Monday, March 26, 2018

سندھ نامہ: واٹر پالیسی پر سندھ کے تحفظات


March 16 
واٹر پالیسی پر سندھ کے تحفظات
سندھ نامہ 
 سہیل سانگی 
سندھی میڈیا میں وائیس چانسلرز کے تقرر کے اختیارات گورنر سندھ کے بجائے وزیراعلیٰ کو دینے سے متعلق ایک بل اور کرشنا کولہی کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ کرشنا کولہی اگرچہ مجموعی طور پر کوئی اہم رول ادا نہ کرسکیں۔ لیکن اس اقدام کو شیڈٰیولڈ کاسٹ کی سیاست اور اقتدار میں داخلا کے طور پر اہمیت دی جارہی ہے۔
 واٹر پالیسی پر سندھ کے تحفظات 
 اخبارات میں سندھ کے مختلف اضلاع میں پانی کی شدت کی خبریں شایع ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ ذخائر میں پانی کی قلت بتائی جاتی ہے۔ سندھ کو یہ شکایت ہے کہ مجموعی پانی کی قلت سندھ کے حص میں ڈالی جارہی ہے۔ خاص طور پر پنجاب یہ قلت شیئر کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس اثناءمیں وفاقی حکومت کی جانب سے نیشنل واٹر پالیسی مرتب کی جارہی ہے۔ جس پر سندھ کے اخبارات نے اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ملک کے لئے واٹر پالیسی کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔ حتمی منظوری کے لئے یہ مسودہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں پیش کیا جائے گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے بریفنگ دیتے ہوئے نیشنل واٹر پالیسی میں پانی سے متعلق معاملات خاص طور پر مستقل کی مشکلات سے نمٹنے کے لئے سفارشات مرتب کر لی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی کے بحران کو حل کرنے کے لئے نہ صرف بڑے ڈیم بنانا ضروری ہیں اس کے ساتھ ساتھ پانی کے استعمال کو بھی بہتر بنانا پڑے گا۔ اس پالیسی میں پانی سے متعلق وفاقی اور صوبائی سطح کے اداروں کی صلاحیت بڑھانے اور ان کو مزید رقومات کی فراہمی کی سفارش کی گئی ہے۔ اور وفاقی خواہ صوبائی سطح پر نئے ادارے قائم کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔ واضح رہے کہ واٹر پالیسی سے متعلق سندھ کی تجاویز کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ اس کا خدشہ میڈیا میں شروع سے ظاہر کیا جارہا تھا۔ اگر سندھ کی تجاویز کو سنا نہیں جاتا، ایسے میں اس کو کس طرح قومی پالیسی کہا جاسکے گا؟ سندھ نے جو تجاویز دی تھی ان میں کالاباغ ڈٰم نہ بنانے کا اہم نقطہ پالیسی کے جز کے طور پر رکھنا شامل تھا۔ لیکن سندھ کی اس اہم تجویز کو سفارشات کا حصہ نہیں بنایاگیا۔ جبکہ مسودے میں نام لئے بغیر بڑے ڈیموں کی تعمیر کا ذکر موجود ہے۔ وفاقی حکومت واٹر پالیسی کو قومی قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر اس پالیسی میں سندھ کے تحفظات اور خدشات کو ایڈریس نہیں کیا جاتا تب تک اس پالیسی کو قومی نہیں کہا جاسکتا۔ پالیسی میں اس امر کی واضاحت کی جانی چاہئے کہ بڑے ڈیموں سے مراد کیا ہے؟ پانی وفاق کی یکجہتی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ وار پالیسی مرتب کرتے وقت اگر چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا گیا، آگے چل کر بڑے مسئلے کھڑے ہوںگے۔ لہٰذا ایسے منصوبوں کو پالیسی کا حصہ نہیں بنانا چاہئے جو متنازع ہوں اور جن پر اتفاق رائے نہ ہو۔

ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی فراہمی 
روزنامہ کاوش نے سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی فراہمی کی نشاندہی ہے ۔ اخبار کے مطابق یہ ایک تحقیات میںانکشاف ہوا ہے کہ مالی سال 2016-15 میں خرید کی گئی ادویات کی ڈرگ لیبارٹری سے معائنہ نہیں کرای گیا۔ ملیریا کنٹرول پروگرام میں خریدی گئی ادویات کا بھی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کرایا گیا۔ مختلف ہسپتالوں کے لئے خریدی گئی میڈیکل گیسز کی خریداری میں بھی بے قاعدگی۔اس کے علاوہ اخبار نے بنیادی سہولیات کی فراہمی والے منصوبوں میں بھی کرپشن کی نشنادہی کی ہے۔ جس کے مطابق واٹر سپلائی، ڈرینیج اور سولر منصوبوں میں کرپشن اکثر منصوبے صرف کاغذوں میں موجود ہیں۔ 152 میں سے 117 منصوبے مکمل بتائے گئے جن کے لئے روزانامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ صوبے کے بڑے شہروں میں قبضے کی جنگ شروع ہو چکی ہے بعض سیاسی جماعتوں نے میمبر سازی مہم شروع کردی ہے۔ 
خسرہ پھیلنے پر تشویش
روزنامہ عبرت صوبے کے مختلف علاقوں میں بچوں میں خسرہ پھیلنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ انتظامیہ اور خود والدین کی لاپروائی کی وجہ سے بچوں کی اموات واقع ہوئی ہیں۔ اس سطح پر خسرہ پھیلنے کی وجہ سے حفاظتی ٹیکے کے معیار پر سوالات کئے جارہے ہیں۔ ہر سال صحت کی مد میں ارب ہ روپے مختص کئے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سندھ میں صرف خسرے جیسے مرض پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔ تو باقی امراض سے چھٹکارہ دور کی بات ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ والدین میں امراض سے متعلق آگاہی نہیں، دوسری جاب محکمہ صحت کیا نتظامیہ کی کارکردگی بہتر نہیں، تیسرے یہ کہ حفاظتی ٹیکوں کا معیار بھی درست نہیں۔ اسن سب نے مل کر عام لوگوں کے لئے ایک تکلیفدہ صورتحال پیدا کردی ہے۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ خود خسرے کی بیماری کی وجہ سے اموات واقع نہیں ہوتی، بلکہ بچوں کی کمزوری اور غذائیت کی قلت کی وجہ سے بیماری کے حملے میں شدت آجاتی ہے۔ جن بچوں میں بعض اہم وٹامن کی کمی ہوتی ہے ان پر خسرے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اور وہ کمزوری اور خسرے کے بعد کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ محکمہ صحت کے ذمہ داران اور عوامی نمائندگی کے لوگ یہ بات سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر صوبے میں بچوں کی صحت پع توجہ دے اور بچوں میں غذائیت کی کمی اور خسرے کے بعد پیدا ہونے والے امراض سے متعلق آگاہی اور علاج کا بندوبست کرے۔ حکومت کو بطور مجموعی خسرے کے بارے میں بھی آگاہی مہم چلانی چاہئے۔ یہ اقدامت کر کے حکومت خاص طور پر دیہی علاقوں میں اپنے وجود کا اھساس دلائے۔ حکومت کی جانب سے موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف لوگ تکلیف بھگتتے ہیں بلکہ حکومت کے بارے میں بھی کوئی اچھا تاثر نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض توہمات کا بھی دروازہ کھل جاتا ہے۔ 

سندھ نامہ: خواتین کا عالمی دن اور سندھ کی عورت March 9

March 9 2018
سندھ نامہ سہیل سانگی
خواتین کا عالمی دن اور سندھ کی عورت 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سندھ کی اس نصف آبادی کا دن ہے جس کے غم و الم کی رات ابھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ جو کہ مشقت کے چکی میں پستے ہوئے قید بامشقت کی سزا بھگت رہی ہیں ۔ جس کے خون سے ان کے شوہر اپنی مونچھ کو سبز کرتے ہیں، جس کے بدن سے اپنی کلہاڑیوں کا زنگ اتارتے ہیں۔ آج کے سندھ کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہی پہچان بن کر رہ گئی ہے۔ ایک سندھ وہ تھی جب خواتین کو امان میں لیا جاتا تھا، اور جب خواتین چل کر آتی تھیں تو خون معاف کردیئے جاتے تھے۔ یہ روایت صحیح تھی یا غلط اس پر یہاں بحث نہیں کرتے، یہاں پر عورت کی توقیر اور احترام کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ باقی مجرموں کو جرم کی سزا سے بچنے کے لئے لڑکیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کسی تشریح اور تاویل کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ ہم خود کو موہن جو دڑو کی تہذیب کے وارث تو کہلواتے ہیں لیکن عورت دشمن رویے میں ہم ارتقا کے ادنیٰ مرحلے پر کسی غیر مةذب قبیلے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی سندھ ہے جس کو عظیم شاعر کی شاعری کی سورمی خواتین تھی۔ اگر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سے ان سورمیوں کو نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ 
موجودہ سندھ ماضی کی سندھ سے بہت مختلف ہے۔ یہ وہ سندھ نہیں جس میں مرد لجپال ہوتے تھے۔ آج وہ سندھ ہے جس میں بھوتار جرگوں میں بیٹھ کر عورت کی عصمت اور عزت کی قیمت طے کرتے ہیں۔ آج کی سندھ میں حقوق تو دور کی بات عورت کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ سندھ کی عورت آج بھی لگتا ہے کہ عرب کے دور جہالت میں زندہ ہے۔ سندھ کی اکثر خواتین یوں سمجھیں کہ سانس بھی مرد کی مرضی سے لیتی ہیں۔ وہ جب بھی چاہیں اکی سانس کی تار توڑ سکتے ہیں۔ عورت کی اس ابرت حالت کا سبب شعور کی کمی ہے۔ شعور کا تعلق تعلیم سے ہے۔ یہاں لڑکیوں کے اسکول بند ہیں لاکھوں بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ان بچیوں کے پاﺅں میں روایات کے زنجیر ڈال کر ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ شعور کا دوسرا برا ذریعہ ماضی میں نظریاتی سیاست تھی۔ اب نظریاتی سیاست کرنے والی نسل ہی نایاب ہو گئی ہے۔ ان تنظیموں میں بچیوں کی تربیت ہوتی تھی۔ اب سندھ کا سماج ڈٰ پولیٹیسایئیز ہو گیا ہے۔ کہنے کو سیاسی جماعتوں کی خواتین تنظیمیں موجود ہیں لیکن عملا یہ صرف نام کی ہیں۔ ان ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے نہ خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش لی جاتی ہے۔ 
سندھ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ اگرچہ حکمرانوں نے خود کو دنیا میں روشن خیال کلہالنے کے لئے خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی کر رکھی ہے، لیکن ان قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی عورت کے حالات تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ سندھ میں کواتین کی سب سے زیادہ تذلیل جرگوں میں ہوتی ہے۔ اگرچہ سندھ ہائی کورٹ نے 2004 میں جرگہ منعقد کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ لیکن حکومت اس عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانے کے لئے تیار نہیں۔

انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لئے مطلوبہ پانی 
 روزنامہ سندھ ایکسپریس انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لئے مطلوبہ پانی کی فراہمی کی ضرورت کے عنوان سے لکھتا ہے کہ انڈس ڈیلٹا سے متعلق حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1833 سے لیکر آج تک ڈیلٹا میں 93 فیصد کمی آئی ہے۔ 1833 میں انڈس ڈیلٹا کا علاقہ 12900 کلومیٹر تھا لیکن دریائی بہاﺅ میں تبدیلیوں، پانی کی قلت اور انسانی مداخلت کے باعث اب یہ ڈیلٹا صرف ایک ہزار کلومیٹر رہ گیا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی تباہی کا معاملہ جتنا سنگین ہے اتنا ہی ہر دور میں حکمرانوں نے اسے نظر انداز کیا ہے۔ دریائے سندھ میں کئی دہائیوں سے ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی رلیز نہ کرنے کے نتیجے میں انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر ہے۔ ڈیلٹا کے ساتھ صندھ کے دو اضلاع ٹھٹہ اور بدین تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ ہزارہا ایکڑ زرعی زمین نمکین پانی کی زد میں آچکی ہے۔ جس پر اب کاشت کرنا ناممکن ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے، تو دوسری طرف پنجاب اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے کہ کوٹری سے نیچے جو بھی پانی جاتا ہے وہ ضیاع ہے۔ پنجاب عالمی اداروں کی روپرٹس کے بعد بھی یہ حقیقت ماننے کے لئے تیار نہیں۔ 1990 کے معاہدے کے تحت ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی رلیز کرنا تھا وہ نہیں دیا جارہا ہے۔ ارسا کے حالیہ اجلاسوں اس بات کا ثبوت ہیں۔ دوسری جانب چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند کینا میں زبدو ¿ردستی پانی دیا جارہا ہے۔ 
 انڈس ڈیلٹا کی تباہی کے نتیجے میں سندھ کے جنوب میں ساحلی پٹی سمندر کی وجہ سے زیر آب آرہی ہے۔ ڈیلٹا کی موجودگی سے سمندر کے آگے جو قدرتی بند تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ جس کے بعد ساحلی پٹی میں ہر وقت سمندری طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کا ڈیلٹا بھی اس ملک کا حصہ ہے۔ اس کی تباہی سے انسانی آبادی معاشی کواہ سماجی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈیلٹا کے لئے مطلوبہ پانی جس کا پانی کے معاہدے میں وعدہ کیا ہوا ہے و اس حصے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
 روز نامہ عبرت بچوں میں پھیلنے والے امراض کے حوالے سے لکھتا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں سے بچوں میں مختلف امراض کے پھیلنے کی خبریں آرہی ہیں۔ انتظامیہ کی لاپروائی اور کوتاہی کی وجہ سے خسرے میں مبتلا کئی بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ چند روز قبل نوابشاہ میں غلط انجیکشن لگانے کی وجہ سے بچوں کی اموات کی خبر یقینن اچونکا دینے والی تھی۔ مختلف اضلاع میں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ابتدائی سال صحت کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں۔ حکومت علاج معالجے اور ادویات کے لئے ایک بڑی رقم مختص کرتی ہے۔ لیکن جب اس طرح کے واقعات رپورٹ ہونے لگتے ہیں تو یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر یہ رقومات اور یہ ادویات کہاں گئی؟ ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا کہ بعض اضلاع میں غیر استعمال شدہ ادویات خراب ہونے کے بعد پھینک دی گئی۔ یعنی محکمہ صحت اور اس کے اہلکار یہ ادویات استعمال کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے بلکہ ان کے استعمال کو بھی یقینی بنایا جائے۔ 

سندھ نامہ: محکمہ پولیس یا ڈیل ڈپارٹمنٹ Feb 24

غوا انڈسٹری پھرسرگرم 
سندھ نامہ سہیل سانگی 
”محکمہ پولیس یا ڈیل ڈپارٹمنٹ“ کے عنوان سے رووزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں کچھ عرصے کے سکون کے بعد ایک بار پھر اغوا انڈسٹری سرگرم ہو گئی ہے۔ گھروں، گلیوں اور سڑکوں سے لوگ اغوا ہپونے لگے ہیں۔ ایسی ہی ایک واردات شکارپور ضلع کے خانپور علاقے سے رپورٹ ہوئی ہے۔ پارکو لنک روڈ پر مسلح افراد نے پانچ لوگوں کو اغوا کرلیا۔ جن میں سے دو افراد مسلح افراد کی گرفت سے نکل کر واپس گھر پہنچے۔ واردات کے دو روز گزرنے کے بعد بھی شکارپور پولیس مغویوں کو بازیاب کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکی ہے۔ روایتی پکڑ دھکڑ اور بازیابی کا منافع بخش کاروبار شروع ہو چکا ہے۔ پولیس نے ایک روز قبل تین خواتین سمیت 9 افراد کی گرفتاری طاہر نہیں کی ہے۔ پولیس مغویوں کی رہائی کے لئے باثرافراد پنچائتی طریقہ کار اپنایا ہے۔ پولیس چاہتی ہے کہ اغواکاروں اور مغویوں کے ورثاءکے درمیان ڈیل ہو جائے، تاکہ پولیس کا کام آسان ہو۔ ویسے تو ملک بھر میں جمہوریت ہے لیکن سندھ میں یہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ جمہوریت کا مطلب ”آزادی“ سمجھتے ہوئے ، اس آزادی کا فائدہ جو ڈاکوﺅں اور امن دشمن عناصر نے اٹھایا ہے جس سے سندھ کا امن اور سکون تباہ ہو گیا ہے۔ اس صوبے میں امن و مان انتظامی ایجنڈا پر نہیں رہا۔ قانون کی عملداری اور بالادستی دور کی بات سندھ میں قانون اپنے وجود وجود کی بھی گواہی نہیں دے پا رہا ہے۔ یہ امر صرف مفروضہ نہیں۔ سندھ کے اخبارات سے امن و امان کا پتہ چل جاتا ہے۔ صرف خانپور کے قریب اغوا ہونے والے ہی یرغمال نہیں، صوبے میں کئی اور افراد بھی اغواکاروں کے قبضے میں ہیں۔ فضیلا سرکی کے اغوا کو ڈیڑھ عشرہ ہو چکا ہے۔ یہ لڑکی تا حال اغواکاروں کی گرفت میں ہے۔ شاید سندھ کے منتظمین اور پولیس سربراہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچی ان کے دور میں اغوا نہیں ہوئی، لہٰذا ان کو بازیاب کرانا ان کی ذمہ داری نہیں۔ ایسا ہی معاملہ عمران جوکھیو کا کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف مغوی ہی ڈاکوﺅں کے پاس یرغمال نہیں بلکہ ریاستی قانون بھی اغواکاوں اور امن دشمنوں کے پاس یرغمال ہے۔ یہی وجہ ہے اغوا کی وارداتیں دیدہ دلیری کے ساتھ ہوتی رہتی ہیں۔ کیا کیا جائے سندھ کے نتظمین کہتے ہیں کہ صوبے میں قانون کی بالادستی ہے۔ 
 خانپور کے قریب اغوا ہونے والوں سے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ پولیس ان کی بازیابی کے لئے ”راجونی“ یعنی پنچائت کے ذریعے کوششیں لے رہی ہے۔ ایسی کیا بات ہے کہ اغوکاروں تک پہنچنے اور ان کو قانون کی گرفت میں لانے میں پولیس کے پر جلنے لگتے ہیں؟ راجونی کوششوں کا یہ مطلب ہے کہ پولیس کو سب پتہ ہے۔ دراصل پولیس کا یہ پرانا طریقہ’ ’واردات“ ہے کہ جیسے ہی واردات ہوتی ہے، پولیس اغواکاروں اور مغویوں کے ورثاءکے درمیان ڈیل کے لئے سرگرم ہو جاتی ہے۔ جب پولیس اغواکاروں کو گرفتار کنے کے بجائے ڈٰل کے لئے سرگرم ہو جائے ، تب ایسا لگتا ہے محکمہ پولیس نہیں یہ ڈیل ڈپارٹمنٹ ہے۔ کیا پولیس کا یہی کام ہے؟ سندھ میں جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مجرموں کے اس کام میں قانون مداخلت نہیں کرتا۔ لیکن پھر بھی منتظمین کہتے ہیں کہ سندھ میں قانون کی حکمرانی ہے۔ جرم پروان ہی تب چڑھتا ہے جب اس کو کوئی چھتری مہیا ہوتی ہے۔ اغواکار اور امن کے دشمن لاوارث نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ان کو ذرا بھی تکلیف نہیں دینا چاہتی اور ڈیل کرانے شروع ہو جاتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ منتظمیں امن و امان کو ایجنڈا کا حصہ بنائیں، اور ڈیل کرانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کر کے یرغمالیوں کو بازیاب کرائیں۔
سرکاری فنڈز میں گڑبڑ 
 سرکاری فنڈز میں گڑبڑ اور احتساب کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں سرکاری سطح پر جاری ہونے والے فنڈز کا استعمال کس طرح سے ہوتا ہے اس کا اندازہ صوبے میں شہری خواہ دیہی ترقی سے لگایا جاسکتا ہے۔ موجودہ سرکاری اداروں کی ھالت سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر ان فنڈز کا استعمال نظر کیوں نہیں آتا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن جامشورو سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ ” سرکاری فنڈ جاری ہونے کے بعد گم ہو جاتے ہیں“۔ سرکاری سطح پر جو فنڈز جاری ہوتے ہیں وہ واقعی عوام کے بھلے کے لئے استعمال ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ کرپشن اور مال کٹھا کرنے کی ہوس اور رویے کے باعث ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان فنڈز کا استعمال وزیروں اور مشیروں کی ترقی پر ہو رہا ہے۔ اگر منتخب نمائندے ان فنڈز کا منصفانہ استعمال کریں تو عوام کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 
آج کئی منتخب نمائندے کرپشن کے الزام میں عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہاں انکو سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ یہ عمل اس بات کا اظہار ہے کہ واقعی جاری ہونے والے فنڈز گم ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ سرکاری سطح پر فنڈز خردبرد کرنے میں ملوث ہیں ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایک ایسی مکینزم مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ فنڈز غائب نہ ہوں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام پر ہی خرچ ہوں۔ 
 ملک میں پانی کی شدید قلت کا خدشہ اور سندھ کے تحفظات کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ اطلاعات کے مطابق ڈیموں میں باقی صرف دو ہفتے کا پانی ہے۔ جس کے بعد صرف پینے کے لئے مطلوبہ پانی ہوگا۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی میں اراکین نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کئے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ سندھ کا یہ المیہ ہے کہ یہاں پر لوگ پانی کے قطرے کے لئے ترستے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پانی کے لئے نہ ختم ہونے والی جگیں ہونے لگیں گی۔ ارسا نے پانی میں سندھ کا حصہ پچاس فیصد تک کم کردیا ہے۔ سندھ کے احتجاج پر یہ عذر پیش کیا گیا کہ ملک میں پانی مجموعی طور پر کمی ہے ، اور اس قلت کو برابری کی بنیاد پر شیئر کیا جائے گا۔ بلکہ ارسا نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سندھ کو قلت کے باوجود زیادہ پانی دیا جائے گا۔ یہ سب وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آج سندھ کی زمینیں سوکھ رہی ہیں۔ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھ رہے کہ پنجاب سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں کاشتکاروں نے پانی کی قلت کے خلاف اس طرح سے احتجاج نہیں کیا جس طرح سے سندھ میں ہوتا رہتا ہے۔ افسوس یہ کہ وفاقی حکومت پانی کا معاملہ منصفانہ طور پر حل کرنے کے بجائے جانب دارانہ رویہ رکھے ہوئے ہے۔ وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ پانی کی قلت کو منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر شیئر کیا جائے اور سندھ میں پانی کی رسد کو یقینی بنایا جائے۔ 
 Feb 24

