Friday, May 25, 2018

ووٹرز کا لہو گر مانے کے لئے نفرت درکار ہے

Sindhi Press,  Sindh Nama,
May 26, 2018

ووٹرز کا لہو گر مانے کے لئے نفرت درکار ہے
سندھ نامہ    سہیل سانگی
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی کے علحدہ صوبے کی بات کرنے والوں پر لعنت ڈالنے کے جملے کے بعد ایم کیو ایم ( پاکستان) اور پیپلزپارٹی کے درمیان لفظی جنگ تیز ہو گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے ایم کیو ایم کے اراکین کو جواب دیا ۔ اور کہا کہ جن لوگوں نے کھلے دل کے ساتھ آپ لوگوں کا استقبال کیا آپ نے ان کی تذلیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔ اس بات کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پریس کانفرنسیں کی اور قومی اسمبلی میں بھی شور مچایا۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ علحدہ صوبے کی بات کرنے والوں پر لعنت بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنانے والوں کو برابر کا سندھی نہیں مانا گیا، اور نہ ہی انہیں حقوق دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چیلینج نہ کیا جائے کہ ہم جنوبی سندھ کا الگ صوبہ نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے اس جملے پر معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم رہنماؤں کے درمیان شروع ہونے والے ان الفاظ کی جنگ پر لوگوں کو اس وجہ سے بھی حیرانگی نہیں کہ اب انتخابات سر پر ہیں۔ دونوں پارٹیوں کو اپنے ووٹرز کا لہو گرم کرنے کے لئے اس طرح کے اشو درکار ہیں۔ تاکہ ووٹرز کو خوف میں مبتلا کر کے اپنی جیت کو یقینی بنایا جائے۔ پیپلزپارٹی نے کم، لیکن ایم کیو ایم نے ہمیشہ اس طرح کے جھگڑون کا فائدہ حاصل کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خوف کا فائدہ ہمیشہ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک روز اس کا بھی خاتمہ ہونا ہے۔ گزشتہ برسوں کے اقدامات کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ اب ایم کیو ایم عوام کے مسائل کو بنیاد بنا کر اپنا سیاسی سفر جاری رکھے گی۔ ماضی کی کوتاہیوں کے ازالے کے طور پر لسانی نفرتوں سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہو جائے گی۔ شاید یہ ممکن نہیں رہا کہ جو ہاتھ لوٹ مار اور قتل کے عادی ہوں ، وہ خیر کی دعا کے لئے آسمان کی طرف نہیں اٹھ سکتے۔ یہی المیہ ایم کیو ایم کے لوگوں کا ہے۔ سید خورشید احمد شاہ نے بہت ہی بروقت اور مثبت بات کہی کہ ہم اردو بولنے والوں کو سندھی سمجھتے ہیں، ہم ان کے خلاف نہیں بات کر سکتے۔ باقی جو سندھ یا ملک کو توڑنے کی بات کرے گا وہ لعنتی ہوگا۔
تقسیم کے بعد انڈیا سے آنے والوں کو مہاجر کہا جاتا تھا۔ جو لگ بھگ ملک کے ہر حصے میں جاکر آباد ہوئے۔ لیکن اکثریت نے سندھ اور پنجاب میں رہائش اختیار کی۔ انڈیا سے پنجاب میں آکر بسنے والوں نے خود کو پنجابی کہلانا شروع کیا، لیکن سندھ میں آکر بسنے والے آج تک خود کو مہاجر سمجھتے ہیں اور کہلاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم کے بعد یہاں منتقل ہونے والوں کی اکثریت اب اس مٹی میں مدفون ہے۔ جو ابھی تک بقید حیات ہیں، وہ سندھی کے لوگوں کی مہمان نوازی اور مشکل وقت میں ساتھ دینے کی تعریف کرتے ہیں۔ نہ صرف اتنا بلکہ ناہوں نے اپنی پہچان کو اس طرح ضم کردیا کہ اب یہ شناخت کرنا مشکل ہوگا کہ وہ انڈیا سے آکر یہاں بسنے والے ہیں یا پرانے سندھی ہیں۔ ان کی اولاد سندھ میں پیدا ہوئی، پروان چڑھی، دریائے سندھ کا پانی پیا، سندھ کے کھیتوں کا اناج کھایا، پھر بھی مہاجر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح سے دنیا کے دیگر ممالک سے آکر یہاں بسنے والے سندھی ہو گئے، اسی طرح یہ یہ برادران بھی خود کو سندھی سمجھتے، سندھی کہلاتے ۔ لیکن ایک نام نہاد احساس برتری نے انہیں ایسا کرنے سے روکے رکھا۔ ضیاء کے مارشلائی دور نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے سندھ میں جاری ہلچل کے آگے پل بنادھنے کے لئے لسانیت کو ہوا دی۔ اس لسانیت کی آگ تاحال کسی نہ کسی شکل میں جلتی رہتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس نفرتوں کی آگ نے پہلے ہی ہم سے بہت کچھ چھینا ہے۔ یہ نفرتیں سندھ اور اس کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان کو دوبارہ ابھار کر لوگوں کی زندگی زہر کرنا کسی طور پر بھی دانشمندی نہیں ۔
سندھ میں تعلیم کی بربادی کی ’’سرکاری تصویر کشی‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال سے مسلسل پیپلزپارٹی کی حکومت رہی ہے۔ اس دس سالہ دور میں تمام شعبوں اور خاص طور پر تعلیم کو کھڈہ لائین لگایا گیا۔ صوبے کے اندر سرکاری شعبے میں تعلیم پہلے ہی تباہ و برباد تھی، حکمرانی کے حالیہ عشرے میں یہ تباہی عروج کو پہنچ گئی۔ لیکن ہمارے حخمران ہیں کہ احسن کارکردگی کے دعوا میں کوئی وفقہ دینے کو تیار نہیں۔ عام خلق کو کیا مجال کہ وہ اس ’’ اعلیٰ کارکردگی‘‘ پر انگلی اٹھانے کی گستاخی کرکے جمہوریت کے خلاف سازش کی مرتکب ہو؟ یہ حکومتی ادارے ہیں جو وقفے وقفے سے منتظمین کی پیش کردہ طلسمی تصویر کے بجائے حقیقی روپ ظاہر کرتے رھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ محکمہ تعلیم کے مانیٹرگ اینڈ ایولیسن سیل نے جاری کی ہے۔ سیکریٹری اسکولس ایجوکیشن کو پیش کی گئی یہ رپورٹ منتظمین کے خلاف کسی چارج شیٹ سے کم نہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے کے 48677 اسکولوں میں سے 12594 اسکول ( یعنی 26 فیصد ) بند ہیں ۔ کل ایک لاکھ چالیس ہزار اساتذہ میں سے 23 ہزار اساتذہ غیر حاضر ہیں ، 1928 مستقل غیر حاضر ( کل 19 فیصد) ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی وزیر تعلیم مہتاب ڈہر نے سندھ اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ 14 ہزار اسکول ، جو کہ کل تعدا کا تقریبا تیس فیصد ہے، واش روم سے محروم ہیں۔ محکمہ تعلیم کی کارکردگی کی رپورٹ سندھ حکومت کی گڈ گورننس کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
سندھ میں تعلیم کی روزبروز پستی کی اصل وجہ انتظامی ہے۔ انتظامی طور پر کرپشن کے لئے سازگار ماحول بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس سالہ دور حکومت کے اختتام پر بھی 12 ہزار اسکول بند ہیں۔ یہ اسکول کھلوانے میں ناکامی، نااہلی کا ناقابل تردید مثال ہے۔ چھبیس فیصد اسکول بند ہونا عوامی مینڈٰیٹ کی توہیں نہیں؟ صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے۔ ایمرجنسی میں یہ صورتحال ہے، اس سے منتظمین کی تعلیم کے بارے میں سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسکول تاحل بھوتاوں کے کھاد، زرعی ادویات یا اناج کے گودام بنے ہوئے ہیں۔ گھوسٹ ٹیچر محکمے افسران کو ماہانہ رقم کی ادائگی کے عوض سکولوں سے برسوں سے غائب ہیں۔ لیکن وہ تنخواہ بھی وصول کر رہے ہیں اور ملازمت بھی برقرار ہے۔ صوبے اسکول یا بند ہیں یا جو کھلے ہوئے ہیں وہاں اساتذہ بچوں کو پڑھانے کے لئے تیار نہیں۔ حکمرانوں کی اس کارکردی کو سندھ کی آنے والی کئی نسلیں بھگتیں گی۔ 

https://www.naibaat.pk/25-May-2018/13002

Monday, May 21, 2018

امن و امان کا ایجنڈا اور پانی سندھ نامہ:

May 18, 2018 
