Saturday, July 14, 2018

فیصلہ پنجاب کو کرنا ہے


فیصلہ پنجاب کو کرنا ہے

سندھ نامہ سہیل سانگی

احتساب عدالت سے سزا کے فیصلے کے بعد نواز شریف کی وطن واپسی سیاسی حلقوں میں خواہ میڈیا میں سب سے زیادہ اور مقبول موضوع بن گیا ہے۔باقی تمام مسائل اور معاملات ’’غیر اہم‘‘ بن گئے ہیں۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی ایف آئی اور عدالت میں طلبی پر اتنے مضامین شایع نہیں ہوئے جتنے نواز شریف کی آمد اور اس کے ممکنہ اثرات پر ہوئے۔

 کیا ہوگا؟ مختلف پہلوؤں ، اور اثرات پر بحث کی جارہی ہے۔
نواز شریف کے بیانیے اور سیاست کے بارے میں سندھ کیا سوچتا ہے، اس کا اندازہ سندھی اخبارات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر اداریے، کالم، تجزیے شایع ہو رہے ہیں۔ اخبارات نے مختلف جماعتوں کے منشور اور عوام سے نئے وعدوں پر بھی تبصرے اور تنقید کے ساتھ ساتھ گزشتہ حکمتی میعاد میں بدترین کارکردگی پر جواب طلبی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ 
روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحبزادی کے ساتھ وطن لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف نیب کے اہلکار فکرمند ہیں کہ وہ انہیں ہر صورت میں گرفتار لرنا چاہتے ہیں دوسری طرف کارکنان ہیں جنہیں پارٹی قیادت نے اپنے لیڈر کا استقبال کرنے ایئرپورٹ پہنے کے لئے کہا ہے۔جس کے بعد خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ پولیس نے لیگی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ 
’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ میں عاجز جمالی لکھتے ہیں کہ نواز شریف کے روپ میں پنجاب بغاوت کے دروازے پر کھڑا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ضیاء الحق سے بغاوت کی اور جلاوطنی اختیار کی تھی۔وطن واپسی پر نہوں نے بھی لاہور کا انتخاب کیا تھا۔
بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ضیاء آمریت کے سیاہ دور کی پیداوار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بینظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھی جو بھگت سنگھ کا پیروکار تھا۔ نواز شریف ضیا ء الحق کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے تھے۔ لیکن یہ تین دہائی پرانی بات ہے۔ اب نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہم بالغ ہو گئے ہیں۔ اپنی مرضی پر چلیں گے۔ اگر پنجاب نے نواز شریف کا ساتھ دیا تو بڑی بغاوت ہو جائے گی۔ جس کی نواز شریف توقع رکھتے ہیں۔ 
بینظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ بھی پنجاب نے دیا تھا۔ آج نواز شریف اور عمران خان بھی خود کو پنجاب کا نمائندہ مانتے ہیں۔سچ یہی ہے کہ پنجاب کا مقابلہ پنجاب ہی کرسکتا ہے۔ آج اگر پنجاب کی اسٹبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے تو اس کا مقابلہ پنجاب کا عوام ہی کر سکتا ہے۔ اب پنجاب کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے پاس اب درست وقت آگیا ہے۔ اگر وہ پنجاب کے عوام کو جگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آمریت کے اتحادیوں کا کام اتار دیں گے۔ 
