Sunday, January 10, 2016

تھر میں پھر بچوں کی اموات : حکومت کی بے حسی

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

تھر میں پھر بچوں کی اموات : حکومت کی بے حسی
سندھ نامہ سہیل سانگی
صحرائی خطہ تھر ایک بار پھر میڈیا میں فوکس ہو رہا ہے۔ جہاں پر گزشتہ تین سال سے مسلسل قحط ہے۔ لیکن سندھ حکومت اس قحط کو ماننے اور عملی اقدات کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں تک کہ کوئی بنیادی ترقیاتی کام بھی شروع نہیں کر سکی ہے جس سے لوگوں کو متبادل روز گار مل سکے۔ قحط کی وجہ سے غذائیت ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے اور اس کا شکار معصوم بچے ہو رہے ہیں۔ روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ ایک بار پھر تھر سے معصوم بچوں کی اموات کی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں۔ ان خبروں کے مطابق گزشتہ چھ روز کے دوران اس خشک اور مسلسل قحط کی لپیٹ میں آنے والے ضلع میں بیس بچے اجل کا شکار ہو چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے جو کہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہو سکی ہے۔ 

حکومت سندھ کی جانب سے ا س مرتبہ کا نوٹس لینے سے قبل حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے صوبائی وزیر خوراک اور مشیر برائے اطلاعات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جو کہ قحط زدہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہیں رپورٹ پیش کرے گی۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مثبت بات ہے کہ اٹھتے ہی معاملے کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ سال وزیراعلیٰ سندھ نے تھر کے معاملے کو جس طرح سے مذاق بنایا تھا وہ آج تک سندھ کے لوگوں کو یاد ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اورحکومت کے ذمہ داران نے ایوان میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے تھر کے باشندوں کے لئے ایسے ناخوشگوار الفاظ استعمال کئے۔ جس پر تھر کے لوگوں کو رنج ہوا جبکہ دوسرے صوبوں کے باشندے بھی حیران رہ گئے۔ کہ صوبے کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اتنے بھی بے حس ہوتے ہیں کہ معصوم بچوں کی ماوات پر غمزدہ ہونے کے بجائے انہیں مذاق کی سوجھ رہی ہے۔ 

 حکومت سندھ شروع سے ہی معاملہ فہمی سے محروم رہی ہے۔ اس نے اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لئے جو راہ فرار اختیار کی ہے جس سے اس کی ساکھ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ رسوائی بھی ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ پونے آٹھ سال کے دور حکمرانی میں سندھ کے عوام کو ایک لمحے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ شہید بینظیر بھٹو کی شہادت کے عوض ملنے والی حکومت کو عوام کے دکھ درد کا احساس ہے۔ اس نے ہمیشہ پانے اقتدار کو ہی ترجیح دی ہے اور اپنے اتحادیوں کو راضی رکھنے کے لئے ہر قدم اٹھاتی رہی ہے۔ چاہے وہ قدم سندھ کے عوام کی منشا کے خلاف کیوں نہ ہو۔ اس کی ایک مثال سندھ کو انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ تھا۔ 

صرف اتنا ہی نہیں، افغانستان اور سوات سے آنے والے پناہ گزینوں کے لئے پانی دلوں کے دروازے کھول رکھے تھے۔ لیکن سندھ کے سیلاب زدگان جب محفوظ مقام کی تلاش میں اپنے ہی دارلحکومت کے شہر پہنچے تو انہیں گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ وہ واپس اپنے تباہ شدہ زیر آب علاقوں کی طرف چلے جائیں۔ ان تمام شکایات کے باوجود سندھ کا آدمی اس پارٹی سے خود کو جوڑے ہوئے ہے۔ کیونکہ کسی اور طرف انہیں ویرانہ ہی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت انہیں بے یار و مددگار سمجھتی ہے اور انہیں مناسب اور مثبت ردعمل نہیں دیتی۔ 

اگر حکومت کی نظر میں یہاں کے عوام کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو تھر کی ماﺅں کی جھولیاں یوں خالی نہیں ہوتی رہتی ۔ حالت یہ ہے کہ خود وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع کے سول ہسپتال میں ٹیکنیکل اسٹاف ، ادویات ار دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔ تعجب ہے کہ حکمرانوں کی پیشانی پر کوئی پریشانی ہی نظر نہیں آتی۔ 

 ہم سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے تھر کے حالات کا نوٹس لیا ہے یہ بات نوٹس لینے سے آگے بھی بڑھے گی۔ 

