Friday, April 27, 2018

سندھ میں سود کا کاروباراور سرکاری ٹولہ

April 27, 2018 

 سود کا کاروبار،ڈان گولو اور سرکاری ٹولہ
سندھ نامہ   سندھی پریس
 سہیل سانگی 
 سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی ہے لیکن عملی طور پر پہلے سے بھی خراب صورتحال ہے۔ صوبے میں تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے۔ لیکن کئی اسکولوں میں تاحال نصابی کتب فراہم نہیں کئے جاسکے ہیں۔ حکومت پرائمری سطح بچوں کو مفت کتب فراہم کر رہی ہے اور ان کتابوں کی اسکول تک رسد کیے لئے ٹرانسپورٹ کی بجٹ بھی حکومت کے پاس ہے۔ لیکن انتظامیہ کی نااہلی اور بعض افسران کی جانب سے کتابیں پہنچانے کی رقم بچانے کی لالچ میں بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ میڈیا میں مسلسل شکایات کے باوجود اس ضمن میں نہ موثر اقدام کیا گیا ہے اور نہ موثر پالیسی بنائی گئی۔

سود کا کاروباراور سرکاری ٹولہ 
سندھ میں ”سود کا کاروبار، ڈان گولو اور سرکاری ٹولہ“ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ لگتا ہے کہ بعض افراد اور حلقوں کو سندھ کے عام لوگوں کو غریب بنانے کا ٹاسک ملا ہوا ہے۔ سندھ کے لوگوں کی کثیر رخی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ بغیر کسی جواز کے مصنوعی مہنگائی کے ذریعے لوگوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔ سود ک اکاروبار عروج پر ہے جس کی وجہ لوگ خود گروی ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ پولیس اس کالے کاروبار میں شریک اور سود خوروں کے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ سود خوروں کے دباﺅ اور پولیس کے خوف کی وجہ سے لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب دھوکہ باز ٹولے سرگرم ہیں۔ جو لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر انہیں لوٹ رہے ہیں۔ کئی عشروں سے جاری اس غیر قانونی کاروبار کو حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی ایک مثال ڈان گولو ہے۔ جو سینکڑوں خانددانوں سے کروڑہا روپے کا فراڈ کر کے فرار ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس شخص کو بااثر افراد اور پولیس کا ساتھ اور چھتری حاصل ہے۔ 
 کوئی بھی غیر قانونی یا مجرمانہ کام تب تک نہیں چل سکتا جب تک اس کو انتظام اور اختیار کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی حاصل نہ ہو۔ کسی طور پر یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ غیر قانونی کاموں سے پولیس بے خبر ہے۔ اندھا تو انصاف ہوتا ہے۔ لیکن قانون کسی طرح سماعت اور بصارت کھو بیٹھا ہے کہ اس کوسندھ میں سود کا کاروبار اور دھوکہ دہی نظر نہیں آتے؟یہ دونوں کاروبار پولیس اور بااثر افراد کی حمایت کے بغیر کس طرح چل رہے ہیں۔ سود کا کاروبار آج کل کا نہیں۔ سودخو عام لوگوں وک مختلف پھندوں میں پھنساتے ہیں۔ سود کے بجائے قرض کے نام پر قانونی دستاویز لکھو لیتے ہیں۔ اکثر شہروں اور گاﺅں میں سود خوروں کا اہم شکار سرکاری ملازمین ہیں۔ کسی مجبوری میں یہ لوگ قرض لیتے ہیں۔ اس کے عوض سود خود ان کی پوری چیک بک بلینک دستخط کراکے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ہر ماہ ان ملازمین کی تنخواہ یہ سود خور بینک سے اٹھا لیتے ہیں۔ گھر کا گزارہ کرنے اور خرچہ چلانے کے لئے یہ سرکاری ملازمین ان سودخوروں سے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے ۔ یوں سود در سود کا یہ سلسلہ چلتا رہا ہے۔ لوگ مر جاتے ہیں لیکن قرضہ نہیں اترتا۔ مقامی پولیس، بینک افسران بھی سود خوروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر کوئی ملازم ان سود خوروں سے تنگ آکر بینک کو درکواست دیتا ہے ، تو پہلے سے موجود دستخط شدہ چیک کی بنیاد پر اس ملازم کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ قلم 420 کے تحت درج کر لیا جاتا ہے۔ کیونکہ سود خور کو پولیس کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ایک ملازم کا یہ حشر دیکھ کر دوسرے ملازمین سود خور کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ سب کچھ بیچ کر اور آخر میں پینشن بھی سود خور کو دے دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان کو چھٹکارہ نہیں ملتا۔ 
چھوٹے کاشتکار فصل کی بوائی کے لئے بیج، کھاد اورزرعی ادویات سود پر لیتے ہیں۔ حالت یہاں تک جا پہہنچتی ہے کہ قرضہ اتارنے کے لءزمین بیچنی پڑتی ہے۔ یہ کالا کام روکنا جن کی ذمہ داری ہے وہ اس نظام کو مضبوط کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری مراد سرکاری ٹولہ یعنی پولیس ، بینک عملہ اور بااختیار اور بااثر افراد ہے۔ اس صورت میں سود اور دھوکہ دہی کا کاروبار کس طرح سے رک سکتا ہے؟ 
 آج کل جس طرح گٹکے اور میں پوری کے خلاف موثر کریک ڈاﺅن کر کے اس زہر کو بند کرایا گیا ہے۔ سندھ میں سود اور دھوکہ دہی کے خلاف بھی اسی طرح کے جرائتمندانہ اقدام کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ س ان سود خوروں اور دھوکہ بازوں کو ظاہر رکیں اور ان کے خلاف ثبوت پیش کریں۔ غیر قانونی سود کا کاروبار اتنا منظم ہے کہ سود خور کمزوری یا ثبوت کی کوئی راستہ نہیں چھوڑتا۔ اس کاروبار کا خاتمہ کسی اسپیشل ٹاسک فورس کے بغیر ممکن نہیں۔

