Thursday, July 20, 2017

سندھ: غلاظت آلودہ پانی حاضر ہے ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ: غلاظت آلودہ پانی حاضر ہے 

سندھ نامہ سہیل سانگی 

سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی وجہ سے سندھ حکومت آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو عہدے سے نہیں ہٹاسکی۔ اس کے توڑ کے لئے صوبے میں اعلیٰ پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے کے اختیارات صوبائی وزیر داخلہ جو کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے قریب ہیں انہیں دیئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں صوبائی وزیر داخلہ نے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز عہدے کو افسران کے تقرر اور تبادے بھی کئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے تحت پولیس میں بھرتی کے اختیارات بھی صوبائی پولیس سربراہ سے لے لئے گئے ہیں۔ اختیارات میں مزید کمی کے بعد سندھ میں پولیس کا سربراہ بے اختیار ہو گیا ہے ۔ اب ہوم سیکریٹری پولیس میں اے ایس آئیز کی بھرتی کر سکے گا۔ سندھ پولیس کی کارکردگی گزشتہ دو عشروں سے سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار اس ادارے میں سیاسی مداخلت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ادارے کے بجائے حکومت کے پاس اختیارات منتقل ہونے کے بعد سیاسی مداخلت مزید بڑھ جائے گی اور صوبے میں امن و امان پہلے بھی قابل ستائش نہیں رہا، اور ر صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے بھر میں امن و امان رینجرز کے سہارے کھڑا ہے، سیاسی مداخلت سے پولیس کا رول کم ہو جائے گا۔ نیجے میں یا تو امن ومان کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی یا حکومت کو مزید رینجرز پر انھصار رکنا پڑے گا۔ 
سندھ ہائی کورت کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں سندھ میں پینے کے صاف پانی کر فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیشن کے سامنے حکومت سندھ کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے ایک اور رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 14 اضلاع میں پینے کے پانی کے سیمپل کا معائنہ کیا گیا، جس میں سے 83 فیصد پانی انسانی زندگی کے لئے مضر قرار دیا گیا۔ پانی کے سیمپلز کی مائکروبایولاجیک، اور فزیو کیمیکل معائنے سے ثابت ہوا کہ کراچی میں 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ 33 فیصد پانی میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ ہے۔ تٹھہ میں 75فیصد پانی میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ باقی اضلاع میں یہی صورتحال ہے۔ اس رپورٹ پر سندھ کے تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ سندھ: غلاظت آلودہ پانی حاضر ہے کے عنوان سے’’روزنامہ کاوش‘‘ اداریے میں لکھتا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات کو میڈیا میں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل ایک عدالتی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 70 کی خرابیوں کو چند ماہ میں ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ سیکریٹری بلدیات نے عدالت کو بتایا کہ نچلی سطح پر زیادہ سیاست ہونے کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر پا رہے ہیں۔ سیکریٹری صحت نے ان کے پاس ہسپتالوں کے سربراہان کے خلاف کارروائی کے اختیارات نہ ہونے کی شکایت کی۔انہوں نے کہا کہ پانی کی فراہمی محکمہ بلدیات کی ہے اور پانی کو صاف رکنے کی ذمہ داری ہسپتالوں کی ہے۔ قانون کی لاٹھی سے بچنے کے لئے افسران کے پاس عذر اور بہاوں کی تاریخ کے ہر دور میں کمی نہیں رہی۔ اس کیس میں بھی ایک دوسرے ذمہ داری ڈال کر، مختل عذر لنگ پیش کر کے، سیاسی مداخلت کی دلیل دے کر فی الحال اپنی جان چھڑالیتے ہیں۔ لیکن ان کا کیا ہوگا جو عوام کو غلاظتوں سے بھرپور پانی پلا کر کل ان کے پاس ووٹ لینے کے لئے جائیں گے؟ پانی کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹس کے مطابق 14 اضلاع میں فراہم کیا گیا پانی مضر صحت ہے۔ ستم در ستم یہ کہ ان اضلع میں موجود 71 ہسپتالوں کا پانی بھی انسانی زندگی کے لئے درست نہیں۔ صوبے کے شہروں میں پینے کے پانی کی صورتحال یہ ہے کہ کلورین ڈالنے سے بھی وہ استعمال کے قابل نہیں بن سکتا۔ پھر بھی وزیراعلیٰ سندھ سندھ کہتے ہیں رپورٹ پڑھے بغیر رائے دی جارہی ہے۔ ان رپورٹس کے حقائق سامنے آنے کے بعد بھی صوبے سربراہ بضد ہیں۔ 
بہانے اور الٹے سیدھے دلائل افسران کو تو بچا سکتے ہیں لیکن منتخب نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ وہ آئندہ انتخابات کے لئے کس منہ سے عوام کے پاس ووٹ لینے کے لئے جائیں گے؟ جب ان کی کارکردگی اس رپورٹ کے ذریعہ آئینے کی شکل میں ہے، وہ کونسے دعوے اور نئے وعدے کریں گے؟ اپنی خراب حکمرانی کا کن دلائل کے ذریعے دفاع کریں گے؟ حکمرانوں کے پا بڑی بڑی باتیں ضرور ہیں لیکن جب ان سے ان چھوٹی باتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ 
70 کی خرابیوں کا بہانہ بنا کر جان چھڑانے کی بات نہیں، یہ معاملہ براہ راست انسانی زندگی سے منسلک ہے۔ آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے سندھ کا ہر تیسرا باشندہ یرقان، چمڑے اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران پھر بھی کہتے ہیں کہ ان کی پیش کی گئی رپورٹس کو کوریج نہیں ملتی۔ لازمی ہے کہ سندھ کا چیف اگزیکیوٹو یہ قبول کرے اور عام شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ 
تعلیمی اداروں کو دہشتگردی سے بچانے کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف کئے گئے اقدامات اب اس موڑ پر آکر پہچنے ہیں کہ جب تک تعلیمی اداروں کو دہشتگردی سے محفوظ نہیں بناتے تب تک دہشتگردی کے خلاف جنگ کو مکمل نہیں کہہ سکتے۔ کراچی سے موصلہ خبر توجہ طلب ہے جس میں انسداد دہشتگردی پولیس نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دہشتگردوں کی نئی کھیپ اب مدرسوں کے بجائے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ابھرنے کا خطرہ ہے۔ کیونکہ یہ تنظیمیں اب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنا نیٹ ورک فعال بنا رہی ہیں۔ یہ نشاندہی صوبے کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیز کے وائیس چانسلرز کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایک اجلاس میں کی گئی۔ یہ اجلاس کالعدم تنظیموں اور طلبہ کی اس میں شمولیت کی روک تھام کی حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ماضی میں دہشتگرد نیٹ ورک رکھنے والی انتہا پسندتنظیمیں مدرسوں میں فعال طریقے سے کام کر رہی تھیں۔ جہاں نوجوانوں کو منفی تعلیم کے ذریعے دہشتگردی کی طرف راغب کر رہی تھیں۔ لیکن اب انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے مدرسوں کے بجائے یونیورسٹیز کا رخ کیا ہے۔ جہاں طلبہ کی ذہن سازی کا کام سوشل میڈیا اور اپنے نیٹ ورک سے منسلک طلبہ اور اساتذہ کے ذریعے کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ صوبے کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں انتہا پسندی کو روکنے کے لئے جامع پالیسی بنائی جائے اور اس پر موثر عمل درآمد کیا جائے۔ 
روزنامہ نئی بات ۔۔ ۲۱ جولائی ۲۰۱۷

