Friday, October 30, 2015

بلدیاتی انتخابات: عوام کو کیا ملے گا؟

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi
http://naibaat.com.pk/ePaper/karachi/31-10-2015/details.aspx?id=p13_05.jpg
Add caption

Friday, October 23, 2015

خاموش بلدیاتی اانتخابات اور جعلی بھرتیاں

روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

سندھ میں خاموش بلدیاتی اانتخابات ہونے جارہرے ہیں ان انتخابات کی پولنگ میں باقی ایک ہفتہ ہے، لیکن تاحال انتخابی مہم شروع ہی نہیں ہوئی۔ نہ روایتی گہماگہمی ہے، نہ بینر نہ پوسٹر، نہ کارنر میٹینگیں۔امیدواروں عوام سے رجوع نہیں کر پائے ہیں۔ لہٰذا پروگرام یا وعدے وعید بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ امیدوار اور سیاسی جماعتیں صرف چند بااثر افراد کی حمایت کرنے کی سعی میں ہیں۔ یہ بھی شکایات ہیں کہ وقت پر امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری نہیں کی گئی۔ یہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں نہیں بلکہ انتظامیہ کی نگرانی میں ہو رہے ہیں۔ جہاں پر رٹرننگ افسران روینیو، اور دیگر صوبائی محکموں سے لئے گئے ہیں۔ ان انتخابات کی حلقہ بندیوں اور رٹرننگ افسران کے تقرر پر آخر وقت تک اعتراضات جاری رہے۔ ان تمام شکایات میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہی۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ مخالفین کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لئے ان کو ہرااں کرنے اور دباؤ ڈالنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ شہدادکوٹ میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے امیدوار سردار جروار کے گھر پر ڈی ایس پی کی سرکردگی میں ’’ چھاپہ‘‘ مارا اور ان کے چار مالزمین کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں مذاکرات کے بہانے سردار جروار کو بھی بلا کر انہیں گرفتار کر لای گیا۔ نوابشاہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار گل بہار خاصکیلی کو دستبردار ہونے کے لئے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انہوں نے تنگ آکر خود کشی کرنے کی کوشش کی ۔ مختلف اضلاع میں آر اوز پر جانبداری اور حکومتی فریق ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں احتجاج بھی ہوتے رہے لیکن الیکشن کمیشن نے ان شکایات اور احتجاجوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی وڈیروں کی انا کی بلی تھیلی سے باہر آگئی۔ مست فیل کی طرح اس انا کو نہ انتظامیہ اور نہ کوئی قانون روک سکا ہے ۔ خود کو جدی پشتی ھاکم سمجھنے والے ان سے ہم صری یا برابری کا حق کسی اور کو دینے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا میں بھلے ایسے منصبوں کو عوامی خدمت کا منصب سمجھا جاتا ہو، اور وہاں پر عوامی نمائندگی کو ضروری سمجھا جاتا ہو، لیکن ہمارے ہاں یہ وڈیرا شاہی کسی طور پر بھی مسند چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ انتظامیہ کی طاقت بھی ’’ حاکم کھڑی ہاں میں تیرے بنگلے دے نال‘‘ کے مثل ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ الیکشن کمیشن اور حکومت سندھ کو ان شکایات کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے اور ان کا ازالہ کرنا چاہئے، تاکہ انتخابات شفاف اور غیر متنازع بن سکیں۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت سندھ کی خصوصی انکوائری کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں محکمہ بلدیات میں 13 ہزار غیر قانونی ملازمین بھرتی ہوئے ہیں۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ان بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف منسٹر انپیکشن ٹیم نے سال 2012 کے دوران کی گئی غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری کو بھیج دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تحقیقت کے دوران تقرر نامے اور ان کی تصدیق کے احکامات جعلی ثابت ہوئے ہیں۔ اکثر ملازمین کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبادلہ کر کے جعلی بھرتیاں کی گئی ہیں۔
میرٹ کو کچلنے کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ معاملہ پیسوں کے عوض ہو یا کسی کی چٹھی یا سفارش پر بھرتی کا ہو، ملازمتیں نیلام ہوتی رہی ہیں۔ اہل اور باصالاحیت نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی رہی ہے۔ ایک ہی محکمہ میں 13 ہزار بھرتیاں کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اہلیت اور میرٹ کا گلا گھونٹنے والوں کو احتساب کیا جائے۔ اور جعلی بھرتیوں کا ہمیشہ کے لئے راستہ بند کرنے کی تدابیر کی جائیں۔ 
روزنامہ عبرت نے میرٹ کو نظر انداز کرنا کے عنوان سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے دفتر پو نیب کے چھاپے کے حوالے سے اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ تعلیمی بورڈز اور وہ ادارے جہاں پر مقابلے امتحانات کے ذریعے گریڈ 16 اور 17 میں بھرتیاں کی جاتی ہیں ان کے ابرے میں شکایات گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل ر ہی تھی۔ یہ بھی ہوتا رہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کو ایک طرف رکھ کر ایڈہاک بنیادوں پر بارہ راست افسران کی بھرتیاں کی گئیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن میں 2003 میں ہونے والی بدعنوانی اک اب نوٹس لیا گیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے سندھ کے مختلف محکموں میں کرپشن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے۔ سندھ کا کوئی بھی ذی شعور شخص اپنے اداروں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ یہ ادارے سلامت ہونگے تو سندھ اور یہ ملک بھی سلامت ہوگا۔ باقی لوٹ مار کرنے والے عناصر کو نہ سندھ سے نہ اداروں سے اور نہ ہی سندھ کے عوام سے کوئی دلچسپی ہے ۔ حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں ایجنٹوں کے ذریعے پیسے وٓصول کر کے رزلٹ تبدیل کئے جاتے رہے۔ اور کرپشن کے ذریعے من پسند نمبر اور گریڈ دیئے جاتے رہے۔ ان شکایات پر کئی بار چاھپے مارے گئے، جوابا افسران کے گھروں پر فائرنگ کی گئی۔ رواں سال کسی حد تک حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں رزلٹ میں اس ہیرا پھیری کو روکا جاسکا ہے۔ اسی طرح کی ہیرا پھری سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں بھی ہوتی رہی۔ جس کی اب تحقیقات کی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں تعلیمی بورڈ اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے ماتحانات اور نتائج کو شفاف بنانا از حد ضروری ہے، کیونکہ ایک طرف ملک کی انتظامی مشنری چلانے کے لئے اہل افراد کا سامنے آنا ضروری ہے تو دوسری طرف محنتی نوجوانوں کو ان کا حق دینا ضروری ہے۔

