Friday, November 24, 2017

پیپلزپارٹی اپنے ہی ووٹر کو غریب کر رہی ہے

Sindhi Press- Sindh Nama 25-11-2017
Sohail Sangi
Nai Baat
پیپلزپارٹی اپنے ہی ووٹر کو غریب کر رہی ہے
سندھ نامہ     سہیل سانگی
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے شگر ملز وقت پر نہ چلانے اور گنے کی قیمت مقرر نہ کرنے کے خلاف سندھ میں تحریک جاری ہے۔ اب یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ جہاں عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو 29 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے من مقرر کردی ہے لیکن سندھ حکومت اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے۔ 

صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ کاشتکار ایک ہفتہ صبر کریں ۔انہیں مناسب دام دیئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے چینی کے اسٹاک پڑے ہیں۔ جنہیں ایکسپورٹ نہیں کیا جاسکا ہے۔ سندھ کے اخبارات نے کاشتکاروں کے اس احتجاج اور مطالبات کے حق میں اداریئے لکھے۔ اخبارات نے فیض آباد کے دھرنے کو بھی موضوع بنایا ہے اور کہا ہے کہ ریاست کی رٹ کو تماشہ نہ بنایا جائے۔ ان دو مسائل پر سندھ کے اخبارات کی متفقہ رائے ہے۔ 

’’حکومت کو سندھ کے کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہیں آتا ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز گمبٹ کے قریب قومی شاہراہ پرکاشتکاروں نے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں کاشتکاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ ایک طرف اشیائے صرف و خوردنی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے جس کو حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔

دوسری جانب جب بھی کوئی زرعی جنس اترتی ہے تو تاجر مافیا اس کی قیمتیں گرا دیتی ہے اور محنت مزدوری سے پیدا کی گئی فصل کا معاوضہ اس کی لاگت کے برابر بھی نہیں ملتا۔ زرعی اجناس کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے کسان اور چھوٹا کاشتکار مفلس ہو گیا ہے۔ سندھ کی اکثریتی دیہی آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ جو مسلسل بحران کا شکار ہے۔ صوبے کی حکمران جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اس کی پالیسیاں دراصل اپنے ہی ووٹر کو مزید غریب کر رہی ہیں۔

’’روزنامہ کاوش ‘‘نے موسمی تبدیلیوں کے پس منظر میں سندھ میں پانی کی قلت کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ یہ ایک نیا پہلو ہے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کی لاتعلقی پر تنقید کی ہے۔
اخبار ’’سندھ کے پانی کا مقدمہ اور ہمارا نیرو‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک ہنگامہ بپا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں انسان کی زندگی و بقا اور ماحولیاتی سے مطابقت اور نئے ماحول میں زندہ رہنے کے طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ چین کے صحرا گوبی کو ڈرپ آبپاشی نظام کے ذریعے آباد کردیا گیا ہے۔ دنیا کے بعض ممالک سمندر کے پانی کو میٹھا کر کے انسانی استعمال کے لائق بنا کر وہاں کے باشندوں کو مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے نیرو بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔ انہیں کسی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ عوام ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ لہٰذا نہ ہی کسی مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اندازہ کر سکیں کہ آئندہ چند برسوں میں سندھ کی کیا حالت ہو گی۔ 

اقوام متحدہ نے تبدیل شدہ حالات میں زندہ رہنے اور ترقی کے لئے 17 ہدف مقرر کئے تھے جس میں سنیٹیشن یعنی صحت اور صفائی ستھرائی چھٹے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ان اہداف کی سندھ کے منتظمین کو فکر نہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت صفائی اور پینے کے پانی وغیرہ کی ضروریات کو دیکھیں۔ محکمہ منصوبہ بندی ابھی تک گہری نیند میں ہے۔ وہ اس پر سنجیدہ ہونے کے لئے تیار نہیں کہ دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ 20 فیصد کم ہو جائے گا۔ 

