Friday, March 22, 2019

کیا تھر بدلائے گا پاکستان؟


کیا تھر بدلائے گا پاکستان؟

سندھ نامہ سہیل سانگی 


سندھ اینگرو کمپنی نے دعوا کیا ہے کہ تھر کول سے بجلی کی پیداوار شروع ہو گئی ہے اور اس بجلی کو نیشنل گرڈ سے جوڑ دیا گیا ہے۔یہ موضوع میڈیا خواہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ واقعی کول سے بجلی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے؟کیونکہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں چار سے چھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اب بھی جاری ہے۔میڈیا اور دیگر حلقوں کو شبہ ہے کہ تھرکول اور پھر یہاں سے بجلی کی پیداوار اس پسماندہ علاقے کی زندگی میں کوئی بدلاؤ لے آئے گا۔ تھر میں سڑکیں صرف کول ایریا تک پہنچنے کے لئے ہیں۔ اایک حد تک مٹھی اور اسلام کوٹ تک روڈ اور صحت کی سہولیات پہنچ پائی ہیں۔ اجنہیں طمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔ مگرجبکہ تین تحصیلیں یعنی چھاچھرو، ڈاہلی اور نگرپارکرجو کہ پورے تھر کا ساٹھ فیصد سے زائد علاقہ ہے، تاحال سڑکوں اور دیگر مواصلات، تعلیم اور صحت کے بنیادی نیٹ ورک سے محروم ہیں۔تھر کی ترقی کے پورے معاملے سے وفاقی حکومت بہت دور کھڑی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے توانائی کے صوبائی وزیر امتیاز شیخ کے ساتھ یہ نعرہ دیا کہ’’ تھر بدلائے گا پاکستان ‘‘یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا کالا سون تھر کی قسمت تبدیل کر پائے گا؟ حالات و واقعات سے ایسے شواہد نہیں مل رہے ہیں۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ تھر کول پراجیکٹ کے بلاک ٹو جہاں سے 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونی تھی وہاں سے دو روز قبل 330 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ تھر سے پیدا ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ اسٹیشن فیصل آباد منتقل کردی گئی ہے ، جہاں سے بجلی کی تقسیم کو ممکن بنایاجاسکے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ اور پروجیکٹ کے عملے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کامیابی کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعی عوامی ترقی ہے۔؟ جس کو سندھ حکومت کامیابی قرار دے کر مبارک باد دے رہی ہے۔ 
تھر کول پروجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کو عوامی خوشحالی سے منسلک کرنا اس وجہ سے بھی غیر متعلقہ لگتا ہے کہ تھر کے 70فیصد سے زائد عوام تاحال بجلی سے محروم ہے۔ کیا یہ جشن اس پر منایا جارہا ہے اس بجلی کی پیداوار کے بعد بھی تھر کے باسیوں کو حقوق نہیں ملیں گے؟ ضلع تھرپارکر کا رہائشی اس ترقی کو کس نظر سے دیکھے گا؟ اس کے لئے اس ترقی کا مفہوم کیا ہوگا؟ تھر کول سے پیدا ہونے والی بجلی کے ساتھ تھر کی ترقی کا سوال بھی وابستہ ہے۔ یہ ترقی اپنی نوعیت میں عوامی ترقی ہوگی۔ کامیابی کا اعلان کرنے والوں کو یہ بھی اعلان کرنا چاہئے تھا کہ اس میں سے کتنی بجلی تھر کے لوگوں کو ملے گی؟ 
کوئی تھری یہ بھی بھول گیا ہوگا کہ دو سال پہلے جب گوڑانو ڈیم پر کام شروع ہوا تھا تو وہاں پر 12 دیہات متاثر ہوئے تھے۔ نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں کو کسی اطمینان بخش بحالی کی پالیسی کے تحت آباد نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ گوڑانو ڈیم جو اب مکمل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد درخت تباہ ہو چکے ہیں۔ وہ مویشی جن پر گاؤں کے لوگوں کو گزر سفر تھا، وہ بھی بری طرح سے متاثر ہو چکا ہے۔ اس پروجیکٹ کے نتیجے میں بے گھر اور متاثر ہونے والے لوگ ایک سال سے زائد عرصے تک سے سراپا احتجاج یں۔ اور یہ معاملہ عالمی تنظیموں تک جا پہنچا ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی کول مائننگ اسیسمنٹ رپورٹ بھی زیادہ تسلی بخش نہیں۔ جن لوگوں کی زمینوں سے یہ پائپ لائن گزاری گئی ہے وہ ابھی تک معاوضے اور انصاف کے لئے منتظر ہیں۔ بعض کے معاملات عدالتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی پر مبارکباد ینے والے وزیراعلیٰ سندھ کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ پروجیکت کی کامیابی اس صوبے کے باسیوں کی بدحالی پر ہی کھڑی ہے۔ 
مبارکباد دینے والے وزیراعلیٰ سندھ کو یہ بھی اعلان کرنا چاہئے تھا کہ اس بجلی میں سے کتنا فیصد تھر کے مقامی باشندوں اور دیہات کے لئے مختص ہے؟ پیپلزپارٹی کی حکومت تھر کے دیہات کے بچے کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے تھر کول سے بجلی پیدا ہونے کے بعدترقی کی امید کی جاسکتی ہے؟ عوامی ترقی کا مطلب عوامی خوشحالی ہے۔ تھر کول کا اربوں روپے کی مالیت کا پروجیکٹ اپنی جگہ پر، تھر کا معیار زندگی کتنا اور کیا بدلا ہے؟ یہ تھر کے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ بھر میں جہاں کمپنیاں قدرتی وسائل کے استعمال پر کام کر رہی ہیں وہاں مقامی لوگوں کو روزگار میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ وہاں کے معیار زندگی میں یا غربت میں کوئی فرق آیا۔ان علاقوں میں سڑکیں اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر تھ کے ساتھ بھی یہی ہونا ہے تو تھر کول منصوبہ کا تھر کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پنچے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس منصوبے میں تھر کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کو یقینی بنائے۔ 
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ تھر کے لوگوں کو روزگار کے حوالے سے اس پروجیکت میں جگہ ملے تو تھرمیں قائم دو ٹیکنیکل انسٹیٹوٹس کو فعال بناکر تھر کے نوجوانوں میں فنی تربیت کو یقینی بنائے۔اگرچہ حکومت کو یہ کام پروجیکٹ شروع ہونے سے پہلے کرنا چاہئے تھا۔ اگر صحیح منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کی جائے تو تھر ایک بڑا صنعتی زون بن سکتا ہے۔ جب بجلی کی پیداوار پر مبارکبادیں دی جارہی ہیں اس موقعہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تھر کے لوگوں کو قومی ترقی کے عوض اپنے گھر، اور زمین چھوڑنی پڑی۔ اس کا نہ صرف انہیں معاوضہ ملنا چاہئے بلکہ ان بے گھر ہونے والوں کی آبادکاری اور مناسب روزگار کا بھی بندوبست کرناکیا جانا چاہئے۔