October 23, 2015 for nai baat 

کالاباغ ڈیم کی بحث

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات

سندھ  نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 

کالاباغ ڈیم کی بحث نے سندھ کے سیاسی، اور عوامی حلقوں میں ایک بار پھر ہلچل پیدا کردی ہے۔ تمام اخبارات نے اداریوں، کالموں اور مضامین کے ذریعے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ گزشتہ روز حیدرآباد میں کالاباغ ڈیم پر ایک ڈائلاگ بھی منعقد ہوا، جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس متنازع آبی منصوبے کو سندھ کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس نے ’زکر ڈاؤن اسٹریم کوٹری زندگی کا‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں لکھتا ہے کہ مطلوبہ پانی ڈاؤن اسٹریم کوٹری نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہزاروں میل کے علاقے میں زندگی اور جینے کے وسائل تباہ ہوئے ہیں اس کا ذکر وقتا فوقتا اقتداری حلقوں میں ہوتا رہا ہے۔ لیکن جب بھی سندھ کو پانی دینے کا سوال آتا ہے تو حکومت بالکل انکاری ہو جاتی ہے۔ 
حال ہی میں سنیٹ کی منصوبہ بندی اور ترقی کے بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی نے داؤں اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ روزانہ پانچ ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے۔کیونکہ پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہر سال پچاس ہزار ایکڑ زمین سمندر اپنے لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اب تک 24 لاکھ ایکڑ زمیں سمندر ہضم کر چکا ہے۔ اگر اس حساس مسئلے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آئندہ پچاس سال میں کراچی ٹھٹہ، سجاول اور بدین سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ 
اخبار لکھتا ہے حال ہی میں وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کالاباغ ڈیم کے حق میں جو کیس بنانے کی کوشش کی ہے وہ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی چھوڑنے کو زیان قرار دینا غلط ہے۔ ڈاؤن اسٹریم کوٹری لاکھوں لوگ ہزاروں برس سے آباد ہیں ۔ جن کا دیرائے سندھ پر حق ہے۔ ہ سنیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کو اس حوالے سے سب سے بڑی سچائی سمجھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سفرشات پر عمل کیا جائے۔ 
’’تھر کول منصوبے پر وفاق کی عدم دلچسپی ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت ‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان شکایات کی طویل تاریخ ہے۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کے پاس شکایات کی ایک طویل فہرست بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان دونوں صوبوں میں مختلف تحریکیں سر اٹھاتی رہی ہیں۔

