Friday, August 14, 2015

کالاباغ ڈیم اور پنجاب کی ہٹ دھرمی

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

کالاباغ ڈیم اور پنجاب کی ہٹ دھرمی

سندھ نامہ
۔۔ ۔۔ ۔۔۔ سہیل سانگی
سندھ میں سیلاب کی صورتحال اور حکومت کی جانب سے کئے گئے ناقص انتظامات، جاری آپریشن اور اس کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے مخالفت اس کے علاوہ نیب کے کرپشن کے حوالے سے سرکاری دفاتر پر چھاپے سندھ کے اخبارات کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ادبی اور ثقافتی محاذ پر بڑا واقعہ بڑے پیمانے پر اور مختلف شہروں میں ممتاز دانشور ابراہیم جویو کی سالگرہ کا منایا جانا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران صوبے کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی آئی جب فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں کی جانب سے متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف اسمبلی میں پیش کی گئی قراداد کی پیپلزپارٹی نے حمایت کردی۔ پنجاب کی طرح سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انتخابات کب ہونگے؟

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں اور سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ایک بار پھر متنازع منصوبے کالاباغ ڈیم کو مسترد کردیا ہے۔ اب جب سیلاب کا موسم آیا ہے تو ایک بار پھرکالاباغ ڈیم پر قومی اسمبلی میں بحث چھیڑی گئی۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب کی ہٹ دھرمی ہے۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک کی ترقی کا واحد حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے۔ اس لئے کسی اور منصوبے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہا۔ ان اراکین کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ ایک بار پھر بے وقت کی راگنی شروع کردی گئی ہے جو ہر مرتبہ چھوٹے صوبوں کا درد سر بنتی ہے۔ 

مانا کہ پانی انسانی زندگی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس زرعی ملک میں لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ اور زراعت کے لئے پانی کی دستیابی ضروری ہے۔ ملک میں پانی کا مسئلہ اس وقت اس ملک میں کھڑا ہوا جب ملک کے بعض صوبے پانی کی اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں جو بچ جاتا ہے وہ دوسرے صوبوں کو نصیب ہوتاہے۔ یہاں تک کہ ماضی میں کئے گئے پانی کے مختلف معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی ۔ اس کا نتیجہ ی نکلا کہ ایک صوبہ سرسبز و شاداب ہے جبکہ دوسرے صوبوں کی زمینیں بنجر اور بے جان بن گئی ہیں۔ پانی نہ ملنے کی وجہ سے انسان خواہ حیوان پیاسے رہ جاتے ہیں بلکہ معیشت نہ ہونے کی وجہ سے انسان کے لئے جسم کے ساتھ سانس کا ناطہ برقرار رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ 

ایک بار پھر اس متنازع منصوبے کا راگ چھیڑا گیا ہے جس کو تین صوبے کئی بار مسترد کر چکے ہیں۔ ان صوبوں کے لوگ سمجھتے ہیں کالاباغ ڈیم ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس لء یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اس راگ کو چھیڑنے کے بجائے تینوں صوبوں کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے دفن کردے۔

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ برطانوی راج سے آزادی حاصل کئے 67 سال ہوچکے ہیں۔ ان بیتے برسوں کا اگر حساب کیا جائے تو فخر کم اور افسوس زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہامرے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مزید مایوسی ہونے لگتی ہے۔ 67 برس کسی بھی ریاست کے عروج اور زوال کے لئے بڑا عرصہ ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں قومیں اپنی خراب خصلتیں بھول کر نئی راہیں تلاش کر لیتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ماضی کی شاندار روایات بھولا کر زمانے کی گردش میں گم ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی لگتا ہے کہ ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ کس منہ سے ہم اپنے سماج کے بہتر ہونے کی حام مار سکتے ہیں کہ پیسے کی لالچ میں آکر بعض گروہ بچوں کے ساتھ بدفعلی کر کے اس کی ویڈیوز بناتے ہیں اور یہ ویڈیو کلپس والدین کو دکھا کر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔ 

 ہم نے اس ملک کو ایسا بنا دیا ہے کہ اگر پنچائت فیصلہ کرتی ہے کہ کسی ملزم کی بہن کے ساتھ بطور ہراجنہ سر عام جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ اور سماج اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہات ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر مکان خالی کرانا ہے تو علاقے کے مولوی سے فتوا لیکر سینکڑوں لوگ اس کے پیچھے لگائے جاتے ہیں۔ پھر اس شخص کو مار دیا جاتا ہے یا زندہ بٹھی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہاں ایسا بھی وہتا رہا ہے کہ کوئی ذہنی مریض بچوں کو اغوا کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد ان کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر جلا دیتا ہے۔

یہاں برسوں سے معصوم بچیاں کارو کاری کی بدترین رسم کی بھینٹ چڑہتی رہتی ہیں۔ برسہا برس تک لوگ دشمنیاں پال کے رکھتے ہیں۔ درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانیں ان دشمنیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مگر قانون نام کی چیز کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ مہذب سماجوں کی طرح یہاں بھی اعلیٰ ایوان، انصاف گھر، اور دجونوں ایجنسیاں موجود ہیں ، مگر نہیں معلوم کہ یہ سب کن کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔انہیں نہ سماج میں ہونے والی یہ زیادتیاں اور نا انصافیاں نظر آتی ہیں اور نہ ہی وہ کسی امکان پر یقین رکھتی ہیں۔ 

آج بھی حالت یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی سینکڑوں انسانی جانیں گنوانے والے تنازعات کا فیصلہ جرگوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ پنچائتیں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتی ہیں۔ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ خود اپنے طور پر چکاتے ہیں یا یہ قوت نہ ہونے کی صورت میں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں ان کی حفاظت کے لئے قائم کی گئی پولیس فورس یا قانون کا سہارا نہیں لیتے۔ انہیں یقین ہے کہ انصاف یا ازالے کے بجائے انہیں مزید لوٹا جائے گا۔

فرقہ واریت، لسانیت، محکومی اور دیگر سماجی نابرابری جس رفتار سے معاشرے میں بڑہی ہیں انہوں نے نفرتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد کی ہے۔ آج لوگ آزاد ہوتے ہوئے بھی خود کو قید اور تنہا محسوس کرتا ہے۔

ملک کے اعلیٰ اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان حالات کا بغور جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی وڈیرے اور سردار اپنی عدالتیں کیونکر چلاتے ہیں؟ پولیس اور اینجنسیوں کی باوجود ایسے گروہ کیونکر پیدا ہوتے ہیں جو لوگو کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں؟

روزنامہ نئی بات برائے ۱۵ ۔ اگست ۲۰۱۵ع

Friday, August 7, 2015

سندھ میں کشیدہ اور خوف ہراس کی صورتحال

سندھ میں کشیدہ اور خوف ہراس کی صورتحال
سندھ نامہ سہیل سانگی
June 19, 2015
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فوج پر تنقید کے بعد صورتحال سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے دیگر بعض شہروں میں سرکاری افسران کی گرفتاریاں جاری ہیں ابھی تک ڈیڑھ درجن افسران کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جبکہ نصف درجن اعلیٰ سرکاری افسران نے حفظ ماتقدم ضمانتیں کرالی ہیں ۔ صوبے میں ایک طرح کے کریک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اس کی وجہ سے کراچی میں صوبائی سیکریٹریٹ کے افسران میں خوف بھی پایا جاتا ہے۔