محکمہ آبپاشی کا احتساب کب ہوگا؟ 
 محکمہ آبپاشی کا احتساب کب ہوگا؟ کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ پانی کی قلت سندھ میں مستقل عذاب بنی ہوئی ہے۔ ویسے تو گزشتہ کئی برسوں سے پانی کی قلت کامسئلہ درپیش ہے، لیکن رواں سال سندھ نے جس قلت کا ساما کیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اول یہ کہ اوپر سے پانی کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ وہاں سے جو تھوڑا بہت پانی سندھ تک پہنچتا ہے اس کو آخری سرے تک پہنچانا محکمہ آبپاشی کی ذمہ داری ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بڑے ذمینداروں کی ضرورت پوری کر کے نیچے چھوٹے کاشتکاروں کو پانی سے محروم کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک روز کے اخبارات اٹھا کے دیکھیں پانی کی قلت کے خلاف سندھ بھر چھوٹے کاشتکاروں کے مظاہرے اور احتجاج رپورٹ ہوئے ہیں۔ پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ گندم کے لئے باردانہ نہ ملنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ میڈیا مسلسل حکمرانوں کی توجہ اس حساس مسئلے کی جانب منبذول کراتی رہی ہے۔ سندھ کی اکثریت کے روزگار کا ذریعہ زراعت پر۔ زراعت کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا مناسب حل اگر نہیں تلاش کیا جاتا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہاتھوں سے سندھ کے عوام کو بھوک اور بدحالی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ زراعت کے لئے پانی بنیادی جز ہے۔ یہ معاملہ اپنی جگہ پر کہ پانی کی قلت میں پنجاب کو وفاق کی حمایت حاصل ہے ، لیکن اس سچائی سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جاسکتی کہ جو پانی سندھ میں پہنچتا ہے اس کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی۔ حکمران جماعت کے بڑے جاگیرداروں کی پانی پر اجارہ داری ہے، اس کا حساب وفاق نہیں سندھ حکومت کو لینا ہے۔ سندھ حکومت کو اس معاملے میں اپنے نوازنے کی پالیسی ترک کرنی پڑے گی۔ بصورت دیگرے سندھ کے عوام یہ رائے قائم کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی میں حکومت بھی شامل ہے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ بلاتاخیر چھوٹے کاشتکاروں کو بلاامتیاز پانی کی فراہمی یقینی بنائے، جو جمہوری حکومت ہونے کے ناطے اس کا فرض ہے۔ 

Sindh Nama انتظامی بے حسی کی انتہا اور سندھ

April 20, 2018 
 سندھ نامہ سہیل سانگی 
 سملم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کا دورہ سندھ میاں نواز شریف کی لندن روانگی، مجوزہ نگراں حکومت کا قیام ، غیر قانونی تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ اور پاکستانی شہریت کے اجراء اور اس کے خلاف احتجاج کے معاملات سندھی اخبارات کا موضوع رہے۔ 
احتجاج کرنے والوں نے نادرا کے چیئرمین کی یہ وجاحت مسترد کر دی ہے کہ ” کسی غیر ملکی کو قومی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جارہا ہے“۔ ان کا کہنا ہے کہ پالیسی اور طریقہ کار ایسا رکھا گیا ہے جس میں غیر ملکیوں کو کارڈ جاری کئے جارہے ہیں۔ اخبارات کا مطالبہ ہے کہ اس ضمن میں حکومت واضح پالیسی کا اعلان کرے۔ 
ادھر حکومت سندھ نے نئے مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا منصوبہ شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا نئے سال کا پورا بجٹ جاری منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ایم پی ایز کو جاری ہونے والے چار چار کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ بھی روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 
یہ بھی پتہ چلا ہے کہ شہروں کو دیئے جانے والے خصوصی پیکیج نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت سندھ گزشتہ تین سال سے صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں دینے کا اعلان کرتی رہی، لیکن تاحال اس پر عمل نہیں کر سکی ہے۔ حالیہ فیصلے کے مطبق این ٹی ایس اور سندھ یونیورسٹی کے ذریعے ٹیسٹ کے بعد بھرتی ہونے والے کانٹریٹ اساتذہ کو مستقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت 21500 اساتذہ کی ملازمت مسقتل ہو جائے گی۔ صوبے کے محکمہ بلدیات کے چار افسران کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کی گرففتاری پہلے سے جاری تفتیش کے سلسلے میں ہوئی ہے۔

