Monday, August 21, 2017

محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا بازار تو نہیں لگے گا؟ ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا بازار تو نہیں لگے گا؟

سندھ نامہ   سہیل سانگی
’’محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا بازار تو نہیں لگے گا؟ ‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں ، عوام کو میرٹ پر ملازمتیں دینے کا لولی پاپ دیا جاتا ہے۔ پھر ملازمتیں فروخت کرنے کی کئی دکانیں لگ جاتی ہیں۔ متعدد جعلی تقرر نامے جاری کردیئے جاتے ہیں ۔ میرٹ کے بجائے نالائق نوازی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ حکمرانوں کی اس سرگرمی کا زیادہ تر حصہ انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا میرٹ پر عمل کرنے کی لاچاری حکمرانوں کو کبھی بھی نہیں ہوتی۔ ایک بار پھر محکمہ تعلیم میں تدریسی و غیر تدریسی اسامیوں پر بھرتی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور امیدواروں کی سلیکشن کے لئے آئی بی اے سکھر کے ذریعے ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ تعلیمی صلاحیتوں کی شرائط وغیرہ کا اعلان صوبائی حکموت پہلے ہی کر چکی ہے۔ لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اعلان کردہ اہلیت کا معیار ہی برقرار رہے گا یا اس میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔

سندھ میں گزشتہ 9 سال کے دوران بڑے پیمانے پر ملازمتیں دی گئیں۔ جس طرح سے ملازمتوں کا بازار سجایا گیا ، جعلی آرڈر جاری کئے گئے ، اس کی تحقیقات ابھی تک جاری ہے۔ تاحال ایسے ہزارہا ملازمتوں کی تنخواہیں بند کردی گئی ہیں، اعلیٰ منتظمین کے کرپشن اور میرٹ کی تباہی کے عمل میں ملوث ہونے کے باوجود چھوٹے ملازمین کو گرفت میں لایا گیا ہے۔ اس مرتبہ بھی تھرڈ پارٹی کت ذریعے ٹیسٹ لینے کے بعد ملازمتیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے محکمہ تعلیم نے پرائمری سے پہلے ’’ ارلی چائلڈ ہوڈ ٹیچرز ‘‘ کی بھرتی کے لئے گریجوئیشن کے ساتھ بی ایڈ، یا انٹمیڈیٹ کے ساتھ ایسوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن ، جونئر ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز کے لئے بی ایس سی، ایم ایس سی، اور اسیوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن، یا ماسٹرس کے ساتھ بی ایڈ یا ایم ایڈ کو لازمی قرا دیا گیا تھا۔ تدریسی عملے کے لئے یہ اہلیت ضروری بھی ہے۔ اب سکول کیا ساتذہ کو ٹائیم اسکیل کے تحت تمام فوائد دیئے گئے ہیں۔ لہٰذا مقرر کردہ اہلیت میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیم تباہ ہے۔ ہزارہا اسکول بند ہیں۔ حال ہی میں محکمہ تعلیم کے ریفرمز یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ بعض چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ہیں لیکن ایک پہلو ابھی تک سامنے نہیں آیا، وہ ہے معیار تعلیم۔
ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں سفارش، پیسوں کے عوض بھرتی، میرٹ کو نظر انداز کرنے سے سرکاری شعبے میں تعلیم کی تباہی ہوئی ہے۔ مختلف اداروں میں اعلیٰ منصب پر فائز افسران حکمرانوں کے سیاسی ایجنڈا پر عمل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی ایجنڈا کی تکمیل میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ اس دوطرفہ دباؤ کے باعث بڑا نقصان ہوا ہے۔ ماضی میں بعض اداروں کے ذریعے ٹیسٹ کے ذریعے بھرتیاں کی گئی، اس کے باوجود یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ افسران نے ٹیسٹ کے نتائج کو ایک طرف رکھ کر مرضی چلائی، اس مرتبہ کم از کم ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ کم از کم تدریسی عملے کی بھرتیوں کے لئے سختی سے میرٹ پر عمل کرنا چاہئے۔ اگرچہ محکمہ تعلیم میں گئی اسامیاں خالی ہیں لیکن اعلان گیارہ ہزار اسامیوں کا کیا گیا ہے۔ یہ بھرتیان کس طرح سے ہونگی اس ضمن میں تاحال واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ کیا یہ بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہونگی اور منتخب نمائندوں کو کوٹا دیا جائے گا؟ حکومت سندھ سے گزارش ہے کہ بھرتیوں میں میرٹ پر سختی سے عمل کیا جائے۔

