ کے افسران میں خوف بھی پایا جاتا ہے۔

اخبارات نے پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم کی صورتحال اور کرپشن کے الزام میں افسران کی گرفتاریوں کو موضوع بنایا ہے۔

اخبارات کے مطابق کرپشن کی شکایات عام ہیں لیکن اس کو روکنے یا ختم کرنے کے لئے سویلین م اور صوبائی مکینزم موجود ہے ۔ اسی مکینزم کو فعال بناکر اقدامات کئے جائیں جو کہ قانون اور آئین دونوں کے تقاضوں کے مطابق ہونگی۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ سب کچھ رینجرز کا مینڈیٹ ہے؟ کیا یہ ادارہ اپنے حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہا؟ بعض تجزیہ نگاروں نے نیب اور رینجرز کے ان چھاپوں کو وفاق کی جانب سے صوبائی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور صوبے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے وفاقی یا سندھ بجٹ پر اخبارات میں جامع بحث نہیں ہو سکی۔

روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کی شکایات اور نیب اور رینجرز کے چھاپے کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق کے ماتحت ادارے رینجرز نے سندھ کے مختلف محکموں کرپشن کے خلاف تحقیقات کے لئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور رینجرز نے زمین کی الاٹمنٹ کا رکارڈ تحویل میں لیا۔ایک اور وفاقی ادارے نیب نے سندھ لائنز ایریاز ری ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پانچ اہم افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں چائنا کٹنگ کے ذریعے 1200 سے زیادہ پلاٹ مختلف مافیا کو فروخت کر کے چار ارب روپے سے زائد رقم ہڑپ کی۔ ای سی ایل میں پچاس سے زائد افسران کے نام ڈال دیئے گئے ہیں۔ صوبائی محکموں کے افسران کے خلاف رینجرز کی ان کارروایوں کے بارے میں صوبائی حکومت کو آگاہی نہ دینے پر صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ نیب کی کارروایوں اور رینجرز کے چھاپوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق سندھ حکومت پت عدم اعتماد کا اظاہر کر رہا ہے۔
ملک کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ میں کرپشن کا راگ گایا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف سندھ حکومت کو بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خطرہ ہے۔ اس میں کچھ کوتاہیاں اپنی بھی ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی اچھی حکمرانی کو یقینی بناتی اور عام آدمی کو پینے کے پانی، صحت، تعلیم وغیرہ کی بنیادی سہولیات مہیا کرتی وفاق کو سندھ حکومت پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی کو شفاف بنائے اور ایک ایسا نظام بنائے جس کے تحت کرپشن میں ملوث افسران قابل گرفت ہوں ۔ اگر وفاق کسی آڑ میں سندھ حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جس کے لئے وفاق سے باضابطہ بات کرنی چاہئے۔

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کام زیادہ اور پیسہ کم ہے۔ سندھ کا خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ۔ اس خسارے کے لئے صوبائی حکومت وفاق کو ذمہ دار ٹہرا رہی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران وفاقی پول سے سندھ کو 381 ارب روپے ملنے تھے۔ بعد میں یہ تخمینہ کم کرکے 353 ارب روپے کیا گیا۔ لیکن عملا گزشتہ 9 ماہ کے دوران 287 روپے سندھ کو جاری کئے گئے اور مجموعی طور پر وفاق نے 52 ارب روپے کم جاری کئے ۔ وفاق سے کم رقم ملنے کی وجہ سے اہم ترین شعبوں تعلیم، صحت، بلدیاتی اداروں، جنگلات لایو اسٹاک کی ترقیاتی رقامت میں کٹوتی کی گئی ہے۔