سندھ نامہ: نئی لیبر پالیسی سر آنکھوں پر مگر۔۔۔ Feb 17


Sindh Nama Feb 17           سندھ نامہ سہیل سانگی 
روزنامہ کاوش ”نئی لیبر پالیسی سر آنکھوں پر مگر۔۔۔ “ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے سندھ حکومت نے صوبے میں نئی لیبر پالیسی جاری کر دی ہے۔ نئی پالیسی لیبر کے مطابق لیبر کورٹس 60 روز کے اندر فیصلہ دینے کی پابند ہونگی۔ صوبے کی صنعتوں میں کم از کم اجرت کا تعین صوبائی حکومت کرے گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ اجرت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ لیبر پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسانوں، ماہیگیروں اور دیگر محنت کشوں کو بھی صنعتی مزدور کا درجہ دیا جائے گا۔ 
اچھا ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو اپنی اقتداری دور کے آخری دنوں میں مزدوروں کا خیال آیا۔ سندھ حکومت نے لیبر پالیسی جاری کر کے اچھا کام کیا ہے۔ ملک بھر میں اور خاص طور پر سندھ میں صنعتی مزدوروں کی حالت ابتر ہے۔ اکثر کارخانے محنت کشوں کے لئے قید خانے بنے ہوئے ہیں۔ جیلوں کا پھر بھی ایک مینوئل ہوتا ہے۔ سندھ کے کارخانوں اور فیکٹریوں میں کوئی قاعدہ، قانون موجود نہیں۔ فیکٹریز کی اونچی دیواروں کو قانون پار نہیں کر سکتا۔ حد یہ ہے کہ اس جبر کے جہان میں ہونے والی ناانصافیوں کی خبریں بھی اونچی دیواریں نہیں پھلانگ سکتی۔ صوبے میں محنت کشوں کے حقوق کے لئے لیبر ڈپارٹمنٹ موجود ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ محکمہ صنعتکاروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ محنت کشوں کے ساتھ ناانصافی کے لئے صنعتکار خواہ محکمہ محنت دونوں ذمہ دار ہیں۔ محکمہ محنت ،محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ٹریڈ یونین سیاست کا خاتمہ ہے۔ محنت کشوں کو نہ ریاست کی جانب سے کوئی قانونی حمایت یا پشت حاصل ہے اور نہ ہی کارخانوں میں آزادانہ طور پر ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی اجازت ہے۔ صنعتکاروں نے کارخانوں میں اپنی پاکٹ یونینز بنا رکھی ہیں۔ اس صورتحال میں محنت کشوں کے ساتھ ناانصافی کی ایک ٹرائیکا بنی ہوئی ہے۔ اس مثلث میں صنعتکار، محکمہ محنت، اور پاکٹ یونینز شامل ہیں۔ ٹھیکیداری سسٹم محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ لیبر قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں۔ 
 یہ اچھی بات ہے کہ صوبائی حکومت نے لیبر عدالتوں کو ساٹھ دن کے اند مقدمے نمٹانے کا پابند بنایا ہے۔ لیکن اس چکی میں پسنے والے محنت کشوں کی کتنی تعداد ہوگی جو ان عدالتوں میں داد رسی کے لئے پہنچتی ہوگی؟ نئی لیبر پالیسی کے مطابق محنت کشوں کے لئے کم از کم اجرت کا تعین صوبائی حکومت کرے گی۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کے کم از کم اجرت مقرر کرنے کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم اجرت زیادہ ہوگی اور محنت کشوں کے حق میں ہوگی، تو کیا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا؟ ابھی تک حکومت سندھ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل نہیںکراسکی ہے۔ محکمہ محنت صنعتکاروں کا ساتھی بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت کس طرح سے صنعتکاروں سے کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کرائے گی؟ لوگ سندھ کے منتظمین کی حالت دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے گنے کی قیمتوں کا اعلان تو کیا لیکن اس پر عمل کرانے سے گریز کر رہے ہیں۔ معاملہ صرف اعلان کا نہیں اس پر عمل درآمد رکانے کا ہے۔ 
 صوبائی حکومت نے ماہیگیروں اور کسانوں کو بھی صنعتی مزدور کی حیثیت دینے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ میں کسان بہت ہی عتاب اور عذاب میں ہیں۔ وہ بال بچوں سمیت سال بھر محنت کرتے ہیں لیکن زمیندار کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا۔ سندھ میں جھیلوں اور دیگر پانی کے ذخائر پر اباثر افراد کا قبضہ ہے۔ حکومت یہ قبضے ختم کرانے کے لئے تیار نہیں۔ان تمام حقائق سے سندھ حکومت کی مزدور اور محنت کش دوستی کا انداز کیا جاسکتاہے۔ حکومت کس طرح سے یہ سب کچھ ممکن بنائے گی؟ اعلان کرنا سب سے آسان کام بن گیا ہے۔ ان پر عمل درآمد کرانے کے لئے حکومت کی طاقت کا اندازہ کئی بار ہو چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کے خلاف موجود صنعتکاروں، محکمہ محنت اور پاکٹ یونینز کے مثلث کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ تب ممکن ہو سکے گا جب لیبر قوانین پر سختی کے ساتھ عمل ہوگا۔ محکمہ محنت کو فعال اور سرگرم کرنا پڑے گا اور محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ دینا پڑے گا۔
سرکاری جنگلات پر غیرقانونی قبضے
 روزنامہ عبرت سرکاری جنگلات پر غیرقانونی قبضے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف کنزرویٹو آفیسر نے کہا ہے کہ صوبے میں محکمہ جنگلات کی ایک لاکھ چوہتر ہزار ایکڑ پر غیرقانونی قبضے چھڑانے کا فیصؒہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور لیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ جلد از جلد یہ قبضے ختم کئے جائیں۔ چیف کنزریوٹو آفیسر کا کہنا ہے کہ قبضے ختم کراکے غیر آباد زمینوں پر نئے جنگلات لگائے جائیں گے۔ قبضہ کرنے والوں میں سیاسی رہنما، سردار، وڈیرے شامل ہیں۔ دوسری جانب محکمہ جنگلات کی 64 ہزار ایکڑ زمین محکمہ روینیو نے غیر قانونی طریقے سے بلڈرز اور دیگر افراد کو الاٹ کردی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس عمل کی تحقیقات کے لءچیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کر دی ہے۔ 
 گزشتہ کچھ عرصے سے پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے فکر میں مبتلاہے۔ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی اور گرمی میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا خیلا ہے کہ آنے والے وقت میں مزید موسمی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے جنگلات کا اہم کردار ہے۔ ماضی میں ڈاکو کلچر کی وجہ سے جنگلات کاٹ دیئے گئے اور عدم توجہگی کا شکار رہے۔ یہ بیانیہ حاوی ہو گیا کہ جنگلات قیام امن میں رکاوٹ ہیں۔ اس تاثر نے جنگلات کی اہمیت کو کم کردیا۔ رفتہ رفتہ جنگلات ختم اور ویران ہوتے گئے۔ جس کا قبضہ مافیا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اب جب جنگلات کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے اور ان جنگلات کے خلاف کی گئی کارروائی کو بھی صحیح پس منظر میں سمجھا جانے لگا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے بھر میں جنگلات کو بحال کیا جاے اور ان پر ناجائز قبضے، لیز پر دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صرف اس صورت میں اس نئی حکمت عملی پر عمل اور جنگلات کی بحالی ممکن ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس عمل میں کتنی سنجیدہ ہے؟ 

سندھ نامہ: قومی زبانوں کی راہ میں رکاوٹیں Feb 10

Feb 10 

 سندھ نامہ سہیل سانگی 
سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر صوبے میں بعض سیاسی حقائق سامنے آئے ہیں۔ اول یہ کہ ایم کیو ایم میں مزید دھڑے بندی سامنے آئی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان ککے اندر بھی دو گروپ پ بن گئے ہیں ایک کی قیادت فاروق ستار کر رہے ہیں جب کہ دوسرے گروپ کی عامر خان کر رہے ہیں ۔ اس رجحان پر سندھی میڈیا میں اداریے ، کالم اور تبصرے شایع ہوئے ہیں۔ ان اداریوں اور کالموں میں اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دراصل ایم کیو ایم کو لندن کی گرفت سے زبردستی آزاد کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اب اس جماعت کو ٹکڑے بخیرے ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ دوسرا ارجحان یہ سامنے آیا ہے کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ کے لئے جن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دی ہے اس کے بعد صوبے سے منتخب ہونے والے سینیٹرز میں غیر سندھی بولنے والوں کی تعداد بڑھ کر 17 ہو جائے گی۔ ان دونوں رجحانات کو سیاسی پنڈت بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔

پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ 
پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ کشیدگی کا باعث رہا ہے۔ اس مسئلے کی حساسیت سندھ میں زیادہ رہی ہے کیونکہ موجودہ پاکستان میں شامل وحدتوں کی زبانوں میں سے سندھی واحد زبان ہے جس کی کئی صدیوں سے رسم الخط ہے اور اس کا ابد تحریری شکل میں موجود ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اس زبان کو واحد سرکاری زبان کے طور پر حیثیت حاصل تھی۔ لیکن بعد میں یہ حیثیت تبدیل ہوگئی۔ چند ماہ قبل سینیٹ میں وحدتوں کی زبانوں کو قومی زبن دینے کا بل پیش کیا گیا۔ جسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کیا گیا جس نے اس بل کی متفقہ طور پر منظوری دی۔ اب اس بل کی حیثیت تبدیل کی جارہی ہے۔ اس موضوع پر سندھ کے تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں اور کمیٹی کے چیئرمین کے دوبارہ ووٹنگ کے فیصؒے کو غلط اور نامناسب قرار دیا ہے۔ 
روزنامہ کاوش ”قومی زبانوں کو جائز رتبہ دینے کی راہ میں رکاوٹیں “کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سندھی ، پنجابی، بلوچی اور پشتو زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے سے متعلق پیپلزپارٹی کے سینیٹر عاجز دھامراہ اور سسئی پلیجو کی آئین کے آرٹیکل 28 میں ترمیم کے لئے منظور شدہ بل دوبارہ کمیٹی کے چیئرمین جاوید عباسی کی جانب سے دوبارہ کمیٹی میں پیش کرنے پیپلزپارٹی کے سینیٹر عاجز دھامراہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک مرتبہ کمیٹی نے بل منظور کرلیا ہے ، اب اس بل کو سینیٹ کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس کمیٹی کے چیئرمین نے کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس بل پر دوبارہ ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا میں زبانوں کو ترقی دلانے کے عمل کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور اس ھوالے سے آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس زبانوں کو ان کا جائز حق دینے اور انہیں قومی زبان کا درجہ دینے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے برطانوی دور میں سندھی صوبے کی واحد سرکاری زبان تھی۔ لیکن بعد میں یہ زبان اپنی حیثیت کھو بیٹھی۔ بنگالی زبان کو بھی اس کا جائز مقام دینے سے انکار کیا گیا، بنگالیوں نے ایک بڑی تحریک چلا کر بنگالی زبان کا جائز مقم تسلیم کروالیا۔ ان کے 21 فروری 1952 کی قربانی کی یاد میں یونیسکو کی جانب سے 21فروری کو قومی زبناوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ 
یہاں واضھ کرتے چلیں کہ مذکورہ بل ایوان بالا کی کمیٹی نے چھ ماہ قبل متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس امر پر خوشی کا اظہار کیا یگا کہ اب اس بل کی سینیٹ میں منظوری کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ چونکہ یہ آئینی ترمیم تھی لہٰذاسینیٹ میں پیش ہونے کے بعد اس بل کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت درکار تھی۔ دوسرے مرحلے میں اس بل کو قومی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جانا تھا۔ 
 یہ بل پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، لیکن کمیٹی نے اس کی متفقہ طور پر منظوری دے دی تھی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے زیادہ سنجیدگی اختیار نہ کرنے کی وجہ سے اس بل میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کمیٹی کے رکن فاروق اے نائیک نے بل میں ترمیم کراتے ہوئے اردو کو قومی زبان کو باقی زبانوں کو صوبائی زبان قرار دینے کی بات کی۔ آئندہ اجلاس میں کمیٹی نے فاروق نائیک کی رائے لینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ آئندہ اجلاس سے پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت سے اس بل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور فاروق نائیک کی تجویز واپس لینے سے متعلق پوچھا جانا چاہئے۔ اور انہوں نے اگر یہ تجویز پیش کی ہے تو اس کو واپس لینے کا پابند کیا جانا چاہئے۔ 
کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے  زبانوں کو قومی درجہ دینے پر رکاوٹیں ڈالنے کا رویہ کسی طور پر س مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ منظور شدہ بل پر دوبارہ ووٹنگ کرانا سمجھ سے بالاتر اور غیر منقطی عمل ہے۔ 
 اس موقعہ پر ہم یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ سندھی زبان کے بارے میں اسکو صوبے کے اندر بھی زیادہ سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے۔ آج حالت یہ ہے کہ صوبائی حکومت صوبے کے نجی اسکولوں میں سندھی کو بطور لازمی مضمون کے نافذ کرنے اور اس پر موثر طریقے سے عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیمی معیار کے گرنے کی وجہ سے نجی اسکولوں میں داخلے کا رجحان بڑھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے طاروں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے۔ پیپلزپارٹی نے یہ بل پیش کیا ہے اب اس کے آگے کے مراحل میں بھی پارٹی کو اتنی ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
روزنامہ عبرت نے خیبر پختونخوا کی ایک ینیورسٹی میں توہین مذہب کا جھوٹا لازام لگا کر ایک طالب علم مشعال کو قتل کے ملزمان کو سزا دینے کو قابل تحسین قرار دیا ہے ۔ اکحبار لکھتا ہے کہ کراچی میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے جعملی مقابلے میں قتل کے بعد ایک ملزم سابق ایس ایس پی راﺅ انوار کے دربدر ہونے کی خبریں عام ہیں ۔ یہ سب کچھ عوامی بیداری کانتیجہ ہے۔ اگر لوگ ان واقعات کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے ، تو شاید ماضی کے اس طرح کے واقعات کی طرح یہ دو واقعات بھی دفن ہو جاتے۔ اب کوئی بھی شخص اس طرح کی غلطی کرنے سے پہلے پہلے انجام کے بارے میں ضرور سوچے گا۔ دوسرا یہ کہ جھوٹا الزام لگانا پھر یہ الزام دہشگردی کا ہو یا توہین مذہب کا اس کا آخر یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ 

