Friday, November 27, 2015

خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

گنے کے بعد دھان کی قیمتوں کا تنازع، 
خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس، 
احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھی چارج 
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
 سندھ میں ابھی گنے کی قیمت کا بحران خت پر مال مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان تنازع ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ دھان کی قیمتوں کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ چاول پیدا کرنے والے علاقے لاڑکانہ ڈویزن میں ایک ہزار سے زائد رائیس ملیں اور منڈیاں بند ہوگئی ہیں اور تاجروں نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ گنے کے بحران سے سندھ کے زیریں علاقہ کی زرعی معیشت متاثر ہوئی تھی جبکہ دھان کے بحران سے صوبے کے بالائی علاقے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ 
دلچسپ امر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے دھان کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ڈپٹی کمشنر کو دے دیا ہے۔ محکمہ خواراک اور دگر اداروں کو ایک طرف رکھ کر ملکی برآمدات کے اس جنس کو ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر نے دھان کی فی من قیمت 900 روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہائبرڈ اور نمی والے دھان پر دو سے تین کلو کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ 

 روزنامہ کاوش ”خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس پر توجہ دیں“ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ خراب حکمرانی کو نظر انداز کر کے عوام کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربارہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کی جس میں چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبے کے بارے میں رپورٹیں پیش کیں۔ 
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے حکومت سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کرت ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ نے کراچی کی صنعتوں کو نوٹس جاری کئے ہیں۔ اور تمام ٹریٹمنٹ پلانٹون کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس 2003 کا ہے اور بارہ سال میں حکومت نے صرف نوٹس جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ باقی سب کام چھوڑ کر خراب حکمرانی کے معاملات کو دیکھے؟ 

 یہ بات ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے کئی علاقے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بلدیات میں گھوسٹ ملازمین کی بھر مار ہے۔ کیا صفائی کے کام کی نگرانی بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کریں؟ ملکی اعلیٰ ترین عدالت کی صوبائی حکومتوں پر برہمی درست ہے۔ صرف سندھ کی حالت کو دیکھا جائے، کئی صنعتی ادارے ماحولیات کو آلودہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ 
کئی شگر ملوں کا آلودہ پانی انسانی بستیوں کے قریب سے گزرتا ہے۔ جس کی وجہ سے سانس اور چمڑی کی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس زہریلے اور آلودہ پانی کی بدبو نے رہائشیوں کا جینا محال کر دیا ہے۔
 شہروں کی حالت یہ ہے کہ ہر طرف گندگی کے ڈھیر زنظر آتے ہیں۔ 
سندھ کے شہر اجڑ چکے ہیں اور کھنڈرات کا سماں پیش کر رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف امراض شہریوں کی زندگی کا جز لازم بن چکے ہیں۔ اور ہسپتالوں میں مریضوں کی رش ہے کہ ایمرجنسی میں بھی کوئی بسترہ خالی نہیں ملتا۔
 معاملہ صرف ماحولیاتی آلودگی یا کسی ایک محکمے کی خراب کارکردگی کا نہیں۔ اصل قصہ حکمرانی کے انداز کا ہے۔ ادارہ جس طرح کی کارکردگی دکھائیں گے حکمرانی کا عکس اسی سے ظاہر ہوگا۔ سندھ کو ایک طویل عرصے سے اچھے حکمرانی کا ثمر نہیں ملا ہے۔بدتر حکمرانی کا ایسا دور آیا کہ ہر معاملے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو مداخلت رکنی پڑ رہی ہے۔
اگر حکومت سندھ کی کارکردگی اور انداز حکمرانی کو دیکھا جائے تو سفید سیاسہ سب عاں ہو جائیں گے۔ تعلیم ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن یہ اہم شعبہ بھی آکسیجن پر چل رہا ہے۔ کئی اسکول گودام، مویشیوں کے باڑے یا اوطاقیں بنے ہوئے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا غیر معیاری ہو گیا ہے کہ والدین غیر سرکاری اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ محکمہ صحت کو خود بیمار ہے اور علاج کا متقاضی ہے ۔ 
پولیس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے اہلکار بھوتاروں کے کہنے پر چلتے ہیں۔ بہتر حکمرانی ایک خواب سا لگتا ہے۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی عوام کے مسائل سے لاتعلقی ہے۔ اداروں کی باگ دوڑ صحیح ہاتھوں میں نہیں۔ عوام کے دکھ درد اور مسائل بہتر حکمرانی کے ذریعے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ اور بہتر حکمرانی کے لئے حکمرانی کا انداز تبدیل کرنا پڑے گا۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ تیسرے مرحلے کے انتخابات ایک ہفتے بعد ہونگے۔ جب کہ آدھا مرحلہ اور بھی باقی ہے۔ وہ ہے صوبے کے 14 اضلاع میں 80 سے زائد اداروں میں اور ایک مکمل ضلع میں ملتوی شدہ انتخابات منعقد کرانا باقی ہیں۔ بھوتار ابھی سے ” ظل سبحانی بننے کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سیاسی تاجر بھی میدان میں آگئے ہیں۔ ۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں یہ عمل جاری ہے۔ اس معاملے میں سیاسی اخلاقیات کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل عوام کے ووٹ سے دھاندلی ہے۔ 