انتظامی بے حسی کی انتہا 
 روز نامہ کاوش ” انتظامی بے حسی کی انتہا اور سندھ “ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں انتظامی بے حسی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے ۔ منتظمین کی انتظامی ذمہ داریوں سے لاتعلقی کے باعث مسائل انتہائی گمبھیر ہو گئے ہیں۔ امن و امان کا مسئلہ ہو یا صحت اور تعلیم کا، یا عوام کے لئے شہری سہولیات کہیں بھی حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ سندھ کئی ماہ سے خسرے کے مرض کا مسکن بنا ہوا ہے۔ درجنوں بچوں کی زندگی چلی گئی۔ محکمہ صحت اتنا بیمار ہے کہ اپنے قائم رہنے کے وجود کا جواز کھو چکا ہے۔ لگتا ہے کہ ملکی آبادی کم کرنے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔ 
سندھ میں لوگوں کو ایک طرف صحت اور صفائی کی سہولیات کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، اور اس انتظامی نااہلی کے نتیجے میں جو لوگ بیمار ہو جاتے ہیں انہیں علاج معالجے کی سہولیات حاصل نہیں۔ صوبے میں خطرناک امراض سے تحفظ کے لئے جاری ویکسین پروگرام پر بھی ٹھیک سے عمل نہیں ہو رہا ۔ جس کی وجہ سے کئی معصوم بچوں کی زندگی کا چراغ وقت سے پہلے بجھ رہا ہے۔ یہ دکھ بھی منتظمین کی آنکھوں میں پانی نہیں لا رہا۔ اس سے ناتظامیہ کی بے حسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ صورتحال چند روز میں پیدا نہیں ہوئی۔ سندھ کے عوام نے ایک پورا عشرہ انتظامی بے حسی کا گزارا ہے ۔ تھر میں غذائی قلت، اور مختلف امراض کے باعث معصوم بچے کی اموات کا سلسلہ تاحال جاری تھا کہ یہاں بھی خسرہ پھیل گیاہے۔ لیکن محکمہ صحت جس کی باگ دوڑ دو ڈاکٹروں ( وزیر اور سیکریٹری) کے پاس ہونے کے باوجود یہ محکمہ اپنی صحت کا متقاضی بنا رہا۔ وزیر صحت کے سینیٹر بننے کے بعد اب یہ محکمہ بغیر وزر کے چل رہا ہے۔ اس محکمہ کا قلمدان اب وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہے۔ موصوف کے پاس پہلے ہی کئی محکموں کا قلمدان ہونے کی وجہ سے صحت کے قملدان کا بوجھ بھی ان پر آ گیا ہے۔ اس اہم محکمہ کا قلمدان کسی کو نہ دینے کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب انتخابات ہونے والے ہیں، اس مختصر مدت کے لئے کیس کو وزارت کیوں دی جائے لہٰذا اس محکمہ میں انتظامی افراتفری عروج پر ہے۔ صرف یہ نہیں کاچھو کے علاقے میں بچے خواہ کواتین اور مرد خطرناک امراج میں مبتلا ہیں، جس کے لئے اسلام آباد سے ویکسین کرانے کے مشورے دیئے جارہے ہیں۔ سندھ میں غربت کی حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں کر پارہے ہیں۔انہیں اسلام آباد سے ویکسین کرانے کے مشورے دینا کسی طنز سے کم نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے خطرناک وائرس خود محکمہ صحت کو لگا ہوا ہے۔ جو بچوں کے معمولی امراض کا علاج کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ آج کے سائنس، ٹیکنالاجی کے دور میں ٹیمیں بھیج کر، اور ویکسین کر کے امراض سے بچا جاسکتا ہے اور ان کا وقت پر موثر طریقے سے علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کام کے لئے بہتر انتظام کاری اور فیصلے اور عمل کرنے کی نیت بھی ہو۔
نواب شاہ کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی دیں
روزنامہ سندھ ایکسپریس ” نواب شاہ کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی دیں“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ نواب شاہ جو اب شہید بینظیر آباد سے پہچانا جاتا ہے، وہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی شہر بھی ہے۔ اس شہر کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں آج بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ایک خبر کے مطابق گزشتہ ایک ماہ سے شہر میں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ فلٹر پلانت کام بے مقصد بن گیا ہے۔ ایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا فلٹر پلانٹ پانچ سال گزرنے کے باوجود مطلوبہ پانی فراہم نہیں کر سکا ۔ مالی طور پر بہتر لوگ پانی خرید کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ غریب لوگ سنکھیئے والا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ واٹر کمیشن صوبے بھر کے شہروں میں پینے کے پانی کی رسد کا جائزہ لے رہاہے۔ اس صورتحال میں نواب شاہ کے رہائشی ایک ماہ سے پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ پینے کے پانی کی فراہمی مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہمارے پاس نہ مقامی سطح پر اور نہ صوبائی سطح پر فرض نبھانے کی روایت ہے ، ایسے میں اس شہر کے لاکھوں کوگ اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ ذمہ داری یہاں کے منتخب نمائندوں کی بھی ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لیں اور شہر میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ 