سندھ کو حصے میں جو پانی دیا جاتا ہے اس میں سے 30 فیصد پانی پہلے ہی گم ہو جاتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی وزیر ہی مقرر نہیں۔ مزید انتظامی تدبر یہ ہے کہ صوبائی سیکریٹری بھی نان ٹیکنیکل افسر ہے۔ جس کو پانی کی انتظام کاری اور ریگیولیشن کا کوئی تجربہ نہیں۔ جب اس محکمے کو اس طرح سے چلایا جائے گا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آغاز میں موجود کاشتکاروں کو پانی ملے گا اور جو آخر میں ہونگے وہ پریشان ہونگے۔ 
واپڈا اور ارسا سے لیکر سیڈا تک 18 ادارے ہیں جو پانی کی انتظام کاری کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے کوئی نظام مرتب نہیں ہو سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں ٹیلی میٹری نظام قائم کیا گیا تاکہ دریائے بہاؤ کو سیٹلائیٹ کے ذریعے مانیٹر کیا جاسکے۔ اس کا انتظام واپڈا کے حوالے کیا گیا۔ لیکن یہ سسٹم بھی ناکام ہو گیا۔ سندھ کے حکمران صوبے کے لئے منصفانہ حصہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 

سندھ کے منصوبے نظرانداز ہوتے رہے۔ دراوت اور گاج ڈیم بھی نہیں بن سکے۔ 15 سال سے رینی کینال کا منصوبہ بھی رولے کا شکار ہے۔ محکمہ 
آبپاشی سیاسی بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سیڈا کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے۔ سیڈا کی کارکردگی دیکھ کر سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ گاڑیاں کونسے سیارے پر چلتی ہیں؟ اگر سندھ میں چلتی تو یہاں کی آبپاشی کی حالت یقیننا بہتر ہوتی۔ تنخواہوں، دیگر مراعات اور وائیٹ ہاءؤس کی طرح تعمیر شدہ دفتر کو چھوڑ کر صرف گاڑیوں کے تیل کا بجٹ اگر لیا جائے ، اس سے ضلع کا ایک ہاسپیٹل چل سکتا ہے۔ سیڈا کا کام فارمرز آرگنائزیشن قائم کرکے ان کی تربیت کرنا اور کاشتکاروں کو غی ر ملکی دورے کرانا ہے۔ تاکہ وہ دوسرے ممالک میں مروجہ نظام سے واقف ہو سکیں۔ 

سندھ کے منتظمین تاحال واٹر پالیسی بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ یہ پالیسی یقیننا دوسرے صوبوں سے مختلف ہوگی۔ کیونکہ اس صوبے کو زوال پزیر سندھو کے ڈیلٹا کو زندگی دینے کے لئے پانی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے ٹھوس منصوبہ بندی کرکے سندھ کے پانی کا مضبوط مقدمہ تیار کیا جائے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ے کہ سندھ اسمبلی نے پروفیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ منظور کیا ہے۔ اس بل کے تحت کام کرنے کے مقامات پر اتنظامات اور صحتمند ماحول رکھنا لازم ہوگا۔ کام کے مقامات مثلا کارخانے، دکان، شاپنگ مال، شادی ہال، وغیرہ میں حفاظتی انتظامات مکمل رکھنے پڑیں گے۔ نئے قانون کے مطابق سندھ اکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کونسل قائم کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کے محنت کشوں کے لئے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ کام کرنے کے مقامات اور حالات کار کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ قانون بن جانا اچھی بات ہے۔ حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے، اور اس کا ایک ایسا مکینزم بنائے کہ محنت کش لوگ سکون سے کام کرسکیں۔

Sindh Nama, Sindhi Press
http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/52532/Sohail-Sangi/Peoples-Party-Apne-Hi-Voter-Ko-Ghareeb-Kar-Rahi-Hai.aspx

http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/25-11-2017/details.aspx?id=p13_03.jpg


Thursday, November 23, 2017

یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی!

Sindhi Press - Sindh Nama   Sohail Sangi  
Nov 18, 2017 
یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی!

