Saturday, April 30, 2016

سندھ کی زمینوں پر قبضے

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
April 29
سندھ کی زمینوں پر قبضے 
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/30-04-2016/details.aspx?id=p13_02.jpg 
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں موجود زمین کو یوں سمجھا جارہا ہے کہ شاید یہ زمین کسی کام کی نہیں۔ لہٰذا اس زمین کو کسی نہ کسی استعمال میں لایا جائے۔ پھر یہ مقاصد رہائشی ہوں یا کاروباری ، انتظامی ہوں یا فلاحی، زمین پر قانونی یا غیر قانونہ طور پر قبضہ کرنا ہے۔ زمین سے متعلق ہر قسم کی لاقانونیت کو روکنے کی ذمہ داری صوبے کے محکمہ روینیو کو دی گئی تھی کہ وہ صوبے میں موجود سرکاری زمین مختلف اداروں کو رقم کے عوض یا طے شدہ پالیسیوں کے مطابق نیلام یا کسی اور سسٹم کے تحت فروخت کرے یا اپنے استعمال میں لے آئے۔ 
قیام پاکستان کے بعد سندھ کی زمینوں کے استعمال پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف کلیموں کے تحت زمیںینں حاصل کی گئیں دوسری طرف ترقی کے نام پر مختلف سرکاری خواہ غیر سرکاری ، سویلین اور فوجی اداروں نے محکمہ روینیو سے بڑے پیمانے پر زمینیں معمولی قیمت کے عوض حاصل کیں۔ عوام کو سہولت دینے کے نام پر اپنی سہولت کے سامان پیداکئے۔ وقت کے ساتھ یہ محسوس کیا گیا کہ یہ ترقی کے نام پر کراچی شہر کی سرکاری زمینوں کی تباہی ہے۔ جس کو روکنے کے لئے کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ اور نہ آج تک بنایا گیا ہے۔ کراچی جو خاصخیلی، جوکھیو، گبول، کرمتی لوگوں کا شہر تھا اس کراچی شہر میں قدیمی باشندے جا کر کچی آبادیوں تک محدود ہو گئے۔ اور جنہوں نے زمینیں خرید کیں وہ کراچی شہر کے مالک اور معمار بن گئے۔ 

حال ہی میں کراچی شہر میں موجود ڈفینس ہاﺅسنگ سوسائٹی کے 225 پلاٹوں کا کیس میڈیا کے ذریعے سامنے آیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کیس کے بارے میں سندھ روینیو بورڈ کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ ایک موقر اردو روزنامہ نے خبر دی کہ ڈی ایچ اے حکومت سندھ سے چند روپے فی گز کے حساب سے زمین خرید کی اس میں تین سو گز کے فی پلاٹ بنا کر کل تین سو پلاٹ فی پلاٹ 89 ہزار روپے میں فروخت کر کے اس کے ذریعے دو کروڑ روپے حاصل کئے۔ دوسرے مرحلے میں ان پلاٹوں کی نوعیت رہائشی سے تبدیل کر کے کمرشل کر کے بائیس کروڑ روپے کمائے۔ اس خبر کے مطابق اگر ڈی ایچ اے یہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرتی تو اسے 45 ارب روپے کی آمدنی ہوتی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سندھ کے سابق کور کمانڈر کی اس تمام کاروبار میں شامل نہ ہونے اور اجازت نہ دینے کی وضاحت اور اس پر ڈی ایچ اے کے سربراہ کا بیان اور وضاحت بھی شامل ہے۔ 

