Friday, July 15, 2016

تیزبارش کی پیش گوئی اور سندھ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی 
رواں ہفتہ اخبارات نے نامور انسان دوست اور بے لوث خدمت گار عبدالستار ایدھی کی زندگی کے مخلتف پہلوﺅں پر اداریے، کالم اور مضامین شایع کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ بلاشبہ ایدھی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ اخبارات نے ان کو اسی حساب سے اپنے کالموں میں جگہ دی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 
اخبارات نے سیاسی حوالے سے وزیراعظم کی وطن واپسی، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے ٹی او آرز کی تیاری میں ڈیڈ لاک ، الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرر کے معاملات پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
 سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ ابھی تک اغواکاروں کے قبضے میں ہیں۔ اس حوالے سے مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ ایک اور اہم واقعہ یہ رونما ہوا ہے کہ سندھ کے وزیر داخلہ انور سیال کے بھائی طارق سیال نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ انہیں رینجرز اور پولیس سے تحفظ دیا جائے۔ 
سندھ حکومت وفاقی حکومت سے مسلسل ناراضگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد سمیت صوبے کے بعض شہروں میں پیپلزپارٹی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ یہاں تک کہ حیدرآباد کے قریب کئی گھنٹوں تک ہائی وے بھی بلاک کیا گیا۔ 

دوسرا اہم معاملہ امکانی سیلاب اور تیز بارشوں کا ہے جس کو اخبارات نے موضوع بحث بنایا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے امکانی سیلاب اور مون سون کی تیز بارشوں کی پیش گوئی پر اداریے لکھے ہیں۔ اور حکومت پر سخت تنقید کی ہے کہ سیلاب یا تیز بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی عملی تیاری نہیں کی گئی ہے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ یہ عمل صرف سال میں ایک بار دیکھنے کا نہیں بلکہ پورا سال اس پر نظر رکھنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔روزنامہ عوامی آواز ، سندھ ایکسپریس اور روزنامہ عبرت نے اس موضوع پر اداریے لکھے ہیں کہ حکومت صرف اس وقت ایکشن میں آتی ہے جب ہنگامی صورتحال شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ جبکہ ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لئے جن پیشگی اقدامات کی ضرورت ہے اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ایک طرف محکمہ موسمیات سندھ کے مختلف حصوں میں تیزبارشیں ہونے کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ دوسری طرف حفاظتی پشتوں کی صحیح مرمت نہ ہونے اور بعض کینال میں شگاف پڑنے پر وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری آبپاشی سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی دریاءمیں نچلے درجے کا سیلاب ہے اتنی رقومات خرچ کرنے کے باوجود اس وقت بھی اگر شگاف پڑ رہے ہیں۔ سندھ میں دریائی پشتوں کی بجٹ ہی نہیں بلکہ مونسون میں تمام پشتوں کی مرمت اور مضبوطی کے لئے مختص کی گئی رقم آبپاشی کے اہلکار ہضم کر جاتے ہیں۔ اس سے متعلق خبریں وقتا فوقتا اخباری صفحات پر شایع ہوتی رہی ہیں۔ 
بینظیر آباد ضلع میں ایس ایم بند کے پشتوں کو پانی کاٹ رہا ہے یہی صورتحال حیدرآباد میں لطیف آباد کے قریب واقع بند کی ہے جہاں
 60 فٹ تک دریائی پشتہ پانی کی نذر ہو گیا ہے۔ اونے درجے کے سیلاب اور تیز بارشیں ابھی آنی باقی ہیں۔ لیکن بدانتظامی ابھی سے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ 
محکمہ آبپاشی کی سالانہ رپورٹ ہر مرتبہ قادرپور لوپ بند، شینک بند، الرا جاگیر بند، اور دیگر پشتوں کے مزور ہونے کی بات کرتی ہے۔ محکمہ آبپاشی کے لئے پانی کی قلت کے دن بھی بہت سنہری ہوتے ہیں۔ تو پانی میں اضافے کے بھی۔ پانی کی قلت کے دنوں میں غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے چھوٹے زمینداروں اور کاشتکاروں کی فصلیں تباہ کی جاتی ہیں اور منظور نظر زمینداروں کی زمینیں اور فصلیں سر سبز و شاداب رہتی ہیں۔ 