ورکرز ویلفیئر فنڈ : سندھ کا 50 فیصد حصہ ۔ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
ورکرز ویلفیئر فنڈ : سندھ کا 50 فیصد حصہ 

سندھ نامہ سہیل سانگی 
اسلام آباد میں سیاسی موسم کی گرما گرمی ملک بھر کی میڈیا پر چھائی رہی۔ اس میں سندھی اخبارات کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ اس میڈیا نے بھی جے آئی ٹی رپورٹ، اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرے، تجزیے، کالم،مضامین اورا ریے لکھے۔ سندھی میڈیا کا ر رول ہمیشہ مجموعی طور پر جمہوریت دوست رہتا ہے۔ یہ رویہ اس مرتبہ بھی جاری رکھا۔ وہ منتخب وزیراعظم ، منتخب پارلیمنٹ اور جمہوری نظام کی حامی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح کے معاملات بھی زیر بحث رہے۔ سندھ حکومت نے وفاقی قانون احتساب آرڈیننس کو ختم کر کے صوبے کرپشن کے خاتمے کے لئے نئے قانون کا بل م سندھ اسمبلی سے منظور کرالیا ہے۔ مجوزہ قانون پر سندھ حکومت زیادہ سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ اینٹی کرپشن ایجنسی کے قیام کے لئے تیاری مکمل کر لی ہے۔ اس مقصد کے لئے سوا تین ارب روپے گاڑیوں اور دفاتر کے لئے اور 600 ملازم بھرتی کرنے کی سمری تیار کر لی ہے۔ 
اس کے علاوہ سندھ نے ورکرز ویلفیئر فنڈ کی وصولی کا معاملہ وفاق کے پاس اٹھایا ہے۔ اس فنڈ کی صوبائی حکومت کی جانب سے وصولی کی قانون سازی گزشتہ سال ہی کرلی گئی تھی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتیں یہ فنڈ وصول کر رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں سندھ حکومت نے پیٹرول پمپس اور کاروباری اداروں سے 2 ارب روپے وصول کئے جبکہ ایف بی آر نے 6 ارب روپے وصول کئے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد محنت کا شعبہ صوبائی سبجیکٹ ہے۔ لہٰذا ایف بی آر اس مد میں صوبوں سے وصولی نہیں کر سکتی۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کی مد میں ملک بھر میں ہونے والی وصولی میں پچاس فیصد حصہ سندھ کا ہے لیکن جب یہ رقم تقسیم کی جاتی ہے تو سندھ کو اتنا حصہ نہیں ملتا۔ صوبائی حکومت اس معاملے پر وفاق سے خط وکتابت کر رہی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی ارادہ رکھتی ہے کہ وفاق نے اگر مثبت جواب نہیں دیا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ ملک میں اولڈ ایج بینیفٹ ادارے کی اربوں روپے کی عمارات ہیں۔ نہ صوبائی حکومتوں کو اس سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ معارات صوبوں کے حوالے کی گئی ہیں۔ سندھ حکومت نے ایک اور بھی فیصلہ کیا ہے کہ صوبے میں نجی شعبے میں قائم کئے گئے سات بجلی گھروں کو ڈیڑھ ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ یہ بجلی گھر اومنی گروپ اور اسکی ذیلی اور شراکتی کمپنیوں کے بتائے جاتے ہیں۔ جس میں بعض وہ یونٹ بھی شامل ہیں جن کو گیس نہ فراہم کرنے کے معاملہ پروفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔ نیپرا نے ان بجلی گھروں کی بجلی کی قیمت 10 روپے فی یونٹ مقرر کی تھی۔ جس کے بعد سندھ حکومت نے قانون سازی کر کے ان کمپنیوں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ اب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سبسڈی کی رقم مختص کر دی ہے۔ 
’’ترقیاتی کاموں کے نام پر ماحول اور دھرتی دشمنی ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے درختوں کو کاٹنا زمین اور ماحول کی دشمنی کے مترادف ہے ۔ اس ماحول اور دھرتی کی دشمنی میں اب وہ ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں جن کا کام دھرتی اور ماحول کا تحفظ ہے۔ گزشتہ سال سندھ یونیورسٹی سینکڑوں درخت کاٹ دیئے۔ دو سال پہلے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام نے 600 درخت کا ٹ دیئے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے گزشتہ ایک ہفتے میں سندھ زرعی یونورسٹی اپنی حدود میں تقریبا دو درجن درخت کاٹ چکی ہے۔ عینی دو تین سالوں میں ان تعلیمی اداروں نے ایک ہزار سے زائد درخت کاٹ دیئے۔ اس حساب سے ہمارے تعلیمی ادارے ایک درخت روز کاٹ رہے ہیں۔درخت اگانے کے بعد بڑا ہونے میں کئی سال لگتے ہیں۔ لیکن ہماری یونیورسٹیوں کے صاحب لوگ برسوں میں بڑے ہونے والے درخت دنوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ ترقیاتی کام کے نام پر درختوں کے قتل پر ماحول کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اس طرح سے بدین اور دیگر اضلاع سے بھی درخت کاٹنے کی خبریں شایع ہوئی ہیں۔ مہا کوی رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ جب میں نہیں ہونگا تو میرا لگایا ہوا یہ درخت آپ کے بہار کو نئے پتے دے گا اور یہاں گزرنے والے مسافروں سے کہے گا کہ ایک شاعر نے اس دھرتی سے پیار کیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ درخت لگانا دھرتی سے پیار کرنے کے برابر ہے۔ دوسری معنی یہ بھی نکلتی ہیں کہ درخت کاٹنا دھرتی دشمنی ہے۔ سندھ میں یہ دھرتی دشمنی جا بجا نظر آئے گی۔ ایک طرف ڈاکوؤں کے خاتمے کے نام پر جنگلات کاٹ دیئے گئے۔ صوبے میں کینالوں شاخوں اور پانی کے دیگر بہاؤ پر موجود درخت محکمہ آبپاشی کے اہلکاروں، پولیس اور ٹمبر مافیا کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے اپنا وجود کھو بیٹھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کینالوں کے کنارے موجود درخت سیلاب کے امکانات اور شدت کو کم کرتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت کو کرتے ہیں، اور بارش کا بھی بعث بنتے ہیں۔ ہم سندھ کے آبپاشی نیٹ ورک پر موجود درختوں کی کٹائی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ مادر عملی جس کی ذمہ داری انسانی خواہ فطری ماحول کو بہتر بنانے کی تربیت دینا ہے، اس ادارے کی جانب سے دختوں کی کٹائی ٹمبر مافیا کی حرکتوں سے مختلف نہیں لگتی۔ 
’’سندھ کے کاشتکاروں کے ساتھ معاشی دہشتگردی‘‘ کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ لگتا ہے کہ صوبے میں محکمہ آبپاشی کا کوئی وزیر ہی نہیں۔ اگر ہوتا تو سندھ کے مختلف کینالوں، شاخوں وغیرہ کی ابتر صورتحال نہیں ہوتی۔ محکمہ آبپاشی کی نااہلی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف کینالوں میں شگاف پڑ رہے ہیں دوسری طرف کینال اور شاخیں خشک پڑی ہوئی ہیں اور کاشتکاروں کی فصلیں سوکھ رہی ہیں۔ آبپاشی اہلکاروں کی کارکردگی کی قلعی کھولنے کے لئے صرف ایک روز کی خبریں جمع کرنا ہی کافی ہیں۔ خیرپور ضلع میں واقع کھڑا مائنر کو گزشتہ دنوں بیس فٹ شگاف پڑا۔ جس کی وجہ سے گھر اور فصلیں زیرآب آگئیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ شاخون اور مائنرز کے کناروں کی مٹی آبپاشی اہلکار بیچ دیتے ہیں۔ اور کنارے کمزور ہونے کے باعث شگاف پڑتے ہیں۔ خبروں کے مطابق کھڑا مائنر چند ماہ میں پاچ مرتبہ شگاف پڑ چکے ہیں۔ مسلسل پڑنے والے ان شگافوں کی نہ محکمہ آبپاشی نے اور نہ ہی ضلع انتظامیہ نے تحقیقات کرائی۔ 
دوسری طرف کاشتکار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ جوہی کی دائم شاخ میں پانی نہیں۔میرواہ کینال میں پانچ ماہ سے پانی کی قلت ہے اور کاشتکار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ان احتجاجوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔لاڑکانہ کے گاجی کھاوڑ شاخوں میں پانی نایاب ہے۔ یہاں چاول کی بوائی نہیں ہو پائی ہے۔چاول کی فصل نہیں ہوگی تو علاقے کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ اس طرح سے ایک درجن شکایات اور احتجاج صرف ایک روز ہی ریکارڈ کرائے گئے ہیں۔ کاشتکاروں سے بات چیت نہ کرنا اور ان مسائل کو نہ حل کرنا حکمرانوں کی بے حسی اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہیں۔ یہ صورتحال کاشتکاروں کے ساتھ معاشی دہشت گردی ہے جس کا وزیراعلیٰ سندھ کو ذاتی طور پر نوٹس لینا چاہئے۔ 
روزنامہ نئی بات ۱۴ جولائی ۲۰۱۷

Saturday, July 8, 2017

میگا کرپشن: اور کیا ثبوت چاہئے؟ ۔ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
میگا کرپشن: اور کیا ثبوت چاہئے؟

