Thursday, March 30, 2017

وزیر اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات کے تحت افسران کی بھرتی ۔ سندھ نامہ ۔



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ   سہیل سانگی

 وزیر اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات کے تحت بھرتی

ماضی میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے دائرہ اختیار کو پھلانگ کر وزیراعلی سندھ نے صوابدیدی اختیارات کے تحت افسران کی براہ راست بھرتی کی تھی جس کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ یہ بھرتیاں صرف پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ جا م صادق علی، مظفر حسین شاہ، لیاقت جتوئی کے زمانے بھی ہوئی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت ایسے افسران کے اعدادوشمار جمع کر رہی ہے۔ ابھی تک جو تفصیلات سامنے آئے ہیں میڈیا میں ان پر بحث ہو رہی ہے۔ ان تفصیلات کے مطابق سندھ میں 61 ایس پیز ، 50 ایڈیشنل سیکریٹریز سمیت ڈیڑھ سو سے زائد اعلیٰ افسران اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان افسران میں بعض کا تعلق بااثر خاندانوں سے ہے۔ ہالہ کی مخدوم خاندان کے دو افسران بھی شامل ہیں جو اب بطور سیکریٹری کام کر رہے ہیں۔
اس لمبی فہرست میں ایسے افسران بھی شامل ہیں جو ’’نیب زدہ‘‘ ہیں یعنی ان پر نیب کے مقدمات ہیں یا نیب سے پلی بارگین کر کے آئے ہیں۔ نصف درجن کے قریب افسران فوت یا ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ہو چکے ہیں۔

سندھ میں براہ راست گریڈ 17 افسران کی بھرتی کا عرصہ ہی طویل نہیں داستان بھی طویل ہے۔ جس کے نیتجے میں بااثر لوگ مزید بااثر ہو گئے۔ سیاست اور انتظامیہ کا امتزاج ہو گیا جس کی وجہ سے گورننس اور سماجی انصاف عام آدمی کی پہنچ سے دور چلا گیا۔ دوسری طرف میرٹ پر بھرتی ختم ہونے کی وجہ سے نہ صرف تعلیم کی اہمیت کم ہو گئی بلکہ عام لوگوں میں احساس محرومی بھی بڑھا۔ اب اگر سپریم کورٹ ان بھرتیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اس کے مجموعی طور پر سندھ میں انتظام کاری اور لوگوں کی رسائی کے معاملات میں سہولت پیدا ہوگی۔

سندھ میں صوبائی مشیران کو ہٹانے کے حکم کے بعد عدلیہ کا یہ دوسرا بڑا حکم ہوگا جو سندھ میں گورننس اور انتظام کاری کے حوالے سے سامنے آئے گا۔

سندھ کے اخبارات نے یہ بھی خبریں دی ہیں کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے تمام وڈیروں کے لئے پارٹی کے دروازے کھول دینے کے بعد اب اس بات کی ضرورت پیش آگئی ہے کہ صوبے میں مزید اضلاع بنائے جائیں تاکہ سب کو اکموڈیٹ کیا جاسکے۔

اخبارات نے مردم شماری کے حوالے سے بھی مضامین اور کالم شایع کئے ہیں۔ اور مردم شماری کے بعدض امور پر تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔اخبارات کا کہنا ہے کہ صوبے کے دوردراز علاقوں اور غریب مقامات پر متعدد لوگ قومی شناختی کارڈ نہیں بنوا سکے ہیں۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتیں بھی سرگرم ہوئی۔

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے منتظمین عوام کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ اس کا ثبوت لوگوں کو زہریلا، آلودہ اور غلاظتوں سے بھرپور پینے کے پانی کی فراہمی سے ملتا ہے۔ اس امر کی نشاندہی متعدد سروے رپورٹوں میں کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ کے بعد پانی کے وسائل پر کام کرنے والے وفاقی ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے بھی صوبے کے 13 اضلاع میں فراہم کئے جانے والے پانی کو مضر صحت قرار دیا گیا ہے۔ کراچی کے چھ اضلاع، سکھر لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر ، بدین اور حیدرآباد مین زمین کی سطح خواہ زیر زمین پانی کے 300 نمونے جمع کرکے معائنہ کیا گیا۔ جس سے پتہ چلا کہ 80 فیصد پانی انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔

عوام کو پینے کا صاف پانی راہم کرنا سندھ کے حکمرانوں کی اولیت یا ترجیح دور کی بات، انتظامی ایجنڈا میں بھی شامل نہیں۔ عوام کو پانی کے نام پر نامیاتی و غیر نامیاتی مواد اور بیکٹریا کی آمیزش سے بھرپور مائع پینے کے لئے فراہم کیاجاتا ہے اسکو دنیا کی کوئی بھی لیبارٹری پینے کے قابل قرار نہیں دے سکتی، جن دریاؤں، کینالوں سے پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے اس میں ہر طرح کی گندگی ڈالی جارہی ہے۔

دنیا بھر میں تحفظ ماحولیات کے لئے قائم ادارے کسی حد تک ماحول کا تحفظ کر کے وہاں کے لوگوں کو بہتر زندگی دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن ہمارے کشور حسین میں یہ ادارے متحرک نہیں۔ انہوں نے یہ ذمہ داری این جی اوز کی جھولی میں ڈال دی ہے اور خود بے فکر بیٹھے ہیں۔ ماحولیات سے متعلق اداروں کا کام صرف ماحولیات سے متعلق کانفرنسوں اور سیمیناروں کی صدارت کران یا ان کو خطاب کرنے تک محدود ہو گیا ہے۔

سندھ میں تحفظ ماحولیات کے ادارے ’’ سیپا‘‘ کو دیکھ کر اس کی سماعت اور بصارت سے محروم ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ یہ ادارہ عوام کے پیسے پر مصیبت بنا ہوا ہے ۔ کیونکہ ماحولیات کے تھٖظ کے حوالے سے اس ادارے کا کوئی کردار نہیں۔ ماحول کس طرح سے آلودہ ہورہا ہے ، پانی وسائل اور ذرائع کس طرح آلودہ ہو رہے ہیں یہ سب کچھ اس ادارے کی نظر میں نہیں۔ ایک طرف لوگوں کو پینے کا آلودہ اور جراثیم سے بھرپور پانی فراہم کیا جارہا ہے، دوسری طرف اس پانی کے استعمال سے پیدا ہونے والے امراض کا سرکاری سطح پر علاج کا کوئی بندوبست نہیں۔ انتظامیہ کی اس احسن کارکردگی کی وجہ سے لوگ قبرستانوں تک پہنچ رہے ہیں یا ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کو پرواہ نہیں۔ اس تمام عمل کا تعلق گڈ گورننس سے ہے۔
جب تک گورننس کا معیار بہتر نہیں ہوتا، تب تک دیگر سہولیات دور کی بات لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں ہو سکے گا۔ اگر حکمران لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کر سکتے تو پھر ان کے کرنے کے لئے کون سا کام رہ جاتا ہے؟