سندھ میں بدامنی کی لہر : کوئی سازش تو نہیں؟
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت میں حالیہ تبدیلی کے بعد سندھ میں ایک بار پھر بدامنی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ گزشتہ ہفتہ دس روز کے دوران کراچی میں بینک منیجر کا قتل، دہشتگردوں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی شہادت، انسداد دہشتگردی پولیس کے اہتھوں بعض دہشتگردوں کی مقابلے میں ہلاکت، و گرفتاری کے واقعات بتاتے ہیں کہ سندھ میں دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروایوں میں کچھ کوتاہی یا نقص رہ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی میں اسٹریٹ کرائیم کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ آپریشن کی وجہ سے دہشتگرد اور مجرم وقتی طور پر کسی اور جگہ منتقل ہو گئے ہیں یا کچھ وقت کے لئے اپنی کارروایوں میں انہوں نے وقفہ کیا ہے۔ جیسے ہی حکموت میں تبدیلی یا کسی اعلیٰ افسر کا تبادلہ ہوتا ہے ، یہ اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکل آتے ہیں اور کاررویاں شروع دیتے ہیں۔ اس سائیکل کی وجہ سے شہریوں کی جان اور مال کو خطرہ رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان آجاتا ہے۔

بلاشبہ رینجرز اور سندھ پولیس کی مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی کے ذریعیامن و مان کے لئے بڑا کام ہوا ہے۔ لیکن جب تک قیام امن کو برقرار رکھنے کے لء موثر اور مضبوط حکمت عملی نہیں بنائی جائے گی تب تک سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی میں بدامنی کا مستقل خاتمہ ناممکن ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں، صوبے کے دوسرے شہروں یعنی حیدرآباد، میرپورخاص، شکارپور، اور جیکب آباد وغیرہ میں بھی بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کراچی اور صوبے کے بالائی علاقوں میں جرائم کی نوعیت میں فرق ہے۔ کراچی میں میڈیا ہؤسز ہونے کی وجہ سے جرائم فورا رپورٹ ہو جاتے ہیں۔ لیکن صوبے کے باقی علاقوں میں ہونے والے قتل، ڈکیتیوں، لوٹ مار کے واقعات کو اس طرح سے ہائی لایٹ نہیں کیا جاتا، جس طرح سے کراچی کے واقعات کو کای جاتا ہے۔

سندھ میں حالیہ بدامنی کی لہر لوگوں کی گمشدگیوں کی صورت میں سامنے آئی ہے، جس پر سازش کا شبہ کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے پاس اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی بات کی ہے۔ اور اس معاملے پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اس پر دو رائے نہیں کہ سندھ میں رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں کئی مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے، ایک عرصے تک سکون کے بعد اچانک ایک بار پھر ڈکیٹیوں، لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان وارداتوں کے پیچھے کسی سازش کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس صورتحال پر سندھ کے اہل فکر نظر حلقوں کو گہری تشویش ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسٹیرٹ کرائیم، اغوا، گمشدگیوں اور دیگر اس طرح کے واقعات کے لئے صوبائی حکموت کے ماتحت کام کرنے والی فورسز اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ صوبے میں امن و امان کوئی سودے بازی نہیں ہونی چاہئے۔
August 19, 2017
Sindh Nama, by Sohail Sangi,
Daily Nai Baat,
Sindhi Press