سندھ نامہ سہیل سانگی 

روزنامہ کاوش ’’میگا کرپشن کا اور کیا ثبوت چاہئے؟ ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ پہلے جب سندھ کے مختلف محکموں مین کرپشن کی بات کی جاتی تھی تو یہ چیخ و پکار مچ جاتی تھی کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ اب جمہوریت کے خلاف یہ سازش خود سرکاری ادارے کر رہے ہیں۔ جو ہر نئے روز نہ صرف عجب کرپشن کی غضب کہانیاں عام کرتے ہیں بلکہ خلق کی زبان بنی ہوئی کہانیوں کی تصدیق بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی میگا کرپشن بینظیر بھٹو ہاؤسنگ اسکیم ہر سال چھ ہزار بے گھر افراد کو گھر تعمیر کر کے دینے کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی رپورٹ میں سیاسی سفارش پر گھر تعمیر کے دینے کی تصدیق کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ اس اسکیم میں بہت بڑٰ کرپشن ہوئی ہے اور پیسے بٹورے گئے ہیں۔ ٹھٹہ، سجاول، بدین اور دادو میں غیر معیاری گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔ مختلف اضلاع میں وڈیروں نے اپنے کارندوں اور منظور نظر لوگوں کو گھر دیئے ہیں۔ جو اب بطور اوطاق کے استعمال ہو رہے ہیں۔ افسران اور سیاسی شخصیتوں نے گھروں کی تعمیر کے ٹھیکے اپنی این جی اوز کو دیئے ۔
سرکاری محکموں میں کرپشن پہچان بن کر رہ گئی ہے۔ حکومت جو کچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچ پاتا اور اسکو بھی کرپشن کا ازدہا نگل جاتا ہے۔ غریبوں کو گھر بنا کر دینے کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب جو اسکیم بنائی گئی تھی اس میں کرپشن کے ہر امکان کو ختم کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس کے برعکس کرپشن کے لئے سازگار ماحول بنا کر دیا گیا۔ پالیسی کے تحت گھر ان ’’غریبوں‘‘ کو دیئے گئے جن کے نام منتخب نمائندوں نے تجویز کئے۔ تیسرے فیز میں انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ غریبوں کی مالی مدد کے اس پروگرام کے تحت کتنے غریب رجسٹرڈ ہیں؟ بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب ہاؤسنگ اسکیم میں شفافیت نہ رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بینظیر بھٹو کے مشن کو آگے بڑہانے میں کتنے سنجیدہ ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے اس اسکیم میں کرپشن کرنے والے افراد کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ غیر متعلقہ افرد کو دیئے گئے گھر واپس لئے جائیں۔ 
’’ روزنامہ کاوش ‘‘مزید لکھتا ہے کہ حکومت سندھ قحط سے متاثرہ پونے تین لاکھ افراد کو اعلان کردہ گندم انتظامی لاپروائی اور کوتاہی کے باعث نہیں ہو سکی ہے۔ گندم کی 81 ہزار بوریاں مٹھی سمیت تھر کے مختلف گداموں میں اور اکثر کھلے آسمان کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔ جو کہ بارش ہونے کی صورت میں خراب ہونے کا امکان ہے۔ یہ گندم کون تقسیم کرے؟ یہ معاملہ ضلع انتظامیہ اور محکمہ خوراک کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔ تھر میں امدای گندم پر سیاست ہوتی رہی ہے۔ ممکن ہے کہ تھر کی اس بھوک کا افتتاح جلد ہو ۔ 
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ سندھ میں ماضی کی شاندار اقدار ختم ہو رہی ہیں اور دوسری جانب غربت بڑھ رہی ہے۔ جس سے نئے سماجی مظاہر اور مسائل سامنے آرہے ہیں۔ لاڑکانہ کے قریب شاک میں سے مٹی اٹھانے کے تنازع پر دو فریقین میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہالک اور بارہ بچے زخمی ہو گئے۔ سیوہن میں پلاٹ کے تنازع پر خواتین سمیت گیارہ افراد زخمی ہوگئے۔ پیر گوٹھ کے قریب ایک نوجوان کو بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ اس طرح کی روزانہ کئی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ وہ سرزمین جس کے حاکم نے صرف ساز کے سر پر اپنا سر کا نذرانہ پیش کیا تھا، امان میں دی ہوئی خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لئے تلواریں نیام سے نکالی جاتی تھیں، وہاں پر عدم برداشت کا یہ عالم ہو گیا ہے۔ سندھ بھر میں زندگی مان کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ صرف کاروکاری کے انم پر ہی قتل نہیں ہوتے بلکہ سیاسی مخالفت اور نفرت نے بھی ہزاروں لوگوں کیس انسین بند کی ہوئی ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا دعوا ہے کہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے۔ امن کا یہ پنچھی تقسیم ہند کے وقت ہی اڑ چکا تھا، اس کے بعد اب یہاں پر دہشت اور وحشت کا راج ہے۔ اب یہاں پر نہ مناسب طور پر کاشت ہوتی ہے اور نہ ہی کاروبار۔ نتیجے میں لوگ مالی مشکلات میں دھنستے جارہے ہیں۔ صوبے کا شمالی علاقہ قبائلی اور ذاتی دشمنیوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ جہاں پر اب انتہا پسندی کی علامتیں بھی ظاہر ہوری ہیں۔ 
کسی بھی سماج کے لئے یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ لیکن افسوس کہ اس المیے پر سنجیدگی سے غور رکنے اور اسکا حل نکالنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ 
’’سندھ میں تعلیم : اب محاسبہ ہونا چاہئے ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے صوبائی حکومت نے مختلف اقدامات کئے تھے ان میں سے عالمی بینک سے قرضہ لے کر تعلیم کے شعبے میں مختلف اصلاحی و تربیتی پروگرام شامل تھے۔ ا ربوں روپے قرضہ لیکر شروع کئے گئے مختلف پروگراموں کے بارے میں اب رپورٹس آئی ہیں کہ کوئی بھی مقرر کردہ ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔ عالمی بینک سے پہلے 30 کروڑ اور دوسرے مرحلے میں 40 کروڑ ڈالر قرضہ لیا گیا۔ یہ رقومات خرچ ہو گئیں لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ لیکن صوبہ 37 ارب روپے کا مقرض ہوگیا۔ عالمی بینک کی جانب سے میرٹ پر اساتذہ کی بھرتی، اور اور بچوں کے داخلے میں اضافہ کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔ عالمی بینک کے اس منصوبے کے تحت صوبے بھر میں اسکول منیجمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینی تھی لیکن ان کی تشکیل بھی مکمل نہیں ہو سکی۔ اسکول اسپیسفک بجٹ بھی خرچ نہیں ہو سکا۔ 2011- 12 میں یہ بجٹ ساڑھے تین ارب میں سے صرف 51 کروڑ خرچ ہو سکی۔ جبکہ 2012-13 میں تین ارب چھہتر کروڑ میں سے صرف ساڑھے تین ارب روپے خرچ ہوئی۔2014-15 میں رقم بڑاھئی گئی لیکن ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوئی۔ لہٰذا کلاس رومز کا سامان لیبارٹریز، لائبریریز کا قیام اور کھیلوں کے سامان کی فراہمی نہیں ہو سکی۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی کارکردگی۔ اس حکومت کو اب دس سال ہونے کو ہیں ، لیکن وہ تعلیم کا شعبہ درست نہیں کر سکی۔ میرٹ کو یکسر نظرانداز کر کے اساتذہ کی بھرتاں کی گئی۔ سندھ میں تعلیم کے بگاڑ کی اور کیا وجہ تلاش کی جائے؟تعلیم کے ساتھھ حکمرانوں کی یہ روش اب ناقابل برداشت ہے۔
Sindh Nama
Nai Baat June 24, 2017 