 روز نامہ عبرت نے اساتذہ پر کراچی میں لاٹھی چارج کے خلاف اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ روز حکومت نے اس وقت تمام حدود پار کر لی جب کراچی میں اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا گیا۔اس طرح لاٹھیاں شاید مجرموں پر بھی نہیں برسائی گئی ہونگی۔ 
سندھ بھر سے پرائمری استاد اور ایجوکیشن کے ملازمین مطالبات منوانے کے لئے کراچی پہنچے تھے۔ انہوں نے آتھ گھنٹے تک دھرنا دیا۔ لیکن حکومت کا کوئی بھی ذمہ دار عہدیدار ان سے ملنے، بات چیت کرنے یا یہ پوچھنے تک نہیں آیا کہ آخر آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟ بحالت مجبوری اساتذہ نے چیف منسٹر ہاﺅس کی طرف مارچ کیا۔ راستے میں اساتذہ کو روک کر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔

 سندھ کی تعلیم کو ایک نئے ویزن کی ضرورت ہے۔ اس کے بگاڑ میں سرکاری افسران، سیاستدانوں سے لے کر اساتذہ تک سب شامل ہیں۔ لیکن احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھیاں برسانا کسی طور پر بھی جمہوری ای انسانی قدم نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اساتذہ اور محکمہ کے احتجاج کرنے والے ملازمین سے بات چیت کرے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ محکمہ کو کوئی نیا ویزن دے۔ 

 Nai baat Nov 27, 2015

Thursday, November 19, 2015

کئی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نچلی سطح تک موجود ہی نہیں



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 
۰۲۔ نومبر ۵۱۰۲ع

سندھ میں گزشتہ ایک ہفتے تک بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی گہماگہمی رہی۔ اخبارات نے بھی اداریے، کالم اور
 مضامین اسی موضوع پر شایع ہوتے رہے۔ اخبارات کی زیادہ تر توجہ اس معاملے پر تھی کہ پہلے مرحلے میں خیرپور ضلع میں جو بارہ افراد کا قتل ہوا تھا اس واقعہ کو کسی طرح سے نہ دہرایا جائے۔ اخبارات مختلف حوالوں سے انتظامیہ کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے رہے تاکہ انتخابات صاف شفاف اور پع امن ہو سکیں۔ میڈیا کا رول اس وجہ سے بھی سامنے آیا کہ روزنامک کاوش اور دیگر بعض اخبارات نے صرف انتخابی سرگرمیوں اور انتظامیہ کو مشورہ دینے تک میڈٰا کو محدود نہیں رکھا، بلکہ ہر ضلع کا پروفائل بھی دیا کہ وہاں پر شہری اور بنیادی سہولیات کی کیا صورتحال ہے؟ کون کون سے منصوبے ادھورے پڑے ہوئے ہیں میڈیا کا یہ ایک روشن پہلو تھا جس کے ذریعے ووٹروں، امیدواروں اور سیاسی جماعتوں وک یاد دلایا جاتا رہا کہ وہ شہری سہولیات کی عدم موجودگی پر بات کریں اور عوام سے وعدے کریں۔ 
 دوسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کی صورتحال پر اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ یہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے یہ پہلے بلدیاتی انتخابات تھے ۔ ورنہ اس سے پہلے یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے ہیں ۔ان انتخابات میں یہ بات عیان ہوگئی کہ کئی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نچلی سطح تک موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئے صرف حکمران جماعتیں ہی فائدے میں رہیں۔ خواہ سندھ میں پیپلزپارٹی ہو یا پنجاب میں نواز لیگ یا پھر کے پی میں تحریک انصاف۔ 

