Tuesday, May 30, 2017

آئی جی سندھ کے تبادلے کی تکرار اور اچھی حکمرانی ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی
پیپلزپارٹی مختلف اضلاع میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس بہانے پارٹی خود کو سرگرم رکھنے اور وفاق کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سندھ کابینہ میں بعض اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جس کے مطابق محکمہ داخلہ کا قلمدان انور سیال کو دیا گیا ہے جبکہ وزارت صحت کا قلمدان سکندر مندھرو کو اور محکمہ اطلاعات کا قلمدان سید ناصر شاہ کو دیا گیا ہے۔ سہیل انور سیال پارٹی قیادت کے منظور نظر ہیں لیکن چند ماہ قبل رینجرز کے ساتھ اختلافات کے بعد ان سے یہ قلمدان واپس لے لیا گیا تھا۔ سکندر مندھرو پہلے بھی وزیر صحت رہے ہیں لیکن اس اہم محکمے کی کارکردگی پر بہت سارے سوالیہ نشان آنے کے بعد انہیں تبدیل کر دیا گیاتھا۔ میڈیا کے حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ سہیل انور سیال کی بطور وزیر داخلہ تقرر آئی جی سندھ کے تنازع کو نمٹانے کے لئے کیا گیا ہے۔ اور سیاسی مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ انتخابات کے انتظامات میں بھی سہیل انور سیال کی تقرری کام آئے گی۔
آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ اور حکومت سندھ کے درمیان تکرار تیز ہو گئی ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ عدالت میں سندھ حکومت کے موقف یہ یہ بات عیاں ہے کہ وہ کسی طور پر بھی اے ڈی خواجہ کو بطور سندھ پولیس کے سربراہ کے رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ سندھ پولیس کے سنیئر افسران کا ایک مضبوط گروپ اے ڈی خواجہ کے ساتھ ہے۔ نئے وزیر داخلہ کی طلب کردہ پہلے اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس اور تین ڈی آئی جیز نے شرکت نہیں کی۔ جس پر نئے وزیرداخلہ نے نہ صرف اجلاس میں بلکہ میڈیا میں بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت مختلف مواقع پر یہ کہتی رہی ہے کہ سندھ میں اچھے افسران کی کمی کے باعث طرز حکمرانی میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں اور اصلاحات لانے میں دقت درپیش ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا کہ جو افسران عوام میں اچھی ساکھ رکھتے ہیں یا جن کے چار اچھے کاموں کی وجہ سے عوام انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، انہیں فوری طور پر تبدیل کردیا جاتا ہے۔ سندھ میں اکثر محکمہ تعلیم، صحت، اورداخلہ کے قلمدان دینے اور تبدیل کرنے پر ماضی قریب میں حکمران جماعت کے اندر تنازعے بھی رہے ہیں۔ ان محکموں کے سیکریٹریز بھی سوائے ایک دو کے زیادہ عرصے تک اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہ سکے ہیں۔
ایڈٰ خواجہ کی بطور پولیس سربراہ کے تقرر، اور اس کے بعد انہیں ہتانے اور بالآخر ہر صورت میں ہٹانے کا معمہ سامنے آیا ہے۔ اس معمے کے آئے روز نئے رنگ سامنے آتے رہے ہیں۔ ایک آئی جی کو ہٹانے کے لئے سندھ حکومت متحرک ہے۔ مگر معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ چاہتے ہوئے بھی آئی جی کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔سندھ کابینہ بھی آئی جی سندھ کو ہٹانے کی مظوری دے چکی ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں ہٹایا نہیں جاسکا ہے۔ بالآکر سرکاری وکیل نے عدالت عالیہ میں یہ تک کہہ دیا کہ اے ڈی خواجہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیاں ورکنگ رلیشنشپ اچھی نہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ کام کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ اور انہیں ہٹایا جائے۔ اب قصہ یہاں تک جا پہنچا ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے سے براہ راست بات نہیں کرتے۔ سرکاری خط وکتابت اور میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا رہی ہیں۔