واٹر کمیشن کے احکامات پر عمل کون کرائے گا نادرا کے خلاف احتجاجی مظاہرے


واٹر کمیشن کے احکامات پر عمل کون کرائے گا 
 سندھ نامہ   سندھی پریس
 سہیل سانگی 
سندھ میں متوسط طبقے کی نئی پارٹی ” تبدیلی پسند پارٹی“ کے قیام پر میڈیا خواہ سیاسی حلقوں بحث جاری ہے۔ بڑے زمینداروں (بھوتاروں ) کے خلاف نعرے پر قائم ہونے والی پارٹی کا دعوا ہے وہ صوبے میں پرانی سیاسی گروہ بندی کا متبادل بننے جارہی ہے۔ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے صوبے کے مختلف اضلاع کے دورے شروع کردیئے ہیں۔ 
 نادرا   کے خلاف احتجاجی مظاہرے
سندھ کے اخبارات خاص طور قومی شناختی کارڈ جاری کرنے والے ادارے نادرا کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اخبارات کے مطابق یہ ادارہ سندھ میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو بڑے پیمانے پر کارڈ جاری کر رہا ہے۔ جنہیں ووٹ کا حق بھی مل رہا ہے اور پاکستان کی شہریت بھی۔ اخبارات کی نظر میں یہ معاملہ ملک اور خاص طور پر سندھ کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس پر سندھ کے مختلف اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ بعض شہروں میں نادرا کے اس فیصؒے کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ سندھ کے اخبارات کا اداریوں کے حوالے سے
 رواں ہفتے زیادہ تر فوکس شہری مسائل رہے ہیں۔
واٹر کمیشن کے احکامات 
 روزنامہ کاوش ” واٹر کمیشن کے احکامات پر عمل کون کرائے گا؟“ کے عنوان
 سے لکھتا ہے کہ ملک بھر کے عوام کی طرح سندھ کے عوام بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس اس لئے ادا کیا جاتا ہے کہ عوام اپنی آمدنی کا ایک مقرر حصہ ریاست کو ادا کرتا ہے اور اس کے عوض ریاست شریوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوجاتی ہے۔ عوام سے براہ راست اور بلواسطہ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ ٹیکس ہر چیز اور مصنوعات کی قیمت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں شہریوں کو کیا سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ باقی سہولیات ت چھوڑیں، سندھ کے عوام کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ عدلیہ کی جانب سے قائم کردہ واٹر کمیشن کے واضح احکامات کے باوجود عوام کو صاف پانی کی فراہمے اور پینے کے پانی میں سیوریج کی ملاوٹ کو روکنے کو یقنی نہیں بنایا جاسکا ہے۔ واٹر کمیشن کے احکامات کو کسی حساب میں نہیں لیا جارہا ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے گزشتہ روز ایک خبر شایع ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق لاڑکانہ شہر سمیت ضلع کے 80مقامات پر فراہم کیا جانے والا پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں۔ زیر زمین پانی میں سنکھیئے اور بیکٹریا کی موجودگی کے باوجود لوگ یہ مضر صحت پانی پی رہے ہیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود رائیس کینال میں سیوریج کا پانی بند نہیں کیا گیا ہے۔ کیا یہ عمل توہین عدالت نہیں؟ 
 یہی صورتحال تھوڑے بہت فرق کے ساتھ صوبے کے باقی اضلاع میں بھی ہے۔ وہاں پر بھی عدالتی احکامات پر صحیح عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ اگر عمل ہو بھی رہا ہے تو صرف فائیلوں میں، سرزمین پر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ تمام معاملہ گورننس کا ہے۔ اداروں کی مجموعی کارکردگی ہی گورننس کا پروفائیل تشکیل دیتی ہے۔ لیکن سندھ اداروں کا قبرستان بن چکا ہے۔ جب صورتحال یہ ہو کہ لوگوں کو پینے کا پانی تک نہ ملے جو کہ ان کا آئینی حق ہے۔ اس کارکردگی کے ساتھ حکومت کا کیسے پروفائیل بنے گا؟ یہ امر نا قابل فہم ہے کہ عوام سے ٹیکس تو لیا جائے ، لیکن جوابا ان کو وہ سہولیات جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے مہیا نہ کی جائیں، اس صورتحال میں وصول کیا جانے والا ٹیکس ” جگا ٹیکس“ سے کس طرح سے مختلف ہے؟ 