Thursday, August 10, 2017

سندھ کے باسیوں کو میونسپل سروسز کی ضرورت نہیں؟ ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ کے باسیوں کو میونسپل سروسز کی ضرورت نہیں؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’کیا سندھ میں میونسپل سروسز کی ضرورت نہیں‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسل، میونسپل کمیٹیز اور ٹاؤن کمیٹیز کے منظور کردہ اربوں اور کروڑہا روپے کی بجٹ کے اعدا د وشمار سامنے آرہے ہیں۔ دوسری طرف چھوٹے شہروں کی وہ تصاویر جو میڈیا میں آرہی ہیں۔ ان میں ہر تصوی شہروں کی تباہ حالی کی داستان لے کر آرہی ہے۔
سندھ کے تمام چھوٹے بڑے بلدیاتی اداروں کی بجٹ منظور ہو چکے ہیں۔ بجٹ کے اعداد وشمار دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور کروڑہا روپے بجٹ ہونے کے باوجود اس صوبے میں ریاستی اداروں اور شہریوں کے درمیان میونسپل سروسز کے حوالے سے کوئی رابطہ بھی ہے۔ سندھ حکومت کے ریکارڈ میں بھلے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ اور نساسک کے نام موجود ہوں لیکن زمینی حقائق کو اگر دیکھا جائے تو ایسا لگے گا کہ سندھ میں حکومت اور شہریوں کے درمیان میونسپل سروسز نہ دینے اور نہ لینے کا غیر اعلانیہ معاہدہ کیا گیا ہے ۔ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ صوبے کے سب سے بڑے مسئلہ کے طور پر سامنے آیاہے۔ لیکن نکاسی آب سے لیکر شہروں کی صفائی ستھرائی تک کسی بھی شہر میں قابل ذکر انتظام موجود نہیں۔ ہر شہری ریاست کو جن سروسز کے لئے ٹیکس ادا کرتا ہے، ان میں خاص طور پر ریاست کی اہم ذمہ داریوں میں میونسپل سروسز مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن سندھ خراب انتظام کاری کی وجہ سے یہ سروسز مہیا نہیں کی جارہی۔

بلدیاتی اداروں کے ں اظم ہونے کے باوجود سندھ کے شہروں کی حالت سے لگتا ہے کہ وہاں پر سرکاری طور پر کوئی نظام نہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام چلا رہے ہیں۔ حکومت میونسپل سروسز فارہم کرنے میں اس لئے بھی ناکام رہی ہے کہ بلدیاتی اداروں میں ماضی قریب میں سیاسی بنیادوں پر اتنی بھرتیاں کی گئی ہیں کہ کہ یہ ادارے ان کی تنخواہیں پورے کرنے میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان ملازمین کی فور ظفر موج کام کرنے یا ڈٰوٹی دینے کے لئے تیار نہیں۔ ان بھرتیوں میں صفائی کے عملے کی اسامیوں پر سفید پوش افراد کی بڑی تعداد بھی شامل ہے، جو ان اداروں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ شہریوں کے ٹیکس سے وصول کی جانے والی رقم سے جب خرچ پورا نہیں ہوا تو میونسپل سرسوز اور ان سے متعلقہ شعبوں کے لئے ایشین بینک سے قرضہ لیا گیا۔ یہاں تک کہ یو ایس ایڈ سے بھی فنڈ لئے گئے۔ لیکن اس کے باوجود سندھ میں میونسپل سروسز کی فراہمی تاحال ایک خواب بنی ہوئی ہے۔