    سندھی پریس
سندھ نامہ :
امن و امان کا ایجنڈا اور پانی
سندھ نامہ سہیل سانگی 
قانون کی حکمرانی ایک مفروضہ
سندھ کے اخبارات نے پانی کی شدید قلت اور امن و امان کو زیادہ موضوع بنایا ہے۔ صوبے میں امن و امان اور پولیس کارکردگی کے بارے میں سوالات اٹھائے جار ہے ہیں۔ اس موضوع پر روزنامہ سندھ ایکسپریس اور روزنامہ کاوش نے سخت الفاظ میں اداریے لکھے ہیں۔
 ’روزنامہ سندھ ایکسپریس نے شکارپور ضلع کے گاﺅں سلارو کے واقعہ کو موضوع بنایا ہے جہاں پولیس نے دو بھائیوں کو پکڑنے کے بعد قتل کردیا۔ ’امن و امان سندھ کے حکمرانوں کی انتظامی ایجنڈا نہیں“ کے عنوان سے” روز نامہ کاوش “ لکھتا ہے کہ قانون کی گمشدگی کی بات حکمرانوں کے لئے برہمی کا باعث بن گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔ لوگ اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں۔ ایک دوسرے ساتھ گولی کی بات کرنے لگے ہیں۔ گاﺅں پر حملہ کر کے ایک د وسرے کے بندے مارے جارہے ہیں ۔ راکیٹ لانچر اور دوسرے بھاری ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں۔ یہ جنگ و جدل کسی وحشی اور قدیم دور کے منظر پپیش کر رہی ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب ریاست کا وجود نہ تھا، کوئی قانون نہ تھا، ایک قبیلہ دوسرے پر حمملہ آور ہو کر ان کے بندے مارتا تھا، لوٹ مار کرتا تھا۔ آج کی صورتحال کیا اس زمانے سے مختلف ہے؟ آج بھی نہ حکومت کی عملداری نظر آتی ہے، نہ کوئی قانون کا کوئی سراغ ملتا ہے۔ قانون کی حکمرانی ایک مفروضہ بنی ہوئی ہے۔ خون ریزی اتنی اور برادریوں کے جھگڑے اتنے ہیں کہ کسی غیر دشمن کی ضرورت نہیں۔ زمانوں سے سندھ کیس خیر کی خبر کے لئے ترس گی ہے۔ گزشتہ دنوں تیغانی اور بجارانی برادریوں کے درمیان ہونے والی خونریزی سندھ میں امن و امان کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ تیغانی اور بجارانی برادریوں کے درمیان جاری تنازع پر تیغانی برادری کے پچیس تیس مسلح افراد نے گاﺅں حاجی مہران خان بجارانی پر بھاری ہتیاروں سے فائرنگ کی اور راکیٹ لانچرز بھی استعمال کئے۔ جس میں تین افراد مارے گئے جبکہ تیغانی برادری کے تین افراد کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ 
 شمالی سندھ کے نصف درج اضلاع میں برادری جھگڑوں کی آگ بھڑک رہی ہے۔ جیسے عرب کے دور جہالت میں قبائل کے جھگڑے نسل در نسل چلتے رہتے تھے، سندھ میں بھی آج صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ یہاں نہ قانون نظر آتا ہے اور نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار۔ سندھ کا امن و امان حکمرانوں کے انتظامی ایجنڈا کا حصہ نہیں لگتا۔ جب کوئی واقع رونما ہوتا ہے، حکمران اس کا نوٹس لیکر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا خام صرف نوٹس ہی لینا ہے۔ اگر نوٹس لینے پر نوبل انعام ہوتا تو یقیننا سندھ کے حکمرانون کو ملتا۔ جہاں تک پولیس کے کردار کی بات ہے، قوم کے ٹیکس پر پلنے والی اس نااہل نفری سے عوام کو نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ سندھ میں آج کل اچھی شہرت رکھنے والے افسر پولیس سربراہ ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ بھی پولیس کے کردار میں رتی برابر بھی اصلاح نہیں لاسکے ہیں۔ حکمرانوں اور انتظامیہ کا نوٹس اور کمیٹی کی تشکیل پر زور ہے۔ سندھ میں پولیس کی احسن کارکردگی کی کوایک بھیمثال موجود نہیں جس کا برسبیل تذکرہ کیا جاسکے۔ نوٹس لینا اور کمیٹیوں کی تشکیل نمائشی ہیں۔ ان کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آتی۔ جب امیشا خاصکیلی حیدرآباد ے بازیاب ہوئی، تو کئی سوالات اٹھے۔ اس لڑکی کو حیدرّباد کس نے پہنچایا؟ اور وہ اتنا عرصہ کہاں تھی؟ اس طرح کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے آئی جی سندھ پولیس نے ای ایس پی میرپورخاص کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی، جس کو تین روز کے اندر اس معمے کو سلجھانا تھا۔ اس کمیٹی کا کیا ہوا؟ کچھ پتہ نہیں۔ کیا یہ کمیٹی نمائشی تھی؟ کیا ماتحت پولیس افسران آئی سندھ کی ہدایات نہیں مانتے؟ یا کسی معاملے کی پردیداری کی جارہی ہے؟ 
 میڈیا مسلسل نشاندہی کرتا رہا ہے کہ برادریوں کے تنازعات اور تصادم پشت پانہی اور اسلح کی آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رھ سکتے، ان جھگڑون کی آگ پر پر تیل ڈال کر بھڑکانے کا کام تب تک ہوتا رہے گا جب تک اس ”اشرافیہ“ اور مجرم سپاہ کو گرفت مین نہیں لایا جائے گا۔ تصادموں کی زد میں آئے ہوئے اضلاع میں لوگوں کو غیر مسلح نہیں کیا جائے گا۔ اسلح کی رسد کے راستے بند نہیں کئے جائیں گے۔ تب تک سندھ میں قیام امن ممکن نہیں۔
پانی کی قلت شدت اختیار کر رہی 
 پانی کی قلت صوبے بھر میں شدت اختیار کر رہی ہے۔ میڈیا خواہ رائے عامہ کا خیال ہے کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر پانی کی قلت کا بدترین شکار سندھ ہو رہا ہے۔ اخبارات لکھتے ہیں کہ اعدا و شمار کے بازیگری میں سندھ کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ ملک میں 48 فیصد پانی کی قلت بتائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زراعت کو ضرب کاری لگے گی۔ ارسا میں ایسے ماہرین بیٹھے ہیں جو وہ پانی کی موجودگی کا درست اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ارسا کی مشاورتی کمیٹی نے قوم کو یہ نوید دی کہ پانی کی صورتحال میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ پنجاب نے توسنہ سے لیکر کوٹری تک ایک ایم ایف پانی کے ضیاع کی شکایت کی جس پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ پانی کمی اپنی جگہ پر ہے لیکن اس کی چوری اور تقسیم کو ریگیولیٹ صحیح طریقے سے نہ کرنے کی وجہ سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ سندھ میں صورتحال اس وجہ سے بھی خراب ہے کہ زرعی مقاصد دور کی بات پینے کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں۔ سندھ کو صرف اعداوشمار کی شعبدہ بازی سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کی تقسیم 1991 کے معاہدے کے مطابق نہیں کی جارہی۔ ایک ناانصافی ہے جو گزشتہ چند عشروں سے جاری ہے۔ سندھ کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ اس کے حصے کا پانی گڈو بیراج تک پہنچایا جائے۔ یہ شکایات عام ہیں کہ سندھ کے حصےے کا پانی گڈو تک پہنچنے سے پہلے چوری کیا جاتا ہے۔ اب ارسا میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ تونسہ سے کوٹری تک ایم ملیں ایکڑ فٹ پانی ضایع ہو رہا ہے۔ اس شکایت کے بعد بیراجوں کے پاس پانی کا بہاﺅ ناپنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ مشرف دور میں بیراجوں کے پاس پانی کی ناپ کے لئے مہنگے داموں ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیا گیا تھا۔ واپڈاکی ذمہ داری دی گئی۔ لیکن یہ سسٹم خراب ہو گیا۔ جس کو نہ ٹھیک سے نصب کیا گیا اور نہ ہی اس کی دیکھ بھال کی گئی۔ دراصل نیت کی خرابی کی وجہ سے سسٹم خراب ہی رہا۔ سندھ کی حکمران جماعت نے حیدرآباد میں ہٹری بائی پاس پر پانی کی قلت کے خلاف دھرنا دیا۔ بلاشبہ سندھ میں پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے لئے بڑی حد تک وفاق ذمہ دار ہے۔ ان دو چیزوں کی وجہ سے سندھ کے کاروبار، زراعت اور معیشت کو دھچکا لگتا ہے۔ لیکن سندھ کے حکمرانوں سے بھی یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے ک انہوں نے اپنے حصے کا کتنا کام کیا ہے؟ پانی کی چوری روکنے اور تقسیم کو موثر طور پر کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ 