لاہور کی سرزمین اگر میدان جنگ بنتی ہے، اسٹبلشمنٹ کو پنجاب کے عوام سے لڑنا مشکل میں ڈال دے گا۔ اگر جمعہ کے روز کا مقابلہ مسلم لیگ جیت جاتی ہے تو اسے 25 جولائی کو ہروانا مشکل ہو جائے گا۔ جس طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں اس کے نیتجے میں’’ کنٹرولڈ پولنگ‘‘ ہوگی اور ڈر ہے کہ نتائج بھی ’’ انجنیئرڈ ‘‘ہوں۔اگر پولنگ ایجنٹ کو دیئے گئے اور حتمی نتائج میں فرق ہوا۔ ممکن ہے کہ ووٹرز خاموش بیٹھ جائیں لیکن نواز لیگ کے کارکن اس صورتحال پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ 
تصادم ہو یا نہ ہو، انتخاب کے نتائج متنازع بن جائیں گے۔ اس خطرے کے پیش نظر شفاف انتخابات کرانا، عوام کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حق دینا، نتائج کو انجنیئرڈ بنانے کے بجائے جیسے ہوں ویسے قبول کرنا ضروری ہے۔ 
تاریخ بتاتی ہے کہ عوام کی رائے کے سامنے تمام پیش گوئیاں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ 26 جولائی کا دن بہت افراد کے خواب چکنا چور کر دے۔ بہر حال اسکا تمام تر انحصار پنجاب پر ہے۔ ۔۔۔پنجاب کا فیصلہ جمہوریت کو مضبوط بھی کر سکتا ہے اور کمزور بھی۔ 
ارباب چانڈیو لکھتے ہیں نواز شریف اور ان کی نواز شریف جو مطالبات سے سے کوئی ذی شعور پاکستانی اختلاف نہیں کر سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کو چلنے دیا جائے،انتخابات صاف اور شفاف ہونے چاہئیں۔ منتخب حکومت کو خارجہ اور دفاعی پالیسی بنانے کا حق دیا جائے۔ یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ ان مطالبات پر عمل کس طرح سے ممکن ہے؟ پاکستان میں جمہوری آزادیاں کس طرح سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ تب ممکن ہو سکے گا جب جمہوری قوتیں جمہوری نظام کے لئے تمام اختلافات بھول کر متحد ہو جائیں اور کسی بھی غیر جمہوری قوت کو موقعہ نہ دیں کہ وہ جمہوریت کو پٹری سے اتار سکے۔ ممکن ہے کہ حکومتی اقدامات کارکنوں کو فقید المثال استقبال کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ لیگی کارکنان اور پنجاب کے عوام اس کا بدلہ 25 جولائی کو لے لیں گے۔ 
’’روزنامہ کاوش ‘‘ میں رابراہیم کمبھر لکھتے ہیں کہ نواز شریف سزا یافتہ ’’مجرم‘‘ ہے ریاست کو اپنی عملداری دکھانے کے لئے گرفتار کر کے جیل بھیجنا ہے۔ اگر یہ کام اتنا ہی آسان ہے تو پھر خوف کیوں چھایا ہوا ہے؟ نواز شریف کی گرفتاری کے لئے حکومت نے تمام انتظامات کئے، صوبائی نگراں حکومت نے ہدایات پر مکمل عمل درآمد رکانے کی یقین دہانی کرئی ہے۔ اس کے باوجود ہر ادارے اور وہاں بیٹھے ہوئے ہر شخص کے اندر سے خوف جھانک رہا ہے۔۔۔
نگراں حکومت غیر جانبدار ہوتی ہے، لیکن نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں میں رکاوتیں دیکھ کر جنرل مشرف کا دور یاد آرہا ہے۔ نواز شریف سعودی عرب سے جلاوطنی ختم کر کے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے والے تھے، تب دونوں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں کرفیو کا عالم تھا۔ ۔۔ اب جمہوریت کے ساتھ سیاست کو بھی کنٹرول کردیا ہے۔ ایسے میں مریم نواز کا جملہ ملین ڈالر کا ہے ’’ ملک کو آزاد کرانا ہے۔۔
نواز شریف کی آمد پر جن حلقوں کو خوف ہے وہ دراصل عوام کا خوف ہے۔ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے تو انہیں بھٹو سے ڈر لگتا تھا، پھر عوام جب بینظیر کے ساتھ کھڑے ہوئے تو ان سے بھی خوف لگتا تھا، اور اب عوام نواز شریف کے ساتھ ہیں تو انہیں نواز شریف کا خوف کھائے جارہا ہے۔
ایک اور خوف نواز شریف کے بیانیئے سے بھی ہے۔