 سندھ میں محکمہ آبپاشی کی کارکردگی اتنی مثالی ہے کہ پانی کی قلت ہو یا سیلاب زراعت سے وابستہ طبقہ پریشان ہی رہتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی تیز بارشوں کی پیش گوئی کے بعد زراعت سے وابستہ لوگ ہی نہیں بلکہ دیہی خواہ شہری علاقوں میں آباد لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔ 
اس خوف کی صورتحال کو کم کرنے کے لئے ویزراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دو اہم شکایات کی ہیں۔ اول یہ کہ وفاق دریا کے حفاظتی پشتوں کی مرمت اور مضبوطی میں مدد نہیں کر رہا ہے جبکہ یہ کام بنیادی طور پر وفاقی حکومت کا ہے۔ دوسرے یہ کہ محکمہ موسمیات کی تیز بارشوں کی پیش گوئی کے پیچھے حکومت سندھ دوڑ دوڑ لگا کر تھک گئی ہے ۔ سندھ کے دریائی علاقے میں بارش کی بوند بھی نہیں پڑی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حفاظتی پشتوں پر کام ہو رہا ہے۔

اگر زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو نکاسی آب سے لیکر بجلی کی فراہمی تک تمام نظام معطدرہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی رویت ہے جس کو آج تک توڑا نہیں جاسکا ہے۔ عوام بلدیاتی اداروں سے لیکر محکمہ صحت تک کی بد انتظامی کی ان رویات سے خوفزدہ ہے۔ دنیا بھرمیں بارشیں رحمت سمجھی جاتی ہیں۔ اور لوگ ان بارشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے دیہی علاقے ہوں یا شہری علاقے بارشوں کا پورا موسم خوف کے عالم میں گزارتے ہیں۔ 

یہ درست ہے کہ کسی امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اجلاس بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان اجلاسوں کے نتائج عوام تک تب پہنچ سکیں گے جب شگاف پڑنے بند ہونگے، شہروں کی سڑکوں پر کئی ہفتے تک پانی کھڑا نہیں ہوگا۔ بحالیات اور صحت کے محکمے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ بہتر کارکردگی باتوں سے زیادہ عملی شکل میں نظر آئے۔


http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/16-07-2016/details.aspx?id=p13_11.jpg
http://naibaat.com.pk/Pre/lahore/Page13.aspx 



Friday, July 8, 2016

سندھ میں لوڈ شیڈنگ اسباب فنی نہیں سیاسی ہیں : سندھ نامہ



سندھ  میں لوڈ شیڈنگ اسباب فنی نہیں سیاسی ہیں
سندھ نامہ سہیل سانگی

چیئرمین واپڈا کی جانب سے نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش “ کے عنوان سے” روز نامہ عبرت “ لکھتا ہے کہ کالاباغ ڈیم پنجاب کے حکمرانوں کی ایسی خواہش رہی ہے جس کو وہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی مخالفت کے باوجود ہر صورت میں مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر دور میں میں کوئی نہ کوئی اس متنازع آبی منصوبے کو آگے لے آتا ہے اور نفرتوں کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مرتبہ یہ کوشش واپڈا چیئرمین نے اپنے بیانات اور مضامین کے ذریعے کی ہے۔ جس پر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے احتجاج کیا ہے۔

 اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمدشاہ نے واپڈا چیئرمین کے اس بیان کو وفاق کی روح کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اس طرح کے متنازع بیانات دینے سے گریز کریں۔ سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم کا معاملہ چیئرمین واپڈا کے مینڈیٹ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سرکاری ملازم ہیں انہیں متنازع بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج سے پہلو تہی کرنے کے لئے کالاباغ ڈیم کا اشو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے۔ 

 یہ ایک متنازع منصوبہ ہے جس کے خلاف تین صوبائی اسمبلیاں قراردیں منظور کر کے مسترد کر چکی ہیں۔ اور اسے ملکی وحدت کے خلاف قرار دے چکی ہیں۔ اس کے لئے ایک سرکاری ملازم کہتے ہیں کہ وہ اس منصوبے کی افادیت کے لئے قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ قوم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہوسکتا ہے؟

ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی چھوڑنے کو زیان قرار دینے والے عقل کے اندھے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صدیوں سے دریاے سندھ سمندر سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے اور اس ڈیلٹا کا اپنا ’ایکو سسٹم‘ ہے۔ اور کوٹری سے نیچے سمندر تک سینکڑوں میل زمین موجود ہے۔ جس پر کاشت بھی ہوتی ہے ماہی گیری بھی ہوتی ہے اور دیگر درجنون ذرائع روزگار ہیں جس پر لاکھوں انسان اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
 آج یہ صوبے پانی کے قحط کا شکار ہے، تھر ہو یا کاچھو اور کوہستان یا کراچی شہر لوگ بالٹیاں ہاتھوں میں اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگردان ہیں۔ 

صاف پینے کا پانی کی عدم موجودگی میں مضر صحت پانی استعمال کرنے کی وجہ سے سندھ کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ پانی سے متعلق بیماریوں میں مبتلا ہے۔ چند ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کے لئے پورے صوبے کی آبادی کو غریب اور تباہ کرنا، بیماریوں میں مبتلا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین نگل چکا ہے۔ 

اپوزیشن لیڈ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے اس متنازع منصوبے کی آڑ لے رہی ہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسترد شدہ منصوبے کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازم کو ہدایت کی جائے کہ وہ قومی وحدت کے معاملات میں فتور نہ پھیلائے۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے لیکر صوبائی دارلحکومت تک بجلی کے بحران اور لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اس کے بارے میں عوامی احتجاج کا نچوڑ یہ جا کر بنا ہے کہ اس بحران کے اسباب فنی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔

 وفاقی حکومت سندھ کے مسائل کو کم کرنے کے بجائے اپنی یک طرفہ پالیسیوں کے ذریعے ان میں اضافہ کر رہی ہے۔ لہٰذا بجلی کے بحران کے لئے وفاقی حکومت کو ہی ذمہ دار ٹہریا جارہا ہے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے لوگوں کو سزا دے رہی ہے۔
 اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے وپڈا کے چیئرمین مسئلے کا واحد حل کالاباغ ڈیم تجویز کر کے اس کے لئے مہم چلا رہے ہیں کہ بجلی کے بحران کا حل اسی منصوبے سے مشروط ہے۔ 

میڈیا مسلسل حکومت کو یاد دہانی کراتا رہا ہے کہ سندھ میں بجلی کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ لیکن متعلقہ وزارت اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ سندھ کو بجلی چور قرار دیا جارہا ہے۔

 اس صورتحال میں سندھ کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس سندھ کے لوگوں کے درد کی دوا نہیں۔ وفاق کی تمام توانائیاں پنجاب پر ہی خرچ کرنے کے لئے مخصوص کی گئی ہیں۔ سندھ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن وفاقی حکومت کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ بلکہ وہاں مزید کنیکشن کاٹے جارہے ہیں ٹرانسفارمر اتارے جارہے ہیں۔ تاکہ بقایاجات کے نام پر سندھ سے زبردستی وصولی کی جائے۔

 اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حیسکو حکام ضلع اتظامیہ کی سننے کے بجائے اپنے طور پر فیصلے کرتی۔ کمشنر حیدرآباد کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ حیسکو انتظامیہ نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 
حیسکو کی کارروایوں کی وجہ سے حیدرآبا شہر کو پانی فراہم کرنے کے ٹینک خالی ہو چکے ہیں۔ حیسکو کی کارکردگی صفر ہے کیونہ کہ گزشتہ دنوں معمولی بارش میں 84 فیڈر بند ہو گئے تھے۔ 
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آج کل سندھ کے مختف علاقوں سے آنے والی خبروں میں سب سے زیادہ خبریں بجلی کے بحران، لوڈ شیڈنگ سے متعلق ہیں۔ 

بجلی کی عدم فراہمی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ متعدد لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ 
بچوں اور ضعیف افردا کی اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ ان کے
 ورثاء نے سڑکوں پر احتجاج بھی کیا لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں۔ حکمران جماعت نواز لیگ کے پاس سندھ کسی شمار میں نہیں۔ لہٰذا صرف بجلی ہی نہیں بلکہ اور کوئی بھی چیز جو وفاق کے ماتحت ہے اس میں سندھ کا حصہ کم کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ رویہ قابل مذمت ہے ۔ سندھ میں اگر بجلی کا بحران جلد نہ ہوا تو نواز حکومت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ 