 راہداری منصوبے پر صوبوں کے تحفظات کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ قومی اسمبلی میں پاوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حکومت پر آئین، پارلیمنٹ اور صوبوں کو نظرانداز کرنے کے اعتراضات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اگر آئین کی خلاف ورزی جاری رکھی تو یہ سب سے بڑی دشمنی ہوگی۔ان کاکہنا تھا کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے ۔ خیبرپختونخوا اور سندھ کے کئی معاملات وفاق کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں ۔ دوسرے صوبوں کو بھی تحفظات ہیں۔ 

صوبوں کے حقوق کے لئے آئین میں مشترکہ مفادات کونسل کی شقیں رکھی گئی ہیں لیکن حکومت صرف آئین کی ان شقوں پر عمل کرتی ہے جو صرف اس کے اپنے مفاد میں ہوتی ہیں ۔ سندھ کو وفاق سے ناراجگی ہے۔ خیبر پختونخوا بھی اس سے خوش نہیں ۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ راہداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ وفاق پنجاب کی ترقی کو قومی ترقی سمجھ رہا ہے ۔ اگر حقوق نہیں ملے تو اس اقتصادی راہداری کو صوبے سے گزرنے نہیں دیں گے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال خیبر پختونخوا کے خدشات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔

 اربوں روپپے کی مالیت سے بننے والی اس راہداری پر اب تک سب سے زیادہ خدشات کا اظہار خیبرپختونخوا نے کیا ہے ۔ لیکن تاحال وفاق اس صوبے کو مطمئن نہیں کرسکا ہے۔ 

راہداری منصوبے سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی جس میں مختلف پارٹیوں نے اپنے صوبوں کے حوالے سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا تھا۔ جن کو دور کرنے کے لئے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔

 وفاق سے سندھ کی رنجشوں کی خبریں بھی مسلسل میڈیا میں آرہی ہیں۔ فی الحال ان رنجشوں میں گرما گرمی کچھ کم ہوئی ہے لیکن اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی قومی اسمبلی میں اس تقریر سے عیاں ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کے وفاق کے ساتھ معاملات مکمل طور ٹھیک نہیں ہو پائے ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوے بہت خود مختار اور بااختیار نظر آتے ہیں ، لیکن حقیقت میں اور عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اس ترمیم پر عمل درآمد کے لئے ابھی تک بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ترقی کے امور ہوں یا وسائل کی تقسیم کے معاملات صوبوں کی رائے کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ 

Friday, January 1, 2016

وزیر اعظم !سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
 وزیر اعظم !سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے 

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

 وفاق کی جانب سے رینجرز کو اختیارات دینے پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے رواں ہفتے اخبارات کا موضوع رہے۔ ا موضوع پر کلام ، اداریے اور تجزیے شایع ہوتے رہے۔ سندھ کی میڈیا اگرچہ کراچی میں جاری آپریشن کے حق یں ہے لیکن اس ضمن میں وہ وفاقی حکومت کے اس رویے کے حق میں نہیں کہ اسمبلی کی قرارداد کو ایک طرف رکھ کر وفاق اپنی من مانی کرے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ یہ بات مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کی جاسکتی تھی۔ لیکن اسمبلی کی قراداد کے برعکس وفاق کی جانب سے رینجرز کو اختیارات دینے کا نوٹیفکیشن نکالنا کوئی مثبت پیغام نہیں۔ 

اخبارات نے کراچی ایئر پورٹ پر وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ وزیر اعظم کے رویے کو بھی ناخوشگوار قرار دیا ہے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ اس طرح سے جمہوری نظام میں معاملات نہیں چلائے جاسکتے۔ اور یہ بھی رائے دی ہے کہ اس انداز سے خود آپریشن کے معاملات کو بہتر انداز میں نہیں چلایا جاسکتا۔ اس عمل کو اخبارات نے صوبے اور وفاق کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے قرار دیا ہے۔ 

 ”وزیر اعظم !سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے“ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ جناب وزیر اعظم! صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم تخاطب کا بارہر است طریقہ اختیار کریں۔ جانب! سندھ کی منتخب حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان رینجرز کے اختیارات پر تکرار چل رہا ہے۔ جس میں آپ کی حکومت کے اگلے مورچے پر وزیر داخلا چوہری نثار علی خان تمام آپشنز سے لیس کھڑے ہیں ۔سندھ کے لوگ ان کے الفاظ زہر سے بھری برچھیوں کی طرح سندھ کے مینڈیٹ کے سینے سے آرپار ہوتے محسوس کرتے ہیں۔ 