سندھ نامہ   سہیل سانگی
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو دس سال مکمل ہونے کو ہیں۔ سندھ کے اخبارات اس س حساس صوبے میں حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں کا جائزہ لییتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اخبارات کی نظر میں سندھ کی دیہی آبادی بھی حکومتی پالیسیوں اور طرز حکومت سے مطمئن نہیں۔ دیہی آبادی کا اہم شعبہ زراعت بھی زوال پذیر ہے۔
 ”روزنامہ کاوش“ نے ” سندھ میں شگر کین بیلٹ کو تباہ نہ کریں“ کے عنوان سے ادارایہ لکھا ہے کہ شگر ملز شروع نہ ہونے اور گنے کی قیمت مقرر نہ ہونے کے خلاف سندھ میں کاشتکاروں کا احتجاج جاری ہے۔ ” باغ تو سارا جانے“لیکن سندھ کے حکمرانوں کو یہ احتجاج نظر نہیں آتا۔ منتظمین مسئلے کو حل کرنے کے برعکس اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ماسکو مزید الجھا رہے ہیں۔ سندھ میں گنے کی پسائی اکتوبر کے آغاز میں شروع ہونی ہے۔ لیکن حکمران نومبر کے وسط تک شگر ملز شروع کرانے سے عاجز نظر آتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کو روکنے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ 
سندھ اسمبلی نے گنے کی پسائی میں تاخیر اور گنے کی قیمت کے بارے میں تحریک التوا مسترد کرتے ہوئے صرف شگر ملز جلدی شروع کرنے کی ترمیم کے ساتھ قرارداد منظور کی ہے۔ تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھڑو نے کہا کہ ضروری نہیں کہ شگر ملز اکتوبر کے اوائل میں شروع ہوں۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ گنے کی دیر سے کٹائی سے گندم اور دیگر فصلیں متاثر ہونے کا تاثر بھی درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پانچ سندھی، اردو، اور انگریزی اخبارات پڑھتے ہیں انہیں کہیں بھی کاشتکاروں کی احتجا جی تحریک نظر نہیں آئی۔ 
 سندھ زرعی صوبہ ہے۔ سندھ کو پانی کا منصفانہ حصہ ملنا، اور بعد میں محکمہ آبپاشی کی غلط انتظام کاری کی وجہ سے خطرات پیش ہیں۔ ان میں سے ایک خطرہ سندھ حکومت کی زراعت سے متعلق غلط پالیسی بھی ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سندھ کا شگر کین بیلٹ تباہ ہورہا ہے۔ ہر سال شگر ملیں وقت پر نہیں چلائی جاتی۔ کاشتکاروں کا احتجاج بھی حکمرانوں کے رویے میں تبدیلی نہیں لا رہا ہے۔ سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ فیکٹریز ایکٹ بظاہر نافذالعمل ہیں۔ لیکن شگر ملز مالکان وقت پر ملیں چلانے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ اس ضمن میں سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد، جو کہ مجموعی طور پر سندھ کی زراعت اور یہاں کے عوام کے فائدے میں ہے، اس کو روکنے کے لئے حکمران جامعت تمام طریقے استعمال کر رہی ہے۔ 
جو کام حکومت کے حصے کا ہے وہ نہیں کیا جاتارہا ہے۔ گنے کی قیمت مقرر کرنا اور وقت پر شگر ملیں شروع کرانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ حکومت پہلے مل مالکان کا دفاع کرتی رہتی ہے۔ جب احتجاج بڑھ جاتا ہے تو مل مالکان کی منت سماجت کرتی نظر آتی ہے کہ ” اچھے بچے بنو، ایسا نہ کرو“۔ رواں سیزن میں حزب اختلاف کو سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے نہیں دی گئی۔ اور ترمیمی قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ جلد شگر ملیں شروع کی جائیں۔ قراداد کے متن میں جلد لفظ موجود ہے لیکن کسی معینہ مدت کا ذکر نہیں۔ چلیں یہ بھی مان لیےتے ہیں۔ 
سندھ کا منتخب ایوان سمجھتا ہے کہ گنے کی پسائی میں دیر ہوئی لہٰذا قرارداد میں لفظ ” جلد“ ڈالا گیا ہے۔ جہاں تک پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھڑو کی منطق کا تعلق ہے کہ گنے کی دیتر سے کٹائی سے گندم یا دوسری فصلوں کو نقصان کا احتما ل نہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کیونکہ اجب گنے کی کٹاءہوگی اور زمیں صاف ہوگی تب ہی گندم بوئی جائے گی۔ دیر سے گنے کی کٹائی کے نتیجے میں نہ صرف زمین فارغ نہیں ہوگی بلکہ کھڑی ہوئی گنے کی فصل کو گندم کے حصے کا پانی بھی دیا جاتا رہے گا۔ میڈیا پہلے بھی اس امر کی نشاندہی کرتا رہا ہے کہ دیر سے گنے کی کٹائی کی وجہ سے گنا خزک ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وزن بھی کم ہونے لگتا ہے۔ جس کا نقصان کاشتکار کو اٹھانا پڑتا ہے۔ 