سندھ نامہ: تعلیمی پالیسی سے سندھی زبان کو درپیش مسائل Feb 2


سندھ میں تعلیمی پالیسی سے سندھی زبان کو درپیش مسائل 
سندھ نامہ سہیل سانگی  
”سندھ کی تعلیم کے لرزہ خیز منظر“ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ترقی، خوشحالی اور گڈ گورننس کے حوالے سے دنھ حکومت کا دعوﺅں پر زور ہے۔ اگر حالات کی کوئی حقیقی معنوں میں نقاب کشائی کرتا ہے ، تو حکمران تردیدوں کے طوفان بپا کر دیتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی خود حکومتی اداروں کی روپرٹس، سرکاری دعﺅں کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ سرکاری ادارے ریفارمز سوپورٹ یونٹ نے 2017 کی تعلیمی مصورتحال پر مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں صوبے کے اندر 3172 اسکول بند ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کاہ گیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں 42 لاکھ اور نجی اسکولوں میں پونے 33 لاکھ بچے زری تعلیم ہیں۔ سندھی میڈیم اسکولوں میں سے 90 فیصد دیہی علاقوں میں ہیں، جبکہ دس فیصد شہری علاقوں میں ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوبے میں تقریبا ساڑھے تین لاکھ لڑکے اور لڑکیاں مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں، سیکریٹری تعلیم کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھا ہے۔ 
 قوم کے مستقبل پر سرمایہ کاری تعلیم کی صورت میں کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سرمایہ کاری تکنی اور کس طرح سے کی ہوئی ہے ؟ اس کا اندازہ وقت بوقت آنے والی رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے۔ چلیں نجی یا نیم سرکاری اداروں کی رپورٹس جمہوریت کے خلاف سازش ہونگی۔ لیکن سرکاری ادارے وہ بھی محکمہ تعلیم کے ماتحت ادارے کی رپورٹ کو کس طرح سے جھٹلایا جاسکتا ہے؟ سندھ میں منصوبہ بندی کے تحت تعلیم کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اسکول بند ہیں۔ سہولیات کی کمی ہے ہزاروں اساتذہ ” ویزے“ پر گئے ہوئے ہیں۔ باقی جو موجود ہیں وہ پڑھانے کے لئے تیار نہیں۔اور جو پڑھاتے ہیں ان کو پڑھانا نہیں آتا۔ اس سے زیادہ سندھ کی تعلیم کے ساتھ ناانصافی کیا ہو سکتی ہے؟ سیکریٹری تعلیم فرماتے ہیں کہ لوگوں کا نجی تعلیمی اداروں کی طرف رجحان بڑھا ہے۔ یہ رجحان کیوں بڑھا ہے؟ اس سوال کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نجی اسکولں کی طرف رجحان بڑھنے کی وجہ یہ نہیں کہ ان اسکولوں کا معیار اچھا ہے بلکہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار بالکل ہی خراب ہے۔ 
 سرکاری شعبے میں تعلیم کی صورتحال راتوں رات خراب نہیں ہوئی۔ اس کو منصوبہ کے تحت خراب کیا گیا۔ یہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ نجی شعبے کو منافع خوری کے مواقع مل سکیں۔ سرکاری شعبے میں جو اسکول بچے ہیں ان سے ”نجات‘ حاصل کرنے کی جستجو جاری ہے۔ اچھی تعداد میں سرکاری اسکول این جی اوز کے حوالے کئے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسکول چلانے کی سرکاری منتظمین میں اہلیت نہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں۔ البتہ خلوص کی کمی ہے جس کا ہم اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ نجی اسکلوں کی تعداد بھی سرکاری اسکولں کے برابر ہونے والی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی، نجی اسکولوں کی تعداد سرکاری اسکلوں سے زیادہ ہو جائے گی۔ 
 شہروں میں سندھی میڈیم اسکول ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی تعداد مذکورہ رپورٹ کے مطابق 10 فیصد ہے۔ نجی اسکولوں میں سندھی بطور لازمی مضمون کے پڑھایا نہیں جاتا۔ اس صورتحال میں جو نئی نسل پروان چڑھے گی اسکو سندھی لکھنا اور پڑھنا نہیں آئے گی۔ ایسے میں سندھی زبان کی کیا صورتحال بنے گی؟ اس کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ سندھ کی ادبی تنظیموں، ادب اور زبان کے باختیار اداروں میں کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔ سرکاری اقدامات سے سندھی زبان کے خاتمے کے بندوبست ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کی تباہی کی وجہ سے جو لوگ خرچ برداشت کر سکتے یں وہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیج رہے ہیں جہاں سندھی نہیں پڑھائی جاتی۔ جو خرچ انہیں اٹھا سکتے وہ بچوں کو مدرسوں میں بھیج رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں تعلیم کے بارے میں یہ رپورٹ، سرکاری کارکردگی، گڈ گورننس اور دعوﺅں پر ایک طنز ہے۔ 
 سندھ میں سرکای شعبے کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے العانات سے آگے نکل کر عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر بھی فوری توجہ کا طلبگار ہے کہ سرکاری شعبے کی تعلیم کی تباہی کس طرح سے سندھی زبان کے خاتمے کا باعث بن رہی ہے۔ 
 روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ میں بڑھتی ہوئی پولیس گردی کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہر ملک میں پولیس کی ذمہ داری لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ لوگوں کو بھی یہی امید ہے کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں وہ پولیس کے پاس فریاد لے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ لوگ جب اپنا مسئلہ پولیس کے پاس لے جاتے ہیں تو وہ خود پھنس جاتے ہیں۔ بعد میں اس کا اپنا مسئلہ تو حل نہیں ہوتا ،س کے لئے پولیس کے پیدا کردہ مسائل سے جان چھڑانا ا مشکل ہو جاتا ہے۔ جعلی مقابلوں سے لیکر عام لوگوں کو تنگ اور پریشان کرنا پولیس کے اولین فرائض میں شامل ہو گیا ہے۔ تازہ مثال کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہے جس کو جعلی مقابلے میں پولیس نے قتل کردیا۔ اور واقعہ میں مبینہ طور ملوث ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ سندھ میں محکمہ پولیس کی کارکردگی ہے ہر ایک آگاہ ہے۔ گاﺅن پر چھاپے اور حملے سے لیکر بے گناہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ س کو پولیس احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں پولیس گردی کی خبریں آئے دن میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ 
 گزشتہ روز دادو ضلع کے فریدآباد میں لوگوں نے ایس ایچ او کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔ فرید آباد کے رہائشیوں نے ایک لڑکی کی بازیابی کے لئے دونوں فریقین سے پیسے بٹورنے کا الزام لگایا۔ گاﺅں عرضی بھٹو میں پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا اور 60 مویشی لے گئی۔ تھرپارکر کے شہر مٹھی میں قتل ہونے والے دو بھائیوں کے ملزمان تاحال پولیس گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ میہڑ میں پولیس اہلکاروں نے دکانداروں سے پیسے چھننے کے بعد انہیں دھمکیاں بھی دی۔ اس طرح کے زبردستی اور سینہ زوری کے واقعات سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال بگاڑ کا شکار ہورہی۔ دوسری جانب لوگوں کا پولیس پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ پولیس میں مجموعی طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لیکن جب تک اصلاحات ہوں تب تک انتظامی حوالے سے بعض چیزیں بہتر بنائی جاسکتی ہیں۔ محکمہ میں کئی ایسے اہلکار موجود ہیں جو اس اہم ادارے کی بدنامی اور ساکھ خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ سندھ پولیس کے سربراہ کو فوری اقداما لیتے ہوئے ان کالی بھیڑوں سے محکمے کو صاف کرنا پڑے گا تاکپ پولیس گردی کے واقعات نہ ہوں۔ 