Thursday, May 17, 2018

سندھ ارسا سے مایوس


Nai Baat May 12, 2018 
 سندھ ارسا سے مایوس
سندھ نامہ  سندھی پریس
 سہیل سانگی
ڈاکوﺅں کے خلاف پولیس آپریشن ناکام کیوں 
 ” ڈاکوﺅں کے خلاف پولیس آپریشن ناکام کیوں ہوتے ہیں؟“ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جب بھی انتخابات قریب ہوتے ہیں یا سیاسی افراتفری کا ماحول ہوتا ہے تو سندھ میں اغوا انڈسٹری سرگرم ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ صوبے میں اور خاص طور پر اس کے شمالی اضلاع میں متعدد افراد ڈاکوﺅں کے پاس یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکوﺅں کے پاس رکٹ لانچر سے لیکر بھاری ہتھیار موجود ہیں۔ پولیس ان علاقوں میں مداخلت نہیں کرتی۔ گویا یہ علاقے جرائم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ اور ان کی” مجرم سپاہ “ کو یہ علاقے مقاطع پر دیئے ہوئے ہوں۔ عوامی دباﺅ کے تحت پولیس کبھی آپریشن کرتی بھی ہے تو وہ غلط منصوبہ بندی اور پولیس کی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے ناکام ہو جاتا ہے۔ اور پولیس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک آپریشن تحصیل کندھکوٹ کے کچے کے علاقے میں درانی مہر پولیس کی حدود میں یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے لئے کیا گیا۔ اس آپریشن میں ضلع کے مختلف تھانوں کی پولسی اور چار اے ایس پیز نے بھی حصہ لیا۔ راکٹ لانچر کا گولہ لگنے سے کرمپور پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او علی حسن بکھرانی شہید ہو گئے۔ پولیس کی فائرنگ سے ایک مسلح ملزم لیاقت علی عرف اشرف جاگیرانی قتل ہو گیا۔ راکٹ لانچر کے فائر سے دو پولیس گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ 
 اگرچہ سندھ میں جدید اور بھاری اسلح سازی کی کوئی فیکٹری نہیں۔ یہاں امن دشمن افراد کے پاس یہ بھاری اسلح کیسے پہنچتا ہے۔ جس کی وجہ سے امن دشمن افراد قانون کو یرغمال بنا ئے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو جواب کا تقاضا کرتا ہے۔ دراصل جرائم سندھ کے بھوتاروں کی معیشت بنے ہوئے ہیں۔ جرم تب پروان چڑھتا ہے جب اس کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی ہوتی ہے۔ سندھ میں جرائم جس سطح پر پہنچے ہوئے ہیں وہ کسی سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے، پولیس افسران کی تقرری اور تبادلے بھوتاروں کی مرضی سے ہوتی ہے۔ جو بھوتاروں کے پروٹوکول اور ان کی بادشاہی برقراار رکھنے میں مصروف رہتی ہے۔ جب ڈاکوﺅں اور امن دشمن افراد کے پاس راکٹ لانچر اور جدید اسلح ہو، پولیس کے پاس بھی جدید اسلح اور تیکنالاجی ہونی چاہئے۔ لیکن پولیس اس سازو سامان سے محروم ہے۔ پولیس کو سیاسی مداخلت نے بھی تباہ کیا ہے۔ جب تک یہ سیاسی مداخلت ختم نہیں ہوگی تب تک پولیس تمام تر دباﺅ سے آزاد ہو کر اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکے گی۔ 