گنے فصل پنجاب میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہاں پر کاشتکاروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا۔ وہاں حکومت کاشتکاروں کو مل مالکان اور پاسما کے رحم کرم پر نہیں چھوڑتی۔ جہاں تک ویزر موصوف کو کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہ آنے کا معاملہ ہے، وہ تو ” میں نہ مانوں“ کا معاملہ ہے۔ حکومت گنے کی قیمت دیر سے شروع کرتی ہے تب تک گنا سوکھ جاتا ہے۔ کاشتکار کو گنے کی لاگت تو دور کی بات اس کی کٹائی بھی مہنگی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی کاشتکار کھڑی ہوئی فصل جلا دیتے ہیں۔ سندھ میں جلانے کی لکڑئی بھی تقریبا 400 روپے من ہے۔ کاشتکاروں کو گنے کی قیمت لکڑی کے دام کے نصف برابر ملتی ہے۔
ضروت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر گنے کی قیمت مقرر کر کے شگر ملیں شروع کی جائیں اور آئندہ کے لئے ایک مستقل فریم ورک مرتب کیا جائے، تاکہ وقت پر گنے کی قیمتیں مقرر ہوں اور شگر ملین بھی وقت پر شروع ہوں۔ ایسا کرنے سے کاشتکار فصلیں بونے کا ایک مکمل ژیدیول بنا سکیں گے۔ اور زراعت ایک سسٹم کے تحت چلنا شروع ہو جائے۔ 
 ”یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی! “ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے مختلف اداروں کی کارکردگی اور عوامی مسائل کا جو خاکہ روز پیش ہو رہا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر باشعور شخص کے پاس ایک ہی سوال ہے کہ کیا سندھ میں بہتر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ صرف گزشتہ ایک روز کی خبریں برعکس تصویر پیش کرتی ہیں۔ جس میں سندھ کے عوام کرب سے گزر رہے ہیں۔ 
صرف ایک نقطہ میرٹ کو ہی لے لیجیئے جس کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ سندھ ہائی کورٹ نے این ٹی ایس ٹیسٹ کیس میں ایک امیدوار کی درخواست کی سماعت کے دوران ریماکرس دیئے ہیں۔ کہ سرکاری اداروں میں جاہلوں کو بھرتی کیا جا رہاہے اور پڑھے لکھے محنتی افراد کو نظر انداز کر کے کئی مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں۔ تعلیم کا معالہ بھی کچھ ایسا ہے۔ جس کے بارے میں حکومت کا دعوا ہے کہ معیار تعلیم بہتر بنانے کے لئے ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ اس ایمرجنسی کے نتائج یہ ہیں کہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں 76 اسکول بند آج بھی ہیں۔
 تعلیم کے بعد صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس میں محکمہ صحت کی کارکردگی یہ ہے کہ سانگھڑ سول ہسپتال کی ادویات چھ ماہ تک ٹرک اڈے پر پڑی رہی۔ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث لاکھوں روپے کی یہ دوائیں مستحق مریضوں تک پہنچنے کے بجائے پڑے پڑے خراب ہو گئیں۔ ٹرک اڈے کے مالکان کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی کہ دوائیں وصول کر لی جائیں۔ لیکن کسی بھی سرکاری اہلکار نے زحمت نہیں کی۔ 
پولیس جس کا عوام زندگی سے روز کا واسطہ ہے۔ اس کے مظالم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خبر ہے کہ گھوٹکی کے تھانہ کھینجو کی حدود میں ایک پولیس اہلکار نے مفت سگریٹ نہ دینے پر ایک کیبن والے کو زدوکوب کرنے کے بعد لاک اپ میں بند کردیا۔ شکایت کرنے پر پولیس اس کے کیبن اور گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے گئی۔ انہیں بغیر جرم کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بعد میں ےیس ہزار روپے رشوت نہ دینے پر اس کو چرس رکھنے کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر نے کی دھمکی دیتے رہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ ہے اس پارٹی کی حکومت کی کارکردگی جس نے سندھ سے اکثریت میں ووٹ ھاصل کئے ہیں۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان خبروں کی روشنی میں اپنی اس کارکردگی کا عکس دیکھے جس کے لئے اس کا دعوا ہے کہ وہ بہتر ہورہی ہے۔ کاش سندھ حکومت کو اپنی ساکھ کا تھوڑا سا لھاظ ہوتا، تو وہ یقیننا اپنا احتساب کرتی۔
Sindh Nama, Sindhi Press
Sindh Nama  Nai Baat Nov 18, 2017 
Sohail Sangi 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Friday, November 17, 2017

غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کیوں ؟

Sindhi Press - Sindh Nama  Sohail Sangi
غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کیوں ؟ 

 برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے پر سندھ کے خدشات 

سندھ نامہ     سہیل سانگی 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ اگرچہ محکمہ شماریات کے سربراہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مردم شماری کے نتائج پر سندھ کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ابھی یہ تنازع نمٹ نہیں سکا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئین میں ترمیم کر کے کراچی میں غیر قانونی طور پر مقیم برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی حکومت کے اس منصوبے نے سندھ کی ڈیموگرافی میں نابرابری پیدا ہونے کا خوف پیدا کردیا ہے۔ 
سنیٹ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کے سنیٹرز نے ایک تحریک جمع کرائی ہے جس پر پالیسی بیان دیتے ہوئے امور داخلہ کے مملکتی وزیر طلال چوہدری نے کہا کہ گورنر سندھ نے برمیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے معاملے پر بات کی ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

آج کل نواز لیگ کی سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ نیا رومانس چل رہا ہے۔ اس قربت کے عوض شیاد نواز لیگ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہو۔ لیکن اس سے قبل پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب بھی ایم کیو ایم کی نسرین جلیل اور نواز لیگ کے طلال چوہدری جیسا موقف دے چکے ہیں۔ 
پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ میانمار میں برمی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ہم آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن جو برمی پاکستان میں رہ رہے ہیں انہیں حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ یہاں حقوق سے پیپلز پارٹی کے سنیٹر کی مراد انہیں سندھ کے رہائشی کے طور پر قومی شناختی کارڈ جاری کرنا ہے۔ ایسا ہی ایک بیان پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھڑو بھی دے چکے ہیں۔
برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے لئے پہلے پیپلزپارٹی نے رائے عامہ بنائی۔ اب اس رائے عامہ کی بنیاد پر ایم کیو ایم اور نواز لیگ نے آئین میں ترمیم کے لئے سنیٹ میں تحریک پیش کی ہے۔
سیاسی جماعتیں سندھ اور خاص طور پر اس کے صوبائی دارالحکومت میں اپنے سیاسی بقا کے لئے مختلف ادوار میں اس طرح کے حساس مسائل پر تحریکیں لاتی رہی ہیں۔ اب نواز لیگ اور ایم کیو ایم نے مشترکہ طور پر یہ تحریک پیش کی ہے، سندھ کے حقوق کی دعویدار صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی بھی اسی طرح کا اظہار کر چکی ہے۔ ان سب کو سندھ کے صوبائی داالحکومت میں غیر قانونی طور پر مقیم ان تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا معاملہ یاد آیا ہے۔
ان سب کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ کراچی میں غیر قانونی طور رہائش پذیر ان افراد کی منفی سرگرمیوں کے نتائج نہ صرف کراچی بلکہ پورا ملک بھگت چکا ہے۔ ملک میں دہشتگردی کی جو لہر چل رہی ہے اس کو روکنے کے لئے غیر قانونی طور پر مقیم ان برمیوں، بہاریوں اور بنگالیوں کو فی الحال کیمپوں میں منتقل کر کے ، انہیں واپس اپنے اپنے ملک بھیجنے کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جس صوبے کے پرانے اور حقیقی باشندوں کو حالیہ مردم شماری پر خدشات ہوں، انہیں اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہو، وہاں ھکومت منظم طور پر قانون سازی کر کے آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔ اس اقدام سے صوبے اور وفاق کے درمیان مزید دوریاں بڑہیں گی، بہتر ہے کہ حکومت آئین میں ایسی کوئی متنازع ترمیم نہ کرے ۔ جس کے سندھ اور وفاق پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’سندھ کی تعلیم میں کیا بدلاؤ آیا؟ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ صوبے میں اسکول مویشیوں کے باڑے، وڈیروں کی اوطاق، یا گودام بنے ہوئے ہیں۔ بعض صورتوں میں سرزمین پر اسکول ہی موجود نہیں۔ یہ سندھ حکومت کی بڑی ناکامی ہے جس کا اعتراف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ گزشتہ روز ان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ لاکھوں بچوں کا اسکول سے باہر ہونا ہماری ناکامی ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ناکامی کے اعتراف کے بعد بھی صورتحال کو بہتر بنانے میں حکومت سنجیدہ نہیں۔ لالو رینک کے گاؤں ورند ماچھی مین بوائز پرائمری اسکول باڑے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ استاد گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔
گاؤں والوں نے محکمہ تعلیم کے افسران کو خط لکھے، احتجاجی مظاہرے کئے ۔ لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ یہ صورتحال مکمل تباہی کی نشاندہی کرتی ہے۔ کسی بہتر معاشرے میں اگر ایسا واقعہ رپورٹ ہوتا تو تہلکہ مچ جاتا۔ لیکن یہاں پر کسی چھوٹے افسر کو بھی پروہ نہیں۔
حکومتی دعوؤں کے پیش نظر اس اسکول کے بارے میں رپورٹ آنے پر وزیر تعلیم کو مستعفی ہو جاچاہئے تھا۔ لیکن ہمارا وزیر تعلیم سرخ قالین پر چلتا ہے اور تقاریر کرکے کے ہم سب کو تعلیم بہتر کرنے کے بھاشن دیتا ہے۔ میڈیا مسلسل بااثر افراد کے زیر قبضہ اسکولوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ 
تعلیم کو بتاہ کر کے حکمرانوں نے سندھی قوم کی بربادی کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے بموں اور میزائیلوں کی ضرورت نہیں۔ اس قوم کو اپاہج کرنے کے لئے اس کی تعلیم تباہ کردو۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ حکمران اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں نہیں پڑھاتے۔ لہٰذا نہ ان کو کوئی نقصان ہے اور نہ ہی ضمیر پر بوجھ۔ تعلیمی اداروں میں کرپشن کی انتہا ہے۔ جہاں ضلع اور تحصیل سطح کے افسران ان اداروں کے فنڈ ہضم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تھصیل، ضلع اور ڈویزن سطح کے افسران کا بلا امتیازاحتساب کیا جائے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس اے ڈی کواجہ کا تبادلہ کر کے عبدالمجید دستی کو سندھ کا نیا پولیس سربراہ مقرر کرنے کی سفارش وفاقی حکومت کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ کے اجلاس میں صوبائی پولیس سربراہ اے ڈی کواجہ کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ 
اے ڈی خواجہ نے یہ موقف رکھا کہ انہیں صوبے اور وفاق کی مشترکہ مرضی سے آئی جی سندھ مقرر کیا گیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اس عہدے پر ماضی میں 14 پولیس افسران فائز رہ چکے ہیں۔ اور یہ عہدہ گریڈ 21 اور 22 دونوں کے لئے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ کرنے کا آپ کو اختیار ہے لیکن یہ فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ ایک ایسے آئی جی پولیس کو ہٹا دیا گیا جس پر کوئی سنجیدہ الزام نہیں تھا۔ نہیں پتہ کہ اے ڈی خواجہ کے اس موقف پر اجلاس کے شرکاء کے دل پر کوئی اثر ہوا یا نہیں، لیکن عوام ان کے اس موقف کو ضرور یاد رکھیں گے۔ 
پولیس منفی کردار کی وجہ سے بدنام رہی ہے۔ ابھی بھی کلی طور پر یہ کردار تبدیل نہیں ہوا۔ لیکن اے ڈی خواجہ نے بعض اہم اصلاحات ضرور کی۔ جس کے بعد متاثرہ لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس لے جانے لگے تھے۔ یوں اس اہم محکمہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ سندھ کے عوام اے ڈی خواجہ کو اسی عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے عوام کے ان جذبات کو نہیں سمجھا وہ وفاق سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔

Nai Baat Nov 4, 2017    Sindh Nama - Sindhi Press ---  Sohail Sangi 

Friday, November 3, 2017

356 ارب روپے استعمال نہیں کئے جا سکے

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
مبارک باد کا مستحق کون؟
سندھ نامہ سہیل سانگی

’’اس کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟ ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش ا‘‘داریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ وہ کسی بھی سال ترقیاتی جوبجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں کر سکی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ تھے۔ تب بھی تقریبا پینتیس ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوسکی تھی۔ رواں مالی سال کی تین سہ ماہیوں کے درواں صوبائی محکمہ مالیات نے مختص کی گئی 334 ارب روپے میں سے 67 ارب 20 کروڑ روپے جاری کئے۔ جس میں سے سندھ کے 44 محکمے اب تک صرف 36 فیصد رقم خرچ کر سکے ہیں۔ جبکہ گیارہ محکمے ایسے ہیں جو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر سکے ہیں۔ اس کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال بھی ترقیاتی رقومات استعمال کرنے کی صورتحال گزشتہ 9 برسوں جیسی ہی رہے گی۔ 
گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ اس کارکردگی سے ہی گورننس کا پروفائیل بنتا ہے۔ لیکن سندھ اداروں کا قبرستان بن گیا ہے۔ جس سے عیاں ہے کہ سندھ میں گورننس کی کیا سورتحال ہے۔ کیا اس گورننس سے سندھ کے لوگوں کو جمہوریت کا ثمر مل سکتا ہے؟ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ فینڈز نہیں ہیں، دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ فنڈز موجود ہیں لیکن اداروں کے منتظمین کے پاس انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں۔
ہر سال ایک بڑی رقم بغیر استعمال کے لیپس ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی رقم عوام کے لئے ترقیاتی کاموں پر استعمال نہ کرنا دراصل ترقی کو روکنے کے برابر ہے۔ سندھ میں ترقی کی راہ میں بندشیں گزشتہ 9 سال سے جاری ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران بھی منتظمین اسی راہ پر عمل پیرا ہیں۔ جو رقم خرچ کی جاتی ہے اس میں کس حد تک شفافیت ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسا ہاضمہ رکھنے والی بیوروکریسی کیوں چاہے گی کہ ترقیاتی منصوبوں پر عمل ہو، عوام کو سہولیات میسر ہوں؟ 
پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکمرانی میں جو ترقیاتی رقومات استعمال نہیں ہوسکی، ان کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے۔کہ 2008 -09 سے لیکر 2016-15 
تک 356 ارب روپے استعمال نہیں کئے جا سکے ہیں۔ حد ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 11 محکمے ایک روپیہ بھی ترقیاتی مد میں خرچ نہیں کرسکے۔ ۃم سمجھتے ہیں کہ ان 11 محکموں کے منتظمیں کی اس نااہلی کا نوٹس لیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے کہ وہ کیونکر عوام کو ان سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ 