گورنر کی سندھ کی حکومت پر تنقید جائز ہے؟ ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
July 7, 2017
’’گورنر کی سندھ کی حکومت پر تنقید جائز ہے؟ ‘‘
سندھ نامہ سہیل سانگی 
’’گورنر کی سندھ کی حکومت پر تنقید جائز ہے؟ ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت‘‘ لکھتا ہے کہ وفاق کے نمائندہ گورنر سندھ نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مایوس کن کارکردگی اور عوام میں بڑہتے ہوئے احساس محرومی پر پر وفاق آنکھیں بند کر کے خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ سندھ کے عوام کا اھساس محرومی ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ ہالہ کے قریب بھانوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ سندھ ترقی کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پینے کا صاف پانی سمیت تعلیم، صحت اور سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی حکومت لوگوں کو پینے کا پانی مہیا نہیں کر سکی ہے۔ حالیہ بارشوں میں کراچی میں حکومت کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے۔ جہاں عوام خواہ کارواری زندگی معطل ہوگئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ ایک عرصے سے مختلف معاملات پر دھوکے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں ہزاروں نوجوان تعلیمی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے موجودہ جمہوری حکومت کے منتخب نمائندوں کے دفاتر اور گھروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کئی خاندانوں کو غربت کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ۔ یہ حکمران اور منتخب نمائندے جب اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں ان کی ترجیحات غریب ووٹرز، ان کی غربت اور انہیں اس غربت سے نکالنا نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور عیش عشرت بن جاتی ہیں۔ 
گورنر محمد زبیر نے عوام کی تکالیف کا اظہار تو کیا ہے ۔ چونکہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندہ ہیں اس لئے یہاں کے عوام ان سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ نواز لیگ نے وفاق میں حکومت کے چار مکمل کر لئے ہیں اور پانچواں سال بھی مکمل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ بتایا جائے کہ وفاقی اداروں میں میں سندھ کے نوجوانوں کو اس کے کوٹہ کے تحت کتنی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت فوائد دیئے جاتے ہیں، مگر سندھ کو اس کا جائز حق اور حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ سندھ کا پانی چوری کر کے یہاں کی زمینیں بنجر کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف یہاں سے نکلنے والی گیس کے استعمال میں بھی سندھ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ گورنر سندھ ایل این جی کے معاملے سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ بتائیں کہ سندھ کی گیس باہر بیچ کر اس کے بدلے سندھ کو مہنگی گیس دینا کہاں کا انصاف ہے؟ وفاق اگر سندھ کو این ایف سی ایوارڈ دینے کی بات کرتا ہے تو یہ اس کا احسان نہیں ۔سندھ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کے تمام اہداف بھی پورے کرتا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو قدرتی وسائل پر اختیارات ھاصل ہیں لیکن پھر بھی وفاق تیل اور گیس کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ ایسا کر کے صوبائی معاملات میں مداخلت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے۔ بات تو ہر کوئی کر لیتا ہے لیکن اپنی ذمہ داری قبول کرنے یا اپنی غلطی یا خامی کا اقرار کرنے اور اس کو درست کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بجائے اس کے کہ وفاق اور سندھ عوام کے بھلے کے لئے مل کر کام کریں ، وہ ایک دوسرے پر تنقید، منفی سیاست، اور الزام تراشی کر کے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ نتیجے میں غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ وفاق جانتا ہے کہ سندھ کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنے طور پر صوبے کو بڑے پیمانے پر ترقی دلا سکتا ہے۔ لیکن کہیں وفاق کے اعتراضات آڑے آتے ہیں تو کہیں صوبائی حکومت کی نااہلی اور کاہلی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت نے کوئی جامع حکمت عملی بنائی ہے جس سے مقامی لوگوں کو ان وسائل کا پھل ملے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران خواہ وفاقی ہوں یا صوبائی، وہ دانستہ طور پر عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ 
’’بڑہتے جرائم بہترین حکومتی کارکردگی کی مثال‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اخباری صفحات پر کسی کونے میں کرائیم ڈائری شایع ہوتی تھی۔ جس میں جرائم کی خبریں ہوتی تھیں۔ لیکن اب یہ کرائیم ڈائری تمام حدودپھلانگ اتنی وسیع ہوگئی ہے تمام اخباری صفحات کرائیم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ میڈیا کو معاشرہ کا آئینہ مانا جاتا ہے، اس آئینے میں اگر کسی کو اپنا چہرہ مکروہ، یابھیانک نظر آتا ہے ، اس میں میڈیا کا کیا قصور؟ معاشرے میں جرائم کی شرح سے طرز حکمرانی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ سندھ میں ویسے بھی جرائم کی رفتار اور شرحس کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ اب یہاں انارکی اوت تشدد کے واقعات بھی زیادہ ہونے لگے ہیں۔ خونریزی، قتل و غارت سے کون سے سماج کی عکاسی ہوتی ہے؟ فرد کی کونسی نفسیات عیاں ہوتی ہے۔ 
سندھ کے کئی اضلاع بھوتاروں کو بطور بخشش دیئے ہوئے ہیں۔، جہاں ان کی بادشاہی چل رہی ہے۔ یہاں پر ریاست کے قانون کے بجائے بھوتار کا قانون چلتا ہے۔ جرم بھوتاروں کی معیشت ہے۔ ان بااثر شخصیات کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی رہتی آئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ جرائم کو اختیار و اقتدار کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ نے جرگوں کے نام پر متوازی عدالتی نظام قائم کر رکھا ہے۔ جہاں وہ عصمت اور زندگی ک کی قیمت طے کرنے اور لگانے میں آزاد ہیں۔ کسی بھی سماج کو ترتیب اور تنظیم میں لانے کے لئے ریاست کا قانون موجود ہوتا ہے۔ اس قانون پر عمل کراکے معاشرے کو منظم اور امن کے راہ پر چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ریاستی قانون ہائبرنیشن میں چلا جائے وہاں جرائم کو سازگار ماحول ملتا ہے۔ جرائم میں اضافہ حکمرانی کے کس قسم کو ظاہر کرتاہے؟ یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ 
تشدد اور انارکی میں اضافہ معاشرے میں موجود افراد کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ انارکی اور تشدد میں اضافہ کے اسباب میں دیگر عوامل علاوہ ڈی پولیٹیسائیز ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔اس اہم عنصر کو حکومت اور پالیسی ساز نظرانداز کر رہے ہیں۔ پہلے سیاستداں عوام کی بے اطمینانی اور غصے کو اجتماعی قوت میں تبدیل کرنے کے آرٹ سے آشنا تھے۔لیکن آج کے سیاستدان یہ عمل ہی بھول چکے ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاست سے مایوس افراد اپنی محرومیوں کا غصہ انفرادی جھگڑوں، انارکی، اور تشدد کے ذریعے نکال رہے ہیں۔ 
سندھ اسمبلی نے نیب کا 1999 کا قانون ختم کرکے صوبے میں کرپشن کے خاتمے کے لئے نئے قانون کا بل منظور کر لیا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اس پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کون سا قانون وفاق کے اختیار میں ہے اور کون سا صوبائی اختیار ہے یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ضرور ہے لیکن ہماری نظر میں اسے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ قانون استعمال کس طرح سے ہوتا ہے۔ کرپشن کے خلاف قانون شروع سے موجود ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسی مثال ہے کہ یہ قانون غیرجانبداری سے استعمال ہوا ہو؟ خاص طور پر طاقتور طبقات کے خلاف۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ذاتی تحفظ اور مفادات کی آڑ قانونی پیچیدگیوں کے دروازے کھڑے کرنے کے بجائے اداروں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ معاشرے سے کرپشن کا ناسور ختم کر سکیں۔ 