دوسری جانب صوبائی حکومت اسمبلی کی قرارداد کے بعد یہ موقف اختیار کئے ہوئے کہ ہم تو ڈوبیں گے صنم مگر تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ سیاسی” سانڈوں“ کی اس لڑائی میں ایک طرف سنھد کے عوام اور ان کا مینڈیٹ کچلا جارہا ہے تو دوسری طرف سسٹم کے لئے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں ۔ جناب وزیر اعظم! طویل آمریت کے بعد جب ملک میں جمہوریت کا سورج طلو ع ہوا تودونوں بڑی جماعتوں کے درمیان آٹھ مارچ کو ”مری ڈکلیئریشن“ ہوا۔ جسے بھوربن معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں اس معاہدے کی پاسداری نہیں ہو سکی اور دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے۔ اس معاہدے کی عدم پاسداری نے غیر جمہوری قوتوں کو موقعہ دیا اور انہیں مضبوط کیا۔ 

 کشیدہ صورتحال کو جواز بنا کر سندھ میں کسی مہم جوئی کی کوشش کی گئی تویہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک کسی ایسی غلطی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس تناظر میں جہاں رودالیاں (پیشہ ور رونے والیاں)متحرک ہوگئی ہیں اور چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ وہاں گورنر رج اور ایمرجنسی سمیت وفاق کی زنبیل میں جتنے بھی منفی آپشنز ہیں وہ سندھ پر آزمانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ 

سندھ خواہ وفاقی حکومت کے پاس اپنے اقدامات کی اپنی اپنی تاویلیں اور تشریحات ہیں۔ لیکن سسٹم کو بچانا کسی کی بھی ترجیح نہیں۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو سیاسی شہید ہونے کا شوق ہو سکتا ہے۔ جبکہ وفاق اپنی ہی ایک وحدت کو فتح کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ 

 جناب وزیر اعظم! دہشتگردی، بھتہ خوری ٹارکیٹ کلنگ، اور لینڈ مافیا سمیت مختلف جرائم کے خلاف رینجرز کے کرادر کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کای جاسکتا کہ کسی جنگ میں جب پرجوش سپاہ اپنے سالار کو نظرانداز ک دے تو اس افراتفری کی جنگ میں اس جنگ کو فتح تک لے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ہر قانون ، قاعدہ اور اصول سپاہ کے بوٹون تلے کچل دیا جاتا ہے۔ 

 جناب وزیر اعظم اس سیاسی ” عظیم جنگ“ میں معاملات کو حل کرنے کے لئے اب تک آپ کا کردار دیکھنے میں کم ہی آیا۔ ہم سیاسی اناﺅں کی اس ایوریسٹ سر کنے کے اس مقابلے میں آپ سے سیاسی تدبر کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر آپ کسی مجبوری کے باعث بادشاہی فیصلے کرنے کی طرف مائل ہیں تو سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے۔ 

”روزنامہ عبرت“ پیپلز پارٹی پارلیامینٹرین کے نئے صدر کے انتخاب اور پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے تنظیمی حوالے سے کئے گئے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جرنل ضیا سے لیکر مشرف کی آمریت تک جمہوریت کی بحالی کے لئے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جدوجہد اور قربانیوں پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔لیکن اب عوام ایسے رہنماﺅں سے محروم ہے۔

پیپلزپارٹی کا منشور دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بہترین ہے اور غریب طبقے لئے لئے پرکشش ہے۔ لیکن اس کا فائدہ عوام کو تب مل سکتا ہے ، جب ایسے رہنما موجود ہوں اس لئے ایسے رہنما سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے جو عوام کے درمیان رہ کر ان کے مسائل سمجھ سکیں اور انہیں حل کر سکیں۔ عوام اور کسی سیاسی جماعت کے درمیان جب فاصلے بڑھ جاتے ہیں تو اسکا فائدہ تیسری قوت کو ہوتا ہے۔ اور یہ قوت خلاءپر کر دیتی ہے۔ 

