Thursday, July 2, 2015

سندھ میں موسم اور سیاست کے مزاج میں تلخی

Sindhi Press Sindh Nama  Sohail Sangi 
سندھ میں موسم اور سیاست کے مزاج میں تلخی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی  
روزنامہ کاوش بجلی کا بحران اور الزامات کا کھیل کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں موسم کے مزاج کی تلخی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایک طرف نامہربان موسم ہے تو دوسری جانب ارباب اختیار کی بے حسی۔ جو اس قیامت خیز گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے لوگوں کو نجات نہیں دلاسکے ہیں۔ لوگ گرمی کی شدت کے باعث بے موت مر رہے ہیں۔ دوسری جانب حکمران عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کر رہے ہیں قومی اسمبلی میں بجلی اور توانائی کے بحران پر بحث کے دوران پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے کہا کہ کراچی میں فوتگی کے واقعات کا بجلی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت پر بقایاجات کا بھی ذکر کیا۔ جبکہ حزب اختلاف کے رہنما سید خورشی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاق گرمی کے باعث رونما ہونے والے سانحے کے موقعہ پر بہی کھاتے کھولنا بند کرے۔
 

حقیقت یہ ہے کہ بجلی کا بحران آج کا نہیں اور نہ ہی ایک روز میں پیدا ہوا ہے۔ یہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ جو بھی حکومتیں آئیں وہ اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس پر سیاست کرتی رہیں ۔ نواز لیگ کے رہنما حکومت میں آنے سے پہلے یہ دعوے کرتے رہے کہ حکومت میں آتے ہی وہ بجلی کا بحران ختم کردیں گے۔ لیکن جب یہ جماعت اقتدار کی سیٹ پر بیٹھی تو وس کے وزراء کہنے لگے کہ اس کو حل کرنے میں وقت درکار ہے۔
 

سندھ میں لوڈ شیڈنگ کتنی ہو رہی ہے اس کا اندازہ صوبے بھر میں جاری احتجاجوں سے ہو سکتا ہےْ ضرورت اس بات کی ہے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے یا جھوٹے وعدے اور دعوے کرکے بجلی پر سیاست کرنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کر کے اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
 

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بجلی پر سیاست کرنے کو پنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر نے قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر بجلی و پانی سے استعیفا کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے اس موقف کے ردعمل میں کہا ہے کہ کراچی میں فوتگی کی تعداد میں اضافے کی وجہ صرف لوڈ شیڈنگ نہیں۔ بلکہ بڑی وجہ غربت ہے۔ کیونکہ مرنے والوں میں سے ستر فیصد محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ جبکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک اور وجہ ہے۔ صوبائی خواہ وفاقی حکومتوں کے موقف سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔
 

روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کے الزام میں بعض اعلیٰ افسران کی گرفتاریوں کے بارے میں ’’اخلاقی دیوالیہ پن کے نتائج‘‘ کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ کوئی فرد ہو یا گروہ شعوری خطائیں اس سے حوصلہ چھین لیتی ہیں اور وہ حق اور سچ کی بات کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ موجودہ حالات میں حکومت سندھ کے مہر نظر بیوروکریٹس کا بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ خواہ حالیہ دور میں کرپشن کو جس طرح سے لازمی قرار دیا گیا، ملازمتوں سے لیکر ترقیاتی کاموں تک پولیس تھانوں سے لیکر روینیو عہدوں پر تقرر اور تبادلوں تک جو ریٹ مقرر کئے گئے اور جو بولی لگی رہی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جو موجودہ وقت میں نظر آرہا ہے۔
 

بعض اعلیٰ افسران ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یا جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ چند ایک قانون کی گرفت میں ہیں جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صوبائی کابینہ کے وزراء سمیت 26 افراد کے نام اگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہیں۔ یہ نام ای سی ایل پر کیوں ڈالے گئے ہیں؟ ایک دو روز میں اس کی تفصیلات منظر عام پر آجائے گی۔
میڈیا رپورٹس ک مطابو صوبائی وزیر اویس مظفر کو کراچی ایئر پورٹ پر روک دیا گیا۔ لیکن انہوں نے جب اپنے بھائی کی لاش وصول کرنے کا جواز پیش کیاتو انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ سندھ کی بعض طاقتور شخصیات دبئی پہنچ چکی ہیں ۔