پینے کے لئے صاف پانی کے بجائے گندے پانی کی فراہمی سے کئی مسائل اور امراض جنم لیتے ہیں۔ منتظمین عوام کو صرف پینے کے صاف پانی کے حق سے محروم نہیں کرتے، بلکہ اس پانی کے استعمال سے جو امراض جنم لیتے ہیں عوام کو ان کے علاج کی سہولت بھی میسر نہیں۔جب انسانوں کو ا غلاظت بھرا پانی پلانے کا جبر کیا جائے اس سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے؟ بنیادی سہولیات کی فراہمی حکمرانوں کی اولیت ہی نہیں رہی۔ اسکو مجرمانہ غفلت اور انتظامی غیر سنجیدگی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک بہت بڑی نااہلی ہے۔ ایک ایسا مکینزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ واٹر کمیشن کے احکامات پر پورے طور پر عمل درآمد ہو سکے۔
 کھیل کے میدانوں پر سے قبضے ہٹانے کا فیصلہ 
 ”پارکس اور کھیل کے میدانوں پر سے قبضے ہٹانے کا فیصلہ“ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ عوام کی تفریح اور جسمانی سرگرمیوں کے لئے دنیا بھر میں پاکرس اور کھیل کے میدان ضروری ہوتے ہیں اور حکوت ان اہم مقامات کی موجودگی کو یقینی بناتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس ان اہم مقامات پر مافیا کا راج ہے۔ اگر ملک بھر میں سروے کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ہزاروں پارک اور کھیل کے میدان بلڈر مافیا کے قبضے میں ہیں۔ یہ زمین یا فروخت کردی گئی ہے یا پھر اس پر پلازا تعمیر کردیئے گئے ہیں۔ ہمارے بچوں کو نہ سیر وتفریح مل سکتی ہے اور نہ ہی جسمانی سرگرمی کے لئے میدان۔ لہٰذا ہم صحت مند معاشرے کے بجائے بیمار معاشرے کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ 
 گزشتہ روز سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں کراچی شہر کے اندر پارکوں، کھیل کے میدانوں پر قبضے اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر گرانے اور دیگر شہروں میں اس طرح کی زمینوں پر قبضے کے خلاف سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں تمام پارکوں اور کھیل کے میدانوں پر سے تجاوزات ہٹانے اور کشمیر روڈ پر شادی ہالز سمیت غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو سوئمنگ پول، ٹینس کورٹ، اسکیٹنگ رنگ کو چھوڑ کر باقی تمام تعمیرات ہٹائی جائیں۔ جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ پی ای سی ایھ کے نوخیز گراﺅنڈ میں ابھی تک بعض سیاسی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں پارکوں اور میدانوں کو اصل حالت میں بحال کیا جائے۔ یہ ایک متحسن قدم ہے کہ کراچی جیسے اہم شہر میں سیر تفریح اور کھیل کے میدانوں کی بحالی کے لئے عدالت نے فیصلہ دیا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری پارکوں اور کھیل کے میدانوں کے لئے مختص جو بھی زمین ہے ، وہاں بااثر افراد یا قبضہ مافیا کا قبضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے گلیوں اور سڑکوں پر کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جبکہ پارک اور میدان بچوں کی بنیادی ضرورت اور حق ہے۔ پارک بغیر قبضے کے ہونے چاہئیں تاکہ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ آزادی سے گھوم پھر سکیں۔ یہ مرحلہ صرف کراچی تک ہی محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ سندھ بھر میں ان احکامات کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بلامتیاز اور موثر طریقے سے عمل درآمد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ 