سندھ تیل ، گیس، اور دیگر قدرتی وسائل کے ذریعے وفاق کو بڑی آمدنی دیتا ہے، لیکن صوبے کا کم حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جو حصہ رکھا جاتا ہے اس کی ادائیگی بی پوری نہیں کی جاتی اکثر ادفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ رقومات وقت پر جاری نہ کرنے کی وجہ سے سندھ میں ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کی طرف یہ رویہ اپنی جگہ پر۔ لیکن سندھ کی جانب سے باقاعدہ ہوم ورک کرکے وفاق کے ساتھ مالی معاملات اٹھائے نہیں جاتے۔ کے حکمران اس وقت نیند کے خمار سے جاگتے ہیں جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مسائل صرف وفاق کے حوالے سے شکایات کرنے سے دور نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو رقومات حاصل وہئی ہیں ان کے موثر اسعتمال کو یقینی بنایا جایت اور اس کے ساتھ ساتھ مالی امور کے حوالے سے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پورا سال اس پر کام کرتی رہی۔ اور جامع کیس بنا کر وفاق کے سامنے پیش کیا جائے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاق کی جانب سے سندھ کو کم رقومات کے اجراء پر اداریہ لکھا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کو مالی وسائل میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔

بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار

بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
July 31, 2015
’’بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار ‘‘کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول ایک ماہ تک ملتوی کرانے پر غور کر رہی ہیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں سیلاب اور بارش کی صورتحال کی وجہ سے یہاں پر دونوں صوبائی حکومتیں امدادی کاموں اور متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں۔ لہٰذا بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول جاری نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات کرانے کے لئے عملہ انتظامیہ سے لیا جاتا ہے اور یہ عملہ ابھی سیلاب سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہا ہے کہ ایک ماہ تک یہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔ حکومت سندھ نے صوبے میں مرحلہ وار انتخابات کرانے کے لئے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔
اس سے قبل ملک کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اسے بدقسمتی کہئے یا انتظامی نااہلی کہ وہاں پر بلدیاتی محکمے نے تاحال کام شروع نہیں کیا ہے۔ یہ مرحلہ بھی جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ملک کے دواہم صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں کسی نہ کسی طرح سے بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ کچے کے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ انتظامیہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس کے باوجود انتظامیہ کو ہی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کا ذمہ دار ٹہرایاجاسکتا ہے۔کیونکہ دونوں صوبائی حکومتوں کو علم تھا کہ جولائی میں بارشیں ہونگی اور گلیشرز پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔لیکن اس ضمن میں پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے ۔اگر پہلے سے کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیاجاتا، دریا کے پشتوں کو مضبوط کردیا جاتا۔تو آج صورتحال مختلف ہوتی، اور انتظامیہ دباؤ کی کیفیت میں نہ ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں یہ روایت قائم ہوچکی ہے کہ جب سیلاب مختلف علاقوں کو ڈبونا شروع کرتا ہے تو انتظامیہ ہنگامی اقدامات پر غور شروع کرتی ہے۔ اس دوران خواہ کسی کی فصلیں ڈوب جائیں یا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہو۔