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Sunday, March 17, 2019

صرف قراردادیں ہی کیوں؟



صرف قراردادیں ہی کیوں؟

سندھ نامہ     سہیل سانگی 

سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کر کے صوبے کے تمام اسکولوں کو پابند کیا ہے کہ سندھی لازمی طور پر پڑھائیں۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ قرارداد کے پس منظر میں وزیرتعلیم سردار علی شاہ نے زبردست قسم کی سندھ دوست اور سماج دوست باتیں کی۔ بلاشبہ یہ قرارداد سندھ کے ہر باسی کی سوچ کی عکاسی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف باتیں کرنا ہی کافی ہے؟ کیا عملی حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہونی چاہئے؟ سندھ کے لوگوں کو شیاد خوشی ہوتی اور عملی طور پر کچھ ہوتا ہوا نظر آتا اگر وزیر تعیلم یا وزیراعلیٰ سندھ ان اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا نوٹیفیکیشن منسوخ جاری کرتے جو سندھی نہیں پڑھاتے۔ ایسا ہوتا تو لوگوں کو سمجھ میں آتا کہ سندھ حکومت صرف سندھ کارڈ کھیلتی نہیں بلکہ سندھ کاز کے لئے کچھ کر کے دکھاتی ہے۔ وزیراعلیٰ یا وزیر تعلیم سندھی نہ پڑھانے والے اسکولوں کے کرتوت عوام کے سامنے لے آتے تو اچھا تھا۔ 

وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے بھارت میں کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ وہاں سندھی سمیت 36 زبانوں کو قومی زبان کا رتبہ حاصل ہے۔ لیکن انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا پاکستان میں سات زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے سے متعلق بل قومی اسمبلی میں کئی برس سے رکا ہوا ہے اس کے لئے کوئی خط وکتابت کی؟ اس سے قبل وزیرتعلیم قومی اسمبلی میں زیر التوا بل پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔ لیکن سندھ کو افسوس کے بجائے عمل کی ضرورت ہے۔ سندھ کے عوام جانتے ہیں کہ سندھ اسمبلی یہ قرارداد 2010، مارچ 2011 ، اور ستمبر 2016 میں بھی منظور کر چکی ہے۔ ان قراردادوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ حیرت کی بات ہے کہ جو کام حکومت کرنے ہیں وہ کرنے کے بجائے دلاسے کیوں دیئے جارہے ہیں؟

حالیہ قرارداد کے بعد سندھ کے لوگ سوچنے لگے ہیں کہ آخر کیوں قرارداد کے اوپر قرارداد منظور کی جارہی
 ہیں؟ اس کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ اور یہ کہ حالیہ اورماضی قراردادوں میں فرق کیا ہے؟ 