بلوچستان باقاعدہ جنگ کے مرحلے سے بھی گزرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود وفاق کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان دونوں صوبوں کو مفتوح ہونے کا احساس دلایا جاتارہا ہے۔ اسی نوعیت کی شکایات اتوار کے روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ تھر کول اور انرجی بورڈ کے اجلاس کے دوران سننے میں آئی ۔ اجلاس میں بورڈ کے ممبران نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت تھر کول منصوبے کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق کے نمائندے تھر کول انجی بورڈ کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس منصوبے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم کو خط لکھ کر وفاق کے اس رویے سے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ زیر زمین گیسیفکیشن کے بارے میں ڈاکٹر ثمر مبارک سے بریفنگ کے بعد اس منصوبے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔ 
ملک آج کل بدترین توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ دیہی علاقوں کو تو چھوڑیئے، شہروں میں بھی اندھیروں کا راج ہے۔ کارخانے، فیکٹریز اور دیگر چھوٹے بڑے کاروبار اس بحران سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جتنا انتشار دہشتگردی نے معاشرے میں پیدا کیا ہے اتنا ہی نقصان توانائی کے بحران نے کیا ہے۔ فرسٹریشن، ذہنی پریشانیاں، معاشی حوالے سے غیر یقینی صورتحال معاشرے کے ہر فرد کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے کئی اظہار کبھی اجتماعی اور کبھی انفرادی طور پر سامنے آتے رہتے ہیں۔
اگر تھر کول کے منصوبے پر عمل کیا جاتا تو اس طرح کی صورتحال سے بڑی حد تک بچا جاسکتا تھا۔ اب یہ خیال بھی پختہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت اور بعض مقتدرہ حلقے نہیں چاہتے کہ پنجاب سندھ کا محتاج بنے۔ ہم سمجھتے ہیں تھر کول انرجی بوڈ میں سامنے آنے والی شکایات فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ اب اس ضمن میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔ 
روزنامہ کاوش صوبوں کو ملنے والی رائلٹی کہاں خرچ کی جارہی ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے سانگھڑ کی تیل اور گیس کمپینوں کی پیداور اور ترقایتی رقومات کے بارے میں کیس کی سماعت کی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کہنا ہے کہ سندھ میں روڈوں کی حالت انتہائی زبون ہے۔ پتہ نہیں کہ رائلٹی کی رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ آج تک کتنے فنڈز آئے؟ کتنے اور کہاں پر خرچ ہوئے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے کے 16 اضلاع میں تیل اور گیس کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ سندھ کو تاحال 4 ارب، 75 کروڑ، 20 لاکھ روپے مل چکے ہیں جن میں سے دو ارب 91 لاکھ روپے مختلف اسکیموں پر خرچ کئے جاچکے ہیں ۔ 
سندھ کی سڑکوں کی حالت زار ہے، صوبے میں ترقیاتی کام نہیں ہورہے ہیں۔ دیہی علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صوبے کو اس کے وسائل کی پوری رائلٹی نہیں مل رہی اور جو کچھ مل رہی ہے وہ ٹھیک سے خرچ نہیں کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تکلیف کا احساس عدالت کو تو ہوا لیکن ہامری جمہوری حکومت اور منتخب نمائندوں کو نہیں ہوا۔ سندھ کو رائلٹی کتنی ملتی ہے اور وہ کہاں خرچ کی جارہی ہے اس معاملے کو تمامباشعور لوگ دیکھیں۔ 
October 16, 2015 for Nai baat