 آتھ سال قبل جمہوریت کا سلسلہ دوبارہ جڑا ہے تب سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کم اور اپنی کرسی بچانے پر زور زیادہ دیتی رہی ہیں۔ شاید یہی سلسلہ آگے بھی جاری رہے۔ اس کی بناید وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعتوں نے تعلیم ، روزگار، صحت، مواصالات اور دیگر اہم امور کی طرف توجہ نہیں دی ۔ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہارنے والی جماعت ہمہشہ جیتنے والوں پر دھاندلی کے الزامات خواہ ان میں کوئی وزن یا سچائی نہ بھی ہو، عائد کرتی ہے ۔ نتیجے میں مقامی، صوبائی اور ملکی سطح پر انتشار پھیلتا ہے۔ اور یہ صورتحال ام ومان خراب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ 
 دوسرے مرحلے کے انتخابات کے دوران بعض الیکشن عملے کی کوتاہیاں بھی نظر آئیں۔ حیدرآبا کی دو یو سیز میں انتخابی نشان غلط چھپے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے یہاں پولنگ ملتوی کرنی پڑی۔ ہارنے والوں کو اپنی شکست قبول کرنی چاہئے اور جیتنے والوں کو کھلے دل کے ساتھ ہارنے ولاوں سے ہاتھ ملا کر ساتھ مل کر چلنا چاہئے تاکہ عام لوگوں کو شہری سہولیات میسر ہو سکیں۔ 

 روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے روڈ پروٹیکشن ایجنسی کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا ہے تاکہ روڈوں پر ہونے والی بڑی سرمایہ کاری کا تحفظ کیا جاسکے۔ صوبائی حکوم نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے غیر ملکی فنڈنگ پر مشتمل منصوبوں کی نگرانی کرنے اور ملکی خواہ غیر ملکی اداروں سے کلئرنس ھاصل کرنے کے لئے ایک فوکل پرسن کے تقرر کی بھی منظوری دی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ صوبے میں 560 کلو میٹر کے 181 منصوبے معایری کام کے ساتھ مقررہ مدت میں مکمل کئے جائیں ۔ 
ان منصوبوں کے لئے تین ارب روپے پہلے ہی جاری کئے جا چکے ہیں ۔ ان سڑکوں میں سے 50 کلو میٹر ٹھٹہ کراچی رود کو ڈبل کرنا، سانگھڑ نواب شاہ 60 کلو میٹر روڈ کو مکمل کرنا شامل ہے ۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ صوبے میں سڑکوں کا جال بچھانے کے لئے ایک جامع فارمولا بنائے۔ ان سڑکوں کی تعمیر اولیت کی بناید پر کی جائے جن کا تعلق براہ راست صوبے کی معیشت سے ہے۔ یہ سڑکیں کچھ اس طرح کی بنائی جائیں کی آئندہ تیس سال تک ان کی مرمت یا دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ سڑکوں کا معیار، ان کی ضرورت کی بنیاد پر تعمیر اور وقت پر کام مکمل ہونا یہ تینوں شرائط بہت اہم ہیں۔ جن کا تعمیراتی کام کے دوران خیال رکھا جانا چاہئے ۔