سندھ میں ساڑھے بارہ ہزار نجی اسکول ہیں۔ ان میں سے اگر چالیس پچاس کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی تو لگتا کہ سندھ حکومت سندھی زبان کو رائج کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ جن نجی اسکولوں کے خلاف کارروائی کی بات کی جارہی ہے وہ اسکول سندھ حکومت کی حیثیت کو ہی نہیں مانتے۔ 
حکومت سندھ کی جانب سے نجی اسکولوں میں سندھی کی لازمی تدریس کا قانون ایسا ہی ہے جیسا ٹرانسپورٹ میں کرایوں کا نفاذ کا قانون۔ سرکاری طور پر کرایے ایک ہوتے ہیں لیکن بسوں، ویگنوں اور کوچز میں مقررہ کرایے سے دگنا، اور تین گنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ کرایہ ناموں کے ایسے متعدد نوٹیفکیشن ہر ضلع اور ڈویزن میں پڑے ہوئے ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیاہ نہیں۔ ایسے میں سندھ اسمبلی کے حالیہ قرارداد سے کیا فرق پڑے گا؟ 
1973 ع سے سندھی کو صوبے میں ایک قانون کے ذریعے سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ پھر کیوں سندھ کے تمام سرکاری خواہ غٰر سرکاری اداروں میں خط و کتابت کے لئے انگریزی استعمال کی جاتی ہے؟ 1972 کے قانون میں واضھ طور پر لکھا ہوا ہے کہ دفتری زبان سندھی ہوگی۔ صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں سندھی لازمی طور پر پڑھائی جائے گی۔ اس قانون کے تحت سندھ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سندھی زبان کے فروغ کے لئے قاعد و ضوابط بنا سکتی ہے۔ اس قانون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ صوبائی حکومت صوبے کے محکموں اور اداروں میں سندھی زبان رائج کرنے کے مکمل اختیارات رکھتی ہے۔ 
اسی طرح سندھ پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز ایکٹ 2005 کے تحت بھی سندھ حکومت نجی تعمیلی اداروں میں اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اور نجی تعلیمی ادارے سندھی زبان کی تدریس کے پابند ہیں۔ لیکن عملی طور پر صوبے میں تقریبا تمام نجی اسکول سندھی کو لازمی مضمون کے طور پر نہیں پڑھاتے۔ یہاں تک کہ کرایچ کے تعلیمی اداروں سے سندھی زبان بدر کردی گئی ہے۔ ایک خاص گروہ کو خوش کرنے کے لئے ہمارے رہنماؤں نے بھی سندھی زبان کی کراچی بدر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اب صرف سندھ کارڈ کا کھیل نہیں چلے گا حکومت کو عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔ 
سندھ میں بڑھتی ہوئی غربت کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ٹنڈوالہیار کے قریب کولہی برادری کی ایک خاتون دھرمی کولہی کی خودکشی کی خبر سے صوبے میں غریب طبقے کے لوگوں کی خود کشی کے واقعات میں ایک اور اضافہ ہوگیا۔خودکشی کرنے والی خاتون کسان تھی۔ سندھ کے غریب طبقے کے افراد کی روز انہ خودکشی کے واقعات بتاتے ہیں کہ صوبے میں معاشی طور پر زندگی کی اذیت اب موت کی اذیت سے بدتر ہو تی جاررہی ہے۔ کہ لوگوں کو اب موت کا تصور اتنا تکلیف دہ محسوس نہیں ہوتا۔ نچلے طبقے کا معاشی استحصال انہیں خود کشی کے بارے میں سوچنے اور اس پر عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتیں اپنے لوگوں کو کس معیار کی زندگی دے رہی ہیں۔ 
خودکشی کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق کولہی، بھیل اور میگھواڑ برادریوں سے ہے۔ خودکشی کرنے والے کسان اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں خود کشی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال تھرپارکر میں خودکشیوں کا رجحان زیادہ دیکھا گیا۔ خاص طور پر تھر اور دیگر ایسے پسماندہ علاقے جہاں زراعت زیادہ نہیں، وہاں پسماندہ اور غریب لوگ مائکروفنانس بینکوں اور این جی اوز کی طرف دیکھتے ہیں۔ مائکر و قرضہ جات دینے والے اداروں کا تھر کے علاقے میں کئی سال سے وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ جو غریب لوگوں کو سود پر قرضے دیتا ہے ۔ اور بعد میں ماہانہ وصولی کرتا ہے۔ بعض خاندان ایسے ہوتے ہیں جو قرضے کی قسط دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ قرض خواہان ادائیگی کرنے کی صورت میں انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ نتیجے میں گھر کے بڑے کے پاس سوائے خود کشی کے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ سندھ کے وہ علاقے جہاں زراعت بہتر ہوتی ہے، وہاں کا غریب طبقہ بھی قرضے کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن یہاں پر خودکشی کی وجہ بینک قرضوں کے بجائے زمیندار کا استحصال ہے۔ 
یہ سوال سندھ حکومت پر اٹھتا ہے کہ آخر عام آدمی قرضہ لینے پر مجبور کیوں ہوتا ہے؟ پیپلزپارٹی کے منشور میں موجود کسان اور مزدور کا نعرہ ہونے کے باجود پارٹی مسلسل تیسرے دور حکومت میں بھی ان طبقات کے لئے کوئی پیکیج نہیں دے سکی۔ جس سے ان کے حالات زندگی میں تبدیلی آسکے۔ اور نہ ہی نچلے طبقے کے لئے حکومت اتنی ملازمیں پیدا کر سکی ہے۔ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پانچ ہزار روپے دینے کے بجائے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع کا بندوبست کرے۔ تاکہ غریب طبقہ بھی زندگی گزار سکے۔ 


https://www.naibaat.pk/15-Mar-2019/21754

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/68221/Sohail-Sangi/Sirf-Qarardadien-Hi-Kyun.aspx 

