Monday, January 8, 2018

سندھ سراپا احتجاج اور حکومت کی ٹال مٹول Jan 6


سندھ سراپا احتجاج اور حکومت کی ٹال مٹول
سندھ نامہ سہیل سانگی 
سندھ میں گنے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ خیرپور سے لیکر کراچی تک مختلف شہروں اور شاہراہوں پر کاشتکار احتجاج کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہے۔ بدھ کے روز ایک ریلی حیدرآباد سے کراچی تک نکالی گئی۔ حیدرآباد سے اس ریلی کی قیادت حلیم عادل شیخ کر رہے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف سندھ کی قیادت اور اور اس حساس صوبے سے پارٹی میں شامل ہونے والے بڑے نام ریلی میں شامل نہیں تھے۔ جمعرات کو میرپورخاص میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کاشتکاروں کی حمایت کا اعلان کیا تاہم یہ بھی کہا کہ مل مالکان کے حقوق غصب ہونے نہیں دیئے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبے میں 29 شگر ملیں آصف علی زرداری کی ہیں۔ قانونی طور پر شگر ملز اکتوبر کے وسط میں شروع ہونی ہیں لیکن دسمبر ختم ہو چکا ہے شگر ملیں ابی چالو نہیں کی گئی ہیں۔ مل مالکان کاشتکاروں کو تقریبا 143 روپے فی من دینا چاہتے ہیں۔ مل مالکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس چینی کے اسٹاک موجود ہیں۔ لہٰذا وہ ’’ مہنگے داموں ‘‘ پر گنا خرید کر کے نہ اپنا سرمایہ پھنسانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنا نقصان کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک بھی پہچا ۔ عدالت نے 173 روپے فی من عبوری قیمت مقرر کی اور اور حتمی فیصلے آنے تک فی من پر دس روپے کے حساب سے رقم عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ لیکن اس عدالتی فیصلے پر عمل نہیں ہو نا باقی ہے۔ 
صوبے میں سرکاری سطح پر دو اور انکشافات ہوئے ہیں۔ایک یہ کہ کراچی میں ہزارہا ایکڑ سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے کا اعتراف ہے۔ اس امر کا اعتراف وزیر اعلیٰ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔ جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے یہ قبضے خالی کرانے کا حکم دیا ہے۔ دوسرا انکشاف یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ کو دی گئی حالیہ بریفنگ میں متعلقہ حکام نیبتایا کہ سندھ کی 55 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی اور 60 فیصد آبادی کو ڈرینیج کی سہولت حاصل نہیں۔ سندھ میں پینے کے پانی اور ڈرینیج کے حوالے سے گزشتہ آتھ نو ماہ سے عدالت عظمیٰ میں درخواست زیر سماعت ہے۔ صوبے مختلف حلقوں کی تنقید اور اساتذہ کے مسلسل احتجاج کے بعد سندھ حکومت نے تعلیم کی بہتری کے لئے دس سالہ منصوبہ بنایا ہے ۔ جس کے مطابقاساتذہ کی تربیت کے لئے اکیڈمی قائم کی جائے گی۔ اساتذہ کی ترقی اور دیگر فوائد کو قابلیت اور تربیت سے مشروط کردیا جائے گا۔ این ٹی ایس ٹیسٹ پاس اساتذہ کو مستقل کیا جائے گا۔ وزراء اور سیکریٹریز پر مشتمل کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر رپورٹ پیش کرے۔ سندھ کے اخبارات نے گزشتہ ہفتے انہی موضوعات پر اداریے لکھے ہیں۔ 