اخبارات نے پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم کی صورتحال اور کرپشن کے الزام میں افسران کی گرفتاریوں کو موضوع بنایا ہے۔

اخبارات کے مطابق کرپشن کی شکایات عام ہیں لیکن اس کو روکنے یا ختم کرنے کے لئے سویلین م اور صوبائی مکینزم موجود ہے ۔ اسی مکینزم کو فعال بناکر اقدامات کئے جائیں جو کہ قانون اور آئین دونوں کے تقاضوں کے مطابق ہونگی۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ سب کچھ رینجرز کا مینڈیٹ ہے؟ کیا یہ ادارہ اپنے حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہا؟ بعض تجزیہ نگاروں نے نیب اور رینجرز کے ان چھاپوں کو وفاق کی جانب سے صوبائی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور صوبے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے وفاقی یا سندھ بجٹ پر اخبارات میں جامع بحث نہیں ہو سکی۔

روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کی شکایات اور نیب اور رینجرز کے چھاپے کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق کے ماتحت ادارے رینجرز نے سندھ کے مختلف محکموں کرپشن کے خلاف تحقیقات کے لئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور رینجرز نے زمین کی الاٹمنٹ کا رکارڈ تحویل میں لیا۔ایک اور وفاقی ادارے نیب نے سندھ لائنز ایریاز ری ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پانچ اہم افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں چائنا کٹنگ کے ذریعے 1200 سے زیادہ پلاٹ مختلف مافیا کو فروخت کر کے چار ارب روپے سے زائد رقم ہڑپ کی۔ ای سی ایل میں پچاس سے زائد افسران کے نام ڈال دیئے گئے ہیں۔ صوبائی محکموں کے افسران کے خلاف رینجرز کی ان کارروایوں کے بارے میں صوبائی حکومت کو آگاہی نہ دینے پر صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ نیب کی کارروایوں اور رینجرز کے چھاپوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق سندھ حکومت پت عدم اعتماد کا اظاہر کر رہا ہے۔
ملک کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ میں کرپشن کا راگ گایا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف سندھ حکومت کو بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خطرہ ہے۔ اس میں کچھ کوتاہیاں اپنی بھی ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی اچھی حکمرانی کو یقینی بناتی اور عام آدمی کو پینے کے پانی، صحت، تعلیم وغیرہ کی بنیادی سہولیات مہیا کرتی وفاق کو سندھ حکومت پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی کو شفاف بنائے اور ایک ایسا نظام بنائے جس کے تحت کرپشن میں ملوث افسران قابل گرفت ہوں ۔ اگر وفاق کسی آڑ میں سندھ حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جس کے لئے وفاق سے باضابطہ بات کرنی چاہئے۔

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کام زیادہ اور پیسہ کم ہے۔ سندھ کا خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ۔ اس خسارے کے لئے صوبائی حکومت وفاق کو ذمہ دار ٹہرا رہی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران وفاقی پول سے سندھ کو 381 ارب روپے ملنے تھے۔ بعد میں یہ تخمینہ کم کرکے 353 ارب روپے کیا گیا۔ لیکن عملا گزشتہ 9 ماہ کے دوران 287 روپے سندھ کو جاری کئے گئے اور مجموعی طور پر وفاق نے 52 ارب روپے کم جاری کئے ۔ وفاق سے کم رقم ملنے کی وجہ سے اہم ترین شعبوں تعلیم، صحت، بلدیاتی اداروں، جنگلات لایو اسٹاک کی ترقیاتی رقامت میں کٹوتی کی گئی ہے۔

سندھ تیل ، گیس، اور دیگر قدرتی وسائل کے ذریعے وفاق کو بڑی آمدنی دیتا ہے، لیکن صوبے کا کم حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جو حصہ رکھا جاتا ہے اس کی ادائیگی بی پوری نہیں کی جاتی اکثر ادفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ رقومات وقت پر جاری نہ کرنے کی وجہ سے سندھ میں ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کی طرف یہ رویہ اپنی جگہ پر۔ لیکن سندھ کی جانب سے باقاعدہ ہوم ورک کرکے وفاق کے ساتھ مالی معاملات اٹھائے نہیں جاتے۔ کے حکمران اس وقت نیند کے خمار سے جاگتے ہیں جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مسائل صرف وفاق کے حوالے سے شکایات کرنے سے دور نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو رقومات حاصل وہئی ہیں ان کے موثر اسعتمال کو یقینی بنایا جایت اور اس کے ساتھ ساتھ مالی امور کے حوالے سے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پورا سال اس پر کام کرتی رہی۔ اور جامع کیس بنا کر وفاق کے سامنے پیش کیا جائے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاق کی جانب سے سندھ کو کم رقومات کے اجراء پر اداریہ لکھا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کو مالی وسائل میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔

بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار

بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
July 31, 2015
’’بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ جمہوریت کے دعویدار ‘‘کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول ایک ماہ تک ملتوی کرانے پر غور کر رہی ہیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں سیلاب اور بارش کی صورتحال کی وجہ سے یہاں پر دونوں صوبائی حکومتیں امدادی کاموں اور متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں۔ لہٰذا بلدیاتی انتخابات کا شیڈیول جاری نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات کرانے کے لئے عملہ انتظامیہ سے لیا جاتا ہے اور یہ عملہ ابھی سیلاب سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہا ہے کہ ایک ماہ تک یہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔ حکومت سندھ نے صوبے میں مرحلہ وار انتخابات کرانے کے لئے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔
اس سے قبل ملک کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اسے بدقسمتی کہئے یا انتظامی نااہلی کہ وہاں پر بلدیاتی محکمے نے تاحال کام شروع نہیں کیا ہے۔ یہ مرحلہ بھی جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ملک کے دواہم صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں کسی نہ کسی طرح سے بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ کچے کے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ انتظامیہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس کے باوجود انتظامیہ کو ہی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کا ذمہ دار ٹہرایاجاسکتا ہے۔کیونکہ دونوں صوبائی حکومتوں کو علم تھا کہ جولائی میں بارشیں ہونگی اور گلیشرز پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔لیکن اس ضمن میں پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے ۔اگر پہلے سے کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیاجاتا، دریا کے پشتوں کو مضبوط کردیا جاتا۔تو آج صورتحال مختلف ہوتی، اور انتظامیہ دباؤ کی کیفیت میں نہ ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں یہ روایت قائم ہوچکی ہے کہ جب سیلاب مختلف علاقوں کو ڈبونا شروع کرتا ہے تو انتظامیہ ہنگامی اقدامات پر غور شروع کرتی ہے۔ اس دوران خواہ کسی کی فصلیں ڈوب جائیں یا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہو۔
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2005 میں مشرف دور میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ انتخابات 2009 میں منعقد ہونے تھے، لیکن 2008 کے عام انتخابات میں جو سیاسی جماعتیں جیت کر آئیں ان کے منشور میں شاید اقتدار کی نچلے سطح پر منتقلی شامل نہیں تھی۔ لہٰذا آج تک یہ انٹخابات نہیں ہوسکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کراکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا آئین کی تقاضا ہے۔ آئین کی پاسداری کے دعویداروں نے جب جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اختیارات کو اپنے پاس ہی قید رکھا۔ نتیجے میں بعض لوگوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں جمہوریت کے دعویدار ان انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ کئی مرتبہ عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومتوں سے شیڈیول طلب کیا۔ لیکن ہر شنوائی پر ایک نیا بہانہ بنا کر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ نتیجے میں سپریم کورٹ کو ہی شیڈیول جاری کرنا پڑااور انتخابات کی تاریخ دینی پڑی۔
ایک بار پھر صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن گٹھ جوڑ کر کے سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے امدادی کاموں کا بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار کو عام لوگوں کی حالت پر رحم کر کے بلدیاتی انتخابات کرا دینے چاہئے۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ قدرتی آفات دیگر ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں کی حکومتیں متاثرین کی نہ صرف بروقت مدد کرتی ہیں بلکہ ان کی تب تک مدد کی جاتی ہے جب تک وہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ ہمارے پس صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان قدرتی آفات کے آنے سے پہلے کوئی پیشگی حفاظتی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ یہ آفات کا طوفان اپنے گہرے نقش اور ایک طویل خاموشی چھوڑ جاتا ہے۔اس کے بعد حکمران فضائی دورے کر کے ان تباہیوں کے منظر دیکھنے آتے ہیں۔ اور متاثرین کو چند روپوں کے چیک دے کر اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھتے ہیں۔
سندھ میں سیلاب کی صورتحال ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ قابل دید ہے۔ ایک طرف سیلاب کا پانی ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن صوبائی انتظامیہ اس کو ’’بڑا‘‘ خطرہ نہیں سمجھتی۔ لیکن جو مصیبت صوبائی حکومت کی نظر میں چوھٹی ہے اس نے بھی لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف کچے کے باسی یں جہاں حکومت کے کچے اقدامات نے انہیں در بدر کردیا ہے۔ وہ لوگ انتظامیہ کی عدم توجہگی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب صوبے کے اکثر شہروں میں بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہوسکی ہے۔ ان شہروں میں روڈ ، گلیاں بازاریں زیر آب ہیں۔ شہری زندگی اور کاروبار معطل اور مفلوج ہے۔ گٹر کا پانی شہروں کو جہیلوں میں تبدیل کر چکا ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا امکان ہے۔ بدین ضلع میں سیم نالوں کے پانی چڑھنے سے دیہی علاقوں میں لوگ مصیبت میں آگئے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی یا اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو تباہی سیلاب اور بارشیں کرتی ہیں اسے زیادہ تباہی ادھورے اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حکمران فضائی جائزے لینے کے بجائے زمینی حقائق دیکھیں اور موثر اقدامات کے بارے میں حکمت عملی بنائیں۔
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ قومی احتساب بیورو ایک طویل ہائبرنیشن نے بعد سرگرم ہوا ہے۔ اس نے بعض میگا کرپشن کیس ظاہر کئے ہیں۔ تازہ رپورٹ میں 480 ارب روپے کے 29 کیس سامنے آئے ہیں۔ جن کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ جس میں مالی بیقاعدگیوں، زمین کی فروخت کے ذریعے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تفصیلات سامنےّ ئی ہیں۔
سندھ میں گزشتہ سات سالہ دور حکمرانی میں مفاہمت کامظاہرہ کیا گیا جس سے جرائم پیشہ، لوگ، دہشتگرد، اشتہاری مجرم، کرپٹ نوکر شاہی، اور ان کے سیاسی اور انتظامی سرپرست مستفیض ہوئے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا مفہوم تبدیل کر کے اداروں سے انتقام لیا گیا۔ حکمرانی دراصل اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ اداروں کا قبرستان بن چکا ہے۔

دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟
سندھ نامہ۔۔۔ سہیل سانگی 
 July 24, 2015
’’دبئی اجلاس سندھ کو کیا دے سکے گا؟ ‘‘کے عنوان سے ’’روزنامہ عبرت‘‘ اداریے میں رقمطرازہے کہ دبئی میں منعقدہ پیپلزپارٹی کے اجلاس کو نہایت ہی اہمیت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے پارٹی سے متعلقہ لوگوں پر کرپشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ جا کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ پنجاب سے بعض اہم رہنما پارٹی سے مایوس ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ سندھ میں بھی بڑی مایوسی کی فضا پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سات سال کے دوران پارٹی کی جو کارکردگی رہی ہے اس نے پارٹی اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ ترقیاتی حوالے سے بھی سندھ باقی صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دو ادوار کے دوران امن امان کی صورتحال یہ رہی ہے کہ خوف کے مارے لوگوں کی سانس بندہورہی تھی۔ لیکن حکومت کی توجہ اس طرف نہیں جارہی تھی۔ شاہراہوں پر سفر کرناکانوائے کے بغیر چلنا محال ہوگیا تھا۔ ایسے میں اگر وفاق تحرک نہیں لیتا ، بعض فرض شناس پولیس افسران کو سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات نہیں کرتا ، تو آج صورتحال مزید خراب ہوتی۔ اس لاپروائی کے رویے نے عام لوگوں کو پیپزلپارٹی سے دور کر دیا ہے۔ ایسے میں بلدیاتی انتخابات پارٹی کو امتحان میں ڈال سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے کابینہ میں ردوبدل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ تب تک سودمند ثابت نہیں ہو سکتا جب تک مجموعی طور پر حکومت سے متعلق حضرات بشمول وزراء کے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام نہیں کریں گے۔
پارٹی کی حکومت کے دو ادوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قیادت خواہ وزراء اورفسران تک عوام کو بھلا کر خود کو بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جب ملک خاص طور پر سندھ میں سیلاب کے امکانات بتائے جارہے ہیں، فوج کو الرٹ کیا جا چکا ہے، ایسے میں حکومت سندھ کے ذمہ داران اگر دبئی میں اجلاس منعقد کریں تو اس پر تنقید تو ہوگی۔ اگر پیپلزپارٹی عوام کے لئے واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو ابھی بھی وقت مکمل طور پر ہاتھوں سے نہیں نکلا ہے۔ اب بھی پارٹی سچائی اور عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ میدان میں آئے۔ تو سندھ کے عوام جس نے پیپلز پارٹی کا برے دنوں میں ساتھ دیا ہے وہ ایک بار پھر ساتھ نبھانے کے لئے تیار ہو جائے۔ اگر اس مرتبہ بھی حکومت سندھ نے روایتی روش اختیار کی تو آنے والا وقت پیپلزپارٹی کے لئے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سیلاب کا پانی سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں گھوٹکی اور کشمور کے کچے کا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ لاکھوں لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں ۔ ہزرہا ایکڑ پر کھڑی فصلیں ڈوب چکی ہیں۔ صوبائی سیکریٹری آبپاشی نے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ سندھ میں مون سون بارشیں سیلاب کی خطرناک صورتحال پیدا کر سکتی ہیں۔ ہر سال ملک سیلاب کی لپیٹ میں آتا ہے ۔ جہاں ایک سال کی تباہی کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہاں سے دوسرے سال کی تباہی شروع ہوجاتی ہے۔ بحالی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ صرف بیمار ذہن بیوروکریسی اور منتظمین کی بحالی ہی نظر آتی ہے۔ قدرتی آفات دوسرے ممالک میں بھی آتی ہیں۔ لیکن وہاں پر بہتر انتظامات کے ذریعے اس کے تباہ کن اثرات کو کم کیا جاتا ہے ۔ سندھ میں سیلاب منتظمین اور کرپٹ افسران کے لئے منافع بخش سیزن کے طور پر ہوتا ہے۔ کسی بھی نقصان کو کم کرنے کے لئے اس کے اسباب کو ختم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ حفاظتی پشتوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے اور نہ ہی مرمت۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ملک بھر میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ ماضی کے دو سیلابوں کی وجہ سے سیلاب کا خوف خاص طور پر سندھ کے لوگوں کے ذہنوں میں بری طرح سے بیٹھ چکا ہے۔ اب جیسے ہی سیلاب کے امکانات بتائے جاتے ہیں تو سندھ کے لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سیلاب کا پانی ان کے جینے کے وسائل نہ بہا کر لے جائے۔ سندھ کے لوگوں نے دو سپر سیلابوں کو بھگتا ہے، انہیں دربدر اور بے گھر ہونا پڑا تھا۔ تمام سندھ کیمپ کا سماں بنی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس مرتبہ پانی کا مقدار کزشتہ برسوں کے سیلاب سے کم بتایا جاتا ہے۔ لیکن گلیشر کے پگھلنے یا سلیمانکی پہاڑی سلسلے میں زوردار بارشوں کے نتیجے میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ سندھ میں دریا کا پانی کچے میں داخل ہوچکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ کچے میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرے۔ اور سیلاب کا پانی گزر جانے تک انہیں صرف کیمپوں میں بند کر کے رکھنے کے بجائے ان کی عملی مدد کرے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ 2010 کے تلخ تجربے کے باوجود دریائے سندھ کے حفاظتی پشتوں کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ صوبائی خواہ وفاقی بجٹ میں حفاظتی پشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے مختص کی گئی رقم تاحال صوبائی محکمہ آبپاشی کو جاری نہیں کی گئی ہے ۔ یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ گزشتہ دو سیلابوں کے دوران انتظامی نااہلی نے سندھ کو ڈبویا تھا۔ اس مرتبہ حکومت کو ان تمام تلخ تجربوں کی روشنی میں موثر، ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