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/sirf-qarardadien-hi-kyun-11456.html

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Saturday, March 2, 2019

سندھ میں مسائل کیوں نہیں حل ہوتے؟



سندھ میں مسائل کیوں نہیں حل ہوتے؟ 

سندھ نامہ سہیل سانگی
پاک بھارت کشیدگی پر سندھی میڈیا میں مضامین، کالم اور اداریے شایع ہوئے ہیں۔ جن کا لب و لباب یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔ جنگ اگر کرنی ہے تو برصغیر میں غربت کے خلاف کرنی چاہئے۔ تمام متنازع معملات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا چاہئے۔ برصغیر کو جنگ نہیں امن چاہئے۔ مودی کے جنگی جنون کی مذمت کی گئی۔پاک فوج سے یکجہتی کے طور پر سندھ کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔کراچی میں جنگ نہیں امن چاہئے کے نعرے پر پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا گیا۔ سندھ حکومت نے بعد از خرابی بسیار صوبے میں ڈاکٹروں کی تنخواہیں پنجاب کے برابر کردی۔ اس سے قبل سندھ میں سرکاری ڈاکٹروں کی تنخواہیں پنجاب کے مقابلے میں کم تھیں۔ ڈاکٹر کئی روز تک ہڑتال پر تھے ۔ جس کے دوران بعض سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی موت بھی واقع ہوئی۔ سندھ حکومت نے عدالتی حکم کے بعد معذورین کی کوٹا پر عمل درآمد کے لئے اشتہارات کا سلسلہ شرو کیا ہے۔ بدین میں 33 روز سے معذورین احتجاج کر رہے تھے۔ یقین دہانی کے بعد یہ احتجاج ختم کردیا گیا۔ 
صوبے میں گنے کی قیمت کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا ہے۔ ٹنڈو الہیار میں مہران شگر ملز کے باہر کاشتکاروں اور مزدوروں کا دھرنا جاری تھا۔ جمع کے روز گیٹ کھول دیئے گئے ۔ 
گنے کی قیمت کا نوٹیفکیشن سندھ کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری ہوا ہے۔ رولز آف بزنیس تحت سیکریٹری کو اختیارہے کہ وہ گنے کی قیمت مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ دسمبر میں فیصلہ دیا تھا کہ گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کی جائے۔ اس فیصلے کے خلاف شگر ملز مالکان نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ مطلوبہ مشاورت کرلی گئی تھی۔ 
سندھ فیسٹول میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی شرکت کو سراہا گیا۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ صدر پاکستان نے سندھ فیسٹول میں شرکت کی ہے۔ صوبائی دارلحکومت کراچی میں منعقدہ تین روز سندھ لٹریچر فیسٹول میں متعدد سیشن ہوئے۔ 
روزنامہ کاوش محکمہ آبپاشی کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک حکمرانی کا مطلب مقصد کمیٹیوں کی تشکیل اور ہر بات کا نوٹس لینے تک محدود ہے۔ ان کے پاس ہرمسئلہ کا یہی حل ہے۔ عوام کے مسائل سے لاتعلقی اور حکمرانی کو دل پشوری سمجھنے کے باعث سندھ میں مسائل بڑھ کر کسی بڑے برگد کے پیڑ کی طرح ہو گئے ہیں۔ سندھ کے عوام کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اس کا ایک عکس گزشتہ چند روز سے شہری مسائل کے حوالے سے بعض اخبارات کی جانب سے شایع ہونے والی روپرٹس میں ملتا ہے۔ یہ بس مسائل دیکھ کر لگتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنا حکومت کی ترجیح نہیں ۔ عوام کو کونسی سی سہولیات حاصل ہونگی جب انہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو۔ صوبے کے متعدد ایسے علاقے ہیں جہاں کی شاخیں اور کینال کئی ماہ سے خشک ہیں۔ زرعی مقاصد دور کی بات وہاں پینے کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں۔ ٹھٹہ ضلع ہو یا بدین اور سجاول یا جوہی کا علاقہ پانی کی قلت اور عدم موجودگی کے خلاف احتجاج جاری ہیں۔ سماعت و بصارت سے محروم انتظامیہ کو بھلے یہ احتجاج نظر نہ آئیں لیکن عوام کے مزاج کے بدلتے موسم کا اندازہ نہ کرنا کسی طور پر بھی انتظامی تدبر نہیں۔ 