ہمارے پاس بھی ایک وضاحت ہے جو سندھ حکومت کو کرنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈفینس ہاﺅسنگ اتھارٹی سمیت ادارے رہائشی اور کمشل ، فلاحی اور دیگر درجہ بندی ے پلاٹ حکومت سندھ سے جس قیمت پر حاصل کرتے ہیں اور جو مقصد بیان کرتے ہیں اس کا فالو اپ سندھ خومت کیوں نہیں کرتی؟ اس کی وضاھت کون کرے گا؟ اسی طرح کی وجاحت کراچی شہر میں آغا خان اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال، اور دیگر فلاحی اداروں اور اسکولوں کے بارے میں بھی ہونی چاہئے۔ کیا ان اسپتالوں نے اپنے مقاصد میں یہ کہا تھا کہ عوام کے علاج معالجے کے لئے جو سہولیات فراہم کی جائیں گی وہ ملک بھر میں مہنگی ترین ہونگی؟ کای یہ بھی لکھا تھا کہ یہ اسپتال تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کی جائیں گی؟ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سمندری تباہی اور سمندر آگے آنے سے روکنے کے لئے تجاویز تیار کرنے والی سنیٹ کی سب کمیٹی نے ساحلی پٹی کا جائزہ لینے کے بعد سفارشات پیش کی ہیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اگر سمندر کو آگے بڑھنے کو روکنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے تو 2060 میںنہ صرف کراچی، ٹھٹہ اور بدین کی ساحی پٹی سمندر برد ہو جائے گی بلکہ دونوں صوبوں میں ساحلی فوجی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سب کمیٹی نے ساحلی پٹی کے اس نازک معاملے کو ویزن 2015 میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے پر مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھی غور کیا جائے۔ یہ معاملہ جتنا سنگین ہے اتنا ہی لاپروائی کا شکار ہے۔ دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے کے نتیجے میں دریا ڈیٰلٹائی علاقہ میں اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمیں سمندر کھا چکا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ سمدنری جنگلات ختم ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں مچھلی کی پیدائش اور فروغ کا عمل میں رخنہ پڑ گیا ہے۔ جو کہ براہ راست ایک بڑی آبادی کا ذریعہ معاش ہے بلکہ غذائی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ کمیٹی نے جس خدشات کا ذکر کای ہے وہ اعداو شمار اور ماہرین کی رپورٹوں کی بنیاد پر کئے ہیں لہٰذا اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 

 روزنامہ کاوش ”تھر کا درد “کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر قائم کی گئی چار رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تمام حکومتی دعوﺅں کو مسترد کردیاہے۔ اور حکومت سے فوری طور پر تھر کو قحط زدہ علاقہ قرار دے کر بڑے پیمانے پر امدادی کارروایاں شروع کی جائیں اور تھر ڈولپمنٹ اتھارٹی کے قیام، ڈاکٹروں کی تقرری مطلوبہ تعداد میں کرنے ، افسران کی تقرری ذاتی مفادات کے باجئے خالص میرٹ پر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تھر میں قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے گزشتہ تین سال سے مسلسل بچوں کے اموات کی خبریں آرہی ہے جس سے سندھ حکومت انکار کرتی رہی ہے۔ کیمشن نے تما صورتحال کے لئے صحت، آبپاشی، زراعت، لائیو اسٹاک ، آبپاشی سمیت سات محکموں کو ذمہ دار قرا دیا ہے۔ 

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تھر کی اس صرتحال کے لئے خراب حکمرانی ہی ذمہ دار ہے۔ اس رپورٹ کے بعد حکومت کے انکار اور معاملات سے راہ فرار مسدود ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سندھ اس ضمن کیا کیا موثر اور عملی اقدمات کرتی ہے

Thursday, April 21, 2016

روشن سندھ منصوبے میں ہونے والا اندھیر

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
April 22, 2016 
روشن سندھ منصوبے میں ہونے والا اندھیر
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
پاناما لیکس اور اس کے بعد بدنام ڈاکو غلام رسول عرف چھوٹ کے خلاف آپریشن کی وجہ سے سندھ میں مختلف ادارے کاروائیاں کر رہے تھے وہ یا سرد پڑ گئی ہیں یا پھر ان کو میڈیا میں مطلوبہ جگہ نہیں مل پارہی ہے۔ کراچی میں گزشتہ دنوں اورنگی کے علاقے میں پولیو ٹیم کے محافظ پولیس اہلکاروں ککو قتل کردیا گیا۔ جس سے ایک بار پھر اس دہشتزدہ شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پولیو کے خاتمے کی مہن بھی رولے میں پڑ گئی۔ عدلیہ کا رویہ بھی سندھ حکومت کے بارے میں سخت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب سپریم کورٹ میں یہ ریمارکس سننے کو ملے کہ جب تک مسٹر شاہ ہیں تب تک حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے کہ سندھ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور حکومت اربوں روپے کے ٹھیکے غیر قانونی طور پر دے رہی ہے۔ انہوں نے اپنے ریماکرس میں یہ بھی کہا کہ صوبے کا انفرا سٹرکچر تباہ ہے اور ہاتھوں سے سندھ کو تباہ کیا جارہا ہے۔ عدلیہ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ابھی بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ 