سندھ کی وفاق کو دھرنے دینے کی دھمکی

سندھ کی وفاق کو دھرنے دینے کی دھمکی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
10 July 2015
رینجرز اور نیب کی کارروایوں ، توانائی اور مالی وسائل کی تقسیم پر سندھ اور وفاق کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ سندھ کے اخبارات نے خبروں، اداریوں اور کالموں میں ان مسائل پر تفصیلی بحث کی ہے۔ دوسری جانب صوبے میں نیب کی کرپشن کے خلاف کاروایاں جاری ہیں۔ ان کارویوں کے بعد صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ یہ محکمہ کئی سال تک خاموش تماشائی بنا ہوا تھا اس نے بھی بعض سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے ہیں۔
’’سندھ حکومت کی وفاق کو دھرنے دینے کی دھمکی‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے بجلی کے بلوں کی مد میں 65 ارب روپے کی بقایاجات سے متعلق وفاق کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی وسائل کے حق ملکیت کے لئے دھرنے دینے کی دھمکی دی ہے۔ صوبائی حکومت نے ملک میں بجلی کے بحران کے لئے وفاق کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے حیسکو اور سیپکو کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے لیڈر اعتزاز احسن اور سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بجلی کا بحران حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے بحران کا واحد حل تھر کول ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ نواز شریف نے 1997 میں تھر کول پروجیکٹ ختم کردیا تھا۔ جبکہ وفاق سندھ میں ونڈ انرجی پروجیکٹ کے ذریعے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صرف دھرنوں سے ڈرتی ہے۔ سندھ کے ساتھ ناانصافی ختم نہیں ہوئی تو ہم بھی دھرنے دیں گے۔
سندھ توانائی پیدا کرنے میں ملک کے بقای صوبں سے آگے ہے۔ اس کے باوجود یہاں 20 گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے۔ پیپلزپاارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے چند روز پہلے وزیر اعظم نواز شریف کو بجلی کا بحران حل کرنے کے لئے ایک خط لکھا تھا۔ لیکن اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ وفاق نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان کے ساتھ بھی معدنی وسائل کے حوالے سے زیادتی کر رہا ہے۔ دسمبر 2014 سے اپریل 2015 تک بلوچستان کا بجلی کا مجموعی لوڈ 186 میگاواٹ رہا ہے۔ اس سے 2.9 ارب روپے، خیبر پختونخوا سے 488 میگاواٹ لوڈ کے عوض 2. 8 ارب روپے، پنجاب سے 2354 میگاواٹ استعمال کے عوض 11.6 ارب روپے اور سندھ سے 417 میگاوات بجلی استعمال کرنے کے عوض 16.5ارب روپے چارج کئے گئے۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سندھ کے ساتھ کتنی بھیانک ناانصافی ہورہی ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنا اور اس کی تقسیم صوبائی اختیار ہے۔ لیکن وفاق کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے توانائی کا بحران حل نہیں ہو پارہا ہے اور مسئلہ بیچ میں لٹکا ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ توانائی س متعلق کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں سندھ کے نمائندے کو شرکت کی دعوت بھی نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے عوام کو ایسے حکمران ملے ہیں جو مسئلہ حل کرنے کے بجائے اس کو بلاوجہ لمبا طول دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توانائی کا بحران کئی برس گزرنے کے بعد بھی حل نہیں ہوسکا ہے۔ تھر میں کوئلہ موجود ہونے کے باوجود گڈانی کے پروجیکٹ کے لئے کوئلہ بیرون ملک سے منگواکر قیمتی زرمبادلہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اگر یہی رقم تھر کول پر خرچ کی جاتی تو اب تک اس پروجیکٹ سے بجلی پیدا ہونا شروع بھی ہو چکی ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ 70 فی صد گیس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی بھی پیدا کرتا ہے۔ وفاق یہ حقیقت ماننے کے بجائے سندھ پر بجلی کی چوری کے الزامات لگا رہا ہے۔ لیکن تاحال ایک بھی کیس ثابت نہیں کر سکا ہے۔ وفاقی حکومت کو صرف سندھ کی ہی خامیاں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو یہ بھی شکایت ہے کہ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈ جاری کرنے میں بھی وفاق رکاوٹ بنتا ہے۔ جبکہ پنجاب کو فوری طور پر رقومات جاری کردی جاتی ہیں۔ نتیجے میں سندھ میں ایک عرصے سے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔ وفاق کے اس رویے سے یقیننا چھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
این ایف سے ایوارڈ کے تحت سندھ کے وفاق کی جانب اربوں روپے بقایاجات ہیں۔
وفاق کی ذمہ داری ہے کہ بجلی، تیل، گیس، سمیت معدنی وسائل ، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر معاملات میں منصفانہ سوچ کی بنیاد پر مشاورت کے ساتھ فیصلے کرے۔
روز نامہ کاوش ’’اختیارات سے متعلق اختلاف اور خدشات‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بلآخروفاق اور سندھ حکومت کے درمیان رینجرز کی تعینات کے بارے میں معاملات طے ہوگئے ہیں۔ سندھ حکومت کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی پر پیپلزپارٹی کی قیادت ن کیمنظوری کے بعد صوبائی حکومت نے رینجرز اور پولیس کو 90 روز تک ملزم کو اپنی تحویل میں رکھنے اختیارات کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اسکی منظوری آئین کی شق 147 کے تحت سندھ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں لی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے شیرک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہناہے کہ قیام امن کے لئے پولیس اور رینجرز کی بڑی قربانیاں ہیں۔ جبکہ سول اور ملٹری تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سندھ میں رینجرز قانون اور ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ پہلے جرائم کی تعداد آسمان تک پہنچی ہوئی تھی۔ رینجرز نے امن قائم کیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت کے رینجرز سے متعلق تحفظات جلد دور ہو جائیں گے۔ اور رینجرز اپنے مینڈیٹ میں رہ کر کام کرے گی۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیرداخلہ نے سندھ میں رینجرز کی کارروایوں کے بارے میں پیپلزپارٹی کے تحفظات ختم کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد طویل صلاح مشورے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے وزیراعلیٰ سندھ کو بذریعہ فون رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کرنے کی ہدایت کی۔
سندھ میں کرپشن کے خلاف نیب اور رینجرز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرپشن کا سیاہ داغ اکثر سرکاری اداروں کا دامن میلا کرچکا ہے۔ کرپشن کے ناسور کے باعث اکثر سرکاری ادارے مخصوص طبقے کے لئے سونے کی کان بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ عوام ہر حاصلات سے محروم ہیں۔ جس ادارے میں بھی کرپشن ہو اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے لئے کوئی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ کسی بھی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے کاروائی نہیں کرنی چاہئے۔ جس سے اختلاف کی آگ بھڑک اٹھے۔ اس کی مثال سندھ حکومت کے خدشات اور تحفظات ہیں۔ رینجرز کی جانب سے حکومت سندھ کے سرکاری دفاتر اور پیپلزپارٹی سے
منسلک افرد کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارنے، گرفتارییاں کرنے کے بعد سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ نتیجے میں صوبائی حکومت نے رینجرز کے اختیارات اور اور صوبے میں اس کی تعینات کی مدت میں توسیع کرنے سے انکار کردیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سندھ کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد اس مدت میں ایک ماہ کی توسیع کردی گئی ہے