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ اگرچہ ہمارا ملک زرعی ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ جیسے ہی فصل تیار ہوتی ہے اس کی قیمتوں کا تنازع اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اب سندھ میں گنے کی فصل تیار ہو چکی ہے لیکن اس کی قیمت طے نہیں ہوسکی ہے۔ کاشتکاروں کا مطالبہ ہے 230 روپے فی من گنے کی قیمت مقرر کی جائے۔ پاکستان شگر ملز ایسو سی ایشن 160 روپے فی من پر ہی بضد ہے ۔ گنے کی پسائی اکتوبر میں شروع ہونی تھی۔ لیک نومبر کا ا نصف ماہ گزر چکا ہے، اور فسل سوکھ رہی ہے۔ ن تاحال اس کی قیمت مقرر نہیں کی جاسکی ہے ۔ گزشتہ بر بھی جب گنے کی فصل اتری تھی تو قیمت کا معاملہ کھڑا ہو گیا تھا۔ حکومت اور محکمہ زراعت اس معاملے میں سنججیدہ نظر نہین آرہے ہیں۔ لہٰذا گنے کی قیمت کے جھگڑے کو طول دیا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد سے جلد گنے کی قیمت کا تعین کر کے صوبے کی زرعی معیشت کو بحران سے بچایا جائے۔

 روزنامہ نئی بات کے لئے 

Tuesday, November 17, 2015

آپریشن کے اخراجات

سندھ نامہ سہیل سانگی 
 کراچی میں جاری دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے اخراجات کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہی ہے۔ اخبارات نے سندھ حکومت کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے بارہ ارب روپے مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وفاقی حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی۔ روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ آپریشن کا تمام کریڈٹ کی دعوا کرنے والی وفاقی حکومت کو اس کے اخراجات بھی اٹھانے چاہئے۔ آپریشن میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کے ازالے کے لئے مطلوبہ وسائل کا بھی بندوبست کرنا چاہئے ۔ اخبار نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سندھ کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کرے۔ 

 روزنامہ عوامی آواز نے اپنے ایک اور اداریے میں وزیراعظم کی کراچی میں منعقدہ دیوالی کے تہوار میں شرکت کو سراہا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں بھگت کنور میڈیکل کامپلیکس تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیر اعظم کی ہندوﺅں کے تہوار میں شرکت پڑوسی ملک میں انتہا پسندی کی تازہ سیریل پر وار ہے ۔ اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کے رویوں کے بارے میں صاف آئینہ مل گیا ہے ۔

 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت بعض بلدیاتی اداروں میں تین سو گھوسٹ ملازمین کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ شعبہ انسداد دہشتگردی کے ایس ایس پی نوید خواجہ نے ایک انٹریو میں بتایا کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے دہشتگردوں نے دوران تفتیش ا عتراف کیا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں تین سو سے زائد گھوسٹ ملازمین کا تعلق بھارتی ایجنسی ”را“ سے ہے۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان نے اپنا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی ظاہر کیا ہے۔ ان افراد نے محمد انور اور محمود صدیقی کے نام بطور سہولت کار بتائے ہیں ۔

دنیا کے پرامن اور ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکی افراد کا غیر قانونی طور پرقیام اتنا آسان نہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں افغان پناہ گزین ہوں یا دیگر پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن، وہ لاکھوں کی تعدا میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ کئی سال سے پاکستان ان کا بوجہ اٹھاتا رہا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ اور قانونی طور رہنے کے دستاویزات کی مناسب جاچ پڑتال نہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان غیر قانونی تارکین وطن کے پہنچنے کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں۔ نتیجے میں غیر قانونی تارکین وطن دعض اداروں اور افراد کی مدد سے خود کو سرکاری ملازمتوں بھی بھرتی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی اداروں میں بھی اس طرح کا آپریشن کیا جائے جس سے ان عناصر کا خاتمہ ہو سکے جو تخریبکاروں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اور یہی لوگ ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ آج کل ملک میں حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کے تعین ، پارلیمان کی اہمیت اور آئین کی حکمرانی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے ۔ بحث کا مرکزی نقطہ نیشنل ایکشن پلان ہے جس کے تحت خیال ہے کہ ملک کی تعمیر نو کی جارہی ہے ۔ آج اس پلان کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس پلان پر کس حد تک عمل ہوا؟ اور ابھی کتنا باقی ہے؟ اس پلان پر حکومت کتنی سنجیدگی کے ساتھعمل کر رہی ہے؟ اداروں کا ایک دوسرے سے کس حد تک تعاون ہے؟ اس میں کونسے اداروں کا کیا اختیار ہے؟ کس ادارے کی حدود اختیارات کہاں شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں؟ اس طرح کے سوالات جب عام ہونے لگے تو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی کہ آخر کیا اسباب ہیں کہ انتے برس گزر جانے کے بعد بھی ملک میں نہ خوشحالی آسکی نہ لوگوں کو حقوق مل سکے اور نہ امن بحال ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ تاحال ادھورے ہی رہے ہیں ۔

 یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی نام سے کوئی بھی منصوبہ ہو، اس کا مقصد بہرحال عوام کی ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے۔ اگر یہ مقصد سامنے رکھا جائے تو پھر الجھاوہ یوں ہے؟ ہمارے پاس ایک جمہوری آئین موجود ہے۔ پھر جہاں بھی اداروں کی حود کے تعین کا سوال اٹھتا ہے، ہماری قیادت مایوسانہ انداز میں ایک دوسرے کا منہ تکنے کے بجائے اس سے رہنمائی کیوں نہیں حاصل کرتی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی ہم تمام مسائل اور مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں ۔ آئین میں ہر ادارے کے حدود اور کردار کا تعین کیا گیا ہے ۔اب سوال صرف کارکردگی کا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی کاکردگی بہتر بناتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرحلہ وار ہم وہ نتائج یقیننا حاصل کر لیں گے جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کے باعث بنیں گے۔ 

 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ملک کی جبلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خسارے کی حد 13.9 سے بڑھاکر15.27 مقرر کرید گئی ہے۔ جس کے بعد بجلی پیدا کرنے والی اور سپلائی کرنے والی کمپنیاں اپنے خسارے کی مد میں 2.27 فیصد رقم بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کر رہی ہیں۔ سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی ملک بھر میں خسارے کے حوالے سے پہلے نمبر پر اور حیسکو دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی جانے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بجلی کا بحران برسہا برس سے جاری ہے اور نہ حل ہونے کی کوئی تدبیر ہے اور نہ ختم ہونے کا کوئی امکان۔ قصہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی کے ذریعے روشنی فراہم کرنے والا ادارہ خود اندھیروں کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کی چوری، لائین لاس، یا پھر صارفین سے اضافی بلوں کی وصولی کی شکایات اس ادارے کی ساکھ کو پرکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ بجلی کے میٹر جو صارفین کو دیئے گئے ہیں وہ وہ پہلے ہی تیز رفتار ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کی دس بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو 2.27 فیصد اضافی رقم وصول کرنے کی اجازت دینا کسی بھی طور رپر دانشمندانہ قدم نہیں۔ 