روزنامہ عبرت کارساز سانحے کی تحقیقات کس کی ذمہ داری ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بعض ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو تاریخ کی مٹی بھی دھندلا نہیں سکتی۔ ایسا ہی واقعہ دس برس پہلے کراچی کے کارساز کے علئاقے میں ہوا تھا۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تھی۔ یہ منظر لاکھوں لوگوں کی آنکھوں میں فریز ہے۔ بنظیر بھٹو ملک کی کروڑیں خواتین، مزدوروں، طلبہ کسانوں اور روشن خایل لوگوں کی امید کی کرن تھی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی گاڑی کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعہ میں محترمہ تو بچ گئیں لیکن درجوں افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کئی آنکھیں سوالیہ بن کر محترمہ کے وارثوں اور پارٹی کے رہنماؤں سے پوچھتی ہیں کہ کیا انہوں نے محترمہ سے عقیدت کرنے والے ان عوام کے ساتھ کتنا نبھایا ہے؟ ان کی زندگی میں انقلاب نہ سہی، کوئی مثبت تبدیلی لا سکے ہیں؟ 
محترمہ کی شہادت سے لیکرّ ج تک ان کی پارٹی کی حکومت ہے ۔ ان کا ہی حکم چلتا ہے۔ ڈس سال کی حکمرانی بڑا عرصہ ہوتی ہے۔ اس عرصے میں سندھ کے لوگوں کی تبدیل کی جاسکتی تھی۔ عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کی جاسکتی تھیں۔ یہ سب چکھ ہوسکتا تھا۔ کیا ان کے ووٹ کی قدر کی گئی ہے؟ 
یہ وہ سوالات ہیں جو ہرشخص کی آنکھوں میں ہیں۔ جو کسی مصلحت یا مجبوری کی وجہ سے پوچھ نہیں سکتے۔ جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں تب شاید ہر خاص و عام حکمران جماعت کے ہر نمائندے سے یہ سوالات پوچھ سکے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے پیپلزپارٹی کے پاس کیا
تیاری ہے؟ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ سندھ کے لوگ عجیب مزاج رکھتے ہیں۔ وہ اگر اپنی بات پر آئیں تو پھر کیا میر کیا پیر اور جاگیردار کیس کی نہ سمنتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ اور اپنی کرتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے اپنے ضمیر کا ایسا مظاہرہ کیا بھی تھا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ ارسا میں وفاق کے کوٹا پر سندھ کا نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سوبے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط لکھا ہے کہ اس طرح سے ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ارسا ایکٹ کے مطابق پانی کی صوبوں میں تقسیم کے ذمہ دار اس ادارے کو پانچ ممبر ہونگے۔ ایک ایک چاروں صوبوں سے ہوگا اور پانچواں ممبر وفاق کی نمائندگی کرے گا۔ ایکٹ کے مطابق پانچواں ممبر وفاق کا نامزد کردہ ہوگا مگراس کا ڈومیسائیل سندھ کا ہوگا۔ لیکن گزشتہ چھ سال سے ارسا ایکٹ کی اس شق پر عمل نہیں ہو رہا۔
وزیراعلیٰ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس صورتحال میں نہ صرف ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی بلکہ سندھ کے ساتھ بھی ناانصافی ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کے لئے اکثریت کی بناید پر فیصلے ہوتے ہیں، اور وفاق کا نمائندہ اپنے مرضی سے ووٹ دیتا ہے جو کہ زمینی حقائق سے دور ہوتا ہے۔ نیتجۃ سندھ میں پانی کا بحران رہتا ہے۔ ارسا کی ترتیب اس لئے رکھی گئی تھی تاکہ سندھ کو مسلسل پانی کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ اب مجموعی طور پر پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ایسے میں سندھ کے کاشتکار پریشان ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی کمی کا تناسب سندھ کے ہی کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ محکومت کا موقف جائز ہے۔ اور جب وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کردیا ہے اب وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ نہ صرف وہ ارسا ایکٹ پر عمل کرائے بلکہ پانی کی قلت کے حوالے سے سندھ کی شکایات کا سدباب کرنے کے لئے ہدایات جاری کرے۔ 
Sindh Nama   Sindhi Press    Sohail Sangi  
Nai Baat Oct 21, 2017