مالیاتی ایوراڈ میں توسیع پر سندھ کی خاموشی

مالیاتی ایوراڈ میں توسیع پر سندھ کی خاموشی
سندھ نامہ سہیل سانگی
July 3, 2015
سندھ میں صرف گرمی کی تیز لہریں ہی نہیں چل رہی ہیں بلکہ کئی سیاسی لہریں بھی تیز ہوگئی ہیں ان میں سے بعض زیر زمین ہین جو بظاہر نظر نہیں آتی۔ ۔اسکاٹ لینڈ یارڈ ٹیم نے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل میں پاکستان میں گرفتار دو ملزمان سے پوچھ گچھ کی، رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی عروج پر رہی، سندھ حکومت نیب اور رینجرز کی صوبائی معاملات میں مداخلت پر احتجاج کرتی رہی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف کراچی تشریف لے آئے اور انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس کشیدہ اور غیر یقینی صورتحال میں صوبے میں کئی انتظامی امور اور بعض مسائل پر فیصلہ سازی عملی طور پر معطل رہی۔

روزنامہ کاوش کے الیکٹرک میں اصلاح کریں خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں گرمی کی شدت بدستور جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گرمی کی شدت کا شکار ہونے والوں میں سے بڑی تعداد کا تعلق کراچی سے ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت کے باعث لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے دوسری طرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے ان کی تکالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ بجائے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے حکمران ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہلاکتوں کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے۔ بجلی وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے لہٰذا ان اموات کی ذمہ داری وفاق پر آتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کے الیکٹرک کو ہسپتالوں، واٹر بورڈ اور دیگر شہری سہولیات کے اداروں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دینے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے کے الیکٹرک نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ اس کے علاوہ نیپرا کی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی نے کراچی میں اموات کی بڑی وجہ بجلی کے بحران کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے ۔ نیپرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک اپنی اہلیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر رہی ہے۔ دن میں آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ کمپنی کا ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام بھی درست نہیں ہے۔ دوسری جانب کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے کمپنی پر الزام عائد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی تمام سرکاری ہسپتالوں کو بجلی فراہم کر رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہوا ہے۔ اس درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے۔ جو ادارے لوگوں کو سہولیات پہنچانے کے لئے ذمہ دار ہیں ان کی کارکردگی کا گاہے بگاہے معائنہ نہ کیا جائے اور اداروں میں سے احتساب کا عمل ختم ہو جائے تو پھر یہ ادارے عوام کے لئے بے فائدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
مانا کہ بجلی وفاقی معاملہ ہے۔ بجلی کا بحران ختم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر مختلف سرکاری ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے اور خود کو ذمہ داری سے بری کرینے کی کوشش کریں گے، تو لوگوں میں بے بسی اور لاچاری کا احساس اور بھی بڑھ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتی دونوں مل کر عوام کو بنیادی سہولیات پہنچانے والے اداروں کا اصلاح احوال کریں۔ اگر انسانی جانیوں کا ضیاع ہوگا تو لوگ حکومت سے ہی پوچھیں گے۔ کیونکہ ووٹ حکومت نے ہی لیا ہے۔ اور آخری تجزیے میں حکومت ہی ذمہ دار ہے۔
’’ساتویں مالایاتی ایوارڈ میں توسیع اور اس پر سندھ کی خاموشی ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ مالیاتی ایوارڈ مالی وسائل میں صوبوں اور وفاق کے درمیان اور خودصوبوں کے درمیان تقسیم کا تعین کرتا ہے۔ ساتویں ایوارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے ۔ لیکن وفاق کی عدم دلچسپی اور صوبوں کی نااہلی کی وجہ سے آٹھواں مالیاتی ایوارڈ تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ جس کے بعد صدر مملکت نے ساتویں مالیاتی ایوارڈ کو جاری رکھنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔ وفاق اور پنجاب نہ کبھی مردم شماری کے حوالے سے سچے ہوئے اور نہ مالیاتی ایوارڈ کے بارے میں ۔ مردم شماری کی بنیاد پر اسمبلی کی نشستوں ، مالی وسائل کی تقسیم اور دیگر اس طرح کے معاملات کا تعین کیا جاتا ہے اس میں مختلف رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے مردم شماری وقت پر نہیں ہو سکی ہے۔ ہر دس سال بعد مردم شماری کرانی ہے۔ مگر 1998 کے بعد نہیں کی جاسکی ہے۔ پرانی مردم شماری سے سب سے زیادہ مستفیض ہونے والا صوبہ ہے۔ وہ آبادی کی بنیاد پر مالی وسائل وغیرہ میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے۔
اب سترہویں سال بھی پنجاب زیادہ حصہ لے گا۔ان 17 سال کے دوران سندھ پر آبادی کا بوجھ بڑھا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں اور ممالک کے بشندے بڑی تعداد میں آکر سندھ میں آباد ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال میں مردم شماری نہ کرانے کی وجہ سے سندھ کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہی صورتحال مالیاتی ایوارڈ کی ہے۔ بنگلہ دیش بننے سے پہلے پنجاب مالیاتی ایوارڈ آبادی کی بنیاد پر دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کے بعد پنجاب نے آبادی کو واحد شرط بنا کر مالی وسائل میں سے حصہ لینا شروع کیا۔ ساتواں مالیاتی ایوارڈ پہلا ایوارڈ ہے جس میں وسائل کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ دیگر بنیادیں بھی تسلیم کی گئی ہیں۔ لیکن دوسری بنیادوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وسائل کا 82 فیصد ابھی بھی آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے۔ باقی 18 فی صد کا تعین آمدنی، غربت، اور ایراضی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ سندھ ملک کی آمدن کا 70 فیصد سے بھی زیادہ حصہ دیتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے پورے ملک کو پال رہا ہے۔ لیکن خود بہت غریب ہی رہتاہے۔ مالیاتی ایوارڈ اتفاق رائے ہی تیار کی جاتا ہے اور اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے مالیاتی کمیشن کے اجلاسوں ہوتے رہتے ہیں اوراس اتفاق رائے کے لئے تقریبا ایک سال لگ جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مرتبہ نہ وفاق نے اور نہ ہی صوبوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت سندھ اس حوالے سے غیر سنجیدہ رہی اس پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ وہ نہ اپنا مضبوط کیس بنا سکی اور نہ ہی مالیاتی کمیشن کو مسلسل اجلاس کرنے پر تیار کر سکی۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مسلسل بیرون ملک دورے بھی کمیشن کے اجلاسوں میں رکاوٹ بنے۔ سندھ حکومت اس پر وفاق سے بات بھی نہ کرسکی۔ نتیجے میں سندھ کو نئے مالیاتی ایوارڈ سے محروم ہونا پڑا۔ نئے مالیاتی ایوارڈ نہ آنے کا بلوچستان یا خیبر پختونخوا کا اتنا نقصان نہیں جتنا سندھ کا ہے۔ سندھ حکومت کے رویے سے لگتاا ہے کہ اس کو صوبے میں کوئی مستند اور ماہر شخص بھی نہیں مل رہا۔ جسے مالیاتی کمیشن کا میمبر نامزد کیا جاسکے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں وفاق کے پاس اپنا احتجا ریکارڈ کرائے۔