 روزنامہ کاوش ”روشن سندھ منصوبے میں ہونے والا اندھیر “کے موضوع پرلکھتا ہے کہ ایسا کون سا ادارہ ہے جو بے ضابطگی سے بچا ہوا ہو، ایسا کونسا منصوبہ ہے جو اس بے ضابطگی کا شکار نہ ہوا ہو۔ جس معاملے سے پردہ اٹھتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی حقیقت ظاہر ہوتی ہے جس پر افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ایک ایسے نظام میں رہ رہے ہیں جہاں بے ضابطگیوں پر حیرت نہیں بلکہ افسوس ہوتا ہے۔ حیرت تب ہو جب کوئی عمل پہلی مرتبہ ہو۔ یہاں قدم قدم پر بے ضابطگیاں ہیں۔ اور معاملات خراب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ روشن سندھ منصوبے کے حوالے سے منظر پر آیا ہے۔ 

سولر لائیٹیں لگانے کے اس منصوبے کی حالت یہ ہے کہ ٹھیکیڈار نے دو سال تک یہ لائیٹیں خراب نہ ہونے کی گارنٹی دی تھی۔ مگر اکثر لائیٹیں وقت سے پہلے خراب ہوگئیں۔ محکمہ خزانہ کے اعتراضات کے باجود ٹھیکیدار کو 67 کروڑ روپے جاری کردیئے گئے۔ صوبے میں بیس ہزار لائیٹیں لگانے کے لئے پانچ ٹھیکیداروں کو یہ رقم جاری کی گئی ہے۔ 

 لگتا ہے کہ اس منصوبے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا ہے جو اکثر معاملات میں کیا جاتا ہے، یعنی میرٹ کو ٹھکرا نا۔ تقرر ہو یا تبادلہ، یا پھر کوئی ترقیاتی کام کا ٹھیکہ ۔ یہاں بھی کر پسندیدہ اور ناتجربیکار افراد کو نوازا گیا۔ کہیں بھی میرٹ نہیں چلتی۔ جب میرٹ نہیں چلے گی تو یہی نتائج نکلیں گے، جو روشن سندھ منصوبے میں سامنے آئے ہیں۔ یہ منصوبہ سندھ کو روشن کرنے کے لئے تھا، لیکن میرٹ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے سندھ کو اندھیرے میں دھکیل کر ایک اور ناانصافی کی گئی۔ 

 یہ منصوبہ ایسا ہی تھا جیسا پڑھا لکھا پنجاب کا منصوبہ۔ جس سے وہاں کی شرح خواندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ پنجاب میں سستی روٹی کی اسکیم بھی شروع کی گئی، لیکن یہ اسکیم حکومت کو بہت مہنگی پڑی۔ یعنی کوئی بھی اسکیم شروع کریں اس کے نتائج الٹ آتے ہیں۔ اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ یقیننا کہیں نہ کہیں اثر رسوخ استعمال ہوا ہے۔ 