Thursday, April 12, 2018

سندھ نامہ: سندھ کی وفاق کے پاس اہمیت نہیں۔

April 6, 2018
 سندھ نامہ سہیل سانگی 
 موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت مکمل ہونے کی طرف جارہی ہے۔ متوقع انتخابات کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب نئے بجٹ کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ اس موقع پر یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ گزشتہ برسوں میں کیا منصوبے بنائے گئے اور کس پر کتنا کام ہوا؟ یوں گزشتہ دس سال کی حکومتی کارکردگی بھی سامنے آرہی ہے۔ دوسری طرف سندھ کے مرکز کے ساتھ معاملات بھی سر ٹھا رہے ہیں۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے وجود سے متعلق بعض انتہائی اہم
 معاملات وفاق کے نام پر ان اداروں کے پاس ہیں زیر بحث ہے جو بظاہر وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ لیکن ان کی بحث کا رخ بتاتا ہے کہ ان کے پاس پنجاب کے حق میں فیصلہ کے علاوہ کوئی اختیار نہیں۔ گزشتہ روز دو خبریں شایع ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ خواہ کتنی ہی چیخ و پکار کرتا رہے لیکن اس کی وفاق کے پاس کوئی اہمیت نہیں۔ ایک خبر ایف بی آر کی جانب سے سندھ کے حصے سے 9 ارب روپے کٹوتی کرنے کے بارے میں ہے۔ خبر کے مطابق عزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر کی جانب سے غیر قانونی طور پر کی گئی کٹوتی سے متعلق وزیراعظم کو خط لکھا جائے گا۔ اور یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھی اٹھایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نسدھ نے بتایا کہ ایف بی آتر گزشتہ کئی برسوں سے اسٹیٹ بینک کے ذریعے ود ہولڈنگ اور سیلز ٹیکس کی مد میں غیر آئینی کٹوتی کرتا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق صوبائی کنسالیڈیٹیڈ فند نکالنے کا اختیار سندھ حکومت کے پاس ہے۔ لہٰذا کیس بھی صوابدیدی اختیار کے ساتھ اس فنڈ سے رقم نکالنا غیر آئینی ہے۔ 
 اسی طرح سے نیشنل واٹر پالیسی کے نام پر جو منصوبہ زیر عمل ہے اس میں بھی سندھ کے بنایدی مطالبات کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے محکمہ آبپاشی کے اعلیٰ اسفران کا اجلاس طلب کر کے معاملے کے مختلف پہلوﺅں س پر بحث کے بعد یہ بات رکھی کہ دریائے سندھ پر ساحلی علاقے کے باشندوں کا پہلا حق تسلیم کیا جائے۔کیونکہ دریاءمیں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر ساحلی پٹی پر زرخیز زمین تیزی کے ساتھ کو نگل رہا ہے۔ جس کو آگے بڑھنے سے روکنا ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مجوزہ واٹر پالیسی میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی چھوڑنے کا نقطہ لازمی طور پر شامل کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقوں کا تحفظ بھی لازمی ہے۔ ہم وزیراعلیٰ کے اس موقف کو درست سمجھتے ہوئے اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سندھ کے ان مطالبات کو نئی واٹر پالیسی کا حصہ بنانا لازمی ہے۔ اس کے بغیر مرتب کی گئی واٹر پالیسی کسی طور پر بھی مشترکہ مفادات کی عکاسی نہیں کر سکے گی۔ 
یہ امر مسلسل دیکھا گیا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت سندھ کی کسی بھی تویز کو وہ ترجیح نہیں دے رہی ہے جو وفاق کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ حکومت اپنی آئنی مدت مکمل کرنے والی ہے، لیکن جاتے جاتے بھی اس حکومت کی پالیسیوں کا محور پنجاب سے ہٹ نہیں سکا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کو چھوٹے صوبوں میں پزیرائی نہیں مل سکی ہے۔ سندھ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ کما کر دینے والا صوبہ ہےس۔ جس کو جائز ھصے سے ویسے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ لیکن جو تھوڑی بہت رقم اس کے حصے میں آتی ہے اس میں بھی وفاقی ادارے کٹوتی کرتے رہتے ہیں۔ اس سے آخر سندھ کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ قومی ملیاتی کمیشن ایوارڈ میں آج تک پنجاب کی ہٹ دھرمی ملک میں مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے سامنے دیوار بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کو مالی اور انتظامی معاملات ہیں ان میں بھی گھپلے کرنے سے سندھ میں مایوسی بڑھے گی۔ پانی مسئلہ اتنا ہی اہم ہے جتنا مالی وسائل کی تقسیم کا معاملہ ۔ لہٰذا وفاقی حکومت کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ اس کی پالیسیاں ملک کو کس طرف لے جارہی ہیں۔ 