جب افسران اور اقتداری جامعتوں کے درمیان کوئی تکرار ہوتا ہے تو دونوں فریق مٹی کے ڈھیر تلے دبے ہوئے قاعدے، قوانین کی کتابیں نکال لاتی ہیں۔ پھر ان قوانین و ضوابط کے تحت معاملات چلانے کی باتیں کرتی ہیں۔ یہاں پر بھی سندھ کے وزیر داخلہ اور آئی جی اپنے حق میں دلائل تلاش کر رہے ہیں اور آئینی تحفظ تلاش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب آئی جی پولیس قانونی اختیارات کے ذریعے اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کاش سندھ کے افسران اور وزیر اس طرح کے حوالے اور قانونی کتاب عوام کے بھلے اور عوام کی خدمت کے لئے بھی کبھی پیش کرتے۔ اگر ایسا کرتے تو شہریوں کی بڑی خدمت ہوتی اور صوبے میں اچھی حکمرانی قائم وہ جاتی۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں سرکاری خواہ نجی سطح پر تعلیم کی تباہی پر چیخ و پکار ہوتی رہی ہے۔ شکایات کرنے والوں میں سیاسی حلقے اور سماج کے مختلف طبقے شامل ہیں۔ لیکن اب سرکاری اور انتظامی سطح پر بھی تعلیم کی خراب صورتحال کے بارے میں اعترافات کئے جانے لگے ہیں۔ چند ماہ قبل وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان بھی دراصل تعلیم کی سنگین صورتحال کا اعتراف تھا۔ حال ہی میں سیکریٹری تعلیم نے بھی مانا ہے کہ صوبے میں تعلیم کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں اصلاحات لا کر نجی اسکول بند کئے جائیں گے۔
موجودہ سیکریٹری سے پہلے جو صاحب اس عہدے پر براجماں تھے وہ تعلیم کے لئے زیادہ سرگرم تھے۔انہوں نے بایومیٹرک سمیت متعدد اقدامات کئے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی اصلاح نہیں ہوئی۔ اصلاح ہو بھی کیسے سکتی تھی؟ جب تک تلیمی سرشتے میں موجود بنیادی نقائص کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اس شعبے میں اصلاح خام خیالی رہے گا۔ پاکستان میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 23 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جس میں سے 62 لاکھ کا تعلق سندھ سے ہے۔ اس صوبے میں اگر تعلیم کی صورتحال تھوڑی بہت بہتر ہے تو وہ صوبائی دارالحکومت کراچی ہے۔ باقی صوبے بھر میں تعلیم کا بیڑا غرق ہے۔ اس ضمن میں حکومت اور متعلقہ تعلیمی افسران نے کیا کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں ہر سال اضافہ کا جاتا ہے۔ بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کا قانون بھی موجود ہے۔ ایسے میں بھی 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔
سندھ میں تعلیم میں بہتری ایمرجنسی، اعلانات اور اعترافات سے نہیں آئے گی۔ اس کے لئے عوامی خدمت کے جذبے کی ضرورت ہے۔ جس کا بہرحال فقدان ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کئے اب کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ اس ضمن میں حکمرانوں نے کیا کیا؟ نہ کوئی سرزمین پر ٹھوس چیز موجود ہے اور نہ کسی کے پاس تسلی بخش جواب ہے۔ تعلیمی ایمرجنسجی یقیننا اچھا اقدام تھا۔ لیکن حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سندھ میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں اسکول بند ہیں جو تعلیم کے لئے استعمال نہیں کئے جا رہے ہیں۔ جو اسکول کھے ہوئے ہیں جہاں بچے جاتے بھی ہیں وہاں پر بھی تعلیم کی صورتحال بہتر نہیں۔ ان اسکولوں میں بنایدی سہولیات کی کمی ہے۔ اساتذہ موجود نہیں۔
تعلیمی نظام میں بنیادی مسئلہ سیاسی مداخلت اور کرپشن ہے۔ اساتذہ کی بھرتی میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لئے مختص رقم تعلیم پر ہی خرچ کی جانی چاہئے۔ کیونکہ اس بجٹ کے سیاسی بھوتاروں اور اعلیٰ افسران کی خوشنودی پر خرچ ہونے کی شکایات عام ہیں۔

روزنامہ نئی بات مئی