 روشن سندھ اکیم میں ایک باثر ٹھیکدار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ نتائج اسکیم کے مقاصد سے الٹ آئے۔ پھر بھی پتہ نہیں ٹھیکیدار کی کونسی ادا بھا گئی کہ اسے ادائگی کردی گئی۔ ٹھیکے کے شرائط میں یہ طے تھا کہکام میں ایسا معیار رکھا جائے گا کہ دو سال تک لائیٹیں کراب نہیں ہونگی۔ جب یہ لائیٹیں وقت سے پہلے خراب ہونا شروع ہوئیں تو سب سے پہلے اس ٹیکیدار سے حساب لینا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے اسے ادائگی کردی گئی۔ 
 یہ ہے سندھ کی صورتحال جہاں محکمہ تعلیم نے ویسے ہی اندھیرا پھیلا رکھا ہے، لوڈ شیڈنگ کے مارے لوگوں کو سورج کی روشنی سے چلنے والی لائیٹیں مہیا کرنے کا منصوبہ بھی اندھیرے کا شکار ہوگیا۔ اس بااثر ٹھیکیدار سے ناقص سامان کی فراہمی اور استعمال پر احتساب ہونا چاہئے۔ اور یہ تمام کام اس سے بطور جرمانہ دوبارہ کرانا چاہئے۔ 

 ”پھر خواجہ صاحب جواب ہی سمجھیں؟“ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں اغوا انڈسٹری عروج پر ہے۔ لیکن یہاں پر کوئی چھوٹو گینگ نہیں ہے جس کے لئے فوج طلب کرنی پڑے۔ نہیں معلوم کی پولیس 9 سال گزرنے کے بعد بھی ٹھل کے علاقے گڑھی حسن سے اغوا ہونے والی فضیلہ سرکی کو بازیاب نہیں کراسکی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات کو پولیس کسی حساب میں نہیں لاتی، لیکن ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر پہچانے جانے والے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی بے بسی سمجھ میں نہیں آتی۔ انہوں نے چارج لینے کے فروا بعد فضیلہ کے والد سے رابطہ کر کے انہیں یقین دلایا تھا کہ ان کی بچی کو جلد بازیاب کرالیا جائے گا۔ 

فضیلہ کی بازیابی کے لئے ناکام آپریشن کے بعد اس فرض شناس افسر سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ” پھر خواجہ صاحب اب جواب ہی سمجھیں؟“۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے لیکن یہاں قانون سماعت اور بصارت بھی کھو بیٹھا ہے۔ کہ کسی مقدمے میں نامزد ملزمان بھی اسے نظر نہیں آتے۔ اے ڈی خواجہ نے جب چارج لیا تھا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ پولیس اب گڑبڑ نہیں کر سکے گے۔ شاید فضیلہ کے اغوا کاروں کو سلیمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں کہ وہ پولیس کو نظر نہیں آتے۔ 

جب کسی محکمے کے اہلکار فرائض میں کوتاہی کریں تو کسی طور پر بھی اس محکمے کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس محکمے کے اکثر ملازمین اس محکمے کے قیام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو عوام کے ٹیکس پر اس طرح کی مصیبتیں
 پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ فضیلہ سرکی کا اغوا ہو یا عمران جوکھیو کی گمشدگی، کیا ان کے ورثاءاور احتجاج کرنے والوں کو فوج طلب کرنے کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔ پولیس سے عوام پہلے ہی ناامید تھے اب لوگ فرض شناس افسر اے ڈی خواجہ سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ ان کی امیدیں ختم ہو رہی ہیں۔ 

Saturday, April 2, 2016

عقیدوں کا روگ اور غریب عوام

جنوری ۲۲ 

 عقیدوں کا روگ اور غریب عوام

سندھ نامہ سہیل سانگی


سندھ کے اخبارات نے سندھ حکومت پر تنقید کہ وہ راہداری کے معاملے میں سندھ کا کیس ٹھیک سے رکھ نہیں پائی۔ اس کے علاوہ سعودی ایران تضاد اور پاکستان کا ثالثی کے کرداراور سانحہ چار سدہ بھی زیر بحث رہے۔ اخبارات نے سندھ کرمنل رپاسیکیوشن قانون میں صوبائی حکومت کی جانب سے کی گئی ترمیم کو بھی کوئی اچھا شگون قرار نہیں دیا ۔ یہ ترمیمی قانون گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی نے منظور کر لیا ہے۔ 