سندھ گزشتہ کئی برسوں سے بدترین حکمرانی سے گزر رہا ہے۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ پینے کے لئے پانی بھی میسر نہیں۔ زراعت تو تباہ ہے ہی، جس پر صوبے کی معیشت کا کلی طورانحصار ہے۔ خوشیاں ریبع اور خریف سے منسلک ہوا کرتی تھی۔انہی موسموں میں خوشیان لوگوں کے آنگنوں میں آتی تھی۔ لوک گیت، خوشیوں کے گیت اور لوک رقص میدانوں میں ہوتے تھے۔ لیکن اب سندھ اور خاص طور پر اس کے ٹیل والے اضلاع پانی کی بوند کے لئے ترس گئے ہیں۔ پانی بنیادی انسانی حق اور اس کے زندہ رھنے کے لئے لازمی اسم ہے۔ لوگوں کو پانی سے محروم کرنا انہیں جینے کے حق سء محروم کرنے کے مترادف ہے۔ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ایک خوشحال تہذیب کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہوئی ہے۔اب تو لوگ، مویشی اور جنگلی حیات بھی مرنے لگی ہے۔ منتظمین فطرت کے تمام ماحول کو ختم کر کے وہاں زندہ رھنے کی راہیں مسدود کر رہی ہیں۔ ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو رہی ہے۔ زرعی معیشت کی تباہی کے باعث بڑے پیمانے پر غربت پھیل چکی ہے۔ 
تسلیم کہ اس پورے قصے میں ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک وجہ حصہ ہے۔ لیکن تمام قصور نامہربان موسم پر نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر تباہی منتظمین کی بد انتظامی اور خراب حکمرانی کی وجہ سے آئی ہے۔ اول لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں اور جہاں مسیر ہے وہ غلیظ اور مضر صحت ہے۔ چند ماہ پہلے واٹر کمیشن کی سرگرمی کے دوران پینے کے پانی کے نمونوں کا معائنہ کرایا گیا تو پتہ چلا کہ شہروں میں بھی پینے کے لئے عوام کو غلاظت کی ملاوٹ والا پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد کے کئی شہری اور بچے ٹائفائیڈ ایم ڈی میں مبتلا ہیں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حیدرآباد کے پانی میں اس خطرناک بیماری کا وائرس موجود ہے۔ حیدرآباد میں پھر بھی کسی حد تک شہریوں کو فلٹر شدہ پانی مہیا کیا جاتا ہے، جہاں غیر فلٹر شدہ پانی فراہم کیا جارہا ہے وہاں کیا صورتحال ہوگی؟ صرف ایک مثال ہی لے لیں۔ کینجھر جھیل میں کوٹری کے صنعتی علاقے کا بلا ٹریٹمنٹ آلودہ اور زہیلا پانی کے بی فیڈر کے ذریعے چھوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ کوٹری سائیٹ ایریا میں ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہے ۔ یہں قائم صنعتوں پر لازم ہے وہ صنعتی آلودہ پانی کو ٹریٹ کرنے کے بعد اس فیڈر میں چھوڑیں۔ لیکن اس پر برسوں سے عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ کینجھر جھیل میں مسلسل زہریلا پانی چھوڑا جارہا ہے۔کینجھر سے کراچی کے شہریوں کو فلٹر شدہ پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن جھمپیر، اور کینجھر کے گرد نواح میں موجود شہروں اور گاؤں کو آلودہ اور زہیلا پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ اس علاقے میں صورتحال یہ کہ سینکڑوں افراد ہپیٹائی ٹس، پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ متعدد لوگ گردے کی بیماریوں کی وجہ سے تکلیف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 
سندھ میں پانی کا بحران دراصل اچھی انتظام کاری کا بحران ہے۔ محکمہ آبپاشی کی نااہلی اور کرپشن نے سندھ کے زرین اضلاع میں معیشت کو تو تباہ کیا ہے لیکن یہاں پر لوگوں کا جینا بھی مشکل کردیا ہے۔ معیشت تباہ ہے بستیاں ویران ہیں۔ زرخیز زمین تباہ کرنے کی قیمت پر سیاسی مفادات حاصل کئے جارہے ہیں۔ حخمرانوں کے لئے سیاسی وفاداری اہم ہے۔ باقی عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ آخر محکمہ آبپاشی کا سیاسی مقاصد کے لء استعمال کب بند ہوگا؟


https://www.naibaat.pk/01-Mar-2019/21412 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