Nai Baat, Sindhi Press, Sindh Nama, Anti-corruption Law, NAB, PPP, Governor Sindh, Kawish, Sindh Express, Law & Order, Sohail Sangi

این ایف سی ایوارڈ کے لئے صوبے قصوروار کیوں؟ ۔ سندھ نامہ ۔



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
این ایف سی ایوارڈ کے لئے صوبے قصوروار کیوں؟ 

سندھ نامہ سہیل سانگی 

ملک بھر میں پاناما کیس کی جے ٹی آئی کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ اخبارات کے کالم، اداریئے صرف انہی موضوعات کو زیر بحث لار ہے ہیں۔ اتنے تیز بخار کی وجہ سے نہ وفاقی بجٹ اور نہ صوبائی بجٹس میڈیا خواہ سیاستدانوں میں زیر بحث آسکے۔ مقامی اور صوبائی سطح کے مسائل بہت ہی ک زیر بھث آسکے۔
روزنامہ کاوش ’’این ایف سی ایوارڈ نہ دینے کے لئے صوبے ذمہ دار کیوں ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت نے ا پنی آئینی مدت کے پورے کرنے کے آخری سال اول اور الیکشنی بجٹ حزب مخالف کے بائیکاٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریکارڈ مختصر ترین مدت یں منظور کر لیا۔ نواز لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے خود ہی بجٹ بنایا اور خود ہی منظور کر لیا۔ حزب اختلاف کی کٹوتی کی تحاریک پراس کے بائیکاٹ کی وجہ سے ذرا بھی غور نہیں کیا۔
ایک عرصے سے صوبے وفاق حکومت کی جانب سے بروقت قومی مالیاتی ایوارڈ نہ دینے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ پر سندھ اور خیبر پختونخوا کی یہ تنقید ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے بغیر یہ بجٹ بنایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ نئے مالیاتی ایوارڈ کے بغیر سندھ کو یہ بجٹ منظور نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کے لئے صوبوں کو ذمہ دار ٹہریا ہے۔ جو کہ درست نہیں اور یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ایوارڈ پانچ سال کے لئے ہوتا ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ کے اس دعوے کو بھی جھٹلایا کہ بجٹ کا مالیاتی ایوارڈ سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ بھی ہو یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق صوبوں کو ان کے مالی حقوق و اختیارات دے۔ جبکہ وفاقی حکوم،ت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر صوبے کشمیر، گلگت بلتستان ار فاٹا کے لئے قابل تقسیم پول میں سے مالی حصہ نہیں دے رہے ہیں ، اس تنازع کو حل کرنا بھی وفاق کی ہی ذمہ داری ہے۔ لیکن وفاقی وزیر خزانہ اس کی تمام تر ذمہ داری صوبوں پر ڈال رہے ہیں۔ 

ملکی تاریخ میں وفاق کے ساتھ صوبوں کے پانی اور مالیاتی امور کے تنازعات چلتے رہے ہیں۔ ان تنازعات کے آئینی حل کے لئے مشترکہ مفادات کی کونسل جیسے فورم بنائے گئے۔ بدقسمتی سے وفاق کے ساتھ صوبوں کا اعتماد کی فضا نہیں بن پائی ہے۔ اس عدم اتعماد کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ نہ ہونا بھی ہے۔ 

انتخابات کی موسم قریب ہے اور سیاست کا درجہ حرارت میں اضافہ ایوانوں خواہ ایوانوں سے باہر بڑہتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ جس کا فائدہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو مل رہا ہے۔ حزب اختلاف نے بائیکاٹ کر کے بجٹ میں بہتر تاجویز شامل کرانے کا موقعہ ہاتھ سے گنوا دیا۔ اس کا نقصان اور کسی کو نہیں بلکہ عوام کو ہوا۔ اگر اپوزیشن ایوان میں موجود ہوتی اور اپنی سفارشات پر زور دیتی یقیننا حکومت پر اس کا سیاسی کواہ اخلاقی دباؤ بڑھ جاتا۔ اپوزیشن کا تمام تر زور اس پر رہا کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں ار کارجہ پالیسی کے بارے میں ایوان کو بتائیں۔ وزیراعظم کو یقیینا ایسا کرنا چاہئے تھا۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم حزب اخلاف کے تمام مطالبات کا تدارک نہیں کر سکتے تھے لیکن ایک حد تک ان کو اعتماد میں لینے کی فضا یقیننا بنتی۔ جو کہ قائد ایوان نہیں کر سکے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی انا کا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ 