خراب حکمرانی اور انتظام کاری کا مثالی ماڈل
 روزنامہ کاوش ” خراب حکمرانی اور انتظام کاری کا مثالی ماڈل“ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں کراب حکمرانی کے مثالی ماڈل میں اب چار چاند لگ گئے ہیں۔ خبر ہے کہ سندھ کے 400 منصوبے ہر سال فنڈ مختص کرنے کے باوجود 2033 سے اب تک مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔ 2003, 2005، 2007، 2008، اور 2010 میں بجٹ رکھ کر ان منصوبوں کو شروع کیا گیا تھا۔ لیکن 15 سال گزرنے کے بعد بھی ا یہ منصوبے مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔ان منصوبوں میں صنعتی علاقوں کا قیام، سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنا، ہسپتالوں میں نئے وارڈ قائم کرنا جیسے اہم منصوبے شامل تھے۔ لیکن ایک عشرے کے بعد بھی یہ منصوبے مثالی طرز حکمرانی اور مثالی انتظام کاری کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ 
یہ منصوبے ای مدت کے دوران کیوں مکمل نہیں ہو سکے؟ محکمہ خزانہ کے قائم مقام سیکریٹری فرماتے ہیں کہ متعلقہ محکموں کے افسران میں اہلیت اور ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبے مکمل نہیں ہو سکے۔ ایسا ہی سوال وزیرعلیٰ نے بھی اٹھایا ہے۔ سرکاری افسران اور عملے کی صلاحہت ایسی کیوں ہے؟ ان کی بھرتی کے وقت ایسے معیار کیوں نہیں مقرر کئے جاتے کہ ایسے افراد میرٹ پر آسکیں جو منصوبوں کوقت پر مکمل کر سکیں؟ یہ کام بھی حکومت کو ہی کرنا ہے۔ منصوبے مکمل نہ ہونے پر یہ افسران ہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے پر الزام لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ 
 ظلم یہ ہے کہ عوام حکومت اور افسران کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عوام کو سہولت نہ ملے ، اس پالیسی پر دونوں فریق متفق اور متحد ہیں۔ اگر فردا فردا ان سے مسائل اور ناکامیوں کا پوچھا جاتا ہے تو حکمران اور سیاستدان اس کے لئے بیوروکریسی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جبکہ افسران تمام ناکامیوں کا بوجھ حکمرانوں یعنی سیاستدانوں پر ڈالتے ہیں۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندے عوام کے سمانے جوابدہ ہیں۔ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ اور دیگر سہولیات حاصل کرنے والے افسران بھی اصولی اور خلاقی طور پر عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ بدقسمتی سے مصیبت کے مارے عوام حخمرانوں اور بیوروکریسی کے سامنے جوابدہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کو پوچھنا ہے یا احتساب کرنا ہے وہ پوچھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ جن کو اپنے شعبے کی ناکامی اور کوتاہی پر خاموش رہنا ہے وہ مسلسل بلے جارہے ہیں۔ 
 ان نامکمل منصوبوں کی لسٹ میں ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جو اگر مکمل ہوتےتو سندھ کی تصویر یہ نہیں ہوتی جو آج ہے۔