For Nai Baat 
 Nov 13, 2015

Friday, November 13, 2015

حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کا تعین


حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کا تعین
Nov 13, 2015 for Nai Baat
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 کراچی میں جاری دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے اخراجات کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہی ہے۔ اخبارات نے سندھ حکومت کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے بارہ ارب روپے مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وفاقی حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی۔ روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ آپریشن کا تمام کریڈٹ کی دعوا کرنے والی وفاقی حکومت کو اس کے اخراجات بھی اٹھانے چاہئے۔ آپریشن میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کے ازالے کے لئے مطلوبہ وسائل کا بھی بندوبست کرنا چاہئے ۔ اخبار نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سندھ کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کرے۔ روزنامہ عوامی آواز نے اپنے ایک اور اداریے میں وزیراعظم کی کراچی میں منعقدہ دیوالی کے تہوار میں شرکت کو سراہا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں بھگت کنور میڈیکل کامپلیکس تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیر اعظم کی ہندوﺅں کے تہوار میں شرکت پڑوسی ملک میں انتہا پسندی کی تازہ سیریل پر وار ہے ۔ اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کے رویوں کے بارے میں صاف آئینہ مل گیا ہے ۔
 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت بعض بلدیاتی اداروں میں تین سو گھوسٹ ملازمین کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ شعبہ انسداد دہشتگردی کے ایس ایس پی نوید خواجہ نے ایک انٹریو میں بتایا کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے دہشتگردوں نے دوران تفتیش ا عتراف کیا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں تین سو سے زائد گھوسٹ ملازمین کا تعلق بھارتی ایجنسی ”را“ سے ہے۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان نے اپنا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی ظاہر کیا ہے۔ ان افراد نے محمد انور اور محمود صدیقی کے نام بطور سہولت کار بتائے ہیں ۔
دنیا کے پرامن اور ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکی افراد کا غیر قانونی طور پرقیام اتنا آسان نہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں افغان پناہ گزین ہوں یا دیگر پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن، وہ لاکھوں کی تعدا میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ کئی سال سے پاکستان ان کا بوجہ اٹھاتا رہا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ اور قانونی طور رہنے کے دستاویزات کی مناسب جاچ پڑتال نہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان غیر قانونی تارکین وطن کے پہنچنے کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں۔ نتیجے میں غیر قانونی تارکین وطن دعض اداروں اور افراد کی مدد سے خود کو سرکاری ملازمتوں بھی بھرتی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی اداروں میں بھی اس طرح کا آپریشن کیا جائے جس سے ان عناصر کا خاتمہ ہو سکے جو تخریبکاروں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اور یہی لوگ ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ 
 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ آج کل ملک میں حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کے تعین ، پارلیمان کی اہمیت اور آئین کی حکمرانی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے ۔ بحث کا مرکزی نقطہ نیشنل ایکشن پلان ہے جس کے تحت خیال ہے کہ ملک کی تعمیر نو کی جارہی ہے ۔ آج اس پلان کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس پلان پر کس حد تک عمل ہوا؟ اور ابھی کتنا باقی ہے؟ اس پلان پر حکومت کتنی سنجیدگی کے ساتھعمل کر رہی ہے؟ اداروں کا ایک دوسرے سے کس حد تک تعاون ہے؟ اس میں کونسے اداروں کا کیا اختیار ہے؟ کس ادارے کی حدود اختیارات کہاں شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں؟ اس طرح کے سوالات جب عام ہونے لگے تو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی کہ آخر کیا اسباب ہیں کہ انتے برس گزر جانے کے بعد بھی ملک میں نہ خوشحالی آسکی نہ لوگوں کو حقوق مل سکے اور نہ امن بحال ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ تاحال ادھورے ہی رہے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی نام سے کوئی بھی منصوبہ ہو، اس کا مقصد بہرحال عوام کی ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے۔ اگر یہ مقصد سامنے رکھا جائے تو پھر الجھاوہ یوں ہے؟ ہمارے پاس ایک جمہوری آئین موجود ہے۔ پھر جہاں بھی اداروں کی حود کے تعین کا سوال اٹھتا ہے، ہماری قیادت مایوسانہ انداز میں ایک دوسرے کا منہ تکنے کے بجائے اس سے رہنمائی کیوں نہیں حاصل کرتی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی ہم تمام مسائل اور مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں ۔ آئین میں ہر ادارے کے حدود اور کردار کا تعین کیا گیا ہے ۔اب سوال صرف کارکردگی کا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی کاکردگی بہتر بناتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرحلہ وار ہم وہ نتائج یقیننا حاصل کر لیں گے جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کے باعث بنیں گے۔ 
 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ملک کی جبلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خسارے کی حد 13.9 سے بڑھاکر15.27 مقرر کرید گئی ہے۔ جس کے بعد بجلی پیدا کرنے والی اور سپلائی کرنے والی کمپنیاں اپنے خسارے کی مد میں 2.27 فیصد رقم بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کر رہی ہیں۔ سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی ملک بھر میں خسارے کے حوالے سے پہلے نمبر پر اور حیسکو دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی جانے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بجلی کا بحران برسہا برس سے جاری ہے اور نہ حل ہونے کی کوئی تدبیر ہے اور نہ ختم ہونے کا کوئی امکان۔ قصہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی کے ذریعے روشنی فراہم کرنے والا ادارہ خود اندھیروں کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کی چوری، لائین لاس، یا پھر صارفین سے اضافی بلوں کی وصولی کی شکایات اس ادارے کی ساکھ کو پرکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ بجلی کے میٹر جو صارفین کو دیئے گئے ہیں وہ وہ پہلے ہی تیز رفتار ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کی دس بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو 2.27 فیصد اضافی رقم وصول کرنے کی اجازت دینا کسی بھی طور رپر دانشمندانہ قدم نہیں۔