پاکستانی خواتین کے سات بڑے مسائل


خواتین کے عالمی دن کی ابتداء 1900 سے ہی ہوئی ۔ ایک ایسے وقت میں اور جدید صنعتی دنیا کی افادیت جس میں ایک بڑھتی ہوئی آبادی کی ترقی اور انتہا پسند نظریات کو بڑھنے کے لئے جاری رکھا گیا ہے. بین الاقوامی خواتین کا دن بڑا ہے، گلوبل جشن کا ایک دن اور صنفی برابری کے لئے کارروائی کرنے کا ایک دن ہے.
پاکستان اور دیگر ممالک میں دنیا بھر میں منایا جارہا ہے، بین الاقوامی خاتون کے دن کی روایت ہر سال بدل گئی اور پاکستان میں عورتوں کے لئے رکاوٹوں کو روکنے میں ناکام ہوگئی؟
جنس جزو
جیسا کہ عنوان واضح طور پر مشورہ دیتے ہیں، اس حقیقت پر کوئی بحث نہیں ہے کہ مردوں کو ناقابل اعتماد حالات کے تحت غیر منصفانہ فوائد دیئے جاتے ہیں. غیر قانونی پالیسییں نجی اور سرکاری اداروں میں خواتین کی ملازمت کے سلسلے میں موجود ہیں، کیونکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شادی شدہ ہو یا چھوڑ دیں گے، یا اپنے زچگی کے دوروں کے دوران دنوں سے دور یا چھوڑ دیں گے. یہ ناراض امتیازی سلوک ہے اور اس سے، بہت سارے اچھے مواقع کی خواتین کو چھڑاتا ہے جو معاشرے میں کم مقام پر رکھتا ہے.
جنسی طور پر ہراساں
پاکستان میں عورتوں کا سامنا سب سے زیادہ عام مسئلہ جنسی ہراساں کرنا ہے. مرد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک ورکنگ خاتون ''عوامی املاک'' ہے، اور اکثر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں. پاکستان میں ناقابل یقین اور غیر بدحالی ماحول موجود ہے اور اس میں کمزور اور نازک خواتین کو آسان اہداف پر غور کرنے کا مرد ذہن میں حصہ لینے میں مدد ملتی ہے.
کام اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن تلاش
جب آپ پاکستان سے ہیں اور دیسی پس منظر رکھتے ہیں، آپ کے خاندان کی توقع ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے پہلے آپ کے گھروں کے مطالبات کو پورا کرنے اور آپ کے بزرگوں کی طرف سے آپ کی ذمہ داریوں کا خیال رکھنا ہے. آپ آسانی سے آپ کے بیر یا چار واال کے لئے وقت لینے سے باہر نہیں نکل سکتے. اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق ایک آزاد کارکن عورت بننا چاہیں گے تو آپ اپنے دفتر یا کسی اور جگہ میں پیشہ ورانہ کارکن کی ڈبل زندگی اور گھر میں پکانے کی اپنی زندگی کو تلاش کرنے کے لئے اس بات کا یقین کریں گے.
160تعلیم اور شادی
ہم بہت سے باپ دادا اور ماؤں میں آتے ہیں جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے ل? اپنی بیٹی کی خواہشات کی ضرورت پر غور کرتے ہیں جب کہ اس کی بجائے وہ سبھی عمر میں شادی شدہ خدشات کا شکار ہونے کے لئے مقرر کی جاتی ہے. سب کے بعد، پاکستان میں ہر لڑکی کے لئے واحد اور حتمی خاتون شادی ہے. چاہے بھائی کی اس کی موت کے خطرات اگر وہ والدین سے شادی یا جسمانی تنازعات کو مسترد کرنے کی جرات کرتے ہیں، تو پاکستان میں اکثریت لڑکیوں کو بیرون ملک سے یا ان کے ملک کے اندر تعلیم حاصل کرنے کی اپنی امیدوں کو روکنے کے لئے مجبور ہوسکتی ہے. پرانے مردوں کو شادی کی تجاویز میں.

شوہر کی ناامیدگی
اب اگر آپ شادی شدہ ہیں یا شادی شدہ کام شدہ خاتون ہیں (اگر آپ کافی خوش قسمت ہیں)، آپ شاید اپنے شوہر کی انا اور غیر معمولی غیر معمولی وقت سے نمٹنے کے لئے آپ کو تلاش کرنا پڑے گا. پاکستان میں مرد عام طور پر اس بات کا یقین کرتے ہیں کہ ان کی جنس پوری خاندان کے صرف روٹی کا ہونا چاہئے. وہ مرد ساتھیوں کے ساتھ آپ کی بات چیت کے ذریعہ خطرے میں محسوس کرتے ہیں اور ناپسندیدہ خطرات کے طور پر اپنے فخر کامیابیاں دیکھیں گے.
لوگ کیا کہیں گے ؟
یہ ایک عنصر یا دعوی کسی دوسرے کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی زندگیوں کو برباد کر دیتا ہے. چاہے آپ ایک خاتون خاتون یا گھریلو خاتون ہو، ہمیشہ 'لاگ کیہ کھن گی' کا خطرہ ہے اور دوسروں کو آپ کے فیصلوں اور رائے کے ذریعے کس طرح سمجھا جائے گا. وہ فرض کریں گے کہ کام کرنے یا اپنے آپ کو کچھ کرکے، آپ اپنے گھر، خاندان اور بچوں کو نظر انداز کررہے ہیں، اور اکثر آپ کو گندی اور ناانصافی عنوانات سے مسترد کرتے ہیں.