https://www.naibaat.pk/13-Jul-2018/14565 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

Monday, July 9, 2018

سندھ: نگران حکومت کے نیم دلانہ اقدامات



سندھ نامہ سہیل سانگی 

انتخابی مہم اور ملک بھر میں سیاست حاوی ہو جانے کے بعد میڈیا میں بھی عام لوگوں کے مسائل کا بیانیہ نہیں ملتا۔مہنگائی، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ جیسے معاملات جن پر سیاسی حکومتوں کی نظر نہیں پڑتی تھی۔ لوگوں کو توقع تھی کہ نگراں حکومت اس طرح کے معاملات کو بہتر بنائے گی۔ اور ایک مثال چھوڑے گی کہ صرف بہتر انتظام کاری سے عوام کو بعض سہولیات بہم پنچائی جاسکتی ہیں۔ نگراں حکومت نے عید کے موقع پر ٹرانسپورٹ کے اضافی کرایوں پر تین روز تک آپریشن کیا۔ لیکن یہ کارروائی صرف عدیل سے پہلے تین روز تک جاری تھی۔ عید کی چھٹیوں کے بعد واپس آنے والوں سے پھر اضافی کرایے وصول ہوتے رہے۔ بلکہ عملا یہ دیکھنے میں آیا کہ بعد میں ایک ہفتے تک اضافی کرایے وصول ہوتے رہے۔ نگراں حکومت، اس کا محکمہ ٹرانسپورٹ ، موٹر وے پولیس سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال ہفتہ وار چھٹی کے روز اور ہفتے کے پہلے کام والے روز بھی نظر آتی ہے۔ ہر ہفتے ہزاروں لوگوں سے لاکھوں روپے کرایے کے نام پر بٹورے جاتے ہیں۔ 
ٹرانسپورٹ کی طرح سندھ کی نگراں حکومت نے آبپاشی پانی کی چوری کا بھی نوٹس لیا تھا۔ اور چوری میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں بھی زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ 
’’نگراں منتظمین خواب خرگوش سے کب بیدار ہونگے‘‘ کے عنوان سے’’ روز نامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ بارش نے پنجاب کے مختلف شہروں میں تباہی مچادی۔ نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا تاکہ قدرتی آفات کے موقع پر نہ صرف بعض پیشگی اقدامات کرے بلکہ بعد میں بھی زندگی کو معمول پر لانے مین اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ادارہ صوبائی سطح پر بھی موجود ہے۔ لیکن انتہائی ایمرجنسی کے اس ادارے کا کام بہت ہی کم نظر آیا۔ پنجاب کی بارشوں کے بعد امکان ہے کہ سندھ میں بھی آئندہ چند ہفتوں کے دوران بارشیں شروع ہو جائیں گی۔ لیکن دزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے اس جمن میں کام شروع نہیں کیا۔ 
سندھ میں جب بھی بارشیں ہوتی ہیں صوبائی دارلحکومت کراچی جھیل کا منظر پیش کرتا ہے۔ صوبے کے باقی شہروں کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہوتی۔ شہری اور میونسپل ادارے اپنی کارکردگی نہیں دکھاسکتے۔ اگرچہ ’’ رین ایمرجنسی‘‘ کا اعلان کردیا جاتا ہے لیکن ادارے اپنا کام نہیں کرتے۔ اداروں کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند گھنٹوں کی بارش کا پانی مہینوں تک کھڑا رھتا ہے۔ کراچی میں نالوں کی صفائی سمیت مختلف اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اسی طرح، صوبے کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشروں کی صدارت میں اجلاس ہو چکے ہیں۔ لیکن عملا کتنے اقدامات کئے گئے ہیں؟ معائنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 