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا 

سندھ نامہ: چیئرمین نادرا اور میئر کراچی کے کمالات

March 30, 2018 
چیئرمین نادرا اور میئر کراچی کے کمالات
 سندھ نامہ    سندھی پریس
 سہیل سانگی 
سندھ حکومت نے قومی پانی پالیسی پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے بھاشا ڈیم کے علاوہ باقی تمام ڈیمز کی تعمیر کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر منصوبہ بندی کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ نیشنل واٹر پالیسی میں تبدیلی کی جائے۔ خط میں کہا گیا گیا ہے کہ واٹر پالیسی کا مقصد پانی کی حالیہ قلت کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی پانی ضروریات کو سامنے رکھ کر رہنما اصول مرتب کرنے ہیں۔ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو یاد دلایا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پانی کی انتظام کاری صوبائی اختیار ہے۔ آبپاشی، زراعت، ماحولیات، شہروں کو پانی کی فراہمی صوبائی اختیار ہے۔ لہٰذا قومی پانی پالیسی میں ان نکات کو بھی شامل کیا جائے۔ سندھ حکومت نے بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ باقی مجوزہ ذخائر کو مسترد کیا جائے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے پانی کے حوالے سے حکومت سندھ کے موقف کی حمایت کی ہے، اور وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کے موقف کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔ 
روزنامہ عبرت غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو شہریت دینے کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سندھ میں لاقانونیت، میرٹ کو نظرانداز کرنا، سیاسی معاشی، سماجی توڑ پھوڑ عروج پر ہے۔ غیر مقامی آبادی کے بڑھ جانے ، نجی اداروں کے غلبے، اور حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث سنھ کی زمینوں اور قدیمی باشندوں کے لئے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ جنہیں نہ صرف مستقل طور رہائش حاصل ہے بلکہ انہیں قومی شناختی کارڈ بھی جاری کئے جارہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چند روز پہلے میئر کراچی نے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں غیر قانونی طور پر رہائش پزیر بنگالیوں، برمیوں، بہاریوں اور دیگر غٰر ملکی باشندوں کو بلدیہ ٹاﺅن میں زمین لیز پر دینے کا اعلان کیاہے۔ حخومت سندھ نے اس امر کا نوٹس لیتے ہوئے میونسپل کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں غیر قانونی طور پر رہائش پزیر ان لوگوں کو زمین لیز پر دینے کا عمل روک دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ میئر کراچی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ سندھ کی زمین غیر قانونی طور پر رہائش پزیر ان غیر ملکیوں کو لیز پر دے۔ 
 کراچی بدامنی کیس یں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ریکارڈ پر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس میٹروپولیٹن شہر میں لاکھوں افرادغیر قانونی طور پر رہائش پزیر ہیں۔ جن کا تعلق غیر ممالک سے ہے۔ یہی لوگ شہر کا امن برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی ہا تھا کہ ان غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو شہر سے کیمپوں میں منتقل کیا جائے۔ بعد میں ان افراد کو متعلقہ ممالک بھیج دیا جائے۔ فسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ اس فیصلے کے برعکس میئر کراچی اور دیگر لاڈلے افسران ان غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو سندھ کے دارالحکومت کی زمین اس طرح سے لیز پر دے رہے ہیں جیسے یہ ان کی ذاتی ملکیت ہو۔ 
 اسی طرح سے نادرا کی انتظامیہ سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ، جو ان غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کے دارالحکومت میں اصلی باشندوں کے بجائے یہ غیر ملکی اور غیر قانونی باد لوگ زیادہ اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انتظامیہ کے اکثر اقدامات سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ کراچی میں سندھ کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے جارہے ہیں۔ میئر کراچی اور چیئرمین نادرا کو یہی مشن سونپا ہوا ہے۔ ایک زمین لیز پر دیتا ہے، دوسرا قومی شناختی کارڈ جاری کر کے انہیں شہریت دے رہا ہے۔ دوسری جانب اسٹیل مل کی زمین بھی عتاب کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت موقعہ ملتے ہی یہ زمین جو دراصل سندھ حکومت کی ہے، فروخت کردے گی۔ 
 تعجب کی بات ہے کہ نادرا کی نئی پالیسی نے غیر ملکیوں کے لئے شناختی کارڈ دینے میں سہولت پیدا کردی ہے۔ سندھ کے لوگوں کا تحفظ کرنے کے بجائے بنگالیوں ، برمیوں ، افغانیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو شہریت دے کر ان کو ووٹ کا بھی حق دیا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یئر کراچی اور چیئرمین نادرا سے سختی سے پوچھا جائے کہ انہیں غیر ملکیوں کو سندھ کی زمین لیز پر دینے اور شناختی کارڈ جاری کرے اس ملک کا اور سندھ کا شہری بنانے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ حکومت سندھ اور اس دھرتی کے تام اہل نظر و فکر لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ کہ سندھ کی زمین، وسائل، اور اختیارات اسلی باشندوں سے چھیننے کی اس کوشش کو کس طرح سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس ” سندھ میں تعلیمی معیار میں بہتری کی کوئی امید نہیں‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ صوبے میں نویں اور دسویں جماعتوں کے امتحانات شروع ہو چکے ہیں۔ مختلف امتحانی مراکز سے کاپی کی اطلاعات آرہی ہیں۔ سندھ میں کاپی کلچر کے خاتمے کا سوال برسوں سے زیر بحث ہے۔ اس مقصد کے لئے سیاسی خواہ سماجی شعبوں میں کام کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی جانب سے متعدد سفارشات مرتب کی جا چکی ہیں۔ لیکن عملا نتیجہ صفر ہے۔ کاپی کلچر کی وجوہات کیا ہیں؟ سہولتکار کون سے فریق ہیں؟ اس کو کس طرح سے روکا جا سکتا ہے؟ اگر محکمہ تعلیم کو تاحال سمجھ میں نہیں آیا تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اساتذہ سے لیکر والدین تک، اکسلو اسٹاف سے لیکر بورڈ کے افسران تک، سب اس دھندے میں ملوث ہیں۔ نتیھے میں سندھ کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت سخت اقدامات اٹھا کر کاپی کلچر روکے ۔ تعلیم کو مزید تباہی سے بچائے۔ تعلیم کو بچانے کے لئے بنیاد سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی سندھ کی 42 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ہزاروں اسکول بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ اساتذہ کی کمی ہے۔ صوبے میں آج بھی پندرہ سے بیس ہزار اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ جب اس طرح کے اسکولوں سے بچے امتحان میں بیٹھیں گے تو ان کے پاس کاپی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کاپی کلچر کے خاتمے کے لئے حکومت، اساتذہ اور والدین کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا پڑ گا۔ تب تعلیم میں اصلاح ہو سکے گی۔