زنا اور اعزاز قتل
یہ دو مسائل اس ملک میں بڑی تصویر کا حصہ اور پارسل ہیں جس میں بہت سے افراد کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا پڑتا ہے. جراثیم کی ثقافت غلط ہے، لیکن حقیقت میں، پاکستان کے اندر عصمت دری کی ثقافت مستحکم ہے. اس عذر سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسلام عدم اطمینان کو فروغ دیتا ہے اور نیک مرد عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ کام کرتا ہے. اس کے علاوہ، تمام بہانے، روایتی معیاروں کے سب سے زیادہ خطرناک طرف سے جائز ہے. اس کے علاوہ، قبائلی جرگوں کے اقدامات جو پاکستان کے دیہی پاور ڈھانچے کی بنیاد پر بنیاد بنتی ہیں، ریاستی قانون کے انضمام کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کے فیصلے کے ساتھ ساتھ خواتین کی طرف اور ان بدعنوان جرائموں کے حق میں بدعنوانی کے ساتھ.

حالیہ قوانین میں ترمیم کے ساتھ 2016 ء میں مجرمانہ قانون ایکٹ کے تعارف کے باوجود، آج اعزاز قتل کے 95 فیصد افراد اب بھی خواتین ہیں. عزت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، ہر سال اعزاز کے نام سے 1000 خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے، 60222 سے زائد اعزاز سے متعلق جرائم ناقابل واپسی کی جا رہی ہیں.
160
بین الاقوامی خواتین ڈے کے لئے تھیم #BeBoldForAChange ہے. اس بین الاقوامی خواتین کے دن، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ ان جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے اور بہتر اور سب سے زیادہ پاکستان کو بھولنے کے ل? ایک مرحلے میں ہیں؟