سندھ میں دریائی اور نہروں کے پشتوں کی حالت خراب ہے۔ پشتوں کو کمزور کرنے کا الزام محکمہ آبپاشی کے افسراں چوہوں پر لگاتے ہیں ۔ ابھی بارش نہیں ہوئی، سندھ کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ نہروں کے آخری سرے تک پانی کا قطرہ بھی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض شاخوں میں شگاف پڑ رہے ہیں۔ جب بارش ہونے کی صورت میں نہریں پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر سکیں گی۔ آبپاشی افسران بھل صفائی کے پیسے کھا جاتے ہیں، نہروں کی سالانہ صفائی نہیں ہوتی۔ لہٰذا نہروں میں پانی کے بہاؤ کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ پی ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کی نااہلی حالات کو مزید سنگین بنادیتی ہے۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں بھی اس نااہل میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ چونکہ فراہمی و نکاسی آب کا انھصار بلارکاوٹ بجلی کی فراہمی سے ہے۔ لیکن یہ کمپنیاں آسمان پر بادل دیکھتے ہی بجلی کی فراہمی بند کر دیتی ہیں۔ لاہور میں بھی بارش کی وجہ سے لیسکو کے سینکڑوں فیڈر ٹرپ ہو گئے۔ سندھ میں حالت اور بھی خراب ہوتی ہے۔ 
سندھ میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کا نیٹ ورک انتہائی زبون ہے ۔ عام حالات میں بھی بجلی کی تار گرنے سے لوگ مرتے رھتے ہیں۔ 
ہم سندھ کے نگران منتظمین سے یہ کہنا چاہیں گے کہ بارشوں میں امکانی نقصانات سے بچنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ کراچی سمیت صوبے کے شہروں میں نالوں صفائی کی ہدایات پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟ اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میونسپل اداروں کو فعال کیا جائے، بجلی رسد کو یقینی بنانے کے لئے متعلقہ کمپنیوں کو چوکس کیا جائے۔ اور ان کے انفرا اسٹرکچر کی بہتری لائی جائے۔ بارش کے دوران بجلی کی عدم موجودگی کے پیش نظر جنریٹرز کا بندوبست کیا جائے تاکہ بارش کے پانی کی نکاسی کا کام رک نہ سکے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ ایک بار پھر عوام سے روزگار، غربت مٹانے، بہتر تعلیم اور خوشحالی کے وعدے کئے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے پاس پہلے یہ عذر لنگ ہوتا تھا کہ اسمبلیاں مدت مکمل نہیں کر سکیں، انہیں کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا لہٰذا مسائل حل ہو نہ سکے۔اس صورتحال میں اقتدار سے برطرف کی گئی جماعت ایک بار پھر عوام میں ہمدردی حاصل کرلیتی تھی۔
لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ دو اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی ہے۔ اور حکمران جماعتیں عوام سے رجوع کر رہی ہیں۔ حکمران جماعتوں کے امیدواروں کی جواب طلبی ہو رہی ہے۔ اب عوام آسانی سے ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔عوام کے اس عدم اعتماد کی کیا وجہ ہے؟ اقتداری جماعتوں کو اس کا جواب خود سے پوچھنا چاہئے۔ 
روز نامہ عبرت لکھتا ہے انتخابات کو شرپسندی سے بچانے کے لئے مطلوبہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اخبار خاص طور پر بلاول بھٹو کے لیاری کے جلسے پر پتھراؤ کا دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ملک کے اہل فکر و دانش اس پر پریشان ہیں۔ ان ککہنا ہے کہ یہ احتجاج نہیں تخریب کاری ہے۔ جس کے جمہوریت پر مضر رثرات مرتب ہونگے۔ اصولی طور پر ووٹر کا حق ہے کہ وہ امیدوار سے شکوہ کرے، کارکردگی کے بارے میں پوچھ سکے۔ بلکہ اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرا سکتا ہے۔ پتھراؤ یا گالم گلوچ سیاسی کارکن یا باشعور ووٹر کو زیب نہیں دیتا۔ عوام اگر کسی سیاسی پارٹی سے بیزار ہیں اور اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے وہ ووٹ کے ذریعے اپنا اظہار کرے اور فیصلہ سنائے۔