 مسلح افراد کے خلاف پولیس کا یہ آپریشن ان لوگوں کو بازیاب کرانے کے لئے تھا جن کو زنانہ آواز میں ورغلا کر اغوا کیا گیا تھا۔ ان میں چار افراد ایک ماہ قبل کشمور سے اغوا ہوئے تھے۔ ان افراد کی ابزیابی کے لئے صوبائی وزیرداخلہ اور آئی جی سندھ پولیس بھی واضح ہدایات جاری کر چکے تھے۔ پولیس نے معاملے کو اتنا طول دیا کہ ورثاءنے تنگ آکر مقامی سطح پر پنچائتوں کے زریعے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی۔ پولیس نے معاملے کو اس وجہ سے بھی طول دیا کہ اغوا کاروں اور ورثاءکے درمیان ڈیل ہوتی ہے تو ان کا کام بھی سہل ہو جاتا ہے۔ وہ بااثر افراد جو یہ ڈیل کرانے میں مصروف ہیں ان کو گرفت میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جرم جن کی معیشت بنی ہوئی ہے۔ ان کی سرپرستی میں جرم پروان چڑھ رہے ہیں۔ پولیس کی صفوں میں کالی بھیڑون کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محکمہ پولیس کو ان بھیڑوں سے بھی صفا کرنا ضروری ہے۔ افسوس سندھ کے لوگوں کی ھالت پر ہوتا ہے جو اس حد تک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں کہ ایک زنانہ آواز پر لالچ میں آکر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن ایک مہنگا سودا ہوتا ہے لہٰذا اس کو پایہ تکمیل تک پنچانا ضروری ہوتا ہے۔ سندھ میں اسلح کی رسد کے تمام راستے بند ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جرم کی سرپرستی کرنے والی اشرافیہ اور ان کی مجرم سپاہ میں بھی ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ 
 سندھ میں حالیہ دونوں زراعت کے لئے کیا پینے کے لئے بھی پانی کی قلت ہے۔ پانی کی صورتحال پر تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ اخبارات کا خیال ہے کہ 1991 کے پانی کے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ اور یہ بھی شکایت ہے کہ ارسا میں سندھ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہے۔ 
 سندھ ارسا سے مایوس 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ پانی سے متعلق سینیٹ کی کمیٹی کے اجلاس
 کی بعض رپورٹس سامنے آئی ہیں اس کے بعض پہلو نہایت ہی اہم ہیں۔ اس اجلاس میں ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پنجاب 1991 کے پانی کے معاہدے پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔مزید یہ کہ ارسا خواہ چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے قائم کیا گیا ادارہ ہے لیکن اس ادارہ میں فیصلے ایک ہی صوبے یعنی پنجاب کی مرضی کے ہوتے ہیں۔ پانی کی حالیہ قلت کے دوران بھی ارسا نے پنجاب کے مفادات کے مطابق تقسیم کی۔ اس اجلاس کی تیسری اہم بات اس اہم ادارے میں موجود سندھ کے نمائندے اور حکومت سندھ کے کرادار سے متعلق ہے۔ صوبے کو حصے کا پانی ہر حال میں کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ اس مرتبہ پانی کی تقسیم 1991کے معاہدے کے بجائے سہ رخی فارمولے کے تحت کی جارہی ہے۔ یہ اعتراف خو د ارسا نے کیا۔ آج سندھ بھر میں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے تب پنجاب کے چشمہ جہلم لنک کینال اور ٹی پی کینالوں میں پانی دیا جارہا ہے۔ سندھ کا مطالبہ ہے کہ موجود ہ صورتحال میں ان کینالوں میں پانی نہ چھوڑا جائے اور منگلا ڈیم بھرنے کے بجائے سندھ میں پانی کی قلت ختم کی جائے ۔ ارسا ہمیشہ یہی کہتا رہا ہے کہ پیرا 2 کے تحت پانی کی تقسیم اس لئے نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ اس سے پنجاب کو نقصان ہے۔ اب جب سندھ کانقصان ہو رہا ہے، اس پر ارسا خاموش ہے اور معاہدے پر عمل کرانے سے گریزاں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ارسا سے پانی کی منصفانہ تقسیم کی توقع رکھنا فضول ہوگی۔ سندھ کو یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے گزشتہ اجلاس میں رکھناتھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو آج سندھ میں پانی کی یہ شدید قلت نہیں ہوتی۔ لوگ پینے کے پانی کے لئے پریشان ہیں۔ سندھ کو اپنے حصے کا پانی اتنی آسانی سے نہیں ملے گا، اس کے لئے قانونی، آئینی اور جدوجہد کے دوسرے طریقے اختیار کرنے ہوںگے۔ 