 روزنامہ کاوش ”بجلی سے لیکر اے ٹی ایم تک ڈاﺅن شدہ لنک“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملکی انتظام ویسے بھی ڈانواڈول ہوتا ہے لیکن خاص یا تہوار کے موقع پر بھی اس انتظام کاری کو ذرا بھی بہتر نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس ضمن میں حکومت اور اس کے اداروں کے دعوے سچ سے کوسوں دور ہی رہتے ہیں۔ 

ماہ صیام شروع ہونے سے پہلے حکومت نے دعوا کیا تھا کہ مہنگائی کو روک دیا جائے گا اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ لیکن عملا کیا ہوا؟ وہی جو سب نے بھگتا۔ اسٹیٹ بینک نے ہدایات جاری کی کہ تمام بنکوں کے اے ٹی ایم چھٹیوں میں کام کرتے رہیں گے۔ لیکن عید سے پہلے ہی سینکڑوں برانچز میں اے ٹی ایم مشینیں بند تھیں یا ان پر نوٹس لگادیا گیا تھا کہ ”اے ٹی ایم خراب ہے“۔ یعنی عوام اپنا پیسہ بھی بنک سے نہیں نکال سکتے۔ 

اے ٹی ایم بند ہونے کی شکایات صوبے بھر سے آئی ہیں۔ جن میں سے کچھ میڈٰا میں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیٹ بنک اپنے اعلان کے مطابق کتنے بنکوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ 

روزنامہ نئی بات ۹ ۔جولائی

Sunday, July 3, 2016

صوبائی حکومت کے اختیار میں مداخلت : سندھ نامہ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
Nai Baat July 2, 2016

صوبائی حکومت کے اختیار میں مداخلت
سندھ نامہ     سہیل سانگی 

تمام اخبارات نے کراچی میں آپریشن تیز کرنے سے متعلق حالیہ اپیکس کمیٹی کے فیصلوں اور بعد میں وفاقی وزیر داخلہ کی پریس بریفنگ پر اداریے لکھے ہیں۔ اخبارات نے آپریشن کو منطقی نتیجے تک پہنچانے پر زور دیا ہے۔ تاہم امن و امان کے حوالے وزیرداخلہ کی بریفنگ میں بتائی گئی بعض باتوں کو صوبائی اتھارٹی میں مداخلت قرار دیا ہے۔ اور وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ اس ضمن میں آئین اور قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں۔

 روزنامہ عوامی آواز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ کراچی میں امن قائم ہونا چاہئے، اس پر دو رائے نہیں ہوسکتی۔ ہر شہری کی خواہش ہے کہ وقتا فوقتا موت کا پنجہ اس شہر پر جھپٹتا رہتا ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے۔ لیکن سندھ بھی باقی تین صوبوں کی طرح وفاق کی ایک وحدت ہے۔جہاں پر منتخب حکومت کام کر رہی ہے۔ پولیس سمیت دیگر تمام محکموں میں بھرتی اس حکومت کا آئینی اور قانونی اختیار ہے۔ بالکل اسی طرح سے جس طرح دوسری صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ بھرتی میرٹ پر ہونی چاہئے تاکہ حقداروں کوحق ملے ۔ 

بقول چوہدری صاحب کے اس وقت پورا ملک حالت جنگ میں ہے۔ قبائلی علاقہ جات ہوں یا بلوچستان اور سندھ یا پنجاب اور خیر پختونخوا ملک کی کوئی بھی جگہ بدامنی سے بچی ہوئی نہیں ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومتیں وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر قیام امن کے لئے کوشاں ہیں۔ ماسوائے سندھ کے کہیں بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ پولیس سمیت کسی بھی محکمے میں بھرتیاں وفاقی اداروں کی مدد سے کی جائیں گی۔ ایسا کرنا صوبائی حکومت کے اختیار میں مداخلت کے مترادف ہے۔ بہتر ہوگا کہ صوبائی حکومت کے اختیارات میں دخل اندازی کے بجائے اسے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نبھانے دی جائیں۔ چند افراد کی نااہلی کی سزا آئینی اور قانونی حدود پھلانگ کر اس صوبے کے عوام کو نہیں دی جانی چاہئے۔ 
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو بھی میرٹ کو ایک طرف رکھنے اور اپنی کارکردگی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے بارے میں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ سندھ میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ تمام محکموں میں بھرتیاں میرٹ پر کی جانی چاہئیں ۔ اخبار وفاقی وزیر داخلہ کے اس خیال سے متفق ہے کہ کراچی کو محفوظ شہر بنانے کے لئے ملکی اور غیر ملکی باشندوں کی جسے انہوں نےمقامی اور غیر مقامی کہا ہے ان کی کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ 

یہ رجسٹریشن درست طریقے سے ہونی چاہئے ۔ ملک میں رھنے والے غیر ملکیوں کے اعدادوشمار کی تفصیلات جمع کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں، قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان سے آکر یہاں پر مختلف کام کرنے والے افراد کی بھی تفصیلات اور اعداد و شمار جمع کی جانی چاہئیں۔ کراچی چونکہ آتش فشاں کی شکل اختیاتر کر گیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ پہلی فرصت میں غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن اور دیگر تارکین وطن کو پہلی فرصت میں اپنے اپنے ملک بھیج دینا ازحد ضروری ہو گیا ہے۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت کے جاری کردہ ایک سروے کے مطابق ملک میں گیس کی 72 فیصد پیداوار دینے والے صوبے سندھ کی شہری خواہ دیہی آبادی کا 43 .66 فیصد گیس کی سہولت سے محروم ہے۔ گیس کی پیداوار دینے والے ضلع گھوٹکی 28.8 فیصد شہری آبادی اور 88.69 فیصد دیہی آبادی، خیرپور کی 45.45 فیصد شہری اور 86 فیصد دیہی آبادی گیس کی فراہمی سے محروم ہے۔ یہ آبادی لکڑی یا دیگر ذرائع سے کھانا پکانے کا ایندھن حاصل کرتی ہے۔ عمرکوٹ کی 95 فیصد اور تھرپارکر کی سو فیصد آبادی گیس کی سہولت سے محروم ہونے کا نکشاف ہوا ہے۔ کراچی میں شہری آبادی کا 1.39 اور دیہی آبادی کا 16.12 فیصد گیس کی سہولت سے محروم ہے۔ سندھ کے وسائل جب یہاں کے لوگوں کو نہ ملیں تو ظاہر ہے کہ احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں وفاق کی جانب سے صوبوں کی آواز کو نہیں سنا جاتا۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسی کا از سرنو جائزہ لے اور موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں جاری پرانے قبائلی جھگڑوں کو دیکھ کر حکومت کی نیت پر شک ہوتا ہے کہ کیا واقعی وہ ان جھگڑوں اور تضادات کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ 
کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت کسی قانون پر عمل کرنا چاہے اور وہ عمل نہ کرا سکے۔اس کی مثال وہ قوانین ہیں جن پر عمل درآمد کرنا حکومت اپنی بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ کوئی بھی اگر ایسے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پکڑا جاتا ہے اور اسے سزا بھی ملک جاتی ہے۔ لیکن سندھ کی معیشت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ان تصادموں کی روک تھام کے لئے قانون حرکت میں نہیں آتا جس میں سینکڑوں انسانی جانیں ضایع ہو چکی ہیں ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں یہ خبر آئی ہے کہ شکارپور ضلع کے گاﺅں رکھیل وانڈھ میں دو فریقوں کے درمیان 2003 سے جاری چوری کے تنازع پر ایک بار پھر تصادم ہوا جس میں تین انسانی جانیں چلی گئیں۔ پولیس 13 سال تک دور کھڑی ہو کر اس تنازع کو دیکھتی رہی۔ عموما یہ شکایت رہتی ہے کہ پولسی اس فیرق کا ساتھ دیتی ہے جو طاقتور ہو۔ اس طرح کے واقعات جو قبائلی جھگڑوں میں تبدیل ہوتے ہیں وہ دراصل معمولی اور چھوٹے واقعات سے جنم لیتے ہیں۔ جس میں پانی کی باری، فصل میںمویشی چرانے، چوری کے شبہ وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔ حکومت سندھ سے مطالبہ ہے کہ ان پرانے جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے اقدامات کرے اور سندھ کو مزید خونریزی سے بچائے۔