مطلب سندھ حکومت کے اعلیٰ افسران میں بھام دوڑ مچی ہوئی ہے ۔ بینظیر ہاؤسنگ سیل کے چیئرمین مظفر عباس کو نیب کے ہاتھوں گرفتار ہیں ۔ ان پرکشمور کی ایک اسکیم میں 37 کروڑ روپے کی کرپشن پر الزام ہے۔ چند روز میڈیا میں خبروں کی سرخیاں بننے والے افسر منظور قادر کاکا کینیڈا اور کراچی کے ایڈ منسٹریٹرثاقب سومرو جرمنی میں موجودگی کی اطلاعات ہیں۔

تجزیہ نگار اس پر پریشان ہیں کہ کیا یہ وہی پارٹی ہے جو وقت کے جابروں سے مقابلہ کرتی تھی؟ اسکے جسمانی طور پر کمزور کارکنوں سے بندوق بردار بھی خائف رہتے تھے۔ اس پارٹی کے وزراء اور ان کے منظور نظر افسران کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ۔

 

یہ اخلاقیات کی قوت تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی لاہور آمد کی حبیب جالب نے صحیح الفاظ میں عکاسی کی:’’ ڈرتے ہیں بندوق والے، ایک نہتی لڑکی سے۔‘‘ اب یہ پارٹی گزشتہ سات سال سے سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے کہ مگر اس میں اخلاقی جرئت نہیں کہ وہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کرے۔
 

سندھ کے عوام نے حکمرانی کے حوالے سے اتنی بے حسی پہلے کبھی نہیں دیکھی جتنی پیپلزپارٹی نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کی ہیں۔ اسے عجب اتفاق کہئے کہ جب یہ دونوں جماعتیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے جارہی تھیں ، متحدہ کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ آئی ہے کہ متحدہ کے دو رہنماؤں نے برطانوی حکام کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی حکومت ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران متحدہ کے سینکڑوں کارکنوں کو بھارت نے تربیت دی۔ 2012 میں متحدہ کے رہنماؤں نے پولیس تفتیش کے دوران بھارت سے مالی امداد لینے کا اعتراف کیا۔
 

اس رپورٹ کے بعد پیپلزپارٹی خود کو کمزور محسوس کر رہی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اپنی جڑیں عوام میں مضبوط رکھتی تو اسے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔

Daily Nai Baat - 04/07/2015- Sindh Nama - Sohail Sangi

http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%A7%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%D9%85

زرداری کی فوج پر تنقید: سندھ میں کشیدہ صورتحال

Sindhi Press Sindh Nama  Sohail Sangi 
سندھ میں کشیدہ اور خوف ہراس کی صورتحال 
سندھ نامہ سہیل سانگی
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فوج پر تنقید کے بعد صورتحال سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے دیگر بعض شہروں میں سرکاری افسران کی گرفتاریاں جاری ہیں ابھی تک ڈیڑھ درجن افسران کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جبکہ نصف درجن اعلیٰ سرکاری افسران نے حفظ ماتقدم ضمانتیں کرالی ہیں ۔ صوبے میں ایک طرح کے کریک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اس کی وجہ سے کراچی میں صوبائی سیکریٹریٹ کے افسران میں خوف بھی پایا جاتا ہے۔

اخبارات نے پیپلزپارٹی اور عسکری قوتوں کے درمیان تصادم کی صورتحال اور کرپشن کے الزام میں افسران کی گرفتاریوں کو موضوع بنایا ہے۔

 

اخبارات کے مطابق کرپشن کی شکایات عام ہیں لیکن اس کو روکنے یا ختم کرنے کے لئے سویلین م اور صوبائی مکینزم موجود ہے ۔ اسی مکینزم کو فعال بناکر اقدامات کئے جائیں جو کہ قانون اور آئین دونوں کے تقاضوں کے مطابق ہونگی۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ سب کچھ رینجرز کا مینڈیٹ ہے؟ کیا یہ ادارہ اپنے حدود سے تجاوز تو نہیں کر رہا؟ بعض تجزیہ نگاروں نے نیب اور رینجرز کے ان چھاپوں کو وفاق کی جانب سے صوبائی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور صوبے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے وفاقی یا سندھ بجٹ پر اخبارات میں جامع بحث نہیں ہو سکی۔
 

روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کی شکایات اور نیب اور رینجرز کے چھاپے کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق کے ماتحت ادارے رینجرز نے سندھ کے مختلف محکموں کرپشن کے خلاف تحقیقات کے لئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور رینجرز نے زمین کی الاٹمنٹ کا رکارڈ تحویل میں لیا۔ایک اور وفاقی ادارے نیب نے سندھ لائنز ایریاز ری ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پانچ اہم افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں چائنا کٹنگ کے ذریعے 1200 سے زیادہ پلاٹ مختلف مافیا کو فروخت کر کے چار ارب روپے سے زائد رقم ہڑپ کی۔ ای سی ایل میں پچاس سے زائد افسران کے نام ڈال دیئے گئے ہیں۔ صوبائی محکموں کے افسران کے خلاف رینجرز کی ان کارروایوں کے بارے میں صوبائی حکومت کو آگاہی نہ دینے پر صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ نیب کی کارروایوں اور رینجرز کے چھاپوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق سندھ حکومت پت عدم اعتماد کا اظاہر کر رہا ہے۔
 

ملک کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ میں کرپشن کا راگ گایا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف سندھ حکومت کو بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خطرہ ہے۔ اس میں کچھ کوتاہیاں اپنی بھی ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی اچھی حکمرانی کو یقینی بناتی اور عام آدمی کو پینے کے پانی، صحت، تعلیم وغیرہ کی بنیادی سہولیات مہیا کرتی وفاق کو سندھ حکومت پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی کو شفاف بنائے اور ایک ایسا نظام بنائے جس کے تحت کرپشن میں ملوث افسران قابل گرفت ہوں ۔ اگر وفاق کسی آڑ میں سندھ حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جس کے لئے وفاق سے باضابطہ بات کرنی چاہئے۔
 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کام زیادہ اور پیسہ کم ہے۔ سندھ کا خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ۔ اس خسارے کے لئے صوبائی حکومت وفاق کو ذمہ دار ٹہرا رہی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران وفاقی پول سے سندھ کو 381 ارب روپے ملنے تھے۔ بعد میں یہ تخمینہ کم کرکے 353 ارب روپے کیا گیا۔ لیکن عملا گزشتہ 9 ماہ کے دوران 287 روپے سندھ کو جاری کئے گئے اور مجموعی طور پر وفاق نے 52 ارب روپے کم جاری کئے ۔ وفاق سے کم رقم ملنے کی وجہ سے اہم ترین شعبوں تعلیم، صحت، بلدیاتی اداروں، جنگلات لایو اسٹاک کی ترقیاتی رقامت میں کٹوتی کی گئی ہے۔
 

سندھ تیل ، گیس، اور دیگر قدرتی وسائل کے ذریعے وفاق کو بڑی آمدنی دیتا ہے، لیکن صوبے کا کم حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جو حصہ رکھا جاتا ہے اس کی ادائیگی بی پوری نہیں کی جاتی اکثر ادفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ رقومات وقت پر جاری نہ کرنے کی وجہ سے سندھ میں ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کی طرف یہ رویہ اپنی جگہ پر۔ لیکن سندھ کی جانب سے باقاعدہ ہوم ورک کرکے وفاق کے ساتھ مالی معاملات اٹھائے نہیں جاتے۔ کے حکمران اس وقت نیند کے خمار سے جاگتے ہیں جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مسائل صرف وفاق کے حوالے سے شکایات کرنے سے دور نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو رقومات حاصل وہئی ہیں ان کے موثر اسعتمال کو یقینی بنایا جایت اور اس کے ساتھ ساتھ مالی امور کے حوالے سے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پورا سال اس پر کام کرتی رہی۔ اور جامع کیس بنا کر وفاق کے سامنے پیش کیا جائے۔
 

روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی وفاق کی جانب سے سندھ کو کم رقومات کے اجراء پر اداریہ لکھا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کو مالی وسائل میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔

Daily Nai Baat - Sindh Nama - Sohail Sangi