سندھ نامہ: صوبائی حقوق اور عالمی دونر ادارے Jan 27

سندھ نامہ سہیل سانگی 
روزنامہ عبرت” صوبائی حقوق اور عالمی دونر اداروں سے متعلق چیئرمین سینیٹ کی رولنگ  “ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیل ،گیس اور دیگر قدرتی وسائل میں صوبوں کو آئینی طور پر پچاس فی صد حصہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ایگزیکیوٹو، انتظامی اور ریگیولیٹری اختیارات میں بھی برابری کی حیثیت ہونی چاہئے۔ لہٰذا تیل کی نگرانی کےلئے عالمی بینک کا تیار کردہ مسودہ ناققابل عمل اور قومی سلامتی کے منافی قرار ددیا ہے۔ ایوان بالا کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومت کو ہدایت کی کہ عالمی دونرز اور مالیاتی اداروں کی ملک معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت سے متعلق دو ماہ کے اندر پالیسی مرتب کرے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کی ایماءپر وفاق صوبوں کے حقوق سلب کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کو ملک کے اندرونی معاملات تک رسائی نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی سلامتی کے بھی خطرناک ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اٹھارویں ترمیم متعارف کرانے والوں کا مقصد آئین کی شق 173 کی کلاز 3 شامل کرنے کا مقصد صوبوں کو معدنیات، گیس اور تیل میں برابر حصہ دار بنانا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تاحال اس ترمیم پر عمل نہیں کیا گیا۔ 
 دیکھا جائے تو آج کے حکمرارانوں خواہ سابق حکمرانوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ ملک میںبلیک واٹر یا کوئی اور ایسی غیر ملکی تنظیم موجود نہیں۔ اگر عسکری ونگ کے مختلف وقت میں جاری کئے گئے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے عناصر ملک میں موجود ہیں جو دہشتگردوں کے سہولکار ہیں اور ملک دشمن عناصر کے لئے کام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آرمی چیف بھی کہتے رہے ہیں کہ غیر ملکی ایجنسیاں دہشتگردی کی کارروایوں میں ملوث ہیں۔ اور ان کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک صوبوں کو برابری کی سطح پر وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہے ، یہ ہر صوبے کے لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ بلکہ اس اقدام سے وفق مضبوط ہوگا۔ پاکستان کا وجود صوبوں کی وفاقی شکل پر مشتمل ہے۔ یعنی صوبے ہی وفاق کی علامت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئین تحت صوبے اپنے وسائل کے مالک، اور خود مختار تسلیم کئے گئے ہیں۔ 
صوبوں کے عوام کے ساتھ تعاون اور صوبوں کے درمیان بہتر روابط قائم کرنا ، سلامتی اور دیگر مطلوبہ مالی معاملات ، سہولیات کی فراہمی ، امور خارجہ میں رہنمائی اور مدد کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس کہ اس سے طویل عرصے سے لاپرائی برتی جا گئی۔ جس سے نہ صرف صوبوں کے حقوق متاثر ہوئے ، بلکہ جمہوری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگرچہ آج ملک میں جمہوری نظام ہے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کے آزاد اور خود مختار ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ یہ دعوے اپنی جگہ پر، حقیقت یہ ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم ، اور 1973 کے آئین کے تحت صوبوں کو دی گئی صوبائی خود مختاری نہ دینے کا بحران خطرناک شکل میں موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ آج تک اس اہم معاملے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ وفاق نے صوبائی معاملات کے اختیارات بھی اپنے پا س رکھ کر تمام فیصلے اپنے طور پر کرتا رہا ہے۔ 
 ہم سمجھتے ہیں کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ہو یا پانی کی منصفانہ تقسیم یا تیل، گیس یا بجلی کی تقسیم کا معاملہ ہو، ان سب میں صوبوں کو ان کا جائز حق دینا آئینی تقاضا ہے ۔ وفاقی حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے، تاکہ سندھ سمیت تمام صوبوں کی ترقی، تعلیم صحت، روزگار، اور تعمیراتی منصوبوں کو حقیقی معنیٰ میں آگے بڑھایا جاسکے۔ یہ تب ہو سکے گا جب مرکز صوبوں کے حقوق اور اختیارت مکمل طور پر ان کے حوالے کرے گا۔ اور ملک کی بہتری کے لئے آئینی اور جمہوری نظام میں رکاوٹیں دور کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو عالمی ڈونر اداروں کی ملکی معاملات میں مداخلت روکنے کے لئے بھی کوئی جامع اور موثر پالیسی مرتب کرنی چاہئے۔
امن اور روزگار سے خالی سندھ 
 ”امن اور روزگار سے خالی سندھ “ کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے سندھ میں امن اور وزگار کے درد پرانے ہیں۔ لیکن گزشتہ دس سال کے دوران حکمرانی کرنے والوں نے سندھ کو جو کچھ دیا ہے اس کا آئینہ روزانہ اخبارات ہیں۔ اب شہروں میں سر عام قتل ہونے لگے ہیں۔ بھوک اور بدحالی سے لاچار لوگ خود سوزی کرنے پر مجبور ہیں۔ لاڑکانہ کے اایک نوجوان کی خبر نے پورے سندھ کو چونکا دیا جس نے بیروزگاری سے تنگ آکر خودسوزی کر کے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ لاڑکانہ کے ذوالفقار باغ کا رہائشی محمد علی شیخ پانچ بچوں کے باپ ہے۔ خود سوزی کی وجہ اس نے یہ باتءہے کہ وہ ایک عرصے سے بیروزگار ہے۔ جب کہیں سے بھی اسے روزگار کی امید نہ رہی، اور وہ اپنے بھوکے بچوں کی حالت دیکھنا ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔مجبور ہو کر اس نے خود کو آگ لگا دی۔ انہیں زخمی ھالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ صوبے میں حکمران جماعت لاڑکانہ کے نام پر حکمرانی کر رہی ہے۔ حکام میں اس نوجوان کے احتجاج پر کتنی توجہ دی ہے، یہ ایک حوالہ ہے۔ سندھ میں ہزارہا پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار ہیں۔ گزشتہ دس سال کے دوران سندھ حکومت نے اگر بعض ملازمتیں دی بھی ہیں تو ان کی میرٹ اور طریقہ کار پر سوالیہ نشان ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غل نہیں ہوگا کہ بیروزگاری ختم کرنے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا حکمران جماعت نے جو وعدہ کیا تھا وہ ایفا نہیں ہو سکا ہے۔ روزگار کے بعد امن بنیادی بات ہے۔ اگر گزشتہ دس سال کا حساب نہ بھی لیں، صرف گزشتہ ماہ کے دوران بدامنی کے واقعات رونما ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار پھر مجرموں کی پشت پناہی ہونے لگی ہے ۔ روایتی گروہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں۔ یونین کونسل بلدانے کے چیئرمین کرم اللہ چانڈیو اور ان کے دو بیٹوں کے قتل کے خلاف پورا ضلع سراپا احتجاج ہے۔ چند روز قبل وارہ میں ایک واردات میں لوگ قتل ہوئے۔ تھرپارکر کے شہر مٹھی میں دو تاجر بھائیوں کو قتل کیا گیا۔ اس واقعات کی وجہ سے سندھ سوگوار ہے۔ اور احتجاج بھی جاری ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ ان بڑھتے ہوئے واقعات کی فوری اور موثر روک تھام کرے تاکہ ماضی کی طرح پانی سر سے اوپر نہ ہو جائے۔ 
 فولادی ہاتھ فالج زدہ کیوں کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ لوگوں کو جعلی مقابلوں میں مارنا پولیس کا پرانا مشغلہ رہا ہے۔ بیگناہ لوگوں پر نشانہ پختہ کرنے والے پولیس اہلکار قانون کی گرفت سے دور رہے ہیں۔ پٹے بھائیوں نے تفتیش کے دوران انہیں فائدہ دے کر کیس کمزور کر کے سزا سے بچا لیا ہے لیکن لگتا ہے کہ کراچی میں نوجوان نقیب اللہ کا قتل رائیگاں نہیں جائے گا۔ تحقیقات کرنے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ مقابل جعلی تھا۔ نقیب اللہ بیگناہ تھا۔ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ لیکن قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایس ایس پی راﺅ انوار تاحال گرفتار نہیں وہ سکے ہیں۔ سندھ میں پولیس” پراڈکشن ہاﺅ س“ کی جانب سے اس طرح کی سیریلز سامنے آتی رہی ہیں جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک پلے (ڈرامہ( جس کو فاﺅل پلے کہا جائے، نقیب اللہ کے قتل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جب تحقیقات کمیٹی مقابلے کے جعلی ہونے کے نتیجے پر پہنچی ہے، پھر گرفتاری میں دیر کیوں کی جارہی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ نقیب اللہ اور اس طرح کے دیگر مشکوک مقابلوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے، تاکہ لوگوں کو انصاف ملے اور پولیس پر بھی اعتماد بحال ہو۔ 

سندھ نامہ: کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟ Oct 10,

Oct 10, 2017
کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 ”اس کارکردگی پر مبارک باد کا مستحق کون؟ “کے عنوان سے” روزنامہ کاوش ا“داریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ وہ کسی بھی سال ترقیاتی جوبجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں کر سکی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ تھے۔ تب بھی تقریبا پینتیس ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوسکی تھی۔ رواں مالی سال کی تین سہ ماہیوں کے درواں صوبائی محکمہ مالیات نے مختص کی گئی 334 ارب روپے میں سے 67 ارب 20 کروڑ روپے جاری کئے۔ جس میں سے سندھ کے 44 محکمے اب تک صرف 36 فیصد رقم خرچ کر سکے ہیں۔ جبکہ گیارہ محکمے ایسے ہیں جو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر سکے ہیں۔ اس کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال بھی ترقیاتی رقومات استعمال کرنے کی صورتحال گزشتہ 9 برسوں جیسی ہی رہے گی۔ 
گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ اس کارکردگی سے ہی گورننس کا پروفائیل بنتا ہے۔ لیکن سندھ اداروں کا قبرستان بن گیا ہے۔ جس سے عیاں ہے کہ سندھ میں گورننس کی کیا سورتحال ہے۔ کیا اس گورننس سے سندھ کے لوگوں کو جمہوریت کا ثمر مل سکتا ہے؟ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ فینڈز نہیں ہیں، دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ فنڈز موجود ہیں لیکن اداروں کے منتظمین کے پاس انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ہر سال ایک بڑی رقم بغیر استعمال کے لیپس ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی رقم عوام کے لئے ترقیاتی کاموں پر استعمال نہ کرنا دراصل ترقی کو روکنے کے برابر ہے۔ سندھ میں ترقی کی راہ میں بندشیں گزشتہ 9 سال سے جاری ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران بھی منتظمین اسی راہ پر عمل پیرا ہیں۔ جو رقم خرچ کی جاتی ہے اس میں کس حد تک شفافیت ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسا ہاضمہ رکھنے والی بیوروکریسی کیوں چاہے گی کہ تریقاتی منصوبوں پر عمل ہو، عوام کو سہولیات میسر ہوں؟ 
 پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکمرانی میں جو ترقیاتی رقومات استعمال نہیں ہوسکی، ان کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے۔کہ 2008 -09 سے لیکر 2016-15 
 تک 356 ارب روپے استعمال نہیں کئے جا سکے ہیں۔ حد ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 11 محکمے ایک روپیہ بھی ترقیاتی مد میں خرچ نہیں کرسکے۔ ةم سمجھتے ہیں کہ ان 11 محکموں کے منتظمیں کی اس نااہلی کا نوٹس لیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے کہ وہ کیونکر عوام کو ان سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
 سوالات کارساز سانحے 
 روزنامہ عبرت کارساز سانحے کی تحقیقات کس کی ذمہ داری ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بعض ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو تاریخ کی مٹی بھی دھندلا نہیں سکتی۔ ایسا ہی واقعہ دس برس پہلے کراچی کے کارساز کے علئاقے میں ہوا تھا۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تھی۔ یہ منظر لاکھوں لوگوں کی آنکھوں میں فریز ہے۔ بنظیر بھٹو ملک کی کروڑیں خواتین، مزدوروں، طلبہ کسانوں اور روشن خایل لوگوں کی امید کی کرن تھی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی گاڑی کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعہ میں محترمہ تو بچ گئیں لیکن درجوں افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کئی آنکھیں سوالیہ بن کر محترمہ کے وارثوں اور پارٹی کے رہنماﺅں سے پوچھتی ہیں کہ کیا انہوں نے محترمہ سے عقیدت کرنے والے ان عوام کے ساتھ کتنا نبھایا ہے؟ ان کی زندگی میں انقلاب نہ سہی، کوئی مثبت تبدیلی لا سکے ہیں؟ محترمہ کی شہادت سے لیکر ّج تک ان کی پارٹی کی حکومت ہے ۔ ان کا ہی حکم چلتا ہے۔ ڈس سال کی حکمرانی بڑا عرصہ ہوتی ہے۔ اس عرصے میں سندھ کے لوگوں کی تبدیل کی جاسکتی تھی۔ عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کی جاسکتی تھیں۔ یہ سب چکھ ہوسکتا تھا۔ کیا ان کے ووٹ کی قدر کی گئی ہے؟ 
 یہ وہ سوالات ہیں جو ہرشخص کی آنکھوں میں ہیں۔ جو کسی مصلحت یا مجبوری کی وجہ سے پوچھ نہیں سکتے۔ جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں تب شاید ہر خاص و عام حکمران جماعت کے ہر نمائندے سے یہ سوالات پوچھ سکے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے پیپلزپارٹی کے پاس کیا
 تیاری ہے؟ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ سندھ کے لوگ عجیب مزاج رکھتے ہیں۔ وہ اگر اپنی بات پر آئیں تو پھر کیا میر کیا پیر اور جاگیردار کیس کی نہ سمنتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ اور اپنی کرتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے اپنے ضمیر کا ایسا مظاہرہ کیا بھی تھا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ ارسا میں وفاق کے کوٹا پر سندھ کا نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سوبے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط لکھا ہے کہ اس طرح سے ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ارسا ایکٹ کے مطابق پانی کی صوبوں میں تقسیم کے ذمہ دار اس ادارے کو پانچ ممبر ہونگے۔ ایک ایک چاروں صوبوں سے ہوگا اور پانچواں ممبر وفاق کی نمائندگی کرے گا۔ ایکٹ کے مطابق پانچواں ممبر وفاق کا نامزد کردہ ہوگا مگراس کا ڈومیسائیل سندھ کا ہوگا۔ لیکن گزشتہ چھ سال سے ارسا ایکٹ کی اس شق پر عمل نہیں ہو رہا۔ وزیراعلیٰ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس صورتحال میں نہ صرف ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی بلکہ سندھ کے ساتھ بھی ناانصافی ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کے لئے اکثریت کی بناید پر فیصلے ہوتے ہیں، اور وفاق کا نمائندہ اپنے مرضی سے ووٹ دیتا ہے جو کہ زمینی حقائق سے دور ہوتا ہے۔ نیتجة سندھ میں پانی کا بحران رہتا ہے۔ ارسا کی ترتیب اس لئے رکھی گئی تھی تاکہ سندھ کو مسلسل پانی کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ اب مجموعی طور پر پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ایسے میں سندھ کے کاشتکار پریشان ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پانی کی کمی کا تناسب سندھ کے ہی کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ محکومت کا موقف جائز ہے۔ اور جب وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کردیا ہے اب وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ نہ صرف وہ ارسا ایکٹ پر عمل کرائے بلکہ پانی کی قلت کے حوالے سے سندھ کی شکایات کا سدباب کرنے کے لئے ہدایات جاری کرے۔ 