 روزنامہ عبرت ”عقیدوں کا روگ اور غریب عوام “کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ دنیا بایو میٹرک تک پہنچ گئی ہے لیکن سندھ کے دیہات تاحال اندھیروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ مثال گرہوڑ شریف کے پاس کھاہی کے مقام پر پیش آنے والے ایک واقعہ سے ملتی ہے۔ خبر کے مطابق لیموں کولہی کی آٹھ سالہ بیٹی کھیمی کو مرگھی کے دورے پڑتے تھے۔ جس کو والدین جنات کا اثر سمجھنے لگے۔ انہوں نے ایک عامل کو بلایا کہ کسی طرح سے ان کی بچی کو اس مصیبت سے نجات دلائے۔ جعلی عامل نے روایتی ٹونے کرتے ہوئے معصوم بچی کو آگ کے الﺅ میں ڈال دی جس میں بچی کا ستر فیصد جسم جل گیا۔ اور وہ بینائی سے بھی محروم ہوگئی۔ 

 سندھ میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اس طرح کے اندھے عقیدوں پر مشتمل واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں جن میں سے چند ایک پر ہی میڈیا کی نظر پڑتی ہے۔ یہاں پر متعدد افراد ایسے نظر آئیں گے جو ذرا بھی پیداواری عمل کا کام نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود جاگیروں اور جائدادوں کے مالک ہیں۔ کیونکہ ان کا واحد کاروبار عقیدوں کے ذیعے لوگوں کو لوٹنا ہے۔ اس لوٹ مار کو روکنے کے لئے ملکی قانون کہیں بھی آڑے نہیں آتا۔ غریب لوگ کم علمی اور سماجی پستی کے باعث عقیدوں کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والوں کی حاضری بھرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے اس طرح کے بڑھتے ہوئے مسائل پر غور کرنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے سنجیدگی سے اس پر بھی کسی فورم میں بیٹھ کر غور نہیں کیا کہ صوبے میں جو خونی تصادم اور قبائلی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ان کی ا صل وجہ کیا ؟ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی اور اہل فکر و دانش اس پر غور کرتے تو اب تک نہ صرف اس کی وجوہات کا پتہ لگ جاتا بلکہ حل بھی تلاش کرلیاجاتا۔

 کھاہی کے مقام پر جو واقعہ ہوا وہ غلط تھا۔ اس پر حکومت اور سول سوسائٹی کو سوچنا چاہئے۔ ویسے اس طرح کی سوچ کو اجاگر کرنے کے کئی اسباب ہیں۔ جس میں بڑی وجہ غربت اور جہالت ہے۔ اگر کھیمی کولہی کے والدین کے پاس پیسے ہوتے ، وہ شاید اس جعلی عامل کے چکر میں نہیں پڑتے۔ جب انسان کے پاس کوئی موثر ذریعہ نہیں ہوتا، وہ خود کو دلاسہ دینے کے لئے ایسے اقدامات کرتا ہے۔ اگر اس واقعہ میں ہم جعلی عامل کو قصوروار سمجھتے ہیں تو حکمرانوں کو بھی اس الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ ان والدین کو معصوم قرار دیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب مل کر اپنی آنے والی نسل کو جہالت کے اندھیروں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہم سب کو ان عقیدوں اور ان کی وجوہات کے خلاف جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اب دنیا میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں، انسان سیاروں کو تسخیر کر رہا ہے ہم ہیں کہ معمولی مرض کی تشخیص کرنے سے قاصر ہیں۔ 

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صرف بے اختیار منتخب حکومت کو ملکی بحران کے لئے ذمہ دار قرار دینا درست نہیں۔ ریاست پر قابض اصل افراد کا احتساب ہونا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا ہ عوام اور غیر منتخب نمائندوں کے درمیان طاقت کا توازن جمہوریت کے لئے سب سے بڑا چیلینج ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادارے عوام کی مرضی کے تابع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ سندھی وزیراعظم کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ 

 پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ قیام پاکستان سے لیکر مختلف طبقات اٹھاتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ستر سال گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہونے چاہئیں یا غیر منتخب افراد یا اداروں کے پاس؟ اختیارات کی اس رسا کشی میں ملک اور ملی ادارے ترقی نہیں کر سکے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوا نہیں ہے اور کوئی بھی اپنے حصے کا فرض ایمانداری سے نبھانے کے لئے تیار نہیں۔ 

 منتخب جمہوری حکومتیں صورتحال کے لئے آمریتوں کو ذمہ دار قرار دیتی رہی ہیں۔ جبکہ فوجی اداروں کے نزدیک اس کے لئے سیاسی اور سویلین حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ اس سے اختلاف نہیں کای جا سکتا کہ جب بھی منتخب حکومت آئی ہے تو اس کا تمام وقت عوام کے لئے کام کرنے کے واسطے اختیارات حاصل کرنے میں صرف ہوتا رہا ہے۔ ان کوششوں میں اکثر سویلین حکومتوں کو اقتدار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ اگر کسی نے آئینی مدت پوری بھی کی ہے، انہیں یہ شکوہ رہا ہے کہ انہیں نہ خارجہ پالیسی میں نہ سیکیورٹی پلایسی اور نہ ہی کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے کا ا ختیار رہا ہے۔ ان اختیارات کی جنگ میں جب سویلین حکومتیں اقتدار کھو بیٹھتی ہیں تو ان کے خلاف فائیلیں کھل جاتی ہیں۔ پھر وئی قید ہو جاتا ہے تو کوئی بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ 

 بلاشبہ عدلیہ اور غیر سویلین اداروں کی کاروائیاں صرف سویلین اور منتخب حکومتوں اور افراد کے خلاف ہوتی رہی ہیں۔ اب صورتحال کا نئے سرے سے جائزہ لینے اور موثر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بار بار کے بحرانوں سے بچا جاسکے اور ملکی ترقی کی حقیقی راہ پر گامزن ہو سکے۔ 