روز نامہ عبرت کے کالم نگار مٹھل جسکانی نے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کی اختیارات نہ ہونے کہ شکایت پت تفصیلی اور دلچسپ کالم لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں بلدیاتی ا داروں کی سربراہی کے لئے کوئی عام آدمی انتخابات نہیں لڑتا۔ اس کے سیاسی و سماجی تعلقات، روابط ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ انتخاب جیتتا ہے۔ لہٰذا وہ ہر حوالے سے بااثر ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے منتخب حضرات عام لوگوں کی شکایات و تکالیف سنکر ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ اس کے لئے عذر لنگ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں۔ یہ درست ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اکٹیارات کا از سرنو تعین کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اہم امر یہ ہے کہ یہ منتخب نمائندے کس طرح سے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں؟ کیا ان نمائندوں نے عوام کی شکایات کے حوالے سے مناسب تمام قانونی و سیاسی طریقے استعمال کر لئے ہیں؟ کیا انہوں نے وہ تمام روابط استعمال کر لئے ہیں جو کہ ان کی کمایابی کی وجہ بنے تھے؟ صرف اختیارات نہ ہونے کی شکایت کرنے سے زیادہ عقل اور طریقکار استعمال رکنے کی ضرورت ہے۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں روزمرہ کے حالات کے بارے میں دو قسم کی رپورٹس شایع ہوتی ہیں ۔ ایک حکمرانوں کے ان دعوؤں کی ہوتی ہے جس میں صوبے بھر میں ترقی کے منصوبے زیر عمل بتائے جاتے ہیں۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ زراعت میں آگے بڑھ رہے ہیں ، روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں تعمیلی نظام بہتر ہو رہا ہے۔ نئے شہر تعمیر کئے جارہے ہیں پرانوں کو بہتر کیا جارہا ہے سندھ کے قدرتی وسائل کے لئے وفاق کے ساتھ جدوجہد کی جارہی ہے۔ 

دوسری صورت ان حقائق کی ہے۔ ہر جگہ پر پولیس مقابلوں میں بے گناہ لوگ مارے یا زخمی کئے جارہے ہیں۔ اقتادری ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سرداروں اور بڑے زمیندار وں کی سربراہی میں منعقدہ غیر قانونی جرگوں کے ذریعے معصوم لڑکیوں کے رشتے جرمانے اور ہرجانے یا معاوضے کے طور پر دیئے جارہے ہیں۔ مخالفین کو گاؤں بدر کیا جا رہا ہے۔ بڑے زمیندار چھوٹے زمینداروں کے حصہ کا پانی زبردستی چھین رہے ہیں۔ اور جب ان کی زمینیں ویران ہو جاتی ہیں تو کوڑیوں کے بھاؤ یہ زمینیں وہی بڑے زمیندار خرید کر رہے ہیں ۔ سندھ کے سینکڑوں اسکولوں کو آج بھی تالے لگے ہوئے ہیں ۔ صوبے کے کسی بھی ہسپتال میں جائیں غریب اور بے پہچ لوگوں کی قطاریں ہپیں جنہیں مناسب علاج معالجے کی سہولت نہ دی جاتی۔ بدحالی کا یہ عالم ہے کہ مائیں اپنے معصوم بچوں کو ساتھ لے کر کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں ۔

 ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں تعلیم کی صورتحال ملک بھر میں سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ تصویر کا دوسرا اور حقیقی رخ ہے۔ حکومت کو اس اصلی صورتحال کو ماننا چاہئے اور اس کو بہتر بناے کے لئے تریدوں کے بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
Nai Baat June
NFC Award, Kawish, Sohail Sangi, Daily Ibrat, Sindh Express  