https://www.naibaat.pk/06-Jul-2018/14344

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/60923/Sohail-Sangi/Sindh-Nigran-Hukumat-Ke-Neem-Dilaana-Iqdamat.aspx

http://insightpk.com/urducolumn/nai-baat/sohail-sangi/sindh-nigran-hukumat-ke-neem-dilaana-iqdamat 

Sunday, July 1, 2018

سندھ میں حکمرانوں سے جواب طلبی


سندھ میں حکمرانوں سے جواب طلبی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
سندھ میں خراب حکمرانی اور لوگوں کو ڈلیور نہ کرنے کی جواب طلبی ہورہی ہے۔ ایک جواب طلبی عدالتیں کر رہی ہیں، دوسری ووٹرز حکمران جماعت کے امیدواروں سے انتخابی مہم کے دوران کر رہے ہیں۔اس عمل کے دوران تکلیف دہ معلومات کے ساتھ بعض انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں۔ صوبے کی صورتحال خراب انتظام کاری، لوگوں کی تکالیف سے لاتعلقی، وسائل کی لوٹ مار سے عبارت ہے۔
’’لاڑکانہ ہسپتال کی: خراب کارکردگی کا ماڈل ‘‘ کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش ‘‘لکھتا ہے کہ سندھ کی عام سرکاری ہسپتالوں کی خراب کارکردگی کی رپورٹس شایع ہوتی رھتی ہیں، اور یہ عام سی ہو گئی ہے۔ لیکن ٹیچنگ ہسپتال جن کا انتظام سندھ حکومت اور متعلقہ یونیورسٹیوں کے پاس ہے ، ان کا حشر ملک کے چیف جسٹس اپنی آنکھوں سے دیکھ کر گئے ہیں۔ محکمہ صحت میں بے رحم افسران بیٹھے ہیں، لیکن یونیورسٹیوں میں بیٹھے ہوئے پروفیسر صاحبان کے دل کس نے پتھر کردیئے؟ چیف جسٹس لاڑکانہ کی چانڈکا ہسپتال کا دورہ کر کے گئے ہیں، اگر وہ حیدرآباد سول ہسپتال اور لیاقت یونیورسٹی ہسپتال کا دورہ کرتے ، وہاں بھی انہیں تھوڑے فرق کے ساتھ وہی صورتحال ملتی ۔
میڈیا مسلسل انتظامیہ کی توجہ عوام کی شکایات کی طرف دلاتا رہا ہے لیکن صحت کے ان اداروں کی توجہ کسی اور طرف ہونے کی وجہ سے عوامی شکایات میں کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔ چانڈکا ہسپتال میں ایکس رے مشینوں کے کمروں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ پیتھالاجی لیبارٹریز سے لیکر باتھ رومز تک ہسپتال کی خراب حالت دیکھ کر چیف جسٹس نے میڈیکل سپرنٹیڈنٹ کو سرزنش کی۔ مریضوں نے بھی چیف جسٹس سے ادویات نہ ملنے کی شکایت کی۔ 
چیف جسٹس کے دورے کی اطلاع پر انتظامیہ نے ایک روز کے لئے معاملات کچھ ٹھیک کئے ہونگے۔ اس خاص روز ہسپتال کی اگر یہ حالت تھی تو عام دنوں میں اس کی کیا حالت ہوگی؟ چانڈکا ہسپتال تو ایک مثال بنی ہے۔ سب کے تمام ہسپتال تقریبا یہی منظر پیش کرتے ہیں۔ لاڑکانہ، سکھر، حیدرآباد اور جامشورو ہسپتالوں کے نام خواہ کچھ اور ہیں لیکن بدانتظامی کا ماڈل ایک ہی ہے ۔ ٹیچنگ ہسپتالوں میں خراب کارکردگی کا بوجھ حکومت سندھ کے ڈاکٹرز یہ کہہ کر خود پر سے اتار دیتے ہیں کہ وہاں یونیورسٹی انتظامیہ کی مرضی چلتی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ ڈاکٹرز اور عملہ سندھ حکومت کا ہے۔ ان پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ یہ باتیں سن کر مریض اور ان لے لواحقین پریشان ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے چیف جسٹس کو بھی یہی بہانہ سننے کو ملا ہو۔ 
اصلاح احوال کے لئے یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر صاحبان سے لیکر حکومت سندھ کے ڈاکٹرز تک کسی کو بھی ٹیچنگ ہسپتالوں کی فکر نہیں۔ خراب طرز انتظام جاری رکھنے کے لئے ان کے پاس درجنوں عذر لنگ ہیں۔ دیہات سے علاج کے لئے آنے والے غریب اور بے رسا مریضوں اور ان کے لواحقین کو ڈاکٹرز اور عملے کی ڈانٹ اور بدتمیزی انہیں مزید بیمار کر دیتی ہے۔ سندھ کے سرکاری ہپتالوں سے اگر کسی صحتمند کا بھی گزر ہو تا ہے، تو وہ بھی آلودہ ماحول کی وجہ سے کسی نے کسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لاڑکانہ کی شیخ زید وومین ہسپتال میں بھی چیف جسٹس کو وہی صورتحال نظر آئی۔ یہ حالات دیکھ کر وہ کہہ بیٹھے کہ اگر شہید بھٹو کے شہر کی ہسپتالوں کی اتنی خراب صورتحال ہے ، باقی سندھ کے شہروں کی کیا حالت ہوگی؟ سندھ حکومت گزشتہ دو ادوار کے دوران کم از کم لاڑکانہ کی ہسپتالوں کو مثالیی بنا سکتی تھی۔ 