Tuesday, May 8, 2018

پانی اور باردانے کی سیاست

 پانی اور باردانے کی سیاست 
 سندھ نامہ   سندھی پریس
سہیل سانگی
باردانے پر سیاست
روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں فصلوں کی قیمت اور پانی کی تقسیم پر سیاست کرنا اب مشہور روایت بن گئی ہے۔ ہر اقتداری پارٹی زراعت سے وابستہ طبقے کو اپنے ساتھ منسلک رکھنے کے لئے ایک نسخہ ایجاد کیا ہے۔ ایک بڑی آبادی اس سے باہر نہیں نکل سکتی۔ کل ہی کی بات ہے کہ گنے کی قیمت پر رواں سال ایک بڑی سیاست ہوئی، کاشتکاروں کے ابھی تک تیس سے چالیس روپے فی من کے حساب سے رقومات شگر ملوں پر ادھار ہیں۔ کاشتکاروں کو گنے کی مناسب قیمت تو نہ مل سکی، لیکن اس کے بعد اترنے والی گندم کی فصل کا باردانہ نہیں مل سکا۔ سرکاری قیمت صرف ان لوگوں کو ملی جو اقتداری جماعت کے قریب تھے۔ باردانے پر سیاست کرنا اور اس کے ذریعے اپنے ووٹ بڑھانے کا مثالی ماڈل صرف سندھ میں ہی ملتا ہے۔ 
فصلوں کی قیمت کی یہ حالت ہے اور دوسری طرف پانی نہ ملنے کی وجہ سے کاشتکار اور کسان، بلکہ دیہی علاقوں میں بسنے والے عام لوگ بھی سڑکوں پر آگئے ہیں۔ کیونکہ نہروں کے آخری سرے والے علاقوں میں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ ایک ہی روز کے اخبارات میں بدین، نﺅں کوٹ، کلوئی، خیرپور کمبو، اور پتھورو کے کاشتکاروں اور عام لوگوں کے احتجاج کی خبریں شایع ہوئی ہیں۔ ضلع عمرکوٹ پتھورو کے علاقے میں پانی کی قلت نے یہ صورت اختیار کی ہے کہ مجبورا پتھورو شہر میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی۔ کھپرو کینال سے نکلنے والی کھاہی شاخ پتھورو سمیت اس کے گرد نواح ،یں گزشتہ اڑھائی ماہ سے پانی کا بحران ہے۔ تا حال کوئی بھی سرکاری افسر یا عہدیدار زندگی کے لئے لازمی عنصر پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے تحرک میں نہیں آیا ہے۔ عوام کے شدید ردعمل کے بعد، یہ ضرور ہوا ہے کہ لاڑ کے بیلٹ میں سیڈا نے منتخب نمائندوں سے اجلاس کر کے پانی کے بحران، آخری سرے تک پانی نہ پہنچنے، نارا کینال پر نصب غیر قانونی مشینوں، اور واٹر کورس ٹوٹنے کے معاملات پر غور کیا۔ سیڈا اور منتخب نمائندوں نے اس صورتحال پر غور کرنے کی زحمت کی۔ لیکن پانی کے لئے احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ شاخوں اور واٹر کورسوں پر رینجرز تعینات کر کے انہیں پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا اس سے سیڈا اور منتخب نمائندے آگاہ نہیں؟ اقتداری پارٹی کے اراکین اسمبلی اور وزراء مسئلے کی جڑ سے واقف نہیں کہ اب پرولی میں بات کی ارہی ہے۔ 
رواں موسم میں سب سے زیادہ پریشانی بدین اور ٹھٹہ کے بیلٹ کے لوگوں کو اٹھانی پڑتی ہے۔ کلوئی کی رن شاخ بھی آخری سرے پر ہے۔ جس میں پانی فراہم کرنے اور نہ کرنے کی ایک سیاسی تاریخ ہے۔ آج بھی رن شاخ میں پانی نہیں۔ پتھورو میں پانی نہ ملنے پر لوگوں نے شہر ند کردیا اور الٹیمیٹم دیا کہ اگر انہیں پانی کی فراہمی نہ کی گئی وہ غیر معینہ مدت تک احتجاج پر چلے جائیں گے۔ خیرپور گمبو کے کاشتکاروں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کرنے کی تاریخ رقم کی تھی۔ ملک کی اعلیٰ عدالت کے نوٹس لینے پر احتجاج ختم کیا گیا۔ کچھ روز کے لئے خیرپور گمبو، ملکانی شریف اور گرد نواح کے علاقوں میں پانی پہنچا۔ بعد میں موقعہ ملتے ہیں پانی کی فراہمی روکنے والوں اور پائے پانی پر اپنی زمینیں آباد کرنے والوں نے پانی بند کردیا۔ آج ان علاقوں میں کاشت کے لئے خواہ پینے کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں۔ اب لوگ سدرکار سے صرف زندہ رہنے جتنا پانی مانگ رہے ہیں۔ 