Sunday, October 4, 2015

عوام کے لاکھوں ووٹوں پر شوگر ملوں کے 30 ووٹ بھاری۔۔۔

روزنامہ عوامی آواز ’’ عوام کے لاکھوں ووٹوں کے بجائے شوگر ملوں کے 30 ووٹ ‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کو گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی خراب کرنے کی صورت حال جاری رکھی جائے گی یا اس میں کچھ تبدیلی لائی جائے گی؟ سندھ نے گزشتہ برس یہ بھگتا کہ گنے کے بجائے کاشتکار پستیرہیں۔ ان کی فصل ضائع ہوتی رہی۔ شوگر مال مالکان حکومت کو کو جیسے کہیں گے وہ ویسا ہی کرے گی ۔ اجلاس طلب کر کے دو تین مرتبہ تاریخیں دی جائیں گی۔ گنے کی قیمت بڑھنے کے بجائے امدادی قیمت مقرر کرنے میں اتنی دیر کی جائے گی کہ گنے کا رس اور کاشتکاروں کا خون بھلے تب تک خشک ہو جائے۔
خبر ہے کہ گنے کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی جاسکی ہے شوگر مل مالکاں نے اکتوبر میں گنے کی پیسائی
 شروع کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے ان احکامات کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے کہ شوگر ملیں گنے کی پیسائی دس اکتوبر سے شروع کریں۔ مل مالکان نے گنے کی قیمت 169 روپے فی من خود دینے اور حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کو سبسڈی دینے کامطالبہ کردیا ہے صوبائی وزیر زراعت نے وزیر اعلیٰ سے مشاورت کے لئے دس روز کی مہلت مانگی ہے۔
گنے کی امدادی قیمت اور پیداواری ہدف مقرر کرنے کے لئے صوبائی وزیر زراعت سردار علی نواز مہر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کاشتکاروں کے نمائندوں نے مطالبہ کیا کہ گنے کی امدادی قیمت 230 روپے فی من مقرر کی جائے۔ کیونکہ گزشتہ برسوں کے دوران پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں گنے کی قیمت 184 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔ سندھ میں مخصوص حالات کے پیش نظر یہ قیمت 230 روپے کی جائے۔ جس پر پاکستان شوگر ملز ایسو سی ایشین سندھ زون کے عہدیداران نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امدادی قیمت 160 روپے برقرار رکھتے ہوئے حکومت مل مالکان کو 12 روپے فی من کے حساب سے سبسڈی دے۔ ان کا کہنا ہے کہ گنے کی قیمت بڑھانے کے لئے چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ کیونکہ کارخانے چار ماہ میں بارہ ماہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چینی تیار کرتے ہیں۔ اگر گنے کی قیمت بڑھائی گئی تو ہر طرف گنے کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ پھر چینی کے ذخائر جمع ہو جائیں گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ دونوں فریقین کی تجاویز جمع کرنے کے بعد حکومت 10- 12 روز میں سندھ شوگر کین بورڈ کا اجلاس طلب کر کے گنے کی امدادی قیمت کا اعلان کرے گی۔ سندھ آبادگار بورڈ کے نمائندے ذوالفقار یوسفانی کا کہنا ہے کہ مل مالکان ضد پر کھڑے ہیں۔انہوں نے گزشتہ سال کی قیمت یعنی 160 روپے فی من اور حکومت کی جانب سے 12روپے فی من پر سبسڈی دینے کامطالبہ کیا ہے۔ مل مالکان نے واضح طور پر صوبائی وزیر زراعت کو بتایا کہ وہ 10 اکتوبر سے کرشنگ شروع نہیں کر سکتے۔ بلکہ نومبر کے آخر یا دسمبر میں ملوں کی چمنیاں جلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال چینی کی قیمت 45 روپے فی کلو تھی جو اب بڑھ کر 65 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔
پیپلزپارٹی کے پاس اب صرف سندھ صوبے میں ہی حکومت ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کو چاہئے کہ سندھ کے کسانوں اور عوام کے بھلے کے لئے بعض اچھے کام بھی کرنا شروع کرے۔ اگر 30 شوگر ملوں کے 30 مالکان یا تیس سرمایہ دار خاندانوں کے مفادات سے بہتر وہ لاکھوں عوام ہیں جو ان تیس خاندانوں کے مقابلے میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
روزنامہ کاوش ارسا کے اجلاس میں پانی کی قلت کا ذکر کے عنوان سے لکھتا ہے کہ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والی ربیع کے موسم کے دوران 14 فیصد پانی کی قلت کا جائزہ لینے اور اس کمی کو سامنے رکھ کر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کرنے کے لئے گزشتہ روز ارسا کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں تین صوبوں کے ممبران اور سندھ کے ایڈیٰشنل سیکریٹری نے شرکت کی ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ یکم اپریل سے 30 ستمبر تک بہت سار پانی سمندر میں ضایع ہو چکا ہے ۔ لہٰذا ربیع میں صوبوں کو 14 فیصد کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ ربیع میں سندھ کو 12.90 ملین ایکڑ فٹ، پنجاب کو 17.08 ملین ایکڑ فٹ، بلوچستان کو 1.02 ملین فٹ پانی فراہم کیا جائے گا۔ جبکہ خیبر پختونخوا کو 0.70 ملین فٹ پانی مل سکے گا۔ اجلاس میں پنجاب کے نمائندے نے ایک بار پھر یہ نقطہ اٹھایا کہ کالاباغ ڈٰیم، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم اگر بن جاتے تو اتنا پانی ضائع نہیں ہوتا۔ اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری سندھ نے پنجاب کی جانب سے چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے پانی حاصل کرنے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
دوسرے صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ اس وجہ سے بھی پانی کی قلت کو زیادہ برداشت کرتا ہے کہ کیونکہ یہ صوبہ ٹیل پر ہے۔ پانی ملک کے بالائی صوبوں سے ہو کر یہاں پہنچتا ہے۔ ارسا نے فیصلہ کیا ہے کہ ربیع کی سیزن کے دوران صوبوں کو 14 فیصد کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن عملا سندھ کو اس سے بھی زیادہ قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ پانی کی قلت کے خلاف مسلسل شکایات اور احتجاج ریکارڈ کراتا رہا ہے۔ لیکن صورتحال یہ بنی ہے کہ ماضی میں جو معاہدے ہوئے ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ ارسا کے اجلاس میں ایک بار پھر کالاباغ ڈٰیم کی راگنی چھیڑی گئی ہے۔ اگرچہ تین صوبے سرکاری طور پر کئی بار اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب ہر مرتبہ سرکاری طور پر یہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اس متنازع آبی منصوبے کا ذکر کرے۔ پنجاب جس پانی کو سمندر میں جانے کو ضیاع سمجھتا ہے یہ پانی کوٹری سے نیچے سمندر تک کے علاقے کی معیشت اور ڈیلٹا کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ سمندر میں کم مقدار میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے ہر سال سمندر سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین نگل جاتا ہے ۔ اگر صوبوں کو کم پانی دیا گیا تو لازمی طور پر یہاں کی فصلیں متاثر ہونگی جس سے معیشت اور عام لوگوں کے زندہ رہنے کے وسائل میں کمی واقع ہوگی۔ پانی کی قلت ختم کرنے کے دیگر طریقے بھی ہیں جنہیں اپنانے کی ضرورت ہے، یہ ضروری تو نہیں کہ کالاباغ کے مردہ گھوڑے کو ہر بار اٹھایا جائے اور صوبوں کے درمیاں غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