معاملہ بجٹ یا پیسوں کا ہو تو حل ہو سکتا ہے لیکن یہاں مسئلہ اچھی حکمرانی اور انتظام کاری کی کمی کا ہے۔ یہ کمی تب پوری ہوگی جب حاکم وقت کو شہریوں کے لئے میونسپل سروسز فراہم کرنے کی فکر ہوگی۔ صوبے کی حد تک یہ فکر محسوس نہیں ہوتی۔ صوبے کے شمالی علاقوں میں میونسپل سروسز مہیا کرنے کے لئے صوبئی حکومت نے نارتھ سندھ اربن سروسز کارپوریشن قائم کی۔ مگر یہ نیا ادارہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔ آج نساسک تقریبا غیر فعال ہو چکی ہے۔ اس کے بعد ایک تجربہ سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے قیام کے ذریعے کیا گیا۔ جو 2014 سے کام کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی شہریوں کو میونسپل سروسز نہیں مل رہی ہیں۔ کراچی سے لیکر جیکب آباد تک خبریں آرہی ہیں کہ شہروں میں نہ تو نکاسی آب کا موثر انتظام ہے اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا۔
میونسپل ادارے شہریوں کو جو پینے کا پانی فراہم کر رہے ہیں، اس کی معائنہ رپورٹ دیکھ کر فاضل جج سے تقریبا چیخ نکل گئی کہ سندھ کے لوگ ایسا پانی پینے کے باوجود زندہ ہیں۔۔۔!! حکومت کا موقف ہے کہ 70 سال کی خرابیاں چند ماہ میں ٹھیک نہیں ہو سکتی، تو کیا ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مزید ستر سال چاہئیں؟ حکومت سندھ کے شہریوں کو کم از کم پینے کے صاف پانی کا بندوبست تو کر کے دے سکتی ہے۔

روز نامہ عبرت ’’ذکر دو خبروں کا‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ گزشتہ روز حکومت کی لاپروائی کے حوالے سے میڈیا میں دو خبریں شایع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تھر میں دو لاکھ خاندانوں کے لئے اعلان کی گئی امدادی گندم سے متعلق ہے۔ جو متاثرہ خانداوں میں تقسیم کرنے کے بجائے تین ماہ سے گداموں میں پڑی ہوئی ہے۔ پتہ چلا ہے ہزارہا بوریوں کو کیڑہ لگ چکا ہے۔
دوسری خبر منچھر جھیل کے حوالے سے ہے۔ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بنچ نے منچھر جھیل کوآلودگی سے پاک کرنے اور وہاں کے مچھیروں کو صاف پانی مہیا کرنے سے متعلق حکومت سندھ کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے اس سے متعلق رپورٹ آئندہ سمعت تک پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ مچھیرے زہریلا پانی پی رہے ہیں، حکومت اس ضمن میں ضروری اقدامات کیوں نہیں کرتی ؟

سید مراد علی شاہ کو جب وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی گئی تو مجموعی طور پر سندھ میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اور یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ ماضی کے وزراء اعلیٰ کے روش کے برعکس صوبے کے لوگوں کے ساتھ قربت کا تعلق رکھیں گے۔ اور عام لوگوں کے مسائل پر توجہ دیں گے۔ اگرچہ میڈیا کے ذریعے یہ باور رکانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کا اندازہ مندرجہ بالا دو خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ ہزارہا بوری گندم گداموں مین سڑ رہی ہے لیکن متاثرہ اور مستحق لوگوں میں تقسیم نہیں کی گئی۔ یاسا کیوں ہوا؟ وزیراعلیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ ممکن ہے کہ یہ گندم متحقین تک پہنچانے میں ابھی مزید دیر ہو۔ اب تھر میں بارشیں ہوئی ہیں۔ فصلیں تیار ہو رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ عام لوگ امدادی گندم کا آسرہ نہی کریں۔ اس صورت میں اس گندم کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے۔ شاید یہی سوچ کر یہ گندم وقت پر تقسیم نہیں کی گئی ہو۔

پیپلزپارٹی حکومت آئنی مدت کے آخری سال سے گزر رہی ہے۔ اس کی گزشتہ 9 سالہ کارکردگی کوئی زیادہ قابل تعریف نہیں رہی۔ پارٹی کے دور حکومت میں سندھ جس پستی کا شکار ہوا، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ معاشی، سماجی، خواہ اخلاقی حوالے سے سندھ کا بہت نقصان ہوا۔ تعلیم، صحت اور ترقی کے حوالے سے بھی سندھ پیچھے چلا گیا۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ حکمرانوں کی سندھ کے مسائل کے بارے میں دلچسپی نہیں دیکھی گئی۔ اب پارٹی کو عوام سے رجوع کرنا چاہئے۔ اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عملی، ٹھوس اور موثر اقدامات کی طرف جانا چاہئے۔

Sindh Nama - Sohail Sangi - Daily Nai Baat August 4, 2017