 سندھ میں محکمہ آبپاشی کی خراب انتظام کاری،پانی کی پیسوں کے عوض فروخت، پانی پر سیاست کے منفی رجحانات کی وجہ سے پانی کی غٰر منصفانہ تقسیم کا نظام دن بدن مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ شاخوں کے آخری سرے پر بسنے والے لوگ مجبورا نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی علاقے میں پانی نہ ہو، اور پھر بھی زندگی نظر آئے؟ 
بدامنی اور قبائلی جھگڑوں کی آگ
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ بدامنی اور قبائلی جھگڑوں کی آگ سے گزر تی رہی ہے۔ اب یہاں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جس کی وجہ ہر طرف کوگوں میں غم و غصے کی لہر چھائی ہوئی ہے، سوشل میڈیا سے لیکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک، زیادتی کا شکار ہونے والی بچیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی اپلیلیں کی جارہی ہیں۔ میرپورخاص، نصیرآباد، کھوڑا، سجاول میں زیادتیوں کے کیس سامنے آئے ہیں۔ جبکہ لاڑکانہ کی صائمہ جروار کیس میں ملوث ملزمان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کی جاسکی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ جب بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں چند روز کے شور غوغا کے بعد یہ واقعات دبا دیئے جاتے ہیں۔ اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ اس قسم کے مقدمات کی پیروی نہیں ہوتی، متاثرہ عورت یا بچی کے ورثاءپر دباﺅ ڈال کر مقدمے سے دستبردار ہونے یا کوئی مصلحت کا راستہ نکالا جاتا ہے۔ اس لئے ایسے مقدمات میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اب سندھ کے شہروں میں اس طرح کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور لوگ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کے ملزمان کو یقیننا قرار واعی سزا ملنی چاہئے۔ 
ان مقدمات میں ملزمان کا بچ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون ہر وقت انصاف کے منتظر متاثرہ فریق کی مطلوبہ مدد کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ یہ قانون کی کمزوری ہی کہلائے گی وہ بہتر انداز میں کام نہیں کر رہا، کسی مقامی بااثر شخصیت کے کہنے پر کیس اتنا کمزور بنایا جاتا ہے کہ لوگ مقدمے سے دستبردار ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اگرچہ زیادتی کے کیس میں کئی نفسیاتی معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ایک برائی ہے جس کو قانون کی مدد سے حل کرنا ضروری ہے۔ لوگ ازخود نوٹس لینے کے لئے چیف جسٹس سے اپیلیں کر رہے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاص طور پر پولیس جس کا کام ہی لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا اور عوام کی فریاد پر بلا سیاسی مداخلت کے کارروائی کرنا ہے، ایسے معاملات میں پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوگی، پھر کسی طور پر بھی عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی ناممکن ہو جائے گی۔ 
 اب صورتحال زیادہ خراب ہے۔ اس کے لئے زیادہ سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا کیوں انتظار کرتے ہیں کہ عدالت یا اعلیٰ حکومتی عہدیداران ایسے معاملات کا نوٹس لیں اس کے بعد یہ ادارے اور اہلکار حرکت میں آئیں؟