Friday, April 1, 2016

مردم شماری غیر معینہ مدت تک ملتوی



سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
گزشتہ روز سندھ کے دارلحکومت کراچی میں سندھ پروفیسرز انیڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی جانب سے محکمہ تعلیم میں کرپشن اور خراب حکمرانی کے خاتمے، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی اپ گریڈیشن ، سنیئر اساتذہ کو انتظامی عہدوں پر تقرری کے مطالبات تسلیم کرنے کے لئے احتجاج کیا گیا۔ اس موقعہ پر کمشنر کراچی نے ان سے مذاکرات بھی کئے۔ جس کی ناکامی کے بعد اساتذہ نے چیف منسٹر ہاﺅس کی طرف مارچ کیا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چار کیا اور واٹر کین کا بھی استعمال کیا۔ کسی بھی جمہوری دور میں احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور متعلقہ حکام تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن کراچی میں جس طرح سے سندھ بھر سے آئے ہوئے اساتذہ کا استقبال کیا گیا یہ عمل کسی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ اساتذہ کے پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ایک الگ سوال ہے۔ لیکن پرامن احتجاج کرنے والے نہتھے اساتذہ پر تشدد نے آمریت کے دور کی یاد تازہ کردی۔ جس میں کسی کو بھی پرامن احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 
 اس میں شک نہیں کہ مجموعی طور پر سندھ میں تعلیم مکمل طور پر تباہ ہے۔ پرائمری سے کالج تک تعلیم کا برا حال ہے۔ کئی اسکول زبون حال ہیں۔ کئی اسکولوں اور کالجوں کو چودیواری نہیں ، کہیں بچے نہیں تو کہیں اساتذہ نہیں۔ بعض اسکول وڈیروں کی اوطاق یا مال بے باڑے بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری تعلیم کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کا کاروبار زوروں پر ہے۔ تعلیم کی اس زبون حالی کی ذمہ داری صرف کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتی۔ حکومت، اساتذہ، والدین اور طلباءسب کو مل کر تعلیم کی بہتری کے لئے اپنا کرادار ادا کرنا پڑے گا۔ ہر سال تعلیم کی مد میں کروروڑوں روپے کا بجٹ رکھا جاتا ہے لیکن یہ نظام آکسیجن پر ہی چل رہا ہے۔ 
 جہاں تک اساتذة کے احتجاج کی بات ہے، اس ضمن میں حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری رکنی چاہئیں۔ تاکہ معاملہ احتجاجوں تک نہ پہنچے ۔ پھر بھی اگر کہیں احتجاج ہوتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت نہتھے مظاہرین پر مظالم
نہ ڈھائے۔
 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ صوبے کے مختلف علاقوں میں بچوں میں خسرے کی بیماری پھیلنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ حیدرآباد کے دیہی علاقے میں یہ مرض وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں کئی بچے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ٹنڈو جام کے قریب گوٹھ سانون گوپانگ میں تین بہن بھائی اس مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔ اس کے بعد علاقے میں دکھ اور خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس قسم کی مسلسل خبریں شایع ہو رہی ہیں لیکن محکمہ صحت کوئی تدارک نہیں کر رہا۔ ہر مرتبہ موسم تبدیل ہونے پر اس قسم کی بیمایریاں عام ہونے لگتی ہیں۔ ان امراض کی ویکسین کا اعلان تو کیا ہوا ہے لیکن عام آدمی کو اس سہولت کا پتہ نہیں۔ محکمہ صحت کی غیر ذمہ داری، مقامی ہسپتالوں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ویکسین کی سہولت ہر بچے تک نہیں پہنچ پاتی۔ 
 جب کوئی بیماری گاﺅں کے گاﺅں لپیٹ میں لے لیتی ہے، اور معصوم بچوں کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں، تب محکمہ صحت کا کوئی نام نشان تو نظر آنا چاہئے۔ ا فسو یہ ہے کہ اس طرح کی بیماریاں غریب طبقے میں زیادہ ہوتی ہیں جنہیں بہتر علاج کی سہولیات حاصل نہیں۔ حکومت سندھ سے مطالبہ ہے کہ خسرے کی بیماری کے علاج کے لئے فوری طور پر اقدامات کرے اور اس کے ساتھ ساتھ موسم کی تبدیلی پر پیدا ہونے والی بیماریوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کرے تاکہ معصوم بچوں کی زندگی اور ان کو پہنچنے والی تکالیف سے بچا جا سکے۔ 
 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ کے شدید اعتراضات کے باوجود مشترکہ مفادات کی کونسل نے نے مردم شماری کا معاملہ غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا ہے۔ مردم شماری اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے ملک میں رہنے والے افراد، صوبوں میں آبادی کے رجحان، ملک کے انرونی علاقوں میں نقل مکانی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ مردم شماری اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی بنیاد پر قومی مالیاتی ایوارڈ کی تقسیم، قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم اور اضافہ کرنا، داخلوں اور ملازمتوں میں صوبوں کا کوتہ مقرر کران شامل ہوتا ہے۔ ان معاملات کا تعین مردم شماری کی تفصیلات آنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اٹھارہ برس سے مردم شماری کا معاملہ التوا میں پڑا ہواہے۔ جس کی وجہ سے مندرجہ بالا معاملات بھی لاتوا کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب مردم شماری پر رضامند نہیں۔ پنجاب کے مقابلے میں دوسرے صوبوں میں آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں جہاں ملک بھر کے مصیبت زدہ لوگ آکر آباد ہپوئے۔ یہاں غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس لئے سندھ میں ڈیٰموگرافی تبدیل ہو چکی ہے، جس کے اثرات معاشی، سماجی، ثقافتی اور امن و امان کے حوالے سے گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں۔ صرف حکومت سندھ ہی نہیں سندھ کے قوم پرست حلقے اس ضمن میں مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ لہٰذا سندھ کے اس مطالبے کو وزن دینا چاہئے۔ سندھ چاہتا ہے کہ مردم شماری کراکے معاملات کا صحیح اداراک کیا جائے۔ اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کی جائے تاکہ مختلف تضادات کا پر امن اور جائز حل نکل سکے۔