گزشتہ سیلاب کی کوتاہیوں کو نہ دہرائیں



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
گزشتہ سیلاب کی کوتاہیوں کو نہ دہرائیں 

سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی
17 جولائی 2015
روزنامہ کاوش ’’گزشتہ سیلاب کے دوران کوتاہیوں کو نہ دہرایا جائے’’ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ اطلاعات ہیں کہ 2010 اور 2011 کے سیلاب دوران انتظامی خواہ حکومتی کوتاہیوں کا ازالہ نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ ہی سندھ اور پنجاب میں زمینداری پشتوں کو ہٹایاجا گیا ہے ۔ اتنی بڑی کوتاہی کرنے والے افسران کو سزا بھی نہیں مل سکی۔ 2010 اور 2011 کے حوالے سے نواز لیگ کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں 61 اعتراضات اتھائے گئے تھے۔ ان اعتراضات اور کوتاہی کے ذمہ داران کے خلاف کاررروائی کا جائزہ لینے کے لئے گزشتہ روز اعلیٰ سطحی اجلاس وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجا آصف کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سندھ کے سیکریٹری آبپاشی نے سیلاب سے تحفظ کے لئے پشتوں کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ دریا کے پشتوں کی صورتحال ٹھیک ہے۔ ان پشتوں کی اسٹون پچنگ بھی کردی گئی ہے۔ اجلاس میں سیکریٹری آبپاشی سندھ سے پوچھا گیا کہ دریا کے کچے کے علاقے میں زمینداری پشتوں اور قبضے ہٹانے کے کئے صوبائی حکومت ریور ایکٹ جاری کیا تھا۔ اس کے تحت کیا کارروائی کی گئی ہے؟ کتنے قبضہ خوروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان کا جواب نفی میں ملا۔ سیکریٹری نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ جس نے سابق سیکریٹری آبپاشی شجاع جونیجو سمیت تمام کوتاہی کرنے والے افسران کو الزامات سے بری کر دیا اور قرار دیا کہ سیلاب کے معاملے میں ان کا کوئی قصور نہیں ۔ خیال رہے کہ آج کل سندھ میں نچلے درجے کے سیلاب کا امکان بتایا جارہا ہے۔ دریائے سندھ میں چشمہ کے پاس اونچے درجے کا اور کالا باغ اور تونسہ کے پاس درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ پانی اب سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آبپاشی حکام کا کہنا ہے کہ گڈو اور سکھر کے پاس دریا میں پانی کا بہاؤ بڑھ رہا ہے۔
چند سال پہلے سندھ میں سیلاب نے تباہی مچائی تھیْ۔ بڑے پیمانے پر معاشی نقصان ہوا۔ سندھ کے لاکھوں لوگ بے گھر اور دربدر ہوئے ۔ اس کے بعد نواز لیگ کی ایم این اے ماروی میمن نے سپریم کورٹ میں 61 اعتراضات اٹھائے۔ لیکن نہ ان اعترضات کا ازالہ کیا گیا اور نہ ہی ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ا ب اس سیلاب کو بڑا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی ممکن تھی۔ سندھ کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی شکل و صورت بھی سدھر سکتی تھی۔ جن لوگوں کا مالی نقصان ہوا اور روزگار چھن گیا، ان کی بھرپور مدد کی جاسکتی تھی۔ لیکن ہم سب نے دیکھا کہ سندھ کے سیلاب متاثرین کی بروقت امداد نہیں کی جاسکی۔ اور بعد میں ان کی بحالی کے لئے موثر کوشش نہیں کی گئی۔ ان متاثرین کی مدد کے لئے اگرچہ ملکی خواہ غیر ملکی غیر سرکاری ادارے بھی میدان میں آئے۔ اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے، جن لوگوں کو سیلاب نے دکھوں کے پانی میں ڈبودیا وہ ابھی تک ان دکھوں کا دریا پار نہیں کر سکے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اس سیلاب کو جن افراد نے مزید نقصان دہ بنایا اور کاہلی اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا حکمران ان افسران کا احتساب نہیں کر پائے۔ ایک کمیشن قائم کیا گیاجس نے ان افراد کو بے قصور ٹہرا یا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد زمینداری بند بھی نہیں ہٹائے گئے ہیں۔
امکان خواہ نچلے درجے کے سیلاب کا ہو یا اونچے درجے کے سیلاب کا، سوال حکومت کی تیاری کا ہے۔ کسی امکانی سیلاب سے نمٹنے کے لئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ گزشتہ سیلاب کے دوران کوتاہی برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے اور زمینداری بند ختم کئے جائیں۔ یہ سب کچھ سیلاب آنے سے پہلے ہونا چاہئے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ ان کے ’’ مجرم سپاہ ‘‘ اور پولیس کی ٹرائیکا جرائم کی دینا کو مضبوط کئے ہوئے ہے۔ جرگہ سسٹم کے ذریعے ان بھوتاروں نے متوازی عدالتی نطام قائم کر رکھا ہے۔ جو انصاف کے نام پر نا انصافی کو فروغ دے رہا ہے۔ صوبے کے نصف درجن اضلاع میں ریاستی قانون کا سکہ نہیں چلتا۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ ، اپنا رعب اور دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے مجرم اور ڈاکو پالتی رہی ہے۔ ایسے بھوتاروں کی زیرسرپرستی سندھ اور بلوچستان میں جرائم، قتل و غارت، خوف اور دہشت کا بازار گرم رکھنے والا بدنام ڈاکو نظرو ناریجو گڑھی یاسین کے گولو دڑو علاقے میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ڈاکوٗون کی فائرنگ میں دو پولیس اہلکار بھی شہید ہوگئے ۔ ڈاکو نظرو ناریجو کے پر دو کروڑ روپے کا نعام رکھا گیا تھا۔ وہ قتل اور اغوا کے دو سو مقدمات میں مطلوب تھا۔ سندھ حکومت نے شہید پولیس اہلکاروں کے ورثاء ایک ایک کروڑ روپے اور ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔
اغوا انڈسٹری ہو ، یا قبائلی اور بردریوں کے تنازع میں لوگوں کا قتل، یا جرگوں کے ذریعے زندگی کی یا عصمت کی قیمت لگانے والے بھوتاروں کی انصاف کے نام پر ناانصافی ہو، کونسا جرم ہے جس کی پشت پناہی یہ بھوتار نہیں کرتے؟ جرائم تب بڑھتے ہیں جب ان کی اعلیٰ سطح پر سرپرستی ہوتی ہے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والی اس پردہ نشین اشرافیہ کی مختلف اوقات میں نقاب کشائی بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن ان کی رسائی اعلیٰ ایوانوں تک ہونے کی وجہ سے وہ گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ ارباب غلام رحیم کی وزارت اعلیٰ کے دو رمیں ان کے مشیر سردار غلام سرور سرکی نے ایسے 70 سے زائد افراد کی لسٹ تیار کی تھی جو مجرموں کی سرپرستی کرتے تھے۔ اس لسٹ میں وقت کے یا اس کے بعد کے ادوار میں وزیر، مشیر اور رکن اسمبلی کے نام بھی شامل تھے۔ بعد میں جب دباؤ پڑا تو حکومت نے اس لسٹ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ بدنام ڈاکو نظرو ناریجو سکھر پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ وہ شکارپور ضلع میں رہتے ہوئے بھی وہاں کی پولیس کو نظر نہیں آیا۔ شاید وہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ سندھ میں جرائم کی سرپرستی کس سطح پر ہوتی ہے اسکا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ خفیہ اداروں کے پاس نظرو ناریجو کی بڑے بڑے افسران اور سیاستدانوں کے ساتھ ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ ایک ڈاکو جو 200 سے زائد وارداتوں میں مطلوب ہو، ریاست اور قانون سے طاقتور نہیں ہوسکتا۔ اس کو جان کی امان حاصل رہی ۔ اتنے برسوں تک اسے جرم کرنے کے مواقع میسر رہے۔ اسے کسی عام یا معمولی اور نچلی سطح کی سرپرستی حاصل نہیں ہو سکتی ۔بھوتار اس لئے ڈاکو پالتے ہی کہ ان کا رعب قائم رہے۔ لیکن کوئی وزن یا دباؤ پڑنے پر یا جب قانون نافذ کرنے والے گھیراؤ تنگ کرتے ہیں تو انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ ڈاکو کی گرفتاری کی صورت میں ان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ ایسے میں وہ ڈاکو کو مروانے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ تاکہ راز مرنے ولاوں کی دلوں میں ہی دفن رہیں۔ نظرو ناریجو کے معاملے میں دراصل کیا ہوا؟ یہ حقائق ابھی عام ہونا باقی ہیں۔