Friday, March 1, 2019

سندھ حکومت اور آئی جی پولیس پھر آمنے سامنے



سندھ حکومت اور آئی جی پولیس پھر آمنے سامنے

پانی کی قلت کے خلاف کاشکاروں کی تحریکیں

سندھ نامہ سہیل سانگی 
سندھ حکومت اور آئی جی سندھ پولیس ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ حکومت سندھ نے نئے پولیس قانون کا مسودہ تیار کیا ہے۔ جس میں ڈی آئی جیز اور ایڈیشنل آئی جی کو چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سندھ کے ماتحت کیا رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مسودہ تیار کرتے وقت آئی جی سندھ پولیس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں آئی جی پولیس نے اپنی طرف سے قانونی مسودہ تجویز کیا ہے۔ جس پر گزشتہ روز کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس نے نیا قانونی مسودہ پیش کیا اور کمیٹی میں اس مسودے پر غور کیا گیا۔ آئی جی سندھ کے تجویز کردہ اس مسودے میں آر پی حیدرآباد اور سکھر کی اسامیاں دوبارہ بحال کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ یہ مسودہ حکومت سندھ کی کابینہ کمیٹی کے حوالے کردیاگیا ہے۔ پولیس کو خود مختار طریقے سے کام کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اس مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کی سطح کے افسران سے متعلق اختیارات آئی جی کو دیئے جائیں۔ جبکہ حکومتی مسودے میں یہ اختیارات وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو دیئے گئے ہیں۔اجلاس میں حکومت سندھ کے اس موقف کی مخالفت کی گئی ہے کہ آئی جی اختیارات صرف ایس پی سطح کے افسران تک ہوں اور ڈی آئی جی اور یڈیشنلّ ئی کے سطح کے اختیارات چیف سیکریٹری یا وزیراعلیٰ کے پا س ہوں۔ کابینہ کمیٹی میں حوکمت کا یہ موقف تھا کہ پولیس صوبائی اختیار ہے لہٰذا پولیس قانون میں تبدیلی سندھ اسمبلی کے ذریعے ہی کی جائے گی اور حکومت کو اختیار ہے کہ وہ قانون کا مسودہ تیار کرے۔ اس لئے حکومت سندھ نے پولیس کے لئے الگ قانونی مسودہ تیار کیا ہے۔ پولیس پر حکومت سندھ کی مکمل نگرانی ہو۔ کابینہ کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیر امتیاز شیخ پر امید ہیں کہ کابینہ کمیٹی اور آئی جی سندھ پولیس مل کر نیا قانونی مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 
صوبے کے زریں علاقوں جوہی اور گولاڑچی میں پانی کی قلت کے خلاف کاشتکاروں کی تحریکیں شروع ہو گئی ہیں۔چند ماہ قبل جوہی کے کاشتکاروں کی بھرپور تحریک کے نیتجے میں بیس روز تک اس علاقے میں پانی فراہم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ پانی کی فراہمی بند کردی گئی ہے نتیجے میں کاشت کی گئی فصلیں سوکھ گئی ہیں۔ 
’’سندھ کو ویران کرنے ولا محکمہ آبپاشی‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ محکمہ آبپاشی کی نااہل انتظامیہ نے سندھ کو ویران کرنے کی کوئی کسر اٹھا کے نہیں رکھی ہے۔ خاص طور پر ٹیل والے تین اضلاع ٹھٹہ، سجاول اور بدین کو صحرا میں تبدیل کرنے کی راہ پر چل رہا ہے۔ ان اضلاع میں انسانی آبادی پینے کے پانی سے محروم ہے۔ کینالوں اور شاخوں میں مٹی اڑ رہی ہے۔ ان اضلاع سے بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلاء شروع ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج بھی شدت آرہی ہے۔ ایک ایسا ہی احتجاج بدین ضلع کے شہر گولاڑچی میں ہوا۔ گولاڑچی کی 25 سے زائد شاخوں میں پانی کی فراہمی بند ہونے کے خلاف تحریک شروع ہو گئی ہے۔ شامیانے لگا کر جاری احتجاج اور علامتی بھوک ہڑتال میں ضلع کے مختلف شہروں سے لوگوں نے شرکت کی۔ اس تحریک میں سول سوسائٹی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں بھی شریک ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک پھیلی اور دیگر کینالوں مینمصنوعی اور غیر قانونی طور پر لگائی گئی رکاوٹیں نہیں ہٹائی جاتی، ان کا یہ احتجاج جاری رہے گا۔ سندھ کو پانی کا حصہ کم مل رہا ہے لیکن جو مل رہا ہے، اس کی درست ریگیولیشن نہ ہونے کی وجہ سے سندھ صحرا میں تبدیل ہو رہا ہے۔ محکمہ آبپاشی کی انتظامیہ اس کے لئے ذمہ دار ہے۔ اس محکمہ کا کمال ہے کہ خشک صورتحال میں سیلاب پیدا کردیتا ہے اور سیلاب کو خشک صورتحال میں تبدیل کر سکتا ہے۔ سندھ کی معیشت کا انحصار زراعت پرہے۔ جس کو تباہ کیا جارہا ہے۔ٹیل کے کاشتکار مسلسل شکایات کرتے رہتے ہیں کہ ان کے حصے کا پانی اوپر کے حصے کے زمینداروں کو پانی فروخت کیا جارہا ہے ۔ ہزارہا ڈائریکٹ آؤٹ لیٹس کے ذریعے پانی لے لیا جاتا ہے۔ اس اہم محکمہ کو بدانتظامی، نااہلی اور کرپشن نے تباہ کردیا ہے۔ یہ محکمہ بغیر وزیر کے چلایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر محکمہ کی یہی صورتحال ہوگی۔ زراعت کی تباہی نے صوبے میں بدترین غربت کو جنم دیا ہے۔ صوبائی وزیر زراعت کا تعلق بدین سے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اعلیٰ ایوانوں میں بھی بدین کی نمائندگی موجود ہے۔ لیکن یہ سب نمائندے بدین اور دیگر ٹیل والے عالقوں میں پانی کی رسد کو یقینی نہیں بنا سکے ہیں۔
اکیس فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر سندھ کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں اور مختلف پروگرام منعقد ہوئے۔ اخبارات نے مضامین اور اداریے لکھ کر مادری زبانوں کی اہمیت اور ان کو فروغ دینے پرزور دیا۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’قومی زبانوں کا بل‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملک میں کئی قومیں آباد ہیں اور ان کی اپنی اپنی زبانیں ہیں۔ لیکن ان زبانوں کو قومی زبان کا درجہ نہیں دے کر ان کی ترقی کے لئے ماضی میں اقدامات نہیں کئے گئے۔ یہ امر اہم ہے کہ ہر زبان کا اپنا علاقہ ہوتا ہے جہاں یہ زانیں صدیوں سے موجود ہیں۔
وفاق میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں زبانوں کے بل پر کچھ کام ہوا۔ لیکن تاحال یہ بل منظور نہ ہوسکا۔یہ بل جان بوجھ کر التوا میں ڈال دیا گیا۔ لہٰذا مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا معاملہ جوں کا توں التوا کا شکار ہے۔ سینیٹر سسئی پلیجو نے گزشتہ روز ایک سیمینار میں بتایا کہ مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے سے متعلق بل سنیٹ کی مجلس قائمہ نے منظور کیا تھا۔ جس میں سندھ کے ہر مکتب فکر کے لوگوں اور اہل دانش نے اہم کردار ادا کیا ۔ یہ بل دیگر پارلیمنٹرین کے ساتھ مشاورت کے بعد سینٹ سے منظور کریا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے یہ بل منظور کرانے میں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی خواہ خیبرپختونخوا کے راکین کی حمایت حاصل رہی۔ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی نے اگر اس بل کی رکاوٹ نہیں ڈالی تو یہ بل سینیٹ میں آسانی سے پاس ہو جائے گا۔ یہ ایک اہم بل ہء جس کو ترجیحی بنیادوں پر اور جلد منظور کیا جانا چاہئے۔ کیونہ ملک کے اندر زبانوں کی کثیر رنگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زبانوں کے بل کے بارے مین یہ مفروضہ پھیلایا گیا ہے کہ اس سے قوم تقسیم ہو جائے گی۔ جبکہ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جہاں ایک سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کو قومی اور سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کو اس بل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے۔ اور اس بل کو منظور کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں۔ 
movements for water, Police Nai Baat - Sindh Nama

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا