Monday, January 13, 2014

چوہدری اسلم کیس:ریاست کا نیا اشارہ


ریاست کی مدعیت میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فضل اللہ اور طالبان کے ترجمان شاہداللہ کی پولیس افسر چوہدری اسلم کے قتل میں نامزدگی نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے کئی افراد دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ جس میں بعض ہائی پروفائل شخصیات بھی تھیں تو بعض ایسے بھی تھیں جن کو طالبان یا دیگر شدت پسند گروپوں کی جانب سے دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔ لیکن ان تمام افراد کے قتل کے مقدمات ’’نامعلوم افراد‘‘ کے خلاف درج کئے گئے۔ کراچی میں نامعلوم افراد کی اصطلاح اتنی عام ہے کہ وہاں بھتہ خوری سے لیکر سٹریٹ کرائم تک، ٹارگٹ کلنگ سے دہشتگردی کی وارداتوں تک، یہاں تک کہ ہوائی فائرنگ سے لیکر ہڑتال کرانے تک۔۔۔سب میں نامعلوم افراد کو ملوث کیا جاتا رہا ہے۔ کئی مقدمات اور واقعات میں پولیس اپنی جان چھڑانے یا کھال بچانے کے لیے یا کبھی کبھی سیاسی مصلحت کی بنا پر ایسا کرتی رہی ہے۔ چوہدری اسلم کے قتل کیس میں ’’نامعلوم افراد‘‘ نہیں بلکہ اصل ملزمان کی پہچان ہوگئی ہے کہ وہ طالبان ہیں اور ان کے دو سرکردہ رہنماؤں کو مقدمہ میں نامزد کردیا گیا ہے۔ آخر وہ کونسے اسباب تھے کہ ایسا کیا گیا۔ یہ ایک نئی تبدیلی ہے؟ جس طرح کے واقعات سندھ میں ہوتے رہے ہیں اسی طرح کے واقعات خیبر پختونخوا میں بھی ہوتی رہی ہیں جہاں بڑی شخصیات کو نشانہ بنایاجاتا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں اور وہاں کی حکمران جماعتیں طالبان سے بات چیت کرنے پر زور دیتی رہی ہیں۔ وہ طالبان کے خلاف کسی کارروائی کے حق میں بھی نہیں۔ کیونکہ ان کی نظریاتی سرحدیں ملتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ طالبان سے مصلحت والا رویہ اختیار کرکے اپنی بچت کر رہی ہیں اور خیر منارہی ہیں۔ باقی سندھ میں بھلے آپریشن ہوتا رہے۔ اس مصلحت کی پالیسی کا بظاہر خیبرپختونخوا میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اتوار کے روز بھی وہاں دو حملے ہوئے جس میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے اکثریت عوامی نیشنل پارٹی کے لوگوں کی تھی۔ اسی طرح کراچی میں بھی گزشتہ کچھ عرصے میں اے این پی کے آٹھ افراد مارے جاچکے ہیں۔شاید خیبر پختونخوا کی حکومت یا حکمران جماعت بے فکر ہو کہ مرنے والوں کا تعلق مخالف سیاسی جماعت سے ہے۔ اور صوبے میں اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نہیں بلکہ صوبائی حکومت ذمہ دار ہے۔
دراصل ملک میں سہ رخی فکری اور سیاسی لڑائی لڑی جارہی ہے۔ ایک طرف جماعت اسلامی، عمران خان اور اس قبیل کے لوگ ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی وغیر ہیں۔ فکری طور پر ایم کیو ایم بھی اس گروپ سے قریب ہے۔ لیکن اپنی سیاست اور عمل کی وجہ سے اپنے فکری گروہ سے دور کھڑی ہے۔ تیسرا فریق نواز لیگ ہے۔ جو طالبان کے بارے میں خواہ فکری اور سیاسی طور پر کنفیوژن کاشکار ہے۔ اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا ہے۔ کبھی ایک موقف اختیار کرتا ہے تو جب دباؤ پڑتا ہے تو دوسرا موقف اختیار کرتا ہے۔ وفاقی حکومت کی مبہم اور پیچیدہ پالیسی کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اب وفاقی حکومت نے پہلی بار مذاکرات نہ کرنے والوں کو پیغام دیا ہے۔ اہم وزیر چوہدری نثار علی خان نے بیان دے کر حکومتی پالیسی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بات چیت سے انکار کرنیوالوں اورمذاکرات کا جواب گولی سے دینے والوں سے جنگ ہوگی۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات اور ان سے لڑنا دونوں مشکل کام ہیں۔
چوہدری اسلم سے بھی زیادہ ہائی پروفائل کیس محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔ جس کے تمام شواہد موجود ہونے کے باوجود مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ چوہدری اسلم کے قتل کسی میں صرف تین روز میں پیش رفت سامنے آگئی ہے۔ ملزمان پہچان لیے گئے ہیں اور انہیں ایف آئی آر میں نامزد بھی کرلیا گیا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ریاست کس کو انصاف دینے کے لیے منتخب کرتی ہے اور کس کو نہیں۔ ۔ کس کو انصاف دینا چاہتی ہے اور کس کو نہیں دینا چاہتی۔ دہشتگردوں کے خلاف چوہدری اسلم یقیناًاہم پولیس افسر تھے۔ چوہدری اسلم پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تھے۔کوئی بھی پارٹی ان سے خوش نہیں تھی۔ وہ ذاتی تعلقات اور کارکردگی کی بنیاد پر ایس ایس پی بنے۔ چوہدری اسلم کو ’مافوق الفطرت‘ قرار دیا جا رہا ہے جیسے ان کے پاس دہشتگردوں سے نمٹنے کا کوئی مجرب نسخہ تھا۔ان کو شاید ہی کبھی کسی نے وردی میں دیکھا ہو۔ یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے جاسوسی کا ذاتی نیٹ ورک بنایا ہوا تھا۔ ان کے بارے میں چند باتیں میڈیا میں آتی رہی ہیں جبکہ باقی باتیں ان کے مرنے کے بعد شائع ہورہی ہیں۔ ان کے قتل کی تفتیش کے لیے اعلیٰ پولیس افسران بشمول آئی جی سندھ پولیس کئی دفعہ جائے وقوعہ کا معائنہ کرچکے ہیں۔ تین روز تک یہ علاقہ پولیس اور رینجرز کے محاصرے میں رہا۔ تفتیش کا دائرہ تین میل تک پھیلایا گیا۔ اور لوگوں سے اپیل کی گئی کہ انہیں اس وقوعہ سے متعلق کوئی شہادت ملے تو پولیس کو مطلع کریں۔
کراچی میں دہشتگردی کا شکار اور پولیس افسران بھی ہوتے رہے ہیں اور اس لڑائی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ہیں۔ یوں ایک لمبی فہرست مرتب ہو سکتی ہے۔ مگر چوہدری اسلم پہلا پولیس افسر ہے جس کے قتل پر آرمی چیف نے نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ انہیں خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ اس سے پہلے پاکستان کے آرمی چیف نے شاید ہی کسی سویلین افسر کے لیے اس طرح کا اظہار کیا ہو۔ یہ سب باتیں اشارہ دیتی ہیں کہ چوہدری اسلم کا اہم پولیس افسر ہونا اپنی جگہ پہ۔ دراصل پالیسی میں کوئی شفٹ ہے۔ اس شفٹ کی وجہ سے ہی طالبان رہنماؤں کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے کی جلدی مگر منظم طریقے سے تحقیقات کی جارہی ہے۔ یہ شفٹ کیا ہوسکتی ہے؟وفاقی حکومت ہر حال میں طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے اور اس کے لیے مختلف اقسام کے مولوی تلاش کر رہی ہے۔ چند روز قبل سعودی حکومت کو ثالثی کے لیے رجوع کرنے کی بات میڈیامیں آئی۔کیا اس کیس کے بارے میں وفاقی حکومت کا موقف مختلف ہے؟ یہ موقف ایسا نہیں جو سندھ حکومت یا اسٹبلشمنٹ کا ہے؟ یہ مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ اس کا بظاہر مطلب یہ نکلتا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کی اس طرح کی کارروائیوں ، خاص طور پر وہ جن کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے اس کے لیے قانونی طورطالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت طالبان کے خلاف مقدمہ درج کر کے اپنی قانونی پوزیشن بنانا چاہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ طالبان نہ پاکستانی آئین اور قانون کو مانتے ہیں اور نہ ہی یہاں کی پارلیمنٹ اور عدلیہ کو۔ حکومت اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فائدہ لینا چاہتی ہے کہ کل اگر کسی ثالث کے ذریعے مذاکرات ہوں تو طالبان لیڈروں کے مقدمات کا معاملہ اٹھایاجاسکے۔ طالبان لیڈروں کے خلاف مقدمہ تو درج کردیا گیا ہے پر کیاان کی گرفتاری کے لیے حکومت کی رسائی ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ ایس نہیں لگتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس مقدمے میں طالبان رہنماؤں کی نامزدگی سے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ریاستی سطح پر ان کارروائیوں کے لیے طالبان کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔

http://www.naibaat.pk/?p=73763c# 
http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/14-01-2014/details.aspx?id=p12_07.jpg 
http://www.naibaat.com.pk/Presentation/lahore/Page12.aspx




Bhutto politics style


http://kawish.asia/Backissues/2014/Jan%2014/05/today_page_04.htm

Amar Sindhu on Ayaz Palijo strike call


http://kawish.asia/Backissues/2014/Jan%2014/08/today_page_04.htm

Ayaz Latif Palijo on Strike call


http://kawish.asia/Backissues/2014/Jan%2014/08/today_page_04.htm

Why Palijo withdraw strike call


http://kawish.asia/Backissues/2014/Jan%2014/08/today_page_04.htm

Sheerazis case to go to NAB


Liaquat jatoi preparing to join PPP


http://sindhexpress.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=130107366&Issue=NP_HYD&Date=20140114