سندھ کے کچے کے رہائشی, نیب۔ ایف آئی اے, رینجرز Sindh Nama

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
August 7, for Nai Baat 
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
’’روزنامہ کاوش ‘‘ لکھتا ہے کہ یہ اعتراف سندھ کے ارباب اقتدار بھی کر رہے ہیں کہ سندھ کے کچے کے رہائشیوں کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ دریائی بہاؤ میں اضافے کے باعث سندھ کا تمام کچے کا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ دریائی حفاظتی پشتے جو چند سال قبل کے دوسیلابوں میں تباہ ہو گئے تھے، ان کو بعد میں صحیح طور پر مضبوط نہیں کیا گیا۔ 

آج سیلاب کی صورتحال کے بعد کئی مقامات کو حساس قرار دیا جاچکا ہے۔ کئی حفاظتی پشتوں سے پانی سیما کر رہا ہے۔ ایسے مقامات پر لوگ سخت خوف میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ کہ اگر ان پشتوں کو توڑ کر سیلاب آئے گا تو ان کی تمام خوشیاں بھی بہا کر لے جائے گا۔ حکومت کا دعوا ہے کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے پشتوں کی نگرانی کی جارہی ہے وغیرہ۔ صورتحال کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 
 کچے کے لاکھوں رہائشی بے گھر اور دربدر ہیں۔ ان کے گھر، فصلیں اور دیگر املاک و اثاثے ڈوب جانے کے بعد وہ کھلے آسمان کے تلے حکومت کی امداد کے آسرے میں بیٹھے ہیں۔ دوسرا خوف ان پشتوں سے ہے۔ اگر یہ حفاظتی پشتے مضبوط ثابت نہ ہوئے تو پانی کا بہاؤ چھوٹا ہو یا بڑا اسے کوئی روک نہیں سکے گا۔
سندھ کے انتظامی سربراہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں کے بعد صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے یہ بند مضبوط کرائے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کو بھی اس ضمن میں رقم فراہم کرنی چاہئے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کے لئے سیلاب سے بچنے کے لئے فیڈرل فلڈ کمیشن سندھ کے حفاظتی پشتوں کی مرمت کا کام کرائے۔ صوبائی وزیر آبپاشی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے دریائی پشتوں کی اسٹون پچنگ کرانے کے لئے رضامندی ظاہر کی ہے۔ سندھ باسیوں کو گزشتہ دو سیلابوں کا تلخ تجربہ ہے۔ جب سیلاب کے پانی نے پورے سندھ کو ڈبو دیا تھا۔ یہ پانی سلامتی کے ساتھ سمندر تک کیوں نہیں پہنچ سکا؟ اس کی وجہ پانی کے بہت بڑے بہاؤ کو قرار دیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے حفاظتی پشتوں میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ اتنے پانی کا دباؤ برداشت کر سکیں۔ 

ان پشتوں کے کمزور ہونے کی وجہ کرپشن تھی۔ اس کرپشن کی اب خبریں آرہی ہیں کہ محکمہ آبپاشی میں مبینہ کرپشن کا وزیراعلیٰ سندھ نے خود نوٹس لیا ہے۔ جب آبپاشی جیسے اہم اور حساس شعبے میں اتنی بڑی کرپشن ہوئی ہو ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دریائی پشتوں کی مرمت ہوئی ہوگی یا ان پیسے کو دھندہ بنا کر اس رقم کی بندر بانٹ ہوئی ہوگی؟ ہر سال دریائی پشتوں کی مرمت کے لئے بجٹ آتی ہے۔ محکمہ آبپاشی کو بھی حکومت سندھ سنبھالتی ہے تاکہ یہاں کے لوگ سیلاب سے بچ سکیں۔ ایسے میں حکمرانوں سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ پشتوں کی مرمت کی مد میں ہر سال مختص کی جانی والی رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟
آج بھی کئی مقامات پر تشویشناک صورتحال ہے۔ دادو مورو پل اور بکھری بند کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ سیوہن کے پاس انڈس ہائی وے زیر آب آگیا ہے۔ کشمور میں زمینداری بند ٹوٹنے کی وجہ سے کئی بستیاں زیر آب آگئی ہیں۔ سگیوں کے مقام پر ایس ایم بند میں اندر سے سوراخ ہو گیا جسے بعد میں بند کردیا گیا۔ آج کی صورتحال میں کچے کے متاثرین کی امداد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمزور پشتوں کی نگرانی اور مضبوطی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جبکہّ ئنہ وقت میں ان پشتوں کی مستقل طور پر مضبوط بنائے بغیر سندگ کے لاکھوں لوگ ہر سال بے گھر ہوتے رہیں گے اور مستقل طور پر خوف میں رہیں گے۔
’’آ پ بھی نیب۔ ایف آئی اے اور رینجرز جیسے ہو کر دکھائیں‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ وزیاعلیٰ سندھ نے ایف آئی اے کی بڑہتی ہوئی سرگرمیوں خواہ رینجرز کی بعض کارروائیوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ تیزی کیوں لائی گئی ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس محکمے کی موجودگی میں دیگر اداروں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی۔ وزیراعلیٰ نے ایف آئی اے کے قیام اور اس کے فرائض کے حوالے سے یاد دلایا ہے کہ اس ادارے کو وفاقی اداروں میں اس طرح کے جرائم کے بارے میں کام کرنا ہے۔ لہٰذا اس ادارے کو صوبائی معاملات اور محکمہ جات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں ماہ جولائی میں سوک سینٹر پر رینجرز کے چھاپے کے دوران پیدا ہونے والی بدمزگی کا بھی اظہار کیا۔ اور کہا کہ زمین لینا ہر شہری کا حق ہے۔ اس دفتر میں کئی حساس فائیلیں موجود تھیں۔ دو چار فائلوں کی وجہ سے ہزارہا فائلوں کو تحویل میں لینا کسی طور پر بھی درست نہیں۔
ایک جملے میں بات کو سمیٹا جا سکتا ہے کہ یہ تیزی سندھ کے عوام کی کرپشن کی قوت برداشت کے خاتمے کے بعد سامنے آنے والے مطالبات کی وجہ سے آئی ہے حکومت سندھ نے ان مطالبات پر کبھی توجہ نہیں دی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے نیب، ایف آئی اے اور رینجرز کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ بڑی حد تک جائز ہیں۔ ان کے طریقہ کار پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ جن کو ایپکس کمیٹی کے سربراہ کے طور پر انہیں متعلقہ فورم میں ضرور اٹھانا چاہئے۔
سندھ میں گزشتہ بیس سال سے کرپشن کا بازار گرم ہے۔ امیر اور غریب میں فرق اور فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ شہر لوٹ مار کے ذرائع بن گئے ہیں۔ سیوک سینٹر ہو یا کے ایم سی، یا کسی بھی شہر کی ٹی ایم اے، انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا؟ یہ درست ہے کہ اینٹی کرپشن کے موجود سربراہ ایک ایماندار افسر ہیں۔ مگر جو اس سے پہللے اس عہدے پر فائز تھے انہوں نے کیا کیا؟ ادارے کی کارکردگی کیا رہی؟ انہوں نے کس سے حساب کتاب کیا؟ وزیراعلیٰ نے صرف محکمہ آبپاشی میں سات سال کے دوران پچاس ارب روپے کی کرپشن کی بات کی ہے۔ اس آسمان سے باتیں کرتی ہوئی کرپشن کے بارے میں حکومت سندھ نے کیا اقدامات کئے؟ سندھ کے بعض سیکریٹری لکھا پتی سے ارب پتی بن گئے۔انہیں یہ سب سہولت نیب، ایف آئی اے یا رینجرز نے دی؟ جو سیکریٹری محکمے کے اکاؤنٹ سے پچاس کروڑ روپے نکلوا کر کینیڈا چلے گئے۔ ان کے خلاف حکومت سندھ نے کیا کای؟ صرف کراچی شہر میں 12oo پارکوں کو چائنا کٹنگ کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ ان پارکوں کو پلاٹوں میں تبدیل کرنے میں ایک دن تو نہیں لگا ہوگا۔
سندھ میں غیر ملکیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں تیرہ سال سے آدم بو آدم بو کا ماحول موجود ہے۔ حکومت سندھ نے کیا کیا؟ سندھ پولیس کے 300 افسران اور جوان قتل ہوئے۔ بعض افسران بھی قتل ہوئے۔ سیاسی کارکن بھی قتل ہوئے۔ تب صوبائی محکمے کہاں تھے؟ امن و امان، ترقی، تعلیم، صحت، زراعت کے محکمے برسوں سے کہاں گم ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟ سندھ میں تارگٹ کلنگز پر پولیس اور رینجرز نے کنٹرول کیا ہے؟ بیس برس سے وزارت داکلہ اور دیگر محکمے کہاں تھے؟
گزشتہ روز نیب نے لائنز ایریا آبادکاری پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کو پانچ ارب روپے کی کرپشن میں گرفتار کیا گیا۔ سینکڑوں افسران وغیرہ بیرون ملک فرار ہوگئے ہیں۔ اگر وہ ملک میں موجود ہوتے تو گرفتار ہو چکے ہوتے۔ ٹی ایم اوز اور سیکریٹری سطح کے جو ملازمین گرفتار ہوئے ۔ ان کو گرفتار کرنے کے لئے حکومت سندھ کی خود مختاری کہاں تھی؟ سندھ حکومت اپنا حق استعمال کرنا نہیں جانتی۔ تو اسے چیخ و پکار کا بھی اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت سندھ آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کو استعمال کرنے کا گر اور مہارتیں جانتی ہے تو ان تمام اداروں کو روک دے ۔ یونورسٹیوں کے وائیس چانسلرز، تعلیمی بورڈز کے سربراہان اور صوبائی سیکریٹریوں سے لے کر مختلف ہسپتالوں کے سربراہوں، کالجوں کے پرنسپالوں اور مختلف ڈپٹی کمشنرز نے اپنی خود مختاری کو استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔ جس نے سندھ کو کنگال بنا دیا ہے۔ اس کے لئے حکومت سندھ نے سات سال کے دوران کیا کیا؟
صرف ایک مرتبہ سندھ کابینہ کھڑے ہوکر کہے کہ اب اگر کسی بھی محکمے میں کچھ ہوا تو اس کے لئے وہ ذمہ دار ہوگی۔ اور آئین میں دی گئی ضمانتوں پر خود صوبائی حکوت عمل کرے گی۔