لاڑکانہ کی ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانا یقیننا یونیورسٹی انتظامیہ، ان کے ڈاکٹرز، عملے اور شہر کے لوگوں کا کام ہے۔ لیکن کچھ کردار ان کا بھی ہے جو لاڑکانہ کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ اگر لاڑکانہ ہی خراب حکمرانی اور خراب انتظام کاری کا ماڈل بنا ہوا ہے پھر شکوہ کس بات کا؟ 
’’پانی کے وسائل کو زہریلا کرنے والوں سے جواب طلبی کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے ’’روزنامہ سندھ ایکسپریس ‘‘لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے منچھر جھیل میں آلودگی کا از خود نوٹس لینے کی سماعت کے دوران عدالت نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ سندھ کی بے بسی کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں۔
عدالت کے ریمارکس تھے کہ سندھ میں لوگ ایک ریوڑ کی طرح ہیں جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ بیس برس سے منصوبے چل رہے ہیں مگر تاحال لوگ کو صاف پانی کے قطرے سے بھی محروم ہیں۔اربوں روپے کا خرچ دکھانے کے باوجود سندھ کے لوگوں کو زہر پلایا جارہا ہے۔ کتنی رقم کہاں خرچ ہوئی،؟ گزشتہ آٹھ سال سے یہ کیس چل رہا ہے۔ مگر اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ عدالت کے مطابق اگر حساب کیا جائے، کہیں بھی ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں ہوا ہے۔ سندھ کے ادارے چاہتے ہیں کہ یونہی لوگ مرتے رہیں۔ 
یہاں یہ مار قابل ذکر ہے کہ عدالت کی جانب سے جواب طلبی پر محکمہ آبپاشی کا وہی گھسا پٹا جواب تھا جو وہ اس سے پہلے کی سماعتوں کے دوران دیتے رہے ہیں، کہ منچھر کو صاف کیا جارہا ہے۔ منچھر کو تکنا صاف کیا گیا ہے اور بحال کیا گیا ہے؟ اس کا اندازہ منچھر کا دورہ کرنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مشہور سندھ کی یہ جھیل زہریلے پانی کا ذخیرہ بنی ہوئی ہے۔ اس سے منسلک تاریخ ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ لیکن صوبائی سیکریٹری آبپاشی عدالت کو یہ بتا رہا ہے کہ کام جاری ہے۔ 
منچھر تو ایک حوالہ ہے۔ یہ تمام سندھ کے اجڑنے کا معاملہ ہے۔ یہاں حکومتی ادارے عام لوگوں سے بالکل اس طرح لاتعلق بنے ہوئے ہیں جس طرح عدالت نے بیان کیا ہے۔ سندھ کی کونسی جھیل ہے جو آلودہ نہیں؟ جھیلوں کو چھوڑیئے، سندھ کے شہروں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے منصوبوں کا جو حال ہے، واٹر کمیشن نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ کسی معاشرے میں اداروں کی اتنی مجرمانہ غفلت ہو سکتی ہے؟ سندھ بھر کے لوگوں کو زہر پلانے والے ان اداروں کی جواب طلبی کون کرے؟ جو حکمران آتے اور جاتے رھے ہیں، ان کی ترجیحات ذاتی جاگیریں بنانا ہے ، نتیجے میں سندھ کی انتظام کاری کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ اب سورتحال یہ ہے کہ سندھ کی جھیلیں ہوں یا اور پانی کے ذخائر سب اجڑ چکے ہیں۔ 
ہمارا المیہ ہے کہ ادارے افراد کے محتاج رھے ہیں۔ یہ ایک دو افراد کی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں، یہ کروڑہا لوگوں کی صحت ، زندگی ، وسائل کی بحالی اور آئندہ نسلوں کا سوال ہے 
اس کوتاہی کے خلاف سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کا تعین ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ یہ ارب ہا روپے جو کاغذوں میں خرچ شدہ دکھائے گئے ہیں ان ثبوت طلب نہیں کیا جائے گا تب تک لوٹ مار جاری رہے گی اور مسائل مزید پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔

https://www.naibaat.pk/29-Jun-2018/14119
 
http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/60652/Sohail-Sangi/Sindh-Mein-Hukmarno-Se-Jawab-Talbi.aspx


http://politics92.com/singlecolumn/60652/Sohail-Sangi/Sindh-Mein-Hukmarno-Se-Jawab-Talbi.aspx

http://insightpk.com/urducolumn/nai-baat/sohail-sangi/sindh-mein-hukmarno-se-jawab-talbi

http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-jun-30-2018-171589

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/sindh-mein-hukmarno-se-jawab-talbi-4935.html