for Nai Baat 

Friday, November 6, 2015

د سندھ اب دوسرے مرحلے کی طرف

سندھ نامہ سہیل سانگی 
 بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد سندھ اب دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔پہلے مرحلے کے انتخابات میں گیارہ افراد مارے گئے۔ سندھ کے اخبارات نے ان انتخابات کو ہی اپنا موضوع بنایا ہے۔ اداریوں، کالموں اور تجزیوں میں انتخابات کے انتظامات، نتائج کے اثرات، اور نئے رجحانات پر لکھاہے۔ اخبارات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خیرپور جیسا واقعہ کسی اور ضلع میں نہ دہرایا جائے۔
 انتخابات کے نتائج پر رائے زنی کرتے ہوئے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سندھ چند بااثر خاندانوں کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے۔ جو اختیار اور اقتدار کی چابی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ خاندان اپنے گھر کے ہر فرد کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ اکثریت حاصل کرنے والی ان سیاسی جماعتوں کے پاس ان اضلاع میں کوئی اور آپشن نہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اسٹیٹسکو برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔ پہلے مرحلے بعد دوسرے مرحلے میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم زمین کے قطع کی طرح ہونے جارہی ہے۔ سندھ ایک بار پھر بھوتاروں کی جیب میں جا رہی ہے۔ جہاں بلدیاتی ادارے پہلے سے اے ٹی ایم بنے ہوئے ہیں۔ جب چاہیں جتنا چاہیں پیسے نکال سکتے ہیں۔ پہلے ٹی ایم اوز تھے اگرچہ وہ بھی ان بھوتاروں کے غلاموں کی طرح ہی تھے اور ہر حکم بجا لاتے تھے۔ لیکن اب تو وہ خود براہ راست ان اختیارات کے مالک ہوگئے ہیں ۔ان کا احتساب کون کرے؟ عوام تو نہیں کر پا رہا ہے۔ اب نیب نے چند مقامات پر احتساب کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صوبائی معاملات میں نیب کی مداخلت کو جائز سمجھتے ہیں۔ ہم اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتین اور صوبائی حکومت اپنا خود احتسابی نظام قائم کرے تاکہ باہر سے کسی کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران نیب کی پکڑ دھکڑ کے بعد سندھ کے بلدیاتی اداروں کے اکوﺅنٹس میں کروڑہا روپے بچ گئے ہیں۔ جبکہ مختلف شہروں میں صفائی، نکاسی آب اور گلیوں اور سڑکوں کی حالت زار ہے۔ سندھ کے عوام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سہولیات سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات بھی ان کو شہری سہولیات نہیں دے سکے گا۔ 
 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ملک میں جب انتخابات کی موسم آتی ہے تو ہر شخص یہی ورد کرتا ہے کہ انتخابات خیر سے ہو جائیں۔ کہیں کوئی تصادم اور تضاد نہ ہو۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بارہ قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں۔ اب وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں فیصؒہ کیا گیا ہے کہ صوبے کے پندرہ اضلاع میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراچی کی طرز پر ٹارگیٹیڈ آپریشن کیا جائے گا۔ جبکہ حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں پر فوج اور رینجرز تعینات کرنے ، پیٹرولنگ کے لئے ریپڈ رسپانس فور س کو ذمہ داری دینے اور ایک ہفتے کے لئے اسلح کے لائسنس معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر پیشگی حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں تو درازا خیرپور کی طرز کے سانحے سے بچا جاسکتا ہے۔ بات صرف فیصلہ کرنے کی نہیں بلکہ ان فیصلوں پر پورے جذبے کے ساتھ عمل کرنے کی ہے ۔ 
روزنامہ عوامی آواز بھی اسی موضوع پر اداریے میں لکھتا ہے کہ الیکشن کو پرامن اور شفاف رکھنے کے لئے بھی اس طرح کے فیصلے ضروری
 ہیں۔