روزنامہ عبرت نے سندھ کی صورتحال پر ایک جامع اداریہ ’’ سندھ سراپا احتجاج اور حکومت کی لاپروئی‘‘ کے عنوان میں لکھتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل حکومت کو دس سال مکمل ہونے والے ہیں۔اس عرصے کے دوران سندھ کے عوام کو کیا ملا، ان پر کیا گزری؟ وہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ حکومت کی کوتاہیاں اپنی جگہ پر لیکن سماج میں بے حسی کا رجحان بڑھاہے جس کے نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر سندھ کے عوام کے ہاتھوں سے امید، جستجو، اور انسپائریشن کا پرندہ نکل چکا ہے۔ ’’ بس جینا ہے اور جی رہے ہیں۔‘‘ کی بنیاد پر زندگی کا کاروبار چل رہا ہے۔ زراعت سندھ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اس کو ہاتھ سے تباہ کیا گیا ۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے کاشتکار گنے کی قیمت 182 روپے من حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ گمبٹ، کراچی اور دیگر مقامات پر کیا ہوا؟ یہ سن چکھ میڈیا میں آچکا ہے۔ یہ بھیایک المیہ ہے کہ سندھ حکومت کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج سوال اٹھائے جاتے ہیں تو اس کو قوم پرستوں یا مخالفین کی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ لیکن اب جب عدالتیں پینے کے صاف پانی پر اظہار تشویش کرتی ہیں، تو اسکے ضواب میں حکومت کے پاس کوئی ٹھوس جواب ہے؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ اب جب پیپلزپارٹی کا دور حکومت مکمل ہونے والے ہے، تب ترقیاتی حوالے سے کچھ سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں۔ لیکن پورے 9 سال کے دوران جو تباہی کی گئی اس کا ازالہ کون کرے گا۔ ہم سندھ کے عوام کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ آخر وہ کب تک بے بسی کی زنجیر گلے میں ڈال کر جیتے رہیں گے۔ کیا انہیں یہ زنجیر اٹھا کر پھینکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 
روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ وزیراعیلٰ سندھ کا کہنا ہے کہ گنے کی قیمت ایسی ہو جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ وزیراعلیٰ سندھ نے گنے کے بحران کے لئے پنجاب کو ذمہ دار ٹہرایا اور کہا کہ پنجاب سے 100 فی من کے حساب سے گنا سندھ کی شگر ملوں کو سپلائی کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں سندھ کے کاشتکاروں کا مہنگا گنا کون لے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ شگر مافیا زیادتی کرہی ہے۔ اب آئندہ سال شگر ملز کو گنا نہیں ملے گا۔ سندھ صنعتی زون نوری آباد روز بروز زوال پذیر ہے۔ یہاں سے متعدد کارخانے پنجاب منتقل ہو چکے ہیں۔ اگر چند ایک کارخانے باقی ہیں بھی تو اس لئے کہ انہیں سندھ میں خام مال سستا ملتا ہے۔ باقی ان ملوں میں سندھ کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بند ہیں۔ لہٰذا سندھ کے لوگوں کے روزگار کے لئے تمام بوجھ زراعت پر چلا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند عشروں سے زراعت بھی تباہ ہے۔ گنے کے بیلٹ کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ تباہ کیا گیا۔ مطلوبہ پانی کی عدم فراہمی، جعلی زرعی ادویات، کھاد اور بیج کی بلا روک توک فراہمی نے سندھ کی زرعی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کی نظر ان معاملات پر نہیں جاتی۔ ممکن ہے کہ سندھ کی زراعت کو نقصان پہنچانے کے لء پنجاب کا بھی رول ہو، لیکن جو سندھ کی حکومت اور اس کے ادارے و افسران یہاں کے کاشتکاروں اور معیشت کے ساتھ کر رہے ہیں اس کا بھی جائزہ لینے اور اس ضمن میں موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں حکومت کو ٹال مٹول کے بجائے گنے کی قیمتوں کے حوالے سے سیاسی مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے۔ 
Sindh Nama - Sohail Sangi
Nai Baat Jan 6, 2018

Thursday, January 4, 2018

کیا سندھ میں ایمانداروں کا قحط الرجال ہے؟

کیا سندھ میں ایمانداروں کا قحط الرجال ہے؟
http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-dec-30-2017-150387