 گزشتہ انتخابات اور بعد میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تنظیمی طور پر بڑا نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب میں اس کا ووٹ بینک کم ہوتا نظر آیا۔جو پارٹی کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ وہاں جو جگہ پیپلزپارٹی کو ملنی چاہئے تھی وہ تحریک انصاف نے لے لی اور اپنا
 ووٹ بینک بنا لیا۔ یوں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں کمی آئی۔ پنجاب کی موجودہ صورتحال سے لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کے ووٹ بینک میں مزید کمی آئے گی۔ 

 اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پنجاب میں پارٹی کی از سرنو تنظیم سازی کی جائے، جو پارٹی کو دوبارہ اس اٹھان کی طرف لے جائیں جو اس صوبے میں ایک عرصے تک رہی ہے۔ 

Jan 2, 2015 
Nai Baat

ینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
 سندھ میں رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا معاملہ پورا ہفتہ میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہا۔رینجرز اگرچہ صوابئی حکومت کے کہنے پر دارلحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے تعینات ہے جسے پولیس کی مدد کے لئے ملک کے اس معاشی حب میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔ لیکن کراچی میں موجودہ نواز شریف حکومت کے دور میں آپریشن کرنے کے لئے اس کوکو رواں سال جولائی میں پولیسنگ کے اختیارات چار ماہ کے لئے دیئے گئے تھے۔ جس کی مدت چھ جولائی کو ختم ہو گئی تھی۔ 

کراچی آپریشن میں بڑی کامیابیاں حاصؒ ہوئیں جس کا اعتراف صوبائی خواہ وفاقی دونوں حکومتیں کر رہی ہیں ۔ رینجرز اور وفاقی حکومت کا خیال تھا جو کہ بعد میں دباﺅ کی صورت میں بھی ظاہر ہوا کہ رینجرز کے ان خصوصی اختیارات میں مزید توسیع کردی جائے۔ صوبائی حکومت کو اس ضمن میں بعض تحفظات تھے کہ رینجرز اپنے میڈیٹ اور حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ جس سے سویلین اتھارٹی میں مداخلت ہو رہی ہے۔ 

یہ معاملہ اس وجہ سے بھی پیش آیا کہ رینجرز نے کرپشن کے بعض کیسز میں ہاتھ ڈالنا شروع کر دیئے تھے۔ اس میں بعض حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے لوگ بھی ملوث ہو رہے تھے۔ اخبارات میں ہفتے بھر تک اس معاملے کے مختلف پہلوﺅں پر بحث اور اراءشایع ہوتی رہی۔ زیادہ تر اخبارات کا خیال یہ تھا کہ رینجرز کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں انہی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ 

اور دہشتگردوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کے معاملات کو دیکھنا چاہئے۔ کرپشن کی شکایات ہیں لیکن اس کے لئے صوبے خواہ وفاق میں ایسے ادار موجود ہیں ان کو ی کام کرنا چاہئے۔ دہشتگردی وغیرہ اور وہائیٹ کالر کرائیم کو الگ الگ سے ڈیل کرنا چاہئے۔ ایسا نہ کیا گیا تو خود آپریشن متاثر ہوگا۔ 

صوبائی حکومت پر جب یہ دباﺅ بڑھا تو وہ اس معاملے کو صوبائی اسمبلی میں لے گئی، جہاں رینجرز کو مشروط اختیارات دینے کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس قراداد اور صوبائی حکومت کے فیصلے سے وفاقی وزیر داخلا خوش نہیں ہیں۔ مشروط قراراد جس میں قانون نافذ کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کے اختیارات گھٹا دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ کہ بعض معاملات میں رینجرز کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا ہے اور اسے صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ اخبارات کا کہنا ہے کہ بنیادی اتھارٹی صوبائی حکومت کی ہے اور اسی نے رینجرز کو بلایا ہے اور مشروط طور پر اختیارات دیئے ہیں، جس کی صوبائی اسمبلی نے توثیق بھی کی ہے۔ لہٰذا اس کی قراداد اور فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ 

گزشتہ دنوں بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران سانگھڑ میں ہونے والے تصادم اور اس کے نتیجے میں چار افراد کا قتل ہوا۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس سانگھڑ سانحہ اور انتظامیہ کی نااہلی کے عنوان سے لکھتا ہے کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سانگھڑ کی انتخابی مہم کے دوران چار انسانی جانیں ضیائع ہو گئیں ۔ ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں ضعل خیرپور کے درازا پولگ اسٹیشن پر 12 افراد قتل ہوگئے تھے۔

 خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بھی اس طرح کی خون ریزی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا سانگھڑ میں انتخابات ملتوی کرکے 17 دسمبر کو کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن پولنگ سے دو روز قبل کے واقعہ میں چار افراد کی قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ خبروں کے مطابق دو مخالف جماعتوں کی رییاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئیں بات نعرے بازی سے شروع ہوئی اور پتھاﺅ اور ہوائی فائرنگ کے بعد ایک دوسرے پر براہ راست فائرنگ تک چلی گئی۔ 

 سانگھڑ ضلع میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ناتظامیہ کی نااہلی ثابت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہامری سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کی بھی چغلی لگاتا ہے ۔ ہمارے جیسے ملک جہاں ابھی جمہوریت کے پاﺅں پختے نہیں ہوئے ہیں وہاں اس طرح کے واقعات ذاتی دشمنیوں کا باعث بن جاتے ہیں جو بعد میں نسل در نسل چلتی ہیں ۔

 یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اختلااف رائے اور مخلتف نقطہ نظر کو ذاتی دشمنی سمجھتے ہیں۔ ہم دلیل کے بجائے بندوق کی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں۔ اپنے مخالف کو دلائل کے ذرعیے قائل کرنے کے بجائے بندوق کے ذریعے ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیتے ہیں۔ ہم جو ابھی تک قبیلوں ، بردریوں اور ذات پات میں بٹے ہوئے ہپیں وہ اپنی جھولی میں جمہوریت کے لئے جگہ نہیں بنا پائے ہیں۔ اس ضمن میں انتظامیہ سے سخت پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت ہے اور ان اقدامات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ جو سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے وہ ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہ ہو جائے۔ 
 روازنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سنیٹ کی فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی میں بتایا گیا کہ سندھ کے کاشتکار گنے کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو صحیح قیمتیں نہ دینا حکومت سندھ کی بے ایمانی ہے اور اس ضمن میں مشترکہ مفادات کی کونسل مطلوبہ کردار ادا نہ کر سکی ہے۔ 

گنا ہو یا کپاس یا دھان کی فصل جب پک جاتے ہیں تو قیمتیں گرا دی جاتی ہیں نتیجے میں کاشکاروں کو اپنے فصل کی صحیح قیمتیں نہیں مل پاتیں۔ حال ہی میں دیر سے ہی صحیح ھکومت نے گنے کی قیمت مقرر کی لیکن اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے ۔ اس ضمن میں چند روز قبل کاشکاروں نے سندھ کے دارلحکومت میں ویزر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے مظاہر کیا تھا جن پر لاٹھیاں برسائی گئیںس۔ 

سندھ میں زراعت کے کمزور ہونے اور دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فصلوں کی قیمتیں صحیح نہیں ملتی اور وقت پر فصل نہیں اٹحائے جاتے۔ بظاہر یہ صوبائی معاملہ ہے لیکن غربت اور فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے ملکی معمالہ بھی ہے جس کے لئے صوبوں کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت کو موثر اور قابل عمل قبول پالیسی بنانے کی ضرورت ہے
Dec 18, 2015

وزیراعظم نواز شریف کراچی مین



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی 
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے گورنر ہاﺅس کراچی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن کی صورتحال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قیام امن کے بعد کراچی میں کاروباری سرگرمیوں اضافہ ہوا ہے۔غیر سرمایہ کار بھی کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔ انہوں نے تمام اداروں کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ یہ آپریشن سات آٹھ سال پہلے ہونا چاہئے تھا۔

 اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں 2688 مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ 66 مقدمات کا فیصلہ
 نومبر میں سنایا جا چکا ہے جن میں سے 30 ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں اور باقی کو بری کردیا گیا۔ اس اجلاس سے ایک روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق سے یہ شکایت کی کہ کراچی مین آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے آپریشن کے لئے فنڈ مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار وفاق سے بیس ارب روپے مہیا کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بحالت مجبوری سندھ حکومت نے اپنے ترقیاتی فنڈ میں سے کٹوتی کر کے آپریشن پر یہ رقم لگائی۔ رینجرز کو اختیارات اس لئے نہیں دیئے گئے کیونکہ یہ صوبائی معاملات میں مداخلت ہوگی۔ 