پناہ گزینوں کو شہریت کے برابر حقوق کیوں؟ ۔ سندھ نامہ

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
June 30, 2017 
پناہ گزینوں کو شہریت کے برابر حقوق کیوں؟ 
سندھ نامہ  سہیل سانگی 
’’پناہ گزینوں سے پیار کے پیچھے کون سے محرکات ہیں‘‘ کے عنوان سے ’’روز نامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی میزبانی والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمران اول نمبر آنے کی ریس میں شامل ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے سندھ سمیت ملک بھر میں موجود رجسٹرڈپناہ گزینوں کو اہم قانونی و مالی حقوق دینے اور نئے آنے والے پناہ گزینوں ایسے حقوق دینے کے لئے قومی پناہ گزین قانون کا مسودہ تیار کر کے مشاورت کے لئے صوبوں کو بھیج دیا ہے۔ جس کے تحت پاکستان میں موجود پناہ گزینوں اور غیر ملکیوں کو املاک خرید کرنے ، ملک کے تمام صوبوں میں آسانی سے آنے جانے یا رہائش اختیار کرنے ، بیرون ملک جانے کے لئے پاکستان کے سفری دستاویز جاری کرنے اور بچوں کی تعلیم اور ان کی پیدائش وغیرہ کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے حقوق دینا شامل ہے۔ اس قانون کے بعد صوبائی حکومتیں ایسے افراد کو زبردستی صوبے سے نہیں نکال سکیں گی۔ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو پانچ سال کے لئے پناہ گزین کارڈ جاری کیا جائے گا۔ جس کے تحت وہ قانونی طور پر پاکستان میں قیام کر سکے گا۔ میعاد ختم ہونے کے بعد یہ کارڈ دوبارہ بھی جاری کیا جاسکے گا۔ پناہ گزین پاکستان میں قیام کے دوران کسی فیس یا ٹیکس کی ادائگی سے مستثنیٰ ہونگے۔ سندھ حکومت نے اس قانون کی مخالفت کر تے ہوئے یہ موقف رکھا ہے کہ سندھ میں پہلے لاکھوں پناہ گزین ایک پیچیدہ مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ سندھ میں رہاش پذیر پناہ گزینوں کو پہلے واپس ان کے وطن بھیجنے کے بعد نیا قانون بنایا جائے۔ 
وفاقی حکمرانوں کے دلوں میں کیوں پناہ گزینوں کی محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، کہ وہ ان کے لئے تمام سہولیات اور حقوق دینے پر تلے ہوئے ہیں جو آئین کے تحت اس ملک کے شہریوں کوحاصل ہیں۔ دنیا بھر میں پانہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے ’’ بادشاہوں‘‘ کی ادا بھی نرالی ہے۔ وہ ملک کو عالمی یتیم خانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ تقریبا چار عشروں تک افغان پناہ گزینوں کو ٹہرا کر ان کی مہمان داری میں مصروف ہیں۔جن حالات میں ان لوگوں نے افغانستان سے نکل کر پاکستان میں آکر پناہ حاصل کی تھی اب وہاں وہ حالات نہیں۔ اب ان کے ساتھ وہ روش رکھنے کی کوئی منطق نہیں۔ جو بھی پناہ گزین آتے ہیں ان کا رخ سندھ اورخاص طور اسکے دارالحکومت کراچی کی طرف ہوتا ہے۔ یہ لوگ سندھ کے وسائل پر بوجھ ہوتے ہیں۔ بلکہ یہاں کی ڈیموگرافی کو بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ ملک میں دہشتگردی میں افغان پناہ گزینوں کے ملوث ہونے کے شواہد بھی مل چکے ہیں۔ ان افغان پناہ گزینوں نے پاکستانی شہریت کے قومی شناختی کارڈ اور دیگر ضروری دستاویزات بھی بنا لی ہیں۔ ان کو اب یہاں سے نکالنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان افغنایوں کی وجہ سے کراچی کی کوکھ سے کچی آبادیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک طرف بلڈر مافیا کرچی کے قدیمی گوٹھوں کو بلڈوز کر رہی ہے اور انہیں اپنی ہی سرزمین سے بے گھر اور بے وطن کر رہی ہے دوسری طرف افغانیوں، بنگالیوں، بہاریوں اور برمیوں کی بڑے تعداد میں موجودگی کی وجہ سے سندھ اسمبلی میں نمائندگی بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ وفاقی حکومت کو تھر کے قحط زدگان کی فکر نہیں، اسے صرف ان تارکین وطن کی فکر کھائے جارہی ہے۔ ہم سندھ حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ سے سے زیادہ سندھ کے لوگوں کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس سانحہ بہاولپور پر افسوس کا ظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جن گھروں کی لاشیں سرخانوں میں پہچان کے انتظار پڑی ہوئی ہوں، ان گھروں میں جوکربلا بیت رہی ہوگی اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ انسان مہان ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ لیکن ایسی بیش بہا ہستی کو حرص و ہوس کے معاشی نظام نے اس مقام پر پہنچایا ہے ۔ ددنیا کے معاشی نظام کی بنیاد منافع خوری پر رکھی ہوئی ہے۔ منافع کے لئے قدرتی وسائل کو مارکیٹ کی شیطانی آنت نگل رہی ہے۔ نتیجے میں قدرتی وسائل کے استعمال اور ان کی پیدائش میں توازن نہیں رہا۔ وسائل کے عدم تواز کی وجہ سے اس زمین اور اس کے اردگرد کا ماحول بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ کر آرہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں غربت بڑھ رہی ہے۔ یہ غربت اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کے کئی روپ ہیں۔اس نظام سے عام آدمی اور اسکی سوچ بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کویقین نہیں کہ کبھی برابری کا نظام بھی قائم ہو سکے گا۔ انصاف مل سکے گا، یا مجموعی طور پر ترقی یقینی ہو جائے گی۔ اس کے نزدیک یہ حرفت، کاریگری اور چالاکی کا دور ہے۔ یہ ایک مکمل سوچ بن گئی ہے۔ اس کے لئے نوجوان آگے آئین اور بڑے فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس میں ٹینکر سے گرتے ہوئے تیل پر لوگ جا کر لوٹ مار کی طرح نہ گریں۔ بلکہ خود ضابطگی اور بالغ ذہنی کا مظاہرہ کریں۔ اس کے لئے سماج میں مفید تعلیم اور مناسب تربیت کی ضرورت ہے۔ 
روزنامہ عبرت نئی حلقہ بندی التوا میں کیوں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنرکے سردار محمد رضا کی صدارت میں 2018 کے انتخابات وقت پر منعقد کرانے اور نئی حلقہ بندیوں کے لئے منعقدہ اجلاس میں محکمہ شماریا ت کے چیف نے بتایا کہ مردم شماری کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ اضلاع سے ھاصل کردہ ڈیٹا ک انٹری کی تصدیق کا کام جاری ہے۔ اپریل 2018 تک ضلع سطح کی مردم شماری کی حتمی رپورٹ شایع کی جائے گی۔ اس کے بعد یہ ریکارڈ الیکشن کمیشن کے حوالے کردیا جائے گا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ عبوری ڈیٹا جولائی میں دیا جاسکتا ہے لیکن یہ ڈیٹا حتمی نہیں ہوگاا۔ الیکشن کمشنر نے بتایا کہ جب تک حتمی ڈیٹا نہیں ملتا تب تک نئی حلقہ بندی نہیں ہو سکتی۔اس صورتحال میں ہم مجبور ہونگے کہ 2018 کے انتخابات پرانی حلقہ بندی پر ہی کرائیں۔ مردم شماری کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ آئندہ انتخابات نئی حلقہ بندی کے تحت ہونگے۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی ایک وجہ پرانی حلقہ بندی بھی تھی جو کہ زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتی تھی۔ اس مرتبہ بھی اگر پرانی حلقہ بندی پر انتخابات کرائے گئے ، ایک بار پھر دھاندلی کی شکایات سر اٹھائیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اسکے تمام ادارے کسی طور پر نئی حلقہ بندیوں کو یقینی بنائیں تاکہ کہ ان کی شفافیت برقرار رہ سکے۔ 
30 جون 2017 روزنامہ نئی بات

Keywords: Sindhi Press, Kawish, Sindh Express, Refugees in Pakistan, Afghan Refugees, Delimitation, Elections 2018, Sohail Sangi, Daily Ibrat