سندھ نامہ: اغوا انڈسٹری پھرسرگرم Feb 24

Feb 24
غوا انڈسٹری پھرسرگرم 
سندھ نامہ سہیل سانگی 
”محکمہ پولیس یا ڈیل ڈپارٹمنٹ“ کے عنوان سے رووزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں کچھ عرصے کے سکون کے بعد ایک بار پھر اغوا انڈسٹری سرگرم ہو گئی ہے۔ گھروں، گلیوں اور سڑکوں سے لوگ اغوا ہپونے لگے ہیں۔ ایسی ہی ایک واردات شکارپور ضلع کے خانپور علاقے سے رپورٹ ہوئی ہے۔ پارکو لنک روڈ پر مسلح افراد نے پانچ لوگوں کو اغوا کرلیا۔ جن میں سے دو افراد مسلح افراد کی گرفت سے نکل کر واپس گھر پہنچے۔ واردات کے دو روز گزرنے کے بعد بھی شکارپور پولیس مغویوں کو بازیاب کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکی ہے۔ روایتی پکڑ دھکڑ اور بازیابی کا منافع بخش کاروبار شروع ہو چکا ہے۔ پولیس نے ایک روز قبل تین خواتین سمیت 9 افراد کی گرفتاری طاہر نہیں کی ہے۔ پولیس مغویوں کی رہائی کے لئے باثرافراد پنچائتی طریقہ کار اپنایا ہے۔ پولیس چاہتی ہے کہ اغواکاروں اور مغویوں کے ورثاءکے درمیان ڈیل ہو جائے، تاکہ پولیس کا کام آسان ہو۔ ویسے تو ملک بھر میں جمہوریت ہے لیکن سندھ میں یہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ جمہوریت کا مطلب ”آزادی“ سمجھتے ہوئے ، اس آزادی کا فائدہ جو ڈاکوﺅں اور امن دشمن عناصر نے اٹھایا ہے جس سے سندھ کا امن اور سکون تباہ ہو گیا ہے۔ اس صوبے میں امن و مان انتظامی ایجنڈا پر نہیں رہا۔ قانون کی عملداری اور بالادستی دور کی بات سندھ میں قانون اپنے وجود وجود کی بھی گواہی نہیں دے پا رہا ہے۔ یہ امر صرف مفروضہ نہیں۔ سندھ کے اخبارات سے امن و امان کا پتہ چل جاتا ہے۔ صرف خانپور کے قریب اغوا ہونے والے ہی یرغمال نہیں، صوبے میں کئی اور افراد بھی اغواکاروں کے قبضے میں ہیں۔ فضیلا سرکی کے اغوا کو ڈیڑھ عشرہ ہو چکا ہے۔ یہ لڑکی تا حال اغواکاروں کی گرفت میں ہے۔ شاید سندھ کے منتظمین اور پولیس سربراہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچی ان کے دور میں اغوا نہیں ہوئی، لہٰذا ان کو بازیاب کرانا ان کی ذمہ داری نہیں۔ ایسا ہی معاملہ عمران جوکھیو کا کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف مغوی ہی ڈاکوﺅں کے پاس یرغمال نہیں بلکہ ریاستی قانون بھی اغواکاوں اور امن دشمنوں کے پاس یرغمال ہے۔ یہی وجہ ہے اغوا کی وارداتیں دیدہ دلیری کے ساتھ ہوتی رہتی ہیں۔ کیا کیا جائے سندھ کے نتظمین کہتے ہیں کہ صوبے میں قانون کی بالادستی ہے۔ 
 خانپور کے قریب اغوا ہونے والوں سے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ پولیس ان کی بازیابی کے لئے ”راجونی“ یعنی پنچائت کے ذریعے کوششیں لے رہی ہے۔ ایسی کیا بات ہے کہ اغوکاروں تک پہنچنے اور ان کو قانون کی گرفت میں لانے میں پولیس کے پر جلنے لگتے ہیں؟ راجونی کوششوں کا یہ مطلب ہے کہ پولیس کو سب پتہ ہے۔ دراصل پولیس کا یہ پرانا طریقہ’ ’واردات“ ہے کہ جیسے ہی واردات ہوتی ہے، پولیس اغواکاروں اور مغویوں کے ورثاءکے درمیان ڈیل کے لئے سرگرم ہو جاتی ہے۔ جب پولیس اغواکاروں کو گرفتار کنے کے بجائے ڈٰل کے لئے سرگرم ہو جائے ، تب ایسا لگتا ہے محکمہ پولیس نہیں یہ ڈیل ڈپارٹمنٹ ہے۔ کیا پولیس کا یہی کام ہے؟ سندھ میں جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مجرموں کے اس کام میں قانون مداخلت نہیں کرتا۔ لیکن پھر بھی منتظمین کہتے ہیں کہ سندھ میں قانون کی حکمرانی ہے۔ جرم پروان ہی تب چڑھتا ہے جب اس کو کوئی چھتری مہیا ہوتی ہے۔ اغواکار اور امن کے دشمن لاوارث نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ان کو ذرا بھی تکلیف نہیں دینا چاہتی اور ڈیل کرانے شروع ہو جاتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ منتظمیں امن و امان کو ایجنڈا کا حصہ بنائیں، اور ڈیل کرانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کر کے یرغمالیوں کو بازیاب کرائیں۔ 
 سرکاری فنڈز میں گڑبڑ اور احتساب کی ضرورت کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں سرکاری سطح پر جاری ہونے والے فنڈز کا استعمال کس طرح سے ہوتا ہے اس کا اندازہ صوبے میں شہری خواہ دیہی ترقی سے لگایا جاسکتا ہے۔ موجودہ سرکاری اداروں کی ھالت سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر ان فنڈز کا استعمال نظر کیوں نہیں آتا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن جامشورو سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ ” سرکاری فنڈ جاری ہونے کے بعد گم ہو جاتے ہیں“۔ سرکاری سطح پر جو فنڈز جاری ہوتے ہیں وہ واقعی عوام کے بھلے کے لئے استعمال ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ کرپشن اور مال کٹھا کرنے کی ہوس اور رویے کے باعث ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان فنڈز کا استعمال وزیروں اور مشیروں کی ترقی پر ہو رہا ہے۔ اگر منتخب نمائندے ان فنڈز کا منصفانہ استعمال کریں تو عوام کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 
آج کئی منتخب نمائندے کرپشن کے الزام میں عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہاں انکو سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ یہ عمل اس بات کا اظہار ہے کہ واقعی جاری ہونے والے فنڈز گم ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ سرکاری سطح پر فنڈز خردبرد کرنے میں ملوث ہیں ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایک ایسی مکینزم مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ فنڈز غائب نہ ہوں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام پر ہی خرچ ہوں۔ 
 ملک میں پانی کی شدید قلت کا خدشہ اور سندھ کے تحفظات کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ اطلاعات کے مطابق ڈیموں میں باقی صرف دو ہفتے کا پانی ہے۔ جس کے بعد صرف پینے کے لئے مطلوبہ پانی ہوگا۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی میں اراکین نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کئے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ سندھ کا یہ المیہ ہے کہ یہاں پر لوگ پانی کے قطرے کے لئے ترستے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پانی کے لئے نہ ختم ہونے والی جگیں ہونے لگیں گی۔ ارسا نے پانی میں سندھ کا حصہ پچاس فیصد تک کم کردیا ہے۔ سندھ کے احتجاج پر یہ عذر پیش کیا گیا کہ ملک میں پانی مجموعی طور پر کمی ہے ، اور اس قلت کو برابری کی بنیاد پر شیئر کیا جائے گا۔ بلکہ ارسا نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سندھ کو قلت کے باوجود زیادہ پانی دیا جائے گا۔ یہ سب وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آج سندھ کی زمینیں سوکھ رہی ہیں۔ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھ رہے کہ پنجاب سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں کاشتکاروں نے پانی کی قلت کے خلاف اس طرح سے احتجاج نہیں کیا جس طرح سے سندھ میں ہوتا رہتا ہے۔ افسوس یہ کہ وفاقی حکومت پانی کا معاملہ منصفانہ طور پر حل کرنے کے بجائے جانب دارانہ رویہ رکھے ہوئے ہے۔ وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ پانی کی قلت کو منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر شیئر کیا جائے اور سندھ میں پانی کی رسد کو یقینی بنایا جائے۔ 

محکمہ صحت کی مشکوک صحت Jan 13


سندھ نامہ سہیل سانگی 
یوں تو سندھ کے تمام محکموں کی صحت مشکوک ہے لیکن صحت کے بیمار محکمے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ عام لوگوں کی صحت اس بیمار محکمے کے ذمہ ہے۔ سندھ کی ہسپتالیں شفا خانوں کے بجائے کوس گھر کا تعار رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر عوام کے پیسے سے تنخواہیں لیتے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت ڈیوٹی دینے کے لئے تیار نہیں۔ مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں ملتی ۔ اگر ملتی ہیں تو نقلی اور غیر معیاری ہوتی ہیں۔ اس صورتحال کو نوٹس لیتے ہوئے ہسپتالوں پر عدالتی چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایڈیشنل سیشن جج کراچی نے ابراہیم حیدری میں سرکاری ہسپتال پر چھاپہ مارا۔ میڈیکل سپرنٹینڈنٹ، پانچ ڈاکٹرز اور عملہ غائب تھا۔ چھاپے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مریض کو ایک روز کی دوائی دے کر پانچ روز کا ریکارڈ بنایا جاتا ہے۔ قمبر ہسپتال میں بھی چھاپے کے وقت ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر اور ماتحت عملہ غیر ھاضر تھا۔ ہیپٹائٹس کے مریضوں نے علاج نہ ہونے کی شکایات کی۔ اس موقع پر ہیپٹائٹس پروگرام کے غیر حاضر فوکل پرسن کے خالد مقدمہ رج کردیا گیا۔ اسی طرح مکلی ہسپتال پر چھاپے کے دوران سہولیات کی کمی اور مشینیں خراب حالت میں ملی۔ صوبے میں دیگر ہسپتالوں کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں۔ صوبے کے دو محکمے جن کی ذمہ داری عوام کی جسمانی اور ذہنی صحت کو درست رکھنا ہے ۔ یعنی محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم، ان دونوں کی صورتحال نہایت ہی خراب ہے۔ وہی گھوسٹ ملازم، ویزا سسٹم اور کرپشن کلچر ان محکموں کی پہچان بنا ہوا ہے۔ صوبے میں صحت اور صفائی سے متعلق خود سرکاری محکموں کی رپورٹس خراب کرکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسانوں کو غلاظت بھرا اور آلودہ پانی پینے کے لئے فراہم کیا جارہا ہے۔ انتظامی کوتاہی اور نااہلی کے باعث لوگ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں علاج کی بہتر سہولیات میسر نہیں ہوتی۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کے لئے ہر سال بجٹ آتا ہے جس کا بڑا حصة کرپشن میں چلا جاتا ہے۔ باقی جو تھوڑا حصہ رہتا ہے اس کی نقلی اور غیر معیاری ادویات خرید کر کے مریضوں کو دی جاتی ہیں۔ یہ غیر معیاری ادویات مرض کے علاج کے بجائے مزید بڑھا دیتی ہیں یا س کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ بسااواقت یہ ادویات ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینکس پر پہنچا دی جاتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں موجد مشینیں جان بوجھ کر خراب کی جاتی ہیں تاکہ کہ نجی شعبے کے ڈائگنوسٹکس سینٹرز اور لیبارٹیریز کو منافع کے بے تھاشا موقاع فراہم ہو سکیں۔ یہاں پر بھی ڈاکٹرز کا کمیشن مقرر ہے۔ میڈیکل اسٹورز پر سرکاری مہر لگی ہوی ادویات کی فروخت عام سی بات ہے۔ ان میڈیکل اسٹورز پر کام کرنے والوں کے پاس مطلوبہ سرٹکیٹ بھی نہیں ہوتے۔ جعلی ادویات کا کاروبار زور شور سے جاری ہے۔ افسوس ہے کہ ڈرگ انسپیکٹرز کو یہ سب نظر نہیں آتا۔ تھر میں علاج کی مطلوبہ سہولیات کی عدم موجودگی میں معصوم بچوں کی اموات کی خبریں گزشتہ تین سال سے آرہی ہیں۔ کیا حکومت سندھ اس کارکردگی پر فخر کرسکتی ہے؟ محکمہ صحت کے وزیر اور سیکریٹری دونوں صاحبان ڈاکٹر ہیں۔ لیکن وہ محکمہ کی صحت سے لاعلم ہیں یا جان بوجھ کر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ وزیر صحت کا دفتر برمودا ٹرئی اینگل بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر درخواست شکایت یا کسی مرض کے بارے میں رپورٹ اسی طرح گم ہو جاتی ہے جس طرح سے مختلف جہاز اور چیزیں برمودا ٹرائی اینگل میں گم ہو جاتی ہیں۔ 
 صحت کی بنایدی سہولیات ریاست کی اور حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ ریاست یہ ذمہ داری کس طرح سے پوری کر رہی ہے؟ اس کا اندازہ روز مرہ کی رپورٹس اور خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ محکمہ صحت کی بیمار ذہن بیوروکریسی سندھ کے لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے مزید امراض پھیلانے کا سسب بن رہی ہے۔ سہپتالوں میں علاج کے لئے نہ ادویات ہیں نہ ڈاکٹرز، یہ طبی دہشتگردی نہیں تو اور کیا ہے؟ 
 روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کرنے، سرکاری ڈاکٹروں کی نجی ہسپتالیں بند کرنے اور صوبے میں غیر سند یافتہ ڈاکٹروں کے خلاف حکم کے بعد حکومت سندھ نے کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر مندھرو کا کہنا ہے کہ جن سرکاری ڈاکٹرز نے نجی کلینکس کھولی ہوئی ہیں ان کءخلاف کاررائی کی جا ئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ نجی کلینکس کی وجہ سے ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں پر توجہ نہیں دیتے۔ اور سرکاری ہسپتال پہنچنے والے مریضوں کو نجی کلینک پر ّنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ 
 کسی بھی معاشرے میں اگر امن و امان، صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہ ہوں ، تو یہ معاشرےاپنے طور پر آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یہ تینوں اسم معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرتی طور پر آج ہم جس توڑپھوڑ کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان تین شعبوں پر توجہ کم دی ہے۔ امن وامان جس بدتری کا شکار ہےاس میں ہمارا اپنا ہاتھہے۔ ضیاءالھق کے سیاہ دور میں ہاتھوں سے حالات خراب کئے گئے۔ تاکہ لوگ اپنے ہی مسائل میں الجھے رہیں، قبائلی اور برادری کے جھگڑے چلت ہوں یا، ڈاکے یا تعلیمی اداروں میں تعصب یہ سب کچھ ایک خاص سوچ اور ذہنیت کے ساتھ کیا گیا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ بلکہ ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کے نام پر جنگلات کات دیئے گئے۔ کاپی کلچر کی حوصلہ افزائی کر کے تعلیم کو تباہ کیا گیا۔ محکمہ صحت پر بھی مطلوبہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ 
 اگر ہمارے حکمران اور بیوروکریسی احساس برتری کا شکار نہ ہو کر 