کراچی میں امن سے ملکی ترقی وابستہ ہے۔ اگر وہاں پر ایک روز بھی کاروبار بند ہوتا ہے تو ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ آج ہم جس زوال سے گزر رہے ہیں اس کی بڑی وجہ طویل عرصے تک کراچی کا دہشتگردی سے متاثر ہونا ہے۔ کراچی میں اگر امن ہوتا اور وہاں کی رونقیں اور روشنیاں بحال ہوتیں تو دنیا کے کئی ممالک کے سرمایہ کار یہاں پر سرمایہ کاری کر چکے ہوتے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ماضی میں سیاسی انائیں آڑے آتی رہیں۔ یہاں کے امن کو اتنا بگاڑ دیا کہ نہ یہاں کے شہری سکھ کی سانس لے پائے اور نہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاری ہو سکی۔ نتیجے میں کراچی کی آبادی کروڑوں میں بڑھی لیکن سرمایہ کاری کا عمل سست پڑ گیا۔ 

 دیر آید درست آید۔ حکومت کو کراچی کی حالت پر رحم آیا۔ کئی برسوں سے یہاں تعینات رینجرز کو فعال کردار ادا کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اور اس نے اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر سچائی پر آجائیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ 

مذکورہ اجلاس کی اس وجہ سے بھی اہمیت ہے کہ سندھ اور وفاقی حکومتوں کے درمیان رینجرز کو پولیس کے اختیارات دینے کے اشو پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وفاق سندھ سے رینجرز واپس بلانے کی بھی دھمکی دے چکا ہے۔ دراصل یہ دھمکی ایسی ہے کہ اگر سندھ حکومت چاہے تو بھی رینجرز کو صوبے سے نہیں ہٹایاجاسکتا۔ کیونکہ گزشتہ برسوں میں کئی احتجاجوں کے باوجود ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا۔ ایسے حالات میں اس دھمکی کا مقصد رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن حقیقت کا روپ نہیں لے سکتا۔

 ہم تمام فریقین کو مشورہ دیں گے کہ کراچی میں قیام امن کے لئے تمام سیاسی انائیں ایک طرف رکھ کر ملک کے معاشی حب میں روشنیاں بحال کی جائیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کی شکایات کا بھی ازالہ کرنا از حد ضروری ہے۔ 

 روزنامہ کاوش نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ” کامیابی کے بعد کارکردگی دکھانے کی ضرورت“ کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ کئی تضادات، تنازعات، کے بعد بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں میئر کا عہدہ متحدہ قومی موومنٹ کو اور ضلع کونسل کی چیئرمنی کا عہدہ پیپلزپارٹی کو ملے گا۔

 پنجاب میں نواز لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔ سندھ کے دیگر اضلاع میں پیپلزپارٹی اکثریت سے جیتی ہے۔ کراچی معیشت کے حوالے ملک کا اہم شہر ہے۔ اس شہر کی ترقی اور سرمایہ کاری میں دہشتگردی رکاوٹ بنی رہی ہے۔اس شہر میں اب ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ شہر کی قدیم بستیوں کو سیاسی بنیادوں پر نظر نداز کیا جاتا رہا۔ اب اس سوچ اور اس سلسلے کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ کراچی کا میئر خواہ کسی بھی پارٹی کا آئے یہ اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ شہر کے مختلف علاقوں میں بلا تفریق ترقیاتی کام کرائے۔ 

 سندھ کے باقی اضلاع میں پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی ہے۔ سندھ میں یہ جماعت کزشتہ سات سال سے حکومت میں ہے۔ شہروں اور قصبوں کی حالت کا اگر کارکردگی سے موازنہ کیا جائے ، یہ کسی طور پر بھی قابل تعریف نہیں۔ آج سندھ کے شہر کھنڈر اور دیہات اجڑے ہوئے ہیں۔سڑکیں تباہ، اور ڈرینینج ناکارہ ہے۔پینے کے پانی کی لائنیں گٹر سے مل رہی ہیں۔ صفائی کا کوئی بندوبست نہیں۔ لوگ اپنے سائل لے کر پہنچتے ہیں تو ان کا حل تو درکنار ان فریاد سنی بھی نہیں جاتی۔ لہٰذا لوگوں کو سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا پڑتا ہے۔

 اگر شہری سہولیات فراہم کرنے والے ادارے وقت پر اور موثر انداز میں اپنا کام کریں تو یہ ادارے عوام کی سہولت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اور عوام کو سڑکوں پر آنا نہیں پڑے گا۔ جو لوگ بلدیاتی انتخاب جیت کر ان اداروں کے سربراہ بنے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ گزشتہ آتھ سال میں جو کسر رہ گئی ہے اس کو پورا کریں۔ 

Jan 10, 2015