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2005 میں مشرف دور میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ انتخابات 2009 میں منعقد ہونے تھے، لیکن 2008 کے عام انتخابات میں جو سیاسی جماعتیں جیت کر آئیں ان کے منشور میں شاید اقتدار کی نچلے سطح پر منتقلی شامل نہیں تھی۔ لہٰذا آج تک یہ انٹخابات نہیں ہوسکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کراکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا آئین کی تقاضا ہے۔ آئین کی پاسداری کے دعویداروں نے جب جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اختیارات کو اپنے پاس ہی قید رکھا۔ نتیجے میں بعض لوگوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں جمہوریت کے دعویدار ان انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ کئی مرتبہ عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومتوں سے شیڈیول طلب کیا۔ لیکن ہر شنوائی پر ایک نیا بہانہ بنا کر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ نتیجے میں سپریم کورٹ کو ہی شیڈیول جاری کرنا پڑااور انتخابات کی تاریخ دینی پڑی۔
ایک بار پھر صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن گٹھ جوڑ کر کے سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے امدادی کاموں کا بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار کو عام لوگوں کی حالت پر رحم کر کے بلدیاتی انتخابات کرا دینے چاہئے۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ قدرتی آفات دیگر ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں کی حکومتیں متاثرین کی نہ صرف بروقت مدد کرتی ہیں بلکہ ان کی تب تک مدد کی جاتی ہے جب تک وہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ ہمارے پس صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان قدرتی آفات کے آنے سے پہلے کوئی پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ یہ آفات کا طوفان اپنے گہرے نقش اور ایک طویل خاموشی چھوڑ جاتا ہے۔اس کے بعد حکمران فضائی دورے کر کے ان تباہیوں کے منظر دیکھنے آتے ہیں۔ اور متاثرین کو چند روپوں کے چیک دے کر اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھتے ہیں۔
سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ قابل دید ہے۔ ایک طرف سیلاب کا پانی ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن صوبائی انتظامیہ اس کو ’’بڑا‘‘ خطرہ نہیں سمجھتی۔ لیکن جو مصیبت صوبائی حکومت کی نظر میں چوھٹی ہے اس نے بھی لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف کچے کے باسی یں جہاں حکومت کے کچے اقدامات نے انہیں در بدر کردیا ہے۔ وہ لوگ انتظامیہ کی عدم توجہگی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب صوبے کے اکثر شہروں میں بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہوسکی ہے۔ ان شہروں میں روڈ ، گلیاں بازاریں زیر آب ہیں۔ شہری زندگی اور کاروبار معطل اور مفلوج ہے۔ گٹر کا پانی شہروں کو جہیلوں میں تبدیل کر چکا ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا امکان ہے۔ بدین ضلع میں سیم نالوں کے پانی چڑھنے سے دیہی علاقوں میں لوگ مصیبت میں آگئے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی یا اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو تباہی سیلاب اور بارشیں کرتی ہیں اسے زیادہ تباہی ادھورے اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حکمران فضائی جائزے لینے کے بجائے زمینی حقائق دیکھیں اور موثر اقدامات کے بارے میں حکمت عملی بنائیں۔
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ قومی احتساب بیورو ایک طویل ہائبرنیشن نے بعد سرگرم ہوا ہے۔ اس نے بعض میگا کرپشن کیس ظاہر کئے ہیں۔ تازہ رپورٹ میں 480 ارب روپے کے 29 کیس سامنے آئے ہیں۔ جن کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ جس میں مالی بیقاعدگیوں، زمین کی فروخت کے ذریعے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تفصیلات سامنےّ ئی ہیں۔
سندھ میں گزشتہ سات سالہ دور حکمرانی میں مفاہمت کامظاہرہ کیا گیا جس سے جرائم پیشہ، لوگ، دہشتگرد، اشتہاری مجرم، کرپٹ نوکر شاہی، اور ان کے سیاسی اور انتظامی سرپرست مستفیض ہوئے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا مفہوم تبدیل کر کے اداروں سے انتقام لیا گیا۔ حکمرانی دراصل اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ اداروں کا قبرستان بن چکا ہے۔

دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟
سندھ نامہ۔۔۔ سہیل سانگی 
 July 24, 2015
’’دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟ ‘‘کے عنوان سے ’’روزنامہ عبرت‘‘ اداریے میں رقمطرازہے کہ دبئی میں منعقدہ پیپلزپارٹی کے اجلاس کو نہایت ہی اہمیت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے پارٹی سے متعلقہ لوگوں پر کرپشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ جا کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ پنجاب سے بعض اہم رہنما پارٹی سے مایوس ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ سندھ میں بھی بڑی مایوسی کی فضا پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سات سال کے دوران پارٹی کی جو کارکردگی رہی ہے اس نے پارٹی اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ ترقیاتی حوالے سے بھی سندھ باقی صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دو ادوار کے دوران امن امان کی صورتحال یہ رہی ہے کہ خوف کے مارے لوگوں کی سانس بندہورہی تھی۔ لیکن حکومت کی توجہ اس طرف نہیں جارہی تھی۔ شاہراہوں پر سفر کرناکانوائے کے بغیر چلنا محال ہوگیا تھا۔ ایسے میں اگر وفاق تحرک نہیں لیتا ، بعض فرض شناس پولیس افسران کو سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات نہیں کرتا ، تو آج صورتحال مزید خراب ہوتی۔ اس لاپروائی کے رویے نے عام لوگوں کو پیپزلپارٹی سے دور کر دیا ہے۔ ایسے میں بلدیاتی انتخابات پارٹی کو امتحان میں ڈال سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے کابینہ میں ردوبدل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ تب تک سودمند ثابت نہیں ہو سکتا جب تک مجموعی طور پر حکومت سے متعلق حضرات بشمول وزراء کے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام نہیں کریں گے۔
پارٹی کی حکومت کے دو ادوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قیادت خواہ وزراء اورفسران تک عوام کو بھلا کر خود کو بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جب ملک خاص طور پر سندھ میں سیلاب کے امکانات بتائے جارہے ہیں، فوج کو الرٹ کیا جا چکا ہے، ایسے میں حکومت سندھ کے ذمہ داران اگر دبئی میں اجلاس منعقد کریں تو اس پر تنقید تو ہوگی۔ اگر پیپلزپارٹی عوام کے لئے واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو ابھی بھی وقت مکمل طور پر ہاتھوں سے نہیں نکلا ہے۔ اب بھی پارٹی سچائی اور عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ میدان میں آئے۔ تو سندھ کے عوام جس نے پیپلز پارٹی کا برے دنوں میں ساتھ دیا ہے وہ ایک بار پھر ساتھ نبھانے کے لئے تیار ہو جائے۔ اگر اس مرتبہ بھی حکومت سندھ نے روایتی روش اختیار کی تو آنے والا وقت پیپلزپارٹی کے لئے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سیلاب کا پانی سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں گھوٹکی اور کشمور کے کچے کا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ لاکھوں لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں ۔ ہزرہا ایکڑ پر کھڑی فصلیں ڈوب چکی ہیں۔ صوبائی سیکریٹری آبپاشی نے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ سندھ میں مون سون بارشیں سیلاب کی خطرناک صورتحال پیدا کر سکتی ہیں۔ ہر سال ملک سیلاب کی لپیٹ میں آتا ہے ۔ جہاں ایک سال کی تباہی کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہاں سے دوسرے سال کی تباہی شروع ہوجاتی ہے۔ بحالی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ صرف بیمار ذہن بیوروکریسی اور منتظمین کی بحالی ہی نظر آتی ہے۔ قدرتی آفات دوسرے ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں پر بہتر انتظامات کے ذریعے اس کے تباہ کن اثرات کو کم کیا جاتا ہے ۔ سندھ میں سیلاب منتظمین اور کرپٹ افسران کے لئے منافع بخش سیزن کے طور پر ہوتا ہے۔ کسی بھی نقصان کو کم کرنے کے لئے اس کے اسباب کو ختم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ حفاظتی پشتوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے اور نہ ہی مرمت۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ملک بھر میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ ماضی کے دو سیلابوں کی وجہ سے سیلاب کا خوف خاص طور پر سندھ کے لوگوں کے ذہنوں میں بری طرح سے بیٹھ چکا ہے۔ اب جیسے ہی سیلاب کے امکانات بتائے جاتے ہیں تو سندھ کے لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سیلاب کا پانی ان کے جینے کے وسائل نہ بہا کر لے جائے۔ سندھ کے لوگوں نے دو سپر سیلابوں کو بھگتا ہے، انہیں دربدر اور بے گھر ہونا پڑا تھا۔ تمام سندھ کیمپ کا سماں بنی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس مرتبہ پانی کا مقدار کزشتہ برسوں کے سیلاب سے کم بتایا جاتا ہے۔ لیکن گلیشر کے پگھلنے یا سلیمانکی پہاڑی سلسلے میں زوردار بارشوں کے نتیجے میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ سندھ میں دریا کا پانی کچے میں داخل ہوچکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرے۔ اور سیلاب کا پانی گزر جانے تک انہیں صرف کیمپوں میں بند کر کے رکھنے کے بجائے ان کی عملی مدد کرے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ 2010 کے تلخ تجربے کے باوجود دریائے سندھ کے حفاظتی پشتوں کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ صوبائی خواہ وفاقی بجٹ میں حفاظتی پشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے مختص کی گئی رقم تاحال صوبائی محکمہ آبپاشی کو جاری نہیں کی گئی ہے ۔ یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ گزشتہ دو سیلابوں کے دوران انتظامی نااہلی نے سندھ کو ڈبویا تھا۔ اس مرتبہ حکومت کو ان تمام تلخ تجربوں کی روشنی میں موثر، ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