سندھ سراپا احتجاج اور حکومت کی ٹال مٹول jan 6

سندھ سراپا احتجاج اور حکومت کی ٹال مٹول
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 سندھ میں گنے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ خیرپور سے لیکر کراچی تک مختلف شہروں اور شاہراہوں پر کاشتکار احتجاج کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہے۔ بدھ کے روز ایک ریلی حیدرآباد سے کراچی تک نکالی گئی۔ حیدرآباد سے اس ریلی کی قیادت حلیم عادل شیخ کر رہے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف سندھ کی قیادت اور اور اس حساس صوبے سے پارٹی میں شامل ہونے والے بڑے نام ریلی میں شامل نہیں تھے۔ جمعرات کو میرپورخاص میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کاشتکاروں کی حمایت کا اعلان کیا تاہم یہ بھی کہا کہ مل مالکان کے حقوق غصب ہونے نہیں دیئے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ صوبے میں 29 شگر ملیں آصف علی زرداری کی ہیں۔ قانونی طور پر شگر ملز اکتوبر کے وسط میں شروع ہونی ہیں لیکن دسمبر ختم ہو چکا ہے شگر ملیں ابی چالو نہیں کی گئی ہیں۔ مل مالکان کاشتکاروں کو تقریبا 143 روپے فی من دینا چاہتے ہیں۔ مل مالکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس چینی کے اسٹاک موجود ہیں۔ لہٰذا وہ ” مہنگے داموں “ پر گنا خرید کر کے نہ اپنا سرمایہ پھنسانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنا نقصان کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک بھی پہچا ۔ عدالت نے 173 روپے فی من عبوری قیمت مقرر کی اور اور حتمی فیصلے آنے تک فی من پر دس روپے کے حساب سے رقم عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ لیکن اس عدالتی فیصلے پر عمل نہیں ہو نا باقی ہے۔ 
صوبے میںسرکاری سطح پر دو اور انکشافات ہوئے ہیں۔ایک یہ کہ کراچی میں ہزارہا ایکڑ سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے کا اعتراف ہے۔ اس امر کا اعتراف وزیر اعلیٰ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔ جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے یہ قبضے خالی کرانے کا حکم دیا ہے۔ دوسرا انکشاف یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ کو دی گئی حالیہ بریفنگ میں متعلقہ حکام نےبتایا کہ سندھ کی 55 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی اور 60 فیصد آبادی کو ڈرینیج کی سہولت حاصل نہیں۔ سندھ میں پینے کے پانی اور ڈرینیج کے حوالے سے گزشتہ آتھ نو ماہ سے عدالت عظمیٰ میں درخواست زیر سماعت ہے۔ صوبے مختلف حلقوں کی تنقید اور اساتذہ کے مسلسل احتجاج کے بعد سندھ حکومت نے تعلیم کی بہتری کے لئے دس سالہ منصوبہ بنایا ہے ۔ جس کے مطابقاساتذہ کی تربیت کے لئے اکیڈمی قائم کی جائے گی۔ اساتذہ کی ترقی اور دیگر فوائد کو قابلیت اور تربیت سے مشروط کردیا جائے گا۔ این ٹی ایس ٹیسٹ پاس اساتذہ کو مستقل کیا جائے گا۔ وزراءاور سیکریٹریز پر مشتمل کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر رپورٹ پیش کرے۔ سندھ کے اخبارات نے گزشتہ ہفتے انہی موضوعات پر اداریے لکھے ہیں۔ 
روزنامہ عبرت نے سندھ کی صورتحال پر ایک جامع اداریہ ” سندھ سراپا احتجاج اور حکومت کی لاپروئی“ کے عنوان میں لکھتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل حکومت کو دس سال مکمل ہونے والے ہیں۔اس عرصے کے دوران سندھ کے عوام کو کیا ملا، ان پر کیا گزری؟ وہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ حکومت کی کوتاہیاں اپنی جگہ پر لیکن سماج میں بے حسی کا رجحان بڑھاہے جس کے نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر سندھ کے عوام کے ہاتھوں سے امید، جستجو، اور انسپائریشن کا پرندہ نکل چکا ہے۔ ” بس جینا ہے اور جی رہے ہیں۔“ کی بنیاد پر زندگی کا کاروبار چل رہا ہے۔ زراعت سندھ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اس کو ہاتھ سے تباہ کیا گیا ۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے کاشتکار گنے کی قیمت 182 روپے من حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ گمبٹ، کراچی اور دیگر مقامات پر کیا ہوا؟ یہ سن چکھ میڈیا میں آچکا ہے۔ یہ بھیایک المیہ ہے کہ سندھ حکومت کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج سوال اٹھائے جاتے ہیں تو اس کو قوم پرستوں یا مخالفین کی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ لیکن اب جب عدالتیں پینے کے صاف پانی پر اظہار تشویش کرتی ہیں، تو اسکے ضواب میں حکومت کے پاس کوئی ٹھوس جواب ہے؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ اب جب پیپلزپارٹی کا دور حکومت مکمل ہونے والے ہے، تب ترقیاتی حوالے سے کچھ سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں۔ لیکن پورے 9 سال کے دوران جو تباہی کی گئی اس کا ازالہ کون کرے گا۔ ہم سندھ کے عوام کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ آخر وہ کب تک بے بسی کی زنجیر گلے میں ڈال کر جیتے رہیں گے۔ کیا انہیں یہ زنجیر اٹھا کر پھینکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 
 روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ وزیراعیلٰ سندھ کا کہنا ہے کہ گنے کی قیمت ایسی ہو جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ وزیراعلیٰ سندھ نے گنے کے بحران کے لئے پنجاب کو ذمہ دار ٹہرایا اور کہا کہ پنجاب سے 100 فی من کے حساب سے گنا سندھ کی شگر ملوں کو سپلائی کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں سندھ کے کاشتکاروں کا مہنگا گنا کون لے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ شگر مافیا زیادتی کرہی ہے۔ اب آئندہ سال شگر ملز کو گنا نہیں ملے گا۔ سندھ صنعتی زون نوری آباد روز بروز زوال پذیر ہے۔ یہاں سے متعدد کارخانے پنجاب منتقل ہو چکے ہیں۔ اگر چند ایک کارخانے باقی ہیں بھی تو اس لئے کہ انہیں سندھ میں خام مال سستا ملتا ہے۔ باقی ان ملوں میں سندھ کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بند ہیں۔ لہٰذا سندھ کے لوگوں کے روزگار کے لئے تمام بوجھ زراعت پر چلا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند عشروں سے زراعت بھی تباہ ہے۔ گنے کے بیلٹ کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ تباہ کیا گیا۔ مطلوبہ پانی کی عدم فراہمی، جعلی زرعی ادویات، کھاد اور بیج کی بلا روک توک فراہمی نے سندھ کی زرعی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کی نظر ان معاملات پر نہیں جاتی۔ ممکن ہے کہ سندھ کی زراعت کو نقصان پہنچانے کے لءپنجاب کا بھی رول ہو، لیکن جو سندھ کی حکومت اور اس کے ادارے و افسران یہاں کے کاشتکاروں اور معیشت کے ساتھ کر رہے ہیں اس کا بھی جائزہ لینے اور اس ضمن میں موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں حکومت کو ٹال مٹول کے بجائے گنے کی قیمتوں کے حوالے سے سیاسی مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے۔ 
 Jan 6, 2018

سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی Dec 23

Dec 23 

 سندھ میں ترقی کاغذوں سے باہر نہیں نکلتی
سندھ نامہ سہیل سانگی 
”منڈی کی جنس کی طرح فروخت ہوتا ہوا قانون“ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ صرف ایک روز کے اخبارات میں رپورٹ ہونے والے روڈ حادثات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں زندگی حادثات کی راہ چل پڑی ہے۔ صرف ایک روز میں 12 انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بیس بتائی جاتی ہے۔ نوری آاد کے قریب خیرپور سے کراچی جانے والی مسافر وین ایک ڈمپر سے ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجے میں چار افراد موقع پر ہی ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ۔ ٹھٹہ کے قریب گجو میں مسافر بس پولیس موبائیل سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار فوت ہو گیا۔ بھان سید آباد میں ایک ٹریکٹر ٹرالی الٹنے کی وجہ سے دو نوجوان فت ہوگئے۔ مٹیاری کے قریب گاڑی الٹنے سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح سے میہڑ، سجاول بائی پاس، سیہون، مٹیاری قاضی احمد، خیرپور، اور ٹنڈوجام میں حادثات میں ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ یہ وہ خبریں ہیں جو میڈیا میں شایع ہوئی ہیں۔ لیکن میڈیا کی رسائی سے دور بھی حادثات ہوئے ہونگے جو رپورٹ نہیں ہو سکے ہیں۔ 
 سندھ میں روڈ حادثات بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا، تیز رفتاری، لاپروائی، سڑکوں کی خراب ھالت، ان فٹ گاڑیاں، موالی اور منشیات کے عادی ڈرائیور، اور ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءمیں متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پاسداری نہ کرنا شامل ہے۔ سندھ میں روڈ اور سڑکوں پر گاڑیاں تو چلتی ہیں لیکن قانون نہیں چلتا۔ ایک کہاوت ہے کہ قانون کو بھی موت کی طرح ہونا چاہئے۔ جس میں کوئی مستثنیٰ نہ حاصل نہ ہو۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ یہاں قانون کو سکہ رائج الوقت کے عوض خریدا جا سکتا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس سے لیکر ٹریفک قوانین سے استثنیٰ تک ہر چیز قابل فروخت ہے۔ 
 سندھ میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ اکثر سڑکیں صرف کاغذوں پر ہی بنی ہوئی ہیں۔ سندھ میں ترقی کا ثبوت کاغذوں سے باہر نہیں نکلتا۔ بجٹ میں ہر سال سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بجٹ بھی ”حادثات“ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگر سڑک بنتی بھی ہے تو چند ماہ میں ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ کیونکہ اس سڑک پر بجٹ کا ایک معمولی حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ تیزرفتاری بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹریفک قانون میں اس کی ایک حد مقرر ہے۔ لیکن ان قوانین پر عمل کون کرے؟ چھوٹی سڑکیں ہوں یا شاہراہیں، لوہے کے ہاتھی بے قابو دوڑتے رہتے ہیں۔ جب قانون پر عمل نہیں ہوگا، نظام ترتیب اور تنظیم کھو بیٹھے گا۔ ایسے میں حادثات کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کی فٹنیس بھی اہم مسئلہ ہے۔ جب قانون کی قیمت سکہ رائج الوقت میں ادا کر دی جاتی ہو، ایسے میں ان ت گاڑیوں کو کیسے روڈ سے آف کیا جاسکتا ہے؟ سندھ میں حادثات میں روز لوگ مر رہے ہیں، پھر ان کو ھادثات کیسے کہا جاسکتا ہے؟ حادثے تو اچانک ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ یہاں تو اسبا اور وجوہات موجود ہیں۔ پھر ان کو ھادثہ کیسے کہا جائے؟ جب ٹریفک قوانین کی خالف ورزی کی جائے گی، جب ان فٹ گاڑیوں پر سڑکوں پر آنے سے روکا نہیں جائے گا، جب ڈرائیونگ لائسنس ایک بکتی ہوئی جنس کی طرح ہو، ظاہر ہے اس کا نتیہجہ حادثات کی شکل میں ہی سامنے آئے گا۔ جب حادثات کے اسباب مہیا کئے جاتے ہیں تو پھر ان کو ھادثہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ سندھ میں روڈ حادثات، اس کی وجوہات ختم کرنے سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔
تعلیمی ایمرجنسی کی مثال! 
 ”سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کی مثال!“ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی ایرمجنسی نافذ ہے۔ سندھ حکومت اپنے تئیں صوبے میں تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش میں رہتی ہے کہ وہ تعلیمی ترقی کے لئے بہت پریشان ہے۔ لیکن عملی طور پر اس ضمن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی تازہ مثال گزشتہ روز صوبائی دارلحکومت کراچی میں اساتذہ پر برسائی گئی لاٹھیوں اور ان کی گرفتاریوں سے ہوتا ہے۔ جس کی صوبے بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جو ایک عرصے سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔لیکن انہیں ریگیولرائز نہیں کیا گیا۔ یہ اس حکومت کا رویہ ہے جس کو صوبے کے عوام کااکثریتی مینڈٰٹ حاصل ہے۔ استاد کا احترام کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کی پہلی نشانی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا شعبہ تعلیم ہی ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ کے ساتھ ہر دور میں یہ روش رہی ہے جیسے کہ وہ اضافی یا فالتو لوگ ہوں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران تعلیم کے بارے میں جو بھی اجلاس منعقد ہوئے ان میں وزیراعلیٰ سندھ نے جو بڑے بڑے وعدے کئے وہ ریکارڈ پر ہیں۔ گزشتہ روز کرایچ میں اساتذہ پر ہونے والی کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اپنے وعدوں کا کتنا پاس رکھا ہے۔ ایک طرف بتایا جاتا ہے کہ صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں اسکول بند ہیں ۔اور اساتذہ کی کمی ہے۔ دوسری طرف نئے اساتذہ بھرتی کرنے کے بجائے جو اساتذہ برسہا برس سے اپنے فرائض منصبی بخوبی ادا کر رہے ہیں ان کو مستقل نہیں کر کے آخر حکومت عوام کو اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ 
 چند روز پہلے بھی اساتذہ پر کراچی میں تشدد کیا گیا تھا۔ وزیر تعلیم نے اس کارروائی کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی کہ گزشتہ دور حکومت میں غیر ضروری طور پر اساتذہ بھرتی کئے گئے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ بھرتیاں پیسوں کے عوض کی گئی تھی۔ لہٰذا ان کو مستقل نہیں کیا جاسکتا۔ کیا وزیر محترم بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت کس سیاسی جماعت کا تھا؟ وزارت تعلیم کا قلمدان کس کے پاس تھا؟ گزشتہ دور حکومت بھی موجودہ حکمران جماعت کا تھا۔ ہم وزیر موصوف کے ان دلائل کو مسترد کرتے ہیں اور ان زمینی حقائق کی طرف لے آتے ہیں کہ آج بھی سرکاری اعداد وشمار کے مطاب ہزاروں اسکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں ۔ جب زمینی حقیقت یہ ہے تو پھر یہ اساتذہ اضافی یا فالتو کیسے ٹہرے؟

کیا سندھ میں ایمانداری کا قحط رجال ہے؟ Dec 30

Dec 30
کیا سندھ میں ایمانداری کا قحط رجال ہے؟
سندھ نامہ سہیل سانگی 
”سراپا احتجاج سندھ اور احساس برتری میں مبتلا حکومت“ کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وفاقی خواہ صوبائی حکومتوں کی آئینی مدت مکمل ہونے میں چند ماہ باقی ہیں۔ جس کے بعد حکومت کی انتظام کاری نگراں سیٹ اپ کو مل جائے گی۔ اور ملک کی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں مصروف ہو جائیں گی۔ انتخابی مہم کا وقت ایک دوسرے کے احتساب کے دن ہونگے۔ خاص طور پر مخالف جماعتیں حکمران جامعتوں کے کچے چٹھے عوام میں لے آئیں گے۔ اگرچہ اس کام کا آغاز انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے ہو چکا ہے۔ حکمران جماعتوں پر جو تنقید کے تیر برسائے جائیں گے ان سے بچنے کے لئے ان جماعتوں اپنے تئیں بندوبست کر رکھے ہیں۔ حالیہ صورتحال بتاتی ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت نواز لیگ سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ سندھ میں گزشتہ دس سال سے حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی کو بظاہر کسی بڑے چلینج کا سامنا نہیں۔لیکن حالات مکمل طور پر اس کے حق میں بھی نہیں ہونگے۔ ماضی کے قصے بھلے عوام بھلا بھی دے، لیکن حال ہی میں جو احتجاج ہوئے رہے ہیں اور حکومت کے خلاف جو شکایات آرہی ہیں وہ انتخابات پر یقیننا اثرانداز ہونگی۔ خاص طور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے عدالتی ریمارکس اور ہدایات اور اس معاملے پر حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر حکومت اس الزام سے خود کو کسی طرح سے بری کر لیتی ہے تو گنے کے کاشتکاروں کا احتجاج کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا۔ 
اگرچہ عدالت نے گنے کی قیمت مقرر کردی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ شگر مل مالکان اس پر عمل درآمد کرتے ہیں یا پسائی کا عمل روک کر ملیں بند کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ برادری بھی آج کل سڑکوں پر ہے۔ 10 دسمبر کوبھٹ شاہ سے شروع ہونے والا مارچ ایک دو رز میں کراچی پہنچنے والا ہے۔ جہاں پر حکومت کی جانب سے میزبانی قابل دید ہوگی۔ ماضی میں جس طرح سے اساتذہ کےساتھ جو سلوک کیا گیا اگر اسی رویے کو دہرایا گیا تو ساتذہ طبقے کے پاس حکومت کے خلاف غصہ جمع ہونا یقینی ہو جائے گا۔ اسی طرح محکمہ آبپاشی کے ملازمین بھی لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ اتنے سارے مسائل اور احتجاجوں کے باوجود حکومت سندھ کو کوئی پریشانی نہیں۔ یہ احساس برتری ہے یا عوام سے عدم دلچسپی؟ یہ تمام معملات جمع ہو کر حکومت کے لئے کسی بڑے خطرے کا سسب بن سکتے ہیں۔ اس صورتحال کو پیپلزپارٹی کی حکومت کس طرح سے مقابلہ کرے گی؟ فی الحال یہی لگتا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت نے ان مسائل پر سنیجدگی سے سوچا ہی نہیں ہے۔ 
خواہ پیپلزپارٹی کے خلاف کوئی بڑا سیاسی محاذ موجود نہ ہو لیکن مسائل کو سلجھانے میں غیر سنجیدگی اس کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سندھ میں ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ اغوا کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پارٹی قیادت صوبے کی صورتحال پر پارٹی کو سنیجدگی اختیار کرے اور فوری اقدامات کرے۔ 
روزنامہ کاوش ”صرف تحقیقاتی کمیٹیوں سے کرپشن نہیں رکتی“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ویسے تو کرپشن ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے لیکن سندھ کے اداروں کو مکمل طور پر سرایت کر چکی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب عجب کرپشن کی غضب کہانیاں میڈیا میں رپورٹ نہ ہوتی ہوں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ قائدعوام یونیورسٹی نواب شاہ کے بارے میں شایع ہوئی ہے۔ جہاں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ سے جاری منصوبوں کے ٹیکٹیکل سامان کی خریداری میں بیس کروڑ روپے کے غبن کے خلاف ٹیکسیلا انجنیئرنگ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ حکومت سندھ کی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں میں بھی غبن کی خبریں آچکی ہیں۔ لیکن سندھ کے صاحب لوکوں نے اس کرپشن کی تحقیقات کے لئے کوئی تحرک نہیں لیا ہے۔ 
 مختلف وتقں میں سندھ کی مختلف پہچان رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سندھ کے بافتہ سازی یہاں کے ہنرمندوں کی وجہ سے ولایت میں مشہور تھی۔ دوسرے زمانے میں سندھ کا صوفیانہ مزاج یہاں کی پہچان بنا۔ آج کل وہ زمانہ ہے کہ کرپشن سندھ کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ آمریت کے زمانے میں پیدا ہونے والی اس وبا کے خاتمے کی کوشش کرنے کے بجائے ہر دور میں کرپشن کو پرون چڑھانے کے لئے بد انتظامی کے ذریعے سازگار ماحول بنایا گیا۔ یہاں اداروں کے سربراہان کے تقرر کا شاید ایک ہی معیار ہے کہ ان کا نظام ہاضمہ کتنا فعال اور موثر ہے؟ کیا وہ لکڑ ہضم پتھر ہضم ہیں؟ سندھ میں کرپشن کا بول بالا ہے۔ کرپشن اب کوئی جرم نہیں بلکہ حق سمجھا جاتا ہے۔ کرپشن کو روکنے کے ذمہ دار ادارے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کرپشن کے خاتمے کا تصور فضول سا لگتا ہے۔ ایسے سماجوں کو اصلاحات کے بجائے اوور ہالنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اوور ہالنگ تب ممکن ہے جب حکمران اس بارے میں مخلص ہوں۔ باقی کرپشن ظاہر ہونے کے بعد کمیٹیاں بنا کر یہ محسوس کرانا کہ ” ناسور کے خاتمے ے لئے لگے ہوئے ہیں“۔ اس سے کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ کرپشن کیسے ختم ہوگی جب حکمرانوں کے پاس اس کے سدباب کا واحد راستہ کمیٹی بنانا ہو؟ 
کرپشن کے خاتمے کی اولین شرط یہ ہے کہ یہ عمل نمائشی نہ ہو۔ ایک ادرے کے سربراہ کی ایمانداری سے بھی بہت بڑا فرق پڑتا ہے ، شرط یہ ہے کہ اس کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ سیاسی مداخلت نہ کی جائے۔ یہاں موجودہ آئی جی سندھ پولیس کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جس نے بعض بہتر انتظامی کوششیں کی ہیں۔ مگر انہیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنے ادارے میں کرپشن کو قریب پھٹکنے ہی نہیں دیا۔ ایک فرد، جی ہاں ایک فرد اگر سچائی کے ساتھ کھڑا ہو، بہت کچھ کرسکتا ہے۔ کیا سندھ میں ایمانداری کا قحط رجال ہے کہ اداروں کو چلانے کے لئے ادیب رضوی جیسے چند لوگ بھی نہیں مل رہے ہیں۔ یقیننا ایسا نہیں ہے۔ اصل میں منتظمین کی یہ ضرورت اور ترجیح ہی نہیں۔ جب کرپشن کی کوئی روک ٹوک نہ ہو، اداروں کی سربراہی کے لئے واک لگ رہے ہوں۔ انتظامی سربراہوں کو ادائگی سے دس گنا زیادہ رقم نکالنی ہو، ظاہر ہے کہ پھر یہی نتیجہ نکلے گا۔ ا صورتحال میں بیس کروڑ روپے کی کرپشن معمولی بات ہے۔ اداروں کے سربراہ سیاسی اور انتظامی پشت پناہی پر پورے کے پورے پروجیکٹ نگل جاتے ہیں۔ اسیے پروجیکٹس کا نام و نشان صرف کاغذوں میں ہی ملتا ہے۔